الصلوۃ مفتاح الجنۃ
نماز دین کا ستون،1جنت کی کنجی،2 مؤمن کی معراج،3 آنکھوں کی ٹھنڈک،4 قلبی سکون5 اور جسمانی شفا6 ہے۔ اس کے ذریعے انسان جملہ مصائب و آلام، غموم و ہموم، اور ہمہ قسم کے حزن و ملال سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ ربّ ِذوالجلال نے
وَٱسْتَعِينُوا بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ ۚ...﴿٤٥﴾...سورة البقرة 7
کا ارشاد فرماکر اس حقیقت کو آشکاراکردیا اور
حَـٰفِظُوا عَلَى ٱلصَّلَوَٰتِ وَٱلصَّلَوٰةِ ٱلْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَـٰنِتِينَ ﴿٢٣٨﴾...سورة البقرة 8
کا اہم اعلان فرما کر مشتاق دل میں وہ روح پھونک دی جو اس کو ہمیشہ عبودیت اور فدائیت کا احساس دلا کر اس ذاتِ صمدی کی بارگاہِ عالیہ میں جبین ِنیاز جھکانے پر مجبور کرتی ہے تاکہ بندہ اللہ کریم کے عفو و رحمت کے کشادہ دامن میں اپنے صغائر وکبائر کی گٹھڑی ڈال کر اس غفور رحیم سے عفو و کرم کی درخواست کرکے قیامت کی ہولناکیوں اور اس کے مہیب مناظر سے مامون ہوسکے 9کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے باز پرس نما زکی ہوگی۔ اگر نماز اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق صحیح ہوگی تو باقی اَعمال بھی صحیح ہوں گے۔ بصورت ِ دیگر تمام اعمال کالعدم قرار دیے جائیں گے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
(أول ما یحاسب به العبد یوم القیامة الصلوة فإن صلحت صلح سائر عمله وإن فسدت فسد سائر عمله)10 سے بھی یہی چیز مترشح ہوتی ہے۔
امامِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور دیگر مذاہب کے مابین نماز کو حد فاصل11 قرار دے کر نماز کی اہمیت کو واضح فرما دیا کیونکہ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور کامرانی کا سرچشمہ نماز ہی ہے۔ ارشادِ الٰہی
قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ ٱلَّذِينَ هُمْ فِى صَلَاتِهِمْ خَـٰشِعُونَ ﴿٢﴾...سورة المریم 12
میں بھی یہی بتلایا گیا ہے۔
خشوع و خضوع اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا شدہ نماز سے دل میں نور وغنا پیدا ہوتا ہے اور ربّ کائنات کے جاہ و جلال اور اس کی عظمت و کبریائی کی دل میں تخم ریزی ہوتی ہے جو انسان کو صداقت و شرافت، صبر و قناعت، تسلیم و رضا، حلم و بردباری، تواضع و انکساری، عدل وانصاف، وفاشعاری اور احسان مندی جیسے مکارمِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے۔ پھر انسان
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَـٰرَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ ٱللَّهِ وَإِقَامِ ٱلصَّلَوٰةِ وَإِيتَآءِ ٱلزَّكَوٰةِ ۙ...﴿٣٧﴾...سورة النور 13
کے تحت دنیا و مافیہاسے مستغنی ہوکر کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ اِلی اﷲ ہوتا ہے اور
(أن تعبد اﷲ کاأنك تراہ فإن لم تکن تراہ فإنه یراك) 14
کا مصداق بنتا ہے کیونکہ وہ جملہ اُمور میں اپنا مقصودِ اصلی خالق کائنات کی رضا مندی اور خوشنودی کو گردانتا ہے ۔پھر ان صفات کا حامل نمازی کذب بیانی، ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی، غیبت چغلی، خیانت، بدعہدی، تکبر و حسد، ظلم و زیادتی وغیرہ اخلاقِ رذیلہ سے کنارہ کش ہوجاتا ہے کیونکہ
نَّ ٱلصَّلَوٰةَ تَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِ ۗ...﴿٤٥﴾...سورة العنکبوت 15
پھر جس طرح اس کا دل عبودیت و فدائیت کا مظہر ہوتا ہے، بعینہٖ اس کے جملہ اعضا بھی مکروہات و منہیات سے کنارہ کش ہو کر مصروفِ عبادت ہوجاتے ہیں جس سے اس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ چہرہ منور اور اس کی روح اَفلاکی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے، ایسے انسان کے حرکات و سکنات، جلوس وقعود، اور سمع و بصر مشیت ِالٰہی کے مطابق ہوتے ہیں ۔ 16 بایں ہمہ اگر وہ خطا کا مرتکب ہوبھی جائے تو
إِنَّ ٱلْحَسَنَـٰتِ يُذْهِبْنَ ٱلسَّيِّـَٔاتِ ۚ...﴿١١٤﴾...سورة الھود
کا پرمسرت17 اعلان اس رنجیدہ خاطر کے لئے تسکین ِ قلبی کا سامان پیدا کرتا ہے، اگر اصلاحِ عمل کے بعد بھی حسرت و اَرمان باقی رہے تو ربّ ذوالجلال والاکرام اس حسرت خوردہ انسان کو
فَأُولَـٰٓئِكَ يُبَدِّلُ ٱللَّهُ سَيِّـَٔاتِهِمْ حَسَنَـٰتٍ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾....سورة الفرقان 18
کا مژدہ سناتے ہیں ۔ پھر جب ایسے فرشتہ خصلت انسان کو کوئی موذی کبیدہ خاطر کرتا ہے یا اس پر لب کشائی کرتا ہے تو اس جبار و قہار کی طرف سے اعلان ہوتا ہے:
(من عادی لي ولیا فقد آذنته بالحرب) 19
''جس نے میرے اس دوست سے دشمنی مول لی، میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔''
اس تعظیم و تکریم کے پیش نظر امامِ کائنات حضرت محمد کریم علیہ التحیة والتسلیم نے حکما ً فرمایا کہ ''اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوجائیں او رجب وہ دس برس کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر اُنہیں زدوکوب کرو، اور خواب گاہ میں ان کے بستر الگ الگ کردو۔''20 تاکہ نماز کے اثرات ابتدا ہی سے بچے کی شخصیت پر مرتب ہوں اور وہ منکرات سے کنارہ کش ہوکر حسنات کا طالب ہو اور اس کے نفس ِ اَمارہ کو خرابیوں کی حدود تک پہنچنے کا موقعہ ہی نہ ملے اور نماز اسے غلط کاریوں کے اندھیروں سے بھلائی کے اُجالوں کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ تربیت نہ صرف اُسے بلوغت و شباب کی بہیمیت و سبعیت (درندگی) کے اثرات سے محفوظ رکھے گی بلکہ وہ جنونِ شباب کے ایام میں بھی عبادتِ الٰہی پر دوام و مواظبت کرکے روزِ محشر عرشِ الٰہی کے سایہ تلے جگہ بھی حاصل کرسکے گا۔ 21
نماز میں ایسی تاثیرودیعت کی گئی ہے کہ نمازی بے حیائی اور برائی کے قریب تک بھی نہیں جاتا ہے اور جو شخص نمازی ہوکر بھی خیرات و حسنات سے پہلو تہی کرکے سیئات کے جال میں پھنس چکا ہو، اس کی نماز عدمِ قبولیت کے زمرہ میں ہے۔ ایسا شخص ربّ ذوالجلال کے قرب ودیدار سے شرف یاب نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اس مالک ِحقیقی سے دور ہی ہوتا چلا جائے گا۔22 کیونکہ اس نے نماز کو کماحقہ ادا ہی نہیں کیا، نمازی ہونے کے باوجود اسے قرب کی بجائے بعد نصیب ہوا اور اگروہ ربّ کائنات کی طرف عاجزی و انکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ متوجہ ہوتا تو اس رؤوف و رحیم کی رحمت اسے اپنی آغوش میں ضرور لے لیتی۔ کسی نے کیاخوب کہا ہے :
تم کو شکوہ ہے کہ ہمارا مدعا ملتا نہیں
دینے والے کو گلہ ہے کہ گدا ملتا نہیں
بے نیازی بندے کی دیکھ کر کہتا ہے کریم
دینے والا دے کسے ، کوئی دست ِ دعا ملتا نہیں
یہی وجہ ہے کہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماسوا، خشوع و خضوع اور حضورِ قلب کے بغیر ادا کی جانے والی نماز قطعاً قرب ِالٰہی کا زینہ نہیں بن سکتی بلکہ ایسی نماز نمازی کے منہ پر ماری جائے گی، جیسا کہ طبرانی کی اس حدیث سے ظاہر ہے:
من صلاھا بغیر وقتھا ولم یسبغ وضوء ھا ولم یتم لھا خشوعھا ولا رکوعھا ولا سجودھا خرجت وھي سوداء مظلمة تقول: ضیعك اﷲ کما ضیعتني حتی إذا کانت حیث شاء اﷲ لُفَّت کما یلف الثوب الخلق ثم ضرب بھا وجھه23
یعنی ''جس شخص نے نماز کو بے وقت پڑھا، وضو ٹھیک طرح سے نہ کیا اور دل بھی حاضر نہ رکھا، رکوع و سجود بھی خوب تسلی سے ادا نہ کئے تو ایسی نماز جب رخصت ہوتی ہے تو وہ نورانیت سے خالی سیاہ بھجنگ ہوتی ہے اور نمازی سے کہتی ہے: اللہ تجھے برباد کرے جس طرح تو نے مجھے برباد کیا یہاں تک کہ جب تھوڑی سی اونچی ہوتی ہے جس قدر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو تو پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔''
کیونکہ ایسی نماز میں چوری کا پہلو نمایاں ہے جس سے متعلق امامِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
''بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم أجمعین نے عرض کیا:
یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وہ نماز میں کیسے چوری کرتاہے؟ فرمایا: اس کی چوری یہ ہے کہ رکوع و سجود پورے اطمینان سے نہیں کرتا ۔ 24
اسکی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رحمت ِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''کسی شخص کی نماز اسوقت تک قبول ہی نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ کو سیدھا نہ کرے۔'' 25
اس طرح صحیح بخاری میں حضرت حذیفہ ؓ کا واقعہ مذکور ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں رکوع و سجود اطمینان سے نہیں کرتا تھا۔ جب وہ نماز مکمل کرچکا تو حضرت حذیفہؓ نے اُس کو بلا کر فرمایا: تیری نماز نہیں ہوئی اور کہا کہ
لومُتَّ مُتَّ علی غیر الفطرة التي فطر اﷲ محمدا ﷺ علیها 26
''اگر تو اس حال میں مرجاتا تواس طریقہ اسلام کے خلاف مرتا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔''
یہ نماز کی عدمِ قبولیت کا واضح اور غیر مبہم اعلان ہے جو ارکانِ نماز کوبہ عجلت (جلدی جلدی) ادا کرنے کی صورت میں ہے جبکہ اس ہیئت پر نماز ادا کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ عوام بے چارے تو ائمہ مساجد کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور اکثر ائمہ مساجد کا بھی یہی حال ہے۔ قیام بہ تساہل، رکوع سجود غیر تمام، قومہ جلسہ برائے نام، معمولی تشہد اور سلام۔ بسا اوقات کمزور مقتدی اپنے 'تگڑے' امام کی موافقت کرنے سے بھی عاجز آجاتے ہیں ممکن ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے ایسا ہی دل خراش منظر دیکھ کر کہا ہو:
تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
پھر اگر لفظ اقامت ِ صلوة پر بھی غور کیا جائے تو اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تعدیلِ ارکان، حضورِ قلب، خشوع و خضوع، عجز و نیاز، اور دوام و مواظبت سے بروقت نماز ادا کرنے کا نام اقامت ِصلوٰة ہے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
'' قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں لفظ 'اقامت' استعمال کیا گیا ہے جس میں یہ تنبیہ موجود ہے کہ نما زسے مقصود اس کی ظاہری ہیئت ملحوظ رکھنا نہیں بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔'' 27
حضرت عبداللہؓ بن عباس ؓ اقامت ِ صلوٰة کا معنی یوں بیان فرماتے ہیں کہ'' فرائض نماز بجا لانا، رکوع، سجدہ، تلاوت، خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا 'اقامت ِصلوٰة' ہے۔'' 28
حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری طرح کرنا 'اقامت ِصلوٰة' ہے۔
حضرت مقاتل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وقت کی نگہبانی کرنا، مکمل طہارت کرنا، رکوع سجدہ پورا کرنا، تلاوت اچھی طرح کرنا، تشہد اور درود پڑھنااقامت ِصلوٰة ہے۔
اقامت ِصلوٰة کے مفہوم اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اداشدہ نماز، نمازی کے لئے دعا کرتی ہے کہ جس طرح تو نے مجھے کامل طہارت، حضورِ قلب، نہایت خشوع و خضوع،اِتمامِ قیام، رکوع و سجود کے ساتھ بروقت ادا کیا اورمیری حفاظت کی، اللہ کریم تیری بھی حفاظت فرمائے! فرمانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
''جس نے نمازیں بروقت ادا کیں ،وضو ٹھیک طرح سے کیا۔ قیام، رکوع و سجود پورے اطمینان سے کئے، خشوع اور توجہ کو پیش نظر رکھا تو ایسی نماز تابناک اور روشن صورت میں ظاہرہوکر کہتی ہے: اللہ کریم تیری بھی اسی طرح حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔'' 29
اس طرح نماز ادا کرنے سے انسان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جس طرح دن میں پانچ مرتبہ غسل کرنے سے بدن میل کچیل سے پاک ہوجاتا ہے۔ امام کائنات حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پراپنے اصحاب ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
''اگر آپ میں سے کسی کے گھر کے دروازے کے سامنے ایک نہر جاری ہو، وہ اس میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہے گی؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ 'نہیں ' اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی نہیں رہے گی۔ تو آپؐ نے فرمایا: یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے،اللہ تعالیٰ ان پانچ نمازوں سے خطاؤں کو مٹا دیتے ہیں ۔'' 30
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسم خزاں میں ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں تو پتے تیزی سے گرنے لگے تو آپؐ نے فرمایا:
''اے ابوذرؓ! میں نے کہا: لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپؐ نے فرمایا:
(إن العبد المسلم لیصلِّ الصلوٰة یرید بھا وجه اﷲ فتھافت عنه ذنوبه کما یتھافت ھذا الورق عن ھذہ الشجرة) 31
''بلا شبہ ایک مسلم بندہ جب رضاے الٰہی کی خاطر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ یوں جھڑ جاتے ہیں جس طرح یہ پتے اس درخت سے گر رہے ہیں ۔''
بلکہ ایک مقام پر فرمایا: کہ پابندی سے پڑھی جانے والی نماز قیامت کے دن نور کا سبب ہوگی:
(من حافظ علیھا کانت له نورًا وبرھانًا ونجاة یوم القیامة) 32
''جس نے نماز پر محافظت کی یہ نماز قیامت کے دن نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی ۔''
قرآنِ مجید میں ہے کہ
''مسلمان نماز کی وجہ سے روزِ محشر، قیامت کی ہولناکیوں اور ہمہ قسم کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔'' 33
اس کے برعکس جو شخص اقامت ِصلوٰة کے مفہوم اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نماز ادا کرتا ہے، اصل وقت کی بجائے بے وقت اور اطمینان کی بجائے جلدی نماز ادا کرتاہے تو ایسی نماز بارگاہ ِایزدی میں مقبول نہیں ۔ ایسی نماز کو نقرة الغراب (کوے کی ٹھونگوں ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
''یہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج زرد ہوکر شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو(نماز کے لئے) کھڑا ہوتا ہے اور چار ٹھونگیں لگا کر فارغ ہوجاتاہے۔ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی تھوڑا کرتا ہے۔'' 34
مگر افسوس کہ آج کل اکثر لوگوں کی نماز عصر کا وقت (دیدہ دانستہ) یہی ہے۔امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حفاظت نہ کرنے والوں کو سخت وعید سنائی کہ جو شخص نماز پر محافظت نہیں کرتا (یعنی ہمیشگی اختیار نہیں کرتا) تو اس کی نماز اس کے لئے قیامت کے دن روشنی، دلیل اور نجات کا باعث نہ ہوگی اور قیامت کے دن وہ قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔''35 أعاذنا اﷲ
قرآنِ کریم نے مذکورہ اشخاص کے لئے ظالم، مفسد، متکبر، فاسق اور کافر کے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی معیت میں نجات اور نورانیت کہاں ؟ جبکہ مالک ِحقیقی کے دربار میں جبین ِنیاز خم کرنے والوں کے ظاہر و باطن میں نورانیت ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
''میری اُمت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا تو ان کے چہرے ،ہاتھ، پاؤں وضو کے نشانات کی وجہ سے چمکتے ہوں گے۔'' 36
مگر برا ہو بدعات کا کہ اس کے رسیا لوگ مذکورہ شناخت کے باوجود بھی حوضِ کوثر پر جانے سے روک دیے جائیں گے۔ ان کے اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور یہ لوگ خود امامِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے، آپؐ کی تمام تر شانِ رحمت کے باوجود (سُحقا سُحقا لمن غَیَّر بعدي) 37کی صداسنیں گے۔
حالانکہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب مؤمن وضو کرتا ہے تو وضو کے اعضا دھوتے وقت ہر ہر عضو سے گناہ جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔.38 پھر جب وہ تکمیل وضو کے بعد آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر 39
(اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِيْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ)40
اور
(أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِله إِلاَّ اﷲُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَه وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُه)
پڑھتا ہے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر وہ جس دروازے سے بھی چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔ 41
علامہ منذری رحمة اللہ علیہ نے الترغیب و الترہیب میں یہ دعا بھی نقل کی ہے:
(سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِله إِلاَّ أَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ) 42
تکمیل ِوضو کے بعد جب مؤمن دربارِ الٰہی (مسجد) میں پہنچ کر قیام کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا اپنے کندھوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے تو یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے ہمہ تن اپنے آپ کو اللہ ربّ العزت کے سپرد کردیا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی پاکی و حمد، اس کے مبارک نام، اس کی اعلیٰ و ارفع شان کے تذکرہ کے بعد اس کی وحدانیت کا اقرارکرتا ہے۔ٍ43 پھر شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے بعد اللہ رحمن رحیم کے نام سے سورہ فاتحہ کا آغاز کرتا ہے۔ اللہ ربّ العالمین کی حمد و ستائش، اس کی شانِ رحیمی کے بعد اس کی کبریائی بیان کرتا ہے اور اس کی خالص عبادت اور اسی سے استعانت کا اقرار کرتا ہے تواسے اس حال میں دیکھ کر اللہ کریم فرماتے ہیں :
''یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے، میرے بندے کیلئے ہے جو اس نے سوال کیا۔'' 44
تب یہ بے چین انسان صراطِ مستقیم کی رہنمائی کی التجا کرتا ہوا انعام یافتہ لوگوں کے راستہ کا طلب گار ہوتا ہے۔ مغضوب علیهم اور ضآلین کی راہ سے بچنے کی التجا کرتاہے تو اللہ کریم فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے کے لئے خاص ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو اس نے سوال کیا۔45 پھر یہ انسان آمین46 کہہ کر اس التجا کی قبولیت کا خواہشمند ہوتا ہے پھر اللہ رحمن رحیم سے سورئہ اخلاص پڑھ کر توحید کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے اور جملہ معبودانِ باطل کی نفی کرکے اس ذاتِ صمدی کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ، پھر اس ذاتِ کبریائی کی بڑائی بیان کرتااوراپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں47 تک اُٹھاتا ہوا (رفع الیدین کرتا ہوا) جھک جاتا ہے اوربحالت ِرکوع خود کو انتہائی کمزور سمجھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی عظمت بیان کرتا ہے اور متعدد بار
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْم48 سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ49 سُبُّوْحٌ قُدُّوْْسٌ رَبُّ الْمَلائِکَةِ وَالرَّوْحِ 50
کا وِرد کرتاہے۔ اس کے بعد سر اُٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اُٹھاتا ہوا امید و رجا اور مکمل وثوق سے یوں گویا ہوتا ہے:
سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس عاجز اور نادار بندے کی بات سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی۔ پھر
(رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّـبًا مُبَارَکًا فِیْه) یا 51
(رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلأَ السْمٰوَاتِ وَمِلأَ الأَرْضِ وَملِأَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيء ...) 52
مسنون الفاظ کے ذریعے ذاتِ کبریائی کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی رضا مندی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہتاہوا اپنی پیشانی اپنے مالکِ حقیقی کے درپر رکھ دیتا ہے اور نہایت عاجزی و انکساری سے متعدد بار
سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلیٰ 53
یا
(اللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِيْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ) 54
پڑھتا ہے۔ پھر ندامت کے آنسو بہاتا ہوا اپنے صغائر و کبائر ظاہر اور پوشیدہ، اگلے پچھلے، دیدہ دانستہ گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ 55
پھر تکبیر کہتے ہوئے سر اُٹھاتا ہے اوردوسجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھ کر التجا کرتا ہے:
(اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ وَعَافِنِيْ وَاھْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ›) 56
''الٰہی مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، ہدایت، عافیت اور رزقِ (حلال) عطا فرما۔''
پھر دوبارہ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ ریز ہوجاتا ہے، تسبیحات پڑھتا اور عفو و کرم کی درخواست کرتاہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسی ہیئت پر باقی رکعات پوری کرکے دو زانو مؤدب بیٹھ کر حلف نامہ57 پیش کرتاہے :
الٰہی زبان تو نے عطا فرمائی، لہٰذا حمد و تسبیح، تحلیل و تمجید اور اَذکار صرف تیرے لئے۔ الٰہی! جسم تو نے عطا فرمایا لہٰذا میرا قیام رکوع سجدہ طواف اور دیگر جسمانی عبادتیں صرف تیرے لئے۔ الٰہی تو نے مال عطا فرمایا، لہٰذا میری قربانی، نذرونیاز، صدقات و خیرات وغیرہ جملہ مالی عبادتیں صرف تیرے لئے ہیں ۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سلامتی، اور رحمت و برکت کی دعا کرتا ہوا اپنے لئے اور اللہ کے نیک بندوں کے لئے بھی سلامتی کی درخواست کرتا ہے۔ اس کے بعد اقرار نامہ پیش کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بعد محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود58 کا تحفہ پیش کرتا ہے پھر اپنے ہی جسم پر کئے گئے مظالم کا تذکرہ کرکے اپنے مالک ِحقیقی غفور رحیم سے مغفرت کا سوال کرتا ہے59غم و حزن، عجز و کسلان، بخل و بزدلی، قرض کے بوجھ اور قہر الرجال 60 کے ساتھ عذابِ جہنم، عذابِ قبر، فتنۂ دجال، اور حیات و ممات کے فتنوں سے پناہِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے۔ْ61 بعدازاں اپنے لئے دین ودنیا کی بھلائی،62 مؤمنین، والدین، اولاد اور اپنے لئے بخشش کی التجا کرتا ہے۔63غرض یہ کہ انسان اس وقت مناجات کے آخری مراحل میں ہوتا ہے اور اپنے مالک ِحقیقی کے خزانوں سے ہر اُس چیز کا طلبگار ہوتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ تب یہ انسان اپنے دامن کو فیضانِ الٰہی سے پُر کرکے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتا ہوا نماز سے فارغ ہوجاتا ہے۔64
تاہم اسی انداز میں مؤدب دو زانو بیٹھ کر انتہائی تذلل کے ساتھ اللہ مالك الملك کی کبریائی بیان کرتا ہے اور اپنی نماز میں کوتاہی اور سستی پر استغفار65 کرتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت کی بھلائی اور بہتری کے لئے دعائیں مانگتا ہے۔ جب انسان ایسے انداز میں نماز ادا کرتا ہے تو محسن ِانسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ خوشخبری پالیتا ہے کہ
(ما من مسلم توضأ فأحسن الوضوء ثم صلّٰی صلوٰة یحفظھا ویعقلھا إلا دخل الجنة) '' 66
یعنی جو شخص سنت کے مطابق اچھی طرح وضو کرکے پھر دل لگا کر حفاظت سے اور سمجھ کر نماز ادا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔''
اللھم وفقنا لما تحب و ترضی ... آمین یارب العالمین !
حوالہ جات
1. احیاء العلوم:871 (ضعیف الجامع الصغیر:2054)
2. مسند احمد :14135(ضعیف الجامع الصغیر:5265)
3. الصلوٰة معراج المؤمن، مکتوباتِ مجددی مکتوب نمبر261 (لا أصل له)
4. امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:( جعلت قرة عیني في الصلوٰة) (نسائی:3879)
5. یا بلال! أقم الصلوٰة.أرحنا بھا (ابوداود:4333)
6. فإن في الصلوٰة شفاء (ابن ماجہ:3449، سلسلة ضعیفة:4066)
7. (البقرہ :45) اس آیت میں بنی اسرائیل کو حکم ہے، اُمت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمانداروں کو خطاب فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿١٥٣﴾۔۔۔سورۃ البقرۃ)'' اے ایمان والو، صبر سے اور نماز سے قوت حاصل کرو بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''(کشف الرحمن: 361)
8. البقرة :238 ''سب نمازوں کی محافظت کرو خاص کر درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے روبرو باادب کھڑے ہوا کرو۔'' (کشف الرحمن: ص160)
9. البقرة :277 ''البتہ جو لوگ ایمان لائے او رنیک عمل کرتے رہے اور نماز کی پابندی کی اور زکوٰة ادا کی تو ان کے ربّ کے پاس ان کا ثواب محفوظ ہے۔نہ ان کو کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(کشف الرحمن: ص173)
10. المعجم الأوسط للطبراني :3894
11. العھد الذي بیننا وبینھم الصلوٰة فمن ترکھا فقد کفر ( ترمذی:2545) ''رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عہد جو ہمارے اور منافقین کے درمیان ہے، وہ نما زہے۔ جس نے نماز کو ترک کیا وہ کافر ہوگیا۔''
12. المومنون:1 ، 2، ''یقینا وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں اظہارِ عجز و نیاز کرنے والے ہیں۔''(کشف الرحمن :5452)
13. النور:37 ''ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے، نماز پڑھنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں اُلٹ پلٹ ہوجائیں گی۔'' (کشف الرحمن )
14. ''تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کر گویا کہ تو اُسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اُسے نہیں دیکھ سکتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔'' (صحیح بخاری :50)
15. العنکبوت :45 ''بے شک نماز بے حیائی اور نامعقول باتوں سے باز رکھتی ہے۔'' (کشف الرحمن :6412)
16. حدیث قدسی عن ابی ہریرہ ،صحیح بخاری ''بے شک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔''
17. سورہ ہود :114
18. الفرقان: 70 ''اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے گناہوں کی جگہ نیکیاں عطا فرمائے گا اوروہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔''
19. صحیح بخاری:6502
20. مروا أولادکم بالصلوٰة وھم أبناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم أبناء عشر سنین وفرّقوا بینھم في المضاجع) (ابوداود:495)
21. شاب نشأ في عبادة اﷲ) (صحیح بخاری :1423)
22. من لم تنھه صلوته عن الفحشآ والمنکر لم یزدد من اﷲ إلا بعدا) (طبرانی:2689)
23. المعجم الأوسط للطبراني:7؍183
24. أسوأ الناس سرقة الذ یسرق من صلوته،قالوا: یارسول اﷲ! وکیف یسرق من صلوٰته قال: لا یتم رکوعھا ولا سجودھا)عن أبي قتادة (مسند احمد :22136)
25. (لاتجز صلوٰة الرجل حتی یقیم ظھرہ في الرکوع والسجود) (ابوداود :855)
26. صحیح بخاری:791
27. مفردات القرآن :7772
28. تفسیر ابن کثیر، البقرة: 3
29. من صلی الصلاة لوقتھا وأسبغ لها وضوء ھا وأتم لھا قیامھا وخشوعھا ورکوعھا و سجودھا خرجت وھي بیضآء مسفرة تقول: حفظك اﷲ کما حفظتنا) (المعجم الأوسط للطبراني:1837) (ضعیف الترغیب:561)
30. أرأیتم لو أن نهرا ببابِ أحدکم یغتسل فیه کلَّ یوم خمسًا ما تقول ذلك ھل یبقی من درنه قالوا: لا یبقی من درنه شیئا قال فذلك مثل الصلوات الخمس یمحو اﷲ به الخطایا) (صحیح بخاری:528)
31. ‚ مسند احمد:21046
32. مسند احمد:6540
33. „ البقرة:277
34. (تلك صلوٰة المنافق یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرن الشیطان قام فنَقرها أربعا لا یذکر اﷲ فیها لا قلیلا) (صحیح مسلم :622)
35. (من لم یحافظ علیھا لم یکن له نور ولا برھان ولا نجاة،وکان یوم القیامة مع قارون وفرعون و ھامان وأبي بن خلف) (مسند احمد:6540)
36. صحیح بخاری:136
37. صحیح بخاری:6585
38. صحیح مسلم:244
39. ثم طرفه إلی السمآء (تلخیص الحبیر:1871)
40. جامع ترمذی:55 ، قال الشیخ زبیرعلي زئي: هذا حدیث ضعیف من أجل الانقطاع
41. ایضاً، صحیح سنن الترمذی:551
42. المعجم الکبیر للطبراني:1852
43. سبحانك اللھم سے لیکر ولا إله غیرك تک پھر تعوذ اوربسملہ،اس کے بعد سورہ فاتحہ (ابوداود:658)
44. ھذا بین وبین عبد ولعبد ماسَأل (صحیح مسلم:395)
45. ھذا لعبد ولعبد ماسأل (ایضاً)
46. إذا أمَّن القارئ فأمِّنوا ... الحدیث (صحیح بخاری:6402)
47. صحیح بخاری:735
48. صحیح مسلم:772
49. صحیح بخاری :794
50. صحیح مسلم:487
51. صحیح بخاری:799
52. صحیح مسلم:477
53. صحیح مسلم:772
54. صحیح مسلم:486
55. (اَللّھُمَّ اغْفِرْلِي ذَنْبِْي کُلَّه دِقَّه وَجِلَّه وَأَوَّلَه وَآخِرَہ وَعَلاَنِیَتَه وَسِرَّہ) (صحیح مسلم:483)
56. ابوداود:850
57. (التحیات ﷲ والصلوٰت والطیبات السلام علیك أیھا النبي ورحمة اﷲ و برکاته السلام علینا وعلی عباد اﷲ الصالحین أشھد أن لاإ له إلا اﷲ وأشھد أن محمد عبدہ ورسوله) (صحیح بخاری:1202)
58. صحیح بخاری:3370 ( اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی براھیم وعلی آل براھیم نک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی براھیم وعلی آل براھیم نک حمید مجید)
59. (اللھم إ ني ظلمت نفسي ظلمًا کثیرا ولا یغفر الذنوب إلا أنت فاغفرلي مغفرة من عندك وارحمني إنك أنت الغفور الرحیم) (صحیح بخاری:834)
60. (اللھم إني أعوذ بك من الھم والحزن وأعوذ بك من العجز والکسل وأعوذ بك من البخل والجبن وأعوذ بك من غلبة الدین وقھر الرجال) (ابوداود:1555)
61. (اللھم إني أعوذ بك من عذاب جهنم وأعوذ بك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسیح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحیا والممات) (صحیح بخاری:1377)
62. (رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿٢٠١﴾...سورۃ البقرۃ)
63. (رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ﴿٤٠﴾ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾) ( ابراہیم :40،41)
64. ابوداود :996
65. سلام کے بعد اﷲ أکبر،أستغفراﷲ تین بار، آیت الکرسی واذکار مسنون(صحیح بخاری:842،صحیح مسلم:591، السنن الکبری:9928)
66. المعجم الکبیر للطبرانی:2844