’ٹی وی اور تبلیغ اسلام‘ … ایک تبصرہ
محدث کے 'تصویر نمبر' کی اشاعت سے ایک ماہ قبل مؤقرمعاصر جریدہ 'ساحل' کراچی میں 'ٹی وی او رتبلیغ اسلام' کے حوالے سے 6صفحات پر محیط چند خیال افروز نگارشات پیش کی گئیں۔ حال ہی میں ان اَفکار کو ایک مستقل مضمون کی صورت میں محدث میں اشاعت کے لئے ارسال کیا گیا۔ چونکہ مضمون کے مندرجات کافی اہم ہیں اس لئے اس پر تاثر و تبصرہ بھی ہمراہ پیش کیا جارہا ہے۔تبصرہ سے قبل اصل مضمون کا مطالعہ کرلینا مناسب ہوگا۔
زیر نظر مضمون میں ٹی وی کے بارے میں جو شبہات واعتراضات پیش کئے گئے ہیں، وہ کافی معقول اور وزنی ہیں اور اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربی تہذیب کی اسی کرشمہ سازی کے سبب دینی علم کی صحت کا معیار دلیل و استدلال کی بجائے عوامی مقبولیت کو قرار دیا جانے لگا ہے۔ جبکہ دینی علم تو کجا، کسی بھی علم کے لئے یہ رویہ زہر قاتل سے کم نہیں کہ اس کا معیار عوام کی پسند وناپسند، قبول او رعدمِ قبو ل کو قرار دے لیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس کی کسی بھی شاخ میں علم وتحقیق کے لئے یہ میزان نہ تو متعارف کرائی اورمعتبر سمجھی جاتی ہیکہ عوام اس پیش کردہ نقطہ نظر کے حامی ہیں یا نہیں بلکہ اس سلسلے میں اُس علم کے ماہرین کی رائے ہی معتبر ہوتی ہے۔ مذہب کے ساتھ یہ رویہ مغرب کے 'نظریۂ عوامیت' کا شاخسانہ ہے !!
ایسا جانبدارانہ رویہ صرف دینی علم کے ہی حصے میں آیا ہے کہ ہر شخص نہ صرف اس میں اپنی رائے دینے میں آزاد سمجھا جاتا ہے بلکہ محض عوامی مقبولیت کی بنا پر وہ اپنی رائے کو منوانے پر بھی اِصرار کرتا دکھائی دیتا ہے۔یہ رویہ اسی وقت اختیار کیا جاتا ہے جب اس علم کے مصادر ومآخذ اور ماہرین سے اعتبار واعتماد اُٹھ جائے اور ان کی بجائے ہر بات کی داخلی معقولیت میں ہی 'میزانِ حق' ڈھونڈی جانے لگی۔ آیا کیا دین اسلام اس بدظنی کا متحمل ہوسکتا ہے جس کی حفاظت وبیان کی ذمہ داری خود قرآنِ کریم میں ربّ ِذوالجلال نے اپنے ذمہ لی ہو؟ غرض گذشتہ پانچ برس سے ٹی وی پر بچھی دینی بساط کا حاصل یہی ہے کہ ایسے لوگ اسلامی رہنما سمجھ لئے گئے ہیں، جن کا دینی علم کسی بھی مسلمہ معیار پر پورا نہیں اُترتا، نہ ہی وہ کسی دینی درسگاہ کے تعلیم یافتہ ہیں اورنہ ہی سند یافتہ! اور اس پر مستزاد ان کی وضع قطع جو ایک طرف خود ان کے دینی رویوں کی آئینہ دار ہے اور دوسری طرف ان کے پیش کردہ دین کا ایک عملی نقشہ بھی کھینچے دیتی ہے۔
مقالہ نگار کے اس استدلال میں بھی وزن ہے کہ ٹی وی کا ماحول بالکل مختلف ہے جبکہ دین کی تبلیغ کے تقاضے اس سے بالکل جداگانہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آج ٹی وی پر دینی رہنمائی کا منصب سنبھال چکے ہیں، اُنہیں اُس منبر و محراب میں درس اورخطبہ جمعہ وغیرہ دینے کی توفیق بھی خال خال میسر آتی ہے، جو اس دین کے رہبر و رہنما سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی مسند ِعلم وارشاد ہے۔ فاضل مضمون کے بہت سے استدلال چشم کشا حتی کہ عبرت آموز بھی ہیں، البتہ بعض اُصولی باتوں کی نشاندہی اور ان پر اپنے تاثرات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے :
فی زمانہ اجتماعیات کے میدان میں وہ تصورات ورجحانات بالکل ناپید ہیں جن کو شریعت ِمطہرہ نے متعارف کرایا ہے۔ یہ میدان سیاست کا ہویا تعلیم وتعلّم کا ، عدل وانصاف کا ہویا معیشت ومعاشرت کا؛ ان کے اَساسات ومعمولات کا خلافِ اسلام ہونا کسی بھی گہری نظر والے صاحب ِعلم سے مخفی نہیں ہے، لیکن اس وقت اُمہ کو درپیش اہم ترین مسئلہ جہاں یہ ہے کہ اُنہیں اسلام کے خالص نظریات سے متعارف رکھا جائے، ان کی تعلیم دی جائے؛ وہاں یہ بھی ہے کہ عالمی جبر وسامراج کے بل بوتے پر جاری وساری ان کفریہ نظام ہائے زندگی کے ساتھ عملی رویہ کیا اختیار کیا جائے؟ یہ بہت اہم اورعملی نوعیت کا سوال ہے، کیونکہ ان نظامہاے کفر کو جڑ سے اُکھاڑنے کی منزل بظاہر دور نظر آتی ہے۔
بالفاظِ دیگر کسی نظام کا مبنی بر غلط ہونا، ایک حقیقی، نظری اور علمی امر ہے، لیکن اس غلط نظام سے مسلمانوں کا سلوک وبرتائو ایک بالکل عملی مسئلہ ہے۔ جمہوریت کفر ہے اوروضعی قانون پر فیصلے بالکل ناممکن، یہ تو بجا ... لیکن عالمی وعلاقائی جبر کے بل بوتے پر جاری ان نظاموں سے مسلمان کیا رویہ اختیار کریں، دورِ زوال کی حکمت ِعملی کیا ہوکہ اسلام کا اصل جوہر واِمتیاز ہی نسیاً منسیا ہو کر نہ رہ جائے اور دوسری طرف لوگوں کے لئے زندگی گزارنا بھی ممکن رہے۔ یہ اس دور کا اہم ترین سوال ہے !!
ہر دو نوعیت کے سوالوں کا مستقل طورپر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ اس دورکی بہت سے تحریکوں کا المیہ ہے کہ وہ ایک چیز کو غلط سمجھتے ہیں لیکن عملاً اس کو اس شدت سے قبول کرلیتے ہیں کہ اصل نظریہ ذہنوں سے محو ہو کر صرف کتابوں میں محفوظ رہ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عملی سوال کے طورپر بہت سے مسائل کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً
جمہوریت اپنی متعدد اساسات کے اعتبار سے اسلام سے متصادم ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے واضح الفاظ میں کفر قرار دیا جا تا ہے۔لیکن اس کو ناگوار، ناجائز اورکفر تک خیال کرنے والے لوگ بھی اس سے سلوک وبرتائو کے مرحلے پر یہ قرار دیتے نظر آتے ہیں کہ دین کے دفاع اور اسلام کے تحفظ کے طورپر اسلام پسندوں کو حالات کے تقاضوں کے پیش نظرووٹ دینا بلکہ انتخابی سیاست میں شریک ہونا گوارا کیا جائے۔ 1
سودی بنکوں کے معمولات کی حرمت کے بارے میں اکثر مسلمانوں کو شبہ نہیں کہ وہاں ہر قسم کے اکائونٹ میں رکھی جانے والی رقم کسی نہ کسی طور سود میں ملوث کر لی جاتی ہے، لیکن ایسی سنگین صورتحال کے باوجود اس دور کے تقاضوں کو نبھانے کے لئے ہردینی ادارہ بھی اپنے رواں کھاتے بنکوں میں رکھنے پر عمل کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ایسی ہی صورتحال مسئلہ تصویر کے بارے میں بھی ہے کہ ملت ِاسلامیہ کے ممتاز علما ہرقسم کی تصویر کو حرام قرار دیتے ہیں،لیکن اس کے باوجود حالات کے جبر کے تحت تبلیغ اسلام کے لئے اس کو گوارا قرار دینے پر مجبوردکھائی دیتے ہیں۔
غرض مسئلہ کی اُصولی حرمت و حلت اور فقہ الواقع کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے بارے میں جواز وگنجائش کا عملی موقف اختیار کرنا؛ دو مستقل سوال ہیں۔ اور ان سوالات میں ایسی واضح حد بندی اور نکھار کی ہردم ضرورت رہتی ہے تاکہ ضرورت کسی وقت اصل کے درجے میں نہ پہنچ جائے۔ اصل مطلوب حل کی طرف پیش رفت بھی برقرار رہے ،لیکن جاری نظام زندگی سے بھی مسلمان اس طرح لا تعلق اور منقطع نہ ہوجائے کہ اس کے لئے روزمرہ معمولات کو انجام دینا محال ہوجائے۔ اسی تصور کی بنا پر محدث کا زیر نظر شمارہ اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے کہ تصویر کی حرمت کو جانتے ہوئے تبلیغ اسلام کیلئے حالت ِاضطرار یا اخف الضررین کے تحت گوارا کیا جائے۔
فاضل مقالہ نگار کا یہ اِستدلال اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ٹی وی کے ذریعے تبلیغ اسلام کے تقاضے پورے کرنا اور اسے اس مقصد کے لئے موزوں سمجھنا بالکل سطحی اورعامیانہ رویہ ہے۔ لیکن یہ شبہ واعتراض تو اس وقت صادق آتا ہے جب علماے کرام نے اپنے تئیںٹی وی کا یہ مصرف قرار دے لیا ہو۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ علما چار دہائیوں سے ٹی وی کو منبع شر وفساد سمجھتے اور بیان کرتے آئے ہیں۔ لیکن جب اس کی اثر انگیزی اور فتنہ پروری حد سے بڑھنے لگی، دین کے تصورات کو مسخ کیا اور کفر سے ملایا جانے لگا، قوم تبدیل ہونے لگی اور غلطی پر چلنے کی جو دلی خَلش تھی، اس کو بھی نام نہاد ٹی وی سکالر مٹانے لگے، تب کمتر ضرر بلکہ مولانا اثری کے الفاظ میں 'ایمان کو بچانے کے لئے' علما کو اس بارے میں اپنے سابقہ رویے پر از سرنوغور کرنا ضروری ٹھہرا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ ہمارے زیر تبصرہ مضمون کا اپنا تما م رجحان بھی ٹی وی کے صریح خلاف ہے، لیکن حالات کے اس جبر کو وزن دیے بنا وہ بھی نہ رہ سکے اور اُنہیں بھی اپنے مضمون کے آخر میں یہ قرار دینا پڑا کہ
''ٹی وی کو تبلیغ دین کے لئے آئیڈیل ذریعے کے بجائے ایک اِضطراری حکمت ِعملی (strategy) کے طور پر قبول کرنا چاہئے اور وہ بھی اپنی شرائط کے ساتھ۔''
غالباً مضمون نگار نے اپنے تئیں یہ فرض کرلیا ہے کہ علماے کرام بڑی خوش دلی اور رغبت سے ٹی وی کو تبلیغ اسلام کا بہترین سٹیج سمجھ کراس پر جلوہ افروز ہونا چاہتے ہیں،جبکہ یہ تاثر درست نہیں ہے؛ مضمون نگار کی اس نکتہ کو نکھارنے کی کاوش قابل تحسین ہے۔ اگر کوئی 'محدث' کے تصویر نمبر سے یہ سمجھتا ہے کہ اس کے ذریعے ہر قسم کے ٹی وی پروگراموں یا تصویر سازی کی اجازت کا موقف پیش کیا گیا ہے تو راقم کی نظر میں وہ غلطی پر ہے۔ تصویر کے سلسلے میں بہترین موقف یہی ہے کہ اس کو اَخف الضررین یا مقاصد ِ شریعہ کے فروغ کی حدتک گوارا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کے جتنے بھی اقتباس پیش کئے گئے ہیں، وہ حکومتی جبر، غلبہ اسلام اور دین کو بچانے کے نقطہ نظر سے مخصوص ہیں۔
یاد رہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں ناگوار شے پراِلزاماًعمل کرنے کی شرعی دلیل بھی موجود ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کی سورة الشعراء کے آخر میں شاعری کی مذمت کرتے ہوئے ان کے پیروکاروں کو گمراہ، خود اُن کو حیران وپریشان اور اپنے قول وکردار سے غافل ذکر کیا گیا ہے۔ مگر اہل اسلام کے لئے جواباً اسی شاعر ی کو ہی نہ صرف گوارا کیا گیا ہے بلکہ {إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ}کہہ کران کو براہِ راست مستثنیٰ کردیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا حسانؓ بن ثابت کو ان کا جواب دینے کی تلقین کرکے ان کے حق میں روحِ قدس کی تائید کی دعاے خیر بھی فرمائی ہے۔
فاضل مقالہ نگار کا یہ مضمون اس تصور کی تردیدکے لئے لکھا گیاہے کہ ٹی وی پرعلما کے آنے اور تبلیغ اسلام کے لئے اس کو استعمال کرنے میں واحد شے مسئلہ تصویر ہے، جبکہ ان کے خیال میں درحقیقت ایسا نہیں۔ ان کا یہ موقف بالکل درست اور ان کی یہ وضاحت قابل قدر ہے۔ بلکہ 'محدث' میں اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ
''ٹی وی سکرین جس طرزِ استدلال اور عاقلانہ معروضیت کی متقاضی ہے، ایمان وایقان میں ڈھلے اعتقادات ونظریات اس طرزِ بیان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔''
مزید برآں ٹی وی پر انتظامی نزاکتوں، نشست وبرخاست ، سوال وجواب، شرکا وحاضرین کے انتخاب اور ایڈیٹنگ کے نام پر جس اِبلاغی فن کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، ان کو بھی پیش نظر رکھ کر ہی علماے کرام کو کسی ٹی وی پروگرام میں شامل ہونا چاہئے۔
ایسے ہی راقم کا وہ اقتباس جس کی نشاندہی فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون کے آخر میں فرمائی ہے، اس امرکامؤید ہے کہ ٹی وی پر تبلیغ اسلام کا مسئلہ اس قدر سیدھا سادا نہیں ۔
ٹی وی پر اسلام کی تبلیغ و تشریح کے حوالے سے یہ امر بھی خاصا توجہ طلب ہے کہ چودہ صدیوں سے مسلم علما وفقہا دین کی تشریح و تعبیر میں جس احتیاط او رذمہ داری کا اظہا رکرتے آئے ہیں، ٹی وی پر آنے کے بعد ربّ ِکریم کی مراد و منشا کی ترجمانی جیسا حساس معاملہ ایک روزمرہ گپ شپ اور تبادلۂ افکار کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ یہ اسی ٹی وی ماحول کا 'ثمرہ' ہے کہ علماے کرام کے اِعزاز ووقار اور دین کے بارے میں ان کی رائے پر اعتماد واستناد کے رویے کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اوران کی رائے کو کسی عام شخص سے زیادہ وقعت حاصل نہیں رہی!!
فاضل مضمون نگار نے اپنے مضمون میں متعدد دلائل وواقعات سے یہ ثابت کیا ہے کہ ٹی وی کا بنیادی نظم اورڈھانچہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم کل پرزہ ہے، جو اپنی اساس سے ہی تبلیغ اسلام کے متعدد تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان کے اس استدلال کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ ٹی وی ایک دکان ہے جو اشتہار بازی کے ذریعے اپنے اِخراجات عوام سے پورے کرنے کے لئے ان کو وہی شے فراہم کرتا ہے، جس کی وہ چاہت کریں۔
موصوف نے اس تصور کو بہت کھول کر بیان کیا ہے، اور یہ پیش نظر مسئلہ کا واقعتا اہم ترین پہلو ہے، جس کی وضاحت اُنہوں نے احسن انداز میں پیش کرکے امرواقعہ کو مزید متوازن کردیا ہے۔ اسی سلسلے میں مجھے گذشتہ ماہ کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جس میں لاہور کے دو ممتاز ترین علما کے ATV پر بعض پروگرام ریکارڈ کئے گئے، لیکن چونکہ ان پروگراموں سے ٹی وی انتظامیہ کی نظر میں عوامی خواہشات کی ترجمانی ممکن نہیں تھی، یا ان سے ناظرین کو من پسند وخوش کن تاثر ملنے کی بجائے اپنے عمل کی اِصلاح پر متوجہ ہونا پڑتا تھا، ا س لئے بغیر کوئی وجہ بتائے آئندہ اس سلسلے کو منقطع کرتے ہوئے یہ پروگرام مسترد کردیے گئے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹی وی پر وہی پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جو عوام میں اِباحیت، بے جا سہولت او رآسائش وتعیش کو فروغ دیں۔ کسی بھی ایسے عالم دین کا پروگرام جو لوگوں کو عمل کے لئے راغب کرتا، کوتاہی سے بچنے کی تلقین کرتا ہو، ان میں فکر مندی یا احساسِ ذمہ داری کو اُجاگر کرتا ہو، معاشرے میں چلتی روش کے خاتمے پر اُبھارتا ہو؛ایسے پروگرام بلکہ ان کے داعی ؍ مقررین بھی بلیک لسٹ کردیے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر آج جن لوگوں کو ٹی وی کے مقبول سکالر ہونے کا 'اِعزاز' حاصل ہے، لیکن اگر وہ مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب کی وکالت یا اسلام سے اس کی توجیہ تلاش کرنے کی بجائے پردہ یا داڑھی جیسے مسلمہ اسلامی شعائر، موسیقی یا تصویر کی حرمت اور غیرمسلموں سے علیحدگی اور ان سے جہاد وغیرہ کی تلقین شروع کردیں تو چند ہی دنوں میں ان کی عوامی مقبولیت کا فسوں ختم ہوکر رہ جائے گا۔ دراصل ایسے مقررین کا یہ 'زورِ بیان' ہوا کے رخ پر اُڑنے والے تنکے کے مشابہ ہے، جو منہ زور تہذیب کے بل بوتے پر بہت تیزی سے پروازکرتا دکھائی دیتا ہے جبکہ یہ اس تنکے کی اپنی پرواز نہیں ہوتی۔ دوسری طرف منہ زور ہوا کے راستے میں رکاوٹ بننے والا ایک تن آور درخت بھی ہوا کی شدت کی وجہ سے جھکتا نظر آتا ہے۔ اہل نظر اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں!
بہرحال ہمارے ممدوح کا یہ موقف ایک مسلمہ امر ہے کہ ٹی وی اشتہارات کی ایک دکان ہے، جو عوامی میلانات کے بل بوتے پر مخصوص رجحانات کا اِبلاغ کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کاروبار سمیٹ سکے۔ البتہ یہ اعتراض خالصتاً کمرشل چینلوں کے بارے میں تو درست ہے، لیکن ایسے ٹی وی چینل جو محض عوام کی بجائے حکومت یا کسی مخصوص مشن کے تحت خارجی اِخراجات پر چلتے ہوں، ان کے بارے میں ا س اعتراض کی نوعیت قدرے کم ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جن علماے عرب نے ٹی وی چینلوں پر آنے کی اجازت دی ہے، ان کے پیش نظر دین پسند حکومت یا اسلامی مقاصد کے فروغ کیلئے کام کرنے والے چینل ہی رہے ہیں۔
البتہ ٹی وی کے ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے یہ بات پھر بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ ایسی صورت میں عوام تفریح اور من پسند شے کے حصول کے لئے اس کی بجائے دوسرے چینلوں پر ہی اپنا زیادہ وقت صرف کریں گے، اِلا یہ کہ ان کے پاس اس واحد چینل کے سوا کوئی اور اِمکان ہی موجود نہ ہو۔ جیسا کہ یہ صورتحال پی ٹی وی کو پیش آچکی ہے کہ 'جیو' کے ہمہ رنگ چینل متعار ف ہوتے ہی پاکستان کے عوام نے پی ٹی وی کو چھوڑ کر اُسے اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنا لیا۔
زیر تبصرہ مضمون میں ایک تصور یہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ تعلیم وتعلّم میں دو حواس بامقصد نہیں ہوا کرتے۔ راقم کی نظر میں مقالہ نگار کا یہ دعویٰ مثالیت پسندی کا ایک رجحان تو ہوسکتا ہے جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ساتھ نبی مجسم کے طورپر تزکیۂ نفس کے لئے مبعوث کیا گیا، لیکن اسے تعلیم وتعلّم کا لازمہ قرار دینا درست نہیں۔ چنانچہ بعض اوقات وحی کا تذکرہ، بیان کرنے والے پر وہ تاثیر نہیں چھوڑتا، جتنا اپنے سامع پر۔ حدیث ِنبوی بھی ہے کہ ''اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ رکھے، جس نے میری حدیث کو آگے بیان کیا، بعض اوقات بیان کرنے والے سے سننے والا زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے۔'' اس لئے میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ موصوف کا یہ دعویٰ مثالیت وکمالیت پر مبنی رجحان تو ہے لیکن تعلیم کا اسی پر منحصر ہوجاناضروری نہیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ اِبلاغ کا میدان تعلیم و تزکیہ سے مستقل وجود بھی رکھتا ہے اور دونوں کے تقاضے واَسالیب مختلف ہیں۔
زیر تبصرہ مضمون میں روایت پسندی کی بنا پر خانقاہی نظام یا تصوف کی طرف مائل جو بعض مثالیں پیش کی گئی ہیں، ان پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ شرعی استدلال کا مرکز و محور براہِ راست قرآن وسنت کو ہی ہونا چاہئے۔ محض تعاملِ اُمت کی بنا پر مسلمانوں میں مروّجہ روایات کو دین باور کرلینے کی بجائے اس تعامل و روایت کی میزان بھی قرآن وسنت کو ہی سمجھنا چاہئے۔
ان چند مخلصانہ گزارشات کے بعد اس امر کی نشاندہی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ٹی وی پر تبلیغ اسلا م کے حوالے سے زیر تبصرہ مضمون اس اشتراک ِفکر کی نشاندہی کرتا ہے جس کی ترجمانی 'محدث' کے تصویر نمبر میں کی گئی ہے۔ یہ مضمون اس بحث کو مکمل ومتوازن کرنے کی ایک قابل قدر کاوش ہے کہ ٹی وی کو تبلیغ اسلام کے لئے موزوں اور مثالی پلیٹ فارم تو خیال نہ کیا جائے، البتہ مجبوری کے تحت اس پر تحفظ ِاسلام کی کوشش کی شریعت کی نظر میں نہ صرف گنجائش بلکہ تلقین پائی جاتی ہے۔
جب کسی شے کا دوسرا رخ بھی نکھار کر پیش کردیا جائے تو ایسی صورت میں اس سے بچنے کا اِمکان مزید قوی ہوجاتا ہے، اور زیر تبصرہ مضمون کا اہم ترین فائدہ یہی ہے کہ ٹی وی پر آنے والے اہل علم ٹی وی کے حوالے سے ان تصورات کو اپنے سامنے تازہ رکھتے ہوئے اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اس امر کے بارے میں بالکل واضح رہیں گے کہ ٹی وی کو تبلیغ اسلام کا اصل اور کافی وشافی مرکز بننے کی صلاحیت حاصل نہیں ہے اور یہ لائوڈ سپیکر کی طرح محض ابلاغ کا آلہ نہیں ہے بلکہ موجودہ مادی تہذیب کا ایک اہم کل پرزہ ہے۔
اس مضمون کی اہمیت ان حالات میں دو چند ہوجاتی ہے جب ٹی وی پر 'عالم آن لائن' کے پروگرام کے اخباری اشتہار میں علماے کرام کو یہ تلقین و تہدید بھی پڑھنے کو ملے :
'' جو عالم ہے، وہ 'عالم آن لائن' ہے۔ اور جو [یہاں] علم بیان نہیں کرتا، علماء کی نظر میں وہ خائن ہے۔''2
حوالہ جات
1. دیکھئے 'محدث' کا شمارہ فروری 2008ء
2. دیکھئے: روزنامہ 'جنگ' میں اشتہار' عالم آن لائن'