اسلام اور جمہوریت میں تصور ِاہلیت

آج پانچ برس گزرنے کے بعد پاکستانی قوم ایک بار پھر انتخابات کے اہم ترین قومی مرحلے کا سامنا کررہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کے یہ انتخاب جہاں ایک طرف انتہائی متنازعہ حیثیت کے حامل ہیں ، شکوک وشبہات اور وسوسوں ،اندیشوں کے مہیب سائے پھیلے ہوئے ہیں وہاں اس کے نتائج بھی نوشتہ دیوار کی طرح ثبت ہیں ۔ اس کے باوجود خواہی نخواہی ہر آنے والا دن انتخابات کی طرف ہمارے قدم بڑھا رہا ہے۔ ان انتخابات کے لئے سیاسی رہنمائوں کی سرکردگی میں قوم نے کئی سالوں سے مطالبے اور ہڑتالیں کی ہیں اور سیاسی لیڈر قوم کو یہ تاثر دینے میں پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں کہ وہ ہر آنے والی نئی حکومت سے اپنی شمعِ اُمید وابستہ کرلے۔ لیکن کتنے ہی مراحلِ انتخاب سے، جوسیاسی جماعتوں کے لئے وصالِ محبوب کی سی حیثیت رکھتے ہیں ، گزرنے کے باوجود آج بھی پاکستانی قوم نہ صرف بدامنی، بدحالی، بے انصافی اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل سے بری طرح دوچار ہے بلکہ دنیا کی کرپٹ ترین، غیرمنظم، انتہا پسند،باہم منقسم اور غیر محفوظ قوم ہونے کے 'اعزازات' بھی پاچکی ہے۔

آمریت کے زیر سایہ 8 برسوں کے دوران ہمارے ہاں جمہوریت کا صور اس شدت سے پھونکا گیا ہے کہ پاکستان کے شہری اب حقیقی جمہوریت کو بھی حسین خواب تصور کرتے ہیں ۔ ہر قومی لیڈر جمہوریت کے نام کی یوں مالا جپتا نظر آتا ہے گویا یہ کوئی جنت ِگم گشتہ اور پاکستانی قوم کے دکھوں کا حقیقی درماں ہو۔ یوں تو ان حالات میں جمہوریت کے تقاضے پورے ہونا بھی ناممکن نظر آتا ہے لیکن بالفرض اگر جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ پانے کی ہم 'سعادت' حاصل کر بھی لیں تو کیا اس سے ہمارے ملکی و ملی مسائل میں کمی واقع ہونے کا کوئی امکان موجود ہے؟ یہی سوال زیر نظر تحریر کا موضوع ہے کہ سیاسی میدان میں ہماری وہ کونسی ایسی لغزشیں ہیں جن کی بنا پر اسلامی ریاست بنانے اور اسلامی معاشرہ قائم کرنے کا خواب ابھی تک شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔

آمریت اور جبر واستبداد کو تو جدید دنیا کا اجتماعی ضمیر اب ردّ کرچکا ہے، اور میدانِ سیاست میں اسے جاہلیت کی ایک مذموم روایت سے زیادہ کوئی حیثیت حاصل نہیں رہی، اور فی الوقت جمہوریت کو ایک بہترین اور مثالی طرزِ حکومت باور کیا جاتا ہے لیکن ہماری نظر میں جمہوریت یا 'سلطانی ٔ جمہور' سے صبح نو کی اُمید وابستہ کرلینا بھی ایک سراب سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستان کے مرکزی شہروں میں جمہوریت کے نام پر جوسیاسی نقشہ اور مستقبل کا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے، وہ بھی ایک دردمند اور محب ِدین وملت فرد کو مزید رنج والم اورپریشانیوں کا شکار کردینے کے لئے کافی ہے۔

الحمد للہ پاکستان کے اکثریتی باشندے مسلمان ہیں اور قرآن وسنت ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہے۔ قرآن وسنت پر ایمان اور اس کو زیر مطالعہ رکھنے والا مسلمان جس سیاسی ڈھانچے اور اجتماعی نظام سے مانوس ہوتا ہے، اس کی جانب کوئی سنجیدہ پیش قدمی دور دور تک پاکستان کے اسلامی معاشرے میں ناپید نظر آتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسلام تو درکنار تحریک ِپاکستان کے نامور قائدین کے فرمودات کو بھی پوری قوم پسِ پشت ڈال چکی ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسلمان ایک بہترین سیاسی نظام کے حامل ہوتے ہوئے بھی اَغیار سے فکری بھیک مانگنے کا رویہ اپنانے پر قانع ہوئے بیٹھے ہیں ۔

ہمارے موجودہ سیاسی منظرنامے میں ہم کن پہلوؤں سے کوتاہی کا شکار ہیں ، اس کی نشاندہی کرنا اہل فکر ونظرکا فرض ہے ، تاکہ حق کا پیغام اور اللہ کی حجت پوری ہوتی رہے۔ جہاں تک عملی کوتاہی کا تعلق ہے تو اسے مجبوری اور اضطرار تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ لیکن جب یہ عملی کوتاہی اعتقاد و نظریے کی شکل اختیار کرجائے تو پھر قوموں کی واپسی انتہائی مشکل ہوجایا کرتی ہے۔ ان حالات میں کتاب و سنت سے منور شدہ نظام کو ہی ہمیں پیش نظررکھنا ہوگا اور یہی ایک مسلمان کا سرمایۂ حیات ہے!

اسلام اور جمہوریت میں کئی پہلوئوں سے اساسی اور جوہری فرق پایا جاتاہے۔ چونکہ آج کل ہمیں انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے، اس لحاظ سے ہم یہاں اسی مناسبت سے چند بنیادی پہلووں کا تقابلی جائزہ پیش کریں گے:

اسلام کاتصور ِاہلیت اور مقصد ِحکومت
اسلام کا سیاسی نظریہ دراصل اللہ کی حاکمیت ِاعلیٰ کا مظہر اتم ہے۔ اللہ کی یہ حاکمیت ِمطلقہ ہمارے دستور کی طرح محض ایک لفظی عیاشی نہیں بلکہ ایک بڑی زمینی حقیقت کی حامل ہیجس سے اسلام کے نظامِ سیاست اور دیگر نظام ہاے سیاست میں بنیادی نوعیت کے فرق واقع ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کی حاکمیت جس پر قرآن وسنت کی بے شمار آیات واحادیث شاہد ِعدل(i) ہیں ، اسلام کے سیاسی ڈھانچے کی ایک بالکل جداگانہ صورت گری پر منتج ہوتی ہے۔

اس کے باوجود ہمارے ہاں بعض لوگوں کے نزدیک اللہ کی حاکمیت یا اقتدارِ اعلیٰ کا محضلفظی اقرار کرلینا اور اسے سرفہرست درج کرلینا ہی کافی ہے جیساکہ ہمارے قانون دانوں یا اقتدار پر فائز طبقوں کا رویہ ہے۔ یا بعض دانشور اللہ کی اس حاکمیت کے نظریے کو بحیثیت ِمجموعی 'انسانوں کی خلافت' قرار دیتے ہوئے اُنہیں یہ حاکمیت منتقل کرکے اس مرکزی تصور سے گریزکی راہیں تلاش کرتے رہے ہیں جبکہ مذکورہ بالا دونوں طریقوں سے اسلام کے سیاسی نظریہ کی حقیقی روح مجروح ہوکر رہ جاتی ہے۔

اللہ کی حاکمیت سے مراد ایک طرف اللہ کی شریعت کی حاکمیت ِمطلقہ ہے، تودوسری طرف اس کا مدعا اس شریعت کے نفاذ کے لئے ایسے افراد کا مناصب ِحکومت پرسرفراز ہونا ہے جو اللہ کی حاکمیت اور شریعت کو نہ صرف اپنی ذات پر، بلکہ تمام انسانوں پر نافذکرنے کی کامل و اتم صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ۔ اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی زیر نظر آیت اساسیحیثیت رکھتی ہے جس سے علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے سیاست ِشرعیہ کے دو بنیادی اُصولوں کا استنباط کیا ہے، اور یہی اُصول دراصل اسلام کے نظامِ سیاست کا اصل الاصول اور بنیادی جوہر ہیں :

إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ‌كُمْ أَن تُؤَدُّوا ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ ۚ...﴿٥٨﴾...سورة النساء
''اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ اجتماعی ذمہ داریوں کو ان کے اہل افراد کو ادا کریں اور لوگوں میں انصاف کا مرحلہ درپیش ہو تو شریعت ِاسلامیہ سے ہی فیصلہ کریں ۔''

یہ آیت اسلام کے نظامِ سیاسی کا مرکز و محور ہے جس میں کئی بنیادی تصورات کی نشاندہی کی گئی ہے، مثلاً
اللہ تعالیٰ نے مناصب یعنی ذمہ داریاں اہل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اہل افراد کو ذمہ داری تفویض (ادا)کرنا ایک فرض ہے، نہ کہ حق۔ اس فرض کے مخاطب ومکلف متعدد مفسرصحابہؓ وتابعین رحمة اللہ علیہ (ii)کے نزدیک عوام الناس کی بجائے مسلمانوں کے اہل حل وعقد یا ذمہ دار لوگ (مسلمانوں کے اولیا واُمرا) ہیں ۔

یہ آیت اجتماعی ذمہ داریوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کو 'امانت' کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے،گویا یہ اختیار اور منصب اللہ کی طرف سے ایک 'امانت' ہے جس کی ادائیگی میں کوتاہی خیانت کے مترادف ہے۔

اس آیت میں مندرج اہلیت سے مراد ایسے افراد کومناصب پرفائز کرنا ہے جو اللہ کے قانون کو اللہ کی سرزمین پر بہتر طور پر نافذ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں تاکہ معاشرے میں اللہ کے قانون کی عمل داری ہو۔

آیت کے مذکورہ بالا مفاہیم پرقرآن وسنت کی کئی آیات واحادیث واضح دلیل ہیں ، مثلاً
کسی اہل فرد کو تعین کرنا ایک حق نہیں بلکہ ایک فرض اور بار ہے جس کو بہ احسن طور انجام دینا انتہائی ضروری ہے۔چنانچہ جو شخص اس ذمہ داری کو صحیح طورپر انجام نہیں دیتا، اس کے بارے میں زبانِ نبویؐ سے شدید وعید آئی ہے:
قال رسول اﷲ ﷺ: إذا ضُیِّعَتِ الأمانة فانتظر الساعة قال: کیف إضاعتها؟ قال : إذا وُسِّد الأمر إلی غیر أھله فانتظر الساعة
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امانت ضائع کی جانے لگے تو پھر قیامت کا انتظارکرو۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ! امانت کے ضیاع سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب ذمہ داریوں کو نااہل افراد کے سپرد کیا جانے لگے تو پھر قیامت(iii) کا انتظار کرو۔'' 1

اسلام کی رو سے تمام اختیارات کی مالک اللہ جل جلالہ کی ذاتِ باری تعالیٰ ہے یعنی حاکمیت ِالٰہیہ۔ اور دنیا میں جو شخص بھی اس اختیار کو استعما ل کرتا ہے، اسے اس اختیار کو اللہ کی ایک امانت سمجھ کر ہی استعمال کرنا چاہئے، اوریہ مناصب بھی من مانی اور حکمرانی چلانے کی بجائے اسی جذبے اور تصور سے اہل افراد کو دیے جانے چاہئیں تاکہ وہ ان کا حق ادا کریں ۔

اسلام کی نظر میں یہ منصب اور ذمہ داری ایک اعزاز کی بجائے ایسی ذمہ داری اور امانت ہے جس کا محاسبہ بڑا شدید ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إنها أمانة وإنها یوم القیامة خزي وندامة، إلا من أخَذَها بحقها وأدّٰی الذي علیه فیها 2
''یہ منصب ایک ذمہ داری ہے جو روزِ قیامت رسوائی اور ندامت کا موجب ٹھہرے گی۔ ماسوا اس شخص کے جو اس حالت میں اس پر فائز ہوا کہ وہ اس کا حق رکھتا تھا او راس نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔''

اسلام کا مسلم ذمہ داران سے تقاضا یہ ہے کہ وہ اجتماعی ذمہ داریوں پر ایسے افراد کو فائز کریں بلکہ مسلمانوں کی خدمت اُنہیں پر مامور کریں جواس کی بہتر اہلیت رکھتے ہوں ۔

اہلیت کی دو صورتیں ہیں :اہلیت بالفعل یااہلیت بالقوة

یعنی ایسے شخص کا ماضی اس امر کا آئینہ دار ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا ہو اور ماضی میں دی گئی ذمہ داریوں کو ذاتی اختیار وتعیش میں صرف کرنے کی بجائے قومی مصالح اور منصب کے فرائض کو نبھانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہو۔

اس سلسلے میں مذکورہ بالا آیت کا شانِ نزول مزید رہنمائی کرتا ہے۔ یہ آیت فتح مکہ کے موقع پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے اور آپ نے بیت اللہ کی چابیاں بنو شیبہ سے لے کر حضرت عباسؓ کو دینے کا قصد کیا تو اللہ تعالیٰ کو یہ اَمر ناگوار گزرا اور اللہ نے روکتے ہوئے یہ حکم نازل فرمایا کہ عثمانؓ بن طلحہ کا خاندان چونکہ پہلے بیت اللہ کا کنجی بردار تھا، اور اُنہوں نے اپنی ذمہ داری بہ طریق احسن انجام دی تھی، اس لئے اب بھی یہ ذمہ داری اُنہی کو تفویض کی جانی چاہئے۔3

چنانچہ بیت اللہ کی چابیوں کی ذمہ داری کے لئے حضرت عثما نؓ بن طلحہ کے خاندان کو منتخب کرنے کی بنیاد ان کی ماضی کی وہ ثابت شدہ اہلیت تھی جو مستقبل میں بھی اس امر کی قوی ضمانت ہے کہ وہ آئندہ بھی اس منصب کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہوں گے۔

بعض اوقات ایسے تو نہیں ہوتا کہ ماضی میں کسی شخص نے کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہوں لیکن اس متعلقہ فرد میں یہ اہلیت بالقوة موجود ہوتی ہے کہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ یہ شخص دیگر اُمور میں اپنی ذمہ دارانہ روش کی بنا پر مزید سونپے جانے والے معاملات میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گا، لیکن اس نوعیت کی اہلیت کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا بھی پائی جاسکتی ہیں ، جیسا کہ اُسامہ بن زیدؓ کو غزوات پر امیر بناتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
إن تطعنوا في إمارته فقد کنتم تطعنون في إمارة أبیه من قبل وأیم اﷲ إن کان لخلیقا للإمارة وإن کان لَمِن أحب الناس إليَّ وإن هذا لَمِن أحب الناس إلي بعدہ 4
''تم اس کی امارت کے بارے میں اعتراض کرتے ہو، اور تم اس سے قبل ا س کے والد کے بارے میں بھی یہی رویہ اختیار کرچکے ہو۔ واللہ! یہ امارتِ لشکر کے لئے بالکل موزوں ہے، اس کا والد میرے لئے محبوب ترین تھا اور یہ بھی اس کے بعد میرے لئے محبوب ترین ہے۔''

علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کسی بھی منصب پر تعیناتی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
''اَصلح (اہل و موزوں ترین) فرد موجود ہے تو ولی الامر کا فرض یہ ہے کہ وہ اُسے ولایت واختیار عطا کرے، اگر اَصلح موجود نہ ہو تو پھر صالح کو یہ ذمہ داری تفویض کرنی چاہئے۔ ہرمنصب اور عہدے کے مناسب حال الامثل فالامثل کو مقرر کرنا والی کا فرض ہے۔ اگر والی نے اپنی طرف سے پوری کوشش اور جدوجہد کے بعد ایسا کردیا تو اس نے ولایت وخلافت کا حق ادا کردیااور کہا جاسکتا ہے کہ ایسا حکمران عادل اور عند اللہ 'مقسط' ہے۔''5

پھر منصب کی دو بنیادی اہلیتوں کا ذکر کرتے ہوئے امام صاحب فرماتے ہیں :
''صاحب ِمنصب کے لئے قوی اور امین ہونا بنیادی اوصاف ہیں ۔ اور قوت سے مقصودعلم وعدل اور اپنے احکام کو نافذ کرنے کی اہلیت ہے جبکہ امانت سے مراد خشیت ِالٰہی اور حقوقِ الٰہی کو قلیل متاع دنیا کے عوض فروخت نہ کردینا ہے۔''6

چنانچہ اسلام میں منصب پر تعین اہلیت کی بنا پر ہی ہوتا ہے، نہ کہ کسی اور بنا پر اور جو شخص یہ ذمہ داری ایسے فرد کو تفویض کرے جواس کا اہل نہیں ہے تو ایسے شخص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے سخت الفاظ میں وعید نازل فرمائی ہے :
من وُلِّي من أمر المسلمین شیئًا فولّٰی رجلاً وهو یجد من هو أصلح للمسلمین فقد خان اﷲ ورسوله 7
''جس شخص کو مسلمانوں کے معاملات میں کوئی ذمہ داری سونپی گئی اور اس نے کسی شخص کو آگے منصب پر فائز کیا ، حالانکہ اس منصب کے لئے اس سے بہتر شخص موجود تھا تو آگے منصب پر فائز کرنے والا یہ شخص اللہ اور رسول ؐ(کی امانت) میں خیانت کا مرتکب ہے۔''

ایک اور فرمانِ نبویؐ ان الفاظ سے بھی آیا ہے کہ
من استعمل رجلاً من عصابة وهو یجد في تلك العصابة أرضٰی منه فقد خان اﷲ وخان رسوله وخان المؤمنین 8
''جس نے ایک جماعت پر ایسے شخص کو ذمہ داری سونپی حالانکہ اس جماعت میں اس سے زیادہ موزوں اور بہتر شخص موجود تھا تو اس نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کا ارتکاب کیا۔''

مسلمانوں میں کسی کو ذمہ داری دینے کا مقصد صرف حکومت اور شریعت ِالٰہیہ کا قیام ہونا چاہئے نہ کہ کوئی اور دوسری منفعت۔ قرآنِ کریم کی اس آیت کے دوسرے جز{أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ} سے حاصل ہونے والا یہ دوسرا بنیادی اُصول ہے۔

یوں تو اس آیت کا بکثرت حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں عدل کا مفہوم مطلق اور وسیع معنی میں لیا جاتا ہے جب کہ اسلام میں عدل کے مفہوم کا تعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانِ مبارک سے بخوبی ہوجاتا ہے جسے حضرت علیؓ نے روایت کیا ہے کہ آپﷺ فرماتے ہیں :
کتاب اﷲ فیه نبأ ماکان قبلکم وخبرما بعدکم وحکم ما بینکم هو الفصل لیس بالهزل۔من قال به صَدَق ومن عمل به أُجرومن حَکَم به عدل
''یہ اللہ کی کتاب (قرآنِ مجید) ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے۔ یہ کتاب تمہارے مابین پیش آنے والے مسائل کے لئے فیصلہ کن (حَکَم) ہے۔یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں ۔ جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کی تو اس نے سچ بولا۔ جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اجر کا مستحق ہوگیا، اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اُسی نے عدلِ حقیقی کو ملحوظ رکھا۔''9

اس فرمانِ نبویؐ میں عدل وانصاف کو کتابِ الٰہی کے ساتھ فیصلہ کرنے سے مشروط قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کی نظر میں کتابِ الٰہی کونظر انداز کرکے عدل کرنا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ ﴿٤٥...سورہ المائدہ
'' جو اللہ کی نازل کردہ وحی (قرآن وسنت) سے فیصلہ نہ کریں تو ایسے لوگ ظالم ہیں ۔''

ظاہر ہے کہ 'ظلم' عدل کے عین متضاد وصفہے۔ اور کتاب وسنت کے ماسوا سے فیصلہ کرنے کو 'ظلم'سے تعبیر کیا گیا ہے، گویا اس آیت کا مفہومِ مخالف یہ تقاضا اور تعین کرتا ہے کہ عدل سے مَا أنزل اﷲ کے مطابق فیصلہ کرنا ہی مراد لیا جائے۔چنانچہ ہر وہ فیصلہ جو کتاب اللہ کو نظر انداز کرکے کیا جاتا ہے، انسان چاہے اس کو لاکھ عدل تصور کرے لیکن درحقیقت اللہ کی نظر میں وہ عد ل کا حقیقی تقاضا پورا نہ کرتے ہوئے ظلم کا مرتکب ہوتا ہے۔

کتاب وسنت سے فیصلہ کرنے اوراللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فیصلہ کن حیثیت دینے پربیسیوں آیات واحادیث پیش کی جاسکتی ہیں ، لیکن تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ چنانچہ قرآن میں ذکر کردہ عدل کو قرآن کے تصورِ عدل سے ہی مشروط سمجھنا ضروری ہے۔

اسلام میں حکومت اور مناصب کا مقصد ِاصلی 'شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ' ہے، حتیٰ کہ حضرت علیؓ نے ایک بار اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کو امارت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ''امارت کا قیام ہر حال میں ضروری ہے ، چاہے امیر ذاتی طور پر نیک ہو یا گناہ گار۔ لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمومنینؓ! نیک امیر کا تو مقصد واضح ہے، فاجر امیر کا کیا فائدہ؟ تو آپؓ نے جواب دیاکہ اس سے اتنا فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ
یُقام بها الحدود وتأمن بها السُّبل ویجاهد به العدوّ ویُقسم بها الفيء
''حدود اللہ کو قائم کیا جائے گا، گزرگاہوں میں امن وامان قائم ہوجائے گا، دشمنِ اسلام سے جہاد ممکن ہوگا اور مالِ فئے کی تقسیم ہوسکے گی۔''10

حضرت علیؓ کا ایک اور فرمان یہ بھی ہے کہ
''مسلمانوں کے فرمان روا پر یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے فیصلہ کرے اور امانت ادا کرے اور جب وہ یہ کام کررہا ہو تو مسلمانوں پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس کی سنیں اور اس کی اطاعت بجا لائیں ۔''11

حضرت علیؓ کے ان فرامین سے پتہ چلتا ہے کہ امارتِ اسلامیہ کے بنیادی فرائض میں حدود اللہ کا قیام، امن وامان، ریاست ِاسلامیہ کا تحفظ اور ظلم وستم کا خاتمہ وغیرہ شامل ہیں اور ظاہر ہے کہ حدود اللہ کا قیام ایک شرعی تصور وضرورت ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:
{ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْ‌ضِ أَقَامُوا ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَءَاتَوُا ٱلزَّكَو‌ٰةَ...﴿٤١﴾...سورة الحج}... الخ
''اگر ہم مسلمانوں کو زمین میں اقتدار بخشیں تو یہ نماز قائم کریں ، زکوٰة ادا کریں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قائم کریں گے۔''

مصر کے ممتاز مفکر سید قطب شہید لکھتے ہیں کہ
''میں ان لوگوں کو غلط فہمی کا شکار سمجھتا ہوں جو کہتے ہیں کہ اسلامی نظام اصل میں اسلامی سوشلزم ہے، یا اسلامی جمہوریت ہے۔اسلام کے نظام سیاسی کے چار بنیادی اُصول ہیں : حاکمیت ِالٰہ، عدل من الحکام، اطاعت فی المعروف اور شوریٰ۔'' 12

موجودہ سیاست سے ایک تقابل
یہ تو ہیں شریعت ِاسلامیہ کے واضح او ردو ٹوک تصورات جن کی مختصر طورپر یاد دہانی کے بعد آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ فی زمانہ ہمارے ہاں منصب واعزاز کو کس بنا پر حاصل کیا یا عطا کیا جاتا ہے اورعوام کس بنا پر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں ؟ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جمہوریت اپنی اساس، ساخت اور طریق کار ہرپہلو سے اسلام کے نظامِ سیاست سے یکسر مختلف ہے۔ اسلام کے تصورِ انتخاب، تصورِ نمائندگی، تصورِ اہلیت، اساسی جوہر، مقصد ومطلب اور بنیادی تصور ومیکانزم غرض ہر پہلو سے اسلام اورجمہوریت میں واضح تضاد پایا جاتا ہے لیکن سردست دیگر پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم صرف تصورِ اہلیت تک محدود رہیں گے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کردہ آیات واحادیث سے علم ہوا کہ اسلام کی نظر میں منصب کا تعین اہلیت کی بنا پر ہی ہوتا ہے اور کوئی خارجی بنیاد اس میں مؤثر نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر تمام وجوہات مختلف لوگوں کو مناصب پر فائز تو کرسکتی ہیں لیکن معاشرے اور اجتماع کی خدمت اور ترقی کی قوی ضمانت قرار نہیں پا سکتیں اور شریعت ِمطہرہ کے نفاذ وعمل داری کی طرف بھی معاشرے کا رخ موڑنے پر قادر نہیں ہوتیں ۔

لیکن جب ہم اپنے گرد وپیش پر نظر دوڑاتے ہیں تو فی زمانہ ہمیں بے شمار ایسے اُمیدوارانِ مناصب میدانِ سیاست میں نووارد نظر آتے ہیں ، جن کی مطلوبہ منصب کے لئے اہلیت کسی سابقہ کارگزاری اور اجتماعی خدمت کی بجائے، بعض اوقات کسی مضبوط سیاسی پارٹی کی پشت پناہی ہوتی ہے، تو کوئی اُمیدوار ایک منصب کے دیوانہ وار حصول کے لئے اَن گنت مال ودولت لٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی کی قوت کا راز اس کے مضبوط خاندانی اثر ورسوخ میں پوشیدہ ہے تو کوئی عوام کو اپنی جادو اثر وعدوں سے متاثر کرکے اُن سے ووٹ مانگنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ حتیٰ کہ بعض سیاستدانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی اہم بنیاد اس کے سوا کوئی نہیں ہوتی کہ وہ بعد میں اپنے ووٹروں کے جائز وناجائز کام کروانے کے لئے بڑے مؤثر تصور کئے جاتے ہیں ۔ بعض سیاستدان صرف اس بنا پر کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ نفسیاتی ہتھکنڈوں سے بخوبی فائدہ اُٹھانے کا ہنر رکھتے ہیں یا بعض جاگیرداروں کے ووٹر اُن کو منتخب نہ کریں تو وہ امیدوار اُن لوگوں کا جینا دوبھر کرنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔

یہ اور اس نوعیت کی کئی دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر عوام کی رائے پر اثر انداز ہوکرموجودہ جمہوری نظام میں سیاسی رہنما عوام کے نمائندے بن بیٹھتے ہیں جو دراصل عوام کی ضروریات کے استحصال یاان کے وقتی جذبات سے فائدہ اُٹھا کردرحقیقت اپنا اُلوسیدھا کرتے ہیں ۔(iv)

جمہوریت کا یہ تصورِ اہلیت و نمائندگی آج دنیا کے بیسیوں ملکوں میں اپنی حقیقت آشکارا کرچکا ہے جس میں بظاہر عوام کا نمائندہ بننے والا درحقیقت محض مقابلتاً چند ووٹوں کی اکثریت کا مرہونِ منت ہوتاہے اور اکثر وبیشتر اس کو نامنظور کرنے والے مجموعی طورپر اس کو قبول کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں ، گویا ردّ کرنے والوں کی مجموعی اکثریت کے باوجود وہ ان کا نمائندہ ٹھہرتا(v)ہے۔ اس بنا پر بظاہر عوام کی نمائندگی کا اعزاز پانے والے 'عوام کی حکومت' کے نام پر اَشرافیہ کا ایسا نیا جتھا بن بیٹھتے ہیں جو عوام سے ایک بار ووٹ لینے کے بعد اپنے منصب کے باقی ایام عوامی خدمت سے قطع نظر اپنے مفادات کی اسیری اور اپنی لالچ وطمع کی تسکین کے لئے ہر لمحہ صرف کرنے میں گزار دیتے ہیں ۔ گویا جمہوریت کا نظریہ 'حکومت ِعوام' اس نعرے اور لفظ کے استحصال سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا، جس میں اشرافیہ کا ایک گروہ عوام کی حکومت کے نام پر ان کے سرپر مسلط رہتا ہے۔

اس کی مثالیں جدید دنیا میں ہرطرف بکھری نظر آتی ہیں ، جیسا کہ آج عوام کی حکومت کے نام پر نہ صرف پاکستان میں ابتدا ہی سے چند خاندان' عوامی حاکمیت کا مصداق' ٹھہر چکے ہیں بلکہ دنیا کی بڑی جمہوریتوں مثلاً امریکہ وبھارت میں بھی چند خاندانوں (گاندھی، نہرو اور بش وکلنٹن وغیرہ)کے گرد ہی 'عوامی حاکمیت' کا نعرہ طواف کرتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف عوام جمہوریت کے نام سے حکومت کا اِلزام سہنے کے باوجود ابھی تک محروم اور بنیادی سہولتوں کے ہی متلاشی نظر آتے ہیں ۔

ہردونظاموں میں تصورِ اہلیت کا تجزیہ
اسلام اور جمہوریت میں اہلیت کا یہ فرق دراصل ہردونظاموں کی اساسی روح میں موجود ہے۔ جمہوریت چونکہ عوامی حاکمیت کا داعی نظامِ سیاست ہے، اس لئے وہاں انتخاب کا یہ اختیار بظاہر عوام کو ہی حاصل ہے۔ جبکہ اسلام چونکہ حاکمیت ِالٰہیہ کا علم بردار ہے، اس بنا پر وہاں اجتماعی مناصب کی اہلیت کے لئے متعلقہ فرد کا شریعت ِاسلامیہ کے نفاذ اور اسلامی تصورات پر عمل داری کے لئے موزوں ومناسب ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

یہ بھی حاکمیت کے اساسی نظریے کا ہی مظہر ہے کہ اسلام میں حاکمیت چونکہ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اس بنا پر اس کی شریعت کے ماہر اور اس پر عمل پیرا لوگ نہ صرف خود ذمہ داریوں کے لئے موزوں ٹھہرتے ہیں بلکہ آگے بھی مناصب کے لئے نامزدگی کرنا ان کا استحقاق ہوتا ہے۔ گویا اسلام میں مناصب کی تقسیم اوپر سے نیچے کی طرف ہوتی ہے، جس میں عوام کا انتخاب میں کوئی کردار ہونے کی بجائے صاحب ِمنصب کے لئے محضان کا اعتماد یافتہ ہونا ہی کافی ہوتا ہے۔(vi) اس کے برعکس جمہوریت چونکہ حاکمیت ِعوام کی داعی ہے، اس بنا پر جمہوریت میں عہدوں کی تعیناتی اہل فکر ونظر کی بجائے، ہر شخص کا بنیادی حق قرار پاتی ہے۔ یعنی حکومت بظاہر نیچے سے اوپر کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صورت میں معاشرے میں بھی اللہ کی طرف رجوع کی بجائے عوام الناس کے مفادات یا غیر الٰہی اَغراض پورے ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں جبکہ اسلام کا مقصد معاشرے کو اللہ کی بندگی کی طرف لانا ہے۔

اسلام کا یہی تصورِ حاکمیت اس کے طرزِ شورائیت میں بھی نمایاں ہے۔ اگر مشاور ت میں ووٹنگ کا طریقہ اپنایا جائے تو اس کا مطلب تمام اراکین کی حاکمیت کا تحفظ ہے جو وہ عوام سے لے کر آئے ہوتے ہیں ۔اور ووٹنگ کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرف یہ حاکمیتیں زیادہ ہوجائیں ، فیصلہ اس کے مطابق ہونا چاہئے جبکہ اسلام میں حاکمیت ِالٰہیہ کا تصور ہے، اس بنا پر ووٹنگ کی بجائے دلیل واستدلال کی بنا ہی پر فیصلہ ہوتا ہے، جو شرعی وتجرباتی ہردو نوعیت کے دلائل ہوتے ہیں ۔البتہ ذوقی یا احتمالی دلائل میں صاحب ِامر کو ایک رائے کو ترجیح دینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔گویا اسلامی شورائیت کئی 'متوازی حاکمیتوں کے اشتراک' کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے قریب ترین ہوتی ہے اور اس کے اراکین بھی ماہر شریعت ہوتے ہیں ، جیسا کہ خیرالقرون کی شوریٰ کے اراکین کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

اسلام میں رائے عامہ کسی منصب کے لئے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کرتی بلکہ ارکانِ شوریٰ یا ولاة الامر مختلف ذمہ داریوں کے لئے اَفراد کو متعین کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا انتخاب تو ان کے ذاتی مقاصد یا ظاہر ی نعروں کے تابع ہوتا ہے جس کے دھوکے میں وہ آجاتے ہیں ۔ جبکہ اسلام کا بنیادی مقصد معاشرے پر اللہ کی حاکمیت یعنی شریعت ِاسلامیہ کا نفاذ ہے، اس لئے وہاں ایسے ہی لوگ الٰہی مقاصد کی تکمیل کی غرض سے مختلف لوگوں کی اہلیت کے مطابق ان کو ذمہ داریاں سونپتے ہیں ۔

علاوہ ازیں جمہوریت میں چونکہ مناصب بظاہر تمام عوام کا استحقاق ہیں ، اس بنا پر ہر منصب کے لئے ایک مخصوص وقت مقرر ہے، تاکہ بعد میں یہ منصب دوسرے لوگوں کو بھی حاصل ہوسکے۔ جبکہ اسلام کی رو سے منصب کا اصل رخ اللہ کے دین کو بدرجہ اتم نافذ کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرنے اورفلاحِ عامہ کی اہلیت سے متعلق ہے، اور جو شخص اس مقصد ِشرعی کو پورا کرنے کی اہلیت سے بہرہ ور ہو، وہ ایک طویل عرصہ اس منصب پر متمکن (vii)رہ سکتا ہے، تاوقتیکہ وہ اس میں کسی خلل(کفر بواح وغیرہ) کا مرتکب نہ ہو اور یہ مدت انتہائی کم یا انتہائی زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اسلام میں جمہوریت کی طرح عوام کسی امیر کی معزولی کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہوتے، البتہ جب حکمران نماز کے بنیادی فرض سے غفلت شعاری اپنائے تو ا س وقت لوگوں پر اس کی اطاعت کرنا ضروری نہیں رہتا۔

ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ اسلام کا نظامِ سیاست یعنی 'خلافت' حاکمیت ِالٰہی کے نام پر ایک مخصوص مذہبی طبقے کی حکومت کا نام ہے، جس کو تھیا کریسی کے نام سے جدید دنیا بڑی شدت سے ردّ کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہنا چاہئے کہ اسلام میں نہ تو علما کا کوئی مخصوص طبقہ ہے، نہ ہی پاپائیت کی طرح اُنہیں عام شخص سے کوئی امتیاز حاصل ہے اور نہ اس کے لئے کوئی خصوصی احکامات ہیں ۔ البتہ اسلام ایک خاص طبقہ کی بجائے ایک مخصوص علمی اہلیت ٭اور ایک عملی کیفیت (تقویٰ) کا تقاضا ضرور کرتا ہے جو اللہ کی شریعت کو سمجھنے، پھر اسے اپنے اور دوسروں پر نافذ کرنے کے لئے ضروری ہے۔ غرض خلافت درحقیقت اللہ کی حاکمیت (شریعت کی حاکمیت) کا نام ہے، جس شریعت کی خلیفہ بھی مخالفت کرے تو وہ مستوجب ِسزا ٹھہرتا ہے۔ دیکھئے حضرت ابو بکرؓ صدیق کا خطبہ خلافت

الغرض اسلام کا نظریۂ اہلیت، اس کے تصور ِاقتدارِ اعلیٰ سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ کی ذات حاکم اعلیٰ ہے تو اس کی شریعت کو اُس کے الفاظ ومراد کی بنا پر دنیا میں نافذ کرنا اسلام کا مقصد ِاصلی ہے۔ اور جو لو گ اس شریعت پر عمل پیرا اور اس کے حامل ہیں ، وہ لوگ معاشرے میں مزید ذمہ داروں کو متعین کرکے معاشرے کا رخ اسلامی مقاصد کی طرف موڑنے کے ذمہ دار ہیں ۔

'اسلامی جمہوریت' کیونکر؟
جمہوریت جہاں ایک طرف عوام کی حاکمیت کی دعویدار ہے، وہاں ا س بنیادی نعرے کے بعد اس کا دوسرا بنیادی اُصول اللہ کی حاکمیت کا انکا ر یعنی سیکولرزم (مذہب بیزاری) بھی ہے۔گویا ایک طرف جمہوریت عوام کی حاکمیت کی داعی ہے تو اس کے ساتھ ہی مذہب کی حاکمیت یا عمل داری کی شدید مخالف بھی ہے۔ اور اپنے اس موقف میں بڑی واضح ہے لیکن ہمارے ہاں بعض دانشوروں کا نظریۂ خلافت عجب ثنویت کا شکار ہے۔ ایک طرف تو وہ اللہ کے لئے اقتدارِ اعلیٰ کا تصور رکھتے ہیں توساتھ ہی وہ یہ اقتدارِ اعلیٰ انسان کو بحیثیت ِمجموعی منتقل کردیتے ہیں کہ
''عام مسلمان خلیفہ ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی خلافت ایک شخص میں مرکوز کرتے اور اسے تفویض کرتے ہیں ۔''

ایسے لوگوں کا یہ رویہ اسلام کے نام پر دراصل جمہوری تصورات کی عمل داری کا ہے جس کو اسلام کا مجموعی مزاج کسی طرح قبول نہیں کرتا اور کتاب وسنت میں ا س کے خلاف کئی ایک دلائل موجود ہیں ۔ ایسی اسلامی جمہوریت اور مغربی جمہوریت میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہاں یہ حاکمیت تمام انسانوں کو حاصل ہوتی ہے اور یہاں تمام مسلمانوں کو ۔

یاد رہے کہ اللہ کی حاکمیت ِمطلقہ میں انسان تو کجا، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک نہیں ۔ قرآن کی رو سے کسی نبی کو روا نہیں کہ وہ لوگوں کو اللہ کی بجائے اپنی طرف دعوت دے بلکہ نبی کی بات کو بہ تسلیم ورضا قبول کرنے کی وجہ بھی اس بات کے من جانب اللہ ہونے میں پوشیدہ ہے، کیونکہ نبی کا تعین اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اور وہ اللہ کی وحی کو ہی اپنی زبان سے ادا کرتا ہے، اس لئے اُس کی ہر بات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

تصورِ حاکمیت کی اس ثنویت کے ساتھ یہ اَمر مزید حیرانگی کا باعث ہے کہ جب بعض متحرک دینی جماعتیں ایک طرف توسیکولرزم کے اَثرات سے ملک کو بچانے کے لئے غیرمعمولی جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں تودوسری طرف اس جمہوری طرزِ سیاست کی بھی علم بردار نظر آتی ہیں جس کا دوسرا اساسی اُصول 'سیکولرزم' ہے۔

جمہوریت کو اسلامی بنانے اور کہنے کا تصور ایک سراب سے زیادہ نہیں کیونکہ ہرنظام اپنی وضع قطع اور ساخت وپرداخت میں اپنے اساسی نظریات ومعتقدات کا یقینی مظہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں کہ جمہوریت کا تصورِ اہلیت اور اسلام کا تصورِ اہلیت دو بالکل متضاد تصور ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے لئے ہر دو نظاموں میں بالکل جداگانہ میکانزم اختیا رکیا گیا ہے۔ غیراسلامی نظاموں کو اسلامی لیبل لگادینے سے کوئی نظام ہرگز اسلامی نہیں بن سکتا !!

اسلام کی رو سے اجتماعی میدان میں مقاصد ِشرع کی تکمیل ایسا برتر مقصد ہے جو اگر فاجر سلطان سے بھی پورا ہوتا ہو تو ایسے امیر کو اس دوسرے حکمران پر ترجیح دی جائے گی جو ذاتی طورپر تو نیک وپرہیز گار ہے،لیکن مقاصد ِشرع کی تکمیل کی صلاحیت ِتامہ سے محروم ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ سے جب ایسے دو اشخاص کی بابت یہ پوچھا گیا کہ کس کو ترجیح دی جائے؟ تو اُنہوں نے یہ دانش مندانہ موقف پیش کیا کہ
''اجتماعی مصالح کی بہتر تکمیل کے لئے ایسے فاجر امیر کا انتخاب زیادہ موزوں ہے، بجائے ایسے متقی شخص کے جو اجتماعی مصالح کی صلاحیت نہیں رکھتا۔کیونکہ فاجر کا فجور اس کی ذات کے لئے ، جبکہ اس کا عامة المسلمین کے لئے مفید ہوناعوام کے لئے نفع بخش ہے۔برخلاف ایسے شخص کہ جو ذاتی طورپر تو متقی ہے، لیکن عوام میں دین وشریعت کے نفاذ اور دیگر مقاصد کو پورا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔'' مُلخَّصًا

اسلام میں چونکہ حاکمیت عوام کا حق نہیں ہے، بلکہ اللہ وحدہ لاشریک کا حق ہے، اس بنا پر یہاں جمہوریت کے عین برعکس یہ تصور بھی موجود ہے کہ خلافت کے لئے طریقۂ انتخاب زیادہ اہم ہونے کی بجائے خلیفہ کا حاکمیت ِالٰہیہ کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت میں سلطانی ٔجمہور کے نام پر اساسی حیثیت طریقۂ انتخاب کو ہی حاصل ہے، اس کے بعد عملاً حکومت کے پورے پانچ برس 'عوام کی حاکمیت' کے نظریے کا تمسخر ہی اُڑایا جاتا ہے۔جمہوریت کانظریہ حاکمیت عوام کا اظہار محض مرحلۂ انتخاب کے وقت ہوتا ہے جبکہ اسلام میں حاکمیت ِالٰہ کا اظہار دورانِ حکومت لگاتار ہوتا رہتا ہے۔

اسلام میں منصب کے لئے مروّجہ مناسبتوں کی نفی
اسلام کی رو سے کسی منصب کے لئے معتبر اہلیت صرف وہی ہے جس کا شریعت ِمطہرہ نے اعتبار کیا ہے۔ جہاں تک جمہوری نظام کی متعارف کردہ مختلف اہلیتوں کا تعلق ہے تو اسلام نے بڑی شدت سے ان اہلیتوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ذاتی منفعت کے لئے منصب کی اُمیدواری اصلاً حرام ہے، کیونکہ اس میں اُمیدوار کے پیش نظر ذاتی مفاد ہوتا ہے، جیسا کہ مختلف احادیث ِنبویہؐ میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ
إن قومًا دخلوا علیه سألوہ ولایةً فقال: إنا لا نولِّي أمرنا هذا مَن طلبه
''بعض افراد نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مناصب کا تقاضا کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم مسلمان ان لوگوں کواپنی ذمہ داریاں نہیں سونپتے جوان کے طلب گار ہوں ۔'' 13

اس نوعیت کے متعدد فرامین نبویؐ کو ملحوظ رکھتے ہوئے بآسانی یہ کہا جاسکتاہے کہ کسی فرد کا ایک منصب کی خواہش کرنا ہی اس کی نا اہلی کی دلیل ہے کیونکہ شریعت نے صراحت کے ساتھ اس اُمیدواری اور طلب ِجاہ سے منع کردیا ہے۔ یہ طلب گاری اور خواہش مندی محض کوئی ظاہری مطالبہ نہیں بلکہ ایک فرد کی ذاتی وارداتِ قلبی ہے جس کے دور رَس نتائج اس فرمانِ نبویؐ میں بیان ہوئے ہیں ، جو آپ نے ایک صحابی (ابوذرّ غفاری ؓ) کو مخاطب کرتا ہوئے فرمایا تھا :
لاتسئل الإمارة فإنك إن أعطیتَها من غیر مسئلة أُعنتَ علیها وإن أعطیتَها عن مسئلة وُکِّلتَ إلیها 14
''امارت کا مطالبہ نہ کرو۔ اگر تمہیں یہ منصب بلاخواہش کے مل جائے تو تمہاری اللہ کی طرف سے مدد کی جائے گی، اور اگر تم اپنی خواہش سے منصب پر فائز ہوتے ہو تو اس کے نتائج کی تمامتر ذمہ داری تم پرڈال دی جاتی ہے۔ ''

ایسے ہی آج کے دور میں ذاتی قرابت داری یا ذاتی پسند و ناپسند اور مفادات کی بنا پر اکثر وبیشتر مناصب کو تقسیم کیا جاتا ہے، جبکہ اسلام کی نظر میں موزوں ترین اہلیت کو نظر انداز کرکے ایسا کرناصریحاً ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت عمرؓ کا فرمان ہے کہ
من وُلِّيَ من أمر المسلمین شیئًا فولّٰی رجلا لِمَودة أو قرابة بینها فقد خان اﷲ ورسوله والمسلمین 15
''جسے مسلمانوں کے اجتماعی معاملہ کا اختیار ملااور اس نے دوسرے شخص کو ذاتی محبت یا قرابت داری کی بنا پر یہ ذمہ داری سونپ دی تو ایسا شخص اللہ اور رسولؐ سے خیانت کا سزاوار ہے۔ ''

علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
''پس اگر والی جادئہ استقامت سے ہٹ گیا، یا زیادہ حق دار اوراَصلح کو چھوڑ کر کسی قرابت، وَلاء و عتاقہ، دوستی یا کسی آبادی میں اپنائیت اور موافقت کی بنا پر، یا مسلکی موافقت یا کسی اور وجہ کی بنا پر، یا باہم ایک جنس ہونے مثلاً ایرانی، ترکی، رومی ہونے کی وجہ سے یا رشوت یا کسی دوسری منفعت کی وجہ سے ، یا کسی بھی دیگر ایسے اسباب کی بنا پر ... یا حق دار سے ذاتی کینہ وعداوت کی بنا پر، اس نے حق دار ومستحق اَصلح شخص کو چھوڑ کر غیر مستحق، غیراصلح کو منصب پر مقرر کیا تووہ یقینا اللہ، اس کے رسول اور عام مسلمانوں سے خیانت کا مرتکب ہوا، جس سے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی اس آیت میں واضح طورپر منع کیا ہے:

يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا لَا تَخُونُوا ٱللَّهَ وَٱلرَّ‌سُولَ وَتَخُونُوٓا أَمَـٰنَـٰتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٧...سورة الانفال
''مسلمانو! اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کا ارتکاب ہرگز نہ کرو اور نہ ہی اپنی امانتوں میں خیانت کرو، تم اس کے وبال سے خوب واقف ہو۔'' 16

الغرض اسلام کا تصورِ اہلیت ایسا قابل عمل نظام ہے جس میں شریعت ِاسلامیہ کے نفاذ اور اجتماع کے برتر مفادپورے ہونے کے امکان زیادہ قوی ہوتے ہیں اور یہ جمہوریت کے تصورِ اہلیت کے عین برعکس ہے جو صرف عوام کے ذاتی مفادات کے گردگھومتا ہے۔اور اہل دین کومنتخب نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو سہولتوں اور منفعتوں کی بجائے ہمیں بھی شریعت کی پابندی کرائیں گے۔ اور انسان سہولت پسندی کے باعث کسی بھی پابندی سے گھبراتا ہے، اس لئے اہل دین کی بجائے اپنا ووٹ بھی ان لوگوں کو دینے کو ترجیح دیتا ہے جس کا حوالہ دے کر بعد میں اپنا کوئی کام نکالا جاسکے۔

اسلام کا تصورِ انتخاب
اسلامی معاشرہ ایک ذمہ دار معاشرہ ہے جس میں اسلام کی تعلیمات کو اگر اپنی روح کے ساتھ رو بہ عمل لایا جائے تو مسلمانوں میں باہمی خیروصلاح اور محبت ومودّت کے ساتھ خدمت وقربانی کرنے والے کئی افراد اَز خود نمایاں ہوجاتے ہیں ، جیساکہ دورِ نبویؐ میں ایسے ہی ہوا تھا لیکن ایسے قیمتی افراد کے انتخاب کی اہلیت سے عوام الناس باخبر ہونے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے بلکہ عوام الناس کی نظر الٰہی مقاصد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کی اسیر یا انہی کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔

چنانچہ ایسے اہل حل وعقدیا اصحابِ شوریٰ کسی انتخاب یا اُمیدواری یا سیاسی مہم جوئی کے نتیجے میں منتخب نہیں ہوتے جیسا کہ خیرالقرون اس قسم کے شور وشغب سے بالکل خالی نظر آتے ہیں بلکہ ان کا واحد طرئہ امتیاز ان کا عمل اور ماضی کا خدمت سے بھرپور شاندار ریکارڈ ہوتا ہے۔ ان کا ماضی ہی ان کے موزوں انتخاب کی اہلیت ٹھہرتا ہے، جو مستقبل میں ان کے متوقع ذمہ دارانہ کردار کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے امیر کے لئے آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ پھر مسلمانوں کا امیرجو دراصل اپنی حکومت کی بجائے اللہ کی شریعت نافذ کرنے کے لئے اس عہدے پر فائز ہوتا ہے، دیگر عہدیداروں کا تعین کرتا ہے۔ اسلامی ذخیرئہ علم سے ایسے بے شمار دلائل دیے جاسکتے ہیں جس میں مناصب پر تعیناتی کو جملہ مسلمانوں کے حق کی بجائے ان ذمہ داروں کا فرض قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب چند لوگوں نے حضرت علیؓ کے پاس اکٹھے ہوکر ان سے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی توآپؓ نے فرمایا تھا کہ

''یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں ، یہ تو اہل شوریٰ اوراہل بدر کا کام ہے۔ جس کو وہ پسند کریں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ شوریٰ تو صرف مہاجرین وانصار(سابقین)کیلئے ہے۔ اگر اُنہوں نے کسی کو امام قرار دینے پر اتفاق کرلیا تویہ اللہ اور پوری اُمت کی رضامندی کیلئے کافی ہے۔ سو ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔ '' 17

ایسے ہی جب حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو اُنہوں نے وراثت میں ملی ہوئی اس امارت کو اہل حل وعقد کے سامنے پیش کردیا کہ تم جس کو چاہو خلیفہ بنا لو کیونکہ یہ تمہارا ہی حق ہے۔ اُن لوگوں نے آ پ کے غیرمعمولی کردار اور علم کی بنا پر آپ کی ہی خلافت پر اتفاق کا اظہار کیا۔ 18

ہمارے ہاں عوام الناس کے حق انتخاب کے لئے عموماً ووٹ اور بیعت کے تصور کو خوب گڈ مڈ کیا جاتا اور اس سے عوامی انتخاب پر استدلال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ ووٹ اور بیعت کو مترادف باور کراتے ہیں جب کہ ان دونوں کے طریقۂ کار، مقام وحیثیت اور مقصد ومطلب سے تھوڑی سی آشنائی رکھنے والا شخص بھی دونوں کو مترادف نہیں سمجھ سکتا، مثال کے طورپر اسلام میں کسی عہدے کا تعین ووٹ کی بجائے اہل شوریٰ یا ذمہ دار افراد کے ذریعے ہوتا ہے جس کی تصدیق وتصویب عامة المسلمین بیعت کے ذریعے کرتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف جمہوریت میں ووٹ کا بنیادی وظیفہ ہی کسی فرد کو عہدے کے لئے منتخب کرنا ہوتا ہے۔

ووٹ کے ذریعے ایک عام شخص اپنا حق حاکمیت استعمال کرتا ہے، جب کہ بیعت کے ذریعے ایک عام مسلمان اپنے امیر کی اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ عہدہ کے حصول سے پہلے ہوتا ہے اور بیعت عہدہ کے حصول کے بعدہوتی ہے۔

پھرموجودہ پارلیمانی جمہوریت میں ووٹ بنیادی نمائندگان کے انتخاب کے لئے ہوتا ہے، جبکہ بیعت صرف اور صرف خلیفہ المسلمین کے لئے ہوتی ہے۔

بیعت ایک مبارک شرعی تصوراورمسنون عمل ہے جس میں خلیفہ سے اطاعت کے بدلے جنت کا معاہدہ کیا جاتا ہے جبکہ ووٹ ایک خالصتاً مفاد پرستانہ دنیاوی تعلق ہے۔

اس امر سے انکار نہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں چند ایک جزوی مماثلتیں پائی جاتی ہیں ، لیکن ان مماثلتوں کا تناسب انتہائی محدود ہے۔ مثلاً دوسرے سیاسی نظاموں کی بہ نسبت دونوں میں عوام پر جبر کی بجائے ان کی فلاح اور ان کی مشاورت کو ایک خاص وقعت حاصل ہے اور دونوں میں عوام کے اعتماد کا عنصر ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت کی اسلام سے یہ چند مماثلتیں محض ظاہری ہیں ۔ اگر باریک بینی سے عوامی نمائندگی، اعتماد اور قومی فلاح کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اسلام میں ان کی روح کارفرما نظر آتی ہے جبکہ جمہوریت میں یہ محض نعرے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتیں ۔ البتہ جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے تو اسلام اور جمہوریت کے ہر ہر سیاسی تصورمیں غیرمعمولی حد تک فرق پایا جاتاہے!

'اسلامی نظامِ سیاست' کا نفاذ کس طرح؟
اسلام کے سیاسی تصورات علم وتحقیق کا ایک طویل باب ہیں جو اپنے وسیع دائرئہ عمل کی طرح کافی گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ نظام کس طرح مسلم ممالک میں نافذ ہوسکتا ہے، جب کہ عملاً اس وقت دنیا میں یہ نظام کہیں بھی زیر عمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ امر تو ملحوظ رہنا چاہئے کہ اسلام کا نظامِ خلافت نہ صرف کئی صدیاں قبل انسانیت کو سکون واطمینان اور ترقی وفلاح کی ایسی منازل سے متعارف کرا چکا ہے جس کی مثالیں دنیا کے کسی دوسرے نظام نے آج تک پیش نہیں کیں ۔ دوسری طرف یہ نظام کسی نہ کسی شکل میں اُمت ِمسلمہ میں ۱۳ صدیاں زیر عمل رہا ہے۔ یہ دونوں خصوصیات دنیا میں کسی دوسرے نظامِ سیاست کو حاصل نہیں ہیں ۔ ان دو عملی خصوصیات کے بعد اس نظام کی افادیت اور کامیابی کے بارے میں سوال پیدا کرنا تو ایک نادانی اور حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ یوں بھی مسلمان ہونے کے ناطے اس نظامِ سیاست کے اعلیٰ واَمثل ہونے میں کوئی کلام کرنا ہمارے اعتقاد وایمان کے ہی خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ ہم مسلمانوں کے طرزِ عمل میں ہے۔ چونکہ یہ ایک تفصیلی عملی موضوع ہے، اسلئے فی الحال ہم اس بحث کو آئندہ شماروں تک ملتوی کرتے ہیں ،موجودہ بحث صرف تصورونظریہ تک محدود ہے۔
پس چہ باید کرد؟

قوم کو درپیش انتخاب کے اس مرحلے میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں پہلے توبصیرت پر مبنی ہمارا یہ موقف واضح رہنا چاہئے کہ جمہوریت ایک غیراسلامی نظام ہے جو ہر ہر پہلو کے اعتبار سے اپنے مخصوص نظریات کا پرتو ہے۔ اسلام اور جمہوریت میں مشترک قدریں تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی حیوان اور انسان میں اشتراک ڈھونڈا جائے، اگرچہ ان میں بھی کئی ظاہری مماثلتیں ضرور مل جاتی ہیں جبکہ دونوں کی حقیقت اور حیثیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اسلام کا یہ سیاسی تصور بالکل واضح ہے کہ ا س میں عوام الناس اپنے نمائندے ہرگز منتخب نہیں کرتے بلکہ مناصب کا تعین ولاةِ امر کا حق ہے۔ لیکن چونکہ موجودہ نظامِ کفر میں اس ذمہ داری کی مسلمانوں کے ذمہ داران کی بجائے عوام الناس سے توقع رکھی جاتی ہے، اس لئے عوام کم از کم اہلیت ِشرعی کے اس وصف کو ضرور ملحوظ رکھیں جس کا تقاضا ولاة الامر سے شریعت مطہرہ نے کیا ہے۔ اگر وہ جمہوریت کے کفر ہونے کی بنا پر انتخاب کے عمل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں تو اس کا نتیجہ نااہل افراد کے قوم کے سر پر مزید تسلط کی صورت میں نمودار ہوگا، جس رویہ کی مذمت اور مخالفت عالم اسلام کے کبار علما نے بھی کی ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔

جمہوریت کے اُصولِ خمسہ میں حاکمیت ِعوام اور سیکولرزم کی طرح جماعت سازی کا فتنہ بھی مستقل اُصول کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن اسلام میں جماعت بازی کے اس تصور کی بھی کوئی حمایت نہیں پائی جاتی جہاں حق کی تائید کی بجائے جماعتی موقف کی پابندی لازمی ٹھہرتی ہو۔ اسلام تو ہمیں حق بات اور عدل وانصاف کی تائید کا پابند کرتا ہے، چاہے وہ اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یوں بھی جماعتی سیاست بازی کے نتائج قوم اچھی طرح بھگت چکی ہے جہاں کئی ایل ایف او جیسے معاملوں کو جماعتی مصلحت کے تابع پورا کرنا ضروری ٹھہرتا ہے اور ذاتی مفاد کی بنا پر اللہ کے قانون کی کھلے عام توہین کے باوجود جماعتی موقف کی بنا پر دین کے نام پر منتخب ہونے والے استعفوں سے دامن کش رہتے ہیں ۔ اس جماعتی سیاست بازی کا ہی نتیجہ ہے کہ بعض طالع آزما سیاستدان اپنے وفادار ساتھیوں کو تو مختلف حلقوں کے ٹکٹ سے نواز دیتے ہیں جبکہ اہل افراد ان کی چاپلوسی نہ کرنے کی وجہ سے محروم ٹھہرتے ہیں ۔

ان متعدد وجوہات کی بنا پر ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کو ان کی انفرادی اہلیت کی بنا پر یہ امانت (viii)سپرد کی جائے جو اسلام کے تصورِ اہلیت کے قریب تر ہوں ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ اگر اس بنا پر تمام اچھے اور اہل افراد اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو لازماً اس سے خیر کی فضا پیدا ہوگی۔ جماعتیں اَفراد سے ہی تشکیل پاتی ہیں اور اچھا فرد خوشبو کی طرح ہر جگہ کچھ نہ کچھ خیر کو پھیلانے کا سبب بن ہی جاتا ہے۔

یوں تو موقف مستقل دلائل اور بحث مباحثہ کا متقاضی ہے لیکن دورِحاضر کے تین عظیم سلفی علما کا موقف ذکر کرکے مکمل بحث جو محدث میں شائع ہوچکی ہے، کی طرف اشارہ کرنا کافی ہوگا:

شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ نے 'اسمبلی کی رکنیت اور ووٹنگ کی شرعی حیثیت' پر فتوی دیتے ہوئے فرمایا:
''فرمانِ نبوی ہے : اعما ل کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور ہر آدمی کے لئے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔ پارلیمنٹ میں جانے کا مقصد اگر تائید ِحق اور انکارِ باطل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کے ذریعے داعیانِ الی اللہ کے ساتھ وابستگی اور امدادِ حق ممکن ہوسکتی ہے۔ اسی طرح ووٹنگ میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جس سے نیک داعیوں کے انتخاب اور حق واہل حق کی تائید ہوتی ہے۔'' 19

شیخ محمد صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ سے بھی جب ایسا سوال پوچھا گیا تو اُنہوں نے فتویٰ دیا:
اُدخلوها أتترکونها للعلمانیین والفسقة؟

اسمبلیوں میں پہنچنے کی کوشش کرو، کیا تم انہیں لادین اور فاسق لوگوں کے لئے چھوڑدینا چاہتے ہو؟

الجزائر کے 'سالویشن فرنٹ' کے سوالات کے جواب میں شیخ ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ یہ تھا:
''میں نہیں سمجھتا کہ مسلم عوام کوووٹنگ سے باز رہنا چاہئے جبکہ اُمیدواروں میں اسلام دشمن بھی ہوں اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دین دار بھی۔ ایسی صورتحال مںں ہر مسلمان کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ صرف دیندار لوگوں کو منتخب کرے جو صحیح راستے کے زیادہ قریب ہوں ۔''20

ان علما کرام کے فتاویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ کم از کم دفعِ ضرر اور شرکے خاتمے کی ادنیٰ سی کوشش جاری رہنی چاہئے۔ بہر حال یہ دورِ اضطرار کے فتاویٰ ہیں ، جن پر اکتفا کرلینے کی بجائے اصل نظام خلافت وامارت کی قیام کی کوششیں کرنا ہمارا ملی فریضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کے وعدے سے عہدہ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ جب تک ہم اسلام کو زندگی کے تمام پہلوؤں میں نافذ نہیں کرتے، خیر وفلاح کی اُمیداور توقع رکھنا عبث ہے! واللہ اعلم


حوالہ جات
1. صحیح بخاری: 59
2. صحیح مسلم: 1825
3. تفسیر ابن کثیر: زیر آیت ِمحولہ بالا
4. صحیح بخاری: 4469
5. سیاست ِشرعیہ: ص 96
6. ایضاً: ص 97
7. مستدرک حاکم، فتاویٰ ابن تیمیہ: 6؍369
8. مستدرک حاکم:4؍92
9. سنن ترمذی:2906
10. فتاویٰ ابن تیمیہ: 6؍379
11. کنز العمال
12. العدالة الاجتماعیة: ص 93 تا 101
13. صحیح مسلم: 3402 وغیرہ
14. صحیح بخاری:6722
15. فتاویٰ: 6؍269
16. سیاست ِشرعیہ مترجم: ص 88
17. الإمامة والسیاسةلابن قتیبة : 1؍41
18. بحوالہ محدث: اکتوبر 1992ء ، ص 9
19. معوقات تطبیق الشریعة از شیخ مناع القطان: ص 166
20. عربی مجلة الإصالة، اُردن: شمارہ4؍ص20

 


 

i. ان آیات واحادیث کے مطالعے کے لئے دیکھئے 'اسلامی سیاست' از مولانا گوہر رحمن: ص 220 تا 267 اور جمہوری تصورِ حاکمیت کے لئے: 'اسلام کاطرزِحکومت' : محدث، جون 2000ء، ص 48 تا 55 جبکہ دونوں کے تقابلی مطالعہ کے لئے: خلافت وجمہوریت از مولانا عبد الرحمن کیلانی: ص 225 تا 230
ii. حضرت علی بن ابی طالب، ابن عباس، زید بن اسلم، شہر بن حوشب اور مکحول نے کہا کہ یہ آیت اُمرا او ر حکام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔تفسیر ابن جریر: 1455، ابن کثیر 3212، قرطبی: 2565... مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: 'محدث' بابت1979ء کا خاص نمبر 'جمہوریت یا اسلام':ص 45
iii. اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قیامت کے انتظار سے مراد یا تو اجتماعی ہلاکت وبربادی ہے، یا انفرادی موت یا عذاب جیساکہ امام راغب اصفہانی نے المفردا ت میں الساعة کے یہی تین معانی بیان کئے ہیں۔ (5131 مترجم)
iv. مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: 'اسلا م اور جمہوریت میں تصورِ نمائندگی': محدث اکتوبر 1992ء، ص 2 تا 10
v. اسلام میں عوام کی رائے بڑی اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کا کردار انفعالی ہے، وہ منصب کی نشاندہی کی صلاحیت تو نہیں رکھتے لیکن صاحب ِمنصب ان کا اعتماد یافتہ ضرورہوتا ہے جسے ولاة الامر اہلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے متعین کرتے ہیں ، جیسا کہ حضرت عثمان کو خلیفہ متعین کرتے ہوئے عبد الرحمن بن عوف نے راے عامہ کو پیش نظر رکھا تھا: ن قد نظرت في أمر الناس فلم أرهم یعدلون بعثمان (بخاری:6667) خلفاے اربعہ میں سے کسی کا انتخاب جملہ عوام نے براہِ راست نہیں کیا لیکن وہ سب اُمت کے اعتماد یافتہ تھے۔
vi. جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن عفان کو اشارتاً ان کی امارت کے متعلق یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (یا عثمان إ نه لعل اﷲ یقمصك قمیصًا فإن أرادوك علی خلعة فلا تخلعه) (سنن ترمذی:3705) ''عثمان! عنقریب اللہ تعالیٰ تجھے خلعت ِ(امارت) پہنائیں گے، لوگ تجھ سے اس کے اُتارنے کا مطالبہ کریں گے، لیکن تو اسے مت اُتارنا ۔''
vii. تفصیل کے لئے دیکھئے : مقالہ 'نفاذِ دین کے لئے چند شرائط' مقالاتِ اصلاحی: ج1 ص 253 تا 258
viii. مزید تفصیل کیلئے محدث میں شائع شدہ تفصیلی فتویٰ اور مضمون بعنوان: 'پارلیمنٹ کی رکنیت اور سرکاری عہدے' ( جنوری 1997ء ص48 تا 99) اور محدث بابت ستمبر، اکتوبر 1981ء وغیرہ