المُصحف الشریف؛ ایک تاریخی جائزہ (آخری قسط)

 

زیر نظر مضمون کے مرتب علومِ قرآن کے حوالے سے عالم عرب کی ایک معتبر شخصیت ہیں جن کی اس موضوع پر متعدد کتب ومقالات کے علاوہ، شاگر دوں کی بڑی تعداد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ سعودی حکومت کے کنگ فہد قرآن کمپلیکس میں قرآنِ کریم کی عالمی پیمانے پر نشر واشاعت اور اصلاح کے لئے قائم کردہ کمیٹی نے ان کی کتب سے بھرپور استفادہ کیا ہے جو آپ علمیت کا مدینہ نبویہ میں حکومتی سطح پر ایک اعتراف ہے۔ فن قراء ت کی مشہور کتاب الشاطبیة کی 'الوافی' کے نام سے اور الدُرَّة کی شرح 'ایضاح' کے نام سے آپ نے تفصیلی شروح تحریر فرمائی ہیں ۔ زیر نظر مضمون کو اُردو میں ترجمہ کرنے کی نشاندہی پاکستان میں فن تجوید وقراء ت کی نامورشخصیت قاری محمد ابراہیم میرمحمدی حفظہ اللہ نے ادارئہ محدث کو فرمائی جس کا باعث اس مضمون میں موجود ایسی معلومات ہیں ، جو اس سے قبل اُردو زبان میں موجودنہیں ہیں ۔ جزاهم اللہ خیر الجزاء ح م



مصحف کے کاتب اور ناشر کے لئے شرائط
کیا مصحف ِشریف میں رسم عثمانی کی پابندی ضروری ہے یا مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق بھی تحریر کیا جاسکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں علما کے تین موقف ہیں :
پہلا موقف اور اس کے دلائل
رسمِ عثمانی کا التزام ضروری نہیں ہے بلکہ اِملا کے عام قواعد کے مطابق بھی مصحف کو لکھا جاسکتا ہے۔ یہ موقف امام ابن خلدون رحمة اللہ علیہ اور امام ابوبکر باقلانی رحمة اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے اور اس کی تائید میں حسب ِذیل دلائل پیش کئے ہیں :
یہ رسم الخط محض علامات اور نشان ہیں ۔ چنانچہ ہر وہ رسم جوایک کلمہ اور اس کی قراء ت کی واضح تصویر پیش کردے، وہ رسم بالکل درست ہے اور اس کے کاتب کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔
رسم ِعثمانی کے مطابق مصحف کی کتابت لوگوں کے لئے مشقت اور التباس کا باعث بنتی ہے چنانچہ ان کے لئے غلطیوں سے مبرابالکل صحیح تلاوت کرنا ممکن نہیں رہتا، لہٰذا وہ تلاوتِ قرآن کے اس اجروثواب سے محروم رہ جاتے ہیں جس کا اللہ کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے ۔نیز صحیح قراء ت نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں واقع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ لہٰذا لوگوں کی آسانی، اُنہیں مشقت و التباس سے بچانے اور صحیح قراء ت کی سہولت فراہم کرنے کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا جائز ہے۔

نیزکتاب اللہ، سنت ِمطہرہ، اجماعِ اُمت اور قیاسِ شرعی کی کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ مصحف کو کسی معین رسم اور مخصوص طریقہ پر لکھنا ضروری ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں یہ بیان نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبینِ وحی میں سے کسی کو کتابت ِ وحی کے وقت کسی مخصوص رسم الخط کے مطابق لکھنے کا حکم دیا ہو یا کسی مخصوص شکل میں کتابت ِوحی سے منع کیا ہو۔

دوسرا موقف اور اس کے دلائل
عوام الناس کے لئے مصحف کو اِملا کے عام قواعد کے مطابق تحریر کرنا ہی ضروری ہے، ان کے لئے رسم عثمانی کے مطابق کتابت جائز نہیں ہے۔

ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ رسمِ عثمانی کے مطابق مصحف کی کتابت عوام الناس کے لئے مشقت اور التباس کا باعث ہے اور یہ چیز کسی لفظ کی کمی بیشی کی وجہ سے کتاب اللہ میں تحریف کا سبب بھی بن سکتی ہے، لہٰذا عوام الناس کے لئے مصحف کی کتابت رسم عثمانی کے مطابق نہیں ہونی چاہئے۔ البتہ سلف صالحین کی یادگار ہونے کے ناطے رسم عثمانی کی حفاظت بہرحال ضروری ہے۔جاہلوں کی جہالت کی خاطر ہم اس سے ہرگز چشم پوشی نہیں کرسکتے اور ہر دور میں علماے فن رسم عثمانی کی حفاظت کرتے آ رہے ہیں ۔چنانچہ التِّبیَان کے مصنف لکھتے ہیں :
''جہاں تک جدید عربی اِملا میں مصحف کو لکھنے کا تعلق ہے تو چونکہ اس میں التباس کا خدشہ نہیں ہے، لہٰذا اہل مشرق (ایشیائی ممالک) میں رسم عثمانی سے عملاً خلاف ورزی کارواج ہوگیا ہے۔ اور اہل مغرب میں رسم عثمانی کا التزام اس وجہ سے پایا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں امام مالک رحمة اللہ علیہ کا یہ واضح قول ثابت ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا: لوگوں نے جو نیا طریقہ ٔ اِملا ایجاد کیاہے، کیا اس کے مطابق مصحف کو لکھا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ، پہلے رسم کے مطابق لکھنا ہی ضروری ہے۔''

البُرہان کے مصنف امام زرکشی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''قرنِ اوّل میں علم تروتازہ اور زندہ تھا، لیکن اب التباس کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے، لہٰذا شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے فرمایا ہے کہ ائمہ کی اصطلاح میں رسم اوّل کے مطابق مصحف کو لکھنا جائز نہیں ہے اس لئے کہ اَن پڑھ لوگوں کی طرف سے قرآن مجید میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوجائے۔''

__ مزید لکھتے ہیں :
'' رسم اوّل کے مطابق مصحف کی کتابت کو مطلقاً ناجائز قرار دینا بھی درست نہیں ہے ۔وجہ یہ ہے کہ اس سے سابقہ علمی میراث کہیں مٹ نہ جائے اور جاہلوں کی جہالت کی خاطر متقدمین کی محکم علمی روایت کہیں متروک نہ ہوجائے۔ اور زمین اللہ کے لئے حجت قائم کرنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی۔''

تیسرا موقف اور اس کے دلائل
کتابت ِمصحف میں رسم عثمانی کا التزام بہر حال ضروری ہے۔ سلف اور خلف میں سے جمہور علما نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کتاب تھی جس میں آپؐ وحی لکھتے تھے اور اس میں قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا گیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیقِ اعلیٰ کے پاس چلے گئے تو اس وقت قرآنِ کریم اسی رسم کے مطابق لکھا ہوا تھا اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ مسند ِخلافت پر فائز ہوئے تو اُنہوں نے بھی پورے قرآنِ مجید کو اسی خاص رسم کے مطابق لکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کا دور آیا تو بھی تمام نئے مصاحف ابوبکر ؓ کے صحیفوں کو سامنے رکھ کر نقل کئے گئے اور اُنہوں نے تمام مصاحف اس رسم کے مطابق تحریر کئے۔ پھر اُنہوں نے ان مصاحف کو تمام بلادِ اسلامیہ میں پھیلا دیا تاکہ وہ اُمت ِمسلمہ کے لئے امام اور مرجع کی حیثیت اختیار کرسکیں ۔اور پھر کسی صحابی نے حضرت ابوبکر ؓو عثمانؓ پر اعتراض نہیں کیا، بلکہ تمام صحابہ کرام ؓنے ان کے اس کارنامہ کی تائید کی۔

اس کے بعد تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کا دور آتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی ثابت نہیں ہے کہ اس کے دل میں رسم مصحف کو بدلنے اور اسے کسی دوسرے رسم پر لکھنے کا خیال بھی پیدا ہوا ہو، جو اس دور کے جدید رسم کے ساتھ ہم آہنگ ہو، بلکہ مختلف ادوار میں اسی رسم عثمانی کو ہی سب کے ہاں مقدس اور برتر حیثیت حاصل رہی۔ ان مختلف اَدوار میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود رہے جو قرآنِ کریم پڑھتے تھے، لیکن اسے حفظ نہیں کرتے تھے۔ ان لوگوں کا وجود بھی ائمہ کرام کو قواعد کے تقاضوں کے مطابق رسم عثمانی کوبدلنے پر آمادہ نہ کرسکا۔ جب اس رسم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شرفِ باریابی حاصل ہوچکا ، صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع ہوچکا، تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین اس پرمتفق ہیں تو ایسی صورتِ حال میں اس سے انحراف اختیار کرنا قطعاً جائز نہیں ہے اور پھر اسے یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ یہ رسم ان بنیادی ارکان میں سے ہے جن پر قراء تِ سبعہ کی صحت کا دارومدار ہے۔

ائمہ دین اور کبار علماے اسلام کی آرا
امام سخاوی رحمة اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ امامِ دارِہجرت مالک بن انس سے کسی نے یہ سوال کیا:
''أرأیت من استکتب مصحفًا، أترٰی أن یکتب علی ما استحدثه الناس من الھجاء الیوم؟ فقال: لا أرٰی ذلك ولکن یکتب علی الکتبة الأولیٰ''
''اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو مصحف کی کتابت کرتا ہے اور اسے آج کے جدید رسم الخط کے مطابق کتابت کرتا ہے؟تو اُنہوں نے فرمایا : میں اسے درست نہیں سمجھتا ، اسے پہلے رسم کے مطابق ہی مصحف کی کتابت کرنا چاہئے ۔''

امام سخاوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''اس سلسلہ میں امام مالک رحمة اللہ علیہ کا مذہب برحق ہے، کیونکہ وہ پہلی حالت پر برقرار ہے جس کو ایک کے بعد دوسرے طبقہ نے سیکھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہی موقف زیادہ قرین قیاس ہے۔''

ابوعمرو دانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''علماے اُمت میں سے اس سلسلہ میں کوئی بھی امام مالک کا مخالف نہیں ہے۔امام مالک رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ سے کسی نے قرآنی حروف : واؤ، یاء اور الف کے متعلق سوال کیا کہ کیا مصحف کے اندر اِن حروف میں کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے؟ آپ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: نہیں ۔''

آگے فرماتے ہیں :
''اس سے امام مالک کی مراد وہ واؤ، یاء اور الف ہے جو رسم میں لکھے جاتے ہیں ، لیکن تلفظ میں نہیں آتے جیسے {لَااَذْبَحَنَّه} اور {بِاَیْیدٍ} اور {اُولُو} وغیرہ۔''

امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''واؤ، الف، یا اور دیگر الفاظ میں مصحف ِعثمانی کے رسم الخط کی مخالفت حرا م ہے۔''

امام نیسابوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''ائمہ کرام کے نزدیک قرا، علما اور خطاطوں پر واجب ہے کہ وہ مصحف کو لکھتے ہوئے رسم عثمانی کی اتباع کریں ۔یہ زید بن ثابت ؓکارسم ہے جو بلا شبہ رسو ل اللہﷺ کے امین اور آپؐ کے کاتب ِوحی تھے۔''

امام بیہقی رحمة اللہ علیہ شعب الایمان میں لکھتے ہیں :
''جو شخص بھی مصحف لکھے، اسے چاہئے کہ اس رسم الخط کا التزام کرے جس کے مطابق صحابہؓ نے یہ مصاحف ِ(عثمانی) لکھے تھے اور اس بارے میں ان کی مخالفت نہ کرے۔ اور جو کچھ اُنہوں نے لکھا ہے، اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کرے، کیونکہ وہ لوگ ہمارے سے علم میں برتر، زبان کے سچے، دل کے نہایت کھرے اور امانت و دیانت میں اتنے عظیم تھے کہ ہم اپنے تئں  ان پر رشک کا سوچ بھی نہیں سکتے۔''

امام جعبري رحمة اللہ علیہ اور دیگر علما نے اس بات پر ائمہ اربعہ کا اجماع نقل کیا ہے کہ رسم مصحف کی اتباع واجب ہے۔

دلائل کی روشنی میں جس موقف پر دل سب سے زیادہ مطمئن ہوتا ہے، وہ یہی تیسرا قول ہے اور اس کی ترجیح کی متعدد وجوہات ہیں :
اس قول کے حاملین نے اپنے موقف کی تائید میں جو دلائل پیش کئے ہیں ، وہ مصاحف کی کتابت میں رسم عثمانی کے التزام کی فرضیت پر صریح اور واضح ہیں ۔

جدید قواعد ِاملا ہر دور اور ہرقوم میں تنقیح اور تغیر و تبدل سے دوچار رہے ہیں ۔ قرآنِ مجید کا تقدس اور اس کی حفاظت کی ہماری ذمہ داری ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کے رسم اور کتابت کو اس قسم کی تبدیلیوں کی آزمائش سے دوچار نہ کریں ۔

رسم عثمانی میں تبدیلی، قرآنِ کریم کے اصل الفاظ و کلمات میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے، جو انتہائی خطرناک معاملہ ہے۔ نیز سد ِذریعہ شریعت ِاسلامیہ کا ایک اُصول اور ماخذ ہے جسے استنباط ِاحکام میں پیش نظر رکھا جاتا ہے اور رسم عثمانی کے بارے میں ائمہ کرام کا یہ موقف اس عظیم اُصول سے ہم آہنگ بھی ہے اور اس میں قرآنِ کریم کی حد درجہ حفاظت اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کا بے پناہ سامان بھی موجود ہے۔

اس رسم کی بے شمار خصوصیات اور امتیازات ہیں جنہیں علما نے نہایت وضاحت اور تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ اُن کی طرف رجوع مفید ہوگا۔

جہاں تک اوّل الذکر دو نوں موقفوں کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ مصاحف کی رسم عثمانی کے مطابق کتابت شکوک و شبہات کا باعث بنے گی، وغیرہ تو یہ دلیل اس لئے ناقابل اعتبار ہے کہ اس دور میں جو مصاحف خصوصاً ایسے مصاحف جو حکومتی سرپرستی میں تیار ہوتے ہیں ، وہ مکمل اعراب سے مزین ہوتے ہیں اور لوگوں نے اسے ایسے انداز پر شائع کیا ہے کہ اس کی قراء ت میں ادنیٰ سی مشقت بھی اُٹھانا نہیں پڑتی۔

ان تمام دلائل کی بنیاد پر قرآنِ کریم کے کاتب اور ناشر کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کی کتابت میں رسم عثمانی کے قواعد کی پابندی اور جستجو کرے۔ اور قرآن کی حفاظت اور اسے بازیچۂ اطفال بننے سے بچانے کے لئے اس کے رسم میں سے کسی قسم کی کمی بیشی یا حذف واضافہ نہ کیا جائے۔ اسی میں ہی صحابہ کرامؓ، تابعین عظام رحمة اللہ علیہ ، ائمہ اور کبار علما کی اتباع اور اقتدا ہے۔ اور یہ پابندی مکمل مصاحف اور مصحف کے الگ الگ اجزا جو چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے تیارکئے جاتے ہیں ،دونوں میں ضروری ہے۔

معلّمینِ قرآن کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی میں پوری کوشش سے ان قواعد کی تعلیم دیں اور اس سلسلہ میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں ، حتیٰ کہ جب وہ جوان ہو ں تو ان قواعد سے مکمل طور پر آگاہ ہوچکے ہوں ۔ قرآنِ کریم کی قراء ت ان کے لئے انتہائی آسان اور ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہو۔

مصحف لکھنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمات ِقرآن کواسی رسم پر لکھے جو اس روایت (قراء ت )کے مطابق ہو جس پر مصحف لکھا گیا تھا، خواہ یہ موافقت احتمالاً ہی کیوں نہ ہو، مثلاً روایت ِحفص کے مطابق مصحف کو لکھتے وقت {وَسَارِعُوا} یعنی واؤ کے ساتھ لکھا جائے گا۔ اسی طرح روایت ِحفص کے مطابق {مَـٰلِكِ يَوْمِ ٱلدِّينِ} یعنی مٰلِکِ کو بغیر الف کے لکھا جائے گا۔ یہاں اس رسم کی موافقت روایت ِحفص کے ساتھ حقیقی تو نہیں البتہ احتمالاً موجود ہے۔ لیکن کلماتِ قرآن کے لئے ایسا رسم اختیار کرنا ممنوع ہے جس میں کسی روایت کے ساتھ نہ حقیقی موافقت موجود ہو اور نہ ہی احتمالی موافقت۔

نیز مصحف کے کاتب اور ناشر کو چاہئے کہ وہ اس کی کتابت اور اس کے حروف کی بناوٹ کو خوبصورت بنائے، صاف صاف اور واضح لکھنے کی بھرپور کوشش کرے اور قرآنِ کریم کے احترام اور تعظیم کے پیش نظر اسے بڑے سائز میں لکھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کے پاس ایک مصحف دیکھا جو باریک خط میں لکھا ہوا تھا، حضرت عمرؓ نے اسے ناپسند کیا اور اس آدمی کو سزا دی اور فرمایا :
عَظِّمُوْا کتاب اﷲ ''کتاب اللہ کی تعظیم کرو ۔''

مصحف پر نقطوں اورحرکات کا جواز
سلف صالحین کی ایک جماعت نے اسے ناپسند کیا ہے جب کہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے چھوٹے اور وہ بڑے مصاحف جو چھوٹوں کے حکم میں آتے ہیں ، ان پر نقطوں اور حرکات کو جائز قرار دیا ہے۔ لیکن اُمہات اور مکمل مصاحف پر نقطے اور حرکات لگانے کو ناپسند کیا ہے۔ امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور ابن سیرین رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور حرکات لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ربیعہ بن عبدالرحمن رحمة اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مصحف پر نقطے اور اعراب لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نامور شافعی فقیہ اور عالم امام نووی رحمة اللہ علیہ کا قول ہے:
''مصحف پر نقطے اور اعراب لگانا مستحب ہے، کیونکہ یہ قرآن میں لحن اور تحریف سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔''

امام دانی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب النقطمیں فرماتے ہیں :
''تابعین کرام رحمة اللہ علیہ سے لے کر آج تک تمام بلادِ اسلامیہ کے لوگ اُمہات مصاحف اور دیگر مصاحف پر حرکات اور نقطے لگانے کی اجازت کے قائل رہے ہیں ۔ وہ کسی سورت کے آغاز کی علامت، آیات کی تعداد، پانچ آیات کے بعد 'خمس' اور دس آیات کے بعد 'عشر 'کی علامت لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ اور ان تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان علامات کے سلسلہ میں اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اس کا اِزالہ ضروری ہے۔''

میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ اس دور میں قرآنِ کریم پر نقطے اور حرکات لگانا واجب ہے تاکہ تمام لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت آسان ہوسکے ۔نیز اس کے ذریعہ قرآن کریم لحن اور تحریف سے بھی محفوظ ہوجائے گا۔

سورتوں کے نام لکھنے کا جواز
ہر سورت کے شروع میں سورت کا نام، اس کی آیات کی تعداد اور اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے کی وضاحت کرنا جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ مستثنیات کا تذکرہ بھی کیا جائے گا، کیونکہ اس سلسلہ میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

اسی طرح مصحف پر جز، حزب، ربع، سجدہ اور وقف کی علامات، آیات کی نمبرنگ، سورت کے آغاز و اختتام کی علامات لگانا جائز ہے، لیکن سلف کی ایک جماعت نے ان تمام علامات کو ناپسند کیا ہے۔ ان کی دلیل عبداللہ بن مسعود ؓکا یہ قول ہے :
جرِّدوا القرآن ولا تلحقوا به ما لیس منه 1
''قرآن کو ہر چیز سے خالی کردو اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔''

میری رائے یہ ہے کہ اس قسم کی تمام علامات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جمہور متقدمین ومتاخرینِ اسلاف کا رجحان بھی اسی موقف کی طرف ہے، جیسا کہ امام دانی رحمة اللہ علیہ کے حوالے سے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔

قرآنِ کریم کو سونے، چاندی سے لکھنے کا جواز
امام غزالی رحمة اللہ علیہ نے سونے کے ساتھ قرآنِ کریم کی کتابت کو مستحسن قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباسؓ، ابوذر ؓاور ابودرداء ؓکے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓکا بیان ہے:
إن أحسن ما زُیِّن به المصحف،تلاوته بالحق 2
''سب سے بہترین چیز جس سے مصحف کو مزین اور خوبصورت بنایا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کی تلاوت کا حق ادا کیا جائے۔''

البتہ قرآن کریم کو عزت و احترام کے پیش نظر چاندی سے آراستہ کرنا جائز ہے۔ امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے ولید بن مسلم کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک رحمة اللہ علیہ سے مصاحف کو چاندی سے مزین کرنے کے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے ایک مصحف نکال کر مجھے دکھایا اور فرمایا: مجھے میرے باپ نے میرے دادا کے حوالہ سے بتایا کہ اُنہوں نے حضرت عثمان ؓ کے دور میں قرآنِ کریم جمع کیا تھا اور مصاحف کو اس طرح چاندی سے آراستہ کیا تھا۔

جہاں تک سونے سے قرآنِ کریم کو آراستہ کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ عورت کیلئے تو یہ جائز ہے، لیکن مرد کے لئے جائز نہیں ہے اور بعض نے یہ رائے پیش کی ہے کہ مصحف کو تو سونے سے مزین کیا جاسکتا ہے البتہ اس کے غلاف کو سونے سے مزین کرنا جائز نہیں ہے، لیکن بظاہر ان دونوں میں فرق کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔3

مصاحف کا دور ِ طباعت
پریس کی ایجاد سے قبل قرآنِ کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے۔ جب مصر اور دیگر مشرقی ممالک میں چھاپہ خانوں کا آغاز ہوا تو اُنہوں نے قرآنِ کریم کی طباعت کا خاص اہتمام کیا۔ اس سلسلہ میں باہم مقابلہ کا رجحان پیدا ہوا اور ہر ایک قرآنِ کریم کی طباعت کو ہرلحاظ سے خوبصورت اور بہتر سے بہتر بنانے کے لئے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا تھا۔ قرآنِ کریم کے یہ نسخے مختلف شکلوں ، مختلف رنگوں اور مختلف سائز میں ہوتے تھے۔

اس سب کچھ کے باوجود یہ چھاپہ خانے قرآنِ کریم کی طباعت میں اس رسم الخط کا التزام نہیں کیا کرتے تھے جس پر حضرت عثمان ؓ، صحابہؓ، تابعین رحمة اللہ علیہ اور ائمہ مجتہدین رحمة اللہ علیہ کے دور میں قرآنِ کریم لکھا جاتا رہا تھا اور ان چھاپہ خانوں میں رسم کے ان قواعد و ضوابط کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا تھا جو سلف سے خلف تک قابلِ لحاظ سمجھے جاتے رہے تھے۔ سلف صالحین رحمة اللہ علیہ تواس رسم کی نمایاں خصوصیات اور حکمتوں سے آگاہ تھے، لیکن بعد میں مصری مطبع خانوں نے مصحف کی طباعت میں رسم عثمانی کاالتزام ترک کر دیا اور جدید قواعد ِاملا کا سہارا لیا، البتہ کلمات کی صرف ایک تھوڑی سی تعداد رسمِ عثمانی کے مطابق لکھی جاتی رہی۔

ایک لمبا عرصہ مصاحف اسی طرح طبع ہوتے رہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کے ایک بہت بڑے عالم الاستاذ علامہ محقق شیخ رضوا ن بن محمد عرف المخللاتي کو یہ توفیق دی کہ اُنہوں نے دوبارہ قرآنِ کریم کی رسم عثمانی کے قواعد کے مطابق طباعت کا اہتمام کروایا۔ موصوف نے کئی نہایت مفید کتب بھی تالیف کیں ۔ اُنہوں نے ایک نہایت عظیم الشان مصحف شائع کرایاجس میں قرآنی کلمات کو رسم عثمانی کے قواعد کے مطابق لکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نیز اُنہوں نے اس میں مشہور علماے ریاضیات کی آرا کے مطابق ہر سورت کے شروع میں اس کی آیات کی تعداد ذکر کی۔ پھر وقف کے مقامات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے وقف کو درج ذیل چھ اقسام میں تقسیم کیا: کافی، حسن، جائز، صالح، مفہوم، تام۔ اور پھر کافی کے لئے ک،حسن کے لئے ح،جائز کے لئے ج، صالح کے لئے ص، مفہوم کے لئے ماور تامّ کے لئے تکے رُموز استعمال کئے۔ یہ مصحف ایک اہم علمی مقدمہ کے ساتھ شائع ہوا جس میں مصنف نے یہ وضاحت کی کہ اس مصحف کے رسم کے لئے امام دانی کی کتاب المقنع اور امام ابوداؤد کی کتاب التنزیلکو بنیاد بنایا گیا ہے۔ نیز اُنہوں نے اپنے اس مقدمہ میں عہد ِنبویؐ، عہد ِابوبکرؓ اور عہد ِعثمانؓ میں جمع قرآن کی پوری تاریخ کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہوئے رسم اور ضبط کی مباحث کو بھی مختصر اور جامع انداز سے پیش کر دیا۔ اور پھر آیات کی تعداد وغیرہ کی تعداد کے سلسلہ میں مشہور علماے ریاضیات کی توضیحات ذکر کیں ، اس کے بعد سورت اور آیت کا مفہوم واضح کیا۔ یہ ساری باتیں نہایت آسان اور شاندار اُسلوب میں پیش کی گئیں ۔

یہ مصحف 1308ھ بمطابق 1890ء میں شیخ محمد ابو زید کے اہتمام سے المطبعة البھیة سے شائع ہوا۔ اپنی مذکورہ بالا علمی خصوصیات کی بدولت یہ مصحف علماے عظام اور قراے کرام کے ہاں بہت متداول اور دیگر مصاحف کی نسبت زیادہ قابل اعتماد اور برتر حیثیت کا حامل رہا۔ البتہ مصحف کا ظاہری گیٹ اَپ اتنا خوبصورت اور جاذبِ نظر نہیں تھا جس کی ایک وجہ تواس کا ردّی کاغذ تھا اور اس کے علاوہ طباعت بھی زیادہ اچھی نہیں تھی ۔

اس کے بعد ملک فواد الاوّل... اللہ تعالیٰ اُنہیں جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی حسنات میں اضافہ اور ان کے درجات بلند فرمائے ... جنہوں نے خاص اپنے اِخراجات سے مصحف کو نہایت شان سے شائع کروانے کا اہتمام کیا۔اُنہوں نے اس عظیم اور مشقت طلب کام کو انجام دینے کے لئے علامہ شیخ محمد علی خلف حسینی الحداد اور مصری قرا کے شیخ کی سربراہی میں کبار علما اور اُدبا کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جنہوں نے نہایت خوش اُسلوبی اور کامیابی سے اس مہم کو انجام دیا۔ اُنہوں نے پورے قرآنِ کریم کو رسم عثمانی کے قواعد و ضوابط کے مطابق تحریر کیا اور ایسے نظامِ ضبط کے مطابق اس پر حرکات اور نقطے لگائے جو محقق علما کے نزدیک ہر لحاظ سے مکمل تھا۔

اُنہوں نے ہر سورت کے شروع میں اس کی آیات کی تعداد ذکر کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ سورة مکی ہے یا مدنی اور یہ کس سورت کے بعد نازل ہوئی تھی؟ اُنہوں نے ہر آیت کو ایک نمبر لگایا۔ نیز وقف، اِجرا، احزاب، ربع اور سجدوں کی علامات وضع کیں ، پھر وقف کو درج ذیل پانچ اقسام میں تقسیم کیا:

  1. 'وقف لازم 'یعنی جہاں ٹھہرنا ضروری اور ما بعد کے ساتھ ملا کر پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس کے لئے انہوں نے 'م' کی علامت وضع کی۔
  2. 'وقف اَولیٰ 'جہاں ٹھہرنا اور ملا کر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے، لیکن آگے ملا کر پڑھنے کی بجائے ٹھہرنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کے لئے انہوں نے 'قلی' کی علامت وضع کی جو ' وقف اولیٰ' کا مخفف ہے۔
  3. 'وصل اولیٰ' جہاں ٹھہرنا اور ملاکر پڑھنا دونوں طرح جائز ہے ۔ لیکن مابعد کے ساتھ ملا کر پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ اس کیلئے اُنہوں نے 'صلی' کی علامت وضع کی جو کہ 'وصل اولیٰ 'کا مخفف ہے۔
  4. 'وقف جائز ' یعنی یہاں ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا بلا ترجیح برابر ہے۔ اس کے لئے اُنہوں نے 'ج' کی علامت وضع کی۔
  5. 'وقف ممنوع'یعنی یہاں ٹھہرنا بالکل جائز نہیں ہے، لیکن اگر سانس ٹوٹ جائے یا تھک جانے کی بنا پر ٹھہر جائے تو دوبارہ پیچھے سے ملا کر پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اُنہوں نے 'لا' کی علامت وضع کی۔


اس مصحف کو پہلی نظر دیکھنے والا ہی وقف کی ان پانچوں اقسام کا بآسانی مشاہدہ کرسکتا ہے۔ ہم اس کمیٹی کے اراکین اور اس کے اس عظیم کام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اس مصحف کی اشاعت اور اسے اس قدر خوبصورت انداز پر شائع کرنے میں اپنی بے پناہ مساعی صرف کیں اور بلا شبہ ان کا یہ کارنامہ انتہائی قابل قدر ہے، لیکن اس مصحف میں بھی کچھ اُمور قابل ملاحظہ رہ گئے۔

بعض کلمات کا رسم اہل عراق کے مصاحف جو روایت ِحفص پر مشتمل ہیں ،کے خلاف ہے۔ مثال کے طور پر سورة الاعراف کی آیت نمبر137{وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ ٱلْحُسْنَىٰ} میں کلمة کی تاء کو اس مصحف میں تاے مربوطہ کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ اسے تاے مفتوحہ کے ساتھ کلمت لکھا جاناچاہئے تھا ، کیونکہ عراقی مصاحف میں اسی طرح ہے۔

اسی طرح سورة ص کی آیت نمبر۵۵ {وَإِنَّ لِلطَّـٰغِينَ لَشَرَّ‌ مَـَٔابٍ ﴿٥٥} اور سورة النبا:۲۲ میں {لِّلطَّـٰغِينَ مَـَٔابًا ﴿٢٢} دونوں جگہوں پر للطاغین الف کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ صحیح الف کے حذف کے ساتھ لِلطَّـٰــــــــغِینَ ہے،کیونکہ علماے رسم کے نزدیک اسی پر عمل رہا ہے، جیسا کہ سورة الصافات کی آیت{بَلْ كُنتُمْ قَوْمًا طَـٰغِينَ ﴿٣٠} اور سورةا لقلم کی آیت{إِنَّا كُنَّا طَـٰغِينَ ﴿٣١} میں الف کے حذف کے ساتھ لکھا گیا ہے۔

اسی طرح آیت ِقرآنی {أَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ...﴿٣٣﴾...سورة الرعد} میں لفظ قائم کو یاء کے اوپر ہمزہ کے ساتھ لکھا گیا ہے، حالانکہ علماے رسم کے اُصول کی رو سے اسے نیچے ہونا چاہئے تھا، جیسا کہ سورة آل عمران میں {وَهُوَ قَآئِمٌ يُصَلِّى فِى ٱلْمِحْرَ‌ابِ} میں یاء کے نیچے ہمزہ ڈالا گیا ہے۔

اسی طرح سورة یونس کی آیت :{إِنَّ ٱلَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٩٦} میں لفظ کلمة کو اس مصحف میں تاے مفتوحہ کے ساتھ کلمت لکھا گیا ہے، حالانکہ صحیح تاے مربوطہ کے ساتھ ہے،کیونکہ اہل عراق کے مصاحف میں یہ اسی طرح ہے۔ اور امام دانی رحمة اللہ علیہ نے المقنع اور امام شاطبی رحمة اللہ علیہ نے العقیلة میں اسی کی تصریح کی ہے۔

اس مصحف میں دوسری فروگذاشت یہ ہوئی ہے کہ 33 سے زائد کلمات کی حرکات روایت ِ حفص کے خلاف ہیں ، یہ فروگزاشتیں زیادہ تر سورتوں کے آخر میں ہیں ۔ مثال کے طور پر
سورة المائدة کی آخری آیت: {وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ‌ۢ ﴿١٢٠} میں قدیر کی راء پر دو ضمے لگے ہوئے ہیں ۔ پھر اس سورہ کا آخر اگلی سورت کے ساتھ متصل ہے اور درمیان میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا فاصلہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ روایت ِحفص کے تمام طرق میں دونوں سورتوں کے درمیان بسملہ کا فاصلہ موجود ہے۔

لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہاں راء کے اوپر ایک ضمہ ڈالا جائے اور بسملہ کی رعایت کرتے ہوئے اسے میم کے ساتھ اِدغام کرکے پڑھاجائے، کیونکہ تنوین جب باء کے ساتھ ملے تو میم سے بدل جاتی ہے، جیسا کہ یہ علم تجوید اور علم ضبط کا مسلمہ اُصول ہے۔

ایسے ہی سورة الفیل کی آخری آیت {فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ﴿٥} میں ماکول کی لام کے نیچے دو زیر ڈالی گئی ہیں ۔ اسی طرح سورة قریش کی پہلی آیت: {لِإِيلَـٰفِ قُرَ‌يْشٍ ﴿١} میں لام کے اوپر شد ہے۔ ایسا اسلئے ہوا ہے کہ سورة الفیل کے آخرکو اگلی سورہ کے ساتھ بسملہ سے قطع نظر کرتے ہوئے ملایاگیا ہے، حالانکہ یہاں بھی بسملہ کا لحاظ ضروری ہے جیسا کہ پہلے یہ اُصول گزرچکا ہے لہٰذا یہاں لام کے نیچے دو زیریں اور لایلف میں لام پر شد نہیں ہونی چاہئے۔

وقف کی بعض علامات کو غیرمناسب مقامات پر لکھا گیا ہے۔مثال کے طور پر
سورة البقرة کی آیت نمبر 129 {وَيُزَكِّيهِمْ} پر 'قلی' کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں 'صلی' کی علامت ہونی چاہئے تھی، کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فرمان {إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ﴿١٢٩} ابراہیم و اسمٰعیل کی دعا کا باقی ماندہ حصہ ہے اور اسے پہلے حصہ سے الگ نہیں ہونا چاہئے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سورة البقرة کی آیت {وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ ٱلْمَالِ} کے بعد 'قلی' کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں 'ج' کی علامت موزوں تھی، جہاں ٹھہرنا اور نہ ٹھہرنا برابر ہوتا ہے کیونکہ 'قلی' کی علامت وہاں استعمال ہوتی ہے جہاں کلام مکمل ہوجائے اور مابعد کلام سے اس کا لفظی اور معنوی تعلق ختم ہوجائے۔

اسی آیت میں {مَن يَشَآءُ} کے بعد 'قلی' کی علامت موجود ہے حالانکہ یہاں 'صلی'کی علامت ہونا چاہئے تھے، کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ کا فرمان :{وَٱللَّهُ وَ‌ٰسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٤٧} اس کے نبی کے قول کا باقی ماندہ حصہ ہے۔

اسی طرح آیت {تَحْمِلُهُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ} کے بعد بھی 'قلی' کی علامت موجود ہے، حالانکہ یہاں 'صلی' کی علامت ہونی چاہئے، وجہ وہی ہے جو سابقہ آیت میں ہے۔

پھر بعض ایک جیسے مقامات پر یہ فرق کیا گیا ہے کہ ایک جگہ تو علامت ِوقف موجود ہے لیکن اس جیسے دوسرے مقام پر وہ علامت موجود نہیں ہے، حالانکہ دونوں مقام پر ایک ہی اُصول پیش نظر رہنا چاہئے:

مثال کے طور پرسورة الاعراف کی آیت نمبر73{هَـٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةً} میں لفظ آیة پر تو'صلی'کی علامت موجود ہے، لیکن سورة ہود کی آیت نمبر64{هَـٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةً...﴿٦٤﴾...سورة ھود} پر یہ علامت موجود نہیں ، حالانکہ یہ آیت بھی اپنے سے پہلی آیت کے ساتھ متصل ہے، لہٰذا دونوں آیات میں اس علامت کاہوناچاہیے تھا۔

اسی طرح سورة النحل کی آیت نمبر55 {لِيَكْفُرُ‌وا بِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا}میں آتیناھم پر 'ج' کی علامت اور فتمتعوا پر 'صلی' کی علامت موجود ہے۔ لیکن سورة الروم کی آیت {لِيَكْفُرُ‌وابِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا} پر یہ دونوں علامتیں موجوود نہیں ہیں ، حالانکہ ان دونوں آیات میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے علاوہ کچھ اور ملاحظات بھی ہیں ، لیکن اختصار کے پیش نظر صرف انہیں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

قرآنِ عظیم کا تواتر
صحابہ کرام ؓ نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے قرآنِ کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا اور حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کے حافظہ اور ان صحیفوں کو سامنے رکھ کر قرآنِ کریم کو مرتب کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھے گئے تھے۔ اور جمع قرآن کا یہ کام کبار اور جلیل القدر صحابہ کی زیرنگرانی تکمیل پایا ۔ حضرت ابوبکرؓ کے جمع کردہ قرآنِ کریم کی صحت پر تمام صحابہ کا اجماع تھا۔

پھر حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے اِنہی صحائف سے مہاجرین و انصار میں سے حفاظ اور ثقہ صحابہ کرامؓ جنہوں نے بالمشافہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ کریم کو حاصل کیا تھا اور وہ عہد ابوبکر ؓمیں جمع قرآن کی کمیٹی میں شامل تھے، کی زیرسرپرستی حضرت ابوبکر ؓکے اِنہی صحیفوں سے قرآنِ کریم کے مصاحف نقل کروائے۔

چنانچہ قرآنِ کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ و کتابت دونوں طرح بذریعہ تواتر ہم تک پہنچا ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں نے بغیر کسی ادنیٰ کمی و بیشی اور تغیر و تبدل کے اسے لاکھوں لوگوں کی طرف آگے نقل کیا اور یہ روزِ قیامت تک بذریعہ تواتر ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہے گا، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔

ان دلائل کی بنیاد پر بلا خوفِ تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس وقت روے زمین پر قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اَب تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آسمان سے اس کا نزول ہوا تھا، کیونکہ اسے قیامت تک کے لئے تمام انسانیت کے لئے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لئے حجت بننا تھا۔ چنانچہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدہ نے پوری دنیا پر یہ مہر تصدیق ثبت کردی ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ‌ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ ﴿٩...سوررة الحجر
''بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے ۔''

میں اللہ کی ذاتِ کریم و غفور سے خواستگار ہوں کہ اس کتابچہ کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور ہر علاقے اور ہر زمانہ میں علومِ قرآن سے متعلقہ حضرات کو اس سے نفع عطا فرمائے اور میرے لئے اسے توشۂ آخرت اور قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا سبب بنا دے۔ وہی مجھے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ ہر قسم کی قوت اور طاقت اللہ کی بلندو برتر ذات کے لئے ہے۔
وصلَّی اﷲ وسلم وبارك علی سیدنا ومولانا محمّد ﷺ وعلی آله وصحبه أجمعین والحمد ﷲ رب العالمین


حوالہ جات
1. البرہان فی علوم القرآن: 1؍479
2. الاتقان فی علوم القرآن 1؍432
3. الاتقان از سیوطی: 1؍434