’مفكر ِقرآن‘ بمقابلہ ’مصورِ پاكستان‘
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ مسلمانانِ برصغیر كى عظیم فكرى شخصیت ہیں اور آپ نے شاعرى كے ذریعے مسلم اُمہ میں بیدارى كى لہر پیدا كى- اثرآفرینى اور ملى افكار كى بدولت آپ كى شاعرى ممتاز حیثیت كى حامل ہے-لیكن ان غیر معمولى خصائص كا یہ مطلب نہیں كہ آپ كے جملہ افكار اور شاعرى كو مقامِ عصمت اور تقدس حاصل ہے- ایك انسان ہونے كے ناطے اس میں بعض پہلووں سے اختلاف بهى كیا جاسكتا ہے، خود آپ كے افكار میں بهى ارتقا كا عمل جارى رہا جس كے اثرات آپ كى شاعرى میں بهى جهلكتے ہیں -
زیر نظر مقالہ میں بعض موضوعات كے حوالے سے شاعر مشرق علامہ اقبال اور منكر حدیث غلام احمد پرویز كے افكار ونظریات كا ایك تقابل پیش كیا جارہا ہے جس سے یہ واضح كرنا مقصود ہے كہ پرویز نے محض اپنے مقاصد كیلئے علامہ اقبال كا نامِ نامى استعمال كیا ہے- آپ كے نام كو استعمال كرنے كى وجہ سے ایسا ہرگز نہ سمجها جائے كہ علامہ اقبال بهى ایسے ہى خیالات ركهتے تهے اور نہ ہى یہ كہ پرویز كے ملحدانہ نظریات كو علامہ كى كوئى تائید حاصل ہے- اس مقصد كے لئے متعدد مثالوں كو پیش كرتے ہوئے دونوں كے اقتباسات كى نشاندہى پر ہى اكتفا كیا گیا ہے، جبكہ نفس مسئلہ كے بارے میں مقالہ كى طوالت كے پیش نظر اپنے تبصرہ یا ان پر محاكمہ سے گریز كیا گیا ہے-اس مضمون كى پہلى قسط اپریل 2006ء میں شائع ہوئى جس میں ٦ مختلف اُمور پر پرویز اور علامہ اقبا ل كے درمیان فكرى تضادات كى نشاندہى كى گئى تهى- درمیان میں طلوعِ اسلام كے جوابات پر مبنى دو مضامین شائع ہوجانے سے زیر نظر مضمون میں انقطاع پیدا ہوگیا- دوسرى اور آخرى قسط اب ملاحظہ فرمائیے-
ساتواں اختلاف ’تصوف‘ كى بابت
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور پرویز صاحب كے مابین جن اُمور میں اختلاف تها، ان میں ایك امر تصوف كا معاملہ بهى تها- اوّل الذكر تصوف كے قائل تهے جبكہ موٴخر الذكر اس كے سخت خلاف تهے- تصوف كیا ہے؟ اس كى حقیقت كیا ہے؟ اس كا مقصد كیا ہے؟ انسانى زندگى پر اس كے اثرات كیا ہیں ؟ ان تمام اُمور سے قطع نظر كرتے ہوئے، یہاں صرف یہ عرض كرنا مقصود ہے كہ تصوف سے علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كى دلچسپى اور ان كے متصوفانہ اشعار و اعمال كا ذكر، جب كیا جاتا ہے تو اس كى تردید میں پرویز صاحب یہ كہا كرتے تهے كہ
”اقبال كى طرف منسوب ان قصوں كا جواب یہ ہے كہ یہ اس زمانے یا ان لمحات كى باتیں ہیں جب قرآنى حقائق سے وہ متعارف نہیں ہو ئے تهے، یا وہ ان كى نگاہوں سے اوجہل ہوگئے تهے-“ 1
چكمہ بازى اور مغالطہ آرائى میں … بلكہ اس سے بهى آگے بڑھ كر … فریب كارى اور دهوكہ دہى میں ’مفكر قرآن‘ جناب چوہدرى غلام احمد پرویز صاحب كا ایسا بلند مقام تها كہ كوئى بڑے سے بڑا فریب كار بهى ان كى گرد كو بهى نہیں پہنچ سكتا تها- یہاں اُنہوں نے عوام الناس كى آنكهوں میں دهول جهونكنے كے لئے اُدہورى بات پیش كى ہے، اور اسى بنا پر اپنے اس مفروضہ كو حقیقت كا جامہ پہنا كر پیش كیا ہے كہ تصوف اور قرآن گویا بنیادى طور پر ایك دوسرے كے خلاف اور باہم د گر نقیض و متضاد ہیں ، حالانكہ اپنے مقصودِ اصلى اور غایت اولىٰ كے اعتبار سے، اور زہد وتقوىٰ كے مفہوم میں ’تصوف‘ قرآن كا مقصود و مطلوب ہے- تصوف آخر اس كے سوا كیا ہے كہ وہ پاكیزگى نفس ، تطہیر قلب، رجوع الىٰ اللہ اور اخلاص فى العمل كا نام ہے، خود طلوعِ اسلام میں پرویز صاحب ہى كے قلم سے، انہى اُمور كو ’تصوف‘ كہا گیا ہے :
”اعمال میں اخلاص كا ہونا ضرورى ہے، اخلاص نہ ہو تو پهر اعمال یا محض ریاكارى ہوجاتے ہیں یا مشینى عمل كہ جس میں حركت تو ہوتى ہے لیكن روح مفقود- جب عوام میں كچھ ظاہردارى آنے لگى تو حقیقت بیں نگاہوں نے اخلاص پر زور دیا، اور اعمال كے اصل مقصد یعنى تزكیہٴ نفس، صفائى قلب، اِنابت الىٰ اللہ اور خشیت ِبارى تعالىٰ كى طرف توجہ دلائى،یہ سمجهئے تصوف كى اصل-“ 2
اب اگر تصوف كى اصل یہى ہے توپهر نہ تو یہ قرآن سے كوئى الگ اور جداگانہ چیز ہے، اور نہ ہى اسلام سے كوئى متناقض یا متصادم تصور- قرونِ اولىٰ میں فى الواقعہ یہ تصوف موجود تها، مگر یه نام موجود نہ تها، آج یہ نام موجود ہے، لیكن وہ حقیقى تصوف موجود نہیں ہے- لاریب اصل اور حقیقى تصوف میں آج كچھ ایسے اُمور بهى شامل ہوچكے ہیں جو قرآن و سنت سے بیگانہ ہیں -
بہرحال ’مفكر قرآن‘ نے تصوف كے معاملہ میں پہلا مغالطہ تو یہ دیا ہے كہ اسے قرآن كے نقیض كے طور پر پیش كیا ہے، اور یہ كچھ اُنہوں نے پورى كى بجائے، اُدہورى بات پیش كرتے ہوئے كیا ہے، اور دوسرا مغالطہ یہ دیا ہے كہ اقبال رحمة اللہ علیہ كے متصوفانہ اُمورو واقعات كو اُن كے ’قرآنى حقائق سے متعارف‘ ہونے كے دور سے قبل كے واقعات قرار دیا ہے اور ساتھ ہى یہ تاثر دیا ہے كہ ان كى زندگى كا آخرى دور چونكہ’قرآنى حقائق سے متعارف‘ ہونے كا دور تها، اس لئے ان كے اس دورِ سابق كے خیالات سند نہیں ہوسكتے جس میں قرآنى حقائق سے وہ ’جاہل و بے خبر‘ تهے، چنانچہ وه لكھتے ہیں :
”انكى اوّلین تحریروں كو ان كے خیالات كى ترجمانى كیلئے بطورِ سند پیش نہیں كرنا چاہئے-“ 3
یاد ركهئے كہ اس معاملہ میں پورى حقیقت یہ ہے كہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ (بقول طلوعِ اسلام) آخرى عمر میں پهر اسى تصوف كى طرف لوٹ گئے تهے جو علما كے ہاں بهى اور خود پرویز صاحب كے ہاں بهى اسلام كا مقصود ومطلوب تها-(i) لیكن پرویز صاحب چونكہ اب خود تصوف كے خلاف ہوچكے تهے، اس لئے وہ یہ اُدہورى حقیقت تو پیش كرتے ہیں كہ اقبال رحمة اللہ علیہ ’قرآنى حقائق سے متعارف‘ ہونے كے بعد تصوف كے قائل نہیں رہے تهے، لہٰذا ان كے سابقہ دور كے خیالات كو بطورِ سند پیش نہ كیا جائے- لیكن وہ یہاں اس حقیقت كو پردہٴ اخفا میں ركهتے ہیں كہ وہ اپنى زندگى كے آخرى دور میں پهر تصوف كے قائل ہوگئے تهے، اور یہ الفاظ كہ …’ ’اقبال كے دورِ سابق كے خیالات كو بطورِ سند پیش نہیں كرنا چاہئے-“… خود ’مفكر ِقرآن‘ ہى كے سامنے ایك ایسا آئینہ پیش كردیتے ہیں جس میں اُنہیں دوبارہ اپنا چہرہ دیكهنا چاہئے، لیكن چونكہ وہ یہ آئینہ دیكهنا نہیں چاہتے، اسلئے وہ خود تو علامہ كے دورِ ماضى كے خیالات كو پیش كرنے میں كوئى مضائقہ نہیں سمجهتے لیكن دوسروں كو وہ یہى حكم دیتے ہیں كہ وہ ایسا نہ كریں ، اوروں كو نصیحت خود میاں فضیحت!
رہا ’مفكر قرآن‘ صاحب كى طرف سے نظر انداز شدہ حقیقت كا یہ حصہ كہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اپنے آخرى دور ِ زندگى میں پهر تصوف كے قائل ہوگئے تهے تو اس كا ثبوت بهى طلوعِ اسلام ہى كى فائل سے پیش كیا جارہا ہے تاكہ’مفكر قرآن‘ كى دهوكہ دہى اور فریب كارى طشت ازبام ہوجائے:
”یاد رہے كہ تصوف كے متعلق اقبال كے نظریات ہمیشہ ہى متنازعہ رہے ہیں ، كسى زمانہ میں وہ تصوف كے دل دادہ تهے، پهر ایك زمانہ آیا كہ وہ اس كو مسلمانوں كے زوال كا سبب سمجهنے لگے، اس زمانے میں اُنہوں نے ’تصوف؛ شعبدہ بازیوں كى كمند‘ جیسا مضمون تحریر كیا، اس كے علاوہ وہ تصوف كو اسلام كى سرزمین میں اجنبى پودا بهى كہا كرتے تهے، اور اس كے بعد عمر كے آخرى حصے میں پهر اسى طرف آگئے-“ 4
اب رہا یہ سوال كہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كس تصوف كو مسلمانوں كے زوال كا سبب سمجهتے تهے اور كس تصوف كے وہ عمر بهر دلدادہ رہے، اور كس تصو ف كو وہ سرزمین اسلام میں عملى پودا قرار دیتے تهے تو اس پر میں پرویز كے پورے لٹریچر كى روشنى میں كبهى تفصیلى مقالہ لكهوں گا- ان شاء اللہ
آٹهواں اختلاف بسلسلہٴ ’خلافت ِالٰہیہ‘
مصورِ پاكستان علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور ’مفكر ِقرآن‘ پرویز صاحب كے درمیان دوسرا اختلافى مسئلہ انسان كا خلیفة اللہ ہونا ہے- پرویز صاحب اس كے قائل نہیں ہیں جبكہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ حضرت انسان كى نیابت ِالٰہیہ كے قائل ہیں - ان كا یہ موقف مندرجہ ذیل اشعار میں مذكور ہے :
” دنیا میں اللہ تعالىٰ كا نائب ہونا اور عناصر فطرت پر حكمرانى كرنا كیا خوب ہے“ 6
” نائب حق، اس كائنات كى جان كى مانند ہے اور اس كا وجود اسم اعظم كا سایہ ہے-“ 8
لیكن پرویز صاحب نہ تو خلافت ِالٰہیہ كے قائل ہیں اور نہ ہى انسان كو خلیفة اللہ مانتے ہیں - ان كے نزدیك یہ تصور ہى غیر قرآنى ہے، چنانچہ وہ لكھتے ہیں :
1 اصل یہ ہے كہ اس قسم كے باطل تصورات كا بنیادى سبب وہ عقیدہ ہے جو ہمارے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے كہ خدا نے انسان كو اپنا خلیفہ بنایا ہے- یہ عقیدہ قرآنى تعلیم كے یكسر خلاف ہے- 9
2 یہ جو ہمارے ہاں عام طور پركہا جاتا ہے كہ خدا نے آدم كو اپنا خلیفہ بنایا تو یہ تصور غیر قرآنى ہے- قرآن میں كہیں نہیں آیا كہ خدا نے آد م كو اپنا خلیفہ بنایا ہے، یہ عیسائیت كا تصور ہے- 10
3 ہمارے ہاں ایك غلط تصو ریہ بهى رائج ہے كہ انسان دنیا میں خدا كا خلیفہ ہے (خلیفة الله في الأرض) یہ تصور بهى قرآن كے خلاف ہے- 11
انسان كا خلیفة اللہ ہونا ، وہ موقف ہے جو پرویز صاحب كے نزدیك قطعى خلافِ قرآن ہے جبكہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اسے ایك اسلامى حقیقت قرار دیتے ہیں -بہرحال اس بارے میں صحیح شرعى نقطہ نظر كیا ہے؟ چونكہ یہ ایك مستقل موضوع ہے، اس لئے محض علامہ اقبال اور پرویز میں اس فكرى تضاد كى نشاندہى پر اكتفا كیا جاتا ہے-
نواں اختلاف بسلسلہٴ تقلید
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور پرویز صاحب كے درمیان واقع اختلافى مسائل میں سے ایك مسئلہ تقلید كا مسئلہ بهى ہے- تقلید كى شرعى حیثیت سے قطع نظر كرتے ہوئے ایك تاریخى حقیقت كے طور پر اگر اس مسئلہ كا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے كہ پرویز صاحب تقلید كے خلاف ہیں ، جبكہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اس دورِ پُرفتن میں تقلید ِاسلاف پر زور دیتے ہیں - چنانچہ وہ اس عنوان كے تحت كہ’درمعنى ٴایں كہ در زمانہٴ انحطاط ’تقلید از اجتہاد اولىٰ تراست‘ فرماتے ہیں :
”موجودہ دور اپنے اندر بہت سے فتنے ركهتا ہے، اس كى بے باك طبیعت سراپا آفت ہے- عہد ِحاضر نے گذشتہ اقوام كى بزم كو برہم كردیا اور زندگى كى شاخوں كو نمى سے محروم كردیا- دورِ جدید كے جلوؤں نے اپنا آپ بہلا دیا ہے، اور ہمارے سازِ زندگى كو نغمہ سے محروم كردیا- اس نے ہمارے دل سے عشق كى قدیم آگ چهین لى ہے اور ہمارے سینوں سے لا الٰہ كا نور ونار نكال دیا ہے- جب زندگى كى ساخت كمزور پڑ جاتى ہے تو اس وقت قوم تقلید ہى سے استحكام پاتى ہے-اپنے آبا كے راستے پر چل كر اسى میں جمعیت ہے- تقلید كا مطلب ملت كو ایك ضبط كے تحت لانا ہے- 13
قدرے اور آگے چل كر وہ فرماتے ہیں :
” اے مسلمان! تیرى قدیم محفل پریشان ہوچكى، اور تیرے سینے میں شمع زندگى بجھ گئى-
اپنے دل پر دوبارہ نقش توحید كندہ كر، اور تقلید ِاسلاف سے چارہ سازى كر-
انحطاط كے زمانہ میں اجتہاد قوم كا شیرازہ بكهیر دیتا اور اس كى بساط لپیٹ دیتا ہے-
كوتاہ نظر عالموں كے اجتہاد سے، اسلاف كى پیروى زیادہ محفوظ راستہ ہے-“ 15
لیكن پرویز صاحب تقلید كى زبردست مخالفت كرتے ہوئے اسے اللہ كے حضور ناقابل قبول عمل بلكہ ناقابل معافى جرم قرار دیتے ہیں اور روشِ تقلید كو دخول جہنم كا سبب گردانتے ہیں ، چنانچہ وہ بڑى بلند آہنگى كے ساتھ یہ كہتے ہیں :
”یقینا اللہ تعالىٰ نے تقلید كو حرام قرار دے كر نیز كتاب اللہ میں یہ تصریح فرما كر كہ اللہ تعالىٰ تقلید كو قبول نہیں كرے گا، نہ آخرت میں مقلد كو معذور اور قابل معافى سمجهے گا، بالواسطہ ہر ایك كے لئے خود اعتقادى كے ساتھ دین كا استدلالى علم سیكهنا فرض قرار دیا ہے-“ 16
”قرآن كے نزدیك عقل و فكر سے كام نہ لینا اور دوسروں كى اندہى تقلید كئے جانا، ایسى روش ہے جو اَفراد اور اَقوام دونوں كو جہنم میں جاگراتى ہے-“ 17
’مفكر ِقرآن‘ جناب پرویز صاحب كے ان اقتباسات كى روشنى میں مصورِ پاكستان جناب علامہ ا قبال رحمة اللہ علیہ كا دنیا و آخرت میں جو مقام قرار پاتا ہے، وہ واضح ہے لیكن چونكہ كلامِ اقبال رحمة اللہ علیہ كے ’شارح‘ اور فكر ِاقبال رحمة اللہ علیہ كے ’وارث‘ ہونے كى حیثیت سے، اُنہیں یہ گوارا نہیں كہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ واصل جہنم ہوں ، اس لئے وہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كے نظریہٴ تقلید كى بابت یہ توجیہ كرتے ہیں :
”اقبال حامل وحى نہ تهے كہ اُنہیں كسى مسئلہ میں غلطى نہ لگتى- اُنہوں نے یہ كچھ اپنى فكر كے ابتدائى ایام میں كہا تها، لیكن جب (بعد میں ) ان كى فكر میں پختگى اور مطالعہ میں مزید وسعت اور گہرائى پیدا ہوئى تو اُنہوں نے خود ہى اس رائے كو بدل دیا-“ 18
یہ توجیہ اگردرست بہى ہو، تب بهى یہ سوال اپنى جگہ قائم رہتا ہے كہ پرویز صاحب نے علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كى بدلى ہوئى رائے كے مطابق كیا واقعى ترك ِتقلید كا مسلك اپنا لیا تها؟ جبكہ ہم خود دیكهتے ہیں كہ پرویز اپنے آخرى سانس تك مقلد بنے رہے ہیں اور انتہائى جامد قسم كى تقلید پر قائم رہے ہیں ، اندہے كى لاٹهى كے سہارے روشِ تقلید پر گامزن رہے ہیں - زندگى كے كسى مرحلے میں بهى، وہ تقلید كے بندہن سے آزاد نہیں ہوئے- یہ الگ بات ہے كہ ُانہوں نے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ ، امام شافعى رحمة اللہ علیہ ، اما م مالك رحمة اللہ علیہ یا امام احمد رحمة اللہ علیہ بن حنبل كى تقلید كى بجائے ’امام‘ ڈارون، ’امام‘ ماركس، ’امام‘ رینان اور ’امام‘ ان ون وغیرہ كى تقلید كى ہے- سوال یہ ہے كہ نفس تقلید اگر واقعى كوئى معیوب چیز ہے تو خواہ یہ قدیم كى ہو یا جدید كى ہر نوع كى تقلید معیوب ہے لیكن ’مفكر ِقرآن‘ صاحب تهے كہ وہ تقلید كو دو قسموں میں تقسیم كركے ایك قسم كى تقلید كى زبردست مخالفت كیا كرتے تهے اور دوسرى قسم كى تقلید كو جامد انداز میں اپنائے ہوئے تهے- اسلاف ِصالحین كى پیروى و اطاعت كا معاملہ ہو تو وہ ایك لمبى آہ سرد بهر كر، آنكھوں میں آنسو لاتے ہوئے یہ كہا كرتے تهے كہ ع آہ! محكومى و تقلید و سوال تحقیق
لیكن ائمہ مغرب كى تقلید كا معاملہ ہو تو ان كے ’دل كى پوشیدہ بے تابیاں ‘ اور’دیدہ تركى بے خوابیاں ‘ ان كے ’نالہ نیم شب كا نیاز‘ اور ان كے ’خلوت و انجمن كا گداز‘ اسے ’وقت كا تقاضا‘ قرار دے كر سند ِجواز بخش دیتا تها- حالانكہ اقبال رحمة اللہ علیہ اپنى زندگى كے آخرى لمحے تك ’تقلید ِمغرب‘ كى مخالفت كرتے رہے ہیں - اور یہ كسى ماں كے لعل كے بس كا روگ نہیں ہے كہ وہ تقلید ِجامد كے حق میں كوئى ایسى توجیہ پیش كرسكے جیسى پرویز صاحب نے تقلید ِقدیم كى مخالفت میں كى ہے جبكہ امر واقعہ یہ ہے كہ ڈارون، ماركس اور دیگر ائمہ مغرب كى تقلید سے ہزاروں نہیں بلكہ لاكهوں مرتبہ یہ بہتر ہے كہ مسلم فقہا میں سے كسى كى اتباع كى جائے، لیكن پرویز صاحب نام كے’غلام احمد‘ تهے، كام كے ’غلام احمد‘ نہ تهے اور اصلاً وہ ’غلامِ مغرب‘ تهے، اس لئے اُنہیں فقہاے اربعہ كى صورت میں ’غلامانِ احمد‘ كى بجائے فرنگى تہذیب كے ’عالمانِ مغرب‘ ہى عزیز تر تہے، اس لئے وہ اُن ہى كى تقلید و پیروى كرتے رہے ہیں ، جس كے نتیجے میں ’مفكر ِقرآن‘ نے بڑى جانگسل محنتوں اور جگر پاش مشقتوں كے ساتھ قرآن مجید سے وہ كچھ كشید كرڈالا جسے اہل مغرب بغیر كسى قرآن كے پہلے ہى سے اپنائے ہوئے ہیں -
دسواں اختلاف معجزات كے بارہ میں
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور پرویز صاحب میں جو اُمور مختلف فیہ تهے، ان میں ایك بڑا اور اہم اختلاف معجزات كے بارے میں بهى تها- اوّل الذكر كے بارے میں موٴخر الذكر خود شہادت دیتے ہیں كہ
”آپ رسول اللہﷺ كے معجزات كے قائل تهے-“ 19
صرف رسول اللہﷺ ہى كے نہیں بلكہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ جملہ انبیا كے جملہ معجزات كے قائل تهے-لیكن اس كے برعكس پرویز صاحب معجزات كے قطعى منكر تهے-اگرچہ انكارِ معجزات كا مسلك اپنانے سے قبل ان پر ایك ایسا دور بهى گزرا ہے، جبكہ وہ انبیاے متقدمین كے معجزات كے (بظاہر) قائل تهے، اور معارف القرآن نامى سلسلہٴ كتب میں وہ ان معجزات كو تسلیم كرتے رہے ہیں ، لیكن ان ہى كتب كو جب ’جوئے نور‘ ، ’برقِ طور‘ اور’ شعلہٴ مستور‘ وغیرہ كتب میں ڈہالا تو ہر معجزے كا انكار كردیا، اور جن آیات میں ان معجزات كا ذكر ہے، اُنہیں مجازى معانى كى آڑ میں اپنى بدترین تحریفات كا اس طرح نشانہ بنایا كہ (ماضى كے) فرقہ باطنیہ كى طرف سے قرآن كے باطنى معانى كى آڑ میں كى گئى تحریفات بهى ’مفكر قرآن‘ كى تحریفات كے سامنے ماند پڑ گئیں - ان تحریفات كا تفصیلى پوسٹ مارٹم كرنا چونكہ میرے پیش نظر نہیں ہے، اس لئے میں بڑے اختصار كے ساتھ قرآن میں مذكور صرف ان معجزات تك ہى اپنى بحث كو محدود ركہنے پر مجبور ہوں جو علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور پرویز صاحب كے درمیان مختلف فیہ رہے ہیں -
گیارہواں اختلاف ’ آگ اور معجزہ ٴ ابراہیمى‘
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام كے اس معجزہ كے قائل ہیں جسے قرآنِ كریم نے
قُلْنَا يَـٰنَارُ كُونِى بَرْدًا وَسَلَـٰمًا عَلَىٰٓ إِبْرَٰهِيمَ ﴿٦٩﴾...سورة الانبیاء
كے الفاظ میں پیش كیا ہے، وہ تلمیحا ً اس كا ذكر یوں فرماتے ہیں :
”(یعنى) چونكہ ہمارى فطرت ابراہیمى ہے، اور اللہ تعالىٰ سے ہمارى نسبت بهى ابراہیمى ہے-
اس لئے ہم ہر آگ كے اندر سے پهول كہلاتے ہیں اور ہر نمرود كى آگ كو گلستان بنا دیتے ہیں -
جب زمانے كے انقلابات كے شعلے ہمارے باغ تك پہنچتے ہیں تو وہ بہار بن جاتے ہیں -“ 21
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كے یہ اشعار اس امر كى دلیل ہیں كہ وہ نارِ نمرود كے گل و گلزار ہوجانے كے معجزہٴ ابراہیمى كے قائل و معتقد تهے جبكہ ’مفكر ِقرآن‘ اس كے قطعى منكر ہیں اور اس واقعہ كو یوں بیان كرتے ہیں كہ قومِ نمرود نے حضرت ابراہیم كو آگ میں پهینكنے كا منصوبہ تو بنایا تها لیكن حضرت ابراہیم اس سے پہلے كہ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتے وہاں سے ہجرت فرما گئے- چنانچہ پرویز صاحب لكھتے ہیں :
”اس سركش قوم نے اپنے جوشِ انتقام میں یہ منصوبہ باندہا كہ حضرت ابراہیم كو آگ كے انبار میں ڈال دیا جائے تاكہ ان كے معبود روز روز كى تحقیر و تذلیل سے محفوظ ہوجائیں ، لیكن قبل اس كے كہ وہ ان پر ہاتھ ڈالتے، اب حكم خداوندى كے مطابق وہاں سے چپكے سے ہجرت كرگئے اور یوں وہ قوم اپنے ارادوں میں ناكام رہى-“ 22
’مفكر ِقرآن‘ یا كسى منكر ِحدیث سے یہ مت پوچهئے كہ اگر ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہى ہجرت فرما گئے تهے، تو پهر اللہ كو آگ سے مخاطب ہوتے ہوئے كس كے لئے اور كیوں یہ كہنے كى ضرورت پڑى كہ”اے آگ! تو سلامتى كے ساتھ ابراہیم پر ٹهنڈى ہوجا-“ ورنہ انكارِ معجزہ كى یہ پورى عمارت، دہڑام سے نیچے آن گرے گى-
یہاں قارئین كرام كے لئے یہ بات حیرت اور دلچسپى كا باعث ہوگى كہ ’جوئے نور‘ كى تصنیف سے پہلے ’معارف القرآن‘ جلد سوم جب تصنیف كى گئى تهى تو حضر ت ابراہیم كے آگ میں ڈالے جانے كا واقعہ اور ان پر آگ كى حرارت كے بے اثر ہوجانے كا معجزہ صفحہ27 پر خود پرویز صاحب نے بیان كیا تها- لیكن جب ’جوئے نور‘ میں سرگزشت ِابراہیم كو منتقل كیا گیا تو یہ موقف اپنایا گیا كہ حضرت ابراہیم تو آگ میں ڈالے جانے سے پہلے ہى نقل مكانى فرما چكے تهے، یوں اعترافِ معجزہ سے بال بال بچ جانے كا یہ حیلہ تراشا گیا- اب رہى سورة الانبیاء كى آیت نمبر 69، جو اس معجزہ كى اصل و اساس ہے اور جس میں آگ كو حضرت ابراہیم پر سلامتى كے ساتہ ٹهنڈى ہوجانے كا حكمِ خداوندى مذكور ہے، تو اسے ’جوئے نور‘ میں دیدہ دانستہ حذف كردیا گیا كیونكہ اب یہ آیت ’مفكر ِقرآن‘ صاحب كے تبدیل شدہ موقف كے خلاف تهى، اور اس سے بهى عبرتناك بات یہ ہے كہ’مفكر ِقرآن‘ بڑے دهڑلے سے یہ اعلان بهى كرتے رہے ہیں :
”طلوعِ اسلام اسے بدترین جرم سمجهتا ہے كہ قرآن كى كسى آیت كو اس لئے سامنے نہ لایا جائے كہ وہ اس كے كسى پیش كردہ مسئلہ كے خلاف جاتى ہے-“ 23
اگرچہ تفسیر قرآن كے لئے وہ اس اُصولى ہدایت پربهى زور دیتے ہیں جو محض لطف ِوعظ كے لئے ہے، عمل كے لئے نہیں ہے :
”آپ جس موضوع كے متعلق معلوم كرنا چاہیں كہ قرآن نے اس باب میں كیا كہا ہے، قرآن كے وہ تمام مقامات، آپ كے سامنے ہوں ، جن میں اس نے اس موضوع كے متعلق كچھ كہا ہے، صراحتہ، كنایةً، استعارةً، تائیداً، تردیداً، اسے تصریف ِآیات كہتے ہیں -“ 24
اور خلاف ِمطلب آیات سے چشم پوشى كرنا، شاید صرف عن الآیات یا تصرف فى الآیات كہلاتا ہے-
بارہواں اور تیرہواں اختلاف بسلسلہٴ معجزہٴ عصاے موسىٰ
عصاے موسوى كے حوالہ سے قرآن میں بیان كردہ معجزات میں سے دو معجزوں كا ذكر علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے الوقت سیف كے زیر عنوان ان الفاظ میں كیا ہے :
” اس كى ایك ضرب سے پتهر پانى ہوجاتے ہیں اور سمندر پانى سے محروم ہوكرخشكى بن جاتا ہے-“ 26
دوسرے معجزہ كا ذكر اسى نظم میں ایك اور شعر میں بهى یوں كیا گیا ہے :
”اُنہوں نے بحر احمر كا سینہ چاك كردیا اور سمندر كو مٹى كى مانند خشك بنا دیا-“ 28
وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَ ۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ...﴿٦٠﴾...سورة البقرة
”اور پهر (وہ واقعہ یاد كرو) جب موسىٰ نے اپنى قوم كے لئے پانى طلب كیا تها، اور ہم نے حكم دیا تها كہ ’اپنى لاٹهى سے پہاڑ كى چٹان پر ضرب لگاؤ‘ (تم دیكھو گے كہ پانى تمہارے لئے موجود ہے، موسىٰ نے اس حكم كى تعمیل كى) چنانچہ بارہ چشمے پهوٹ نكلے، اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پینے كى جگہ معلوم كرلى-“
آیت مع ترجمہ پرویز پیش كردى گئى- یہ ترجمہ معارف القرآن، جلد سوم/ صفحہ 274 سے ماخوذ ہے- اس وقت پرویز صاحب معجزات كے قائل تهے، لیكن بعد میں جب اُنہوں نے انكارِ معجزات كا مسلك اپنایا تو پهر اسى آیت كا مفہوم مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش فرمایا:
”تم اپنى تاریخ كے اس واقعہ كو بهى یاد كرو جب تمہیں پانى كى دقت ہوئى اور موسىٰ نے اس كے لئے ہم سے درخواست كى تو ہم نے اس كى رہنمائى، اس مقام كى طرف كردى جہاں پانى كے چشمے مستور تهے- وہ اپنى جماعت كو لے كر وہاں پہنچا، چٹان پر سے مٹى ہٹائى تو اس میں سے ایك دو نہیں بلكہ اكٹهے بارہ چشمے پهوٹ نكلے، اس نے ان چشموں كو نامزد كردیا اور ہر قبیلہ كو بتادیا كہ ان كا چشمہ كون سا ہے؟“ 29
اس مفہوم میں ضربِ عصا كے نتیجہ میں بارہ چشموں كے پهوٹ نكلنے كا معجزہ تلاش كرپانا بجائے خود معجزہ ہوگا، جبكہ آیت كے مقابل دیے ہوئے ترجمہ پرویز میں معجزے كا ذكر واضح ہى ہے- شعر اقبال اور آیت كے مفہومِ پرویز میں ضربِ عصاے موسوى كے معجزہ كى بابت دونوں كا اختلاف واضح ہے-
دوسرا معجزہ انفلاقِ بحركا معجزہ ہے، آیت مع ترجمہ پرویز ملاحظہ فرمائیے :
فَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْبَحْرَ ۖ فَٱنفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَٱلطَّوْدِ ٱلْعَظِيمِ ﴿٦٣﴾...سورة الشعراء
”اور ہم نے موسىٰ كو وحى بهیجى كہ اپنے عصا سے سمندر كو مارو، پس وہ پهٹ گیا اور ہر حصہ ایك بڑے تودے كى طرح تها-“ 30
اب اسى آیت كا وہ مفہوم بهى ملاحظہ فرمائیے جو پرویز صاحب نے انكار ِمعجزات كا مسلك اپنانے كے بعد پیش كیا ہے :
”چنانچہ ہم نے موسىٰ كى طرف وحى بهیجى كہ اپنى جماعت كو لے كر (فلاں سمت سے) سمندر (یا دریا) كى طرف چلو اور وہاں سے انہیں اس راستے سے پار لے جاؤجو خشك ہوچكا ہے-“ 31
اقبال رحمة اللہ علیہ كا نام ذریعہ مطلب برآرى
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور پرویز صاحب كے یہ چند اختلافات، مشتے نمونہ از خروارے محض سرسرى طور پر پیش كئے گئے ہیں ، ورنہ اگر غائر نگہى سے جملہ اختلافات كا كہوج لگایا جائے تو ایسے كثیر التعداد اختلافات كى كثرت پرانسان انگشت بدنداں رہ جائے- تصوف كے اُمور میں تو اقبال اور پرویز كے ا ختلافات كى بہت سى مثالیں خود پرویز صاحب نے اپنى كتاب ’تصوف كى حقیقت‘ میں پیش كى ہیں ، لیكن اقبال رحمة اللہ علیہ كے ساتھ اس قدر برسراختلاف رہنے كے باوجود بهى پرویز صاحب نہ صرف یہ كہ اقبال رحمة اللہ علیہ كے بارے میں انتہائى نرم گوشہ ركهتے تهے، بلكہ وہ خود كو(اور طلوعِ اسلام كو)فكر ِاقبال كا شارح اور وارث قرار دیتے تهے :
”فكر ِاقبال كى یہ متاعِ عزیز، آج بزمہائے طلوعِ اسلام كا بیش بہا سرمایہ ہے، اور یہ كاروانِ شوق اس سرمائے كا حقیقى وارث بهى ہے اور مخلص ترین امین بهى-“ 32
فكر ِاقبال رحمة اللہ علیہ كى تفہیم، خدمت اور اشاعت اگرچہ دوسرے گوشوں سے بهى ہورہى ہے، لیكن وابستگانِ طلوعِ اسلام، پیغامِ اقبال رحمة اللہ علیہ كے صحیح اور حقیقى فہم كا واحد اور موٴثر ذریعہ… اقبال كے ساتھ جملہ اختلافات كے باوجود… صرف پرویز ہى كو تسلیم كرتے ہیں :
”اقبال رحمة اللہ علیہ كو سمجهنے كے لئے تاریخ و فلسفہ كى وسیع واقفیت و استحضار كے ساتھ، قرآنِ حكیم پر بهى حكیمانہ نظر كى ضرورت ہے اور اقبال پر لكهنے اور بولنے والوں میں ، یہ جامعیت خال خال نظر آتى ہے، اور خوش قسمتى سے پرویز صاحب كو فطرت نے ایسا ہى جامع ذہن عطا كیا ہے-“ 33
پرویز صاحب كے پورے لٹریچر اور طلوعِ اسلام كى مكمل فائل كى روشنى میں ، اگر كوئى شخص، اُن كے اور مولانا مودودى رحمة اللہ علیہ كے درمیان باہمى ا ختلافات كا جائزہ لے تو وہ ان كى تعداد ان اختلافات سے بہت كم پائے گا جو پرویز صاحب اور علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كے درمیان پائے جاتے ہیں ، لیكن ’مفكر ِقرآن‘ نے (عدل و انصاف، امانت و دیانت اور حق و صداقت كو بالائے طاق ركهتے ہوئے) مودودى رحمة اللہ علیہ صاحب كى مخالفت میں توجس انتہائى شدت و غلظت، درشت خوئى اور تلخ نوائى سے كام لیا ہے، وہ ان كے اس دُہرے معیار اور جانبدارانہ رویے كا غماز ہے، جو وہ دونوں بزرگوں كى حقیقى قدروقیمت متعین كرنے میں اختیار كیا كرتے تهے- سوال یہ ہے كہ مودودى رحمة اللہ علیہ صاحب سے چند اختلافات كے باوجود اور علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ سے كہیں زیادہ اختلافات كے باوجود، مولانا مودودى رحمة اللہ علیہ كى انتہائى شدید مخالفت اور علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كى بے تحاشا حمایت، آخر ’مفكر قرآن‘ نے كیوں كى؟
میرے نزدیك اس كى وجہ یہ ہے كہ علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ اور مودودى رحمة اللہ علیہ ، دونوں بین الاقوامى شہرت كى حامل شخصیتیں ہیں اور پرویز صاحب خود ہوسِ شہرت كے مریض تهے- ’پاپولیریٹى‘ اور نامورى پانے كے لئے اُنہوں نے ان دونوں عالمى شہرت یافتہ ہستیوں میں سے، ایك كى حمایت وپاسدارى كو اور دوسرے كى مخالفت و معاندت كو حصول مقصد كا ذریعہ بنایا- علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ كى بہارى بہر شخصیت كى مدح سرائى كے نتیجہ میں حقیر سى آہنى كیل كو بهى وزنى لكڑى كے ساتھ تیرنے كا موقع مل گیا، اور دوسرى طرف مولانا مودودى رحمة اللہ علیہ كے ساتھ مسلسل ٹكراتے رہنے كو پرویز صاحب نے تمنا برآرى كا ذریعہ سمجھا، یہ الگ بات ہے كہ چھپكلى خواہ كتنى ہى بلند بام ہوجائے، وہ بہرحال چهپكلى ہى رہتى ہے- اونچے شہتیروں اور بلند ستونوں سے اُلجھنے سے اس كى قدر ومنزلت میں كوئى اضافہ نہیں ہوتا-
علاوہ ازیں مولانا مودودى رحمة اللہ علیہ كى مخالفت میں یہ عامل بهى كارفرما نظر آتا ہے كہ چونكہ سیاسى میدان میں سیكولر مزاج حكمرانوں كى طرف سے مودودى رحمة اللہ علیہ صاحب كى مخالفت پہلے سے موجود تهى، اس لئے پرویز صاحب نے یہ محسوس كیا كہ اگر وہ اسى مخالفت میں شامل ہوجائیں تو یہ روش ان كى شہرت میں اضافے كا باعث بهى ہوگى اور حكمرانوں كے بهى وہ منظورِ نظر رہیں گے، دوسرى طرف اقبال كو قومى شاعر ہونے كى بنا پر اُمت ِمسلمہ میں جو احترام، عزت اور پذیرائى حاصل ہے، اس كى بنا پر ان كى حمایت و ہم نوائى، ان كى شہرت كے لئے موجب ِمنفعت ہوگى، نام اقبال سے فائدہ اٹهانے كى یہ وہى ٹیكنیك ہے جو یہود و نصارىٰ جیسى گمراہ قوموں نے حضرت ابراہیم وغیرہ كے ناموں سے فائدہ اٹهانے كے لئے اپنا ركہى تهى جیسا كہ مندرجہ ذیل واقعہ سے واضح ہے :
حكومت كویت نے جب غلام احمد پرویز اور اس كے پیروكاروں پر كفر كا فتوىٰ جارى كیا تو یہ لوگ بہت سٹپٹائے
”اس ناگہانى صورتحال كے نتیجے میں بزمِ طلوعِ اسلام كے سركردہ پرویزیوں كا ایك وفد، ہنگامى طور پر اپنے مركز گلبرگ لاہور سے كویت پہنچا، اور نجى سطح پر اپنا تمام تر اعلىٰ اثرورسوخ استعمال كرتے ہوئے، كویتى سركارى فتوىٰ كى تنسیخ كى سرتوڑ كوشش كى، ساتھ ہى ساتھ ملك معراج خالد اور دیگر بااثر پرویزى سرپرستوں سے،حكومت ِكویت اور بعض اہم شخصیات كے نام خطوط بهى لكهوائے گئے، جن میں غلام احمد پرویز كو نام نہاد مفكر قرآن كى حیثیت سے متعارف كرواتے ہوئے، علامہ اقبال كے فہم قرآن كا وارث قرا ر دیا گیا-“ 34
یوں كویت میں اقبال كے نام كو مقصد برآرى كے لئے استعمال كیا گیا- لیكن بہرحال جب یہ سارى كوششیں ناكام ہوگئیں اور حكومت ِكویت نے اپنے فتوىٰ كو برقرار ركها تو بزمِ طلوع اسلام كى كویتى شاخ كے ذریعہ عدالتى چارہ جوئى كى گئى تاكہ یہ فتوىٰ منسوخ ہوجائے اور ساتھ ہى مولانا احمد على سراج كے خلاف بهى (جو اس كویتى فتوىٰ كے اجرا میں مركزى كردار تهے) ایك مقدمہ دائر كردیا گیا جس میں ان كى پرویزى مخالفت كو ذاتى مخالفت قرار دیا گیا- اس (ناكام) كوشش میں كامیابى پانے كے لئے، جو خیانت كارانہ ہتهكنڈے اختیار كئے گئے ان میں ایك درج ذیل ہے :
”یہاں ایك اور امر بهى قابل غور ہے جس سے بزمِ طلوع اسلام (پرویز لابى) كى ایك اور مكارانہ منافقت خوب عیاں ہوجاتى ہے، اپنى پٹیشن(Petition)میں اس بزم كے موجودہ سربراہ نے حیلہ و دہوكہ دینے كے لئے یہ موقف اختیار كیا كہ غلام احمد پرویز محض ایك شخص تها جو ١٩٨٥ء میں مرا- بزمِ طلوعِ اسلام، اس كے افكار و نظریات كى پابند نہیں ، بلكہ یہ اقبال كے فكر قرآن كى ترجمان ہے، اور اُسى كو پهیلانے كے مشن پر گامزن ہے، اور اقبال سے عوام و خواص كا كوئى اختلاف نہیں ، اور یہ كہ طلوعِ اسلام نام بهى اقبال ہى كى ایك نظم سے ماخوذ ہے، لہٰذا بزمِ طلوع اسلام كو كفر و ارتداد سے مبرا قرار دیا جائے-“35
یوں یہ لوگ علامہ اقبال كے نام كو اپنے مذموم مقاصد كى تكمیل كے لئے،ان پرویزى حیلوں كے ساتھ استعمال كیا كرتے ہیں -سچ ہے :
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتى ہے
پاكستان كے سیكولر حكمران (جن كى ذہنى نشوونما مغربى نظریات كا دودہ پى پى كر ہوئى ہے) آج جس طرح كفر كى طاقتوں كے ہاتهوں میں كهیل رہے ہیں ، اور ملكى حدود میں جس طرح غیر ملكى سرمایہ كے بل پر NGOs، مسلمانانِ پاكستان میں فكرى انتشار اور عملى فساد پیدا كر رہى ہیں ، اُن كے ساتھ منكرین حدیث اپنے لٹریچر كے ذریعہ بالكل اسى طرح تعاون كررہے ہیں جس طرح عہد ِنبوى میں منافقین مدینہ، كفر كى بیرونى طاقتوں كى حمایت و اعانت كیا كرتے تهے- خود طلوعِ اسلام كو بهى اس بات كا نہ صرف یہ كہ اعتراف ہے بلكہ اس پر فخر بهى ہے- چنانچہ ’عورتوں كے حقوق‘ پر بات كرتے ہوئے طلوعِ اسلام بڑے فخر و انبساط كے ساتھ یہ اعلان كرتا ہے:
”طلوعِ اسلام نے ہى اس كے لئے بہت كثیر تعداد میں مضامین و مقالات طبع كئے ہیں جن كا بہت مفید اثر، نہ صرف عوام پر ہوا ہے، بلكہ عورتوں سے متعلق این جى اوز نے ان سے بهرپور فائده اٹهایا ہے- راقم سطور كا ذاتى تجربہ ہے كہ ان تمام این جى اوز میں طلوعِ اسلام كى شائع كردہ كتاب ’طاہرہ كے نام خطوط‘ موجود رہتى ہے جس میں عورتوں كے حقوق سے بحث كى گئى ہے- اس سے یہ این جى اوز وقتاً فو قتاً فائدہ اُٹهاتے رہتى ہیں -“ 36
پرویز صاحب كى ایسى ہى ’قرآنى خدمات‘ پر پیشوایانِ مغرب بڑے شاداں و فرحاں ہیں اور طلوعِ اسلام، عالم كفر میں پرویز صاحب كى پذیرائى اور قدرافزائى پر خوشى سے پهولا نہیں سماتا اور بڑى مسرت و شادمانى كے ساتھ یہ اعلان كرتا ہے:
”ڈاكٹرDr. Freeland Abbot امریكہ كى TUFTS یونیورسٹى كے شعبہٴ تاریخ كے صدر اور بین الاقو امى شہرت كے مالك ہیں ، اُنہوں نے ’اسلام اینڈ پاكستان‘ كے نام سے 1968ء میں ایك بلند پایہ كتاب شائع كى تهى- اس میں اُنہوں نے فكر ِپرویز اور تحریك ِطلوع اسلام كے متعلق بڑى تفصیل سے دادِ تحسین دینے كے بعد كہا ہے كہ … ’پرویز صاحب اس وقت پاكستان كے سب سے بڑے فعال اسلامى ریفارمر ہیں ‘ …یہ كتاب فكر پرویز كو دُور دراز گو شوں تك متعارف كرانے كا موجب بن گئى ہے-“ 37
علمبردارانِ كفر و طاغوت كے ہاں پرویز صاحب كى اس تعریف و تحسین سے، اور پهر طلوع اسلام كى اس پر انتہائى فرحت و مسرت سے، ایك بندہٴ مومن كو علم الیقین حاصل ہوجاتا ہے كہ ’مفكر قرآن‘ صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جن كے متعلق قرآن كہتا ہے:
أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ...﴿١٣٩﴾...سورة النساء
اب غور طلب بات تو یہ ہے كہ پرویز صاحب كى جن ’ قرآنى خدمات‘ اور جس ’انقلابى اسلام‘ سے یہود و نصارىٰ كے احبار و رہبان، كفر و الحاد كے پیشوا، لادینیت كے حامل دانشور اور سیكولر زم سے وابستہ مفكرین تو راضى اور خوش ہوں ، مگر عالم اسلام كے علما ان ’قرآنى خدمات‘ اور اس ’انقلابى اسلام‘ كى بنا پر ایك دو نہیں بلكہ سینكڑوں اور ہزاروں كى تعداد میں ’مفكر قرآن‘ پر كفر كے فتوے لگا رہے ہیں تو خود سوچ لیجئے كہ یہ ’قرآنى خدمات‘ اور ’یہ انقلابى اسلام‘ محمد رسول اللہ ﷺ كے كام كى چیزیں ہیں یا اُن كے دشمنوں كے كام كى؟
حوالہ جات
1. طلوع اسلام، مئی 1984ء ، ص30
2. طلوع اسلام، مئی 1940ء، ص42
3. طلوع اسلام، اگست، ستمبر 1964ء، ص124
4. طلوع اسلام، جون 1985ء، ص11
5. اسرار و رموز، ص114
6. اسرار و رموز ،ص114 تا115
7. اسرار و رموز ،ص114 تا115
8. اسرار و رموز ،ص114 تا115
9. طلوع اسلام، جون 1973ء، ص16
10. طلوع اسلام، ستمبر 1973ء، ص38
11. تفسیر مطالب الفرقان، جلد دوم، ص64
12. اسرار و رموز، ص5 تا275
13. اسرار و رموز، ص5 تا275
14. اسرار و رموز، ص276تا277
15. اسرار و رموز، ص276تا277
16. طلوع اسلام، مارچ 1959ء، ص30
17. طلوع اسلام، دسمبر 1981ء، ص62
18. طلوع اسلام، اگست 1958ء، ص26
19. تصوف کی حقیقت، ص269
20. اسرار و رموز، ص266
21. اسرار و رموز، ص 267
22. جوئے نور، ص123
23. طلوع اسلام، 23 جولائی 1955ء ص12
24. طلوع اسلام، جولائی 1974ء ص18
25.تا 26. 27. 28 ا سرار و رموز، ص 168،169
29. مفہوم القرآن، ص21
30. ترجمہ ماخوذ از معارف القرآن، ج3، ص260
31. مفہوم القرآن، ص841
32. طلوع اسلام، جولائی 1959ء،ص42
33. طلوع اسلام، فروری 1953ء، ص27
34. مجموعہ فتاویٰ، ردِ پرویزیت، (از مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج، امیر تحریک ردّ پرویزیت، امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کویت، مرشد دینی برائے حج ووزارتِ اوقاف: کویت، رئیس حلقات تعلیم القرآن (دعوة والتعلیم) کویت، ڈائریکٹر جنرل جامعہ سراج العلوم دارالقرآن،ڈیرہ اسماعیل خاں، پاکستان) جلد دوم، ص25
35. مجموعہ فتاویٰ، ردِ پرویزیت، ص26
36. طلوع اسلام، جون2005ء، ص29
37. طلوع اسلام، نومبر 1976ء، ص58
i. بعض لوگ تصوف کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک تصوف تووہ ہے جو آج ہمارے معاشروں میں پایا جاتا ہے، سلوک وطریقت کی منزلوں، وجد و عرفان کے طریقوں اور راگ ورقص کی خرافات کے ساتھ ساتھ اس میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود جیسے گمراہ عقائد بھی موجود ہیں۔ ابن عربی، منصور حلاج، جنید بغدادی اوردیگر مشہور صوفیا کی طرف اس کو منسوب کیا جاتا ہے، یہ تووہ تصوف ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں اور اسی تصوف کی حقیقت پر مولانا عبدالرحمن کیلانی کی 'شریعت وطریقت' کے نام سے کتاب لائق مطالعہ ہے۔ البتہ تصوف کا دوسرا مفہوم زہد وورع اور احسان یا اخلاص فی العمل وغیرہ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور اس کو 'مطلوب تصوف' باور کیا جاتا ہے جبکہ محتاط طرزِ عمل یہ ہے کہ تصوف کی مشترک المعنی اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے ان نیک خصائل کو دورِ خیرالقرون کی طرح زہد واخلاص کے نام سے ہی متعارف کرایا جائے۔ (ح م)