دورِ فتن میں مسلم خاتون کا فریضہ

میں ایک اہم موضوع پر اظہار خیال کرنے اُٹھی ہوں ۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ معاشرہ کی تعمیر میں عورت کا کیا کردار ہوناچاہئے؟ یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے...!
بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوچھا جارہا ہے کہ کیامعاشرے کی تعمیر میں مسلمان عورت کا کوئی عمل دخل اور ذمہ داری ہے؟ اگر سوال یہی ہے تو اس کا جواب نہ صرف اثبات میں ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عورت کا تو وجود بذاتِ خود ایک بہت بڑا کردار ہے۔ اس لئے کہ یہ عورت ہی تو ہے جو نفس ِانسانی کاشت کرتی ہے اور مرد ہو یا عورت، سب کو اپنی کوکھ سے جنم دیتی ہے اور پھر اسے جنم دینے کے بعد اس کی پرورش کرتی ہے۔ میری مراد یہ ہے کہ اس ننھی جان کوجس خالق ِحقیقی نے اپنی قدرت ِ کاملہ سے ماں کے رحم میں پیدا فرمایا اور اس کو نک سک سے مکمل کیا، وہی اسے رحم مادر سے باہر بھیجتا ہے۔ اس کے بعد اس کی پرورش اور تربیت بھی اسی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق ِانسانی کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن سُلَـٰلَةٍ مِّن طِينٍ ﴿١٢﴾ ثُمَّ جَعَلْنَـٰهُ نُطْفَةً فِى قَرَ‌ارٍ‌ۢ مَّكِينٍ ﴿١٣﴾ ثُمَّ خَلَقْنَا ٱلنُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا ٱلْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا ٱلْمُضْغَةَ عِظَـٰمًا فَكَسَوْنَا ٱلْعِظَـٰمَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَـٰهُ خَلْقًا ءَاخَرَ‌ ۚ فَتَبَارَ‌كَ ٱللَّهُ أَحْسَنُ ٱلْخَـٰلِقِينَ ﴿١٤...سورة المومنون
''ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں ، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔''

چنانچہ جب رحم ِمادر اپنے لخت ہائے جگر کاٹ کر پھینکتا ہے، یعنی جب ماں بچے کو جنم دیتی ہے تو ... کیا اس کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے؟

کیا اس کے بعد یہ عورت ہی نہیں جو بچے کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھاتی ہے اور راتوں کو جاگ کر اپنا خونِ جگر پلا کر اس کی نشوونما کرتی ہے؟ اور پھر کیادودھ چھڑانے کے بعد بچے کی زندگی میں عورت کاکردار ختم ہوجاتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کا مشن انتہائی نازک ہے۔ اپنے وظائف و فرائض کی مخصوص نوعیت کی بنا پر معاشرے میں وہ ذمہ داری کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہے۔ یہ عورت ہی تو ہے جو نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔ پہلے اس کے جسم کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس جسمانی ساخت وپرداخت سے کہیں نازک تر یہ ہے کہ عورت ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ عورت ہی نسلِ انسانی کے افراد میں ، نر ہوں یامادّہ، سب میں قواے ادراک و شعور کی تکمیل کا عمل سرانجام دیتی ہے، ان میں صدق و امانت اور جواں مردی وایثار ایسے اخلاقِ فاضلہ کی آبیاری کرتی ہے۔

درحقیقت معاشرے میں عورت کا مقام وہی ہے جو جسم میں روح کا۔ عورت ہی انسانی معاشرے کی ماں اور اس کا مرکز و محور ہے۔ عورت ہی معاشرے کو تخلیق کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر معاشرہ قائم رہتاہے۔ اور وہی اس میں زندگی کی روح پھونکتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت ہی انسانی معاشرے کو خوش بخت بناتی ہے جبکہ یہ بھی اسی کے امکان میں ہے کہ اسے بدبخت بنا دے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنے کندھوں پر نسل انسانی کو پیدا کرنے اور وجود میں لانے کی جو ذمہ داری اُٹھاتی ہے، اسے پورا کرنے کے بعد عورت کے پاس کیا اتنا وقت بچ سکتا ہے کہ وہ مردوں سے برابری حاصل کرنے کے لئے سرکاری دفاتر یا کاروباری مراکز میں بھی جاکر کام کرے؟

اور پھر اہم بات یہ ہے کہ وہ مرد جس سے مساوات پیدا کرنا عورت نے اپنا مقصد سمجھ لیا ہے، وہ کون ہے اور کیا ہے؟ کیا یہ مرد خود عورت کا جگر گوشہ اور اسی کی کوکھ سے جنم لینے والا بیٹا نہیں ہے؟ عورت کو اس سے کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے کہ اس کا لخت ِجگر وزیر بن جائے یاوزارت ِعظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجائے۔

کیا یہی وزیراعظم ہر روز صبح کے وقت اس کے ہاتھوں کوبوسہ دینے کے لئے اس کے پاس حاضری نہیں دیتا؟ خود سوچئے کہ عورت کے لئے یہ مقام و مرتبہ باعث ِفضل و شرف ہے یا یہ کہ روزانہ پون گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ وقت اپنا بناؤ سنگھار کرنے کی غرض سے آئینہ کے سامنے کھڑی رہ کر گزارے تاکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے مرد اس کی تزئین و آرائش سے محظوظ ہوں ...!

اسلام کی نظر میں جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ''جنت ماں کے قدموں میں ہے۔'' عور ت اس سے کہیں زیادہ گراں بہا ہے کہ وہ اپنا وقت مرد کے دوش بدوش چلنے کی خاطر ایسے کاموں میں صرف کرے جن کی بجاآوری اورتکمیل اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے مرد ہی کے ساتھ مختص ہے۔ بلاشبہ مرد کی زندگی کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کا اسے مکلف بنایا گیاہے ۔ بعینہٖ عورت کی زندگی کا اہم ترین فرض یہ ہے کہ وہ اپنا وہ کردار ادا کرے جو اس کا امتیاز ہے اور جو صرف وہی ادا کرسکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کو جس فطرت پر خلق فرمایا ہے، وہ فطرتِ سلیمہ ہے۔ مرد جو خاندان کا سربراہ اور باپ ہے، اس کی فطرت یہ ہے کہ وہ عورت کے زندہ رہنے کا سازوسامان فراہم کرے اور اس کی زندگی کے تمام مطالبات اور ضروریات کی کفالت کرے جبکہ عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے یا تو ماں ہے اور ماں ہونے کے ناطے سے اس کا کام بچے پیدا کرنا اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یا بیوی ہے جس کا فریضہ یہ ہے کہ اپنے خاوند کے لئے تمام ایسے حالات و اسباب مہیا کرے جو اس کو گھر سے باہر کام کرنے کے قابل بنائیں تاکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہر قسم کی بہترین پیداوار حاصل ہو۔

اس کارگاہِ حیات میں عورت کی صنعت مردوں اور عورتوں کی کھیپ تیار کرنا ہے اور مرد کی صنعت یہ ہے کہ وہ عورت کو وہ تمام سامان مہیا کرے جس کی عورت کو اپنی زندگی اور خوش حالی کے لئے احتیاج ہے تاکہ اس کے نتیجے میں انسان سازی کی صنعت اپنے بہترین حالات میں رواں دواں رہے اور اچھے انسان تیار ہوں ۔

کیا ان حقائق کی موجودگی میں بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا معاشرے یا بالفاظِ دیگر زندگی میں عورت کا کوئی رول ہے؟ ظاہر ہے کہ زندگی میں عورت کا رول یہ ہے کہ وہ ماں بنے، بیوی بنے ... لیکن ہوا کیا؟

میری مراد یہ ہے کہ جب عورت کو اس کی اصل فطرت کے دائرے سے نکال کر ایسے کاموں میں گھسیٹا گیا جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ نہ تھے تو کیا نتائج برآمد ہوئے؟

ایسی نسلیں وجود میں آئیں جن کے وہ خلئے جو عقل و شعور کا مرکز ہوتے ہیں ، نشہ آور اشیا کے استعمال سے مسموم ہوگئے۔ اب وہ آدمی نہیں بلکہ آدمیت کی ایک جھلسی ہوئی اور مسخ شدہ شکل اور انسانیت کی انتہائی بھدی اور بھونڈی تصویر بن کر رہ گئے ہیں ۔

ہم نے خود ہی مامتا کو گنتی کے چند ٹکوں کے عوض فروخت کردیا اور پھر خود ہی پوچھتے ہیں کہ آیا معاشرے میں عورت کاکوئی رول ہے؟ آپ کس معاشرے کی بات کررہے ہیں ؟ معاشرہ باقی کہاں رہ گیا ہے؟ ہم نے گھر کو، جو معاشرے کی خشت ِاوّل تھا، اُجاڑ دیا، ہم نے عورت کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے چکر میں ڈال کر اس کے فطری مقاصد اور طبعی صلاحیتوں کو ضائع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔

مغرب جو یہ جھوٹا اور پُرفریب دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے عورت کو آزادی عطا کی ہے، عنقریب اس پر زمانہ اپنا طبعی چکر پورا کرے گا اور پھر جب سب چیزوں کو لوٹ کر دوبارہ اپنے فطری محور و مرکز پر واپس آنا پڑے گا اس وقت اُنہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے تو اپنے گھر کو اور گھر کے ساتھ ہی اپنے سارے معاشرے کو اُسی دن بگاڑ دیا تھا جس دن دنیا کو اس دھوکے میں مبتلا کیا تھا کہ عورت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا سامانِ معاش مہیا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت عورت نہ رہی بلکہ آدمیت کی مسخ شدہ صورت اور جنسی بھیڑیوں کے لئے لوٹ کا مال بن گئی۔

لہٰذا عورت کے وزیراعظم بن جانے سے کسی کو دھوکے میں مبتلا نہ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کا کمال اور اس کی بے مثال خوبی یہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے اور اُنہیں ایسا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار کرے جو معاشرے کے لئے نفع بخش، مثبت اور نتیجہ خیز ہو۔ مسلسل عورت جب تک ماں رہی، یعنی اُمومت کے اوصاف سے متصف رہی، اس کو معاشرے مں سب سے محترم مقام حاصل رہا۔

آئیے، اب ذرا ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ عورت کو گھر سے نکال کر کارخانوں اور دکانوں میں پہنچانے کے نتیجے میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا...!!
عورت نے سب سے پہلے اپنی جو متاعِ گراں مایہ اس چکر میں گنوائی... وہ ہیں اس کے جگر گوشے، یعنی اس نے اپنے بیٹوں کو تباہ و برباد کردیا اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل وجود میں آئی جسے شیطان نے کاشت کیاہے جس کی رگِ جان سوکھ کر بے برگ و بے ثمر ہوگئی۔ یہ وہ نسل ہے جس کی پرورش غیر فطری طریقے پر ہوئی اور اس کے افراد غلط رہنمائی کے زیرسایہ پل بڑھ کر جوان ہوئے اور اب وہ خود اپنی ہی ماں کو اپنی اس مسخ شدہ فطرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، لہٰذا اس سے نفرت کرتے ہیں ، نہ اس کا حکم مانتے ہیں اور نہ اس کی نصیحت پر کان دھرتے ہیں ۔

اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ان کی معصوم آنکھیں ، جب یہ بچے تھے تو اپنی اسی ماں کو اس حالت میں رخصت کیا کرتی تھیں کہ وہ ان کو پرورش خانوں یا کسی ایسی خادمہ کے پاس پھینک کر جارہی ہوتی تھی جس کو اس بچے کی کسی بات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان نوجوانوں کے حافظہ میں یہ بات بھی محفوظ ہے کہ یہی ماں ان بچوں کو گنتی کے چند ٹکوں کے مقابلہ میں کتنا بے وقعت اور ناقابل التفات سمجھا کرتی تھی۔ تعجب ہے کہ ان حقائق کی موجودگی کے باوجود ہم ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ معاشرے میں عورت کا رول کیا ہے؟

عورت کا رول معاشرے کی تعمیر ہے، معاشرے کے لئے مردوں اور عورتوں کی تیاری ہے، ایک ایسی قوم کی تعمیر ہے جس کے مردوں کو ان کی ماؤں نے زندگی کے ابتدائی سانسوں میں ، جب وہ ان کی گود میں پرورش پا رہے تھے، سچی مامتا بھری نگاہوں اور دیانت دارانہ پُرسکون باتوں سے فیض یاب کیا ہو، اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہو کہ بیٹے جب جوانی کی منزل میں قدم رکھں تو وہ بڑے سے بڑے معاملے میں بھی اپنی ماں کے مطیع فرمان ثابت ہوں اور اس کے حکم و تدبیر سے ہر بُرے کام کو دور پھینک دیں ۔ نہ تو وہ اپنے جذبات کو سگار کے دھوئیں میں اُڑائیں اور نہ کسی نشہ آور مشروب کے زہریلے قطروں میں ، بلکہ ان کے جذبات واحساسات اپنی ماں کی ان باتوں سے زندگی حاصل کرتے ہوں جو وہ اُنہیں اس اعتماد سے سناتی رہی ہے کہ وہی ان کی زندگی کے تمام مسائل و مشکلات کا حل بتانے والی ہے، اور ان باتوں میں زندہ و تابندہ رہیں جو اس نے اپنے بچے کو ایسے پراعتماد دل سے سنائی ہوں جس میں یہ یقین ہو کہ ان ہی باتوں میں ان کی خیر و فلاح ہے۔ یہی ماں اپنے بچے کا ایسا ملجا و ماویٰ ہو جس سے بچے کی کوئی اچھی بُری بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔

لہٰذا ہمیں یہ بات بخوبی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ مسلمان عورت کا رول پہلا بھی، دوسرا بھی اور تیسرا بھی، یعنی اوّل سے آخر تک، ایک ہی ہے اور وہ ہے: ایک ایسی نسل تعمیر کرنا جو اپنے عقائد میں انتہائی راسخ ہو اور جس نے اسلام کا سبق صاحب ِفہم و ذہانت اور عقل و شعور کی مالک ماں کی گود میں لیا ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''قریش کی عورتیں ان سب عورتوں میں بہترین ہیں جو اونٹ کی سواری کرتی ہیں ( یعنی پورے عرب کی عورتوں میں )۔ یہ اپنے بچے پر سب سے زیادہ شفقت کرنے والی اور اپنے خاوند کے مال کی بہت زیادہ حفاظت کرنے والی ہیں ۔'' 1

بچہ کی نگہداشت اور خاوند کی خدمت ہی وہ مؤثر اور فعال کردار ہے جو ایک ایسے ماحول میں جہاں گھر ایسی نیک نہاد ماؤں سے خالی ہیں جو اپنے فہم و ذہانت سے معاشرے کو زندگی کے مختلف پہلوؤں میں روشنی عطا کرتی ہیں ، ایسے انسانوں کا معاشرہ تعمیر کرتا ہے جن کے اعتقادات درست، عقل و شعور پختہ اور جذبات حقیقی ہوں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَـٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْقَـٰنِتِينَ وَٱلْقَـٰنِتَـٰتِ وَٱلصَّـٰدِقِينَ وَٱلصَّـٰدِقَـٰتِ وَٱلصَّـٰبِرِ‌ينَ وَٱلصَّـٰبِرَ‌ٰ‌تِ وَٱلْخَـٰشِعِينَ وَٱلْخَـٰشِعَـٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَـٰتِ وَٱلصَّـٰٓئِمِينَ وَٱلصَّـٰٓئِمَـٰتِ وَٱلْحَـٰفِظِينَ فُرُ‌وجَهُمْ وَٱلْحَـٰفِظَـٰتِ وَٱلذَّ‌ٰكِرِ‌ينَ ٱللَّهَ كَثِيرً‌ا وَٱلذَّ‌ٰكِرَ‌ٰ‌تِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةً وَأَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿٣٥...سورة الحزاب
''بالیقین جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں ، مؤمن ہیں ، مطیع فرمان ہیں ، راست باز ہیں ، صابر ہیں ، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں ، صدقہ دینے والے ہیں ، روزے رکھنے والے ہیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں ، اللہ نے ان مردو زَن کے لئے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔''

یہ ہیں وہ صفاتِ حسنہ جن کا مرد اور عورت دونوں میں پوری طرح پایا جانا بے حد ضروری ہے۔ اِنہی صفات کی بنا پر وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ ایک ایسا صحیح اور طاقتور معاشرہ قائم کرسکیں جو ان حقوق کی حفاظت کرسکے جو افراد معاشرہ پر اللہ کی جانب سے اور باہم ایک دوسرے کی طرف سے عائد ہوتے ہیں ۔

یہ وہ صفات ہیں کہ ان کا موجود ہونا اگر مرد میں ضروری ہے، تو عورت میں ان کا پایا جانا ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر چارہ نہیں کیونکہ درحقیقت عورت ہی ایمان و یقین سے لبریز اسلامی زندگی کا محور و مرکز ہے اور اسلامی زندگی ہی وہ چیز ہے جس کو اختیار کرنے سے انسان یہ ثابت کرنے کے قابل ہوتا ہے کہ انسانی برادری کا یہی وہ فرد ہے جس کے وجود سے خاندانوں ، معاشرے اور قوم کے حالات و معاملات درست بنیادوں پراستوار ہوسکتے ہیں ۔

بلاشبہ ایسی مسلمان عورت جس میں یہ دس اوصاف پائے جاتے ہوں جن کا ذکر مذکورہ بالا آیت ِکریمہ میں ہے اور اس طرح پائے جاتے ہوں کہ وہ ان کی حفاظت بھی کرے اور ان پر اعتقاد بھی رکھے، ان پر عمل بھی کرے اور اپنی ذات اور اپنوں پر ان کو منطبق کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں سے برتاؤ کرتے وقت بھی ان کو بروے کار لائے، ایسی مسلمان عورت کا وجود اسلامی معاشرے کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے۔ ایسی ہی عورتوں کے وجود سے اسلامی معاشرہ سلف صالحین کی زندگی اور عہد ِصحابیات کی طرف لوٹ سکتا ہے اور یہی وہ معاشرہ ہوگا جس میں عورتیں اپنے علم و فقہ اور زہد و تقویٰ سے ایسے مردوں کی مضبوط نسل تیار کرسکتی ہیں اور پھر اسے مستحکم بنا سکتی ہیں جن کا اُٹھنا پندرہویں صدی ہجری میں اسلام کو ریاست و قیادت کے منصب پر واپس لانے اور اللہ واسطے کی محبت اور بھائی چارہ کی فضا پیدا کرنے کے لئے مطلوب ہے۔

اسی طرح وہ معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جو مردوں کے بازوؤں اور عورتوں کے دلوں پر قائم ہو اور حقیقی معنی میں جدید اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہو، ایک ایسا معاشرہ جو خیر المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ِخیرالامم کی نشاةِ ثانیہ کا معاشرہ ہو۔ یہ خالص اسلامی تحریک جو عورت کے ہاتھوں برپا ہو، معاشرے میں از سر نو اسلامی زندگی کی روح دوڑا دے۔ اسی تحریک کے وجود میں آنے سے وہ بہت بڑی خرابی دور ہوگی جس سے آج پورا عالم اسلام گزر رہا ہے کہ وہ ایسی نیک ماؤں کے وجود سے خالی ہے جو اپنی اس ذمہ داری سے باخبر ہوں جو ان پر اللہ تعالیٰ اور نئی نسل کی جانب سے عائد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بات کہتے ہیں کہ آج مسلمان عورت کو جو کردار ادا کرنا ہے، وہ انتہائی نازک ہے۔ درحقیقت عورت کا اپنے فطری فرائض ادا کرنے کا مشن نہایت اہم اور ضروری ہے۔

اس دور میں مسلمان عورت اس طرح زندہ رہ رہی ہے کہ اس کی زندگی میں سے اسلام کی علامات اور نشانیاں کم ہوچکی ہیں اور یہ عورت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ از سر نو ان کو خود میں دوبارہ اسی انداز میں پیدا کرے جس طرح وہ عہد ِنبویؐ اور صحابہ کرامؓ و تابعین عظامؒ کے دور میں مسلمان عورت میں پائی جاتی تھیں ۔ ہاں یہ عور ت ہی ہے جو فی الواقع اس بات کی ذمہ دار اور جواب دہ ہے کہ تمام مسلمان معاشروں میں سے اسلامی شعار ضائع ہوچکے ہیں ۔ بے شک یہ ایک نہایت نازک اور گراں بار ذمہ داری ہے جس کے لئے انتہائی خلوص سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی محبت میں صرف عورت ہی بروئے کار لاسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عورت کی اس محنت کو قبول فرمائے اور اس کی کوتاہیوں کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں جو پسماندگی اور تباہ حالی پیدا ہوئی ہے، وہ اسے معاف فرما دے۔ یہ پسماندگی اور بدحالی نتیجہ ہے عالم اسلام کے اس دورِ زوال کا جو اس پر اس وجہ سے آیا کہ عورت پر اس کے دین، اس کے ربّ اور عالم اسلام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے تھے، اسے ان کی ادائیگی سے آزاد رہنے دیا گیا...!!

اسلام نے عورت کے لئے گھر سے باہر جاکر کام کرنا حرام تو نہیں کیا لیکن اسے لازمی بھی قرار نہیں دیا۔ اس کے ذمہ اس سے کہیں بڑا اور عظیم الشان کام ہے۔ عورت کا حقیقی کام نسل کو تیار کرنا اور بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی تمام ضروریاتِ زندگی اور اس کے لئے ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کا ذمہ دار مرد کو قرار دیا ہے۔ عورت پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی، نہ خاندان کی، نہ اولاد کی اور نہ خاوند کی بلکہ عورت کا نان و نفقہ اور ا س کی تمام ضروریات و سہولیات یا تو خاوند کے ذمہ ہیں یا ان مردوں کے ذمہ ہیں جو مراتب ِذمہ داری میں قرب و بعد کے لحاظ سے اس کے مربی و سرپرست ہوں ، تاہم اگر کوئی مجبوری آپڑے یا حالات کا تقاضا ہو اور عورت کو گھر سے باہر جاکر کام کرنا پڑے تو یہ ایک استثنائی صورت ہوگی، اس لئے کہ گھر کے اُمور اور خاوند کے معاملات کا خیال رکھنا، پھر بچے کی نگہداشت کے سلسلے میں حمل سے وضع حمل تک کا بوجھ اور بعد ازاں دودھ پلانا، اس کی ہر بات کا خیال رکھنا اور تربیت کرکے عالم شیرخواری سے جوانی کی منزل تک پہنچانا، دراصل یہ ہے معاشرے میں عورت کی اصلی اور حقیقی ذمہ داری!

مرد کو اللہ تعالیٰ نے ممتاز جسمانی اور عقلی طاقت اور غیر معمولی قوتِ ارادی عطا فرمائی ہے اس لئے کہ مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تقاضا یہی تھا۔ اس کے بالمقابل عورت کو شفقت و نرم دلی عطا فرمائی اور اسے وفورِ جذبات سے نوازا جو بیشتر حالات میں قواے عقلیہ پر غالب رہتے ہیں ، اس لئے کہ اس کی مامتا کا تقاضا یہی تھا۔ اسی طرح عورت جو ازدواجی زندگی مرد کے ساتھ گزارتی ہے، اس کے رکھ رکھاؤ کے سلسلہ میں اگر نزاکت ِجذبات کی کارفرمائی نہ ہوگی اور اس رہن سہن میں عورت اگر قلبی طور پر ہر وقت بیدار اور ہوشیار نہ رہے گی اور خاوند کی خوشی کی مسکراہٹوں اور ناخوشی کی نظروں کو پہچاننے کے سلسلہ میں شدید الاحساس نہ ہوگی تو بہت ممکن ہے کہ مختلف قسم کے ذاتی اور نفسیاتی جھگڑے پیدا ہو کراس کی اَزدواجی زندگی کومکدر کردیں کیونکہ یہ بندھن بہت ہی حساس اور نازک ہے۔

ظاہر ہے کہ ان حالات میں عورت کے سر پر اس کی حقیقی اور اصلی ذمہ داریوں کی موجودگی میں مزید ذمہ داریوں کا بوجھ کس طرح ڈالاجاسکتاہے اور عورت کے لئے ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر بھی کام کرے اور گھر کے اندر بھی کام کرے جبکہ مرد محض اپنی فطری ذمہ داری کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کام کررہا ہے۔

مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ وہ عورت جس نے گھر سے باہر جاکر کام کرنے کا بوجھ اُٹھانا قبول کرلیا ہے، وہ دراصل ہم عورتوں کے لئے دوبارہ غلامانہ زندگی کا دور واپس لانے کی کوشش کررہی ہے اورعورت ذات پرایسا بوجھ لادنا چاہتی ہے جو اس کی طاقت سے زیادہ ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے بھی سخت تکلیف محسوس ہورہی ہے کہ قرونِ مظلمہ میں بھی جب عورت واقعتاً غلام تھی تو اس پر ایسا دوہرا بوجھ نہیں لادا جاتا تھا جیسا کہ آج عورت کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ عورت جو خود کو اس مغالطہ میں مبتلا کئے ہوئے ہے کہ وہ اب تک مرد کی غلام ہے اور آزادی یہ ہے کہ وہ تہذیب ِمغرب کے رنگ میں رنگی جائے اور ہر معاملہ میں مرد کے مساوی ہوجائے۔ آخر یہ مرد سے مساوات ہے کیا؟ مرد تو اپنے مزاج کے مطابق اپنی فطری ذمہ داریوں کے دائرے میں محدود ہے۔ پھر عورت کو کیا ہوا ہے کہ وہ اپنی فطرت اور طاقت سے بڑھ کر بوجھ اُٹھائے۔

یہ بیسویں صدی کی جاہلیت مرد و عورت دونوں کے ساتھ کیاکررہی ہے! یہ جاہلیت ان پر ایسے فیصلے مسلط کررہی ہے جس کانتیجہ انسانی وجود کی شکست و ریخت کے سوا کچھ نہیں ، بالخصوص وہ فیصلے جو عورت کی قدروقیمت، اس کی کارکردگی اور اس کی صلاحیتوں اور قوتِ برداشت کے بارے میں ہیں ۔ یہ کیاہورہا ہے کہ اس دور کی جاہلیت فریب اور جھوٹ سے اور اپنے شورو غوغا سے ہمارے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہے اور طرح طرح کے مصنوعی اور پُرفریب نعروں مثلاً 'عورت کے ساتھ انصاف' یا 'عورت کی بیداری' وغیرہ قسم کے جھوٹے نام رکھ کر دھوکہ دے رہی ہے۔ اس کے باوجود آپ پوچھتے ہیں کہ معاشرے میں عورت کا رول کیاہے؟

محترم گرامی منزلت! کیا آپ چاہتے ہیں کہ لگی لپٹی رکھے بغیر آپ کو صاف لفظوں میں سچائی اور حقیقت بتادوں تو سنئے، وہ سچائی یہ ہے کہ
''عورت کو اس کی اپنی مملکت میں واپس بھیج دو، وہی اس کے لئے باعث ِعزت واحترام ہے تاکہ عورت اپنا وہ رول ادا کرسکے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیاہے۔''

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو 'ماں ' پیدا فرمایا ہے اور دوسری حیثیت اس کی یہ ہے کہ وہ 'بیوی 'ہے۔ اپنی ان حیثیتوں میں وہ بڑی تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنی عزت و سیادت کے حقیقی تخت پر جلوہ افروز ہے۔

آپ جانتی ہیں لفظ 'ماں ' کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے معنی ہیں : مرد اورعورت دونوں کی سردار اور اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا ملجا و ماویٰ۔ عورت کے ماں ہونے کے معانی یہ ہیں کہ عورت ہی زندگی کو بنانے والی اور انسان کو سکون و طمانیت عطا فرمانے والی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زندگی جس میں ماں کا تصور باقی نہ رہے، بدبختی کی ایک شکل ہے کیونکہ جسے درست رہنمائی نہ ملے، دوزخ بن کر رہ جاتی ہے اور زندگی میں گمراہی کے اس جنم سے نجات دلانے والی صرف 'نیک ماں ' ہے۔

اب میں مردوں سے مخاطب ہوکر پوچھتی ہوں کہ حضرات محترم! کیا ان حقائق کو جان لینے کے بعد بھی آپ مجھ سے دریافت کریں گے کہ معاشرے میں عورت کا حقیقی مشن کیاہے؟
سنئے! عورت کا مشن ایک نہایت نازک ذمہ داری ہے۔اے کاش! اگر ہم اس کی نزاکت کو جان جاتے تو اسرائیل کبھی ہماری سرزمین کے ایک حصہ کو غلام نہ بنا سکتا اور ہم خود وہاں حکومت کررہے ہوتے جیسا کہ ہماری حکومت اس پر اس وقت سے تھی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایاتھا:

(إنما النساء شقائق الرجال) 2
''عورتیں اسی طرح مردوں کے برابر اور ہم پایہ ہیں جیسے دو سگے بھائی ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں ۔''

یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم آپؐ کے اس ارشاد کو ایک اہم اور مقصود بالذات حقیقت کی حیثیت سے اپنے پلے باندھ لیتے تو ہم کو معلوم ہوجاتا کہ فی الواقع عورت کی ذمہ داری مردوں کی تعمیر ہے، اور مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عورت کے لئے، اس کے بال بچوں کے لئے بلکہ پورے خاندان کے لئے ہر قسم کا سامانِ زیست اور لوازماتِ زندگی مہیا کرے تاکہ عورت کو اتنی فرصت مل سکے کہ وہ ایک ایسی نسل تعمیر کرسکے جو دوبارہ ہمیں پوری دنیا کی سیادت و قیادت واپس دلا سکے اور پھر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کریں اور کاروبارِ جہاں بعینہٖ اس طرح چلائیں جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہتا ہے۔

پاک ہے وہ ذات جس نے ارشاد فرمایا:
وَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ وَلِرَ‌سُولِهِۦ وَلِلْمُؤْمِنِينَ...﴿٨...سورة المنافقون
''حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مؤمنین کے لئے ہے۔ ''

لیکن آج وہ عزت کہاں ہے؟ کیا اس دنیا پر آج حق کی فرمانروائی ہے؟ حق کو بالادستی حاصل ہو اور اس کی یہ شکل و صورت ہو؟ بے شک آج دنیا سے حق کے ناپید ہونے کی ذمہ داری مسلمان عورت پر ہے لیکن آج ہم نے معاشرے میں عورت کے فرائض کے بارے میں سوال اُٹھایا ہے تو کیا ہم نے وہ تمام ذمہ داریاں پوری کردی ہیں جو ہم پر عائد ہوتی ہیں ؟ میں اس کا صحیح جواب دیتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ عورت کا اس کی مملکت یعنی خاندانی زندگی میں واپس لوٹنا۔ یہی مقام اس کی عزت ، وقار اور اِکرام و احترام کا وہ تخت ہے جس پر بیٹھ کر وہ اس طرح زندگی گزارے گی کہ افرادِ معاشرہ کی تعمیر و تربیت کرے، اُنہیں ان کی ذمہ داری سے آگاہ کرے اور ان سے پوچھے کہ کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ ایک اور نسل تباہ و برباد ہوجائے یا تم وہ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ مضبوطی سے بندھی ہوئی ہے؟ اگر اس سوال کے جواب میں مرد اصرار کرے کہ میں تووہی زندگی اختیار کروں گا جس کا نتیجہ ہلاکت ہے تو اس صورت میں عورت پر یہ فرض عائد ہوجائے گا کہ وہ ایسے مرد سے کنارہ کش ہوجائے اور صاف لفظوں میں اسے بتا دے کہ آج کے بعد میں نئی نسل کو تباہ کرنے میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی۔

قوموں کی بدبختی اس طرح آتی ہے کہ اس میں فضل و شرف کا احترام ختم ہوجاتا ہے اوراس کے عوام کا ایک طبقہ جنسی شہوات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ اس بات کی پہلی نشانی ہے کہ معاشرے میں عورت اور اس کا مقام و مرتبہ ضائع ہوچکا۔ ان حالات میں عورت کو چاہئے کہ صاف کہہ دے کہ تباہ و برباد ہوں وہ لوگ جن پر ان کی خواہشاتِ نفسانی کی حکمرانی ہو۔ میں ایسے معاشرے کو چھوڑ کر اپنے ربّ کی بتائی ہوئی شاہراہ پر جارہی ہوں تاکہ از سر نو ایک نئی قوم کی تشکیل و تعمیر کروں ۔

آپ جب اسلامی معاشرے میں 'عورت کا اہم ترین مسئلہ' کے موضوع پر تحقیق کریں گے تو آپ کومعلوم ہوگاکہ یہ بات کس قدر سچ ہے کہ اس وقت عورت کا اہم ترین مسئلہ یہی ہے کہ عورت خاندانی زندگی میں ایک ملکہ اور ماں کی حیثیت سے زندگی کے سفر میں اپنی اولاد کی رہنمائی کرے اور اس کی نگرانی اور تربیت کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر ایک ایسی مضبوط نسل وجود میں لائے جس کو زندگی میں اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس ہو۔ یہ ماں ان سے اور وہ اپنی ماں سے زندگی کے مقاصد کے بارے میں دریافت کریں اور یہ عورت ماں کی حیثیت میں ان کو بتائے کہ
''میرا مشن یہ ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی قوم کے زخموں کی کہانی سنانے کے لئے زندہ رہوں جو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے عادلانہ قوانین کے مطابق اس دنیا پر حکومت کررہی تھی، پھر وہ شریعت اور صحیح طریقے سے ہٹ گئی اور اس کے یہ اور یہ نتائج برآمد ہوئے۔

اور اے میرے پیارے بیٹے! تیرا مشن یہ ہے کہ تو میری ان باتوں کو جو میں تجھے اس قوم کی شان و شوکت اور عدل و انصاف کے بارے میں سناؤں ، ان کو خوب ذہن نشین کرے۔ میں تجھے اس اُمت کے پہلے مردانِ کار کے بارے میں بتاؤں گی کہ وہ کیسے تھے اور اُنہوں نے کیسی شاندار زندگی گزاری۔ میں یہ جو کچھ تجھ کو سناؤں تو اسے پوری توجہ سے سن اور اپنے ذہن میں محفوظ کرلے۔

میں تجھے تیرے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاؤں گی۔ آپؐ کے غزوات کے قصے سناؤں گی۔ ان بڑی شخصیتوں کے حالات سناؤں گی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمامِ کار سنبھالی اور دنیا پر اس انداز سے حکمرانی کی کہ ہر طرف عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگیا۔ جب میں تجھے یہ سنا رہی ہوں گی تو تیرے کان میں بہت سے نام پڑیں گے اور تو ان ناموں کوپکارے گا اور محسوس کرے گا کہ تو خود اُنہی میں سے ہے اوران کے ساتھ ہے۔ پھر اس دن میری خوشی اور خوش بختی اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی جب میں تجھے ان بڑوں کا نام لیتے سنوں گی اور تو کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول تھے اور میں آپؐ کے طریقہ پر ہوں اور اسی راستے پر چلوں گا جس پر آپؐ کے اصحابؓ کباررضوان اللہ علیہم چلے تھے۔ اماں جان!میں ان سب کو عالم تصور میں دیکھ رہا ہوں اور میں انہی کے قدموں پر قدم رکھتاہوں ۔ اس دن میری مسرت کا کیا ٹھکانہ ہوگا جب میں تجھ سے سوال کروں گا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں تو باتیں کررہا تھا۔ تو تو کہے گا کہ ابوبکر، عمر، عثمان وعلی رضی اللہ عنہم اور وہ تمام لوگ جو ہدایت و رہنمائی میں ان کے نقش قدم پر چلے۔ تو کہے گا: اماں جان! میں عنقریب خلفاے راشدین کا دور واپس لاؤں گا۔ میں حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کا دور واپس لاؤں گا۔ میں از سر نو اسلام کی نئی تاریخ رقم کروں گا۔ میں عنقریب ترکی میں خلافت کی نئی تاریخ مرتب کروں گا اور مسجد آیا صوفیہ میں نماز پڑھوں گا۔ افغانستان میں جنم لینے والی جرأت اور بہادری کی داستانیں بیان کروں گا۔ اے اماں جان! میں اندلس کو دوبارہ آزاد کراؤں گا، میں ملت ِاسلامیہ کی وحدت پھر سے واپس لاؤں گا اور مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرکے اسلامی وحدتِ کبریٰ قائم کروں گا، جیسا کہ خیرالقرون میں تھی، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفا حکومت کرتے تھے۔ اماں جان! میں آپ کی سنائی ہوئی کہانیوں کا پھل ہوں اور تمہاری اس محبت کاثمرہ ہوں جو تم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔''

آج کے دور میں ماں کو جو مہم سر کرناہے وہ نہایت مشکل اور نازک ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت مرد کو خاندان کے دائرے سے باہر نکل کر کام کرنے کے لئے فارغ کردے اور خود خارجی دنیا کے اُمور و معاملات سے اسی طرح فارغ ہو کہ خاندان کے دائرہ کے اندر نئی نسل کی تربیت کے سلسلہ میں سنہری کردار ادا کرسکے۔ یہ انتہائی ضروری ہے اس لئے کہ اسی کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ مرد کواپنی استعداد اور صلاحیت بڑھانے کے بہتر مواقع میسر آسکیں گے اور قومی پیداوار بڑھے گی۔ اس لئے کہ وہ ایک انسان جس کی تعمیر اور رہنمائی صحیح طریقہ پر ہوئی ہو، ان کثیر التعداد افراد کے مقابلہ میں زیادہ نتیجہ خیز اور بابرکت ہوتا ہے جو سیلابی کوڑا کرکٹ کی مانند ہوں اور معاشرہ پر بوجھ ہوں ۔

عورت اگر اپنے فطری میدان کی طرف لوٹ آئے اور مرد اپنے وہ فرائض ادا کرے جو اس کی فطری ذمہ داری ہیں ، تو ہم دیکھیں گے کہ عورت نے اپنے عمل صالح کے نتیجے میں پاکیزہ معاشرہ کاایک عظیم الشان محل تعمیر کردیاہے اور اپنے فکر و ضمیر سے اس کی روز افزوں ترقی میں کوشاں ہے تاکہ معاشرے کو ایک ایسی پختہ مزاج نسل عطاکرے جو اس کا نام بلند کرے، اس کی مامتا کا احترام کرے اور اس کی خدمت کی صحیح قدر کرے جو اس نے معاشرے کے لئے کی ہے۔اس سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں خیرخواہی ہو، فکر سلیم ہو، درست رہنمائی ہو اور بالآخر ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آجائے جو قرآنی نظام حکومت چلائے اورخلافت ِراشدہ کے طریقے پر چلے اور مسلمان ملکوں اور قومیتوں کے درمیان اس طرح اتحاد و اتفاق پیداکرے کہ ان کے عوام، ان کے عقائد، ان کی سیاست و معیشت اور حربی حکمت ِعملی الغرض سب چیزیں باہم مربوط ہوجائیں ۔

و ہ صالح مائیں جو اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کے لئے (جو قوم کی تعمیر میں خشت اوّل کی حیثیت رکھتے ہیں ) بیداررہتی ہیں ۔ وہی دراصل قوم کی معمار ہیں جو اس کی ساخت پرداخت کے لئے ایسی سرسبز فصلیں اُگا کر دیتی ہیں جو اپنے ربّ کے اِذن سے ہر وقت اپنی پیداوار دیتی رہتی ہیں ۔

الغرض اُمت ِمسلمہ عورت کے ہاتھ میں امانت ہے، جس کا دین اور اس کی ذمہ داریاں ہر وقت اس سے یہ سوال کرتی ہیں کہ آخر کیوں ہم پیچھے رہ گئے اور اَغیار آگے بڑھ گئے؟ ہم دوسروں کے محکوم کیوں ہیں ؟ یہ اسرائیل آئے دن ہم پر کیوں حملے کرتارہتا ہے؟ یہ روس وامریکہ نے کیوں افغانستان میں ہمارے دینی شعائر کے احترام کو پامال کیاہے؟ یہ امریکہ جس کی عمر ابھی محض دو سو سال ہے، آخر کیوں ہم پر اپنی دھونس اور دھاندلی مسلط کرتا رہتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ جبکہ ہم ایک ایسی قوم کے افراد ہیں جس کو وجود میں آئے پندرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔

پھر کسی پُرسکون لمحہ میں وہ ان سب سوالوں کا جواب پالیتی ہے ... یا غیبی آواز یہ جواب اس کے کان میں ڈالتی ہے ... اور یہ جواب نہایت سخت ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ جواب کیا ہے؟ سنئے ، وہ جواب یہ ہے:
''تو ہی، اے میری پیاری ! تو ہی، جو کہ عورت ہے، اس ساری خرابی کا باعث ہے۔ تو نے اپنی اولاد کواس حال میں رہنے دیا کہ ان کے کان حق سننے کے لئے بہرے اور آنکھیں حقائق کو دیکھنے کے لئے اندھی رہیں ۔ تو نے اُنہیں اجازت دی کہ وہ ان زہریلی لہروں کے غلام بن کر رہیں جو میڈیا کے ذریعے سے ان تک ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں پہنچ رہی ہیں لیکن ظالم اور قاتل دشمنوں نے ان کو زہر میں بجھا کرمہلک بنا دیا ہے۔

تو اے میری پیاری، تو جو عورت ہے، تو اس ساری خرابی کی ذمہ دار ہے کیونکہ تو اپنے دین توحید کے فضائل و برکات سے محروم ہے کیونکہ اس وقت یہ دین دشمنوں کی کوششوں کے نتیجے میں فضول اور لچر خرافات سے ملوث ہوچکا ہے اور یہی وہ تعلیم ہے جو سیکولر سکولوں میں تیرے بیٹے حاصل کررہے ہیں ۔ یہ بچے جو نئی نئی اصطلاحات مثلاً قومیت اور قومی بیداری و ترقی وغیرہ پڑھتے ہیں ، یہ سب زہریلے نام ہیں اور جھوٹی اور فرضی چیزوں کے لئے گھڑے گئے ہیں جو شیطان نے بنا سنوار کر ان کی درسی کتابوں میں لکھ دیے ہیں ۔

یہ سب امریکی یہودیوں کے افکار ہیں جن کے ذریعے سے بیسویں صدی کی جاہلیت نے ہم پر یلغار کی ہے تاکہ ہم اس کی قیمت کے طور پر پہلے فلسطین ان کے سپرد کردیں پھر ایک ایک کرکے اپنے تمام گھر بھی ان کے حوالے کردیں ۔''

دراصل یہی قیمت ہے عورت کی مفروضہ ترقی کے نام پر نئی نسلوں کے ضائع ہوجانے کی اور درحقیقت یہی حقیقی پسماندگی بلکہ دورِ جاہلیت کی طرف واپسی ہے۔ اس نام نہاد ترقی کے نام پر کئی نسلیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں ۔ اگر ہم اب بھی ہوش میں نہ آئے اور عورت کو اس کی مملکت میں بطورِ سردار و ملکہ کے واپس نہ لائے تاکہ وہ از سر نو ایک نیا معاشرہ قائم ؍تعمیر کرے اور اپنی موجودہ حالت کو دیکھے اور سمجھے، تو پھر ہمیں ایک بڑی قیامت اور تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ عورت اپنے حقیقی مشن کو سمجھے اور اپنی ذات میں رہ کر اپنے معاشرے کی اصلاح اور بہتری کی ہوش مند نگران ثابت ہو، تاکہ مردوں کو تعمیر معاشرہ کے لئے تیار کرے، ایسے مردانِ کار جو مستقبل کے معمار ثابت ہوں ، اسلام کے شجرۂ مبارکہ کی نئی پود ہوں جس کی جڑیں انتہائی مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں جو اپنے ربّ کے اِذن سے اپنی پیداوار ہر وقت اور ہر آن دیتے رہیں ۔

یہ ہوگی وہ مسلمان عورت جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوگی اور یہی وہ عورت ہوگی جو نئے مستقبل کی معمار ثابت ہوگی اور ایسی نئی نسل وجود میں لائے گی جس کا نعرہ اﷲ أکبر اور العزة للإسلام ہوگا اور اس کا کہنا ہوگا کہ شکر اﷲ کا، اسکے اس انعام پر کہ اس نے ہمیں صلاح و فلاح کی توفیق عطا فرمائی تاکہ اس کا کلمہ بلند ہو اور کافر ذلیل و خوار ہوں ۔

اس طرح ہر چیز اپنے اصل مقام پر آجائے گی اور عورت اپنے اصل مشن یعنی اپنی بزرگ اور محترم ماؤں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت نسیبہؓ اور حضرت فاطمہ الزہراؓ بنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اسما بنت ِابوبکر رضوان اللہ علیہن کے سیرت و کردار کی طرف واپس لوٹ آئے گی۔ اس طرح حق کو باطل پر غلبہ حاصل ہوگا، ان جانوں کی برکت سے جو قربان کی جائیں گی اور اس مال کے نتیجے میں جو خرچ کیا جائے گا اور وحدت ِاُمت کے طفیل فرقہ بندی اور افتراق و تشتت ختم ہوجائے گا۔

بے شک عورت کو جو مہم درپیش ہے، وہ انتہائی مشکل اور نازک ہے اور وہ ہے ایسے عمل کا بیڑا اُٹھانا جس کے نتیجے میں سب مسلمان فرقہ بازی چھوڑ کر ایک شجرہ مبارکہ کے گرد جمع ہوجائیں جس کی جڑیں نہایت مضبوط ہوں اور شاخین آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو اپنے ربّ کے اذن سے ہر آن اپنی پیداوار دیتا ہے۔

یہ درخت دراصل لا الـٰہ إلا اﷲ ہی ہے جس کے حقیقی مفہوم کو صحیح طریقے پر سمجھنے پر ہی اُمت ِمسلمہ کا اتحاد قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت بن سکتی ہے جس کا ایک ہی عقیدہ ہو اور جسے وہ فہم حاصل ہو جو قرآن کے سرچشمہ سے خود کو سیراب کرے اور سنت ِنبویؐ سے روشنی حاصل کرے اور خلافت ِاسلامیہ دوبارہ قائم ہو جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک اُمت بنا دے، سب کی ایک ہی فوج ہو اور ایک ہی حکومت ہو اور سب ایک ہوں ۔

آج پندرہویں صدی ہجری کے دور میں ایک مسلمان عورت ہی اپنے بیٹوں کو اُمت ِمسلمہ کی تاریخ پڑھا سکتی ہے اور اس طرح ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی ممکن ہے، اس طرح عورت اپنا وہ حق ادا کرسکتی ہے جو اس پر واجب ہے۔ کیونکہ ... عورت ہی تو معاشرے کی ماں اور سردار ہے۔ جب ایسا ہوجائے گا تب ہم کہہ سکیں گے کہ مسلمان عورت نے اپنا مشن بہترین طریقہ پر اور کامیابی کے ساتھ پورا کردیا اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ تعمیر کردیا جو قرآن و سنت کے مطابق ہے اور واقعی مسلمان عورت عظیم ہے۔


حوالہ جات
1. صحیح بخاری: 3179

2. سنن ابوداؤد : 204 "صحیح"


 

4 دسمبر 1975ء کو اسلام آباد میں منعقدہ خواتین کی "عالمی سیرت کانفرنس" کا ایک خطاب