حفاظت حديث اورصحابہ كرام
بكثرت روايت كرنے والے صحابہ كرام كا تذكرہ
اللہ تعالىٰ نے حديث كى حفاظت كے ليے وحى كو منافقين كى دسترس سے دور ركها اور اس كا ذمہ صرف اپنے پاكباز بندوں یعنى صحابہ كرام رضى اللہ عنہم كوسونپا۔ يہى وجہ ہے كہ آج حديث روايت كرنے والوں ميں آپ كسى منافق كونہيں پائيں گے۔ سچے اور كهرے صحابہ جن كى اللہ نے آسمان سے شہادت دى ہے، وہى حديث روايت كرنے والے ہيں ۔
ان ميں سے كچھ ايسے تہے جن كا كتاب اللہ كے ساتھ گهرا تعلق تها اور قرآن كريم كے علوم وفنون پر اُنہوں نے محنت كى۔ كچھ ايسے تهے جو روايت ِحديث رسول ﷺ ميں مشغول ہوگئے اور اس كے لئے اُنہوں نے اپنے آپ كو وقف كيا۔ اللہ تعالىٰ كى مہر بانى ہے كہ بالخصوص جوبہت زيادہ روايت كرنے والے اصحابِ رسول ہيں ، ان كى سوانح اوران كے امتيازات كے بارے ميں كسى طرف سے كوئى شبہ نہيں پايا جاتا !!
الزام دياجاتاہے كہ بعد ميں يہ روايتيں گهڑ لى گئى ہيں ۔ جوآٹھ نو مكثرين صحابہ(بكثرت روايت كرنے والے) ہيں ، ان كى روايات اٹهارہ ہزار سے متجاوزہيں اور نبى ﷺكى جملہ احاديث (صحيح اورغير صحيح) اكٹهى كى جائيں تو پچاس ہزار تك ہى جاتى ہيں جبكہ صحابہ كرام كى تعداد ايك لاكھ كے قريب ہے، اسى سے اندازہ لگايا جاسكتاہے كہ بعد ميں گهڑنے والاالزام كتنا مضحكہ خيز ہے۔ خود نبى ﷺ كى زندگى پر احاديث كى اس تعداد كو تقسيم كريں تو ارشاداتِ نبويہ كى روزانہ اوسط چہ نكلتى ہے، تو كيا يہ تعداد قابل اعتراض ہے ؟ حضرت ابوہريرہ كو نبى ﷺ كى صحبت چار سال كے قريب ميسر ہوئى ہے اور حضرت ابوہريرہ كى تمام روايتيں پانچ ہزار يا ساڑهے پانچ ہزار كے قريب ہيں تو حساب لگاكے ديكھ لےهت كہ ايك دن كى چارپانچ روايتيں بنتى ہيں ۔ دينى مدارس ميں زير تعليم بچے آج كے دور ميں پچاس پچاس حديثيں روزانہ پڑھ ليتے ہيں تو ابو ہريرہ جيسا انسان جس كو حديث پڑهنے پڑهانے كے لئے اپنے آپ كو وقف كرركها تها، اس نے اگر روزانہ پانچ چہ احاديث حفظ كرليں تو اس ميں اعتراض والى كونسى بات ہے ؟ جب كہ ان كو اس كے سواكوئى كام نہيں تها كہ وہ رسول اللہﷺ كے ساتھ ساتھ رہتے اور ان كى نيت صرف يہ ہوتى كہ رسول اللہ كى كوئى بات سننے سے رہ نہ جائے۔
عدالت ِصحابہ
امام بخارى فرماتے ہيں :
من صحب النبي ﷺ أو رآه من المسلمين فهو من أصحاب 1
"مسلمانوں ميں جس شخص كو نبى كو صحبت نصيب ہوئى يا اس نے آپ كو ديكها، وہ آپ كے صحابہ ميں سے ہے۔"
حافظ ابن حجر عسقلانى نے ايك معقول شرط كا اضافہ فرمايا ہے كہ
"اس كا خاتمہ بهى اسلام پر ہوا ہو۔" 2
"الصحابة كلهم عدول" يہ مقولہ اُمت كے ہاں متفق عليہ ہے۔ يعنى تمام صحابہ كرام عادل ہيں ، وہ كفر و فسق و فجور سے متنفر تهے، سب ہى متقى و محسن تهے، حق و انصاف پر قائم تهے۔ اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول نے ان كا تزكيہ فرمايا، صفائى بيان كى، قرآن كريم ميں ان كے اوصافِ حميدہ بيان ہوئے اور ان كى ديانت و امانت كى شہادت ثبت ہوئى۔ اس بنا پر تمام اہل اسلام متفق ہيں كہ تمام صحابہ كرام عادل وثقہ ہيں ۔i
صحابيت كے ثبوت كے لئے بهى علماے كرام نے بہترين معيار قائم كيا اور حديث ِنبوى كى روشنى ميں عہد صحابہ كى انتہا بهى متعن ہے۔
رسول اللہﷺكا فرمان ہے :
(ما من نفس منفوسة اليوم تأتي عليها مائة سنة وهي حية يومئذ) 3
"كوئى ذى روح انسان ايسا نہيں جو آج زندہ ہے اور سوسال گزرنے كے بعدبهى زندہ ہو۔"
اس حديث كى روشنى ميں علما نے يہ زمانہ ١١٠ ہجرى تك متعين كيا ہے۔ اس كے بعد كوئى شخص صحابى ہونے كا دعوىٰ نہيں كرسكتا تها۔ علماے كرام نے صحابہ كرام كے بارہ طبقات بيان كئے ہيں اور يہ سارا اہتمام حديث ِنبوى اور اُسوہٴ رسول كى حفاظت كے لئے تها۔ دين كى حفاظت كا دارومدار بهى چونكہ اسى پر تها، اس لئے اس كى جزئيات كا خيال ركها گيا۔ اصحابِ رسول كے بارے ميں اُمت كا يہ نقطہ نظر، ان كا يہ احترام اور ان پر اعتماد ارشاداتِ ربانى كى وجہ سے ہے،
جيسا كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن كريم ميں فرمايا:
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواعَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾...سورة التوبة
"اور مہاجرين و انصار ميں سے جو لوگ اسلام لانے ميں سبقت لے جانے والے ہيں اور وہ لوگ جنہوں نے بہت اچهے طريقے سے ان كى پيروى كى، اللہ ان سے راضى ہوا اور وہ اللہ سے راضى ہوگئے اور اللہ نے ان كے لئے ايسے باغات تيار كئے ہيں ، جن كے نيچے دريا بہتے ہيں اور وہ ہميشہ كے لئے ان ميں رہيں گے۔يہ بڑى كاميابى ہے۔"
نيز فرمايا:
ٱلَّذِينَ ءَامَنُواوَهَاجَرُوا وَجَـٰهَدُوافِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِندَ ٱللَّهِ ۚ وَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَآئِزُونَ ﴿٢٠﴾...سورة التوبة
"وہ لوگ جو ايمان لائے اور ہجرت كى اور اپنے جان و مال سے اللہ كى راہ ميں جہا دكيا، وہ اللہ كے ہاں بڑے بلند مرتبہ ہيں اور وہى لوگ كامياب ہيں ۔"
نيز فرمايا:
لَّقَد تَّابَ ٱللَّهُ عَلَى ٱلنَّبِىِّ وَٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُ فِى سَاعَةِ ٱلْعُسْرَةِ...﴿١١٧﴾...سورة التوبة
"اللہ تعالىٰ نے اپنے نبى اور مہاجرين و انصار پر اپنا فضل و كرم فرمايا جنہوں نے مشكل كى گهڑى ميں نبى كى پيروى كى۔"
نيز فرمايا:
لَّقَدْ رَضِىَ ٱللَّهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ...﴿١٨﴾...سورة الفتح
"اے نبى ! جب مومن درخت كے نيچے تيرى بيعت كررہے تهے تو اللہ ان سے راضى ہوا، پهر ان كے دلوں ميں (جو اخلاق تها) وہ ظاہر ہوگيا تو اس نے ان پر سكنيت نازل فرما دى۔"
ايك آيت ميں تو اللہ نے صحابہ كے ايمان كو معيار اور ہدايت كے لئے مثال قرار ديا ہے:
فَإِنْ ءَامَنُوا بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْافَإِنَّمَا هُمْ فِى شِقَاقٍ ۖ...﴿١٣٧﴾...سورة البقرة
"تو اگر يہ لوگ اس طرح ايمان لے آئيں جيسے تم ايمان لائے ہو تو ہدايت پاليں ، اور اگر انہوں نے منہ پهيرا تو يقينا يہ لوگ مخالفت ميں ہيں ۔"
حضرت ابو سعيد خدرى نے نبى كريم ﷺكا يہ فرمان روايت كيا ہے كہ
(لا تسبوا أصحابي لو أن أحدكم أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه) 4
"ميرے اصحاب كو بُرا نہ كہو، اگر تم ميں سے كوئى شخص اُحد پہاڑ جتنا سونا خرچ كرے پهر بهى وہ ان كے خرچ كردہ ايك مد يا نصف مد كے اجر كو نہيں پہنچ سكتا۔"
(خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم)5
"ميرى امت كا بہترين زمانہ ميرا زمانہ ہے۔ پهر ان كے بعد والا دور اور پهر ان كے بعد والا "
خلفاے راشدين
اصحاب ِ رسولﷺ كے اوّلين طبقہ ميں سے ہيں اور آنحضرت كى صحبت سے طويل مدت تك فيض ياب ہوئے۔ اُنہيں عشرہ مبشرہ ميں سے ہونے كا اعزاز بهى حاصل ہے۔ آپ رسالت مآب كے معتمد ِخاص تهے۔ اُنہيں قرآن كريم كے ساتھ خصوصى شغف كے علاوہ حديث رسول سے بهى گهرى دلچسپى اور محبت تهى۔ حفاظت ِحديث ميں ان كا بڑا عظيم كردار ہے اور كتاب و سنت پر عمل كے اعتبار سے بهى وہ اپنى مثال آپ تهے۔خلفائے راشدين جہاں روايت حديث ميں انتہائى محتاط تهے وہاں فہم كتاب و سنت ميں بهى انتہائى قابل اعتماد تهے۔
ابن قيم فرماتے ہيں :
"لا يحفظ للصديق خلاف واحد أبدًا" 6
"ابوبكر صديق كا زندگى بهر ايك عمل بهى نص كے خلاف منقول نہيں ہے۔"
باوجوديكہ ابوبكر صديق كا عہد ِخلافت شورشوں كا دور تها،اس كے باوجود ان كا حديث سے شغف گهرا رہا۔ تذكرة الحفاظميں حضرت عائشہ سے منقول ہے:
"جمع أي الحديث عن رسول الله وكانت خمس مائة حديث" 7
"ميرے والد گرامى نے احاديث ِنبويہ جمع كى تهيں ، ان كا مجموعہ پانچ سو حديث پر مشتمل تها۔"
پهر شدت ِاحتياط كى وجہ سے اُنہوں نے اپنا يہ مجموعہ ضائع كرديا تها۔
حضرت عمر بهى روايت ِحديث ميں حد درجہ محتاط تهے، بكثرت روايت سے منع فرماتے۔ بلاتحقيق كوئى حديث قبول نہ فرماتے۔ حفاظت ِحديث ميں ان كا عظيم كردار ہے۔ مگر بدنصيب منكرين حديث ان كے اس احتياط كو انكارِ حديث كا بہانہ بناتے ہيں ۔ جبكہ حديث ميں احتياط كا يہ طرزِ عمل محدثين كرام كا طرئہ امتياز ہے۔ اگر حضرت عمر انكار كرتے اور استغنا برتتے تهے تو پهر احتياط كى كيا ضرورت تهى؟ پهر كليةً روايت سے منع كرديتے مگر وہ انتہائى محب الحديث اور ذاتى رائے كو مكروہ سمجہتے تهے۔
ايك بار حضرت ابوہريرہ كو حضرت عمر نے ياد دلايا كہ آنحضرت نے جب معروف حديث (من كذب علي متعمدًا فليتبوأ مقعده من النار) بيان فرمائى تهى تو آپ فلاں مقام پر ہمارے ساتھ تهے تو ابوہريرہ نے ہاں ميں جواب ديا اور حديث بهى سنائى تو حضرت عمر نے فرمايا:
"إذا أذكرت ذلك فاذهب فحدِّث" 8
"اگر تمہيں يہ فرمانِ رسول ياد ہے تو جاؤ حديث بيان كرو۔"
يہى حديث ِمبارك محدثين كرام كے منہجِ روايت اور تحققج كى اساس ہے اور اسى موضوع پر اور بهى متعدد روايات صحيحين ميں مذكور ہيں ۔
حضرت عثمان بهى حديث كى حجيت كے صراحةً قائل تهے۔ ان سے ايك سو چهياليس (146) احاديث مروى ہيں ۔ اُنہوں نے اپنے اوّلين خطبہ خلافت ميں فرمايا تها:
خبردار! لوگو ميں پيروى كرنے والا ہوں ، نئى راہ نكالنے والا نہيں ہوں ، مجھ پر كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى پيروى كے بعد تمہارے تين حق ہيں ۔" 9
روايت ِحديث اور سنت پر شدت سے عمل پيرا ہونے كے ساتھ آپ بهى محتاط تهے اور حفاظت ِحديث ميں آپ كى احتياط كا بڑا كردار ہے۔ مسنداحمد ميں منقول ہے :
"ما يمنعني أن أحدث عن رسول الله أن لا أكون أوعى أصحابه عنه ولكنi أشهد لسمعته يقول من قال علي مالم أقل فليتبوأ مقعده من النار" 10
"ميں اگر حديث بيان نہيں كرتا تو اس كى وجہ يہ نہيں ہے كہ ميں نے ديگر اصحاب كى نسبت كم احاديث ياد كى ہيں ۔ ليكن بات يہ ہے كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ ميں نے آپ كو يہ فرماتے سنا ہے كہ جس نے ميرى طرف كوئى بات منسوب كى، جو ميں نے نہيں كہى تو وہ اپنا ٹهكانا جہنم ميں تلاش كرے۔"
يعنى حضرت عثمان كو حفظ و روايت سے بهى بڑھ كر حفاظت ِحديث كى فكر دامن گير تهى جس كے لئے آپ انتہائى محتاط تهے۔
خبر واحد كى بنياد پر اپنى رائے اور اجتہاد كو ترك كرنے كى صريح روايات بهى حضرت عثمان سے منقول ہيں جس سے اندازہ ہوتا ہے كہ اُنہيں حديث نبوى پر مكمل اعتماد تها اور وہ اس سلسلے ميں كسى قسم كے تردّد كا شكار نہ تهے۔
شہادتِ عثمان كے بعد بالخصوص جب مسلمانوں ميں فتنوں نے سر اُٹهايا اور دوسرى طرف اسلام كا دائرہ وسيع ہوگيا تو حضرت على نے خلفاے ثلاثہ كى نسبت روايت ِحديث ميں مزيد احتياط كرنا شروع كردى اور وہ خاصى تحقيق كے بعد حديث قبول كرتے تهے۔ ليكن يہ طرزِ عمل ان كا اپنے عہد خلافت ميں تها۔ حضرت على عموماً يہ حديث برسرمنبر بيان كيا كرتے تهے :
قال رسول الله لا تكذبوا علي فإنه من كذب على فليلج النار 11
"مجھ پر جهوٹ نہ باندها كرو جس نے ميرے نام سے جهوٹ بولا وہ جہنم ميں جائے گا۔"
حضرت على سے يہ بهى منقول ہے:
فلأن أخرّ من السماء أحب إلي من أن أكذب عليه 12
"رسولِ اكرمﷺ كى طرف بات منسوب كرنے كى نسبت مجهے آسمان سے گرنا گوارا ہے۔"
جب ان كے سامنے كوئى حديث بيان كرتا تو ا س كى صحت كے لئے اس سے قسم ليتے تهے اور خود بهى روايت كرتے تو إي وربّ الكعبةكہہ كر بيان كرتے۔ 13
حضرت على كے پاس احكامِ نبويہ كا ايك مجموعہ بهى تها جس كى وہ دل و جان سے زيادہ حفاظت فرماتے تهے۔ حتىٰ كہ لوگوں كو غلط فہمى ہونے لگى كہ شايد اس ميں كوئى خاص باتيں ہيں ۔ اس پر حضرت على نے يہ مجموعہ لوگوں كو دكهايا تها۔
حديث ِرسول سے استغنا ہوتا تو وہ اس كى اتنى حفاظت كيوں كرتے اور روايت ميں اس حد تك احتياطكيوں فرماتے؟
كثير الروايہ اصحابِ رسول اور ان كے شخصى محاسن
اصحابِ رسول رضى اللہ عنہم كى مجموعى تعداد ايك لاكہ كے قريب ہے اور سب كے سب رسول اللہﷺكى محبت سے سرشار اور آپ كے جاں نثار تهے۔ دين پر عمل اور ا س كى نشرواشاعت كے لئے سب كى خدمات انتہائى قابل قدر اور مساعى جميلہ لائق تحسين ہيں ۔ اگر ان كو خدمت ِاسلام كے مختلف شعبوں كے حوالے سے ديكها جائے تو ان ميں تخصصات كے رجحانات معلوم ہوتے ہيں اور ان كى طبائع كے مطابق تقسيم كار ہى اسلام كى كامياب نشرواشاعت كا بڑا سبب نظر آتا ہے۔
جيسے بعض صحابہ كرام كو قرآنِ كريم سے خصوصى شغف تها يا ان كے مزاج و طبيعت اور استعداد كے پيش نظر آنحضرتﷺ نے اُنہيں كاتب ِوحى كے طور پر قرآنِ كريم كى كتابت كے لئے منتخب فرمايا تها، بالكل ويسے ہى توفيق ِبارى سے ايك خاص جماعت ِصحابہ كو حفظ وكتابت كا خصوصى اعزاز حاصل ہوا اور كل ميسر لما خلق لہ كے مطابق اُنہيں اللہ نے اس كى خصوصى صلاحيت سے نوازا تها اور رسولِ اكرمﷺ كى خصوصى دعائيں اور تربيت بهى ان كو ميسر تهى اور ان كى تعليم بهى اسى انداز سے ہوئى تهى۔ ان كى ثقاہت، سنت ِنبويہ سے خصوصى لگاؤ، اُسوہٴ نبوى كا تتبع ان كى اس عمل مبارك كے لئے موزونيت كا واضح ثبوت ہے۔ ان ميں سرفہرست خلفاے راشدين كے علاوہ
1 حضرت ابوہريرہ (م57ھ)
2 حضرت عبداللہ بن عمر (م75ھ)
3 حضرت انس بن مالك (م93ھ)
4 حضرت عائشہ صديقہ (م49ھ)
5 حضرت عبداللہ بن عباس (م68ھ)
6 جابر بن عبداللہ انصارى (م74ھ)
7 حضرت ابوسعيد خدرى (م46ھ)
8حضرت عبداللہ بن مسعود (م32ھ)
9 حضرت عبداللہ بن عمرو (م65ھ) ہيں ۔
صرف ان نو حضرات صحابہ كى روايات كى مجموعى تعداد اٹهارہ ہزار چار سو اڑسٹھ (18468) ہے۔ يہ احاديث كى مجموعى تعداد كے ايك ثلث سے بهى زيادحصہ ہے جس سے اندازہ لگايا جاسكتا ہے كہ حفاظت ِحديث كا عہد ِنبوى ميں كس قدر اہتمام تها۔ اس كے لئے يہ كہنا كہ تيسرى صدى ميں احاديث وضع كى گئى ہيں ،محض احمقانہ اور جاہلانہ الزام ہے۔ ان ميں سے بهى سب سے زيادہ تعداد حضرت ابوہريرہ كى مرويات كى ہے جو پانچ ہزار تين سوچوہتر(5374) ہے۔ جيسا كہ پہلے ذكر ہوا، ان احاديث كو ان كى بہ حالت ِاسلام زندگى پر تقسيم كريں تو روزانہ كى اوسط پانچ يا چہ احاديث بنتى ہيں جو قطعاً قابل تعجب نہيں ہيں ، يعنى احاديث كى مجموعى تعداد بهى ايسى نہيں كہ اس پرتعجب ہو اور اصحابِ رسول كى انفرادى مرويات كى تعداد بهى غير معقول نہيں ۔ اس كے بعد وضع حديث كے الزام كى كيا حقيقت رہ جاتى ہے!!
پهر ان كثير الروايہ صحابہ كرام كى سيرو سوانح اور شخصى اوصاف اور ذاتى محاسن پر نظر ڈاليں تو صحت و صداقت ِحديث پر دل مزيد اطمينان محسوس كرتا ہے۔ والحمد اللہ على ذلك
انتہائى اختصار سے چند معروضات پيش خدمت ہيں ، اس اميد كے ساتھ كہ آپ صدقِ دل سے ان كى شخصيات كى خدمات كا مطالعہ كريں گے۔ ان شاء اللہ
1 حضرت ابوہريرہ
سات ہجرى، غزوہٴ خيبر كے سال اسلام لائے۔ بڑے صالح و متقى، عابد و زاہد، شب زندہ دار اور روزے كا اہتمام كرنے والے تهے۔ نبىﷺ كے ساتھ بڑى محبت كرتے تهے۔ ہمہ وقت صحبت ِنبوى ميں رہتے تهے۔ سفر و حضر ميں آپ كے ساتھ ہوتے۔ اصحابِ صفہ جو آنحضرتﷺ كے تلاميذ ِخاص تهے، ابوہريرہ ان ميں سربرآوردہ تهے۔ علم كا شوق فراواں تها، مال و متاعِ دنيا سے مكمل طور پر مستغنى تهے۔ اللہ پاك نے قناعت كى دولت سے نوازا ہوا تها۔ صحبت ِنبوى كا پورا عرصہ (چار برس) ايك لمحہ بهى حصولِ علم سے غفلت نہيں برتى، پورى كوشش كرتے كہ كوئى حديث سننے سے رہ نہ جائے۔
صحيح بخارى و مسلم ميں ان سے مروى ہے :
"قلت يارسول الله! أسمع منك أشياء فلا أحفظها قال:(أبسط رداء ك) فبسطتُّه فحدَّثَ حديثًا كثيرا فما نسيتُ شيئا حدثني به" 14
"ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول! ميں آپ سے كئى باتيں سنتا ہوں مگر ياد نہيں ركھ پاتا، آپ نے فرمايا: اپنى چادر پهيلاؤ تو ميں نے چادر پهيلا دى۔ پهر آپ نے مجهے بہت سارى احاديث بيان فرمائيں ، آپ نے جو بيان فرمايا، پهر مجهے اس ميں سے كچھ نہيں بهولا۔"
ايك دن ابوہريرہ نے عرض كيا:اے اللہ كے رسولﷺ! روزِ قيامت آپ كى شفاعت كى سعادت سب سے زيادہ كسے حاصل ہوگى ؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
"لقد ظننت يا أبا هريرة أن لا يسألني عن هذا الحديث أحد أوّل منك لما رأيت من حرصك على الحديث، أسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة من قال لا إله إلا الله خالصًا من قلبه" 15
"اے ابوہريرہ !تيرے علم حديث كے شديد شوق كى وجہ سے مجهے يہ يقين تهاكہ تجھ سے پہلے اس حديث كے بارے ميں مجھ سے كوئى نہيں پوچهے گا۔ قيامت كے روز ميرى شفاعت كى سعادت سب سے زيادہ اسے حاصل ہوگى جس نے اخلاصِ قلب سے لا إله إلا اللہ كہا ہوگا۔"
محمد بن عمارہ بن عمرو بن حزم ايك روز حضرت ابوہريرہ كى مجلس حديث ميں بيٹهے تو آخر ميں نتيجہ نكالا كہ
"فعرفت يومئذ أنه أحفظ الناس عن رسول الله ﷺ"
"اس دن مجهے معلوم ہوا كہ ابوہريرہ حديث ِرسول اللہ كے سب لوگوں سے بڑھ كر حافظ ہيں ۔"16
اور خود ابوہريرہ كا بيان ہے :
"كنت أكثر مجالسة رسول اللهﷺ أحضر إذا غابوا وأحفظ إذا نسوا"
"ميں آنحضرت ﷺ كى مجلس ميں حاضرى كا سب سے زيادہ اہتمام كرتا تها۔ جب لوگ غائب ہوتے تو ميں حاضر ہوتا اور جب لوگ بهول جاتے تو ميں ياد ركهتا تها۔" 17
حضرت زيد بن ثابت كے پاس ايك دن مسئلہ پوچنےي كے لئے ايك صاحب تشريف لائے۔ حضرت زيد بن ثابت نے كہا كہ حضرت ابوہريرہ كے پاس جائيے اور اس كى وجہ بهى بتائى كہ ميں آپ كو ابوہريرہ كے پاس كيوں بهيج رہا ہوں ۔ فرمانے لگے كہ ايك دن ہم مسجد ميں بيٹہے تهے، ايك ميں تها، ايك اوردوسرے ابوہريره تهے۔ ہم ذكر واذكار كررہے تهے اور دعائيں مانگ رہے تهے، اتنے ميں محمد رسول اللہﷺ تشريف لائے اور ہمارے پاس بٹھے گئے۔ ہم محمد رسول اللہﷺ كو ديكھ كر ادباً خاموش ہوگئے۔ آپﷺ نے فرمايا خاموش كيوں ہوگئے ہو؟ جو كام پہلے كررہے تهے، وہ جارى ركهو ، ہم نے دعا شروع كردى ۔ ہم دونوں دعائيں كررہے تهے اور نبىﷺ آمين آمين كہہ رہے تهے۔ جب ہم دعا كرچكے تهے تو ابوہريرہ نے دعا كى۔ حضرت ابوہريرہ نے دو لفظوں ميں بڑى مختصر دعا كى: اے اللہ! ميں تجھ سے وہ مانگتا ہوں جو تجھ سے ان دو ساتهيوں نے مانگا ہے۔ امام الانبياء نے فرمايا: آمين! اور ساتھ كہا: "اللهم إني أسئلك علما لا ينسى" ايك اور دعا مانگتا ہوں كہ اے اللہ ميں ايسے علم كا سوال كرتا ہوں كہ وہ بهولے نہ۔ امام الانبياﷺ نے فرمايا: آمين! زيد بن ثابت نے كہا: ہم نے عرض كيا اللہ كے رسولﷺ! ہم بهى يہ دعا مانگتے ہيں كہ اے اللہ ہميں بهى ايسا علم حاصل ہو جونہ بهولے ۔
تو آپﷺ نے فرمايا:
قد سبقكم بها الغلام الدوسي
ايك دوسى نوجوان سبقت لے گيا ہے، اس نے مانگ ليا اورتم رہ گئے۔18
حضرت ابوہريرہ كے پاس احاديث ِنبويہ كا ايك بڑا مجموعہ لكها ہوا بهى موجود تها، جس ميں سے اُنہوں نے ہمام بن منبہ يمنى كے لئے انتخاب كركے ايك مختصر مجموعہ بهى لكوىايا تها جو صحنگما ميں مروى ہے۔ يہ مجموعہ اس سے پلےو مسند احمد بن حنبل اور مصنف عبدالرزاق ميں ذكر ہوچكا ہے اور گذشتہ سالوں ميں اس كا اصل نسخہ بهى تحققم كے ساتھ شائع ہوچكا ہے۔
ابوہريرہ كى ديانت،امانت اور ثقاہت، نيكى و تدين اور زہد و تقوىٰ، پهر شوقِ حصولِ علم اور صحبت ِنبوى كا اہتمام اور حفظ و كتابت ِحديث اور درس و تدريس سے خصوصى شغف اور ان كے مجموعے كا بعينہ مل جانا يہ اس امر كے قطعى دلائل ہيں كہ ان كى مرويات محفوظ اور شك و شبہ سے بالا ہيں اور نہايت قابل اعتماد ہيں ۔
فَبِأَىِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُۥ يُؤْمِنُونَ ﴿١٨٥﴾...سورة الاعراف
2 حضرت عبداللہ بن عمر
آپ اميرالمومنين حضرت عمر بن خطاب كے بيٹے تهے۔ بچپن ميں ہى ايمان لے آئے تهے۔ گيارہ برس كى عمر ميں اپنے والد ِگرامى كے ساتھ ہجرت كى۔ متعدد جہادى مہمات ميں شركت كى۔ اتباعِ سنت نبويہ ميں آپ ضرب المثل ہيں ۔ آنحضرت ﷺ سے بے پناہ محبت تهى۔ آپ كا ذكر ہوتا تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اكثر حضورﷺ كى مجلس ميں حاضر رہتے۔ غائب ہوتے تو دوسروں سے پوچهتے كہ آپ نے كيا فرمايا تها۔ تذكرة الحفاظ ميں ہے:
"كان ابن عمر حبر هذه الأمة" 19
"ابن عمر اس اُمت كے بڑے عالم تهے۔"
آنحضرتﷺ سے براہ راست بهى روايات حاصل كيں اور حضرات ابوبكر،عثمان، ابوذرّ غفارى، معاذ اور ام المومنين عائشہ صديقہ سے بهى احاديث حاصل كيں ۔ صحابہ و تابعين ميں ان كے تلامذہ كى بڑى تعداد پائى جاتى ہے۔ عبداللہ بن مسعود سے مروى ہے :
"أملك شباب قريش لنفسه عن الدنيا عبدالله بن عمر"20
"قريش كے نوجوانوں ميں دنيا طلبى كے سلسلے ميں اپنے نفس پر سب سے زيادہ قابو عبداللہ بن عمر كو تها۔"
ان كى ہمشيرہ حضرت حفصہ رسولِ اكرمﷺ كے حبالہ عقد ميں تهيں ، اس لئے اُنہيں صحبت نبوى كا فيض بكثرت حاصل تها۔ اسلام بهى جلد قبول كرليا، علم كا شغف بهى تها، اس لئے كثير الرواية صحابہ ميں شمار ہوتے ہيں ۔ ان كى مرويات كى تعداد دو ہزار چھ سو تيس (2630)ہے۔ ان كے پاس ايك مكتوب مجموعہ حديث بهى موجود تها جس كى اكثر مراجعت كرتے رہتے تهے۔
3 انس بن مالك
يہ رسول اللہﷺ كے خادمِ خاص تهے۔ ان كى والدہٴ محترمہ اُمّ سليم بنت ملحان نے اپنے اس خوش بخت لخت ِ جگر كو رسولِ اكرمﷺ كى خدمت كے لئے ان كے حضور پيش كرديا تها۔ جسے آپ نے قبول فرما ليا تها۔ اس طرح اُنہوں نے خاندان ِ نبوى ہى ميں پرورش پائى، آنحضرتﷺ اُنہيں نہايت عزيز ركهتے تهے۔ اُسوہٴ رسولﷺ كا جو مشاہدہ ان كے حصے ميں آيا، وہ شايد ہى كسى كو نصيب ہوا ہو۔ بڑے ہى نيك دل زاہد و عابد تهے۔ نماز كا بڑا اہتمام فرماتے تهے۔ حضرت ابوہريرہ كا بيان ہے كہ
"ما رأيت أحدا أشبه صلاة برسول الله من ابن أم سليم"
"ميں نے اُمّ سليم كے بيٹے سے بڑھ كر آنحضرتﷺ كى نماز كے مشابہ نماز پڑهنے والا كوئى نہيں ديكها۔" 21
ان كى مرويات كى تعداد دو ہزار دو سو چهياسى (2286)ہے۔
آنحضرتﷺ سے براہ راست روايت كرنے كے علاوہ اُنہوں نے حضرات ابوبكر، عمر، ابن مسعود، فاطمہ الزہرا، عبداللہ بن رواحہ اور عبدالرحمن بن عوف سے احاديث روايت كى ہيں ۔ ان كے پاس احاديث پر مشتمل ايك مكتوب صحيفہ تها۔ وہ فرماتے تهے كہ يہ احاديث ميں نے حضورﷺ سے سن كر لكهى ہيں اور انہيں حضور كے سامنے پيش بهى كيا ہے۔22
4 اُمّ المؤمنين عائشہ صديقہ
نبى مكرمﷺ كے رفيق ِخاص ابوبكر صديق كى بيٹى اور آنحضرتﷺ كى محبوب ترين اہليہ تهيں ۔ اُنہوں نے نبىﷺ كى رفاقت ميں آٹھ برس پانچ ماہ بسر كئے۔ آپ كے پاس ہى ان كى علمى و عملى تربيت ہوئى۔ بلا كى ذہين و فطين تهيں ، حصولِ علم كا جذبہ صادقہ تها، صحابہ كرام ميں سب سے بڑھ كر نقاد تهيں ۔ عورتوں كے مسائل ميں اُ نہيں سند كا درجہ حاصل تها۔ نہايت صالحہ، تقيہ اور سخى خاتون تهيں ، ان كى عصمت كى شہادت قرآن ميں نازل ہوئى۔ صحابيات ميں سب سے زيادہ مرويات انہى سے منقول ہيں ۔ بڑے فقہا ميں شمارہوتى ہيں ۔ جليل القدر صحابہ كرام بهى ان كے علم و فضل اور عظمت و فضيلت كے معترف تهے۔
تذكرةالحفاظ ميں ان كے بارے ميں منقول ہے :
"كانت عائشة أعلم الناس يسألها أكابر الصحابة23
"عائشہ سب سے بڑہ كر عالم تهيں ۔ بڑے صحابہ بهى ان سے مسائل دريافت كرتے تهے۔"
حضرت ابوموسىٰ كا بيان ہے:
"ما أشكل علينا أصحاب محمد ﷺ حديث قط فسألنا عائشة إلا وجدنا عندها منه علمًا" 24
"ہم اصحابِ رسول حديث كے بارے ميں كبهى كوئى اشكال محسوس كرتے، تو عائشہ صديقہ سے دريافت كرتے تو اُنہيں ضرور اس كا علم ہوتا۔"
اُنہوں نے آنحضرتﷺ سے بهى احاديث روايت كى ہيں ۔ اس كے علاوہ اپنے والد ابوبكر صديق، عمرفاروق، سيدہ فاطمتہ الزہرا، سعد بن ابى وقاص وغيرہ سے بهى ان كى مرويات ہيں ۔ ان سے روايت كرنے والوں ميں تابعين كى كثير تعداد كے علاوہ حضرت عمر، ابن عمر، ابوموسىٰ اور ابن عباس جيسے لوگوں كے نام معروف ہيں ۔ ان كى مرويات كى تعداد دو ہزار دو سو دس (٢٢١٠) ہے۔ ان كے بهانجے عروة بن زبير سے منقول ہے كہ وہ حضرت عائشہ كى اجازت سے ان كى احاديث لكهتے تهے۔ پهر دوسرے صحابہ كى روايات سے ان كا مقابلہ كرتے تهے، پهر اپنا مجموعہ مرتب كرتے تهے جسے حضرت عائشہ نے پسند فرمايا اور ا س كى اجازت بهى دى۔
5 عبداللہ بن عباس
رسولِ اكرمﷺ كے چچا زاد بهائى اور آپ كى اہليہ محترمہ حضرت ميمونہ كے بهانجے تهے۔ آنحضرتﷺ كى وفات كے وقت ان كى عمر صرف١٣ برس تهى، آنحضرتﷺ نے ان كے لئے خصوصى دعا فرمائى تهى :
(اللهم علِّمه الحكمة)25
"اے اللہ! اس كو علم و حكمت سكها دے۔"
آنحضرتﷺ كے ساتھ قرابت كى بدولت اُنہيں حصولِ علم كے بڑے مواقع ميسرآئے۔ شوقِ طلب بهى فراواں تها۔ ترجمان القرآن، حبرالأمةاور بحر كے القاب سے معروف تهے۔ آنحضرت ﷺ كى وفات كے بعد اصحابِ رسول سے اُنہوں نے بڑا علم حاصل كيا۔ اساتذہ كا بے حد احترام كرتے تهے۔ حصولِ علم كے لئے كسى صحابى كى خدمت ميں جاتے اور وہ سو رہا ہوتا تو اسے جگانے كى بجائے انتظار كرتے رہتے۔ ان كے بارے ميں عبداللہ بن عمر سے منقول ہے۔
"فإنه أعلم من بقي بما أنزل الله على محمد ﷺ" 26
" وہ محمدﷺ پرنازل ہونے والے علم كے سب سے زيادہ عالم تهے۔"
ان كى مجلس علم و تدريس بڑى باوقار ہوتى تهيں ، جس ميں قرآن، حديث، فقہ اور شعرو ادب كا تذكرہ رہتا اور تقوىٰ اور خشيت ِالٰہى كا بهى ان پر نماياں اثر ہوتا تها۔ بڑى ہى جامع العلم والعمل شخصيت كے مالك تهے۔ حضرت عمر ان كے علم پراعتماد كرتے اور اُنہيں بڑى اہميت ديتے تهے۔ ان كے اساتذہ اور تلامذہ كى فہرست بڑى طويل ہے۔ ان كى مرويات كى تعداد ايك ہزار چہ سو ساٹھ (١٦٦٠)ہے۔ ان كے پاس بهى احاديث ِنبويہ كا ايك لكها ہوا مجموعہ موجود تها۔ 27
6 جابر بن عبداللہ انصارى
اپنے زمانے ميں مدينہ طيبہ كے مفتى شمار ہوتے تهے۔ ان ستر صحابہ ميں شامل تهے جو بيعت عقبہ ميں حضور سے ملے تهے۔ بدر واُحد كے علاوہ تمام غزوات ميں آنحضرتﷺ كے ساتھ شريك ہوئے۔ رسولِ اكرمﷺ كے ساتھ بے حد محبت كرتے اور آپﷺ بهى ان سے محبت كرتے تهے۔ مقروض تهے، نبىﷺ نے از راہ شفقت ان كا قرض خود ادا كيا تها، تنگ دستى كے باوجود حصولِ علم ميں كوتاہى نہيں كى۔ آنحضرت ﷺ كى وفات كے بعد اصحابِ رسول سے بهى كسب ِفيض كيا۔ ابوبكر، عمر، على، ابوعبيدہ، طلحہ، معاذ بن جبل، ابوہريرہ اور ابوسعيد سے مرويات ليں ۔ ان كى احاديث كى تعداد ايك ہزار پانچ سو چاليس (1540)ہے۔ ان كا مكتوب صحيفہ حديث بہت مشہور ہے جسے امام مسلم نے كتاب الحج ميں نقل كيا ہے۔مشہور تابعى قتادہ بن دعامہ السدوسى كہا كرتے تهے:
"لأنا لصحيفة جابر أحفظ مني لسورة البقرة" 28
"مجهے جابر بن عبداللہ كا صحيفہ سورہ بقرہ سے بهى زيادہ ياد ہے۔"
7 حضرت ابوسعيد خدرى
بڑے ہى عالم باعمل صحابى رسول تهے۔ان چند صحابہ ميں سے تهے جنہوں نے آنحضرتﷺ كے ساتھ خصوصى عہد و پيمان كيا تها كہ دينى اُمور ميں وہ كسى ملامت كى پرواہ نہيں كريں گے۔ اُنہوں نے رسول اكرمﷺ كے علاوہ خلفاے اربعہ اور زيد بن ثابت سے بهى اكتسابِ فيض كيا۔ ان كى مرويات كى تعداد ايك ہزار ايك سو ستر (1170) ہے۔
8 حضرت عبداللہ بن مسعود
بڑے امين اور ديانت دار تهے۔ قبل از اسلام بكرياں چرايا كرتے تهے۔ يہى بكرياں ان كے اسلام لانے كا باعث بنيں ۔ ہجرتِ حبشہ سے بهى سرفراز ہوئے اور ہجرتِ مدينہ سے بهى۔ قديم الاسلام تهے۔ آنحضرت ﷺ كى طويل صحبت اُنہيں ميسر آئى۔ تمام غزوات ميں شريك ہوئے، غزوہٴ بدر ميں ابوجہل كاخاتمہ آپ ہى كے ہاتهوں ہوا۔ 29
متعدد مناصب پركام كيا۔ بالآخر عزلت نشينى اختيار كرلى تہى۔ آنحضرتﷺ نے ان كى حصولِ علم كى درخواست پر بشارت دى تہى:
"إنك لغلام معلم" 30
"تم پڑہے لكھے بچے ہو۔"
روايت ِحديث ميں بے حد محتاط تھے اور دوسروں كو بہى احتياط كا درس ديتے تہے۔ آدابِ روايت كا خصوصى خيال كرتے تھے۔ ان كے پاس بھى احاديث كا مكتوب مجموعہ تھا :
"عن معن قال أخرج لي عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود كتابا وحلف لي أنه بخط أبيه" 31
"مَعن سے مروى ہے كہ عبدالرحمن بن عبداللہ بن مسعود نے مجھے ايك كتاب نكال كر دكہائى اور قسم كھا كر كہا كہ وہ ان كے والد كے ہاتھ كى لكھى ہوئى ہے۔"
ايك آدمى آپ كے پاس آيا آپ كے چہرے كو ديكھتے ہى كہنے لگا،اُنہيں ديكھ كر خوش ہوتے اور فرماتے:
(كيف ملىٴ علما كيف ملىٴ علما)
"يہ علم سے بہرا ہوا ظرف ہے۔" 32
روايت ِحديث ميں شديد احتياط كے باوجود ان كى مرويات كى تعداد آٹہ سو اڑتاليس (848) ہے۔
I عبداللہ بن عمرو بن العاص
اپنے والد سے قبل اسلام قبول كيا، احسان كى زندگى بسر كرتے تهے۔ ان كے والد نے آنحضرتﷺ كے پاس ان كے راہبانہ طرزِ عمل كى شكايت بهى كى تهى۔ اكثر دربارِ رسالت ميں حاضر رہتے اورجو كچھ آنحضرتﷺ سے سنتے، اسے لكھ ليتے۔ آپ نے اُنہيں اس كى صريح اجازت بهى دى تهى۔ حضرت ابوہريرہ كو ان پر رشك بهى تها اور اعتراف بهى كرتے كہ ان كى احاديث مجھ سے بهى زيادہ تهيں ، ا س لئے كہ وہ لكھ ليتے اور ميں صرف ياد كرتا تها۔
صحابہ كرام ميں سب سے پہلے حديث كے مدوّن و كاتب ہيں ۔ ان كا الصحيفة الصادقة بہت مشہور و مستند تها۔ مسائل دريافت كرنے پر اس كى مراجعت كركے جواب ديا كرتے تهے۔ ان كا حلقہ درس بڑا وسيع تها اور اسے بين الاقوامى شہرت حاصل تهى۔ اہل بصرہ نے خصوصاً ان سے بہت كسب ِفيض كيا۔ ان كى مرويات كى تعداد سات سو پچاس (750) ہے۔ بعد ميں سياسى اُمور ميں مشغول ہونے كى وجہ سے انكى سند سے زيادہ احاديث نشر نہيں ہوسكيں ۔
ان تصريحات سے واضح ہوگيا ہے كہ عہد ِصحابہ ميں سركارى اور نجى دونوں سطح پر حفاظت حديث كے لئے بهرپور اہتمام تها جو بعد ميں بهى باقاعدہ فن كى حيثيت سے اُصول و ضوابط كے تحت جارى رہا۔ حتىٰ كہ حديث نبوى بڑے اسفار كے ذريعے حاصل كى جاتى رہى اور آخركار كتب حديث ميں مدون ہوكر ہر قسم كے شبہات سے بالا ہوگئى۔ الحمد لله على ذلك
اوپر جن صحابہ كا ذكر ہوا، يہ وہ عظيم لوگ ہيں جن كى كثرتِ روايت معروف ہے۔ انہى كے ذريعے زيادہ روايات اُمت كے پاس پہنچى ہيں ۔ ان ميں سے ہر ايك شخص اس قابل ہے كہ طلباے علم خصوصاً اور عام اہل اسلام عموماً ان كى سير و سوانح كو اپنے لئے مشعل راہ بنائيں ۔ كيونكہ اللہ تعالىٰ نے اپنى كتابِ مقدس، قرآنِ كريم اور اپنے رسولِ كريمﷺ كى حديث و سنت كى حفاظت جن پاك طينت لوگو ں سے كروائى، ان كى ظاہرى و باطنى صفائى كى شہادت خود آسمان سے نازل فرمائى ہے۔اللہ تعالىٰ ہمارے دلوں كو صحابہ كرام كى محبت سے منور فرمائے! آمين
حوالہ جات
1. صحيح بخارى: كتاب فضائل أصحاب النبي
2. الاصابہ:1/7
3. صحيح مسلم : 2538
4. مسلم :4610
5. صحيح بخارى: 3377
6. اعلام الموقعين:1/89
7. ج1/ص5
8. مقدمہ صحيح مسلم
9. تاريخ طبرى :3/446
10. مسنداحمد 1/470، ترمذى: كتاب العلم 5/35
11. بخارى:103
12. ايضاً: 3342
13. ابوداؤد:4763
14. ترمذى:3835
15. صحيح بخارى :99
16. سير أعلام النبلاء:2/617
17. مسند احمد:2/274
18. السنن الكبرىٰ :5839
19. 1/38
20. سيراعلام النبلا 3/211
21. سنن ابن ماجہ:827،مجمع الزوائد:2/135
22. تاريخ بغداد: 8/259
23. تذكرة:1/28، تہذيب: 12/435
24. سير أعلام النبلاء: 2/179 و تذكرہ: 1/28
25. جامع ترمذى :3824
26. الاصابہ 3/324
27. طبقات ابن سعد 5/293
28. التاريخ الكبير: 4/186
29. صحيح بخارى:3963
30. الاصابہ: 2/391
31. جامع بيان العلم:1/72
32. مستدرك، مناقب ابن مسعود3/318
i. مزید تفصیل : الصحابة کلہم عدول از پروفیسر طیب شاہین لودھی (محدث: 626 ، مارچ 1995ء)