حج بیت اللہ الحرام : حضرت ابراہیم ؑسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک!

اہل عرب نے اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مجموعہ تعلیم ہدایت کو بالکل بھلا دیا تھا، لیکن اُنہوں نے خانہ کعبہ کے کنگرے پر چڑھ کر تمام دنیا کو جو دعوتِ عام دی تھی، اس کی صداے بازگشت اب تک عرب کے در ودیوار سے آ رہی تھی :
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ مَكَانَ ٱلْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِ‌كْ بِى شَيْـًٔا وَطَهِّرْ‌ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّ‌كَّعِ ٱلسُّجُودِ ﴿٢٦﴾ وَأَذِّن فِى ٱلنَّاسِ بِٱلْحَجِّ يَأْتُوكَ رِ‌جَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ‌ۢ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ﴿٢٧...سورة الحج
''اور جب ہم نے حضرت ابراہیم کے لیے ایک معبد قرار دیا اور حکم دیا کہ ہماری قدوسیت وجبروت میں اور کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور اس گھر کو طواف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے ہمیشہ پاک ومقدس رکھنا۔ نیز ہم نے حکم دیا کہ دنیا میں حج کی پکار بلند کر دو۔لوگ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ ان میں پیادہ پا بھی ہوں گے اور وہ بھی جنہوں نے مختلف قسم کی سواریوں پر دور دراز مقامات سے قطع مسافت کی ہوگی۔''

بدعات ومحدثاتِ جاہلیہ
لیکن سچ کے ساتھ جب جھوٹ مل جاتا ہے تو وہ اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔ اہل عرب نے اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت ِقدیمہ کو اب تک زندہ رکھا تھا، لیکن بدعات واختراعات کی آمیزش نے اصل حقیقت کو بالکل کم کر دیا تھا۔
1 خدانے اپنے گھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی تھی کہ أَن لَّا تُشْرِ‌كْ بِى شَيْـًٔا ...﴿٢٦﴾...سورة الحج'' کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا'' لیکن اب خدا کا یہ گھر تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز بن گیا تھا اور ان کا طواف کیا جاتا تھا۔
2 خدا نے حج کا مقصد یہ قرار دیا تھا کہ دنیوی فوائد کے ساتھ خدا کا ذکر قائم کیا جائے،لیکن اب صرف آباؤ اجداد کے کارنامہ ہاے فخر وغرور کے ترانے گائے جاتے تھے۔
3 حج کا ایک مقصد تمام انسانوں میں مساوات قائم کرنا تھا، اس لیے تمام عرب بلکہ تمام دنیا کو اس کی دعوتِ عام دی گئی اور سب کو وضع ولباس میں متحد کر دیا گیا،لیکن قریش کے غرور وفضیلت نے اپنے لیے بعض خاص امتیازات قائم کر لیے تھے جو اُصولِ مساوات کے بالکل منافی تھے۔ مثلاً تمام عرب عرفات کے میدان میں قیام کرتا تھا لیکن قریش مزدلفہ سے باہر نہیں نکلتے تھے اور کہتے تھے ہم کہ متولیانِ حرم حرم کے باہر نہیں جا سکتے۔ جس طرح آج کل کے امراے فسق ووالیانِ ریاست عام مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں آ کر بیٹھنے اور دوش بدوش کھڑے ہونے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔
4 قریش کے سوا عرب کے تمام مرد وزَن برہنہ طواف کرتے تھے۔ستر عورة (شرمگاہ) کے ساتھ صرف وہی لوگ طواف کر سکتے تھے جن کو قریش کی طرف سے کپڑا ملتا تھا اور قریش نے اس کو بھی اپنی اظہارِ سیادت کا ایک ذریعہ بنا لیا تھا۔
5 عمرہ گویا حج کا ایک مقدمہ یا جز تھا،لیکن اہل عرب ایامِ حج میں عمرہ کو سخت گناہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ''جب حاجیوں کی سواریوں کی پشت کے زخم اچھے ہوجائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے، تب عمرہ جائز ہو سکتا ہے۔''
6 حج کے تمام اجزا وارکان میں یہودیانہ رہبانیت کا عالمگیر مرض ساری ہو گیا تھا۔اپنے گھر سے پا پیادہ حج کرنے کی منت ماننا، جب تک حج ادا نہ ہو جائے خاموش رہنا، قربانی کے اونٹوں پر کسی حالت میں سوار نہ ہونا، ناک میں نکیل ڈال کر جانوروں کی طرح خانہ کعبہ کا طواف کرنا، زمانۂ حج میں گھر کے اندر دروازے کی راہ سے نہ گھسنا بلکہ پچھواڑے کی طرف سے دیوار پھاند کے آنا، در ودیوار پر قربانی کے جانوروں کے خون کا چھاپہ لگانا،عرب کا عام شعار ہوگیا تھا۔

ظہورِ اسلام وتزکیۂ حج
اسلام در حقیقت دین ابراہیمی کی حقیقت کی تکمیل تھی، اس لئے وہ ابتدا ہی سے اس حقیقت گم شدہ کی تجدید و احیا میں مصروف ہوگیا جس کا قالب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں نے تیار کیاتھا۔ اسلام کامجموعہ عقائد و عبادات صرف توحید، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج سے مرکب ہے لیکن ان تمام ارکان میں حج ہی ایک ایسا رکن ہے جس سے اس تمام مجموعہ کی ہیئت ِترکیبی مکمل ہوتی ہے، اور یہ تمام ارکان اس کے اندر جمع ہوگئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو صرف خانۂ کعبہ ہی کے ساتھ معلق کردیا :

إِنَّمَآ أُمِرْ‌تُ أَنْ أَعْبُدَ رَ‌بَّ هَـٰذِهِ ٱلْبَلْدَةِ ٱلَّذِى حَرَّ‌مَهَا وَلَهُۥ كُلُّ شَىْءٍ ۖ وَأُمِرْ‌تُ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿٩١...سورہ النمل
''مجھ کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں جس نے اس کو عزت دی۔ سب کچھ اسی ربّ کا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا فرمان بردار مسلم ہوں ۔''

اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ہر موقع پر حج کے ساتھ اسلام کا ذکر بطورِ لازم و ملزوم کے کیا:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَ‌ٰحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ‌ ٱلْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤...سورة الحج
''اور ہر ایک اُمت کے لئے ہم نے قربانی قرار دی تھی تاکہ خدا نے ان کو جو چارپاے بخشے ہیں ، ان کی قربانی کے وقت خدا کا نام لیں پس تم سب کا خدا ایک ہی ہے۔ اسی کے تم سب فرمانبردار بن جاؤ اور خدا کے خاکسار بندوں کو حج کے ذریعہ دین حق کی بشارت دو۔''

'اسلام' اللہ کا ایک فطری معاہدہ تھا جس کو انسان کی ظالمانہ عہد شکنی نے بالکل چاک چاک کردیا تھا، اس لئیاللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ناخلف اولاد کو روزِ اوّل ہی اس کے ثمرات سے محروم کردیا:
وَإِذِ ٱبْتَلَىٰٓ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمَ رَ‌بُّهُۥ بِكَلِمَـٰتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِى ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى ٱلظَّـٰلِمِينَ ﴿١٢٤...سورةالبقرة
''جب خدا نے چند احکام کے ذریعے ابراہیم کو آزمایا اور وہ خدا کے امتحان میں پورے اُترے، تو خدا نے کہاکہ اب میں تمہیں دنیا کی امامت اور خلافت عطا کرتا ہوں اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اور میری اولاد کو بھی؟ ارشاد ہوا کہ ہاں ، مگر اس قول و قرار میں ظالم لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔''

اُمت ِمسلمہ
اللہ نے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو جن'کلمات' کے ذریعے آزمایا اور جن کی بنا پر اُنہیں دنیا کی امامت عطا ہوئی، وہ اسلام کے اجزاے اوّلین یعنی توحید ِالٰہی، قربانی نفس و جذبات، صلوٰة الٰہی کا قیام، اور معرفت ِدین فطری کے امتحانات تھے۔ اگرچہ ان کی اولاد میں سے چند ناخلف لوگوں نے ان ارکان کو چھوڑ کر اپنے اوپر ظلم کیا اور اس موروثی عہدسے محروم ہوگئے: {لَا يَنَالُ عَهْدِى ٱلظَّـٰلِمِينَ} لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے اندر ایک دوسری اُمت بھی چھپی ہوئی تھی جس کے لئے خود انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی:
إِنَّ إِبْرَ‌ٰ‌هِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٢٠﴾...سورة النحل
حضرت ابراہیم گو بظاہر ایک فردِ واحد تھے مگر ان کی فعالیت ِروحانیہ و الٰہیہ کے اندر ایک پوری قومِ قانت و مسلم پوشیدہ تھی۔

اجزاے حج
اب اس 'امت ِمسلمہ' کے ظہور کا وقت آگیا اور وہ رسول مزکی و موعودہ غارِ حرا کے تاریک گوشوں سے نکل کر منظر عام پر نمودار ہوا تاکہ اس نے خود اس اندھیرے میں جو روشنی دیکھی ہے، وہ روشنی تمام دنیا کوبھی دکھلا دے :
يُخْرِ‌جُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ‌...﴿٢٥٧...سورة البقرة
''وہ پیغمبرؐ ان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔''
قَدْ جَآءَكُم مِّنَ ٱللَّهِ نُورٌ‌وَكِتَـٰبٌ مُّبِينٌ ...﴿١٥﴾...سورة المائدة
''بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نورِ ہدایت اور ایک کھلی کھلی ہدایتیں دینے والی کتاب آئی۔''

وہ رسولؐ منظر عام پر آیا تو سب سے پہلے اپنے باپ کے موروثی گھر کو ظالموں کے ہاتھ سے واپس لینا چاہا، لیکن اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرح بتدریج چند روحانی مراحل سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ اس نے ان مرحلوں سے بتدریج گزرنا شروع کیا۔ اس نے غارِ حرا سے نکلنے کے ساتھ ہی توحید کا غلغلہ بلندکیا کہ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو عہد لیا تھا، اس کی پہلی شرط یہی تھی: أَن لَّا تُشْرِ‌كْ بِى شَيْـًٔا ...﴿٢٦﴾...سورة الحج پھر اس نے صف ِنماز قائم کی کہ یہ گھر صرف اللہ ہی کے آگے سرجھکانے والوں کے لئے بنایا گیا تھا:
وَطَهِّرْ‌ بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْقَآئِمِينَ وَٱلرُّ‌كَّعِ ٱلسُّجُودِ... ﴿٢٦﴾..سورة الحج


اس نے روزے کی تعلیم دی کہ وہ شرائط ِحج کا جامع ومکمل تھا:
فَمَن فَرَ‌ضَ فِيهِنَّ ٱلْحَجَّ فَلَا رَ‌فَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِى ٱلْحَجِّ ۗ...﴿١٩٧﴾...سورة البقرة
''جس شخص نے ان مہینوں میں حج کاارادہ کرلیا تو اس کو ہر قسم کی نفس پرستی، بدکاری اور جھگڑے تکرار سے اجتناب کرنا لازمی ہے'' اور روزہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ انسان کو غیبت، بہتان، فسق و فجور، مخاصمت و تنازعت، اور نفس پرستی سے روکتا ہے ۔''
جیسا کہ احکامِ صیام میں فرمایا:
ثمَّ أَتِمُّوا ٱلصِّيَامَ إِلَى ٱلَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَـٰشِرُ‌وهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ ۗ...﴿١٨٧﴾...سورة البقرة
''پھر رات تک روزہ پورا کرو، اور روزہ کی حالت میں عورتوں کے نزدیک نہ جاؤ اور اگر مساجد میں اعتکاف کرو تو شب کو بھی ان سے الگ رہو۔''

اس نے زکوٰة بھی فرض کردی کہ وہ بھی حج کاایک اہم مقصد تھا:
فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا ٱلْبَآئِسَ ٱلْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨...سورة الحج
'' قربانی کا گوشت خود کھاؤ اور فقیروں اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔''

فتح مکہ
اس طرح جب اس 'اُمت ِمسلمہ' کا روحانی خاکہ تیار ہوگیا تو اس نے اپنی طرح ان کو بھی منظر عام پرنمایاں کرنا چاہا۔ اس غرض سے اس نے عمرہ کی تیاری کی اور 14، 15 سو کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوا کہ پہلی بار اپنے آبائی گھر کو حسرت آلود نگاہوں سے دیکھ کر چلے آئیں ۔ لیکن یہ کاروانِ ہدایت راستے ہی میں بہ مقامِ حدیبیہ روک دیا گیا۔ دوسرے سال حسب ِشرائط صلح زیارتِ کعبہ کی اجازت ملی اور آپ مکہ میں قیام کرکے چلے آئے۔ اب اس مصالحت نے راستے کے تمام نشیب و فراز ہموار کردیے تھے، صرف خانہ کعبہ میں پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیاتھا، اسے بھی فتح مکہ نے ہموار کردیا :
دخل النبي ! مکة یوم الفتح وحول البیت ستون و ثلث مائة نصب فجعل یطعنھا بعود في یدہ ویقول جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَـٰطِلُ ۚ...﴿٨١...سورة بنی اسرائیل
ٰٰ''آنحضرتؐ فتح مکہ کے دن جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے گرد تین سو ساٹھ بت نظر آئے۔ آپ ان کو ایک لکڑی کے ذریعے ٹھکراتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَـٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَـٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١...سورة بنی اسرائیل

یعنی حق اپنے مرکز پر آگیا اور باطل نے اس کے سامنے ٹھوکر کھائی۔باطل پامال ہونے ہی کے قابل تھا۔''1

فرضیت ِحج
اب میدان بالکل صاف تھا۔ راستے میں ایک کنکری بھی سنگ ِراہ نہیں ہوسکتی تھی۔ باپ نے گھر کو جس حال میں چھوڑا تھا، بیٹے نے اس گھر کو اسی حالت پر لوٹا دیا۔ تمام عرب نے فتح مکہ کو اسلام و کفر کا معیارِ صداقت قرار دیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اب وقت آگیا تھا کہ دنیا کو اس جدید النشأة 'اُمت ِمسلمہ' کے قالب ِروحانی کا منظر عام طور پر دکھا دیا جاتا، اس لئے دوبارہ اسی دعوتِ عامہ کا اعادہ کیا گیا جس کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام عالم میں ایک غلغلہ عام ڈال دیا تھا مگر اس قوت کا فعل میں آناظہور نبی اُمی پر موقوف تھا :

وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ...﴿٩٧...سورة آل عمران
'' جو لوگ مالی اور جسمانی حالت کے لحاظ سے حج کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر اب حج فرض کردیا گیا۔''

تکمیل حج
اس صدا پر تمام عرب نے لبیک کہااور آپؐ کے گرد ۱۳،۱۴ ہزار آدمی جمع ہوگئے۔ عرب نے ارکانِ حج میں بدعات و اختراعات کا جو زنگ لگا دیاتھا، وہ ایک ایک کرکے چھڑا دیاگیا۔ آبائو اجداد کے کارناموں کے بجاے اللہ کی توحید کا غلغلہ بلند کیاگیا:
فَٱذْكُرُ‌وا ٱللَّهَ كَذِكْرِ‌كُمْ ءَابَآءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً‌ا ۗ...﴿٢٠٠...سورة البقرة
''(زمانۂ حج میں ) خدا کو اسی جوش و خروش سے یاد کرو جس طرح اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کا اعادہ کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سرگرمی کے ساتھ۔''


قریش کے تمام امتیازات مٹا دیے گئے، اور تمام عرب کے ساتھ ان کو بھی عرفہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کردیاگیا :
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ ٱلنَّاسُ وَٱسْتَغْفِرُ‌واٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿١٩٩...سورة البقرة
''اور جس جگہ سے تمام لوگ روانہ ہوں تم بھی وہیں سے روانہ ہوا کرو اور فخر و غرور کی جگہ خدا سے مغفرت مانگو کیونکہ خدا بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔''

سب سے بد ترین رسم برہنہ طواف کرنے کی تھی، اور مردوں سے زیادہ حیاسوز منظربرہنہ عورتوں کے طواف کا ہوتا تھا، لیکن ایک سال پہلے ہی سے اس کی عام ممانعت کرا دی گئی:
أن أبا ھریرة أخبرہ أن أبا بکر الصدیق بعثه في الحجة التي أمرہ رسول اﷲ! قبل حجة الوداع یوم النحر في رھط یؤذن في الناس، ألا! لا یحج بعد العام مشرك ولا یطوف بالبیت عریان 2
''حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حجة الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر ؓ کو ایک حج کا امیر بنایا اور اُنہوں نے مجھ کو ایک گروہ کے ساتھ روانہ کیا تاکہ یہ اعلان کردیا جائے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک یا کوئی برہنہ شخص حج یا طواف نہ کرسکے گا۔''

زمانۂ حج میں عمرہ کرنے والوں کو فاسق و فاجر کہا جاتا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع میں عمرہ ہی کا اِحرام باندھا اور صحابہ کو بھی عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ پاپیادہ اور خاموش حج کرنے کی ممانعت کی گئی۔ قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیا گیا، ناک میں رسی ڈال کر طواف کرنے سے روکا گیا۔ گھر میں سامنے کے دروازے سے داخل ہونے کا حکم دیا :
وَلَيْسَ ٱلْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا ٱلْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ‌ مَنِ ٱتَّقَىٰ ۗ وَأْتُواٱلْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَ‌ٰبِهَا ۚ وَٱتَّقُواٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩..سورة البقرة
''یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ گھروں میں پچھواڑے سے آؤ، نیکی تو صرف اس کی ہے جس نے پرہیزگاری اختیارکی۔ پس گھروں میں دروازے ہی کی راہ سے آؤ اور خدا سے ڈرو۔یقین ہے کہ تم کامیاب ہوگے۔''

قربانی کی حقیقت واضح کی گئی اور بتایا گیاکہ وہ صرف ایثارِ نفس و فدویت ِجان و روح کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، اس کا گوشت یا خون خدا تک نہیں پہنچتا کہ اس کے چھاپہ سے دیواروں کو رنگین کیا جائے۔ خدا تو صرف خالص نیتوں اور پاک و صاف دلوں کو دیکھتا ہے۔
لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ...﴿٣٧...سورہ الحج
''خدا تک قربانی کے جانوروں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس تک صرف تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔''
یہ چھلکے اُتر گئے تو خالص مغز ہی مغز باقی رہ گیا۔ اب وادیٔ مکہ میں خلوص کے دو قدیم وجدید منظر نمایاں ہوگئے، ایک طرف آبِ زمزم کی شفاف سطح لہریں لے رہی تھی، دوسری طرف ایک جدید النشأة قوم کا دریا ے وحدت موجیں مار رہا تھا۔

اعلانِ عام و حجة الوداع
لیکن دنیا اب تک اس اجتماعِ عظیم کی حقیقت سے بے خبر تھی۔ اسلام کی ۲۳سالہ زندگی کا مدو جزر تمام عرب دیکھ چکا تھا، مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسلام کی تاریخی زندگی کن نتائج پر مشتمل تھی، اور مسلمانوں کی جدوجہد، فدویت، ایثارِ نفس و روح کا مقصد ِاعظم کیا تھا؟ اب اس کی توضیح کا وقت آگیا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑنے اس گھر کا سنگ ِبنیاد اس دعا کو پڑھ کر رکھا تھا:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَ‌ٰ‌هِـۧمُ رَ‌بِّ ٱجْعَلْ هَـٰذَا بَلَدًا ءَامِنًا وَٱرْ‌زُقْ أَهْلَهُۥ مِنَ ٱلثَّمَرَ‌ٰ‌تِ مَنْ ءَامَنَ مِنْهُم بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ ۖ...﴿١٢٦...سورة البقرة
''جب ابراہیم نے کہا کہ کہ خداوندا اس شہر کو امن کا شہر بنا اور اس کے باشندے اگر خدا اور روزِقیامت پر ایمان لائیں تو ان کو ہر قسم کے ثمرات و نعائم عطا فرما۔''

جس وقت اُنہوں نے یہ دعا کی تھی، تمام دنیا فتنہ و فساد کا گہوارہ بن رہی تھی۔ دنیا کا امن و امان اُٹھ گیا تھا، اطمینان و سکون کی نیند آنکھوں سے اُڑ گئی تھی۔دنیا کی عزت و آبرو معرضِ خطر میں تھی۔جان و مال کا تحفظ ناممکن ہوگیا تھا، کمزور اور ضعیف لوگوں کے حقوق پامال کردیے گئے تھے، عدالت کا گھر ویران، حریت ِانسانیت مفقود اور نیکی کی مظلومیت انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی۔کرئہ ارضی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ظلم و کفر کی تاریکی سے ظلمت کدہ نہ ہو۔ اس لئے اُنہوں نے آباد دنیاکے ناپاک حصوں سے کنارہ کش ہوکر ایک'وادیٔ غیر ذی زرع' میں سکونت اختیارکی۔ وہاں ایک دارالامن بنایا اور تمام دنیاکو صلح و سلام کی دعوتِ عام دی۔ اب ان کی صالح اولاد سے یہ دارالامن بھی چھین لیاگیا تھا۔ اس لئے اس کے واپسی کے لئے پورے دس سال تک اس کے فرزند نے بھی باپ کی طرح میدان میں ڈیرہ ڈالا۔ فتح مکہ نے جب اس کا مامن و ملجا واپس دلا دیا تو وہ اس میں داخل ہوا کہ باپ کی طرح تمام دنیا کو'گم شدہ حق کی واپسی' کی بشارت دے۔ چنانچہ وہ اونٹ پر سوار ہوکر نکلا اور تمام دنیا کو مژدئہ امن و عدالت سنایا:

خطبہ حجة الوداع
(إن دماء کم وأموالکم علیکم حرام کحرمة یومکم ھذا في شهرکم ھذا في بلدکم ھذا،ألا إن کل شيء من أمر الجاھلیة تحت قدمي موضوع ودماء الجاھلیة موضوعة وأول دم أضعه دماء نا دم ابن ربیعة وربا الجاھلیة موضوع وأول ربا أضعه ربانا ربا عباس بن عبد المطلب۔۔۔ اللھم اشهد۔۔۔ )3
''جس طرح تم آج کے دن کی، اس مہینہ کی، اس شہر مقدس کی حرمت کرتے ہو، اسی طرح تمہارا خون اور تمہارا مال بھی تم پر حرام ہے۔ اچھی طرح سن لو کہ جاہلیت کی تمام بری رسموں کو آج میں اپنے دونوں قدموں سے کچل ڈالتا ہوں ۔ بالخصوص زمانۂ جاہلیت کے انتقام اور خون بہا لینے کی رسم تو بالکل مٹا دی جاتی ہے، میں سب سے پہلے اپنے بھائی ابن ربیعہ کے خون کے انتقام سے دست بردار ہوتا ہوں ۔ جاہلیت کی سود خوری کا طریقہ بھی مٹا دیا جاتا ہے اور سب سے پہلے خود میں اپنے چچا عباس ابن عبدالمطلب کے سود کو چھوڑتا ہوں ۔ خدایا تو گواہ رہنا! خدایا تو گواہ رہنا!! خدایا تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا۔''

تکمیلِ دین الٰہی
اب حق پھر اپنے اصلی مرکز پر آگیا، اور باپ ؑنے دنیاکی ہدایت و ارشاد کے لئے جس نقطہ سے پہلا قدم اُٹھایا تھا، بیٹے ؐکے روحانی سفر کی وہ آخری منزل ہوئی، اور اسی نقطے پر پہنچ کر اسلام کی تکمیل ہوگئی، اس لئے کہ اس نے تمام دنیا کو مژدئہ امن سنایاتھا، آسمانی فرشتے نے بھی اس کو کامیابی مقصد کی سب سے آخری بشارت دے دی :
لْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا ۚ...﴿٣...سورة المائدة
''آج کے دن میں نے تمہارے دین کوبالکل مکمل کردیا اور تم پر اپنے تمام احسانات پورے کردیئے، اور میں نے تمہارے اسلام کو ایک برگزیدہ دین منتخب کیا۔''

 

مذکورہ بالا مضمون برصغیر پاک وہند کے مشہور ہفت روزے 'الہلال' سے ماخوذ ہے۔ اس مجلے کے مدیر مولانا ابوالکلام آزاد ؒنے اپنے مخصوص ادبی اُسلوب کے ذریعے اپنے قارئین کو انتہائی متاثر کیا۔ ہفت روزہ 'الہلال' برصغیر کی دینی صحافت کا ایک درخشندہ باب ہے جس کا مختصر تعارف اسی مجلہ میں حسب ِذیل طور پر شائع ہوا :

41 'الہلال' تمام عالم اسلامی میں پہلا ہفتہ وار رسالہ ہے جو ایک ہی وقت میں دعوتِ دینیہ اسلامیہ کے احیا ، درسِ قرآن و سنت کی تجدید، اعتصام بہ حبل اﷲ المتین کا واعظ اور وحدتِ کلمہ اُمت ِمرحومہ کی تحریک کا لسان الحال، نیز مقالاتِ علمیہ و فصولِ ادبیہ، ومضامین وعناوین سیاسیہ کا مصدر و مرصع مجموعہ ہے۔اس کے درسِ قرآن و تفسیر اور بیانِ حقائق ومعارفِ کتاب اللہ الحکیم کا اندازِ مخصوص محتاجِ تشریح نںیص ۔ اس کے طرزِ انشا و تحریر نے اُردو علم و ادب میں دو سال کے اندر اندر ایک انقلابِ عظیم پیدا کردیا ہے۔ اس کے طریق استدلال و استشہادِ قرآنی نے تعلیماتِ الٰہیہ کی محیط الکل عظمت و جبروت کا جو نمونہ پیش کیاہے، وہ اس درجہ عجیب و مؤثر ہے کہ 'الہلال' کے اشد ِشدید مخالفین و منکرین تک اس کی تقلید کرتے ہیں اور گویا اس طرح زبانِ حال سے اقرار و اعتراف پر مجبور ہیں ۔ اس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک جملہ، ایک ایک ترکیب، بلکہ عام طریق تعبیر و ترتیب و اُسلوب ونسجِبیان اس وقت تک کے تمام اُردو ذخیرہ میں مجددانہ و مجتہدانہ ہے۔

2قرآنِ کریم کی تعلیمات اور شریعت ِالٰہیہ کے احکام کو جامع دین و دنیا اور خارجی سیاست واجتماعیہ ثابت کرنے میں اس کا طریق استدلال و بیان اپنی خصوصیات کے لحاظ سے کوئی قریبی مثال تمام عالم اسلامی میں نہیں رکھتا۔

3 وہ تمام ہندوستان میں پہلی آواز ہے جس نے مسلمانوں کو ان کے تمام سیاسی و غیر سیاسی معتقدات و اعمال میں اتباعِ شریعت کی تلقین کی اور سیاسی آزادی و حریت کو عین تعلیماتِ دین ومذہب کی بنا پر پیش کیا۔ یہاں تک کہ دو سال کے اندر ہی اندر ہزاروں دلوں ، ہزاروں زبانوں اور صدہا اقلام و صحائف سے اس حقیقت کو معتقدانہ نکلوا دیا۔

4 وہ ہندوستان میں پہلا رسالہ ہے جس نے موجودہ عہد کے اعتقادی و عملی اِلحاد کے دور میں توفیق الٰہی سے عمل بہ اسلام وقرآن کی دعوت کا از سر نو غلغلہ بپا کردیا، اور بلا ادنیٰ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے مطالعے سے بے تعداد و بے شمار مُشکّکین، مذبذبین، مُتـفرنجین، ملحدین اور تارکین اعمال و اَحکام راسخ اعتقاد مؤمن، صادق الاعمال مسلم اور مجاہد فی سبیل اللہ مخلص ہوگئے ہیں ۔ بلکہ متعدد بڑی بڑی آبادیاں اور شہرکے شہر ہیں جن میں ایک نئی مذہبی بیداری پیدا ہوگئی ہے ۔

5 علیٰ الخصوص حکم مقدس جہاد فی سبیل اللہ کے جو حقائق واَسرار اللہ تعالیٰ نے اس کے صفحات پر ظاہر کئے، وہ ایک فضل مخصوص اور توفیق و مرحمت ِخاص ہے۔

6 طالبانِ حق و ہدایت، متلاشیانِ علم و حکمت، خواستگارانِ ادب وا نشا، تشنگانِ معارفِ الٰہیہ وعلومِ نبویہ، غرض کہ سب کے لئے اس سے جامع و اعلیٰ اور بہتر و اجمل مجموعہ اور کوئی نہیں ۔وہ اخبار نہیں ہے جس کی خبریں اور بحثیں پرانی ہوجاتی ہوں ، وہ مقالات و فصولِ عالیہ کا ایک ایسا مجموعہ ہے جن میں سے ہر فصل و باب بجائے خود ایک مستقل تصنیف وتالیف ہے اور ہر زمانے اور ہر وقت میں اس کا مطالعہ مثل مستقل مصنفات و کتب کے مفید ہوتا ہے۔''5


حوالہ جات
1. صحیح بخاری:4287،صحیح مسلم:1781
2. صحیح بخاری :1622
3. صحیح مسلم:1218، أبوداود :کتاب المناسك،باب صفة حجة النبي
4. ہفت روزہ 'الہلال' کلکتہ بابت28؍اکتوبر1914ء
5. ہفت روزہ 'الہلال' کلکتہ بابت28؍اکتوبر1914ء