مسجد ِاقصىٰ؛ صہيونيوں كے نرغے ميں !

اسرائيل كو تسليم كرنے پرپاكستان ميں صدر مشرف نے اگست2003ء ميں بحث مباحثہ كا آغاز كيا جو تاحال مختلف پہلوؤں سے جارى ہے-ابهى حال ہى (جنورى 2007ء) ميں جنرل پرويز مشرف 'ہم خيال ممالك كا گروپ' تشكيل دينے كے لئے مشرقِ وسطىٰ كے 5 ممالك كا دورہ بهى كر آئے ہيں جس كے نتيجے ميں اسلام آباد ميں ايران اور شام كو نظرانداز كركے باقى مسلم ممالك كے وزرا خارجہ كا اجلاس بهى منعقد ہوچكا ہے - صدر كے دورے كے فوراً بعد فرورى 2007ء ميں ايك بار پهر مسجد ِاقصىٰ كو صہيونى جارحيت كا نشانہ بننا پڑاہے- ان حالات ميں مناسب سمجها گيا كہ مسلمانانِ پاكستان كے سامنے مسجد ِاقصىٰ كے بارے ميں يہوديوں كے موقف اور صہيونيوں كے اس كردار كو پيش كيا جائے جو بوجوہ نظروں سے اوجہل ہوچكا ہے- زير نظر مضمون سے مسجد ِاقصىٰ كے بارے ميں بعض ضرورى حقائق سے مطلع كرنا ہى مقصود ہے-جہاں تك اس موضوع كے ديگر پہلو اور بعض دينى رسائل ميں مسجد ِاقصىٰ كى توليت پرايك شرعى بحث كا تعلق ہے تو اس كے لئے مستقل مضمون دركار ہے-



حضرت عمربن خطاب كے اوائل دورِ خلافت (14ہ/ 636ء) ميں حضرت ابو عبيد ہ بن جراح كى زير قيادت مسلمانوں نے بيت المقدس كو فتح كيا- اس كے بعد لگاتار 14 صديوں (1967ء) تك بيت المقدس كا شہر اور مسجد ِاقصىٰ مسلمانوں كى نگرانى ميں ہى رہے- درميان ميں 1099ء سے 1187ء(15/رجب583ہ) تك كے 88 برس ايسے گزرے جب بيت المقدس پر عيسائيوں نے قبضہ كرليا اورسلطان صلاح الدين ايوبى نے اسے ان كے قبضہ سے واگزار كرايا- 7 جون 1967ء كو يہوديوں نے پورے بيت المقدس پر اپنے قبضہ كو توسيع دے لى جبكہ اس سے قبل 1948ء ميں برطانيہ كے تعاون سے وہ فلسطين كى سرزمين پر اسرائيلى رياست بهى قائم كرچكے تهے-

1897ء ميں سوئٹزر لينڈ كے شہر بال ميں منعقد ہ عالمى كانفرنس كے نتيجے ميں بپا ہونے والى صہيونى تحريك كے دو بنيادى اہداف تهے: ايك تو ارضِ مقدس ميں يہوديوں كے لئے مستقل وطن كا قيام اور دوسرا مسجد ِاقصىٰ كى جگہ مزعومہ ہيكل سليمانى كى تعمير-1 صہيون كا لفظ دراصل بيت المقدس 2 يا اس پہاڑى كے لئے بولاجاتا ہے جس پر مسجد اقصىٰ موجودہے، اس لحاظ سے ارضِ مقدس كے علاقہ كو اپنے وطن كے لئے منتخب كرنا اور مسجد اقصىٰ كى جگہ اپنے معبد كو تعمير كرنا ہى تحريك ِصہيونيت كے بنيادى اہداف ہيں -

اس تحريك كے پہلے ہدف یعنى ارضِ مقدس كو يہودى وطن قرار دينے كے بارے ميں ياد رہنا چاہئے كہ برطانيہ نے اس مقصد كے لئے پہلے پہل يہود كو براعظم افريقہ كے بعض ممالك:ایتہوپيا، تنزانيہ وغيرہ دينے كى پيش كش بهى كى تهي كيونكہ بيت المقدس كويہ مقدس حيثيت تمام يہوديوں كے ہاں حاصل نہيں بلكہ بعض يہودى مثلاً افريسى فرقہ يہ حيثيت افريقى ملك ايتہوپيا كے ايك مقام كو ديتے ہيں اوران كے نزديك تابوتِ عہد بهى وہيں ہے- يہ فرقہ نہ بيت المقدس كو يہ حيثيت ديتا ہے اور نہ ہى ہيكل كوتعمير كرنے كا داعى ہے جبكہ سامرى فرقہ نابلس شہر كو مقدس حيثيت ديتا ہے 3 ليكن آخر كار يہود كے تسليم نہ كرنے كى بنا پر 1948ء ميں برطانيہ نے يہاں سے واپس جاتے ہوئے فلسطين كى سرزمين اس كے اصل باشندوں كى بجائے يہود كے حوالے كردى- اس بنا پر يہ كہا جاسكتا ہے كہ مسئلہ كشمير كى طرح قضيہ فلسطين... جو دنياكے دو اہم مسئلے اور جنگوں كى بنيادى وجہ رہے ہيں او رہردو مسلمانوں كے ساتھ ظلم روا ركہا گيا ہے... كو پيدا كرنے والى حكومت برطانيہ ہى ہے، جن كو بعد ميں حل كرنے كى بجائے ظالم كى سرپرستى كركے امريكہ مزيد پنپنے كے مواقع فراہم كررہا ہے-

جہاں تك اس سرزمين پر يہودى قبضے اور اسے ان كا وطن قرار دينے كا تعلق ہے تو عالمى قوتوں كى كهلم كهلا تائيد كے بعد ہى يہود كا اس پر غاصبانہ قبضہ ہواجس ميں اِنہى قوتوں كى مدد سے 1967ء ميں اسرائيل نے بيت المقدس تك مزيد توسيع كرلى- يہ اس مسئلہ كا ايك سياسى پہلو ہے اور ايك مستقل موضوع ہے كہ يہوديوں كو يہاں بساتے ہوئے عالمى قوتوں نے يہاں كے باشندوں سے كونسى زيادتيوں كا ارتكاب كيا- اس پہلو كو ہم فى الحال موٴخر كرتے ہيں -

جہاں تك تحريك ِصہيونيت كے دوسرے نظريے كا تعلق ہے يعنى مسجد اقصىٰ كى جگہ مزعومہ ہيكل سليمانى كى تعمير تو يہ واضح رہنا چاہئے كہ نہ صرف سپر قوتيں ، عالمى رائے عامہ بلكہ خود اسرائيلى حكومت نے بهى كبهى موجودہ 'مسجد ِاقصىٰ' پر قانونى حق ركہنے كا دعوىٰ نہيں كيا- صہيونيوں كے پاس محض ايك پروپيگنڈہ ہے كہ اس مسجد كے نيچے ہيكل سليمانى كے آثار موجود ہيں ، اس بنا پر جذباتى طورپر وہ اس مسجد كو نعوذ باللہ منہدم كركے يہاں ہيكل سليمانى بنانا چاہتے ہيں - يہى وجہ ہے كہ بيت المقدس پريہود كے غاصبانہ قبضہ كو 39 برس پورے ہونے كے باوجود اُنہوں نے كلمى كهلا سركارى طورپر اس كو منہدم كرنے كا عزم كبهى ظاہر نہيں كيا بلكہ وہ ہميشہ سے ہى بظاہر اس كي حفاظت كا ہى دعوىٰ كرتے رہے ہيں - چونكہ مسجد ِاقصىٰ اس وقت بيت المقدس (يہوديوں كا ديا ہوا نام:يروشلم) كى انتظاميہ كے زير نگرانى ہے، اس بنا پر يہود كوكئى ايسے جوازحاصل ہوجاتے ہيں كہ وہ مختلف حيلوں بہانوں سے عملاً مسجد پر جارحيت كے مرتكب ہوتے رہتے ہيں - اس مسجد پر مسلمانوں كے قانونى استحقاق كو يہوديوں كے تسليم كرنے كا پتہ اس امر سے بهى چلتا ہے كہ 1967ء ميں بيت المقدس پر قبضہ كرنے كے بعد اُنہوں نے اس مسجد كا متولى اُردن كے ہاشمى خاندان كو قرار ديا اوراس كے بعد سے احاطہ قدس كا كنٹرول بظاہر يروشلم كے مسلم وقف كے ہى حوالے ہے- 4

ايسے ہى جب بهى اس مسجد كو نقصان پہنچانے كى كوشش ہوئى تو اسرائيلى حكومت بظاہر اس كا مداوا كرنے كى كوششيں بهى كرتى رہى ہے- مثال كے طورپر ٢١/اگست 1969ء ميں جب آسٹريليا كے ايك يہودى ڈينس مائيكل (يا ڈينس روہان) كے ذريعے مسجد ميں آگ لگائى گئى جو 400 مربع ميٹر تك پهيل گئى تو اسرائيلى انتظاميہ نے عملاً آگ بجهانے كى كاروائيوں كو ممكنہ حد تك موٴخر كرنے كى كوشش كى تاكہ مسجد كو زيادہ سے زيادہ نقصان پہنچ سكے، ليكن دوسرى طرف اس يہودى كے خلاف اسرائيلى عدالت ميں مقدمہ بهى چلايا اور آخركار اس كو جنونى قرار دے كر برى كردياگيا- اس موقعہ پر مسجد كا كافى حصہ جل جانے كے علاوہ كئى نوادرات بہى شديد متاثرہوئے جن ميں وہ منبر بهى شامل تها جو سلطان صلاح الدين ايوبى نے بطورِ خاص اس مسجد ميں ركهوايا تها- اس وقت بهى يہودى حكومت نے اس سازوسامان كى از سر نو اصلاح كرانے كا دعوىٰ كيا اور اُردن كے ہاشمى خاندان سے ملنے والا ايسا ہى ايك منبر دوبارہ نصب بهى كرايا- ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے كہ اسرائيلى حكومت اپنى تمام تر انتہاپسندى اور تعصب كے باوجود يہ دعوىٰ نہيں كرتى كہ اس مسجد پر وہ من مانے تصرف كى مجاز ہے-

مسجد ِاقصىٰ كا انہدام تحريك ِصہيونيت كا مركزى نكتہ ہے ليكن اسرائيلى حكومت كو باضابطہ طورپر اس پر اپنا حق جمانے كى آج تك جرات نہ ہوسكى، اس مسجد پر مسلمانوں كے استحقاق كى وجہ تاريخى طورپر يہ ہے كہ جب مسلمانوں نے اس مقام پر مسجد كو تعمير كيا تها تواس وقت يہ جگہ ويران تهى، حضرت عمر نے خود يہاں سے كوڑا كركٹ صاف كركے اس مسجد كو قائم كيا تها- خليفہ راشد حضرت عمر كے بارے ميں يہ تصور بهى نہيں كياجاسكتا كہ آپ جيسا عادل حكمران كسى اور قوم كى عبادت گاہ پر اسلامى مركز تعمير كركے كسى دوسرى قوم كا مذہبى حق غصب كريں گے- بعض روايات ميں تويہاں تك آتا ہے كہ جب حضرت عمر بيت المقدس ميں آئے تو يہاں موجود عيسائيوں كے گرجاؤں ميں بهى آپ كو جانے كا موقع ملا، اور وہاں آپ سے نماز ادا كرنے كو كہا گيا تو محض اس بنا پر آپ نے وہاں نماز نہيں پڑهى كہ آپ كے اس فعل كو مبارك سمجھ كر بعد ميں آنے والے مسلمان اس جگہ پر مسجد تعمير كرنے كا خيال دل ميں نہ لے آئيں - بعدازاں مسلمانوں نے چودہ صديوں ميں مسجد ِاقصىٰ كى كئى بار اصلاح اور تعمير كى اور ہميشہ ا س مركز كو بهرپور تقدس فراہم كيا-

علاوہ ازيں تحريك ِصہيونيت جس ہيكل كى تعمير كى دعويدار ہے، 39 برس كى مسلسل كوششوں اور كهدائى كے باوجود اس سرزمين ميں اس كے آثار بهى كہيں دريافت نہيں كئے جا سكے- اس بنا پر بهى يہوديوں كو سركارى طورپر يہ اس مسجد پر اپناحق جمانے كى جرات نہيں ہوتى-

ليكن جہاں يہ حقيقت ہے كہ مسجد ِاقصىٰ پر اہل كتاب كا كوئى گروہ اپنا دعوىٰ كرنے كى جسارت نہيں كرسكتا، وہاں عملاً صہيونى تحريك كے پيدا كردہ جنون كے زير اثراسرائيل كے قيام كے دن سے يہ مسجد يہوديوں كى شر انگيزى كا نشانہ ہے- جب 1967ء ميں ابهى بيت المقدس پراسرائيل كا غاصبانہ قبضہ نہيں ہوا تها، اس سے پہلے رياست ِاسرائيل كے قيام كے بعد ہى اس مسجد پر گولہ بارى كا آغاز ہوگيا، جس كے نتيجے ميں پہنچنے والے نقصان كے مداوا كے لئے 1958ء ميں مسلم ممالك كے مشتركہ چندے سے مسجد كى تعمير كا آغاز كيا گيا- ياد رہے كہ ابهى اس سے چند برس قبل 1930ء سے 1942ء كے دوران مسجد كى اصلاح وتعمير كا كام برطانوى استعمار كے زير نگرانى مكمل كيا گيا تها - بعد ازاں 27 جون 1967ء كو بيت المقدس كو جب قانونى طور پر اسرائيلى حكومت نے اپنے تسلط ميں لے لياتو اس كے بعد سے يہوديوں كى شرانگيزيوں ميں كئى گنا اضافہ ہوگيا اور انہوں نے اس سے اگلے مہينے جولائى ميں ہى مسجد سے ملحقہ عمارتوں كو مسمار كرنا شروع كرديا-

مسجد ِاقصىٰ كا احاطہ 4400 مربع ميٹر پرپهيلا ہوا ہے جس ميں قبہ صخرہ، قبہ سلسلہ، قبہ موسىٰ، جامع نساء، جامع عمر، مصلى مروانى، سبيليں ، كنويں ، درسى چبوترے، وضوخانہ اور اسلامى ميوزيم وغيرہ شامل ہيں - اس احاطے ميں داخل ہونے كا مركزى راستہ احاطے كى جنوب مغربى ديوار ميں واقع ہے جسے باب المغاربہ كہتے ہيں - يوں تو اس احاطے ميں داخل ہونے كے اور بهى كئى دروازے ہيں جن كى تعداد ١١ ہے، ليكن يہ دروازہ اس اعتبار سے اہم ہے كہ احاطے ميں موجود مسجد اقصىٰ تك پہنچنے كا اصل دروازہ يہى ہے- اس دروازے ميں داخل ہوتے ہى دائيں ہاتھ اسلامى ميوزيم ہے، اور سامنے مسجد ِاقصىٰ ہے جس كے دائيں پہلو ميں خواتين كے لئے جائے نمازہے اور بائيں پہلوميں وہ ہال ہے جس كو جامع عمر كہا جاتا ہے- اس مركزى مسجد سے قدرے ہٹ كر احاطے كے دوسرے نصف ميں قبہ صخرہ موجود ہے- يہ وہى سنہرا گنبد ہے جسے ميڈيا ميں عموماً مسجد اقصىٰ كے طورپر پيش كيا جاتا ہے، جبكہ درحقيقت ايسا نہيں - اس گنبد كے جنوبى سمت ايسى ہى ايك چهوٹى عمارت بهى ہے جو قبہ موسىٰ كے نام سے مشہور ہے-مسجد ِاقصىٰ كا مركزى دروازہ جو اس احاطے كے جنوب مغرب ميں واقع ہے، كے ساتھ ہى وہ ديوار بهى ہے جس كے بارے ميں يہ كہا جاتا ہے كہ يہاں معراج كى رات نبى كريم ﷺنے براق كو باندها يا كهڑا كيا تها- اس تفصيل كو بيان كرنے كا مقصد ايك تو ان اُمور كى اصلاح ہے جو ميڈيا پر پيش كئے جاتے ہيں ، دوسرے اس زمينى حقيقت كو جاننے كے بعد ہى مسجد ِاقصىٰ كے بارے ميں حاليہ اقدامات كى سنگنىص كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے- چونكہ مسجد ِاقصىٰ كا يہ مركزى دروازہ ہے اور اس كے ساتھ ديوارِ براق بهى واقع ہے، جسے يہودى ديوارِ گريہ كا نام ديتے ہيں ، اسلئے اس سارے احاطے ميں اس جنوب مغربى حصہ كے اہميت كئى لحاظ سے كافى بڑھ جاتى ہے اور حاليہ جارحيت كى طرح پہلے بهى برسہا برس مسجد كا يہى حصہ يہودى شورشوں اور سازشوں كا مركز رہا ہے- 5

اس دروازہ كے باہر واقع رہائشى علاقہ كا نام حى المغاربہ (مراكشى محلہ) ہے- جون 1967ء ميں بيت المقدس پر يہودى تسلط كے فوراً بعد جولائى ميں جن عمارتوں كومسمار كيا گيا، وہ يہى مراكشى محلہ تها- تاريخى طورپر يہ علاقہ سلطان صلاح الدين ايوبى نے بيت المقدس كوعيسائيوں سے واگزار كرانے كے بعد مراكشيوں كى خدمات كے اعتراف ميں ان كو عطا كيا تها- جب جولائى 1967ء ميں اس علاقے كو مسمار كيا گيا تو اس كے نتيجے ميں تين ہزار گهرانے بے گهر ہوگئے اور اس ميں موجود چار مسجديں اور ايك مدرسہ افضليہ 6 بهى ڈھا ديا گيا- اسى علاقے ميں مسجد ِاقصىٰ كے زائرين اور حصولِ علم كے لئے آنے والے طلبہ واساتذہ سكونت پذير ہوتے تهے- اب اس مقام پر گذشتہ 39 برسوں ميں يہوديوں نے جديد عمارتيں تعمير كرلى ہيں -

بيت المقدس پر تسلط كے پہلے ماہ ميں ہى ايسى جارحانہ كاروائيوں كا نوٹس ليتے ہوئے يہ مسئلہ اقوامِ متحدہ ميں اٹهايا گيا اور اقوام متحدہ كى جنرل اسمبلى اور سلامتى كونسل نے فورى طورپر 4/جولائى 1967ء كو يہ قرار داد منظور كى كہ بيت المقدس كى سابقہ حيثيت ميں كوئى تبديلى نہيں كى جائے گى-يہ بهى قرار ديا گيا كہ مسجد اقصىٰ ميں موجود تمام آثار كے متولى مسلمان ہى ہيں ، كوئى اور قوم اس ميں شريك وسہيم نہيں -اسلامى تصورات سے قطع نظر مسلمانوں كے اس مقدس مقام پر تاريخى استحقاق كى يہ تيسرى بنياد ہے كہ عالمى رائے عامہ بهى اسے تسليم كرتى ہے-

چنانچہ صہيونى تحريك نے جب يہ جان لياكہ وہ نہ تو خود اپنے اساسى نظريہ كو برملا كہنے كى قوت ركهتے ہيں اور عالمى رائے عامہ بهى اس سلسلے ميں اُنہيں كوئى قانونى جواز فراہم نہيں كررہى تو اُنہوں نے مختلف حيلوں بہانوں سے اپنے ہدف كى طرف پيش قدمى جارى ركهى- چنانچہ اقوامِ متحدہ كى قراردادوں كى صريحاً بهى مخالفت كى گئى اور درپردہ بهى، مثلاًبيسيوں مرتبہ مختلف بہانوں سے مسجد اقصىٰ كے نيچے كهدائى كروا كر سرنگيں نكالى گئيں حتىٰ كہ 28/اگست 1981ء كو يہ انكشاف ہوا كہ يہ سرنگيں مسجد كے صحن تك پہنچ چكى ہيں جو 1988ء ميں مزيد آگے بڑهتے ہوئے قبہ صخرہ كے نيچے تك جا پہنچيں - 1996ء ميں ايريل شيرون نے باقاعدہ مسجد اقصىٰ كے نيچے ايك سرنگ كا افتتاح كيا جس كى وضاحت كرتے ہوئے عبرانى روزنامہ يديعوت احرنوت نے اپنى 21/مارچ 1997ء كى اشاعت ميں برملا كہا كہ يہودى 2 ہزار برس قديم اس راستے كى تلاش ميں ہيں جو شہر كے اندرونى حصہ سے ہكلگ سلمامنى كى طرف جاتا ہے-بڑے پيمانے پر كهودى جانے والى ان سرنگوں كا مقصددراصل يہ ہے كہ كسى طرح يہ مسجد از خود منہدم ہوجائے او را سے قدرتى آفت قرار دے ديا جائے-

مزيدبرآں مسجد سے ملحقہ مقبرہ ميں 417 قبروں كو مسمار كركے اسے سكيڑ ديا گيا، دائرہ اوقافِ اسلاميہ كى ايك رپورٹ كے مطابق 1998ء تك 3570 كے لگ بهگ اسلامى آثار كو منہدم كرديا گيا- يہ تو وہ اقدامات ہيں جو اقوام متحدہ كى قراردادوں سے صريحاً متصادم ہيں ، البتہ مسجد اقصىٰ كو براہ راست نقصان پہنچانے كى وه پهر بهى ہمت نہيں كرسكے ليكن ا س كے لئے موزوں فضا كى تيارى ميں اُنہوں نے كبهى كوئى كوتاہى نہيں كى، مثلاً انتہاپسند تنظيموں اور ذرائع ابلاغ كو مسجد اقصىٰ كو مسمار كرنے كے نظريے كى كهلے عام ترويج كرنے كى اجازت اور ترغيب دينا، بيت المقدس ميں كهلے عام گاڑيوں ميں ايسے اعلانات اور نغمے / ترانے نشر كرنا جن ميں مسجد ِاقصىٰ كے خلاف عوامى غيض وغضب كو بهڑكايا جائے- انہى اقدامات كا نتيجہ يہ ہے كہ 11/ مئى 1980ء، 25/ جولائى1982ء، 10/اگست 1984ء اور 10/ ستمبر1998ء كى تاريخوں ميں چار مرتبہ اس مسجد كو بموں اور دہماكہ خيز مواد سے مسمار كرنے كى كوششيں كى گئيں جبكہ مسجد كى بے حرمتى كے واقعات تو اَن گنت ہيں -

مزعومہ ہيكل كى تعمير كا جنون
فرورى 2007ء ميں مسجد ِاقصىٰ ميں ہونے والى جارحيت يوں تو اس تمام كاروائى كا ايك تسلسل ہے جو كم وبيش 39 برس سے كسى نہ كسى شكل ميں جارى ہے ليكن بعض پہلوؤں سے اب يہ كوششيں حتمى مرحلہ ميں داخل ہوتى نظر آرہى ہيں -صہيونيوں كى يہ خواہش ہے كہ بيت المقدس پر قبضہ كے چاليس سال پورے ہونے پر وہ مزعومہ ہيكل سليمانى كى تعمير كا آغاز كرديں ، ياد رہے كہ 18 برس قبل 17/اكتوبر 1989ء كو وہ مسجد اقصىٰ كے ساتھ تين سو پانچ ٹن وزنى پتهر ركھ كر اس كاسنگ ِبنياد ركھ چكے ہيں - اور اس سے اگلے برس 18/اكتوبر 1990ء كو مسجد اقصىٰ كے اندر بهى اس ہيكل كى تعميركى كوشش كرچكے ہيں -اب عوامى پيمانے پر ہيكل كى تعمير كے لئے پهيلايا جانے والا جنون اس قدر بڑھ چكا ہے كہ اس منصوبے كو مزيد موٴخر كرنا مشكل ہوتا جارہا ہے- باخبر ذرائع كا كہنا ہے كہ اب يہودى علما نے ہيكل كى تعمير كے آغاز كے لئے دن كا بهى تعين كر ديا ہے اور وہ دن 14/مئى 2008ء كا ہے جب اسرائيل كے قيام كو 60 برس پورے ہوجائيں گے -

اس سلسلے ميں فضا كو مزيد سازگار بنانے كے لئے يہودى علما سے شرعى رائے7(فتوے) ليے گئے ہيں ، صہيونى تنظيموں نے ہيكل كے چهوٹے ماڈل تياركركے دنيا بهر كے يہوديوں ميں تقسيم كرديے ہيں تاكہ اس اقدام پر اسرائيل كو مالى اور معنوى ہرطرح كى امداد اورتعاون حاصل ہوسكے، وہ كپڑا بهى سيا جا چكا ہے جو ہيكل سليمانى كى مختلف عمارتوں پر چڑهايا جائے گا، ہيكل كے وسط ميں لٹكانے كے لئے فانوس بهى تيار كيا جاچكا جس ميں 'قادم بينوچز' نامى يہودى تاجر نے 42 كلوگرام سونا عطيہ ديا ہے، اس يہودى قبيلہ كا تعين بهى كرليا گيا ہے جو مزعومہ ہيكل كے انتظامى اُمورسنبهالے گا، قبلہن كانام 'ليفى' ہے- ہيكل كى حفاظت كے لئے گارڈز اور يہودى علما كا انتخاب بهى عمل ميں آچكا ہے- ہيكل كے سلسلے ميں حتمى اقدامات كے لئے 30كے قريب انتہاپسند يہودى تنظيموں نے جنورى2007ء كے آخر ميں اتحاد كرليا ہے-

حاليہ جارحيت
اس مہم ميں تيزى اس وقت آئى جب 24 جنورى 2007ء كو اسرائيل كى آثارِ قديمہ اتهارٹى نے يہ دعویٰ كيا كہ مسجداقصىٰ كے نيچے ہيكل سلماينى كى وہ سڑك دريافت كرلى گئى ہے جو ديوارِ براق سے ديوارِ سلوان كى طرف جاتى ہے-

ايك طرف صہيونيوں كے خود ساختہ دعووں اور يكطرفہ اقدامات كى يہ كيفيت ہے اور دوسرى طرف مسجد ِاقصىٰ كے علاقے ميں نہ صرف مسلمانوں كى آزادانہ آمد ورفت پر پابندى اور سركارى اجازت كے بغير مسجد اقصىٰ ميں داخلہ بهى بند ہے بلكہ اس علاقے كى تصوير وغيرہ لينا بہى ممنوع ہے- اقصىٰ فاؤنڈيشن اور معتبر مسلم ذرائع كا كہنا ہے كہ اسرائيل نے مسجد اقصىٰ كے جنوب مغربى ديوا ركے نيچے واقع دوحجروں كو شہيد كرديا ہے جبكہ اسرائيلى ميڈيا مثلاً عبرانى روزنامہ يديعوت احرنوت كا دعوىٰ ہے كہ يہ حجرے اور ديوارِ براق سے ملحقہ مسجدتو تين برس قبل شہيد كى جا چكى ہے اور اس كى تائيد ميں اسرائيلى ماہر آثار قديمہ كى يہ رپورٹ پيش كر دى جاتى ہے كہ تين برس قبل مراكشى دروازے كے پاس ايك مسجد كے آثار ملے تهے جسے اعلان كئے بغير مسمار كرديا گيا- اس كى ايك اور مثال يہ بهى ہے كہ جب ميڈيا ميں چند ماہ قبل يہ خبر شائع ہوئى كہ سابق اسرائيلى صدر موشے كستاف نے ايك يہودى معبد كا افتتاح كيا ہے تو اُس وقت فلسطينى مسلمانوں كوعلم ہوا كہ مسجد اقصىٰ سے بالكل ملحق اس مسجد كى جگہ پر ايك يہودى معبد تعمير كرديا گيا ہے جس ميں مرد وزن كيلئے دو عليحدہ ہال بنائے گئے ہيں -

مزيد برآں 10 جنورى 2007ء كو انتہاپسند يہودى تنظيم عطيرت كوہنيم نے بيت المقدس كى بلديہ سے مسجد اقصىٰ كے ايك اور دروازہ 'باب واد' (جو قبہ صخرہ كے بالمقابل ہے) سے متصلاً باہر قطانين بازار ميں 200 مربع فٹ پر ايك اور يہودى معبد خانہ بنانے كا اين او سى بهى حاصل كيا ہے جب كہ اس مقام پر بهى كئى اسلامى ياد گاريں موجود تهيں -

حاليہ اقدامات كا تعلق دراصل اس منصوبہ سے ہے جس كى رو سے مسجد اقصىٰ كو مسلمانوں اور يہوديوں ميں تقسيم كرنے كى سازش كى جارہى ہے- سابق اسرائيلى وزير اعظم ايريل شيرون نے 11/اپريل 2005ء كو واشنگٹن ميں اس منصوبہ كى دستاويزات اور تصاوير امريكى حكومت كے سامنے پيش كيں ، امريكى حكومت نے اس منصوبہ كو سراہا اور اپنا كردار ادا كرنے كى حامى بهرى- اس منصوبہ كى رو سے مسجد اقصىٰ كے جنوبى اور مغربى حصہ كو (جہاں درحقيقت مسجد اقصىٰ واقع ہے) شہيد كركے وہاں ہيكل سليمانى كى تعمير كرنا ہے-

اس منصوبہ كوسامنے ركهتے ہوئے حاليہ جارحيت كو تين مراحل ميں تقسيم كيا گيا ہے: مسجد اقصىٰ كے جنوب مغرب ميں واقع مغاربہ سڑك كو منہدم كرنا، اس سٹرك كى جگہ ايك پل تعمير كرنا اور تيسرے مرحلے ميں ديوارِ گريہ كى توسيع كرتے ہوئے جنوبى ديوار تك كے علاقہ كو اپنے قبضے ميں كرنااور وہاں ديوارِ براق (گريہ) كے ساتھ ايك بڑا يہودى معبد تعميركرنا-

ياد رہے كہ مغاربہ محلہ كى طرح مغاربہ سٹرك كو بهى سلطان صلا ح الدين ايوبى نے تعمير كرايا تها اور فلسطينيوں كے لئے مسجد اقصىٰ ميں داخل ہونے كا فى الوقت واحد راستہ يہى ہے- يہوديوں نے اس سٹرك كے نيچے كهدائى كركے اس كو كمزور كرديا جس كے نتيجے ميں 15/فرورى 2004ء كو سٹرك كا كچھ حصہ بارشوں كے باعث گرگيا-اسرائيلى حكومت نے اس سڑك كو خود تعمير كرنے يا مسلمانوں كو تعمير كى اجازت دينے كى بجائے 13/اگست 2006ء كو اسے مسمار كرنے كا فيصلہ كيا- جب 6 فرورى 2007ء كو بلديہ كے كئى بلڈوزروں نے اس سڑك اور اس سے ملحقہ ركاوٹوں كو مسمار كرنا شروع كيا تو ہزاروں فلسطينى مسلمان اس كو بچانے كے لئے جمع ہوگئے-اور 9 فرورى كو جمعہ كے بعد مسلمانوں نے شديد احتجاج كيا جس كے نتيجے ميں بلديہ كو كدرائى روكنا پڑى- ١١/ فرورى كو اسرائيلى كابينہ نے اپنے اجلاس ميں يہ قرار ديا كہ اس كهدائى سے مسجد اقصىٰ كو كوئى خطرہ نہيں ،اس كا مقصد تو دراصل ايك پل تعمير كرنا ہے جس سے مسلمانوں كے مسجد اقصىٰ ميں داخل ہونے كاراستہ فراخ ہوجائے گا-

ليكن اسرائيلى حكومت كى اس توجہ كو باخبر فلسطينى تنظںداخ تسليم كرنے سے انكارى ہيں ، كيونكہ ماضى ميں اسرائيل نے مسجد ميں مسلمان زائرين كے داخلے كى كبهى حوصلہ افزائى نہيں كى بلكہ مسجد كو پہنچنے والے نقصان كى اصلاح كى اجازت تك نہيں دى جاتى اور سامان مرمت لے جانے سے روك ديا جاتا ہے-يہوديوں كے اس مسلسل رويے كى بنا پر مسلمانوں كے تاريخى راستہ (مغاربہ سٹرك) كو مسماركركے اس كے اوپر سے بڑا پل بنانے كے بارے ميں مسلمانوں ميں گہرے شبہات پائے جاتے ہيں جنہيں كئى پہلوؤں سے تقويت بهى ملتى ہے اور اس كى تصديق بعض شواہد اور خفيہ تصاوير سے بهى ہوتى ہے ، يہ مختلف انديشے حسب ِذيل ہيں :
1 دراصل يہودى اس طرح ديوارِ براق كو اپنے تصرف ميں لاكر اورجنوبى ديوار كو مغربى ديوار سے ملاتے ہوئے وہاں ايك يہودى معبد (سنىم گاگ) تعمير كرنا چاہتے ہيں ، جيساكہ آثار قديمہ كميٹى كے چيئرمين ميئربن دوف نے صہيونى پارليمنٹ كى داخلى كميٹى كے اجلاس ميں اس امر كا خود تذكرہ كيا ہے- ان كا كہنا ہے كہ مسلمانوں كاراستہ تو معمولى اخراجات اور انتظام كے ذريعے تعمير ہوسكتا ہے، اس قدر بڑے منصوبے كى وجہ يہ ہے كہ باب المغاربہ سے متصل تمام علاقے ميں كدہائى كركے مسجد اقصىٰ كو نقصان پہنچايا جائے- ان كے ہمراہ مزيد 36 ديگر ماہرين آثار قديمہ نے بهى بلديہ كے اس اقدام كى مخالفت كى ہے اور حكومت سے يہ كام فورى طورپر بند كرنے كا مطالبہ كيا ہے- يہاں يہ بهى ياد رہنا چاہئے كہ يہوديوں كے نزديك مسجد اقصىٰ ميں اس وقت سب سے متبرك مقام ديوار براق (گريہ) ہے، جسے وہ مزعومہ ہيكل سلما نى كى واحد يادگار قرار ديتے ہيں - ديوار كے بارے ميں مزيد حقائق آگے آرہے ہيں -

2 سابق اسرائيلى وزير اعظم بنيامين مزار كى بيٹى ايلات مزار جو خود آثارِ قديمہ كى ماہر ہے ، نے انكشاف كيا ہے كہ سڑك كو گرانے اور مسجد كے مغربى سمت ميں كداائى كرنے كا مقصدہيكل سليمانى كے اہم تاريخى دروازے باركلیز كو تعمير كرنا ہے- اپنے عقيدے كے مطابق يہودى پہلى مرتبہ ہيكل ميں اسى دروازے سے داخل ہوں گے-

3 يہ بهى كہا جارہا ہے كہ پل كے ذريعے ايك كشادہ راستہ تعمير كرنے كا مقصددراصل مسجد اقصىٰ پر يہوديوں كے كسى بڑے اقدام كو ممكن بنانا ہے تاكہ بڑى تعداد ميں وہ بآسانى وہاں داخل ہوسكيں اور بعد ازاں اس راستے كو مجوزہ ہيكل سليمانى كے لئے استعمال كيا جائے- تحريك ِاسلامى، فلسطين كے سربراہ شيخ زائد صلاح الدين كے بقول حاليہ كاروائيوں كا مقصد مغربى ديوار كے نيچے موجود مٹى كے ٹيلے 'تل ترابيہ' كو منہدم كرناہے ، يہ ٹيلہ زمين سے ٢٠ ميٹر بلند ہے اوراسے اُموى دور ميں تعمير كيا گيا تها-ان كا كہنا ہے كہ ٹيلے كومنہدم كرنے كا مقصديہوديوں كا مسجد ميں براہ راست داخلہ كو ممكن بنانا ہے اور اس ٹيلے كے انہدام كے ساتھ ديوار براق كا تعلق مسجد سے منقطع ہوكر يہوديوں كے نوتعميرشدہ محلے سے جاملتا ہے-صہيونى تنظيم عيرعاميم كى رپورٹ كے مطابق اس نئے پل كى تعمير سے اسرائيلى سيكورٹى فورسز كے 300 اہل كار بيك وقت مسجد اقصىٰ ميں داخل ہوكر فوجى كاروائى كرسكيں گے- ياد رہے كہ نئے پل كى لمبائى 200 ميٹر ہے اور يہ آٹھ ستونوں پر كهڑا كيا جائے گا- اس قدر مضبوط پل كى تعمير كا مقصد محض انسانوں كے عبوركرنے كے بجائے فوجى سازوسامان، بڑے ٹركوں اور بلڈوزروں كے گزرنے كا راستہ بنانا ہے-

4 مسلمانوں كى مسجد اقصىٰ تك رسائى كا آسان طريقہ يہ تها كہ سٹرك كى تعمير كردى جاتى يا ضرورى حد تك پل تعمير كرديا جاتا، جس كى لاگت بهى معمولى ہوتى ليكن ايك بڑے پل كے نام پر لمبى چوڑى كهدائى كركے بالكل قريب واقع مسجد اقصىٰ كى عمارت كو زمين سے مزيد كهوكهلا كرنا مقصود ہے- دوسرى طرف اس پل كا بوجہ اس قدر زيادہ ہے كہ جس مقام پر اس كا بوجہ ڈالا جارہا ہے ، مسجد ِاقصىٰ كا وہ حصہ اتنا بوجہ سہنے كى اہليت نہيں ركهتا، اس كے نتيجے ميں بهى عمارت كے جلدى منہدم ہوجانے كا انديشہ ہے-

مسلمانوں كے شديد احتجاج كے بعد پہلے پہل بيت المقدس كى بلديہ نے كهدائى كا كام روكنے كا اعلان كيا اور آثارِ قديمہ كے كام كو جارى ركهنے كا كہا تها ليكن آخركار كهدائى روك دينے كا اعلان بهى واپس لے ليا- تحريك اسلامى،فلسطين كے نائب سربراہ شيخ كمال الخطيب كا كہنا ہے كہ درپردہ كهدائى كا كام بهى تك جارى ہے، ٹريكٹروں كى بجائي چهوٹى مشينوں اور اوزاروں كے ساتھ كدرائى كى جارہى ہے، عالمى ميڈيا سے اس امر كوچپاهنے كے لئے وہاں موجود خيموں كے اندر سے كهودا جارہا اور مٹى كو پلاسٹك بيگوں ميں ڈال كر دور پهينكا جارہا ہے- مسجد كى بنيادوں كو كهوكهلاكرنے كے لئے كيميكل بهى بہايا جارہا ہے تاكہ اسكى ديواريں شديد كمزور ہو جائيں اقصىٰ فاؤنڈيشن كا كہنا ہے كہ كہدائى كى وجہ سے جنوبى ديوار ميں كئى دراڑيں پڑچكى ہيں اور اسرائيلى فوجيوں نے وہاں لوہے كى باڑ لگا دى ہے اور فلسطنىن شہريوں كووہاں جانے بهى نہيں ديا جارہا-

ديوارِبراق
يہود كا دعوىٰ ہے كہ يہ ديوار اس ہيكل دوم (ہيرود) كى باقى ماندہ آخرى يادگار ہے جسے دوہزار برس قبل 70ء ميں شاہ ٹيٹوس نے مسمار كرديا تها- اس اعتبار سے يہ ديوارِ گريہ Wailing Wall ان كے نزديك موجودہ آثار ميں واحد شے ہے جو مقدس ترين حيثيت رکھتی ہے- جبكہ مسلمان اس دعوے كو تسليم نہيں كرتے، اور حالات وواقعات سے بهى اس كى نفى ہى ہوتى ہے-

صہيونيت نے يوں تو باقاعدہ ايك تحريك كے طورپر 1897ء ميں جنم ليا، مگر اس تحريك كے افكار اس سے ايك دو صدى قبل يہود كے ہاں متعارف ہونا شروع ہوچكے تهے، عين انہى سالوں ميں يہود نے اس ديوار سے تقدس كو منسوب كيا- يہى وجہ ہے كہ سولہويں صدى سے قبل يہود كے ہاں اس ديوار كى زيارت كا كوئى تصور نہيں ملتا-'انسا ئيكلو پيڈيا يہود اور يہوديت' ميں اس ديوار پر لكےم جانے والا مقالے ميں درج ہے كہ
والواقع أن كل المصادر التي تتحدث عن يهود القدس حتى القرن السادس عشر تلاحظ ارتباطهم بموقع الهيكل وحسب ولا توجد أية إشارة محددة إلى الحائط الغربي. كما أن الكاتب اليهودي نحمانيدس (القرن الثالث عشر) لم يذكر الحائط الغربي في وصفه التفصيلي لموقع الهيكل عام 1267م. ولم يأت له ذكر أيضا في المصادر اليهودية التي تتضمن وصفا للقدس حتى القرن الخامس عشر ويبدوا أن حائط المبكى قد أصبح محل قداسة خاصة ابتداء من ١٥٢٠م في أعقاب الفتح العثماني
"امرواقعہ يہ ہے كہ ايسے تمام مصادر ومراجع جن سے ١٦ويں صدى عيسوى سے قبل يہود كے مقام ہيكل سے كسى تعلق كا علم ہوتا ہے، ان ميں حائط غربى (ديوارِ گريہ) كے بارے ميں كوئى متعنص اشارہ بهى نہيں ملتا- جيسا كہ ١٣ويں صدى كے يہودى محقق نحمانيدس نے 1267ء ميں ہيكل كے مقام كى تفصيلات پيش كرتے ہوئے اس ديوار كا تذكرہ تك نہيں كيا- چنانچہ 15ويں صدى عيسوى تك يہود كے وہ مراجع جن سے بيت المقدس كى تفصيلات كا علم ہوتا ہے، ان ميں اس ديوار كا كوئى تذكرہ موجود نہيں ہے- يوں لگتا ہے كہ ديوارِ گريہ كے تقدس كى ابتدا 1520ء ميں خلافت ِعثمانيہ كے قيام كے بعد ہوئى-"

آگے لكهتے ہيں كہ دراصل اس موقع پر يہود كا ايك انتہاپسند قبلہ بيت المقدس ميں فروكش ہوا تها جو حلولى عقائد كا حامل تها، حلولى نظريہ عموماً بعض مقدس اشيا اور مقامات ميں اپنا مظہر تلاش كرتاہے- عين ممكن ہے كہ مسلمانوں ميں جس طرح حجر اسود اور كعبہ كو خاص تقدس حاصل ہے، ا سى كو سامنے ركهتے ہوئے اس ديوار كو بهى مصنوعى مقامِ تقدس عطا كرديا گيا ہو- ديوارِ براق پر يہ ايمان ١٩ويں صدى ميں پختہ ہونا شروع ہوا اور صہيونى ذہنيت ميں اس كا تقدس آہستہ آہستہ راسخ ہوا - ياد رہے كہ اس ديوار كا تقدس بهى يہوديوں كے ہاں متفقہ امر نہيں ہے بلكہ آج بهى اس ديوار سے تهوڑے فاصلے پر قيام پذير ناطورى جماعت كا سربراہ زائرين كو اس كى زيارت سے روكتا رہتا اور برملا كہتا ہے كہ يہ صہيونى حيلوں ميں سے محض ايك فريب ہے ، اس سے زياہ اس كو مقدس قرار دينے كى كوئى حيثيت نہيں - اس مقالہ ميں پهر ان كوششوں كا ذكر كيا گيا ہے كہ آخرى دو صديوں ميں بيسيوں بار يہود نے انفرادى اور اجتماعى طورپر مسلمانوں سے اس ديوار كوخريدنے كى كوشش كى ليكن وہ اس ميں كامياب نہ ہوسكے-

مايوس ہوكر صہيونيوں نے دہونس اور دہاندلى سے اپنا مقصد پورا كرنے كا راستہ اپنايا اور فلسطين پر انگريز كے دورِ استعمارميں اس ديوار پر اپنا حق جمانا شروع كيا اور مسلمانوں سے تقاضا كيا كہ وہ اس سے دستبردار ہوجائيں - اپنے انگريز سرپرستوں كى حكومت ميں اس اختلاف نے اتنى شدت اختيار كرلى كہ يہ مسئلہ حل كرنے كے لئے 1929ء ميں برطانيہ كو باقاعدہ تحقيقاتى كميشنShaw Commissionقائم كرنا پڑا جہاں دونوں فريقوں كے بيانات لئے گئے- مسلمانوں نے اپنے حق كے حصول كے لئے ثورة البراق كے نام سے ايك تحريك شروع كى، يہى مسئلہ اس وقت كى اقوام متحدہ 'ليگ آف نيشنز' ميں بهى زير بحث آيا- يہودى چونكہ اپنے دعوے كا كوئى دستاويزى ثبوت مہيا نہيں كرسكے، اسلئے دسمبر 1930ء ميں يہ فيصلہ كيا گيا كہ يہ ديوار يہودكى بجائے مسلمانوں كى ملكيت ہے اور مسجد اقصىٰ كا حصہ ہے، يہود كا اس پر كوئى حق نہيں -فلسطين پر مسلط برطانوى سامراج نےفريقين كا موقف سننے كے بعديہ فيصلہ سنايا :
وقد قررت اللجنة أن المسلمين هم المالك الوحيد للحائط وللمناطق المجاورة وإن اليهود يمكنهم الوصول إلى الحائط للأغراض الدينية
"برطانوى كميشن نے قرار ديا كہ مسلمان ہى اس ديوار اور اس سے ملحقہ علاقوں كے اكيلے مالك ہيں ، اور يہود كويہاں صرف اپنى دينى اغراض پورى كرنے كيلئے آنے كى اجازت ہے- "

اُنہوں نے يہ بهى قرار ديا كہ يہود يہاں اختلاف پيدا كرنے والى عبادتيں كرنے كے مجاز نہيں اور اپنيعبادت كے لئے كسى ضرورى چيز كو وہاں ركهنے كا يہ مقصد ہرگز نہيں كہ وہ جگہ يہود كى ملكيت ميں آگئى ہے- جيسا كہ ہم اوپر ذكر كرچكے ہيں كہ اس ديوار كے بارے ميں بهى يہودكا موقف متفقہ نہيں بلكہ صہيونى يہوديوں كے دونوں گروہوں ميں اس كے حوالے سے كئى ايك اختلافات پائے جاتے ہيں - حتىٰ كہ لادين صہيونى اس ديوار كو عبرانى ميں 'كوٹيل'كانام ديتے ہيں جس كا مطلب نائٹ ڈانس كلب ہے، تصور كے اسى اختلاف كا نتيجہ ہے كہ اب آخرى چند سالوں ميں يہ مقام اباحيت، آزاد روى اور فحاشى كا مركز بنتا جارہا ہے-

اس تمام حقائق كے باوجود صہيونى اس امر كو تسليم نہيں كرتے اور اسے ہيكل سليمانى كا بقيہ ماندہ حصہ قرار دينے كى اپنى سى كوششيں جارى ركهے ہوئے ہيں - چنانچہ اپنے زير اثر ميڈيا ميں انہوں نے اس ديواركو ديوارِ براق كى بجائے ديوارِ گريہ كے نام سے مشہور كيا-جب اس مسئلہ كودلائل كى بنا پر تسليم كروانا ممكن نہ رہاتو طاقت اورہٹ دہرمى كا طريقہ بروئے كار لايا گيا اور جس طرح جون 1967ء ميں اسرائيلى حكومت نے ايك قرارداد كے ذريعے مشرقى اور مغربى بيت المقدس كو متحد كركے يروشلم كانام ديا تها، عين اسى طرح 26مئى 1998ء كو اسرائيلى پارليمنٹ سے ايك قانون پاس كروايا جس كى رو سے ديوارِ براق كو مسلمانوں كى بجائے يہود كى ملكيت قرار دے ديا گيا-
اب وہى ديوارِ براق جس كى لمبائى 50 ميٹر اور چوڑائى 20 ميٹر ہے اور جو باب المغاربہ سے ملحق ہے كے ساتھ يہودى مختلف كهدائيوں كے بہانے اپنا معبد تعمير كرنا چاہتے ہيں -

يہودى جارحيت كے مضمرات اور اُمت ِ مسلمہ كا فرض
پچھے زيادہ ترمسجد اقصىٰ كے بارے ميں صہيونيوں كى ريشہ دوانيوں اور عزائم كا تذكرہ كيا گيا ہے ليكن صہيونيوں كى ان كوششوں كے پس منظر ميں كيا مقصد پوشيدہ ہے؟ اس سلسلے ميں عرض ہے كہ مسجد اقصىٰ كى چار ديواری بہت وسيع ہے- اس ميں بنيادى طورپر دو بڑى عمارتيں ہيں ، مغربى سمت ميں مسجد ِاقصىٰ او رمشرقى سمت ميں قبہ صخرہ-يہود كى عرصہ دراز سے يہ كوشش چلى آرہى ہے كہ وہ قبہ صخرہ كو مسجداقصىٰ بنا كر مسلمانوں ميں اس سے وابستگى كو ہى فروغ ديں - دوسرى طرف وہ احاطہ جہاں مسجد ِاقصىٰ واقع ہے اور باب المغاربہ جو مسجد ِاقصىٰ كا براہ راست واحد راستہ ہے جس كے ساتہ ديوار گريہ بهى واقع ہے، اس حصہ كے بارے ميں ان كے عزائم خطرناك ہيں جيسا كہ اپريل 2005ء ميں ہونے والى ملاقات ميں ايريل شيرون نے واشنگٹن كو يہ منصوبہ پيش كياہے كہ مسجد اقصىٰ كو دو حصوں ميں تقسيم كرديا جائے ؛ جنوب مغربى كو منہدم كرديا جائے اورمشرقى حصہ كو باقى رہنے ديا جائے- اس منصوبہ سے بهى پتہ چلتا ہے كہ جس عمارت كا انہدام صہيونيوں كے پيش نظر ہے وہ عين مسجد ِاقصىٰ ہے-اسى لئے قبہ صخرہ كو مسجد اقصىٰ كے طورپر مشہور كيا جارہا ہے تاكہ اس كى موجودگى ميں عام مسلمان شديد ردعمل كا شكار نہ ہوں -

بنيادى سوال يہ ہے كہ اگريہود اس علاقے ميں كوئى ہيكل تعمير كرنا بهى چاہتے ہيں جس سے ان كے مذہبى جذبات وابستہ ہيں تواس كے لئے مسجد ِاقصىٰ كا انہدام كيوں ضرورى ہے اور وہ عين اس مقام پر ہى كيوں تعميرہوتا ہے جہاں يہ مقدس عمارت موجو دہے؟ مسجد اقصىٰ كے احاطے ميں شمال مغربى حصہ اور ديگر بہت سے حصے بالكل خالى ہيں ، وہاں وہ قبہ بهى ہے جس كے بارے ميں اكثر مسلم علما كا موقف يہ ہے كہ اس قبہ صخرہ كى كوئى شرعى فضيلت نہيں حتىٰ كہ حضرت عمر نے يہاں نماز پڑهنا بهى گوارا نہيں كيا تها- يوں بهى يہود كے ہاں قبلہ كى حيثيت اس كو حاصل رہى ہے كيونكہ اُنہوں نے خيمہ اجتماع كو اپنا قبلہ بنايا ہوا تها جو قبہ صخرہ كے مقام سے اُٹهالياگيا چنانچہ قبہ صخرہ كواس كا آخرى مقام ہونے كے ناطے اُنہوں نے اسے ہى اپنا قبلہ قراردے ليا-پهركيا وجہ ہے كہ يہود قبہ صخرہ پر كوئى تصرف كرنے كى بجائے سارا زور مسجد ِاقصىٰ پر ہى صرف كررہے ہيں ؟

ہمارى نظر ميں اس مسئلے كى حيثيت مذہبى سے زيادہ سياسى ہے، بالفرض بيت المقدس كو يہودى كا مركز ِعبادت تسليم بہى كر ليا جائے تو ہميں ياد ركهنا چاہئے كہ دنيا ميں مختلف اقوام كى مركزى عبادت گاہيں ان كے زير انتظام نہيں ہيں -اس كى بڑى مثال خود پاكستان ميں ننكانہ ميں سكہوں كا مذہبى مركز(دربار گورونانك صاحب) ہے- اگر سكہ يہاں آكر باقاعدگى سے عبادت كرتے ہيں اور مسلمانوں نے اس كى اُنہيں اجازت دى ہوئى ہے، تواس سے يہ مسئلہ قطعاً پيد ا نہيں ہوتا كہ سكہ قوم كا لازماً ننكانہ شہر پر سياسى قبضہ بهى ہونا چاہئے- گويا مركز ِعبادت ہونا اور سياسى قبضہ ہونا دو ايسى چيزيں نہيں جوباہم لازم و ملزوم ہوں - جس طرح سكھ ننكانہ صاحب ميں آكر اپنى رسومات ادا كرتے ہيں ، اسى طرح مسلمان مسجد ِاقصىٰ ميں جاكر عبادت كرتے ہيں جو يہوديوں كے زير انتظام ہے ... گوكہ يہوديوں كا اس علاقے پر قبضہ بهى ايك مستقل سياسى تنازعہ ہے جوعالمى تنازعوں ميں سرفہرست ہے... اگر كسى قوم كا مركز عبادت ہونا انكے سياسى قبضہ كو بهى مستلزم ہے تو ہميں كل كلاں سكہوں كو بهى يہ حق دينے كيلئے تيار رہنا چاہئے-

ان حالات ميں صہيونيوں كا درپردہ مسجد اقصىٰ كو منہدم كركے عين اسى مقام پر ہيكل كى تعمير كا دعوىٰ دراصل ايسا اقدام ہے جس كى عالمى قوانين اور تہذيب واخلاق كسى بهى اعتبار سے تائيد نںيد كى جاسكتى-اس كا مقصد اس كے سوا كچھ نہيں كہ مسلمانوں كو اس علاقے سے كلى طورپر بے دخل كيا جائے اوربيت المقدس كو مسلم ذہنيت سے اسى طرح خارج كرديا جائے جيسے اندلس پر مسلمانوں كے دورِ حكومت تاريخ كا ايك باب بن كررہ گياہے-صہيونيوں كا خيال ہے كہ بيت المقدس پر ان كے دائمى تسلط ميں مسجد ِاقصىٰ كا وجود ايك مستقل ركاوٹ ہے جس كو ختم كئے بغير وہ اس علاقے سے مسلمانوں كى دلچسپى كو ختم نہيں كرسكتے-مسلمانوں كے مذہبى شعور سے بيت المقدس كو كهرچنے كا واحد طريقہ يہى ہے كہ يہاں سے مسجد ِاقصىٰ كو سرے سے ہى منہدم كرديا جائے- يہ مسجداقصىٰ كى ہى اہميت ہے كہ دنيا بهر كے مسلمان فلسطين كے ديگر شہروں تل ابيب يا بيت اللحم وغيرہ كے يہوديوں ميں قبضہ ميں چلے جانے سے اس طرح برافروختہ نہيں ہوتے جو سنگين صورتحال بيت المقدس كے سلسلے ميں پيدا ہوتى ہے-

مسجد اقصىٰ كے نيچے ہيكل كے آثار كا دعوىٰ بالكل ايسا ہى ہے جيسے ہندوستان ميں انتہا پسند ہندوں نے بابرى مسجد كے عين نيچے مندر كے وجود كا دعوىٰ كيا تها اور اب ہندوستان كى انتہاپسند تنظيموں نے مزيد سينكڑوں ايسى مساجد كے انہدام كا دعوىٰ بهى كرڈالا ہے كہ وہ سب مندروں پر تعمير كى گئى ہيں - اس نوعيت كے دعووں كے ذريعے دراصل كسى قوم ميں مذہبى اشتعال اور احساسِ محرومى پيدا كرنا مقصود ہوتا ہے تاكہ وہ پورى جذباتى وابستگى اور پهرپور قوت كے ساتھ اپنے مركز عبادت كو دوبارہ قائم كرنے كے لئے مجتمع ہوجائے- اگر يہود مسجد اقصىٰ كے احاطے سے باہر كوئى بهى ہيكل تعمير كرناچاہتے ہيں تواس ميں مسلمانوں كو كيا اعتراض ہوسكتا ہے؟ البتہ جہاں تك مسجد اقصىٰ كے احاطے كى بات ہے تو اس ميں موجود مسجد اقصىٰ شرعى طورپر اور ديگر آثار تاريخى طورپر مسلمانوں كى ہى ملكيت ہيں - عالمى اداروں نے بهى انہيں مسلمانوں كاحق ہى قرار دے ركهاہے، ا س لحاظ سے يہود كو انہيں نقصان پہنچانے كا اخلاقاً وقانوناًكوئى حق نہيں -

ان حالات ميں جہاں اُمت ِمسلمہ كے ہر فرد كا فرض ہے كہ وہ اپنے مقاماتِ مقدسہ كاشعور ركهے، ان پر ہونے والى جارحيتوں سے آگاہ ہو تاكہ وہ امہ كا ايك فرد ہونے كے ناطے اپنے اوپر عائد شرعى ذمہ دارى سے عہدہ برا ہوسكے اور اس فرض كى ادائيگى ميں اپنا حصہ ڈال سكے وہاں مسلم اُمہ كے قائدين كا يہ براہ راست فرض بنتاہے كہ وہ مخالف كو سنگين جارحيت سے باز ركهنے كے لئے ہرممكنہ اقدام بروئے كار لائيں - ہمارا فرض محض اس قدر نہيں ہے كہ ہم حقائق كو جاننے كے بعدمطمئن ہو كر بيٹھ جائيں بلكہ ان ظالمانہ اور تلخ حقائق كو بدلنے كے لئے ہرممكنہ كوشش كرنا بهى ہم پر فرض ہے- مسلمانوں كا قبلہ اوّل اور بيت اللہ كے بعد تعمير ہونے والا دوسرا مبارك ترين اللہ كا گهر صہيونيوں كى سازشوں كے نرغے ميں ہے- سلطان ايوبى نے تو اس وقت تك چين سے نہ بنےے كى قسم كهائى تهى جب تك وہ بيت المقدس كو عيسائيوں كے تسلط سے آزاد نہ كراليں ، اُسى اُمت ِمسلمہ كے فرزندآج ٤٠ برس گزرنے كے بعد بهى نہ صرف مطمئن وپرسكون ہيں بلكہ آہستہ آہستہ كوتاہى اور مداہنت يوں اپنا اثر دكها رہى ہے كہ مسلمانوں ميں بعض ايسے كرما فرما بهى پيدا ہوگئے ہيں جو مسجد ِاقصىٰ كواسى طرح يہود كى توليت ميں دے دينے كے داعى ہيں جيسے مسلمانوں كے پاس بيت اللہ الحرام كى توليت ہے- إنا لله وإنا إليه راجعون!

اللہ تعالىٰ ہميں اپنے ذمہ عائد فريضے كو ادا كرنے كى قوت عطا فرمائے- آمين


حوالہ جات

1. ورلڈ اسمبلی آ ف مسلم یوتھWAMYکے زیر نگرانی تیارشدہ انسائیکلوپیڈیا میں ہے کہ الصهیونیة ترم لی قامة دولة للیهود في فلسطین... وعادة تشیید هیکل سلیمان من جدید بحیث تکون القدس عاصمة لها (موسوعة الأدیان والمذاهب : 5211) ہیکل سلیمانی کا صہیونی تصور تاریخی حقیقت سے زیادہ روحانی ہے، صہیونی ریاست کا مطلب سادہ الفاظ میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے: ""فن الدولة الصهیونیة ہ الهیکل الثالث"" (موسوعة الیهود والیهودیة)
2. صہیون Zionکا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، البتہ اس کے تمام معانی میں بیت المقدس سے کوئی نہ کوئی مناسبت ضرور پائی جاتی ہے۔ بعض کے نزدیک یہ بیت المقدس میں ایک عبادت گاہ کا نام ہے۔ بعض لوگ اس سے بیت المقدس میں صہیون"نامی مقدس پہاڑ مراد لیتے ہے جس پر یہودی روایات کے مطابق حضرت داود کی قبر تھی یا اس پر حضرت مریم نے عبادت کی تھی۔ بعض کے نزدیک جبل صہیون اس جبل قدس جبل موریا Temple Mountکے مترادف ہے جس پر مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ بعض کے خیال میں صہیون کا لفظ پورے شہر بیت المقدس کے لئے عام ہے۔ بعض اوقات اسے یہودی ماؤں پر بولا جاتا ہے چنانچہ یہودی عورتوں کو بنت ِصہیون کہا جاتاہے، اس وقت اس سے کوئی زمینی مقام کی بجائے مذہبی تصور مراد ہوتا ہے۔ صہیونیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے مسیح کی آمد پر یہ علاقہ دنیا بھر کا مرکز ِحکومت بن جائے گا۔
3. مسجد اقصیٰ میں ان مقامات کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی واضح تصاویر کی محتاج ہے۔چونکہ مسجد اقصیٰ کی مستند تصاویر نایاب ہیں ، اس لئے محدث کی ویب سائٹ پر اس کی کئی تصاویر جن میں سے اہم ترین کو 2005ء میں فلسطین کی وزارتِ مذہبی اُمور نے شائع کیا ہے، اَپ لوڈ کردیا گیا ہے۔ شائقین ویب سائٹ پر زیر نظر مضمون کے آغاز میں اُنہیں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔

4. الشريعة' بابت ستمبر2003ء، ص 40
5. مزید تفصیل :فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری از مولانا مجاہد الحسینی، 2 قسطیں ضربِ مؤمن17 نومبر 2006ء
اور متذکرہ یہودی فرقوں کے عقائد کے لئے:موسوعة الأدیان والمذاهب:5031
6. اس علاقے میں یہ مدرسہ چھٹی صدی ہجری میں مملوک سلطان الملک الافضل نے تعمیرکروایا تھا۔
7. یہاں ہیکل کی تعمیر کے بارے میں یہودی قوم کے شرعی موقف کا تذکرہ مناسب ہوگا، ان کے ہاں اس سلسلے میں دوموقف پائے جاتے ہیں : فقہی طورپر یہبات تو تقریباً متفقہ ہے کہ ہیکل کودوبارہ تعمیر کیا جائے کیونکہ تالمود میں یہاں قربانی وغیرہ کی تفصیلات اور احکام کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔البتہ اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی کیفیت اور وقت کے بارے میں اختلاف پایاجاتاہے۔
غالب فقہی رائے تو یہ ہے کہ اس کی تعمیر کے لئے مشیت ِالٰہی کے مطابق دورمسیح(مشیحانی) کا انتظار کیا جائے اور اس کے آنے تک تعمیرکو موقوف رکھا جائے،بعض یہودی رہنماؤں کا تو یہاں تک خیال ہے کہ انسانی ہاتھوں سے اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں ، جبکہ بعض کا عقیدہہے کہ یہ مکمل صورت میں آسمان سے نازل ہوگا۔ فقہاے یہود کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ تویہودی اس وقت پاک ہیں کیونکہ وہ قبروں اور مردوں کو چھونے کی وجہ سے طاہر نہیں رہے اور ان کو یہ طہارت اس سرخ بچھڑے کے خون سے حاصل ہوگی جو ابھی تک آسمان سے نازل نہیں ہوا اور نہ ہی یہودی عقیدے کے مطابق وہ جگہ (یعنی جبل موریا یا جبل بیت المقدس) بھی پاک ہے کیونکہ وہاں مسجد اقصیٰ اور 100 کے قریب مسلم آثار موجود ہیں ۔ اس لئے ان حالات میں یہودیوں کا اس مقام پر جا کر ہیکل کو تعمیر کرنا فقہی اعتبار سے غلط ہوگا۔مزید برآں جبل موریا پر قدس الاقداس نامی متبرک ترین مقام پر یہودی عقیدے کے مطابق کسی طاہر یہودی کے قدم پڑنا بھی اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ ایک خاص قربانی نہ دے لے، اب عین قدس الاقداس والے مقام کا تعین اور اس قربانی کا امکان اس وقت تک موقوف ہے جب تک مشیت ِالٰہی کے مطابق یہودیوں کا مسیح (ما شیح ) منتظر واپس نہ لوٹ آئے۔البتہ ایک چھوٹی اقلیت کی رائے یہ ہے کہ مسیح کے آنے سے قبل ہیکل کی تعمیر کرنا ضروری ہے، اوراس علاقے میں داخلے کے لئے کسی یہودی کو کسی خصوصی پاکیزگی کی ضرورت نہیں ۔ گو کہ یہ رائے بہت شاذ ہے لیکن چونکہ یہ دراصل یہودیوں میں صہیونیوں کی رائے ہے، اس بنا پر اُنہوں نے ابلاغی ہتھکنڈوں سے اس رائے کوملت یہود پرغالب کررکھا ہے۔ یہود کے اس داخلی فقہی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر صہیونیوں نے قدس الاقداس کا از خود تعین بھی کردیا ہے۔ موجودہ صورتحال کو بہتر طورپر سمجھنے کیلئے بہتر ہوگا کہ یہودی نظریات کو دوقسموں میں تقسیم کرکے سمجھا جائے: صہیونی اور غیرصہیونی یہودی۔جہاں تک غیرصہیونیوں کا تعلق ہے تو ان کے ایک گروہ کا خیال تو یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی وغیرہ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ، نہ تو وہ بیت المقدس میں پہنچنے کو اہمیت دیتے ہںت اور نہ ہی وہاں کسی ہیکل کی تعمیر کو، اُنہوں نے ہیکل کے نظریے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اپنی تمام دعاؤں اور مذہبی تصورات وغیرہ میں بھی ہیکل کا لفظ باقی نہیں رہنے دیا، بالخصوص 1818ء سے وہ اپنی تمام عبادت گاہوں کے لئے انگریزی لفظ ٹیمپل (معبد) کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہیکل کبھی بھی نہیں بنے گا۔ اور جہاں بھی معبد بن جائے ، اس سے مراد ہیکل ہی ہے۔غیرصہیونیوں کا دوسرا (روایت پسند) گروہ اس کے برعکس ہیکل کی تعمیر کا منتظر ہے اور اس کے لئے دعائیں بھی کرتاہے، یہ لوگ اپنے معبد کو یونانی لفظ "سینی گاگ" سے تعبیر کرتے ہیں اور ہیکل کے لفظ کو ہیکل سلیمانی کیلئے ہی مخصوص قرار دیتے ہیں ، لیکن ان کاموقف یہ ہے کہ ہیکل کی تعمیر کا مسئلہ مسیح کی دوبارہ آمد سے ہی مشروط ہے۔جہاں تک صہیونی یہودیوں کا تعلق ہے تو ان کے لادین گروہ کے مطابق ہیکل وغیرہ کی تعمیر کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے، محض یہودیوں کیلئے بیت المقدس میں مستقل وطن کا قیام ایک قومی ضرورت ہے۔ یہ لوگ نہ تو کسی قربانی وغیرہ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی ہیکل کی تعمیروغیرہ پر۔ان کا خیا ل ہے کہ صہیونیوں نے بلاوجہ ہیکل کی تعمیرکا مسئلہ کھڑا کیاہوا ہے، اسرائیل میں اس نوعیت کے صہیونیوں کی بھی بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔یہودیوں کا چوتھا گروہ یعنی متدین صہیونی ہی وہ واحد فرقہ ہے جو ہرقیمت پر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنے پر تلا ہواہے، ان کے نزدیک ہیکل کی فوری تعمیر ہی اہم ترین مسئلہ ہے۔ یہی لوگ ہیں جو حیلوں بہانوں سے مسجد اقصیٰ اور آثارِ اسلامیہ کو ڈھانے کے لئے ہر کوشش بروئے کار لارہے ہیں ، انہی انتہاپسندوں نے بموں اور دھماکہ خیزمواد سے مسجداقصیٰ کو منہدم کرنے کی کئی بار کوشش کی۔ اس سلسلے میں اس فرقے کی ایک نمائندہ تنظیم "اُمناء جبل ہیکل" (محافظانِ جبل ہیکل) کانام لیا جاسکتاہے، امریکی کروڑ پتی یہودی ٹری رائزن ہوور اس تنظیم کا اہم سپورٹر ہے۔اس فرقے کا دعویٰ ہے کہ مسجد اقصیٰ کے تمام تر احاطے پر یہود کا بلاشرکت غیرے حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سابقہ مراکشی محلے میں یہودیوں کے دینی مدارس بھی قائم کررکھے ہیں اور یہاں وہ لوگوں کو قربانی اور ہیکل میں یہودی عبادتوں کی تربیت اور عسکری ٹریننگ دیتے ہیں ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس فرقے کی بعض کتب اور پروپیگنڈے کا اثر یہودی عوام میں روز بروز پھیلتا جارہا ہے اور اُنہیں یہود کے دیگر فرقوں کے بالمقابل زیادہ مقبولیت مل رہی ہے جس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ معمولی انتہاپسند اقلیت، یہودی اکثریت کواپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے میں کسی وقت بھی کامیاب ہوسکتی ہے۔اس یہودی گروہ نے عیسائیوں کو بھی اپنے مزعومہ ہدف پر اس حد تک متاثر کرلیاہے کہ 1990ء میں اسرائیلی وزارتِ مذہبی اُمورکے زیر نگرانی بیت المقدس میں منعقد ہونے والی عالمی عیسائی کانفرنس میں عیسائیوں نے بھی اس نظریہ کا برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ کا دوبارہ نزول ہیکل سلیمانی کی تعمیرسے مشروط ہے، اس لئے اُنہیں اس یہودی فرقے کی ہر طرح مدد کرنا چاہئے۔(یہ تفصیلات 16 جلدوں پر مشتمل اس عربی "انسائیکلوپیڈیابرائے یہود،یہودیت اور صہیونیت" سے ماخوذ ہیں جس نے 1999ء میں مصر میں پہلا انعام حاصل کیا ہے۔)