اپریل 2008ء

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دُعا کا مسئلہ

ایک سائل پوچھتے ہیں : کیا فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دُعا مانگنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؟ جیسا کہ اکثر علماے کرام فرض نمازوں کے بعد کچھ عربی میں اور کچھ اپنی زبان میں دُعا کرتے ہیں اور مقتدی حضرات ساتھ ساتھ آمین کہتے ہیں ۔ کیا یہ طریقہ سنت ِ رسول ؐ ہے یا بدعت؟ اگر یہ سنت ہے تو حدیث کا حوالہ ضرور دیں ۔

جواباً عرض ہے کہ گو سوال فرض نمازوں کے بعد امام کی اقتدا میں اجتماعی دعا سے متعلق ہے لیکن اس میں دو دوسرے مسائل بھی ضمناً آجاتے ہیں :

  1. کیا ہر دعا کے وقت ہاتھ اٹھانا لازم ہے؟
  2. کیا دعا کے بعد ہاتھ چہرے پر پھیرنا چاہئے؟

ہم اپنے تفصیلی جواب میں ان تینوں مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں گے۔

جہاں تک فی نفسہٖ دعا کرنے کا تعلق ہے تو قرآن وحدیث کی نصوص اس بارے میں بھری پڑی ہیں ، اس لئے ان کا تذکرہ طوالت کا باعث ہوگا۔ ایسے ہی احادیث میں بہت سے ایسے اوقات بتائے گئے ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے مثلاً فرض نمازوں کے بعد، اقامت اور اذان کے دوران، بوقت ِسحور اور افطار، سجدہ کے دوران، جمعہ کی ایک ساعت میں ، وغیرہ وغیرہ

دعا کرتے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں یہ احادیث ملاحظہ ہوں :

حضرت سلمانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إن ربکم حي کریم یتسحيٖ من عبدہ إذا رفع یدیه إلیه أن یردھما صفرًا) 1
''بے شک تمہارا رب حیادار اور کریم النفس ہے۔ اس بات سے شرماتا ہے کہ جب اس کا بندہ اس کی طرف دونوں ہاتھ اُٹھائے تو وہ انہیں ناکام اور خالی لوٹا دے۔''

مالک بن یسار سکونی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(إذا سألتم اﷲ فسلوہ ببطون أکفکم ولا تسألوہ بظهورہها) 2
''جب تم اللہ عزوجل سے سوال کرو تو اپنی ہتھیلیوں سے کرو، نہ کہ ہاتھ کی اُلٹی طرف سے۔''

انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی کو دیکھا۔''3

ان کی دوسری روایت ہے کہ'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہتھیلیوں کے ساتھ اور اُلٹے ہاتھ دعاکرتے بھی دیکھا۔ '' 4
اُلٹے ہاتھ سے دعا کرنا صرف ایک موقع پر تھا یعنی بارشوں کیلئے دعا (استسقائ) کے وقت۔
اور جہاں تک دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی ایک روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ مثلاً

سنن ابوداؤد میں عبداللہ بن عباسؓ کی روایت، جس کے آخر میں کہا گیا:
(فإذا فرغتم فامسحوا بها وجوھکم)5
''اور پھر جب تم دعا سے فارغ ہوجاؤ تو ہاتھوں سے اپنے چہروں کو چھو ٔو۔''
امام ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ روایت محمد بن کعب کے توسط سے ہی ایک سے زائد دفعہ مروی ہے جو کہ سب کے سب بے کار (واہیہ) اسانید ہیں ۔ زیر نظر روایت کی اسناد ان میں سب سے بہتر ہے، لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔

جامع ترمذی میں حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کے لئے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تو اس وقت تک نہ نیچے کرتے جب تک اپنے چہرے پر نہ پھیر لیتے۔'' 6
یہ حدیث بھی ایک راوی حماد بن عیسیٰ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ابوداؤد میں سائب بن یزید سے مروی ہے، جو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو اپنے ہاتھ اُٹھاتے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرتے۔'' یہ سند عبداللہ بن لھیعہ اور ایک مجہول راوی حفص بن ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کی وجہ سے ضعیف ہے۔7

لیکن کیا پہلی حدیث،دوسری دونوں احادیث کے ساتھ مل کر'حسن' درجہ تک نہیں پہنچ جاتی ہے؟ ا س شبہ کا جواب شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ یوں دیتے ہیں :
''پہلی حدیث میں محمد بن کعب کے علاوہ ایک آدمی ایسا بھی ہے جس کا نام نامعلوم ہے۔ ابن ماجہ کے مطابق یہ شخص صالح بن حسان ہے، لیکن وہ انتہائی ضعیف راوی ہے۔ اس لئے یہ اضافہ منکر ہے اور مجھے ابھی تک اس کا اور کوئی شاہد نہیں ملا۔ اس لئے عز بن عبدالسلام یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ چہرہ پر سوائے جاہل (i) کے اور کوئی ہاتھ نہیں پھیرتا۔
ایسے ہی حضرت عمرؓ والی حدیث بھی اس کی شاہد نہیں بن سکتی، کیونکہ اس میں ایک راوی ایسا ہے جس پر حدیث گھڑنے کا الزام ہے، ابوزرعہ کہتے ہیں : یہ حدیث منکر ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ۔
اور اسی طرح سائب بن یزید والی حدیث بھی شاہد نہیں بن سکتی کہ اس کے ایک راوی ابن لہیعہ ہیں جو ایک مجہول راوی حفص بن ہاشم سے روایت کرتے ہیں ۔ ذہبی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں : اس سے صرف ابن لہیعہ روایت کرتے ہیں ، نہیں معلوم کہ وہ شخص کون ہے؟ '' 8

اب یہ بھی ملاحظہ کرلیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کن موقعوں پر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور کب نہیں اُٹھائے :
نمازِ استسقاء میں ہاتھ اٹھائے
قنوت نازلہ کے موقع پر
سورج گرہن کے موقع پر
غزوئہ بدر کی رات (مدَّ یدہ ثم قال:...)
خلوت میں :حضرت عائشہؓ راوی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوہاتھ اُٹھا کر دعا مانگتے دیکھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! میں تو صرف ایک بشر ہوں ، تو مجھے سزا نہ دینا، اگر میں مؤمنین میں سے کسی بھی شخص کو ایذا پہنچاؤں یا بُرا بھلا کہوں تو اس کی وجہ سے مجھے سزا نہ دینا۔''9
کسی کی درخواست پر: حضرت ابوہریرة راوی ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دوس قبیلے نے انکا رکیا اور نافرمانی کی تو انہیں بددعا دیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رُو متوجہ ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، لوگوں نے سمجھا کہ وہ اُنہیں بددعا دیں گے، لیکن اُنہوں نے کہا: اے اللہ! دوس کو ہدایت دے اور اُنہیں واپس لے آ۔''10

کچھ مواقع ایسے بھی ہیں جن میں آپؐ نے صرف انگلی سے اشارہ کیا یا صحابہ نے ایسا کیا:
حضرت ابوہریرہؓ راوی ہیں کہ ایک آدمی دو انگلیوں (کے اشارہ) سے دعا مانگ رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (أحد، أحد) (ایک، ایک)11
امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب ہے کہ اگر آدمی تشہد میں دعا کرتے وقت دو اُنگلیوں سے اشارہ کرے تو اسے صرف ایک اُنگلی سے ہی اشارہ کرنا چاہئے۔

سنن ابوداؤد کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحابی سعدؓ بن ابی وقاص تھے۔12

تشہد کے وقت دعا کی غرض سے اُنگلی چلانے کی روایت سنن نسائی اور صحیح ابن حبان میں ان الفاظ کے ساتھ روایت ہوئی: یُحرِّکها ویدعو بها 13
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس انگلی سے دعا کررہے تھے اور اُسے حرکت دے رہے تھے۔''

سفر کی دعا کے وقت انگلی اُٹھانا: حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے اور اپنی سواری پر سوار ہوجاتے تو اپنی اُنگلی سے اشارہ کرتے۔ (راوی شعبہ نے اپنی اُنگلی کو پھیلایا) اور پھر یہ دعا پڑھتے :
(اللهم أنت الصاحب في السفر)... الخ 14

لیکن ایسے بے شمار مواقع ہیں جہاں آپ کی دعا کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن ہاتھ اُٹھانا مذکور نہیں ہے جیسے تشہد کے دوران دعائیں ، مسجد میں داخل ہوتے اور باہر نکلنے کی دعا، گھرسے نکلنے اور داخل ہوتے وقت کی دعا، نمازِجنازہ کے دوران دعا، بیت الخلا میں داخل ہونے اور باہر نکلنے کی دعا، چھینکتے وقت یا چھینکنے والے کو دعا دینا، حالت ِسجود میں دعا کرنا وغیرہ۔

کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ اُٹھانے کا ذکر نہ ہونا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بعض صورتیں ایسی ہیں کہ اس میں ہاتھ کا اُٹھایا جانا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا جیسے حالت ِسجود میں دعا کرنا کہ سجدے میں ہاتھ کا زمین پر رکھے رہنا ضروری ہے۔

الوداعی دعا دیتے وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت بھی ملتی ہے جسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں :
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی شخص کو اَلوداع کہتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اُسے اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک وہ آدمی خود آپؐ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا اور آپ یہ کہتے:(أستودع اﷲ دینك وأمانتك وخواتیم عملك) 15

اس تفصیل سے اتنا تو معلوم ہوا کہ ہر دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہاتھ اُٹھانا ثابت نہیں ہے اور اسی لئے جہاں شوافع اور اہل حدیث نمازِ وتر میں دعاے قنوت پڑھتے وقت ہاتھ اُٹھاتے ہیں وہاں احناف صرف اس وجہ سے ہاتھ اٹھا کر نہیں بلکہ ہاتھ باندھ کر دعا کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ایسا کرنا ہی افضل ہے۔

...........................


اب آئیے اصل مسئلہ کی طرف یعنی فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہم حدیث، اُصولِ فقہ اور فقہ تینوں طرح سے استدلال ملاحظہ کرتے ہیں ۔
(الف) حدیث کی روشنی میں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشہور ارشاد ہے:
(صلُّوا کما رأیتموني أصلي)16
''ایسے نماز پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔''

تو جہاں نماز کی ابتدا سے قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقتدیوں کی طرف منہ کرکے صفوں کو دیکھنا، صفوں کو سیدھا کرنا اور سیدھا کرنے کے لئے ''سوّوا، تراصّوا'' اور اس سے ملتے جلتے الفاظ کہنا آپ کے فعل سے ثابت ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نماز کے فوراً بعد آپؐ کا کیا دستور رہا۔ آپؐ جونہی سلام پھیرتے تو یہ تسبیحات پڑھا کرتے تھے :
(اَستغفراﷲ) (تین مرتبہ) 17
(اللھم أنت السلام ومنك السلام، تبارکت یا ذا الجلال والإکرام)18
(اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منك الجد) 19
اور ایسے ہی ہر نماز کے بعد سبحان اﷲ (۳۳ مرتبہ)، الحمد ﷲ (۳۳ مرتبہ)، اﷲ أکبر (۳۳ مرتبہ)، اور لا إله إلا اﷲ وحدہ لا شریك له،له الملك وله الحمد وهو علی کل شيء قدیر (ایک مرتبہ) پڑھنے کی تلقین کی۔ 20

صحابہ کرام ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک بات نوٹ کیا کرتے تھے جو احادیث و آثار کے ذریعے ہم تک پہنچیں ، لیکن کسی نے اس بات کو نقل نہیں کیا کہ آپؐ ان تسبیحات سے قبل یا بعد میں دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے اور ان کے ساتھ تمام مقتدی 'آمین' کہا کرتے۔

عبادات توقیفی ہیں اور جو کچھ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھایا، وہ سنت بن گیا اور جس بات کو چھوڑ دیا حالانکہ اس کے کرنے کی طلب بھی تھی تو اس کا چھوڑنا ہی سنت ٹھہرا۔

کہا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں چند احادیث موجود ہیں جن کا تذکرہ خود' فتاویٰ نذیریہ' میں کیا گیا ہے۔ آئیے ان روایات کو جانچنے کی کوشش کریں :

اَسود عامری کی اپنے والد سے روایت مسند ابن ابی شیبہ میں یوں ذکر کی گئی ہے:
قال صلیت مع رسول اﷲ ! الفجر فلما سلَّم انصرف ورفع یدیه ودعا
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نما زِفجر ادا کی۔ جب آپؐ نے سلام پھیرا تو پلٹے اور دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی۔21

مصنف ابن ابی شیبہ کو مدینہ منورہ کے محمد العوامہ نے بڑی تحقیق کے ساتھ ۲۳ جلدوں میں شائع کیا ہے۔اور یہ حدیث تیسری جلد میں نمبر ۳۱۱۰ کے تحت دی گئی ہے۔ یہ حدیث مع اسناد ملاحظہ ہو:
حدثنا هشیم قال أخبرنا یعلی بن عطاء عن جابر بن یزید بن الأسود العامري عن أبیه قال صلیت مع رسول اﷲ ! الفجر فلمَّا سلَّم انحرف
اس روایت میں صرف سلام کے بعد اپنی جگہ سے ہٹنے کا ذکر ہے، ہاتھ اُٹھانے اور دعا کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ گویا یہ اضافہ مصنف ابن ابی شیبہ کے کسی غیر مستند ایڈیشن میں دیا گیا ہے جو ہمارے پیش رو علماء کے مطالعہ میں رہا ہوگا۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے سلام کے بعد کھڑے ہونے یا اپنی جگہ سے ہٹ جانے کے بارے میں پندرہ احادیث و آثار درج کئے ہیں ۔ ایک کا تذکرہ تو ہوگیا، باقی چودہ کا خلاصہ یہ ہے کہ
عبداللہؓ بن مسعود جونہی نماز ختم کرتے یا تو کھڑے ہوجاتے یا ہٹ جاتے۔
ابن عمرؓ نے کہا کہ امام سلام کے بعد اُٹھ کھڑا ہو یا ہٹ جائے۔
ابو رزین نے کہا کہ میں نے حضرت علیؓ کے پیچھے نماز پڑھی، اُنہوں نے دائیں اور بائیں سلام پھیرا، پھر یک دم اُٹھ گئے۔ ( ثُمَّ وثب کما هو)
حضرت عمرؓ نے کہا کہ سلام کے بعد امام کا بیٹھے رہنا بدعت ہے۔
ابوحفصؓ نے کہا کہ ابوعبیدہؓ بن جراح جب سلام کہہ چکتے تو وہ اُٹھنے کے لئے اتنی جلدی مچاتے جیسے دہکتے کوئلوں پر بیٹھے ہوں ۔ (کأنه علی الرضف حتی یقوم)
حضرت عائشہؓ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف اتنی دیر بیٹھتے جس میں (اللهم أنت السلام ومنك السلام تبارکت ذا الجلال والإکرام)کہا جاسکے۔22
عبداللہ ؓبن مسعود سے بھی بالکل ایسا ہی منقول ہے۔
سعید رحمة اللہ علیہ بن جبیر کہتے ہیں کہ ہمارے ایک امام تھے (جن کی فضیلت کا اُنہوں نے ذکر کیا)۔ وہ جونہی سلام پھیرتے تو آگے بڑھ جاتے۔
ابی مجلز رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہر وہ نماز جس کے بعدتطوُّع (نفل نماز) ہو تو اس  ميں  پھر جاؤ (فَتَحَوَّلْ إلا العَصر والفَجر) سواے نمازِ عصر اور فجر کے۔
مجاہد رحمة اللہ علیہ نے کہا کہ مغرب میں جگہ سے ہٹنا نہ چھوڑو۔
حسن بصری رحمة اللہ علیہ سلام پھیرتے ہی اپنی جگہ سے ہٹ جاتے یا کھڑے ہوجاتے۔
طاؤس رحمة اللہ علیہ سلام پھیرتے ہی کھڑے ہوجاتے اور چلے جاتے، لیکن نہ بیٹھتے۔
ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ سلام پھیرنے کے بعد مڑتے اور لوگوں کی طرف رخ کرلیتے۔
طارق رحمة اللہ علیہ بن شہاب کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ جب پلٹتے تو اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کرلیتے۔
ان پندرہ احادیث و آثار میں ایک بھی ایسی روایت نہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا تابعین میں سے کوئی بھی نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہو۔

فتاویٰ نذیریہ میں مذکور دوسری روایت حضرت انسؓ کی ہے : ''ما من عبد بسط کفیه دبر کل صلاة یقول اللھم إلھي وإله إبراھیم... الحدیث''
''کوئی بھی شخص ہر نماز کے بعد ہاتھ پھیلا کر یہ کلمات کہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دونوں ہاتھوں کو نامراد نہیں پھیرتا۔''

اس روایت کو ابنِ سنی نے اپنی کتاب عمل الیوم واللیلة میں درج کیا ہے، لیکن اس کے ایک راوی عبدالعزیز بن عبدالرحمن ہیں جن پر کلام کیا گیا ہے۔ امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے اُنہیں غیر ثقہ کہا اور امام احمد رحمة اللہ علیہ ان کی احادیث قبول نہیں کرتے تھے۔ 23

تیسری روایت حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رخ بیٹھے ہوئے اپنے ہاتھ اُٹھائے اور کہا: اے اللہ! ولید بن الولید اور عیاش بن ربیعہ اور سلمہ بن ہشام اور کمزور مسلمانوں کونجات دے جو کسی حیلہ کی طاقت نہیں رکھتے اور کفار کے ہاتھ سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔ 24

یہ روایت ابن ابی حاتم نے بیان کی ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی علی بن زید ہیں جن کے بارے میں اکثر محدثین نے سخت جرح کی ہے اور ان کی حدیث قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ 25

گویا نماز کے بعد مطلق دعاکرنا اِجابت کے اوقات میں سے ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی طور پر نماز کے بعد دعا نہیں کی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے فرض نماز کو تو جماعت کے ساتھ پڑھایا لیکن نمازِ سنت انفرادی طور پر اور اکثر گھر میں ادا کی۔ سنت نمازوں میں تراویح کو تین دن جماعت سے ادا کیا تو اس کا جماعت سے ادا کرنا ثابت ہوگیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم انفرادی طور پر گھر میں قیام اللیل (تہجد) ادا کیا کرتے تھے اور کبھی کبھار حضرت ابنِ عباسؓ یا حضرت انسؓ کا آپؐ کے ساتھ نماز میں شامل ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے۔

(ب) اُصولِ فقہ کے اعتبار سے :سنت اُصولِ فقہ کے اعتبار سے احکامِ خمسہ میں سے ایک حکم ہے یعنی فرض، سنت، مباح، حرام اور مکروہ۔ احناف کے نزدیک دو اَحکام زائد ہیں یعنی فرض کے ساتھ واجب اور مکروہ تحریمی کے ساتھ مکروہ تنزیہی کا اضافہ کیا گیا۔ اس تقسیم کے اعتبار سے سنت جسے مندوب اور مستحب بھی کہا گیا، وہ امر ہے کہ جس کے کرنے پر ثواب اور جس کے چھوڑنے پر گناہ نہ ہو۔ البتہ سنت اگر مؤکدہ ہو یعنی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر کیا ہو یا کرنے کی تاکید کی ہو تو اس کے چھوڑنے پر انسان قابلِ ملامت ٹھہرے گا۔ اس اعتبار سے اجتماعی دعا نہ سنت ِمؤکدہ ٹھہرتی ہے اور نہ غیر مؤکدہ، کیونکہ آپؐ سے اصلاً نمازوں کے بعد اجتماعی دعا منقول ہی نہیں ، البتہ انفرادی دعا مطلق سنت کے ذیل میں آتی ہے۔

سنت کو اگر بدعت کے مقابلہ پر رکھا جائے تو سنت بھی دو طرح کی ہوگی: فعلی یا ترکی یعنی جس چیز کو نبیؐ نے خود کیا، وہ سنت ِفعلی ہے اور جس چیز کو کرنے کی طلب کے باوجود نہیں کیا وہ سنت ِترکی کہلائے گی یعنی اس کا چھوڑنا ہی سنت ِنبویؐ ہے۔ مثلاً عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک شخص کو چھینکنے کے بعد یہ کہتے سنا کہ الحمد ﷲ والصلاة والسلام علی رسول اﷲ ابنِ مسعود نے فوراً اسے تنبیہ کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر صر ف الحمدﷲ کہا تھا اور اس پر کوئی اضافہ نہیں کیا تھا۔ الصلاة والسلام علی رسول اﷲ کہنے کے کئی دوسرے مواقع ہیں جیسے آپ ؐ کا نامِ نامی کہے تو یہ الفاظ کہے یا سنے تو درود پڑھے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت یا باہر نکلتے وقت دعا کے ساتھ درود کے مندرجہ بالا الفاظ کہے۔

عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت معاویہؓ کو دیکھا کہ وہ حرمِ مکی میں داخل ہوئے، طواف شروع کرتے وقت حجراسود کو بوسہ دیا اور پھر رُکنِ عراقی، رکنِ شامی اور رکنِ یمانی تینوں کا استلام کیا (یعنی اُن پر ہاتھ پھیرا) عبداللہ بن عباسؓ نے فوراً اُنہیں ٹوکا کہ رکنِ عراقی اور رکنِ شامی کا استلام کرنا سنت نہیں ہے۔ حضرت معاویہ نے کہا: میرے نزدیک کعبہ کا کوئی ستون بھی مہجور (قابل ترک) نہیں ہے تو حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں ارکان پر ہاتھ نہیں پھیرا اور بالآخر حضرت معاویہؓ نے اس بات کو تسلیم کرلیا۔

اب دیکھیں کہ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا موقع بھی ہے اور وقت ِاجابت بھی۔ مسلمانوں کی حاضری بھی ہے، ایک خیر کی طرف سبقت لے جانے کا عظیم موقع بھی ہے، لیکن ان تمام دَواعی (طلب یا کشش) کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتماعی دعا نہیں کی تو پھر اس کا نہ کرنا ہی سنت ٹھہرا۔

جہاں تک بدعت کا تعلق ہے تو اس کی ایک تعریف تو حدیث ِرسولؐ سے معلوم ہوتی ہے: (من عَمِل عملًا لیس علیه أمرنا فهو رَدّ) یعنی ''جس نے وہ کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔'' یا بالفاظِ دیگر جو کام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے مطابق نہیں ہے تو وہ قابل ردّ ہے اور پھر علماے اُصول میں سے امام شاطبی (م 790ھ) نے بدعت کی تعریف یوں کی: وہ امر جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا، حالانکہ آپؓ کے زمانہ میں اس کے کرنے کا داعیہ (طلب) پایا گیا ہو اور کوئی مانع بھی نہ پایا گیا ہو۔

مثال کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بروایت ِعائشہؓ اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کعبہ کو از سر نو قواعد ِابراہیم علیہ السلام کے مطابق بنانا چاہتا ہوں اور وہ اس طرح کہ اس کے دو دروازے ہوں ، ایک داخل ہونے کے لئے اور دوسرا باہر نکلنے کے لئے۔ لیکن صرف اس وجہ سے ایسا نہیں کرپارہاہوں کہ تمہاری قوم نئی نئی اسلام میں داخل ہوئی ہے، یعنی اگر ایسا کیا گیا تو یہ لوگ بدک جائیں گے اور کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہر چیز بدل ڈالی یہاں تک کہ کعبہ کو بھی نہ چھوڑا۔ گویا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام کرنا چاہتے تھے، لیکن ایک رکاوٹ حائل تھی جس کی بنا پر یہ کام نہ کیا۔ چنانچہ عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت ِحجاز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کی تکمیل کردی، کیونکہ اس وقت تک وہ رکاوٹ ختم ہوچکی تھی جس کا خدشہ آپؐ نے ظاہر کیا تھا۔ لوگ اسلام میں راسخ ہوچکے تھے اور کعبہ کی ازسرنو مکمل تعمیر پراُنہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ مکمل تعمیر سے مراد حطیم کے حصہ کو بھی کعبہ کی عمارت میں لانا مقصود تھا جو اہلِ عرب زمانۂ جاہلیت میں نہ کرپائے تھے، ہوا یہ تھا کہ سیلاب کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بوسیدہ ہوگئی تھی۔ چنانچہ اہل عرب نے دوبارہ اس کی تعمیر کی، لیکن شرط یہ رکھی کہ صرف اپنے پاکیزہ اموال اس کی تعمیر میں صرف کریں گے، اس طرح وہ صرف اتنی عمارت مکمل کرپائے جتنی ان کے اموال میں گنجائش تھی اور حطیم کا حصہ تعمیر سے باہر رہ گیا۔

یہ بعد کی بات ہے کہ حجاج بن یوسف ثقفی نے جب عبداللہ بن زبیر کو شکست دی، اُنہیں شہید کیا تو ان کے بنائے ہوئے نشانوں کو مٹانے کی غرض سے ان کا تعمیر کردہ زائد کعبہ مشرفہ بھی منہدم کردیا اور کعبہ اسی حالت میں رہنے دیا جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ پھر عباسی خلیفہ منصور نے دوبارہ اس کی تکمیل کاارادہ کیا، لیکن امام مالک رحمة اللہ علیہ نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک خلیفہ اس کی تعمیر کرے اور دوسرا اُس کی دشمنی میں اِسے گراتا رہے۔

دوسری مثال جمع قرآن کی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں جتنا جتنا قرآن نازل ہوتا جاتا، اسے لکھواتے جاتے اور کئی صحابہ کے سینوں میں وہ اسی ترتیب کے ساتھ محفوظ ہوتاگیا جس ترتیب سے نازل ہوا تھا، لیکن ایک کتاب کی شکل میں اس کا شروع تا آخر لکھا جانا اس لئے ناممکن تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن نازل ہوتا رہا۔ گویا جمع قرآن مطلوب تو تھا،لیکن مندرجہ بالا سبب کی بنا پر اس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں جمع ہونا ممکن نہ تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مزید قرآن نازل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اب ابتدا بھی معلوم اور انتہا بھی؛ پڑھا بھی جاتا تھا اور سینوں میں محفوظ بھی تھا، صرف اتنی کسر تھی کہ اسے ترتیب کے ساتھ ایک جگہ لکھ لیا جائے اور یہ کام حضرت ابوبکرؓ نے زیدبن ثابتؓ کو ذمہ دار بنا کر کرڈالا۔ یہ دو مثالیں تو ان اعمال کی ہوگئیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بعد کئے گئے اور اُنہیں جائز بھی قرار دیا گیا، کیونکہ ان دونوں کاموں کے کرنے کی طلب موجود تھی، صرف رکاوٹ حائل تھی، جونہی موقع سازگار ہوا اُنہیں کرلیا گیا۔

اب مثال لے لیجئے اس امر کی کہ جس کی طلب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھی، کرنے میں کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی پھر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ عمل نہیں کیا، لیکن اگر کوئی اس عمل کو کرنے پر مصر ہو تو وہ بدعت کہلائے گا۔ جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانا جسے عام طور پر' میلاد' کہا جاتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اس یوم کو منانے کا داعیہ موجود تھا کہ اہلِ عرب کے ہمسایہ اقوام میں عیسائی حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش (کرسمس) منایا کرتے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسی کوئی رکاوٹ بھی موجود نہ تھی جو انہیں اس کام کرنے سے روکتی۔ وہ بلا کھٹکے اپنے جد ِامجد اسماعیل علیہ السلام یا ابراہیم علیہ السلام کا دن منا سکتے تھے۔ پھرجب آپؐ نے اس کام کو چھوڑے رکھا تو اس کا چھوڑنا ہی سنت ِنبویؐ ہے اور اس کا کرنا بدعت کہلائے گا۔ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنے کو بھی اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

(ج) فقہ و فتویٰ کے اعتبار سے
اس موضوع پر امام شاطبی رحمة اللہ علیہ کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں :
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تشریع (شریعت قائم کرنا) کا ظاہر ہونا بعد کے زمانوں سے اولیٰ تھا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو اس کا نہ کرنا ہی سنت ہوگا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون مستجاب الدعوات ہوسکتا ہے اور اگر نمازوں کے بعد اجتماعی دعا اس مقصد کے لئے مفید ہوتی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے یہ کام کرتے اور خاص طور پر جب دن میں پانچ مرتبہ اس کا موقع مل رہا ہو۔ اور جب آپؐ نے ایسا نہیں کیا تو ایسا نہ کرنا ہی مطلوب ہے اور پھریہ بھی ملاحظہ ہو کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ایسی اجتماعی دعا میں تو وہ برکت نہیں ہوسکتی جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے موجود تھی۔

لوگ اس بات کے شدید حاجت مند تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں ایسی دعائیں سکھلائیں جو ان کے لئے باعث ِخیروبرکت ہوں اور اس کام کا بہترین وقت نماز کے بعد کا تھا کہ جب لوگ کثرت سے مسجد میں موجود رہتے تھے، لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا۔ اُمت کو دعائیں سکھائیں ، لیکن بطورِ تعلیم؛ دعا کی توسری طور پر اپنے لئے بھی اور اُمت کے لئے بھی، البتہ اجتماعی دعا کا اہتمام نہیں کیا۔

مسلمانوں کو نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر تعاون کا حکم دیا گیا ہے۔ (المائدہ:2) نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا مانگنا بھی اس کی ایک بہترین شکل ہوسکتی تھی کہ اس کام میں سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سبقت لے جانا چاہئے تھا، لیکن جب آپؐ نے ایسا نہیں کیا تو ایسا نہ کرنا ہی بہتر ٹھہرا۔

عام لوگ، عربی زبان میں پوری مہارت نہیں رکھتے، دعا کرتے وقت لحن (غلطی ) بھی کرسکتے ہیں ۔ اس لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم کی خاطر بھی اجتماعی دعا کرسکتے تھے تاکہ لوگ لحن سے بچ سکیں ، لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کے بعد خاص طور پر اس امر کی ضرورت محسوس نہیں کی۔26

شاطبی رحمة اللہ علیہ سے قبل امام قرافی رحمة اللہ علیہ (م684ھ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب 'الفروق' کے آخری فرق (نمبر 274) میں یہ عنوان قائم کیا ہے:

قاعدہ: دعا میں کیا مکروہ ہے اور کیا مکروہ نہیں ہے؟
جس کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:
''دعا تو اصلاً مندوب فعل ہے، لیکن بعض عوارض کی بنا پر یہی دعا حرام ہوجاتی ہے یا مکروہ اور اس کے پانچ اسباب ہوسکتے ہیں :

جگہ کے اعتبار سے کہ جہاں دعا کی جارہی ہے جیسے کنیسہ، حمام، نجس اور گندی جگہ، شراب خانہ وغیرہ۔ جیسا کہ حضرت عمرؓ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہوں پر دعا کرنے سے منع فرمایا ہے : کوڑے کے ڈھیر، مذبح خانہ، مقبرہ، لوگوں کے چلنے کا راستہ، حمام، اونٹوں کا باڑہ اور بیت اللہ کی چھت۔27
گو اس حدیث کی اسنادقوی نہیں ہے۔

ہیئت کے اعتبار سے: یعنی انسان اونگھتے ہوئے یا خوب کھا پی کر یا بیت الخلا جانے کی شدید حاجت کے وقت دعا کرے کہ یہ حالتیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے منافی ہیں ۔

دلوں کی پراگندگی اور فخر و غرور کا اندیشہ ہو:اس لئے امام مالک رحمة اللہ علیہ اور علما کی ایک جماعت نے ائمہ مساجد کے لئے فرض نمازوں کے بعد جہری طور پر اجتماعی دعا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح امام کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ مقتدیوں سے بہتر ہے اور اللہ اور بندوں کے درمیان بندوں کی حاجتیں پورا کرنے کے لئے اسے واسطہ سمجھا گیا ہے اور ان خیالات کی بنا پر اوّل تو اس کانفس پھول جائے گا اور بجائے اللہ کی اطاعت کے، نافرمانی کا زیادہ امکان رہے گا۔ مروی ہے کہ بعض ائمہ نے حضرت عمرؓ سے نماز کے بعد اپنی قوم کے لئے دعا کرنے کی اجازت چاہی تو حضرت عمرؓ نے کہا: ''مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ تمہارا نفس اتنا پھول جائے کہ کہیں ثریا تک نہ پہنچ جائے۔''

ایسے کام پر مدد حاصل کرنے کی دعا کرے جو پیشے کے اعتبار سے نچلے درجے کا ہو جیسے حجامہ (سینگی لگوانا) ، نر جانور کو مادّہ سے تعلق قائم کرنے پراُبھارنا، حمام کو روزی بنانا جبکہ اسے ان سے بہتر وسیلہ رزق حاصل کرنے پر قدرت ہو۔ یہ کراہت و سائل سے متعلق ہے۔

دعا حصولِ ثواب کے لئے نہ ہو بلکہ زبان پر کچھ الفاظ ایسے چڑھے رہتے ہوں کہ بلا قصد زبان پر جاری ہوجائیں جیسے تاجر حضرات اپنی اشیا کوخرید وفروخت کے لئے پیش کرتے وقت نعرہ لگاتے ہیں : الصلاة والسلام علیٰ خیر الأنام۔

امام مالک رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں : کتنے ہی لوگ یہ الفاظ بطورِ عبادت کہتے ہیں نہ کہ حصولِ ثواب کی نیت سے، کیونکہ یہ کلمہ خیرہے، لیکن معنا ً دعا ہے۔ جبکہ بعض علما نے اسے اس قاعدہ سے تعبیر کیا ہے کہ''ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ سے تقرب کے لئے مشروع ہو تو وہ اس وقت تقرب کا ذریعہ بنے گی جب اسے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اظہارِ بزرگی کے لئے کیا جائے گا نہ کہ بطورِ کھیل۔'' 28

اب آخر میں ہم عصر حاضر کے دو نامور مفتی اور علما کا فتویٰ پیش کرتے ہیں :
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا: کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اُٹھانا ثابت ہے، کیونکہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا نہیں کیا کرتے تھے؟
جواب : نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھانا ثابت نہیں ہے اور ہمارے علم میں کسی صحابی سے بھی ایسا منقول نہیں ہے، اور کچھ لوگوں کا ہر فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا ایسی بدعت ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جس نے وہ کام کیا جس پر ہمارا اَمر نہیں تو وہ قابل ردّ ہے۔'' 29
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ''جس نے ہمارے اس امر میں (اسلام) کوئی نئی چیز داخل کی تو وہ قابل ردّ ہے۔'' 30

چنانچہ سعودی عرب کی 'دائمی کمیٹی برائے فتویٰ' نے اس موضوع پر یہ فتویٰ دیا:
''امام کے سلام کے بعد ایک آواز سے اجتماعی دعا پر ایسی کوئی دلیل نہیں کہ جس کی بنا پر اسے مشروع سمجھا جائے۔ فرض نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا، چاہے صرف امام کی جانب سے ہو یا مقتدی کی جانب سے یا دونوں کی جانب سے ہو، سنت نہیں بلکہ یہ بدعت(ii) ہے اس لئے کہ ایسی دعا نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور نہ ہی صحابہ کرامؓ سے، البتہ اس کے علاوہ دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ کئی احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔'' 31

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''نماز ختم کرتے ہی ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا مشروع نہیں ہے، انسان اگر دعا کرنا ہی چاہتا ہے تو نماز کے دوران دعا کرنا بعد میں دعا کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بروایت عبداللہ بن مسعود تشہد کا ذکر کیا اور پھر کہا:جو دعا چاہے اختیار کرے۔'' 32

اور بعض لوگوں نے عادت سی بنا لی ہے کہ جب کبھی نفل نماز پڑھی تو فوراً دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا لئے، اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ دعا سرے سے کی ہی نہںذ (صرف ہاتھ اُٹھائے تھے)۔ اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ انسان نفل نماز کے لئے تشہد میں ہوتاہے، ادھر نماز کے لئے اقامت ہورہی ہوتی ہے اور یہ شخص تشہد سے سلام پھیرتے ہی اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دیتا ہے اور پھر چہرے پر پھیر لیتا ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ صرف ہاتھ اٹھانا ہی مقصود تھا تاکہ اس دعا کا التزام کیا جاسکے جو ان کے نزدیک مشروع ہے، حالانکہ وہ مشروع نہیں ہے، چنانچہ اس حرکت کو لازم رکھنا بدعت میں شمار ہوگا۔ '' 33
اُمید ہے یہ مسئلہ اب واضح ہوچکا ہوگا۔ والحمدﷲ الذي تتم به الصّٰلحٰت


حوالہ جات
1. سنن ابی داؤد:1488
2. سنن ابی داؤد:1486
3. صحیح بخاری:1030
4. سنن ابوداؤد:1487
5. رقم الحدیث:1485
6. رقم:3386
7. رقم الحدیث:1492
8. سلسلة الأحادیث الصحیحة:2؍146
9. الأدب المفرد:629
10. صحیح بخاری:2937
11. جامع ترمذی:3557
12. رقم :1499
13. نسائی:1269،ابن حبان:1892
14. سنن ترمذی:3438
15. سنن ابو داود:2600
16. صحیح بخاری:631
17. صحیح مسلم:591
18. صحیح مسلم:592
19. صحیح مسلم:593
20. صحیح مسلم:597
21. مصنف ابن ابی شیبہ:3093
22. صحیح مسلم:592
23. میزان الاعتدال:2؍631
24.  فتاویٰ نذیریہ: 1؍565
25. میزان الاعتدال:3؍128
26. الاعتصام از امام شاطبی رحمة اللہ علیہ : 1؍270
27. سنن ترمذی:364
28. الفروق: 4؍443 تا445
29. صحیح مسلم:1718
30. صحیح بخاری:2997
31. فتاویٰ اسلامیہ،ص 318،319
32. صحیح بخاری:835
33. فتاویٰ ارکان الاسلام: ص339

 


 

i. مرفوع روایات اگرچہ پایۂ اسناد تک نہیں پہنچتیں،لیکن الأدب المفرد، حدیث 609 میں عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر کا اثر مذکور ہے کہ یہ دونوں حضرات دعاکے بعد اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے منہ پر پھیرتے تھے۔ شیخ زبیر علی زئی نے اپنی کتاب ہدیة المسلمین میں اس اَثر کی سند کو حسن کہا ہے، اگر یہ اثر مقبول ہو تو چہرے پر ہاتھ پھیرنا کو جہالت یا بدعت کی طرف منسوب کرنا محل نظر ٹھہرتاہے۔ (کامران طاہر)
ii. فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ کسی کی درخواست پر فرض نمازوں کے بعد یا کسی اور موقع پر اجتماعی دعا کی جا سکتی ہے جیسا کہ صحیح بخاری:1029 میں حضرت انس بن مالک کی روایت میں ہے کہ ''أتی رجل أعراب من أهل البدإ لی رسول اﷲ یوم الجمعة فقال یا رسول اﷲ هلکت الماشیة،هلك العیال،هلك الناس،فرفع رسول اﷲ یدیه یدعو ورفع الناس أیدیهم معه یدعون'' ''ایک دیہاتی جمعہ کے دن آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! (بارش نہ ہونے کی وجہ سے) مویشی ہلاک ہو گئے، بال بچے تباہ ہو گئے اور لوگ مر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے لوگوں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اُٹھالیے۔ لہٰذا فرض نماز کے بعد کبھی کبھار کسی کی درخواست پر اجتماعی دعا مانگی جا سکتی ہے۔ (طاہر)