شرعی اورمروّجہۂ تکافل کا تقابلی جائزہ
کچھ عرصہ سے بعض مالیاتی ادارے اسلامی بینکوں کی طرز پر سود ، غرراور قمار پر مشتمل انشورنس کا متبادل نظام بڑے زور وشور سے متعارف کرا رہے ہیں جس کو 'تکافل' کا نام دیا گیا ہے۔ جو ادارہ اس کا انتظام وانصرام کر تا ہے، اس کو تکافل کمپنی کہا جا تا ہے جیسے 'پاک کویت جنرل تکافل کمپنی' یا 'پاک قطر فیملی تکافل کمپنی' وغیرہ۔ ان کمپنیوں کے بقول یہ نظام چونکہ ہر لحاظ سے شرعی اُصولوں کے عین مطابق ہے، اسلئے اس کو 'اسلامی انشورنس' بھی کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس کام سے ان اداروں کی غرض نفع کمانا ہے، اس لیے ہم اس کو 'تجارتی تکافل' بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تَکَافُل کا مفہوم اورشرعی تصور کیا ہے؟ شرعی اورتجارتی تکافل میں بنیادی فرق کیا ہے؟ نیز تجارتی تکافل کی شرعی اساس اور حکم کیا ہے ؟ذیل میں ان سوالو ں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں :
تکافل کا معنی ومفہوم
ہماری معلومات کے مطابق نہ توقرآن وحدیث میں 'تکافل' کا لفظ آیا ہے اور نہ ہی لغت کی قدیم کتب میں یہ لفظ ملتا ہے، البتہ کتاب وسنت میں ایسے الفاظ ضرور استعمال ہوئے ہیں جن کا مادّہ وہی ہے جو تکافل کا ہے یعنی وہ الفاظ ک ف ل سے بنے ہیں ۔
مثلاً قرآنِ حکیم میں حضرت مریم ؓکی کفالت اور تربیت کے حوالے سے ایک جگہ
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ...﴿٣٧﴾...سورة آل عمران
''پھر اس کے ربّ نے اسے قبول کیا، قبول کرنا اچھا اور زکریا کو اس کا کفیل بنایا۔''
اور دوسری جگہ
إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَـٰمَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ...﴿٤٤﴾...سورة آل عمران
''جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کی کفالت کرے؟''
یعنی پہلی آیت میں لفظ کَفَّلَ 'کفیل بنایا 'اور دوسری میں یَکْفُلُ 'کفالت کرے '' کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب دو آدمی دیوار پھلانگ کرحضرت داؤدؑکے کمرہ میں داخل ہوئے تو ان میں سے ایک نے کہا :
إِنَّ هَـٰذَآ أَخِى لَهُۥ تِسْعٌ وَتِسْعُونَ نَعْجَةً وَلِىَ نَعْجَةٌ وَٰحِدَةٌ فَقَالَ أَكْفِلْنِيهَا وَعَزَّنِى فِى ٱلْخِطَابِ ﴿٢٣﴾...سورہ ص
''بے شک یہ میرا بھائی ہے، اسکے پاس ننانوے دُنبے ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبہ ہے تو یہ کہتا ہے: وہ بھی میرے سپرد کر دے اور گفتگو میں مجھ پر غالب آجاتا ہے۔''
یہاں اَکْفِلْ 'سپرد کر دے ' کا لفظ آیا ہے۔
اسی طرح حدیث شریف میں بھی اس مادہ کے مختلف الفاظ آئے ہیں ۔مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِي الْجَنَّةِ هکَذَا۔ ۔ ۔ 1
''میں اور یتیم کی کفالت کرنیوالا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے، آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی اُنگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا جیسے یہ دونوں اکٹھی ہیں ۔ ''
البتہ لغت کی جدید کتب میں یہ لفظ زیر بحث آیا ہے۔ چنانچہ المَورد میں تکافل کا معنیJoint liability or responsibility; solidarityلکھا ہے۔
یعنی '' مشترکہ ذمہ داری یا جواب دہی ؛باہمی اتفاق؛مقاصد اور عمل کا اتحاد''
مُعجَم الطُّلاب میں ہے:
تَکَافَلَ یَتَکَا فَلُ،تکافُلاً: تَضَامَنَ/تَبَادَلَ الضَّمَانَةَ مَعَ غَیْرِہٖ
''دوسرے کے ساتھ گارنٹی کا تبادلہ کرنا۔''
معجَم لغة الفقہاء میں تکافل کا معنی و مفہوم یو ں بیان ہوا ہے:
تبادل الإعالة والنفقة والمعونة (Solidarity) الرعایة والتحمل، ومنه تکافل المسلمین رعایة بعضهم بعضًا بالنصح والنفقة وغیر ذلك
''کفالت، نفقہ اور اِعانت کاتبادلہ (انگریزی میں سولیڈیرٹی) بمعنی خیال رکھنا اور برداشت کرنااور اسی سے تکا فل المسلمین ہے۔ یعنی مسلمانوں کا ایک دوسرے کاخیر خواہی اورخرچ وغیرہ کر کے خیال رکھنا۔ ''
اسلام میں تکافل کی اہمیت
اگرچہ قرآن و حدیث میں لفظ تکافل ذکر نہیں ہوا مگر ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، خیر خواہی اورتعاون کرنا دین کا اہم مطالبہ ہے۔
سید قطب شہید رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
''بلا شبہ اجتماعی تکافل ہی اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور مسلمانوں کی جماعت پابندہے کہ وہ اپنے کمزوروں کے مفادات کا خیال رکھے۔''2
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
''اسلام کا مکمل نظام تکافل کی بنیاد پر قائم ہے۔ '' 3
ذیل میں اس موضوع کی بعض آیات اور احادیث ِنبویہ ؐ ملاحظہ ہوں :
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ ۚ أُولَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾...سورة التوبہ
''مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں ، وہ نیکی کا حکم دیتے اور برے کام سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ضرور رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ تعالی نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔ ''
یعنی اہل ایمان کا شعار یہ ہے کہ وہ ایک دوسر ے کے معاون و مددگار ہیں ۔
تکافل کی روح بھی یہی ہے۔ علامہ محمد رشید رضا رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ
''اس آیت میں مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کی جس دوستی کا ذکر ہے وہ نصرت ، اُخوت اور محبت سب دوستیوں کو شامل ہے۔''4
حضرت ابو سعید خدریؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، اچانک ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا یعنی اپنی ضرورت کی چیز تلاش کرنے لگا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ مَعَهُ فَضْلُ ظَهرٍ فَلْیَعُدْ بِه عَلَی مَنْ لاَ ظَهرَ لَهُ وَمَنْ کَانَ لَهُ فَضْلٌ مِنْ زَادٍ فَلْیَعُدْ بِه عَلَی مَنْ لاَ زَادَ لَهُ 5
''جس کے پاس زائد سواری ہے وہ اس کودے دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس زائد راشن ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس راشن نہیں ۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ ؐنے مال کی جو اَصناف ذکر کیں ، سو کیں ؛ یہاں تک کہ ہم نے یہ سمجھا کہ زائد مال میں ہم میں سے کسی کا حق نہیں ہے۔ ''
اسلام کہتا ہے کہ اگر ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو دنیا بھر کے مسلمان اس وقت تک بے چین رہیں جب تک اس کی تکلیف رفع نہ ہو جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی عمدہ مثال بیان کر کے اس کو یوں سمجھایا :
تَرٰی الْمُؤْمِنِینَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِّهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی عُضْوًا تَدَاعَی لَه سَائِرُ جَسَدِہٖ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّی 6
''تو مسلمانوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے ،محبت رکھنے اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی مانند دیکھے گا۔ اگر ایک عضو بیمار ہو جاتا ہے تو جسم کے تمام اعضا بخار اور بیداری میں اس کے شریک ہوتے ہیں ۔ ''
ایک موقع پر حضرت عمرؓنے فرمایا تھا کہ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالی یہ قحط ختم نہ کرتے تو
مَا تَرکتُ أَهل بَیتٍ مِن المُسلمین لَهم سِعةً إِلا أَدخلتُ مَعهم أَعدادَهُم مِن الفُقراء 7
''میں ہر صاحب ِحیثیت مسلمان گھرانے میں اتنے ہی غربا داخل کر دیتا۔''
یعنی ایک امیر خاندان میں جتنے افراد ہو تے اتنے ہی غربا کی کفالت ان پر لازم ہوتی۔
اسلامی تکافل کی ہمہ گیریت
اسلام کانظامِ تکافل اسلامی اُخوت ،معاشی احتیاج و ضرورت اور تکریم انسانیت پر استوار ہے۔ اسلام اس سوچ کا قطعاً حامی نہیں کہ ہم پرصرف ان مستحقین کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو ہمارے ہم عقیدہ ہوں ۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے :
لَّا يَنْهَىٰكُمُ ٱللَّهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى ٱلدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَـٰرِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ ﴿٨﴾...سورة الممتحنہ
''اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں سے حسن سلوک کرنے اور ان کے حق میں انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کی بابت نہیں لڑے اورجنہوں نے تم کوتمہارے گھروں سے نہیں نکالا،بلا شبہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادِ گرامی ہے :
فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَةٍ أَجْرٌ 8
ََ''ہر جاندار میں ثواب ہے۔ ''
یعنی ہرجاندار کے ساتھ احسان کرنا باعث ِثواب ہے۔
فقہا کی رائے میں جو اہل ذمہ اپنے معاش کے حصول سے عاجز ہو جائیں گے ان کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ جاری کیا جائے گا۔ امام ابن قیم رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
''حضرت عمرؓسے مروی ہے کہ اُنہوں نے ایک ذمی بوڑھے کو دروازوں پر مانگتے دیکھا تو بیت المال سے اس کا وظیفہ جاری کر دیا اور عمر بن عبدالعزیز نے بھی ایسا کیا تھا۔ ''9
حضرت خالد بن ولید ؓنے اہل حیرہ سے کہا تھا کہ
''تم میں سے جو بوڑھا ہو جائے گا یا جس پر کوئی آفت آجائے گی یا جو مال دار رہنے کے بعد غریب ہو جائے گا، وہ جب تک دار الاسلام میں رہے گا، اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی کفالت بیت المال کرے گا۔ '' 10
ثابت ہوا اسلام کے نظامِ تکافل کا فیض انتہائی وسیع ہے جس سے اسلامی ریاست کا ہر مستحق شہری بلاتخصیصِ عقیدہ بقدرِ ضرورت مستفید ہوتا ہے۔
تکافل کی مختلف صورتیں
اسلامی نقطہ نظر کے مطابق درجاتِ معیشت میں تفاوت اپنی جگہ مگراس طرح سادہ زندگی گزارنے کا حق سب کو یکساں حاصل ہے کہ اس کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں ۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے زکوٰة ،عشر اور صدقہ فطر وغیرہ کا نظام دیا گیا ہے۔ اور معاشرہ میں دولت کو زیر گردش لانے اور غربا کی بہبود میں زکوٰة کا کردار بڑانمایاں ہے۔سید قطب شہید رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
إن الزکاة فرع من فروع نظام التکافل الاجتماعي في الإسلام 11
''زکوٰة اسلام میں تکافل اجتماعی کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے۔''
رمضان المبارک کے اختتام پر صدقہ فطر بھی تکافل اجتماعی کی ایک شکل ہے تاکہ چھوٹے سے لے کربڑے تک ہر شخص فقراء ومساکین کی دیکھ بھال میں حصہ دار بنے۔ ایسے ہی مال داروں کو فقیرعزیز واَقارب کے نان و نفقہ کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی تکافل میں شامل ہے جبکہ نفلی صدقات اور ہنگامی حالات میں اِنفاق کا حکم اس سے الگ ہے۔ اسی طرح غیر ارادی طور پر قتل ہوجانے کی صورت میں دیت تنہا قاتل پر ڈالنے کی بجائے عاقلہ (قاتل کے بھائی ،چچااور ان کی اولاد) کو شریک کرنے کاحکم تکافل کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة اللہ علیہ اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَالْمَعْنٰی فِي ذٰلِکَ أَنَّ جِنَایَاتِ الْخَطَأِ تَکْثُرُ وَدِیَةَ الآدَمِيِّ کَثِیرَةٌ،فَإِیجَابُهَا عَلَی الْجَانِي فِي مَالِهِ یُجْحِفُ بِهِ، فَاقْتَضَتْ الْحِکْمَةُ إیجَابَهَا عَلَی الْعَاقِلَةِ عَلَی سَبِیلِ الْمُؤَاسَاةِ لِلْقَاتِلِ وَالإِعَانَةِ لَهُ تَخْفِیفًا عَنْهُ 12
''اس میں حکمت یہ ہے کہ غیر ارادی طور پر ہونے والے جرائم بکثرت ہوتے ہیں اور آدمی کی دیت بھی کافی زیادہ ہے۔ لہٰذااس کو اکیلے خطاکارکے مال میں واجب قرار دینا اس پراس کے مال میں ناقابل برداشت ذمہ داری ڈالنے کا باعث ہے۔ چنانچہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ قاتل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بطورِ ہمدردی اور اعانت اس کی دیت عاقلہ پر واجب قراردی جائے۔''
بلکہ غیر ارادی قتل میں دیت کا حکم بذاتِ خود تکافل کی ایک صورت ہے اور وہ یوں کہ بعض دفعہ مقتول کے بچے کمسن ہوتے ہیں جن کی تعلیم و تربیت کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو گویا اسلام نے دیت مقرر کر کے ان کی کفالت کا انتظام کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ اسلام نے تکافل کا ایک مضبوط نظام دیا ہے، اگر اس پر عمل ہو جائے تو تمام محتاجوں کی معاشی ضرورتیں پوری ہو سکتی ہیں ۔ لیکن بایں ہمہ اگرضرورت پوری نہ ہو تو غنی مسلمانوں پر مزید خرچ کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
اسلامی تکافل کی خصوصیت
اسلامی تکافل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کابنیادی مقصد اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی ہرگز نہیں ۔ اور نہ ہی اس کوبطورِ کاروبار اختیارکیا جاتا ہے بلکہ اسلامی معاشرے کا یہ شعار ہونا چاہیے کہ اس کے تمام افراد باہم مددگار ومعاون ہوں اور ضرورت مندوں اور مجبوروں کی مدد کریں ، لیکن اگر کچھ ادارے تکافل کے نام سے یہ مطالبہ کریں کہ ہم آپ کے بیوی بچوں کی مدد تب کریں گے جب آپ اتنے سالوں تک ہر ماہ ایک متعین رقم ہمیں وکالة یا مضاربةکی بنیاد پر کارو بار اور وقف فنڈ میں بطور چندہ دیں گئے تو اس سے اسلام کے تکافل اجتماعی کا مقصد حاصل نہیں ہوگا۔
مروجہ تکافل اور اس کا طریقہ کار
ماضی قریب میں تکافل کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے جس کامقصددوسروں کے ساتھ تعاون کی بجائے دراصل اپنے نقصان کااِزالہ ہوتاہے اور اس کے منتظم بھی یہ کا م بطورِ کاروبار کرتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ
سب سے پہلے کچھ لوگ یامالیاتی ادارے مل کر ایک کمپنی قائم کرتے ہیں جس کو تکافل کمپنی کہا جاتاہے۔اس کمپنی کے اداشدہ سرمایہ کا ایک حصہ وقف کر کے ایک پول بنایا جاتا ہے یہ پول کسی کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ اپنا الگ قانونی وجود رکھتاہے جبکہ کمپنی کی طرف سے پول میں ڈالی گئی رقم ان متاثرین کے لیے وقف ہوتی ہے جو پالیسی حاصل کرتے ہیں ۔
کمپنی مالکان وقف کی اس رقم کو وقف کے ایجنٹ (وکالہ)کی حیثیت سے یا مضاربہ کی بنیاد پر کاروبار میں لگاتے ہیں ۔ نفع سے (وکالہ کی شکل میں )اپنی فیس یا (مضاربہ کی شکل میں ) اپنا حصہ الگ کر کے نفع میں حاصل شدہ باقی رقم دوبارہ وقف پول میں ہی جمع کر دیا جاتاہے۔
کمپنی لوگوں کو پالیسی حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور جو لوگ پالیسی حاصل کرتے ہیں ، وہ اس کے ممبران شمار ہوتے ہیں ۔
پالیسی حاصل کرتے وقت خواہش مند اپنی اَغراض پیش نظر رکھتے ہیں ۔ کسی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری موت کے بعد میرے بچوں کی کفالت کے لیے ان کے پاس بیس لاکھ ہوناچاہے اورکسی کے پیش نظر کسی اورقسم کے متوقع نقصان کا اِزالہ کرنا ہوتا ہے۔
صرف وہی لوگ پالیسی حاصل کرنے کے اہل شمار ہوتے ہیں جو عمر وصحت اور آمدن کے لحاظ سے کمپنی کے معیار پر پورا اُترتے ہیں ۔باقاعدہ طبی معائنہ کے ذریعہ ایک اندازہ کیا جاتا ہے۔ اگر کسی چیز کے متوقع نقصان کی تلافی مقصود ہو تو اس چیز کی حالت بھی دیکھی جاتی ہے۔
پالیسی کی زیادہ سے زیادہ مالیت کیا ہو گی یہ فیصلہ خواہشمند نے خود کرنا ہوتا ہے جبکہ کم از کم مالیت تکافل کمپنی خود طے کرتی ہے۔
ایسے ہی پالیسی کی زیادہ سے زیادہ مدت کمپنی طے کرتی ہے، البتہ کم سے کم مدت کا تعین وہ شخص خود بھی کرسکتا ہے۔ یاد رہے کمپنی کی جانب سے پالیسی ہولڈر کو دی جانے والی رقم کا انحصار انہی دو باتوں پر ہوتا ہے۔
چونکہ تکافل فنڈ کا انتظام و انصرام کمپنی کے ذمہ ہوتا ہے، اس لئے کمپنی اس کی باقاعدہ الگ سے فیس لیتی ہے جس کو 'وکالہ فیس' کہا جاتا ہے۔
پالیسی کی رقم عموماً سالانہ اقساط میں جمع کروائی جاتی ہے جبکہ ششماہی یا سہ ماہی اقساط میں بھی جمع کروائی جاسکتی ہے۔
پالیسی ہولڈر کی قسط سے سب سے پہلے ایلوکیشن فیس منہا کی جاتی ہے۔ یہ فیس پالیسی کی مالیت اور مدت کو مد نظر رکھ کر لی جاتی ہے۔ پہلی قسط سے ایک خطیر رقم اس مد میں چلی جاتی ہے۔مثلاً اگر پالیسی کی مدت۰ ۲ سال یا اس سے زیادہ ہو اور قسط پندرہ سے پچیس ہزار تک ہو تو پاک قطر فیملی تکافل پہلی سالانہ قسط سے۸۰ فیصد، دو سری سے۲۰،تیسری سے ۱۰، چوتھی سے ۷، پانچویں سے بھی ۷ اور چھٹی سے لے کر دسویں قسط تک تین فیصد وصول کرتی ہے۔
ایلوکیشن فیس کے بعدہر قسط کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک حصہ انوسٹمنٹ ( بصورتِ مضاربت ) یا فیس کے طور پر( بصورتِ وکالہ ) اور دوسرا حصہ وقف پول کے لئے۔
جو حصہ انوسٹمنٹ کے لئے ہوتاہے، اس سے دوقسم کی فیس کاٹی جاتی ہے :
- ایڈمن فیس :یہ ماہانہ بنیادوں لیکن پالیسی کی مالیت اور مدت کے اعتبار سے مختلف مگر فکسڈ ہوتی ہے۔ مثلاً پاک قطر فیملی تکافل کی کم از کم فیس۶۵ روپے اور زیادہ سے زیادہ ایک سو دس روپے ماہانہ ہے۔ اس میں سالانہ آٹھ فیصد اضافہ بھی ہوتا ہے۔
- مینجمنٹ انوسٹمنٹ فیس : پاک قطر فیملی تکافل کمپنی کی تقریباً ڈیڑھ فیصدہے۔
جنرل تکافل میں مکمل قسط وقف پول میں جمع ہوتی ہے۔ کمپنی وقف کو منظم کرنے اور اس کے سرمایہ سے کاروبار کرنے کی علیحدہ علیحدہ فیس لیتی ہے۔
ہر تکافل کمپنی کا ایک دوسری کمپنی جس کو ری تکافل کہا جاتا ہے، سے معاہدہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ تکافل کمپنی پالیسی ہولڈر کی قسط کا کچھ حصہ ری تکافل کمپنی کو بھی دیتی ہے۔
جو حصہ وقف پول میں جمع ہوتا ہے، وہ پالیسی ہولڈرز کی ملکیت سے نکل کر وقف کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ تاہم تجارتی تکافل کے حامیوں کے مطابق وہ خود بخود وقف نہیں ہوگا بلکہ صرف وقف کی ملکیت ہو گا جو وقف کے مصالح اور ان لوگوں پر خرچ ہو گا جو وقف کی مد میں شامل ہوں گے۔ ملاحظہ ہو مولانا محمدتقی عثمانی صاحب کا مقالہ تأصیل التأمین التکافلي علی أساس الوقف والحاجة الداعیة إلیه 13
کمپنی ان دونوں کھاتوں میں جمع شدہ رقم سے پالیسی ہولڈرز اور وقف پول کے ایجنٹ کی حیثیت سے کاروبار کرتی ہے جو نفع ہو، وہ وقف پول اور پالیسی ہولڈرز کے کھاتے میں جمع کردیا جاتا ہے جبکہ وقف پول کا مکمل نفع وقف پول میں ہی جاتا ہے۔
کلیمز کی ادائیگی میں عموماً سرمایہ دارانہ انشورنس کی شرطوں کو ہی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اگر کلیمز زیادہ ہونے کی وجہ سے وقف پول میں رقم کم پڑ جائے تو قانوناً کمپنی اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ قرضِ حسنہ لے کر باقی کلیمز ادا کرے۔ البتہ یہ قرض خود کمپنی ہی وقف پول کو دیتی ہے جو اس نے آئندہ سر پلس سے وصول پانا ہوتا ہے۔
اگر پالیسی ہولڈر بیماری یا حادثے کی وجہ سے قسط ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو وہ کمپنی ادا کرتی ہے بشرطیکہ شروع میں یہ فیصلہ کر لیا جائے کیونکہ اس کے لیے اضافی رقم ادا کرنا لازم ہوتی ہے۔
مروّجہ تکافل کی قسمیں
بنیادی طورپر ؑٓاس کی دوقسمیں ہیں :
- فیملی تکافل
- جنرل تکافل
فیملی تکافل :کی اصطلاح لائف انشورنس کے متبادل استعمال ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ پالیسی ہولڈر کی ہر قسط کا کچھ انوسٹمنٹ کھاتے میں جاتا ہے اور کچھ حصہ وقف پول میں ۔ یہاں کمپنی دو قسم کی الگ الگ ایجنسی فیس وصول کرتی ہے، ایک وقف پول کا منتظم ہونے کی حیثیت سے یہ وقف پول سے لی جاتی ہے اوردوسری پالیسی ہولڈر کاایجنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ پالیسی ہولڈر کے کھاتے سے کاٹی جاتی ہے۔
اب اگر پالیسی ہولڈر متعینہ مدت سے پہلے فوت ہو جائے توکمپنی اس کے ورثا کوایک تو انوسٹمنٹ اکاؤنٹ میں سے پالیسی حاصل کرنے کی ابتدا سے لے کر فوت ہونے تک جمع کرائی گئی رقم مع اس نفع کے جو سرمایہ کاری سے حاصل ہوا، ادا کرے گی۔ اور دوسرا فوت ہونے کی وجہ سے پالیسی ہولڈر کے ذمہ جو اقساط رہ گئی ہیں ، وہ وقف پول سے ادا کرے گی۔ اور اگر پالیسی ہولڈر متعینہ مدت تک زندہ رہے تو پھر اس کو حسب ِذیل فوائد حاصل ہوں گے:
'انوسٹمنٹ کھاتے' میں جمع شدہ رقم مع اس نفع کے جواس دوران سرمایہ کاری سے حاصل ہوا۔
وقف میں دیے گئے عطیہ کے تناسب سے حصہ بشرط کہ وقف پول میں سر پلس ہو۔
لیکن اگر کوئی شخص مدت مکمل ہونے سے قبل پالیسی سے نکلنا چاہے تو وہ صرف اپنی انوسٹمنٹ کھاتے میں موجود رقم اور اس سے حاصل ہونے والے نفع کا حق رکھتا ہے، وقف پول میں دی گئی رقم پر اس کاکوئی حق نہیں ہوتا۔
جنرل تکافل :یہ اصطلاح جنرل انشورنس کی جگہ بولی جاتی ہے۔ یعنی ممکنہ خطرات سے تحفظ کی پالیسیــ۔ اس میں قسط کی پوری رقم وقف پول میں جاتی ہے اور اگردورانِ مدت وہ نقصان ہو جائے جس کی تلافی کے لیے پالیسی لی گئی ہے تو اِزالہ کر دیا جاتا ہے۔ بصورتِ دیگرسرمایہ دارانہ نظامِ انشورنس کی طرح پالیسی ہولڈر کوکچھ نہیں ملتا۔ البتہ کمپنی اپنی صواب دید پرکچھ بونس دے سکتی ہے۔
کیا مروّجہ تکافل سود اور غررسے پاک ہے؟
کمرشل انشورنس کو جن خرابیوں کی بنیاد پر حرام قرار دیا گیا ہے، ان میں سرفہرست سود اور غرر(Uncertainty)ہے۔ بادیٔ النظر میں یہ دونوں خرابیاں یہاں بھی پائی جاتیں ہیں ۔ وہ یوں کہ اگر پالیسی ہولڈر مدت پوری ہونے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کو پالیسی کے تحت طے شدہ رقم دی جاتی ہے جس کا ایک حصہ اس نے ادا ہی نہیں کیا ہوتا۔
اور کمپنی قانونی طور پر اس کی پابند بھی ہوتی ہے۔ جبکہ غرر اس طرح کہ دونوں احتمال ہیں ، ممکن ہے جس نقصان کے ازالہ کے لیے پالیسی لی گئی ہے وہ پیش نہ آئے اور ادا کی ہوئی رقم رائیگاں جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ وہ پیش آجائے اور کمپنی کے ذمہ ادائیگی لازم ہو جائے۔
کیا یہ عقد معاوضہ نہیں ؟
تجارتی تکافل کے حامی کہتے ہیں کہ اضا فہ اور غرر تب ممنوع ہے جب عقد معاوضہ (لین دین کی وہ صورت جس میں ایک فریق دوسرے سے معاوضہ لینے کا حق رکھتاہے )میں ہو جبکہ یہ عقدتَـبَرُّع (Donation؍ صدقہ)ہے، لیکن یہ توجیہ درست نہیں ۔ کیونکہ پالیسی ہولڈر کو حاصل ہونے والے فوائد کا انحصارپالیسی مالیت کی کمی بیشی پر ہوتا ہے یعنی پریمیم کم تو فائدہ بھی کم اور پریمیم زیادہ تو فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت ہو تا ہے جس کی پابندی فریقین کے لیے لازمی ہوتی ہے اور اس کو قانونی تحفظ بھی حاصل ہے حتی کہ اگر کلیمز کی ادائیگی کے لیے رقم موجود نہ ہوتو (نام نہاد )وقف قرض لے کر یہ ادائیگی ممکن بناتا ہے، ایسی صورت میں اس کو عقد تبرع قرار دینا ناقابل فہم ہے۔
نیز اس پر تَبرُّع کی تعریف بھی صادق نہیں آتی، کیونکہ تبرع کا معنی ہے کسی کو کوئی چیز اس طرح دی جائے کہ معاوضے کی خواہش نہ رکھی جائے جبکہ یہاں تو محرک ہی یہ ہے کہ مجھے اس کے عوض یہ فوائد حاصل ہوں گے۔
ایک تا ویل کا جواب
مروّجہ تکافل کے بعض حامی اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ پالیسی ہولڈر یہ فوائد دیئے گئے عطیات کی بنیاد پر نہیں ، بلکہ وقف کے قواعد و ضوابط کے تحت حاصل کرتا ہے یعنی وہ یہ نہیں کہتا چونکہ میں نے وقف کو اتنا چندہ دیا ہے، اس لیے میں ان فوائد کا حق رکھتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ ان قواعد کی بنیاد پرمجھے یہ فوائد حاصل ہونے چاہیے۔یہ قانونی حق اس کو عقد ِمعاوضہ میں داخل نہیں کرتا... مگردو وجوہ کے باعث یہ تاویل بیت ِ عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہے :
ایک تو اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کو قواعد وضوابط کے تحت دعوی کرنے کا حق بھی تو دی گئی رقم کے بدلے ہی حاصل ہوا ہے۔ اب آپ قواعد وضوابط کا نام لیں یا پریمیم کی کمی بیشی کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوسرا اس لیے کہ پالیسی ہولڈر کی نظر تو ان فوائد پر ہوتی ہے جو اس کو مستقبل میں اس کے بدلہ میں حاصل ہونا ہوتے ہیں ، وہ قواعد و ضوابط کے تحت حاصل ہوں یا دی گئی رقم کے عوض، اس کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت پالیسی حاصل کرتے وقت فوائد کے متعلق تو پوچھتی ہے مگر وقف کے قواعد وضوابط کے بارے میں سوال نہیں کرتی۔
ایک مجلس میں جب راقم نے ایک مشہورتکافل کمپنی کے سنیئر کنسلٹنٹ سے پوچھا کہ کیا آپ پالیسی حاصل کرنے کے خواہش مند وں کو قواعد وضوابط سے آگاہ کرتے ہیں ، تو اُنہوں نے صاف کہا کہ لوگ ہم سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں کیا ملے گا، قواعد وضوابط کے متعلق کبھی سوال نہیں ہوا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جن خرابیوں کی بنا پر روایتی انشورنس حرام ہیں تکافل ان سے پاک نہیں ۔
کیا نقد ی کو وقف کیا جا سکتا ہے؟
یہاں یہ بحث بھی بڑی اہم ہے کہ روپیہ پیسہ وقف کیا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ تکافل کمپنی کی پوری عمارت اس پر استوار ہے، لہٰذا ہم اس مسئلہ کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
اکثر فقہا اور اہل علم کی رائے میں روپے پیسے اور درہم ودینار کا وقف ہی درست وجائز نہیں ۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی شرح فتح القدیر میں ہے:
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ کُلُّ مَا أَمْکَنَ الِانْتِفَاعُ بِهِ مَعَ بَقَاء ِ أَصْلِهِ وَیَجُوزُ بَیْعُهُ یَجُوزُ وَقْفُهُ وَهَذَا قَوْلُ مَالِکٍ وَأَحْمَدَ أَیْضًا وَأَمَّا وَقْفُ مَا لَا یُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بِالإِتْـلَافِ کَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْمَأْکُولِ وَالْمَشْرُوبِ فَغَیْرُ جَائِزٍ فِي قَوْلِ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ وَالْمُرَادُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ: الدَّرَاهِمُ وَالدَّنَانِیرُ وَمَالَیْسَ بِحُلِيٍّ
''امام شافعی رحمة اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ہر وہ چیز جس کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ حاصل کرنا ممکن ہو اور اس کی بیع بھی جائز ہو تو اس کا وقف درست ہے، یہ امام مالک رحمة اللہ علیہ اور امام احمد رحمة اللہ علیہ کا بھی قول ہے۔ رہا اس چیز کا وقف جس کو صرف کیے بغیر اس سے استفادہ ممکن نہ ہو جیسے سونا ،چاندی اور کھانے پینے کی اشیا وغیرہ تو عام فقہا کے نقطہ نظر سے ایسا وقف جائز نہیں ہے۔ سونے اور چاندی سے مراد درہم ،دینار اور وہ سونا ہے جو زیور کی شکل میں نہ ہو۔ ''
شارحِ بخاری علامہ ابن بطال رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
قال أبوحنیفة وأبویوسف لا یجوز وقف الحیوان والعروض والدنانیر والدراهم 14
''امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمة اللہ علیہ کا قول ہے کہ جانور ،سامان اور درہم و دینار کا وقف جائز نہیں ۔ ''
مشہور حنفی عالم علامہ انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
واعلم أن وقف المنقول لا یصح علی أصل المذھب وأجازہ محمد فیما تعارفه الناس 15
''جان لو! اصل (حنفی) مذہب میں اشیاے منقولہ کا وقف صحیح نہیں ہے۔ مگر امام محمد رحمة اللہ علیہ نے ان چیزوں میں اس کی اجازت دی ہے جو لوگوں میں معروف ہو جائیں ۔''
علا مہ ابن قدامہ حنبلی رحمة اللہ علیہ رقم طرازہیں :
وَجُمْلَتُهُ أَنَّ مَا لَا یُمْکِنُ الانْتِفَاعُ بِهِ مَعَ بَقَاء عَیْنِهِ کَالدَّنَانِیرِ وَالدَّرَاهِمِ وَالْمَطْعُومِ وَالْمَشْرُوبِ وَالشَّمْعِ وَأَشْبَاهِهِ لَا یَصِحُّ وَقْفُهُ، فِي قَوْلِ عَامَّةِ الْفُقَهَاءِ وَأَهلِ الْعِلْمِ، إِلَّا شَیْئًا یُحْکٰی عَنْ مَالِکٍ وَالْأَوْزَاعِيّ فِي وَقْفِ الطَّعَامِ أَنَّهُ یَجُوزُ وَلَمْ یَحْکِهِ أَصْحَابُ مَالِکٍ وَلَیْسَ بِصَحِیحِ؛ لِأَنَّ الْوَقْفَ تَحْبِیسُ الْأَصْلِ وَتَسْبِیلُ الثَّمَرَةِ، وَمَا لَا یُنْتَفَعُ بِهِ إلَّا بِالإِتْلَافِ لَایَصِحُّ فِیهِ ذَلِکَ 16
''خلاصہ یہ کہ جس چیز کو باقی رکھ کر اس سے فائدہ اُٹھانا ممکن نہ ہو جیسے درہم ودینار، کھانا، مشروب، شمع اور اس جیسی دوسری اشیا وغیرہ تو عام فقہا اور اہل علم کے نزدیک ان کا وقف درست نہیں ہے۔ البتہ امام مالک رحمة اللہ علیہ اور امام اوزاعی رحمة اللہ علیہ سے کھانے کے وقف کے متعلق مروی ہے کہ یہ جائز ہے ...اس بات کو امام مالک کے شاگردوں نے بیان نہیں کیا... لیکن یہ موقف درست نہیں ، کیو نکہ وقف کا مطلب ہے:''اصل کو باقی رکھنا اور اس کے فائدہ کو اللہ کی راہ میں خیرات کرنا''اور جس کو تلف کیے بغیر اس سے فائدہ لینا ممکن نہ ہو، اس میں وقف صحیح نہیں ہوتا ۔''
مزید لکھتے ہیں :
وَجُمْلَةُ ذٰلِکَ أَنَّ الَّذِي یَجُوزُ وَقْفُهُ مَا جَازَ بَیْعُهُ، وَجَازَ الانْتِفَاعُ بِهِ مَعَ بَقَاء عَیْنِهِ،وَکَانَ أَصْلًا یَبْقٰی بَقَاء مُتَّصِلًا کَالْعَقَارِ وَالْحَیَوَانَاتِ وَالسِّلَاحِ وَالْأَثَاثِ وَأَشْبَاہِ ذَلِکَ 17
''وقف اسی کا جائز ہے جس کی بیع درست ہے اور اس کو بعینہٖ باقی رکھ کراس سے فائد ہ اٹھایا جا سکے۔ اور وہ ایسی چیز ہونی چاہئے جو متصلًا باقی رہے جیسے زمین ،جانور،اسلحہ،اثاثہ اور اس قسم کی دوسری اشیا وغیرہ ''
علما وفقہا کا موقف تو اوپر آپ ملاحظہ کرچکے ہیں ، البتہ بعض اہل علم وہ بھی ہیں جو رقم کوبھی وقف کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔اِن میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ بھی شامل ہیں ۔چنانچہ اُنہوں نے اس کے حق میں مستقل عنوان بھی قائم کیا ہے :
بَابُ وَقْفِ الدَّوَابِّ وَالْکُرَاعِ وَالْعُرُوضِ وَالصَّامِتِ 18
''جانوروں ،گھوڑوں ،سامان اور سونے، چاندی کے وقف کا بیان۔''
اپنے موقف پر استدلال کیلئے اُنہوں نے اس باب کے تحت حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے :
أَنَّ عُمَرَ حَمَلَ عَلَی فَرَسٍ لَه فِي سَبِیلِ اﷲِ أَعْطَاهَا رَسُولَ اﷲِ ﷺ لِیَحْمِلَ عَلَیْهَا رَجُلاً فَأُخْبِرَ عُمَرُ أَنَّهُ قَدْ وَقَفَهَا یَبِیعُهَا، فَسَأَلَ رَسُولَ اﷲِ ﷺ أَنْ یَبْتَاعَهَا فَقَالَ لاَ تَبْتَعْهَا وَلاَ تَرْجِعَنَّ فِی صَدَقَتِکَ
''حضرت عمرؓنے اپنا گھوڑا اللہ کی راہ میں دے دیا۔اور آپؓ اُنہوں نے وہ گھوڑا رسول اللہ کو اس لیے دیاتاکہ کسی آدمی کو سواری کے لیے دے دیں ۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ملی کہ اب وہ شخص اس کو فروخت کررہا ہے تو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وہ اسے خرید لے ؟ آپ ؐنے فرمایا اس کو مت خریدیں اور اپنا صدقہ واپس نہ لیں ۔ ''
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنے موقف کی تائید میں امام زہری رحمة اللہ علیہ کا یہ اثر بھی ذکر کیا ہے:
'' امام زہری نے اس شخص کے متعلق فرمایا جس نے ہزار دینا ر اللہ کی راہ میں دیے اور وہ اپنے تاجر غلام کو حوالے کر دیے کہ وہ ان سے تجارت کرے اور اس کا نفع مساکین اور رشتہ داروں کے لیے صدقہ کر دیا۔ کیا وہ شخص اس ہزار کے نفع سے خود کھا سکتا ہے؟ خصوصاً اگر اس کا نفع مساکین کیلئے صدقہ نہ کیا ہو تو امام زہری نے فرمایا اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس سے کھائے۔ ''
صحیح موقف
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا تفقّہ فی الدین اور مقام و مرتبہ شک وشبہ سے بالاتر ہے، لیکن اگرفریقین کے پیش کردہ دلائل کا تقابلی جائزہ لیاجائے تو حسب ِذیل وجوہ کے باعث ان حضرات کا موقف صائب معلوم ہوتا ہے جو روپے پیسے کے وقف کو جائز نہیں سمجھتے۔
تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ وقف میں اصل چیز کو باقی رکھ کر صرف اس کی منفعت خرچ کی جائے گی۔اس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا 19
''اگر تو چاہے تو اس کا اصل روک لے اور اس کی منفعت(پیداوار)کو صدقہ کر دے۔''
یہ حدیث اس امر کی صریح دلیل ہے کہ وقف وہ چیز ہو سکتی ہے جس کو باقی رکھ کر فائدہ اُٹھانا ممکن ہوجبکہ روپیہ اپنی اصل حیثیت میں رہتے ہوئے کوئی فائدہ دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نہ اس کو کھایا جاسکتا ہے، نہ پہنا جاسکتا اور نہ ہی اس میں رہائش رکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس پر سواری کی جاسکتی ہے۔ یہ تو محض حصولِ اشیا کاایک وسیلہ ہے یعنی جب تک اس کو خرچ نہ کریں ، اس سے استفادہ ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ روپے ،پیسے کو کرایہ پر دینا بھی درست نہیں ،کیو نکہ کرایہ اسی چیز کا لیا جاسکتا ہے جسے صرف کے بغیر استعما ل کیا جا سکتا ہو، چونکہ نقد میں یہ خوبی نہیں ، اس لیے اس کا کرایہ لینا بھی جائز نہیں ہے۔ اسی بنا پر امام نووی رحمة اللہ علیہ اور علامہ ابن قدامہ رحمة اللہ علیہ نے درہم ودینار کے وقف کا جواز ان لوگوں کا مسلک بیان کیا ہے جو ان کا کرایہ لینا جائز سمجھتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو: روضة الطالبین 2؍254 اور المغنی 8؍229
جب راجح مسلک کے مطابق ان کا کرایہ درست نہیں ہے اورمروّجہ تکافل کے حامی بھی اس سے متفق ہیں اور وجہ بھی وہی بیان کرتے ہیں جو فقہا نے وقف کے عدمِ جواز میں ذکر کی ہے کہ نقد کو استعمال کیے بغیر فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں ۔20
اور اسی طرح تکافل کے مؤیدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روپیہ پیسہ ایسی چیز نہیں جس کو باقی رکھ کر مستفید ہوا جا سکے تو پھر فقہاے کرام کی اس شرط کہ'' وقف وہی چیز ہو سکتی ہے جو باقی رہ کر قابل فائدہ ہو'' کو نظر انداز کر کے نقد کے وقف کے جواز کا فتویٰ دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ، ان کے خیال میں روپے پیسے کو بھی باقی رکھ کر فائدہ حاصل کیا جاسکتاہے اور وہ یوں کہ اس سے کاروبار کیا جائے اور جو نفع ہو وہ خرچ کر دیا جائے، اصل کو برقرار رکھا جائے تو یہ توجیہ دو وجہ سے درست نہیں ہے:
ایک تو اس لیے کہ یہ صورت روپے پیسے کو اس کی اصل حیثیت میں باقی رکھ کر فائدہ حاصل کرنے کی نہیں ۔ اس طرح کا فائدہ توروپے پیسے کو کرایہ پر بھی لے کرلیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ شرعاً جائز نہیں ، کیوں ؟ اس لیے کہ اس قسم کا فائدہ نقد کی تخلیق کا اصل مقصد نہیں ہے جیسا کہ علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة اللہ علیہ نے المغنی میں لکھا ہے۔
دوسرا اس لیے کہ روپے پیسے کو کاروبار میں لگانے سے فائدہ کی بجائے نقصان کا بھی اندیشہ ہے اور ممکن ہے کہ وقف ختم ہی ہو جائے۔ اس لیے یہ کہنا کہ وقف کی ہوئی رقم سے کاروبار کر کے اس کا نفع خرچ کیا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کہ ''اصل روک کر رکھو اور اس کی پیداوار خرچ کرو ''کے خلاف ہے۔
جوحضرات نقد کے وقف کو نا جائز کہتے ہیں ، ان کا موقف درست ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قائلین نے اپنی تائید میں جو دلائل ذکر کے ہیں ، وہ ثبوت کے لیے ناکافی ہیں مثلاً حضرت عمرؓکے واقعہ سے ایسی منقولی اشیا کا وقف تو ثابت ہوتاہے جن کااپنا ذاتی استعمال ہو مثلاًگھوڑا جس کا اپنا ذاتی استعمال ہے اور وہ ہے سواری وغیرہ، لیکن نقد جس کا اپنا کوئی ذاتی استعمال نہیں تو اس کا وقف ثابت نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے نقد کو گھوڑے پر قیاس کیا ہے جو درست نہیں ، کیونکہ دونوں میں واضح فرق ہے۔
مزید برآں یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم کی رائے میں یہ وقف تھا ہی نہیں بلکہ صدقہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓسے توفرمایا کہ اپنا صدقہ مت خریدو مگر بیچنے والے پر پابندی نہیں لگائی۔اور نہ ہی حضرت عمرؓ نے اس پر کوئی اعتراض کیا۔ اگر یہ وقف ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بھی منع فرما دیتے، کیونکہ وقف کو فروخت کرنا جائز نہیں ۔
امام زہری رحمة اللہ علیہ کا اثر بھی دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ یہ وقف کے بارے میں نہیں بلکہ عام صدقہ کے متعلق ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ ان سے پوچھاگیاکہ کیا وہ شخص اس کے نفع سے خود بھی کھا سکتاہے ؟تو اُنہوں نے جواب دیا: نہیں ۔ اگر یہ وقف ہوتا تو یہ پابندی نہ لگاتے، کیونکہ وقف کنندہ کو شرعاً اپنے وقف سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت ہے۔ محدث اسماعیلی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
'' زہری رحمة اللہ علیہ کا اثر اس وقف کے خلاف ہے جس کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو دی تھی کہ ''اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کرو۔ '' سونے چاندی سے تو تب ہی فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے جب اس کو بعینہٖ کسی دوسری چیز کی طرف نکالا جائے۔ غرض یہ اصل کو روکے رکھو اور ثمرہ خرچ کرو کی صورت نہیں بنتی۔ ''
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے محدث اسماعیلی رحمة اللہ علیہ کے اعتراض کا جو جواب دیا ہے وہ صرف زیور جس کا ذاتی استعمال واضح ہے پر منطبق ہو تا ہے، درہم و دینا ر پر نہیں ، اس لیے اس کو روپے پیسے کے وقف کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
موجودہ تکافل کے حامی فتح القدیر کے حوالے سے امام زفر رحمة اللہ علیہ کے شاگرد محمد بن عبداللہ انصاری رحمة اللہ علیہ کے فتویٰ کا ذکر بھی بڑی شد ومد سے کرتے ہیں کہ اُنہوں نے درہم ودینار کے وقف کو جائز قرار دیا ہے، لیکن اگر غور کیا جائے تویہ فتویٰ خود تکافل کمپنیوں کیخلاف جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہ الفاظ بھی ہیں :
قِیلَ وَکَیْفَ؟ قَالَ: یَدْفَعُ الدَّرَاهِمَ مُضَارَبَةً ثُمَّ یَتَصَدَّقُ بِهَا فِي الْوَجْهِ الَّذِي وَقَفَ عَلَیْهِ
'' کہا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے ؟اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ دراہم مضاربہ کی بنیاد پر کاروبا رکے لیے دے پھر ان پر صدقہ کرے جن پر وقف کیا گیا ہے۔''
جبکہ تکافل کمپنیوں کے مالکان اپنے قائم کیے ہوئے وقف سے کسی کو بطورِ مضاربہ رقم نہیں دیتے بلکہ خود ہی کاروبار کرتے ہیں اور اس کی باقاعدہ فیس وصول کرتے ہیں ۔ امام زہری رحمة اللہ علیہ کے اثر میں بھی یہی ہے کہ اس نے دینار غلام تاجر کو دیے تھے، نہ کہ خود ہی تجارت میں لگا کر اس کے عوض فیس لینا شروع کر دی۔
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ جو حضرات نقد کے وقف کے قائل ہیں ان کا نقطہ نظر کمزور ہے۔ لہٰذا تکافل کمپنیوں کی بنیاد ہی ایسے موقف پراستوار ہے جودلائل کی قوت سے محروم ہے۔
یہاں یہ وضاحت کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ تکافل کے حامیوں کی رائے میں پالیسی ہولڈر زکی اَقساط سے جو حصہ وقف پول میں جاتا ہے، وہ وقف کی بجائے وقف کی ملکیت ہوتا ہے جو وقف کے مصالح کے علاوہ ان لوگوں پر خرچ ہوگا جن کے لیے وقف قائم کیاگیا ہو گا جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں ۔ سوڈان کے معروف عالم پروفیسر صدیق محمد امین ضریر کے نزدیک اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
ومالم یأت الباحث بدلیل علی أن ما یتبرع للوقف یصرف للموقوف علیھم فإن تأصیل التأمین التکافلي علی أساس الوقف ینھار من أساسه (تعقیب عن بحث تأصیل التأمین التکافلي علی أساس الوقف والحاجة الداعیة إلیه)
''جب تک محقق (مولانا تقی عثمانی ) اس بات کی دلیل پیش نہیں کرتے کہ جو عطیہ وقف کو دیا جاتا ہے، وہ ان لوگوں پر ہی خرچ کیا جا سکتا ہے جن پر وقف کیا گیا ہو تو وقف کی بنیاد پر تکافلی انشورنس کا اُصول اپنی بنیاد سے ہی اُکھڑ جاتا ہے۔ ''
یہاں اس امر کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا میں مروّجہ تکافل کی سب سے پہلی کمپنی سوڈان میں ۱۹۷۹ء میں صدیق محمد امین زیر نگرانی قائم ہوئی تھی، لیکن اس کی بنیاد وقف کی بجائے تَـبَرُّع پرتھی۔ مگر اس کو وقف کی بنیاد پر قائم تکافل کمپنیوں کے مفتیانِ کرام جائز نہیں سمجھتے۔
بعض تحقیق طلب مسائل
مروّجہ اسلامی انشورنس میں ایلو کیشن اور ایڈمن فیس کے نام پر وصولی بھی غور طلب پہلو ہے جیسا کہ ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر آئے ہے کہ پہلے سال قسط کی ۸۷ فیصد(زیادہ سے زیادہ ) دوسرے سال بیس، جبکہ تیسرے سال دس فیصد رقم ایلو کیشن فیس کے نام پر کاٹ لی جاتی ہے۔ یہ ساری رقم کنسلٹنٹ جو گاہگ گھیر کر لاتا ہے اور برانچ ذمہ داران کی جیبوں میں جاتی ہے اور پالیسی ہولڈر کو اس کا علم تک نہیں ہوتا۔
یہ بالکل وہی طریقہ ہے جو روائتی انشورنس کا ہے کہ پہلی قسط کا معتد بہ حصہ انشورنس کمپنی کے ایجنٹ کو دے دیا جاتا ہے۔ جب نام نہاد اسلامی انشورنس نظریاتی مرحلہ میں تھی، تب یہ کہا جاتا تھا کہ روایتی انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی قسط تقریباً پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے جبکہ تکافل میں یہ نہیں ہوتا۔ لیکن جب عملی مرحلہ آیا تو نام نہاد اسلامی انشورنس نے بھی وہی راستہ اختیار کیا۔ہمارے خیال میں یہ پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے وہ اس طرح کہ اگر وہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد تکافل کمپنی کو اَلوداع کہتا ہے تو قواعد و ضوابط کے مطابق اس کو صرف وہ رقم ملتی ہے جو انوسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو یا پھراس سے حاصل ہونے والا نفع۔اب ستاسی فیصد تو ایلو کیشن فیس کے نام پر پہلے ہی الگ کیا جا چکا ہے، باقی تیرہ فیصد بچا، اس میں سے آدھا وقف میں چلا گیا جو شرعاً واپس نہیں لیا جا سکتا۔ جو باقی رہ گیااس میں سے ڈیڑھ فیصد مینجمنٹ اور ۶۵ سے لے کر ایک سو دس تک ماہانہ ایڈمن فیس بھی لی جانی ہے۔ پالیسی ہولڈر کے ہاتھ اس کے سوا کیا آیا کہ تکافل کمپنی کے تنخواہ دار شریعہ بورڈ کے مفتیانِ کرام کا ایک عدد فتویٰ اور اس کے نتیجے میں اسلام کے نظامِ تکافل کے متعلق پیداہونے والی بد گمانی کہ یہ بھی استحصال پر مبنی نظام ہے۔ (أعاذناللہ منه)
ایلوکیشن فیس کی اس کے علاوہ کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ یہ مختلف حربوں سے مال کھانے کی بد ترین شکل ہے۔ مروّجہ تکافل کے حامی بڑی سادگی سے کہتے ہیں کہ ہم ہر بات پہلے بتادیتے ہیں ۔ ناجائز تو تب ہو جب کوئی بات خفیہ رکھی جائے۔یہ انتہائی لغو قسم کا استدلال ہے۔ کیا بتا کر باطل طریقے سے کسی کا مال ہڑپ کرنا جائز ہوجاتاہے؟ناجائز کاروبار میں ملوث لوگوں کی اکثریت بھی یہی کہتی ہے کہ ہم ہر بات پہلے طے کرتے ہیں ،پھر یہ ناجائز کیسے ؟ کیا تکافل کے حامی اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ فقہاے اسلام نے بعض معاملات محض اس لیے ناجائز قررا دیے ہیں کہ ان سے کسی ایک فریق کو نقصان پہنچ رہاہوتاہے۔
مذکورہ بالا تفصیل سے ثابت ہوا کہ مروّجہ تکافل روایتی انشورنس کا ہی چربہ ہے مگرتاویلا ت کے ذریعے اس کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔
حوالہ جات
1. صحیح بخاری:5304
2. فی ظلال القرآن: 1؍212
3. (3؍433)
4. تفسیر المنار:10 ؍470
5. صحیح مسلم:1728
6. صحیح بخاری:6011
7. الأدب المفرد: باب المؤاساة في السَّنَة والمَجاعة،رقم:562
8. صحیح بخاری: 2466
9. أحکام أهل الذمة، باب من لا یقدر من أهل الذمة أعطي من بیت المال
10. کتاب الخراج از قاضی ابو یوسف
11. فی ظلال القرآن: 4؍41
12. المغنی:12؍21
13. ص:18 تا20
14. شرح صحیح بخاری : 8؍198
15. فیض الباری: 3؍416
16. المغنی: 8؍229
17. المغنی: 8؍231
18. صحیح بخاری،کتاب الوصایا
19. صحیح بخاری:2737
20. 'اسلامی بینکاری کی بنیادیں ' ازمولانا تقی عثمانی: ص169