اسلام کا پیغام اور مسلم اُمہ کی حالت ِزار
عید ِمکہ معظمہ سے بلند ہونے والی یہ آواز ہر سال مسلم ممالک کے سیاسی مفادات اور سرکاری جکڑ بندیوں سے بالا تر ہوکر کلمہ اسلام کے نام پر ملت ِاسلامیہ کو مخاطب کرتی ہے۔ مسلمانوں کے عالمی اجتماع سے بلند ہونے والی یہ صدا اسلام کا ایک جامع نقشہ کھینچتے ہوئے مسلم اُمہ کو درپیش حالات پر ایک جامع تبصرہ پیش کرتی اور ان کی مشکلات کا ایسا حل سامنے لاتی ہے جو قرآن وسنت کی آیات واحادیث سے براہِ راست مُستنیر ہوتا ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس متبرک آواز میں خلوص کی چاشنی، مسائل کا درد، مشاہدے کی گیرائی وگہرائی اور اصلاحِ احوال کا بہترین حل محسوس کرسکتا ہے۔ اس خطبہ کا اوّلین حصہ عبادات کی ترغیب وتفصیل پر مشتمل ہوتا ہے جو کسی فردِ مسلم میں قوتِ ایمانی اور اللہ سے تقرب کا اَساسی ذریعہ ہیں ۔ اس کا دوسرا حصہ مسلمانوں کی اُخوت اورباہمی حقوق کی ترجمانی کرتا ہے جو مسلم معاشروں کی فلاح وصلاح کے ضامن ہیں ۔ اس کا آخری حصہ ملت ِ اسلامیہ کی صورتحال کے عمیق مشاہدے کے بعد اُنہیں دردِ دل سے قرآن وسنت کی طرف لوٹنے اور اِنہیں اپنے اصلاحِ حالات کا نسخۂ اکسیر بنانے کی رہنمائی دیتا ہے۔ بیت اللہ سے بلند ہونے والی اس صدا میں ہمیں اپنے معاشروں اور ممالک کو درپیش مسائل کی لطیف نشاندہی اور ان کا حل میسر آتا ہے اور ہر طبقہ زندگی کو مخاطب کرکے اُنہیں اسلامی ہدایات کو اپنانے اور اپنا روزمرہ معمول بنانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ہم اگر غور کریں تو اس خطبہ میں وطن عزیز پاکستان میں امن وامان کی صورتحال، بیرونی مداخلت اور مسلم معاشروں کو درپیش اباحیت اور ذ ہنی بے چینی وبے سکونی جیسے مسائل کا تذکرہ اور حل بھی موجود ہے۔ان مسائل کے حل میں جدید مفکرین کی طرح ترقی ومادّیت اور روشن خیالی کے جدید اُسلوب کے بجائے قرآنِ کریم کی روشنی میں ربّ اور اس کے احکامات(دین خالص) کی طرف لوٹنے کو ہی باعث ِفلاح قرار دیا جاتا ہے۔خطبہ حج کو ہمیشہ سے مسلمانوں میں ایک قدر و منزلت حاصل رہی ہے اور مسلمان ایک خاص جذب واحترام سے اس خطبہ کو سنتے ہیں ۔الحمد للہ ادارئہ 'محدث' کے ذریعے ماضی کی طرح اس برس بھی اُردو میں ترجمہ ہوکر یہ خطبہ بہترین ممکن اُسلوب میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔امام کعبہ ڈاکٹر شیخ عبد الرحمن السدیس اور بیت اللہ کے دیگر خطبات کی طرح حج کے یہ خطبات بھی اُردو زبان میں صرف ادارئہ محدث کو ہی اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔زیر نظر خطبہ کو حاصل کرنے اور ' محدث' کے لئے خطاب سے تحریر میں منتقل کرنے کی سعادت جزائر کے ایک نوجوان سعد بن سالم کے حصے میں آئی ہے اور محدث کے معاون جناب کامران طاہر نے اس کا سلیس اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ حصہ اوّل کو بوجہ طوالت حذف کیا جارہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان دینی خدمات کو استمرار واستحکام نصیب فرمائیں ۔آمین! ح م
تمام تعریف اللہ تبارک و تعالیٰ کو سزاوار ہے، ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں اور اس کی مدد اور مغفرت کے طلبگار ہیں ۔ ہم اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے اس کی پناہ میں آتے ہیں ۔جس کو وہ راہ یاب کردے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دیسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔
اما بعد! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوجوبلند مقام عطا فرمایا اور سارے جہاں کے لوگوں پر بزرگی بخشی اور ان کے راستے کو راہِ ہدایت قرار دیا۔ آپؐ نے لوگوں کو اپنے ربّ سے بخشش کی طرف دعوت دی اور اس کے عتاب سے متنبہ کیا اور ڈرایا اور آپؐ نے اللہ کے راستے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں سے جہاد کا حق ادا کردیا۔ صلوات اﷲ وسلامه علیه أبدًا دائمًا
مسلمانوں میں باہمی احترام وحقوق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تنبیہ فرمائی جیسا کہ روایت میں ہے کہ
عبداللہ بن مسعودؓ نے آپؐ سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل کون سا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (الصلاة علی وقتھا) نماز کو اس کے وقت پرادا کرنا ، پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: (برالوالدین) والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، آپؐ نے ان کی نافرمانی سے بچنے کی تلقین فرمائی کہ
(أکبرالکبائر الإشراك باﷲ وعقوق الوالدین)1
''سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے ۔''
ہمیں تعلیم دی کہ ہم مہمان اور ہمسایہ کے حقوق کا اِکرام کریں ، اسی طرح صلہ رحمی کا خیال رکھیں ، فرمایا:
(من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلیُکرم جارہ)
''جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسایہ کا خیال رکھے ۔''
مزید فرمایا
(فلیُکرم ضیفه)
''اور اپنے مہمان کا خیال رکھے۔''2
اخلاق کے بارے میں فرمایا:
(البرحسن الخلق)3
''حسن اخلاق سے پیش آنانیکی ہے ۔''
سچائی کی تلقین یوں فرمائی:
(الصدق یهدي إلی البر وإن البر یھدي إلی الجنة وما یزال الرجل یصدق ویتحری الصدق حتی یکتب عند اﷲ صدیقًا) 4
''سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے،ایک آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی طلب میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔''
اور فرمایا:
(إن الصدق طمأنینة وأن الکذب ریبة)5
''بے شک سچ قلبی اطمینان ہے جبکہ جھوٹ اضطراب ہے۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے ایک بہت ہی ہمدردانہ بات بتائی اور فرمایا:(الدین النصیحة)''دین سراسر خیرخواہی ہے۔'' صحابہؓ نے استفسار کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کس کے لئے؟ فرمایا:
(ﷲ ولکتابه ولرسوله ولأئمة المسلمین وعامتھم) 6
''اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، ائمة المسلمین اور عام مسلمانوں کے لیے ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین پراستقامت کی ہدایت کی۔ سفیان ثقفیؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے اسلام کی کوئی ایسی بات بتلائیں کہ جس کے بعد میں مجھے کسی اور سے سوال کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ آپؐ نے فرمایا: (قُل آمنتُ باﷲ ثم استقم)
''اس کا اقرار کرو کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ڈٹ جاؤ۔''7
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اتحاد واتفاق اور باہمی تعاون کی تعلیم دی، فرمایا:
(المؤمن للمؤمن کالبُنیان یشد بعضه بعضا) 8
''مؤمن کے لیے مؤمن کی مثال ایک عمارت کی ہے جس کے مختلف حصے ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں ۔''
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی اور محبت کی مثال یوں ارشاد فرمائی:
(مثل المؤمنین في توادّھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد إذا اشتکی منه عضو تداعی له سائر الجسد بالسهر والحمی) 9
''مسلمان آپس میں پیار ومحبت ،رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔''
ہمیں عدل کو قائم کرنے اور ظلم سے اجتناب کی تعلیم دی ہے، فرمایا:
(اتقوا الظُّلم فإن الظلم ظلمات یوم القیامة) 10
''ظلم سے بچ جاؤ کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا۔''
اور فرمایا:
(المُقسطون یوم القیامة علی منابر من نور عن یمین الرحمن وکلتا یدیه یمین، الذین یعدلون في حکمھم ... )11
''عدل کرنے والے قیامت کے دن رحمن کی دائیں جانب نور کے منبروں پر براجمان ہوں گے اوراس کے دونوں ہاتھ ہی داہنے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں ، اہل وعیال اور اپنے فرضِ منصبی میں انصاف کرتے ہیں ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی اورفرمایا:
(لتؤدن الحقوق إلی أھلھا یوم القیامة حتی یقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء) 12
''قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حقوق دلائیں جائیں گے یہاں تک کہ بے سینگ بکری کو سینگوں والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔''
اور فرمایا:
(حق المسلم علی المسلم ست إذا لقیته فسلم علیه وإذا دعاك فأجبه وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد اﷲ فشمته، وإذا مرض فعدہ، وإذا مات فاتبعه)13
''مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں ۔ جب اسے ملے تو اسے سلام کہے، جب مسلمان دعوت دے تو اسے قبول کرے، او رجب وہ ہمدردی کا محتاج ہو توا س کی ہمدردی کرے، جب چھینک مارے (اور الحمد للہ کہے) تو اس کو (یرحمک اﷲ سے) جواب دے اور جب وہ بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کرے اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کا نمازِ جنازہ پڑھے۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے بارے بھی ہمیں رہنمائی دی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(کل سلامي من الناس صدقة کل یوم تطلع فیه الشمس یعدل بین اثنین صدقة) 14
''ہر دن سورج طلوع ہونے پر ہر انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتاہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کرنا بھی صدقہ ہے ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو آپس میں تواضع و اِنکساری کی ہدایت دی اور فرمایا:
(إن اﷲ أوحی إليّ أن تواضعوا حتی لا یفخر أحد علی أحد لا یبغي أحد علی أحد) 15
''اللہ نے میر ی طرف یہ وحی بھیجی ہے کہ تم لوگ انکساری اپناؤ۔ ایک دوسرے پر فخر نہ کرو اور نہ ایک دوسرے پر ظلم کرو۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رازوں کو اِفشا نہ کرنے اور مسلمانوں کے عیوب پر پردہ ڈالنے کی تعلیم دی، فرمایا:
( من ستَرمسلمًا ستر اﷲ علیه في الدنیا والآخرة) 16
''جس نے اپنے مسلمان کے بھائی کے عیوب پرپردہ ڈالا، اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔''
چغلی و غیبت سے پرہیز کی تلقین فرمائی اور یہ وضاحت کی کہ کسی مسلمان کے متعلق ایسی بات کہناجو اسے ناپسند ہو غیبت ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو کسی کے بارے میں کچھ الفاظ کہنے پر فرمایا:
(لقد قلتَ کلمة لو مُزِّجَتْ بمَاء البحر لمَزَجتْه) 17
''تم نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر سمندرمیں ڈال دی جائے تواس کا پانی بھی کڑوا ہوجائے۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :
(لایدخل الجنة نَمَّام)18
''چغل خو ر جنت میں داخل نہیں ہوگا۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کو گالی نہ دی جائے، لہٰذا فرمایا:
(سِباب المسلم فسوق وقتاله کفر) 19
''مسلمان کو گالی دینافسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے ۔''
جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچنے کے بارے تلقین فرمائی:
(ألا وقول الزور وشھادة الزور)20
''خبر دار !جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے بچ جاؤ ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں باخبر کیا کہ ہم مسلمانوں اور غیر مسلموں سے غدر و خیانت کے مرتکب نہ ہوں ، فرمایا:
(یُنصب لکل غادر لواء غدر یوم القیامة یقال: ھٰذہ غدرة فلان بن فلان) 21
''قیامت کے دن خیانت کرنے والے کی پیٹھ پر غدر کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلاں ابن فلاں کی غدار ی ہے ۔''
اور فرمایا:
(من قتل معاھدا لم یرح رائحة الجنة) 22
''جس شخص نے معاہد ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا ۔''
آپ نے ہمیں تنگ دستوں کو مہلت دینے اور خوشحال لوگوں کو آسانی باہم پہنچانے کی ہدایت فرمائی ہے۔اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہم ایک دوسرے سے رحمت و تعاون، تمام اخلاقی قدریں اور فضائل اعمال بیان فرما دیئے ہیں ۔
لوگو ! یہ ہے حقیقی اسلامی مساوات جو عدل کو قائم کرتی، ظلم کی سرزنش کرتی، راستوں کے پر امن ہونے کی ضمانت دیتی اور ہر حقدار کا اس کا حق عطا کرتی ہے۔
جی ہاں ! یہی وہ حقیقی اسلامی عدل ہے جو اپنی رشد و ہدایت پر مبنی اساسی تعلیمات کی وجہ سے جملہ نظام ہائے زندگی پر فائق ہے جس میں دین اور دنیا ہردو کے مفادات کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ دین و دنیا کے درمیان موافقت پیدا کرتی نہ کہ نفی کرتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَٱبْتَغِ فِيمَآ ءَاتَىٰكَ ٱللَّهُ ٱلدَّارَ ٱلْءَاخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ ٱلدُّنْيَا ۖ...﴿٧٧﴾...سورة القصص
''جو مال اللہ نے تجھے عطا کیا ہے، اس سے آخرت کا گھر بنا نے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔''
مادیت، عقیدہ کے خلاف نہیں اور نہ ہی عقیدہ مادّیت کا مخالف ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ربط اور تناسب از بس ضروری ہے، کیونکہ دین اسلام ، دین و دنیا دونوں کی اصلاح کے لئے آیا ہے۔
رحمتہ للعالمینﷺ
اُمت ِمسلمہ ! یہ ہے اسلام اور یہ ہیں اس کے حامل نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو محمد بن عبداللہ ہاشمی قرشی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے نرمی و شفقت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دی اور اُنہوں نے ہمیشہ دو مشکل راستوں میں سے گناہ سے پاک آسان راستہ اختیار کیا۔ اللہ نے اُنہیں تمام مخلوق کے لئے رسول بناکر بھیجا اور یہ وصف صرف آپ کی ذات کے ساتھ خاص کردیا۔ آپؐ فرماتے ہیں :
(وکان النبي یُبعث إلی قومه خاصة وبُعثتُ إلی الناس عامة)23
''ہر نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا گیا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے ۔''
جو ابراہیم علیہ السلام کی دعا کانتیجہ ہیں جو اُنہوں نے ان الفاظ میں کی:
رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ...﴿١٢٩﴾...سورة البقرة
''اے ہمارے ربّ!ان لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو اُنہیں تیری آیات سنائے، اُن کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے ۔''
جن کی آمد کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے خود دی:
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ٱبْنُ مَرْيَمَ يَـٰبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ ٱلتَّوْرَىٰةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُولٍ يَأْتِى مِنۢ بَعْدِى ٱسْمُهُۥٓ أَحْمَدُ...﴿٦﴾...سورة الصف
''اور یاد کرو عیسیٰ کی وہ بات جب اس نے کہا تھا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ، اپنے سے پہلے آنے والی توراة کی تصدیق کرنے والاہوں اورایک رسول کی بشارت دینے والاہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نامِ نامی 'احمد' ہوگا۔''
اللہ نے تمام انبیا سے یہ وعدہ لیا کہ اگر ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوں تو ان پر وہ ایمان لائیں گے اور سب انبیا بھی اپنی اپنی قوم سے یہ وعدہ لیتے رہے۔
وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَـٰبٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ ۚ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى ۖ قَالُوٓا أَقْرَرْنَا...﴿٨١﴾...سورة آل عمران
''اور جب اللہ نے پیغمبروں سے وعدہ لیا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازاہے، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔ پوچھا:کیا تم اس کا اِقرار کرتے ہو؟اور میری طرف سے دی گئی ذمہ داری کو قبول کرتے ہو، تواُنہوں نے کہا ہاں ! ہم اقرار کرتے ہیں ۔''
اہل کتاب اس آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح پہچانتے ہیں :
ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ يَعْرِفُونَهُۥ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَآءَهُمْ...﴿١٤٦﴾...سورة البقرة
''وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، اس (نبی)کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں ۔''
ان کی کتب ِسماویہ میں بہترین توصیف بیان ہوئی:
ٱلَّذِينَ يَتَّبِعُونَ ٱلرَّسُولَ ٱلنَّبِىَّ ٱلْأُمِّىَّ ٱلَّذِى يَجِدُونَهُۥ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَىٰهُمْ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ ٱلْخَبَـٰٓئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَٱلْأَغْلَـٰلَ ٱلَّتِى كَانَتْ عَلَيْهِمْ...﴿١٥٧﴾...سورة الاعراف
''(یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو نبی اُمی کی پیروی کریں جس کا ذکر وہ اپنی کتاب توراة اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ۔ وہ اُنہیں نیکی کا حکم کرتا اور بدی سے روکتا ہے۔ ان کے لیے طیبات حلال کرتا اور خبیث چیزیں حرام ٹھہراتا ہے اور اُن پر لدے ہوئے بوجھ اُتارتا ہے ۔''
یہ ہیں نبی ٔ باوصف صلی اللہ علیہ وسلم اور افسوس اس شخص پر جس نے ان کے راستے سے روگردانی کی اور تف ہے اس پر جس نے اُنؐ کی ذات اور سنت کا تمسخر اُڑایا۔ یقینا ایسے بد اعمال کے مرتکب خائب و خاسر ہوگئے اور اُن کے ہاتھ ٹوٹ گئے جس طرح ابولہب کے دونوں ہاتھ برباد ہوئے۔
'اسلام'... دین رحمت وسہولت
اُمت ِاسلام ! دین اسلام وہ دین ہے جس میں ہر طرح کی آسانیاں رکھ دی گئیں ہے جوخالص، سچی اور خیرخواہی کا داعی ہے اور فطرت کے عین موافق ہے جو کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا :
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا...﴿٢٨٦﴾...سورة البقرة
''اللہ کسی جان پر اس کی قدرت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔''
اور آسانی کا یہ وصف اسلام کے ہر شعبہ، عقیدہ، عبادت اور معاملات میں پایا جاتا ہے۔ اسلامی عقیدہ کو سمجھنا بالکل آسان ہے جو فلاسفہ و متکلمین کی پیچیدگیوں اور اہلِ قبور کی خرافات سے منزہ ہے۔ جبرائیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور اسلام، ایمان اور احسان کے متعلق بتلاتے ہیں ان کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ
(فإنه جبریل أتاکم یعلمکم دینکم)24
''یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے آئے تھے ۔''
ارشادِ باری ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾...سورة الذاریات
''میں نے جن وانس کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔''
اسی طرح ہماری عبادات میں بھی آسانی واضح ہے۔ دیکھئے! نماز کے لئے وضو شرط ہے، لیکن پانی کی عدم دستیابی کے وقت تیمم کو اس کے قائم مقام قرار دیا گیا۔ نماز کھڑے ہوکر پڑھی جاتی ہے، اگر کوئی معذور ہوتو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے، بیٹھنے سے عاجز ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لے۔ اگر اس سے بھی قاصر ہو تو چت لیٹ کر نماز ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح شریعت نے سفر میں چار رکعت والی نمازوں میں قصر کی بخشش اور کسی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت عنایت فرمائی۔
مسلمان بھائیو!شریعت نے ہمارے معاملات میں بھی آسانیاں مرحمت فرمائی ہیں ۔ اکثر چیزیں ہمارے لئے مباح کردیں :
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ...﴿١٣﴾...سورة الجاثیہ
''اور اس (اللہ) نے تمہارے لیے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے ۔''
معاملات میں ہمارے لئے حلت کو اصل قرار دیا جبکہ ظلم، دھوکہ اور جہالت کو حرام ٹھہرایا۔ یقینا شریعت ِاسلام، اگر کوئی غور کرے، آسانیاں بہم پہنچانے والی شریعت ہے اور اللہ کا منشا بھی یہی ہے کہ ہم ا س کی دی ہوئی رخصتوں کو قبول کریں ۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(إن اﷲ یحب أن یؤتی رُخَصه کما یَکرہ أن تؤتی معصیته) 25
''اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی عطا کردہ رخصتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جس طرح اسے یہ امر انتہائی ناپسند ہے کہ اس کی معصیت سے اجتناب کیا جائے۔''
اور یہی وجہ ہے کہ معذور اور بھولنے والے پر گناہ ساقط کردیا گیا ہے۔ اور مؤمنین کی دعا کو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا...﴿٢٨٦﴾...سورة البقرة
''اے ہمارے ربّ !ہم سے بھول چوک میں سرزد ہونے والی لغزشوں کا مؤاخذہ نہ کرنا۔''
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إن اﷲ تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استُکرھوا علیه)
''بے شک اللہ نے میری امت سے بھول اور مجبوری میں کیے جانے والے گناہوں کو ساقط کردیا ہے ۔'' 26
اللہ تعالیٰ نے ہم سے ہماری طاقت سے زائد بوجھ ہلکے کردیئے ہیں ۔ قرآن میں مؤمنین کا قول ہے:
رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦ...﴿٢٨٦﴾...سورة البقرة
''اے ہمارے ربّ!ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔جس بوجھ کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ، وہ ہم پر نہ ڈال۔''
نبی ٔرحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إن ھذا الدین یُسر ولن یشاد الدین أحد إلا غلبه) 27
'' یہ دین سہل وآسان ہے اور اس دین میں کوئی شخص بھی شدت اختیار نہیں کرتا مگر آخر یہ دین اس کو مغلوب کرلیتا ہے۔''
اُمت ِمسلمہ ! اسلام پانچ ضروریات کی حفاظت کے لئے آیا ہے جن میں دین، جان، مال،عقل اور عزت شامل ہیں ۔ اگرچہ اس نصب العین کی تائید پہلی شریعتوں میں بھی موجود ہے لیکن شریعت ِاسلامی نے ایسا کامل و عادل ضابطہ حیات دیا ہے، جس میں نہ صرف ایک فرد پر ہونے والی زیادتی کا مداوا کیا گیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے اس کے اندر پورا منظم نظام موجود ہے۔
بھائیو! آج ہمارے کانوں میں مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ حدود قائم کرنا سنگدلی اور وحشیانہ عمل ہے تو کوئی ان سزاؤں کے ردّ میں حقوقِ انسانی اور انسانیت کے نعرے اَلاپتا نظر آتا ہے۔ یقینا ان نکتہ چینوں کے پاس ایک مظلوم فرد کے مداواے دکھ کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے اوریہ کسی ایسی صلاحیت سے بالکل تہی دامن ہیں ۔ اُنہوں نے اُمت مسلمہ کی امن و سلامتی کی صورتحال کا کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔
ان سے پوچھئے کہ یہ سب لوگ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب ہزاروں نہیں ، لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتاہے اور جس وقت کسی قو م کوغلام بناکران کا استیصال کیا جاتا ہے اور ان کے وقار کو بلا جرم خاک میں ملایا جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب اُمت، اقوام اور علاقوں کی قسمت کے فیصلے کئے جاتے ہیں تاکہ اُمت کے درمیان دین، زبان، قرب اور ہر طرح کا رابطہ ختم کردیا جائے یقینا یہ ظلم واستبداد اور بربریت کی بدترین صورت ہے۔
مسلمانو! یہ لوگ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب اُمت ِمسلمہ کی تذلیل کرنے، اسے ہراساں کرنے اور ان کی عسکری قوت کا جائزہ لینے کے لئے اسلامی خطوں میں اسلحہ کی سمگلنگ کے محاذ کھولے جاتے ہیں اور جب اسلامی ممالک میں نظریاتی و سیاسی میدان سجائے جاتے ہیں اور ان کے تحقیقی مراکز میں سطحی معلومات کو رواج دیا جاتاہے۔
اے اغیار سے دوستی کے ہاتھ بڑھانے والو! اللہ سے ڈر جاؤ کہیں تم اُمت پر استبداد مسلط کرنے اور اس کے وقار و اختیار کی دھجیاں اُڑانے والوں کے آلہ کار نہ بن جانا۔
اسلام کا نظامِ عقوبات
اے دانشورانِ عالم ! شریعت نے عقوبات کی صورت میں ایک قوی نظامِ عدل قائم کیا ہے۔ اسلام میں قتل صرف قبیح ترین جرائم میں روا رکھا گیا ہے اور وہ ہے:قتل عدوان کی صورت میں ،شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کے ارتکاب پر، مرتد ہوجانے پر اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجانے پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لایحل دم امریٔ مسلم یشھد أن لا إله إلا اﷲ وأني رسول اﷲ إلا بـإحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزاني والتارك لدینه المفارق للجماعة)28
''اللہ کے وحدانیت اور میری رسالت کی شہادت دینے والے کا خون تین صورتوں کے علاوہ مباح نہیں :قتل کے بدلے قتل،شادی شدہ زانی اور جماعت سے الگ ہونے والا ۔''
قاتل کو ظلم و عدوان سے قتل کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے تاکہ انسانیت کو اطمینان حاصل ہوسکے۔ قرآن کریم میں ہے:
وَلَكُمْ فِى ٱلْقِصَاصِ حَيَوٰةٌ يَـٰٓأُولِى ٱلْأَلْبَـٰبِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿١٧٩﴾...سورة البقرة
''اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ اُمید ہے تم اس کی خلاف ورزی سے گریز کروگے۔''
مجرم پر رحم کرنے کی باتیں کرنے والے درحقیقت متاثرہ افراد کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔
شادی شدہ زانی، زناجیسے قبیح جرم کی پاداش میں سنگساری کے ذریعے قتل کردیا جاتا ہے اور یہ اس سے پہلے کی شریعتوں میں بھی رائج تھا۔
اسی طرح مرتد کی سزا بھی قتل ہے، کیونکہ وہ اپنی رضا اور اختیار سے اس دین میں داخل ہوا تھا ۔ حدیث ِنبویؐ ہے:
(ومن بدَّل دینه فاقتلوہ) 29
''جو اپنا دین بدل دے، اسے قتل کردو۔''
اور اگر یہ عقوبت ترک کردی جائے تو لوگوں کے اسلام سے روگردانی کرنے کی وجہ سے زندقہ و الحاد کا دروازہ کھل جائے گا۔نظام میں رکاوٹ ڈالنے والے اور خلیفہ کے مقابلہ میں نئی جماعت تیار کرنے والے کو اس لئے قتل کیا جائے گا کہ اس نے اس فعل کا ارتکاب کرکے فتنہ وفساد برپا کردیا۔لوگوں کے اَموال کی حفاظت کے لئے چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں ۔ اسی طرح نشہ آور اشیا استعمال کرنے والے پر اس لئے حد لگائی جاتی ہے تاکہ وہ عقل و فکر کو نقصان پہنچانے والی ان چیزوں کے استعمال کو چھوڑ دے۔
مسلمانو! کہاں ہیں وہ لوگ جو پوری دنیا پر اپنا تسلط چاہتے ہیں ۔ وہ زمین پر فتنہ و فساد کا بازار گرم رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور ایسے قوانین اور انجمنیں تشکیل دیتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے مجرموں کو تحفظ دیا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِۦ كَمَن زُيِّنَ لَهُۥ سُوٓءُ عَمَلِهِۦ وَٱتَّبَعُوٓاأَهْوَآءَهُم ﴿١٤﴾...سورة محمد
''بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ جو اپنے ربّ کی طرف سے صریح ہدایت پر ہو،وہ ان لوگوں کی طرح ہو جائے جن کے لیے برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چل نکلے ہیں ۔''
مسلمانوں کی حالت زار اور اِصلاح اَحوال
اُمت ِمسلمہ ! مال زندگی کے اُمور کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ زمین کو آباد کیا جاسکتا ہے، معاشروں کو مضبوط کرنے کے لئے مال کا کردار بڑا اہم ہے۔یہ اَشیا کے تبادلے،کرنسی اور مزدوری کی اُجرت کے لیے بہت ضروری ہے ۔
فی زمانہ اقتصاد اور مال بذاتِ خود ایک مستقل علم بن چکا ہے جس میں افراد اور جماعتوں کی ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ بات ہے کہ معاشیات اس وقت ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جس کے ذریعے قوموں کو زیر کیا جاتا ہے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ کتنی ہی قومیں ہیں کہ جب ان کو اقتصادی مشکلیں ختم کرنے کا لالچ دیا گیا تو اُنہوں نے پالیسیوں کو بدل لیا اور اپنی قوم کے مقاصد کو پس پشت ڈال دیا۔
مسلمانانِ اسلام ! اللہ کے واسطے بیدار جاؤ! دیکھو تمہارے اسلامی ممالک میں خود معدنیات کے ذخائر موجود ہیں ۔ کیا ہم ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے؟ کیا کوئی اسلامی منڈی اس منافع بخش تبادلہ کا اہتمام کررہی ہے؟ اور کیا اس وقت کسی کے پاس کوئی ایسی اقتصادی منصوبہ بندی ہے جو سودسے پاک ہو؟ اب غفلت کی چادر اُتار پھینکو! قبل اس کے کہ سودی بینک تم پر ٹوٹ پڑیں اور تمہارے معاملات ان ہاتھوں میں دے دیں جن کو تمہاری حفاظت و سلامتی سے کوئی سروکار نہیں ۔
اے مسلمان حکمرانو! آج مسلمانانِ اسلام انتہائی نازک حالات سے دوچار ہیں مسلمان جس قدر آ ج مظلوم وکمزور ہیں ، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ان پر ہرطرف سے دشمن کی یلغار ہو رہی ہے اور ہمارے لیے ازبس ضروری ہے کہ ہم اپنے دین پر تمسک اختیار کرتے ہوئے اپنے درمیان اتحاد قائم کریں ۔ وہ لوگ قومی خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں جو اپنے شخصی مفادات کو امت کے اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے اتحاد میں پیش قدمی نہیں کرتے۔یہ لوگ اَغیار سے گٹھ جوڑ اور معاہدے کرتے پھرتے ہیں ۔ یہی لوگ دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے علاقوں کے خلاف اوراپنے عقیدہ کے خلاف سازشیں بنتے ہیں اور یہ لوگ ان سے مل کر علاقوں پر قبضہ کرتے،ان پر پیش قدمی کرتے ہیں اور اُنہیں کمزور اور زیر کرنے کے کی کوششوں میں رہتے ہیں ۔
اُمت ِمسلمہ! اپنے حالات کا جائز ہ لیجیے، مسلمان آج کمزور پوزیشن میں ہیں ۔ وہ تفرقہ جیسی کمزوریوں میں مبتلا ہو چکے، ان کی شان وشوکت مٹ گئی اور رعب ودبدبہ اُٹھ چکا ۔لیکن افسوس مسلمانوں کی اپنی صورتِ حال اس پستی کا شکار ہے کہ قبروں پر تعمیرات کی جار ہی ہیں اور انہیں زیارت گاہوں کا درجہ دیا جا رہا ہے۔کوئی ان قبروں کا طواف کر رہا ہے تو دوسرا صاحب ِقبر سے فریاد کناں ہے اور کوئی ان سے اللہ سے ڈرنے کی طرح خوف کھا رہا ہے اور ان سے حاجات طلب کی جارہی ہیں ۔یہ افعالِ شنیعہ اس طرح بجالائے جا رہے ہیں گویا یہ لوگ اپنے حقیقی ربّ اور خالق کو پہچانتے تک نہیں ۔یہ سب جہالت و گمراہی کے کا م ہیں ۔ یقینا مسلمانوں کایہ فرض ہے کہ وہ ان گمراہیوں کے تدارک کا سوچیں تاکہ مسلمانوں کارخ توحید خالص کی طرف موڑا جا سکے۔ بے شک دعا واستغاثہ صرف اللہ ہی سے کیا جا سکتاہے
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ...﴿٦٠﴾...سورة الغافر
''تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔''
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ...﴿٩﴾...سورة الانفال
''جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، تو اس نے تمہاری فریاد رسی کی۔''
مسلمان بھائیو! ذرا ہوش کرو۔ اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے ہی انسان تھے:
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوالَكُمْ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ ﴿١٩٤﴾...سورة الاعراف
''جولوگ جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ، وہ دوسرے بھی تمہاری طرح کے ہی انسان ہیں ۔ جائو ان سے دعائیں مانگ دیکھو، کیا تمہاری پکار کا وہ جواب دیتے ہیں ، اگر تم سچے ہو۔''
اورحالانکہ یہ لوگ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے کہ ان سے مانگا جائے وہ تو خود ایک مخلوق ہیں ، نہ کہ خالق اور وہ خود ربّ کے محتاج ہیں نہ کہ ربّ!
بھائیو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو اور اللہ کی توحید ِخالص کو اَپنا لو، یہی ایک راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے اللہ کی مدد ونصرت کاحقدار بنا جا سکتا ہے ۔
اُمت ِمسلمہ! اگرچہ اس وقت مسلمانوں کے ممالک ایک دوسرے سے دوری پر ہیں ، لیکن وہ سب ایک ہی وطن کی حیثیت رکھتے ہیں ، کیونکہ مسلمان آپس میں ایک جسد کی مانند ہیں کہ اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف وبے قراری میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔مغربی مسلمان ہماری طرف اپنے وفد بھیجتے ہیں اور مسلمان اپنے دین اور علاقوں کے وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی بھی پوری پوری حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو قطعاً پسند نہیں کرتے۔ یہ ہے مسلمانی کا حق؛ وطن سے ایسی محبت فطرت اور دین کا تقاضا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالا گیاتو آپ ؐنے فرمایا تھا :
(لولا إن قومي أخرجوني منك ما سکنت غیرك) 30
''اے مکہ!اگر میر ی قوم تجھ سے مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں سکونت اختیار نہ کرتا۔''
اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ممالک میں بہت سی خیر موجود ہے۔ دین کا غلبہ اور امن وامان قائم ہے۔ خوردنی اشیا کی فراوانی ہے۔ ہم اپنے اس عظیم شہر سے محبت کرتے ہیں ، کیونکہ اس میں توحید کا مکمل غلبہ ہے اور اس کے حکمران شریعت کو لاگو کرنے والے،قران کی عظمت کو منوانے والے اور دین کے مددگار ہیں ۔ وفقهم اﷲ لما یحبه ویرضاہ !
اُمت ِمسلمہ ! آج اس بلد،حکومت اور وطن کے خلاف حسد وعنا د پر مشتمل باتیں سنی جارہی ہیں ۔یقینا یہ لوگ ہمارے دین اور امن وامان سے خار کھاتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں صف بستہ نہیں دیکھنا چاہتے اور ہمار ی بیش بہا معدنیات اُنہیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں اور ہمار ی ترقی کے تمام اُمور ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں اور ان کی بربادی کے لیے وہ مسلسل سازشیں بنتے رہتے ہیں جس کے لیے وہ دھوکے سے نافہم اور کم عقل نوجوانوں کے لشکر تیار کرتے ہیں جنہیں مسلمانوں کے علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ تکفیر،قتل اور دہشت گردی پھیلائیں اوراس کے پس پردہ اغراض یہی ہوتے ہیں کہ مسلمان عوام اور ان کے قائدین کو ہراساں کیا جائے ۔
دوسری طرف آئے دن عالم اسلام میں دہشت گردوں کے دھماکوں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں اور یہ انتہائی گمبھیر اورخطرناک صورتحال ہے ۔ہر مسلمان ایسی کاروائیوں کو ردّ کر چکاہے۔ آئے دن خبریں سننے کو ملتی ہیں ، جن میں معصوم جانیں دھماکوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔ یہ سراسر ظلم ہے، جس سے ہم براء ت کا اعلان کرتے ہیں ۔ اور ان کاروائیوں میں ملوث اپنے بھائیوں کو واسطہ دیتے ہیں کہ و ہ راہِ راست پر آجائیں ، جذباتی طرزِ عمل اور بیمار پراگندہ عقلیں کہیں اُنہیں ورغلا نہ لیں ۔کیونکہ وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ اُمت ِمسلمہ کے افراد کو ایک دوسرے کے خلاف اُبھارا جائے اور پھر یہ عناصر اسلامی دنیا میں ایسی باتیں پھیلاتے ہیں جن سے اُمت میں افراتفری اور انتشار پھیلے اوریہ قوتیں اَفراد اور گروپوں کو ان کی قیادت کی بغاوت کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ اُمت مسلمہ داخلی طور پر ہمیشہ خلفشار کا شکار ہے ۔
میرے بھائی! ان اقدامات کا آخر کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے ؟یقینا ہمار ا دشمن ہی اس سے فائدہ اُٹھارہا ہے اور ہم ان تمام لوگوں کے غم مں برابر کے شریک ہیں جن کو ایسے دہشت گردانہ مسائل درپیش ہیں ۔یقینا یہ بدترین مصائب ہیں جس کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ باہم ایک دوسرے کی معاونت کی جائے اور تعاون کی تمام ترکوششوں کو یقینی بنایا جائے تاکہ اس مصیبت سے گلو خلاصی ہو۔ دہشت گردی ایک ایسا خطرناک جرثومہ ہے جس کے اثر انداز ہونے کامآل خلفشار،انتشار اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی جماعتیں دہشت گردی سے جان چھڑائیں اور اس کے تدارک کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کریں ۔
نوجوانو! تم اپنی قوم اور علاقوں میں بربادی کے لیے استعمال کئے جانے سے بچ جاؤ ۔ذرا سوچو! اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟ان کے اشاروں پر چلتے ہوئے تم ایسے ایجنٹ تلاش کرتے ہو جو اُن کے لیے خبر رسانی کا کام کر سکیں اور تم یہ کام اُن کے ہاں سرخرو ہونے کے لیے کرتے ہو۔ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ سے استقامت طلب کریں اور اللہ ہی سے ہر بھلائی کے لیے تعاون مانگیں ۔
اُمت ِمسلمہ کے ذمہ دار عناصر کو یاد دہانی
اے مسلم حکمرانو! میں آپ کو اپنے عوام کے بارے اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتاہوں ۔ اُنہیں کتاب وسنت کی تعلیمات پر آمادہ کیجیے ۔ان کے درمیان اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کیجیے۔ عدل قائم کریں اور اپنے علاقوں کی ذمہ داری کو محسوس کیجیے، فرمان نبوی ہے :
(اللهم من وَلِيَ من أمر أمتي شیئا فَشَقَّ علیهم فَاشْقُقْ ومن ولي من أمر أمتي شیئا فَرَفِقَ بهم فَارْفُقْ به) 31
'' اے اللہ! جو شخص میری اُمت کے کسی معاملے کا نگہبان بنے اور ان سے سختی کا برتائو کرے تو تو بھی اس سے سخت روی سے پیش آ اور جو میری اُمت کا ذمہ دار ہوکر نرمی کا رویہ اختیار کرے، تو تو بھی اس سے نرم ہوجا۔''
علماے اسلام! علم کا نور حاصل ہونے پر اللہ کا شکر بجا لاؤ، تم ہی حقیقی طور پر انبیا کے وارث ہو، اس علم کی بدولت اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ۔اس سچے علم کو زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ تاکہ جہالت ونفاق ختم ہو سکے اور جس طرح تم نے اسے اپنے سلف سے لیا، اسی طرح بدعات وشبہات سے پاک،کمی وزیادتی سے مبرااور صاف ستھرا علم اپنے بعد والوں تک پہنچاؤ ۔
مفتیانِ اسلام ! حج اور دوسرے معاملات میں فتویٰ دیتے ہوئے اپنے منصب کاخیال کیجیے۔ اس شہر میں حج کے لیے آنے والے بھائیوں میں کچھ لوگ سختیوں کو برداشت کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ کچھ پابندیوں کے عادی نہیں ہوتے۔ اُنہیں کتاب وسنت کی اتباع پر آمادہ کیجیے اور حج کے دوران بے بنیاد تشدداختیار کرنے سے منع کیا کریں ۔ اسی طرح اُنہیں تنبیہ کی جائے کہ وہ حج کے اَرکان ادا کرتے ہوئے مسائل میں اپنی مرضی اور پسند سے ایسے کام نہ کریں جن کا سنت ِصحیحہ سے دور کا واسطہ بھی نہ ہو۔
داعیان الی اللہ ! اپنی ذمہ داری کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا قبلہ درست رکھیے۔ زمانہ کی چکا چوند کہیں تمہیں راہِ راست سے بھٹکا نہ دے اور کسی مقلد اور مفتی کے پیچھے بغیر دلیل کے مت چلو، اتباع کے لائق صرف اصل راستہ اور منہج کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ ہے ۔
اے قوم کے مربیو! ہمارے بچے اور بچیوں کی تربیت تمہار ے پاس امانت ہے۔ ان نونہالوں کی عقلیں اور دل تمہارے مرہونِ منت ہیں ۔اللہ سے ڈرتے ہوئے ان کی اصلاح کرو اور اُنہیں ایسے نہج پر تعلیم سے آراستہ کرو جو اُنہیں ان کے تابندہ ماضی سے جوڑ دے اوراُنہیں علم نافع سے مسلح کردو تاکہ وہ مستقبل میں روشنی کے مینار بنیں ۔
ذمہ دارانِ میڈیا! آج کے دور میں میڈیا تمہارا سب سے بڑا ہتھیا ر ہے۔ اسلام کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع کے لیے اس کا استعمال کرو تاکہ اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت کو فروغ حاصل ہو۔ میڈیا پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کو مشکوک بنانے والے اور حیا باختہ مواد کو شائع نہ کرے۔ ہمارے ٹی وی چینلوں کو چاہیے کہ وہ اخلاقِ اسلامیہ اور اسلام کے فضائل کی تبلیغ کرتے نظر آئیں ، نہ کہ اخلاقیات سے عاری خرافات پیش کرنے والے اور اختلاف وافتراق کو ہوا دینے والے پروگرام ان کے پردہ سکرین پر ہروقت موجود رہیں ۔میڈیا کے ایسے اقدامات اُمت کے مقاصد اور مسلّمات میں شکوک کا باعث بنتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تحقیقی مقالوں ،پروگراموں اور میڈیا پر شائع ہونے والی ہر بات میں اسلامی اقدار کو ملحوظ رکھیں ، کیونکہ ہر کوئی اللہ کے ہاں اپنی ہر بات کا جوابدہ ہوگا،اللہ فرماتے ہیں :
مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿١٨﴾...سورة ق
''(انسان کا)کوئی ایسا لفظ نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔''
اے نوجوانانِ اسلام ! تمہاری جوانی اُمت کے لیے باعث ِقوت وعزت ہے۔ اہل اسلام کی اُمیدیں تم سے وابستہ ہیں ۔ دیکھو! کہیں مایوس نہ کردینا۔ اللہ سے ڈر جاؤ، ایمان، تقویٰ اور علم وعمل صالح کو اپناؤ اور کہیں دشمن اپنے مقاصد کے لیے تمہیں استعمال نہ کرپائے۔ کسی کی دعوت پہ لبیک کہنے سے پہلے ضرور دیکھ لو کہ بلانے والا کیسے سیرت واخلاق کا حامل ہے اور اس کی دعوت کا مقصد کیا ہے؟ لوگوں میں کتنے ہی لوگ مختلف روپ دھارے بیٹھے ہوئے ہیں اور کتنے ہی لوگ ہیں جو بظاہر حق کا پرچار کرتے دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ان کے باطل ہونے کو اللہ خوب جانتا ہے اور کتنے ہی ایسے داعی ہیں جو سچ کا لبادہ اوڑھے، دھوکے سے گمراہی کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں تاکہ اُمت ِمسلمہ کو نقصان پہنچایا جائے ۔
نوجوانو !سنبھل جاؤ فکر تدبر سے کام لو تاکہ اس عظیم نقصان سے بچ جاؤ...!
اے مسلمان بیٹیو ! تم بخوبی جانتی ہو کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد بلاد ِکفر میں تمہاری کیا حیثیت تھی اور تمہں یہ بھی معلوم ہوگا کہ عورت نے اسلام سے کیا کیا فوائد حاصل کئے؟
کیا عورت کے جسم کو جذباتی تسکین اور متاعِ محض نہیں سمجھا جاتا تھا؟اس کے ازدواجی وخاندانی حقوق سلب کر دیے گئے تھے۔ لیکن اسلام نے اسے اپنے دامنِ عزت میں جگہ دی اور اس کے حقوق کی حفاظت کی۔ اللہ سے ڈر جاؤ، اسلام پر پابندی اختیار کرو، عفت وعصمت کے تحفظ اور حجاب کے معاملہ میں سختی برتو۔ اورکہیں منافقین وملحدین کے دامِ فریب میں نہ آجانا۔ وہ تمہاری ساکھ اور اخلاق کو داغدار کرنا اور تمہاری بربادی وتباہی کا سامان چاہتے ہیں ۔
مسلمان تاجرو !مسلمانوں کے بارے میں اللہ سے ڈر جاؤ۔ حلال طریقوں سے مال کماؤ اور حلال جگہ پر ہی خر چ کرو۔اپنے بھائیوں سے نرمی کا معاملہ کرو، سختی نہ کرو۔ تنگدست کو آسانی فراہم کرو، زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو گے تو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔
اے حی قیوم ذات،اے رحمن و رحیم ربّ !ہمیں اپنے عذاب سے چھٹکارا عطا فرما دے ۔ اے ربّ العالمین !ہماری لغزشوں سے در گزر فرما۔اللہ !تیرے یہ بندے آج کے عظیم دن اور عظیم مقام پر جمع ہو کر تیرے سامنے اپنی محتاجی،فقیری اور عجزو انکساری کا اعتراف کرتے ہوئے تیری رحمت کا سوال کرتے ہیں ۔ اے اللہ! ہمارے گناہوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اپنی مغفرت سے ہمیں نواز دے۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخش اور شرک ومشرکین کو ذلیل ورسوا فرما۔
اے اللہ ! اپنے موحد بندوں کی مغفرت فرما اور دین کے دشمنوں کو نابود کردے۔ اے اللہ! مسلمانوں کو خیر پر متحد کردے اُنہیں عزت عطا فرما۔ ان کی کمزوریوں کو قوت میں بدل دے،ان کی بکھری ہوئی جماعتوں کو خیر پر مجتمع کردے۔
اے ہمارے ربّ! ہمیں اور ہمارے ان مؤمن بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے گزر چکے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے بغض نہ ڈالنا،بے شک تو رؤف رحیم ہے۔
حوالہ جات
1. صحیح بخاری:527، 6919
2. صحیح بخاری :6019
3. صحیح مسلم:2553
4. صحیح مسلم :2607
5. سنن ترمذی:2518
6. صحیح مسلم :55
7. مسند احمد:3؍413
8. صحیح بخاری :2446
9. صحیح مسلم :2586
10. صحیح مسلم :2578
11. صحیح ابن حبان :4485
12. مسلم :2582
13. صحیح مسلم :2162
14. صحیح بخاری:2989
15. صحیح مسلم :2865
16. ابن ماجہ :2544
17. ابو داؤد:4875
18. صحیح مسلم :105
19. صحیح بخاری:48
20. صحیح بخاری :5976
21. صحیح مسلم :1735،1736
22. صحیح بخاری:3166
23. صحیح بخاری:335
24. صحیح مسلم:8
25. صحیح ابن حبان:2742
26. سنن ابن ماجہ:2043
27. صحیح بخاری :39
28. صحیح بخاری :6878
29. صحیح بخاری:3017
30. سنن ترمذی :3926
31. صحیح مسلم:1828