’محدث‘ کے ’تصویر نمبر‘ کے سلسلے میں بعض خطوط

خطیب فیصل مسجد، اسلام آباد کا مکتوب
محترم و مکرم جناب حافظ عبدالرحمن مدنی ، جناب حافظ حسن مدنی صاحب حفظہم اللہ
السلام علیکم ورحمة اﷲ و برکاتہ
اللہ کرے آپ کے ہاں مکمل خیریت و عافیت ہو۔ آمین۔ ماہِ جون 2008ء کا 'محدث' ملا، جس کو آپ نے'تصویر نمبر' لکھا ہے، ماشاء اللہ پڑھ کر بہت خوشی اور فائدہ ہوا۔ تصویر کے موضوع پر یہ ایک دستاویز ہے جس پر آپ حضرات اور آپ کی پوری ٹیم مبارک کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر دے اور'محدث' کو مزید ترقی دے۔ آمین!
بلاشبہ آپ کی کاوشوں اور علمی جہود کی وجہ سے 'محدث' ملک بھر کے بہترین مجلات کی صف اوّل میں شمار ہوتاہے اور قوم کی رہنمائی میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔ اس سے قبل 'حدود آرڈیننس' کے موضوع پر جس طرح 'محدث' نے قوم کی رہنمائی کی اور باطل عزائم کی بیخ کنی کرکے جہاد بالقلم کا علم بلند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ آپ کو جزاے خیر عطا فرما دے۔ آمین۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ 'محدث' کو مزیدترقی دے اور آپ سب کو بایں کرامت تا دیر سلامت رکھے۔ آمین! والسلام
آپ کا بھائی؍ دعا گو محمد طاہر حکیم

مراسلہ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
محترم جناب مولاناحافظ حسن مدنی صاحب
السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاته
'محدث' کا تازہ شمارہ'تصویرنمبر' کے عنوان سے شائع کرکے آپ نے جو فرض اور قرض اُتارا ہے، اس پر مبارک ہو۔اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی ٔحسنہ کو قبول فرمائے اورمزید اپنی مرضیات سے نوازتارہے۔
یادہوگا کہ محترمی مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب زیدمجدہ'... جنہیں اب تو بڑے مدنی صاحب کہنا چاہئے... نے ایک عرصہ پہلے جناب رفیع مفتی صاحب کاکتابچہ 'تصویر کامسئلہ' اور اِشراق کاایک شمارہ جو 'اسلام اور موسیقی' کے عنوان سے شائع ہواتھا، بھجوائے اور فرمایاکہ ان کاجواب آناچاہئے۔ اسلام اور موسیقی کے عنوان پر تو راقم نے لکھا اور اربابِ اشراق کے موقف کی کمزوری واضح کرنے کی کوشش کی جس کے جواب الجواب کی نوبت بھی آئی، آپ اس تفصیل سے واقف ہیں ۔ خیال تھا کہ یہ بحث کسی کنارے لگے تو تصویر کے مسئلہ کو لوں گا مگر ابھی اس کی نوبت نہ آپائی تھی کہ آپ کی جانب سے 'تصویرنمبر' شائع ہوگیا جس پر بلاشبہ آپ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے!

تصویر کے مسئلہ پر یوں تو سب علماے کرام نے بڑی عمدہ اور نفیس بحث کی ہے مگر مولانا محمد شفیق مدنی حفظہ اللہ نے جس تفصیل سے تمام پہلوؤں پربحث کی ہے اور حرمت ِ تصویر کے علل واسباب کا جس طرح استیعاب کیا ہے وہ بہرحال قابل تحسین ہے۔ اسی طرح محترم مدنی صاحب نے بھی اُصولی نقطہ نظر سے اس کاخوب جائزہ پیش کیاہے تاہم اُنہوں نے جو حرمت ِ تصویر کی علت سد ِذرائع قرار دی ہے، اس سے اتفاق مشکل ہے۔ حدیث میں تو صاف طور پر (یضاھون بخلق اﷲ) کے الفاظ موجود ہیں ۔ جب کہ سد ِذرائع کو ہم علت ِمستنبطہ کہہ سکتے ہیں جیسا کہ علامہ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا ہے۔بہرحال تصویرکی حرمت پر سلف کا اتفاق رہا ہے، اس کی علت اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہو یا شرک سے بچنا مقصود ہو یا مشرکین کے عمل سے مشابہت ہو یا ان کی نحوست ہو؛ تصویر بہرحال حرام ہے۔

فوٹوگرافی اورمیڈیا کے موجود دور میں اس مسئلہ میں اختلاف پیداہوا کہ یہ تصویر ہے یا عکس؟مگر جو کچھ بھی ہے، کوئی بھی اسے تصویرسے خارج نہیں کرتا ہے۔ وہ کاغذ پر محفوظ ہو یانہ ہو، میڈیا میں بہرحال محفوظ ہے، جب بھی کوئی چاہے اسے دیکھ سکتا ہے بلکہ دل بہلا لیتا ہے۔اسے تصویر ہی کہتے ہیں ۔ شیشہ یاپانی میں عکس کو کسی نے تصویر نہیں کہا۔
محترمی جناب حافظ مدنی صاحب زیدمجدہ' کی گفتگو میں یہ بھی آیا ہے کہ ''حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ'' اگر کوئی شخص داڑھی مونڈ کر شیشہ دیکھے اور شیشہ دیکھ کر خوش ہو تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ ''1
اگر حوالے سے مطلع فرمادیں تو شکرگزار ہوں گا۔ لذت وفرحت عموماً مرتکب ِگناہ کو حاصل ہوتی ہے۔عقیدہ کی کتابوں میں تو عموماً یہی ہے کہ مرتکب ِکبیرہ کافر نہیں ، البتہ اگر وہ اسے حلال اور جائز سمجھ کر کرے تو پھر کافر ہوتا ہے۔اگر امام صاحب کایہ قول صحیح طور پر مل جائے تو دعوتی نقطۂ نظر سے بہرحال مؤثر ہے۔

حیرت ہوتی ہے ان حضرات کی اس رائے پر کہ میڈیا پر آنے والی تصویر کا حکم وہ نہیں جو تصویر کاہے۔ اسی طرح یہ بھی عجیب بات کہی گئی کہ تصویر کی حرمت کاحکم اسی تصویر کے ساتھ خاص رکھا جائے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تصویرسمجھی جاتی تھیں ۔ حالانکہ یہاں تو ممانعت و حرمت 'تصویر' کی ہے اور ظاہر ہے کہ جسے عرفِ عام میں تصویرسمجھاجائے گا، وہ تصویر حرام ہی ہوگی۔'بت' صرف پتھر یا لکڑی کے ہی نہیں ، پلاسٹک کے بھی بنالئے جائیں تو وہ بت ہی ہوں گے۔ 'شراب'کی شکل و ہیئت آج تبدیل ہوگئی ہے تو وہ بہرحال شراب ہی ہے۔ اس لئے وقت بدلنے یا شکل وصورت میں فرق آجانے سے حکم میں تبدیلی محض طفل تسلی بلکہ اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے مترادف ہے۔ تصویر کی حرمت بہرحال منصوص ہے، اس لئے اسے اپنے اصل پر ہی رہناچاہئے اورحرام کو حلال بنانے کی سعی ٔنامشکور سے گریز کرنا چاہئے اور فَيُحِلُّوا مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔

رہی میڈیا پر تبلیغ دین اور دفاعِ اسلام کے پروگرام پر تصویر تو اس کا جواز ضرورةً و اکراہاً ہے۔ اس بے لگام معاشرے میں بھانت بھانت کی بولیاں ، روشن خیالی کے جوازمیں اُلٹے سیدھے فتوے، منصوص اور اجماعی مسائل میں انحراف اور تجدد پسندی، اسلام کی تعبیر و تائید کی بجائے تجدد کی نت نئی راہیں ، احادیث کا استخفاف اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ اس بات کا متقاضی ہے۔علماے کرام اس میدان میں اُتریں اور اسلام کی صحیح تعبیر سے آگاہ کریں ۔ اس میں اُنہیں تبلیغ دین کا فریضہ اداکرنے کی فکر سے شامل ہونا چاہئے، اپنے تعارف اور نئے نئے پوز بنانے کے شوق میں نہیں کہ إنما الأعمال بالنیات

جان بچانے کے لئے اگر بقدرِ ضرورت حرام کھانے کی اجازت ہے تو ایمان بچانا اس سے بھی اہم تر ہے۔ اس لئے ضرورةً ایسے پروگرام میں شرکت یقینا باعث ِعفو ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث نہیں بنے گا۔ والسلام(مولانا) ارشاد الحق اثری

تبصرہ سید حامد عبد الرحمن الکاف، یمن
مسئلہ تصویر یوں تو ہردور میں ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے گرماگرم بحثوں اور مباحثوں کا مرکز بنارہا ہے، لیکن نائن الیون کے بعد اہل صلیب اور اہل صہیون نے بعض ایسے مسلمانوں کے تعاون سے جو شکست خوردگی اور مغرب سے مرعوبیت کے مرضِ مہلک کا شکار ہیں ، اسلام اور مسلمانوں پرجہاں بڑے پیمانے پر ہلاکت کرنے والے ہتھیاروں کو پوری درندگی اور بے رحمی سے استعمال کیاہے،وہاں اُنہوں نے میڈیا کے سمندروں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر زہرناک پروپیگنڈوں کے سونامیوں کو بھی اُبالا اور پھیلایا ہے تاکہ مادی پہلو کے ساتھ ساتھ معنوی پہلوؤں پر بھی یلغار کرکے مسلمانوں کے عقائد، عبادات، معاملات، تاریخ اور تہذیب وثقافت کونیست و نابود کیاجاسکے۔ ان میڈیائی سونامیوں کی اونچی اونچی موجیں اتنی طاقتور تھیں کہ عام طور پر علماے اسلام ان کی خطرناکیوں اور تباہ کاریوں سے بے حد پریشان ہوئے۔پانچ سال تک یہی صورتِ حال رہی۔ بالآخر چھٹے سال 2007ء میں پاکستان میں ''جملہ مکاتب ِفکر کی سرکردہ علمی شخصیات پر مشتمل 'ملی مجلس شرعی' کے نام سے ایک مستقل پلیٹ فارم تشکیل دیاگیاتھا جس کا ہدف یہ تھا کہ ''فروعی اختلافات سے بالاتر رہتے ہوئے عوام الناس کو اسلام کی روشنی میں درپیش مسائل کا حل'' پیش کیاجائے۔ اس مجلس شرعی کے تاسیسی اجلاس (منعقدہ جامعہ نعیمیہ، لاہور) میں سب سے پہلے مسئلہ تصویر موضوع بحث بنا۔ چنانچہ اِمسال ۱۳؍اپریل 2008ء کو 'ملی مجلس شرعی' کے پلیٹ فارم سے جملہ مکاتب ِفکر کاایک وسیع سیمینار منعقد ہوا جس میں بریلوی مکتب ِفکر سے چار، دیوبندی مکتب ِفکرسے پانچ، اہل حدیث مکتب ِفکر سے چار اور جماعت ِاسلامی سے شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک (مہتمم مرکز علوم اسلامیہ، منصورہ) وغیرہ نے اس حساس اور نازک موضوع پر اپنے قیمتی خیالات پیش کئے۔ ''2

الحمدﷲ ثم الحمدﷲ ایک عرصے کے بعد'فروعی اختلافات سے بالاتر' ہوکر ایک اہم مسئلہ پر مختلف مکاتب ِفکر کے علمائے کرام کے اس اِجماع واتفاق پر میں اپنی دلی مسرت کااس دعا کے ساتھ گرم جوشی سے استقبال کرتاہوں کہ 'اساسیاتِ دین' ہی کوبنیادبناکر وہ اس اُمت کو پیش آمدہ مسائل پر اس قسم کے اجتماعات اور سیمینار منعقد فرما کر اگر بالاجماع نہ سہی تو کم از کم 'اکثریت ِرائے' سے ایک راہِ عمل دکھا سکتے ہیں ۔ یہ ایک انتہائی مبارک قدم ہے اور اس راہ پر مسلسل چلتے رہنے ہی کی ضرورت بلکہ اشد ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس بشارتِ ِخیر اور سلسلۂ خیر کو جاری رکھے اور اس کو اپنے فضل و کرم سے ثمر آوربنائے۔ آمین!
اس موقع پر میں ماہنامہ 'محدث' لاہور کے مدیر باتدبیر جناب مولانا حافظ حسن مدنی صاحب اورمدیر اعلیٰ جناب حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب حفظہ اللہ کو ان تمناؤں کے ساتھ دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کی مزید خدمات لے۔ آمین!

یہ مبارک باد ماہنامہ 'محدث' لاہور کے اس خاص نمبر کے سلسلے میں ہے، جو ان حضرات نے مسئلہ تصویر پر منعقدہ مذاکرۂ علمیہ پر نہ صرف شائع کی ہے بلکہ 'تصویر کا شرعی حکم:ایک تقابلی جائزہ' کے تحت جناب حافظ حسن مدنی نے ایک پُرمغز اور رہنمائی خطوط (Guide lines) پرمشتمل اداریہ تحریر فرما کر تقابلی مطالعہ اور جائزہ کے بعد نتائج سیمینار کو الگ، مختلف الالوان والریاحین خوبصورت گلدستۂ افکارِ زرّیں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ سے ہم جیسے بہت دور یمن میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ان برادرانہ دل خوش کن فضاؤں کااندازہ ہوا جو اُن پر چھائی ہوئی تھیں اور جو بجائے خود رحمت ِالٰہی کی ایک بڑی خوش آئند دلیل ہے۔

مزید اس تحریرسے، اتفاقِ رائے کے علیٰ الرغم ان محرکات اور دلائل کو بیک نظر پڑھنے اور سمجھنے کا بھی موقع ملاجو باعث ِاختلاف ہوئے تھے۔ جہاں یہ اداریہ مولانا حسن مدنی کی عالمانہ شان و نظر کی عکاسی کرتاہے، تو وہیں وہ ان کی صحافیانہ صلاحیتوں کی منہ بولتی تصویر بھی ہے۔ اللھم زِد فَزِد وسخّرھما لخدمة دینك وکتابك العظیم وسنة نبیك المختار والمصطفیٰ ﷺ وأصحابه وسلّم

میں ان سطور کے ذریعہ ان علما حضرات اور ان کے مکاتب ِفکر کو ان کے اس مبارک مگر جری اقدام پر دلی مبارک باد پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کی خاطر ان کو اور ان کے مکاتب ِفکر کو جمع رکھے اور ایسے فکر انگیز نتائج فکر وعمل پیش کرنے کی توفیق سے مسلسل سرفراز کرتارہے۔ آمین!

اس وقت مجھے علماے کرام کے اس مبارک اجتماع کی یاد آرہی ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی کی صدارت میں کراچی میں منعقد ہواتھا اورجس میں سارے مکاتب ِفکر کے علماے عظام نے شرکت کرکے 22؍ نکات پر اپنے 'اتفاق' کا اعلان کیا تھا جن کوپاکستان میں 'علما کے مشہور 22 دستوری نکات' کا نام سے یاد کیا جاتاہے۔ علما کا آغازِ کار میں ہی اسلامی دستور سازی کی راہ پریہ ایک ایسا سنگ ِمیل تھا جس نے پاکستان کی منزل کا رخ فیصلہ کن انداز میں اسلام ہی کی طرف موڑ دیا تھا۔ فجزاھم اﷲ خیرًا

میری دلی تمنا ہے کہ مذاکرے کی منتظم وداعی یہ'ملی مجلس شرعی' بھی اس نوعیت کی نشانِ راہ (Milestone) ثابت ہو اور اس کی یادگاریں صفحاتِ تاریخ پر سنہری حرفوں میں لکھی جائیں ۔

مولانا حافظ حسن مدنی نے مذاکرہ کے بارے میں اپنے تاثر کااظہار ان الفاظ میں کیاہے:
'''مذاکرہ کے دوران راقم کا تاثر یہ رہاکہ حالات کی سنگینی اور تبلیغ اسلام کے اہم فریضے سے عہدہ برا ہونے کے پیش نظر اپنی منصبی ذمہ داری کو جانتے سمجھتے ہوئے حاصلِ بحث اور نتیجہ کے اعتبار سے تمام اہل علم کی آرا میں کوئی واضح اختلاف نہیں پایاجاتا اوریہی اتفاق اور قدرِ مشترک متفقہ قرار داد کو منظور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔'' (نشان زَد حروف و کلمات راقم کی طرف سے ہیں ۔)3

'مسئلہ تصویر اورتبلیغ اسلام' پر مجلس مذاکرہ کی قرارداد کا متن اور اس پر دستخط کرنے والے علماے کرام کے اسماے گرامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے (حوالہ بالا، ص102) اس امر کی نشاندہی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ کہ مولانا عبدالعزیز علوی (مسئلہ تصویر ، ص25تا32)، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف ( الیکٹرانک میڈیااور اس کا استعمال:ص 33تا39) اور مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی (مسئلہ تصویر اور دورِ حاضر: ص59 تا76) نے اپنے اپنے مقالوں میں بڑی حد تک سخت موقف اختیار کیاہے۔مگر مولانا عبدالعزیز علوی اور مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے ایک تحریر جو بطورِ قرار داد تیار کی تھی اور پیش نہیں کی گئی میں بالآخر کرا ہةً ہی سہی، اظہارِ اتفاق فرمایا۔ 4

اس کے باوجود ہمیں خوشی سے بغلیں نہیں بجانا چاہئے، کیونکہ ٹی وی کا آلہ صرف تصویر کی وجہ سے ہی ناقابل التفات نہیں بلکہ اس میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی شریعت سے کوئی گنجائش نہیں ملتی، چنانچہ کسی اسلامی چینل کے قیام سے پہلے ہمیں کئی ایک مزید شرعی اُمورکے بارے میں واضح شرعی موقف طے کرنا ہوگا ، مثلاً :
 تصویر کے ساتھ دی جانے والی موسیقی(Music Accompaneing with picture) خصوصاًوثائقی فلمیں (Documentries) اور خبرنامے وغیرہ میں ان کو ایک 'شرِ ناگزیر' تصور کیا جاتاہے۔ تو کیا اس عام رجحان کی وجہ سے اور خصوصاً اللجنة الدائمة کے اس فتویٰ کی بنا پر جس کا ذکر اس عدد خاص کے صفحہ نمبر 23 پر مدیر موصوف نے کیا ہے اور جس میں صراحتاً کہا گیاہے: أما التلفریون فیحرم مافیہ غناء وموسیقي وتصویر وعرض صورة (البتہ ٹی وی پرگانے، موسیقی اور تصاویر جیسی منکرات (پیش کرنا)حرام ہے...'' معلوم ہوا کہ نہ صرف موسیقی اور گانا بجانا، بلکہ تصاویر کا پیش کرنا بھی حرام ہے اور اگر ان کو بھی حرام قرار دیاجائے تو پھر ٹی وی پر باقی رہ ہی کیا جاتاہے، کیونکہ فلموں اور فیچروں میں بعض وقت زمینی حقائق کو جیسے بھی وہ ہوں ، پیش کرنے کے لئے ان کا استعمال ضروری ہوجاتاہے۔

بحیثیت ِمجموعی ٹی وی میں عنصر نسائی کے حجاب، اس کے حدود و آداب... جن میں إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا بھی شامل ہے ... کے بارے میں بھی واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں فلموں اور فیچروں میں ہلکے پھلکے، بظاہر معصوم اوربے ضرر منفی اثرات کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اس کی بنا پر بھی ٹی وی کا استعمال ایک سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی مرد اور عورت کو شوہر بیوی، ماں باپ، بیٹا بیٹی، سالا سالی، بھائی بہن وغیرہ بنا کرٹی وی پرپیش کیاجاسکتا ہے؟ جبکہ یہ محض تمثیل اور اداکاری (Acting) ہوگی نہ کہ ایک حقیقت۔ اس ضمن میں ، میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے اس رجحان کا بھی ذکر کردوں کہ وہ سرے سے اداکاری ہی کے قائل نہیں تھے، کیونکہ ان کے بقول وہ ایک ایسی نقالی ہے جس سے اداکاریا اداکارہ اپنی شخصیت اور کردار ہی کو کھو بیٹھتے ہیں ؟ اس طرح بذاتِ خود اداکارانہ عمل خود ایک موضوعِ بحث بن کر اُبھرتا اور فیصلہ کن جواب طلب کرتاہے۔ ٹی وی کے حوالے سے یہ مسئلہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

ان کے علاوہ جنسی تعلقات، اشارہ اور کنایات، نکتہ سنجی اور نکتہ بازی کے حدودِ جواز بھی صاف صاف طے کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں مختلف اوقات، موسموں ، تقریبات اور مناسبات میں لباسوں کی خراش تراش، رنگ و روغن اور حدود اربعہ واضح کرنے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ یہ متعدد چیزیں شریعت ِاسلامیہ سے کوئی میل نہیں رکھتیں ، اسلئے ٹی وی کا استعمال ان متعدد وجوہات کے سبب ایک مسلمان کے لئے کم ازکم مکروہ ہی قرار پاتا ہے۔

ممکن ہے کہ اور بہت سے ایسے پہلوجو میری محدود نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں ، مگر ان کو قارئین اور خود ٹی وی کا شو کرنے والوں کو تحریراً اور کلاماً دعوتِ مشارکت دے کر بحث ِعام کے لئے منظرعام پر لایاجاسکتا ہے تاکہ عوام کو اس بارے میں واضح رہنمائی دی جاسکے۔

یہ تو تھی میری حقیر سی رائے اس عددِ خاص کے بارے میں ، لیکن مجھے صرف اشارة ًمولانا شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی صاحب کی اس رائے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ فی زمانہ اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق جماعة الدعوة اور تبلیغی جماعت بغیر تصویر کے وسیع پیمانے پر دعوتِ دین کام کررہے ہیں ۔ مزیدیہ کہ آج تصویر کے سوا بھی اس قدر ذرائع ابلاغ پیدا ہو چکے ہیں جن کا کوئی شمار نہیں ، آخر ان سب سے کیوں کام نہیں لیا جاتا اور ان کے ذریعہ دین کیوں نہیں پھیلایا جاتا۔ (ص32، حوالہ بالا) اگر ان مزید ذرائع کی بھی مزید تفصیل پیش کردی جاتی تو اچھا ہوتا اور ان کوبھی استعمال کرنے کی راہیں کھلتیں ۔

روزنامہ 'امت' کراچی کا تبصرہ بعنوان 'مستحسن اقدام'
...تحقیق کی فضا گرچہ بھارت میں سازگار ہے مگر پاکستان بھی یکسر محروم نہیں ۔ کچھ نوجوان اس میدان میں کودے ہیں اور اُنہوں نے فتویٰ پرستی کے ماحول میں خود کو ضائع کرنے کے بجائے تحقیق و جستجو اور تفقہ فی الدین کو حرزِ جان بنایا ہے۔ اُنہیں میں سے ایک حافظ حسن مدنی بھی ہیں ۔'محدث' کے نام سے ایک علمی اور معیاری ماہنامہ ان کی زیر ادارت نکلتا ہے، جس پر کسی مسلک کا رنگ غالب نہیں ، خود ان کے اپنے مسلک کابھی نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسائلِ زمانہ کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں اور تحقیق کی کھٹال میں کوٹ کوٹ کر ان مسائل کا علاج تلاش کرتے ہیں ۔ کبھی ثقافت کے نام پر کثافت ان کو کھلتی ہے تو کبھی دین کے نام پر لادینیت پھیلانے والے جعلی دانشوروں پر وہ گرفت کرتے ہیں ۔ ان دونوں تصویر اورویڈیو کا مسئلہ ایک اختلافی معاملہ بنا ہوا ہے۔ بعض مکاتب ِفکر اس سلسلے میں ایک انتہا پر ہیں تو بعض دوسری طرف۔ اس سلسلے میں مثبت کوشش یہ ہوئی کہ لاہور میں تمام مکاتب ِفکر کے نمائندے مگر جید علماء ومفتیانِ کرام کا ایک اجلاس مفتی محمد خان قادری کی درس گاہ جامعہ اسلامیہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں خالصتاً علمی انداز میں تصویر، ویڈیو کے مسئلے کا جائزہ لیا گیا اور آخر میں تمام مکاتب ِفکر کے علماء نے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی جس کو اجلاس کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لاہور کے اس اجلاس میں علماے کرام کے سامنے دو نکات تھے:
تصویر، فوٹوگرافی اور ویڈیو کی شرعی حیثیت
دورِ حاضر میں تبلیغی ضروریات کے لئے تصویر، ٹی وی اور ریڈیو کا جواز
علماء نے ان دونوں نکات پر بھرپور تیاری کی۔ قرآن و حدیث سے استدلال پیش کیا اوراپنے اپنے موقف کی وضاحت کی، مگر حسن یہ ہے کہ اپنے موقف پر جامد رہنے کے بجائے صورتِ حال کو سمجھانے اور دوسروں کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی۔
اس مذاکرے میں جہاں ایک نکتہ نظر یہ تھا کہ تصویر ہر حال اور ہر حیثیت میں حرام ہے تو دوسرے کاموقف تھا کہ صرف شرک اور فحش مقاصد میں استعمال ہونے والی تصویر حرام ہے، باقی سب کی اجازت ہے۔ ایک تیسرا موقف یہ تھا کہ ٹی وی، ویڈیو تصویر کے حکم میں ہی نہیں آتے، لہٰذا جائز ہیں ۔ دلائل سب کے پاس تھے۔ بنیاد سب کی'قرآن و سنت' تھی مگر چونکہ معاملہ ضد کا نہیں ، تفہیم کا تھا، لہٰذا ایک متفقہ موقف سامنے آگیا، جس کو اتفاقِ رائے کی بنیاد کہاجاسکتا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ یہ وسیع تر اجلاس اس رائے کا اظہار کرتاہے کہ اسلام کاپیغام دوسروں تک جلد اور مؤثر انداز میں پہنچانے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے اِزالے کے لئے علما کو ٹی وی پروگراموں میں حصہ لینا چاہئے اور الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایسے تعمیری اصلاحی اور تعلیمی پروگرام تیار کئے جانے چاہئیں جو منکرات سے پاک ہوں ۔ اسلامی دعوت و اصلاح اور تبلیغ کے لئے مفید ہوں ، جن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے کاتدارک ہوتا ہو۔ شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی نے اس پر یہ اضافہ کیا کہ ''میڈیا پر جو تصاویر آتی ہیں ، ان کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہوئے ''إلا من أکرہ وقلبه مطمئن'' کے پیش نظر میڈیا پر دفاعِ اسلام درست ہے۔''

آراء میں بعد المشرقین اور اختلاف کی انتہا کے باوجود علماء کا ایک نکتے پر متفق ہونا بہرحال ایک احسن اقدام ہے۔ برادرم حسن مدنی نے 'سونے پر سہاگہ' والا کام یہ کیا کہ اس مجلس میں ہونے والی ساری بحث کو' محدث' کے جون کے شمارے میں شائع کردیا ہے اور ہر نقطہ نظر کے پیچھے کارفرما استدلال کی نشاندہی کرنے کی بھی کوشش کی، جس سے ایک عام آدمی بھی تصویر اور ویڈیو کے حوالے سے اس تحقیقی گفتگو سے استفادہ کرسکتا ہے۔

اس سارے عمل میں شریک رہنے والے تمام حضرات نہ صرف مبارکباد کے مستحق ہیں بلکہ ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ یہ ایک ابتدائی قدم ہے، اس پر ابھی کامل اتفاقِ رائے کی خاطر لازم ہے کہ مزید بحث ہو اور علماء کو تحقیق کا مزید موقع دیا جائے۔ اس کے ساتھ اس کام کو ذرا وسعت دی جائے اور اس کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ کیاجائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ علمی اور دینی مسائل انتہائی احتیاط کے متقاضی ہیں مگر ایک ایک معاملے پر سال سال بعد اجلاس بھی کچھ مناسب نہیں ۔ اس کے لئے مستقل بنیادوں پر موضوعاتی کمیٹیاں بنا کر کام کو وسیع اور سبک رفتار کیا جاسکتا ہے تاکہ مجتہدانہ کاوشوں کو مزید توسیع دی جاسکے۔5


حوالہ جات
1. محدث: صفحہ 75
2. ماہنامہ 'محدث' لاہور اشاعت ِخاص برمسئلہ تصویر، جون2008ء ص4تا7 بہ تصرف
3. ماہنامہ 'محدث' حوالہ بالا: ص8
4. دیکھئے ص22 حوالہ بالا