غامدی صاحب اور انکارِ حدیث

اس سلسلۂ مضامین میں اُن اُمور پر تفصیلی بحث و گفتگو کی جارہی ہے، جن کی بنا پر ہمارے نزدیک غامدی صاحب کا شمار منکرین حدیث میں ہوتا ہے اور اُن کا نظریۂ حدیث انکارِ حدیث پر مبنی ہے۔

پہلی قسط میں ہم نے غامدی صاحب کو اس لئے منکر ِحدیث قرار دیا تھا کہ وہ سنت کی ابتدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ماننے کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مانتے ہیں اور سنت کی اسلامی اصطلاح کا مسلّمہ مفہوم چھوڑ کر اس سے اپنا خود ساختہ مفہوم نکالتے ہیں ۔ اب ہم زیر نظر مضمون میں اُن کے انکارِ حدیث کے کچھ نئے وجوہ بتائیں گے۔

چنانچہ وہ حدیث کی اہمیت اور حجیت کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنہیں بالعموم 'حدیث' کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔'' 1

پھر اپنی اس بات کو وہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اُن سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔'' 2

پھر اپنے اس نظریے کو وہ بطورِ ایک اُصولِ حدیث کے، یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
''اس (حدیث) سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔'' 3

مذکورہ حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک
حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے۔
حدیث اور دین الگ الگ چیزیں ہیں ۔
کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔
کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔

اَب ہم ان تمام اُمور پر تفصیلی گفتگو کریں گے :

کیا حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے؟
علمِ حدیث کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام نہیں بلکہ اس میں اخبارِ متواترہ بھی شامل ہوتی ہیں ۔ یہ غامدی صاحب کی 'روشن خیالی' ہے کہ وہ حدیث کو صرف اَخبارِ آحاد میں محصور و محدود قرار دیتے ہیں ۔ اگر وہ اپنی 'رُبع صدی' پر محیط دینی تحقیق کے ساتھ ساتھ کبھی چند لمحے اس پر بھی صرف کرتے کہ علم حدیث کی کوئی متداول کتاب مثلاً 'مقدمہ ابن الصلاح' اور 'نخبۃ الفکر' ہی دیکھ لیتے تو اُن کو یہ معلوم ہوجاتا کہ حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام نہیں ہے بلکہ اس اصطلاح میں اخبارِ متواترہ بھی شامل ہوتی ہیں ۔

اُمت کے کسی فقیہ یا 'محدث' نے آج تک حدیث سے صرف اخبارِ آحاد مراد نںیق لیں اور نہ کسی نے اخبارِ متواترہ کو حدیث سے خارج قرار دیا ہے۔ یہ 'اعزاز' صدیوں بعد صرف غامدی صاحب کو حاصل ہوا ہے جنہوں نے تمام محدثین اورفقہا کے برخلاف صرف اخبارِ آحاد کو حدیث سمجھا ہے اور اخبارِ متواترہ کو حدیث کے زمرہ سے نکال باہر کیا ہے۔

جیسا کہ میں نے کئی بار واضح کیا ہے کہ غامدی صاحب کا 'طریق واردات' یہ ہے کہ وہ اصطلاحات تو علماے اسلام کی استعمال کرتے ہیں مگر ان کے معانی اپنے جی سے گھڑ لیتے ہیں اور اس طرح خود گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ وحی، کتاب، سنت، تواتر، فطرت، اِجماع، معروف، منکر اور عرف جیسی بہت سی اسلامی اصطلاحات کے من گھڑت معنی لے کر اُنہوں نے دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے۔

چنانچہ غامدی صاحب نے اخبارِ متواترہ کو 'حدیث' کے زمرے سے خارج کرکے میرے نزدیک 'انکارِ حدیث کا ارتکاب' کیا ہے۔

کیا حدیث اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں ؟
غامدی صاحب نے حدیث اور دین کو دو الگ الگ چیزیں سمجھ رکھا ہے۔ اُن کے نزدیک حدیث دین سے خارج کوئی شے ہے، جس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ گویا دین حدیث کے بغیر بھی مکمل ہے اور حدیث دین سے زائد کوئی چیز ہے۔

غامدی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ حدیث کے بغیر دین کا تصور صرف منکرینِ حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اہل اسلام حدیث و سنت کے بغیر اسلام کو مکمل نہیں سمجھتے، کیونکہ اسلام نام ہی قرآن و حدیث کے مجموعے کا ہے۔ اگر حدیث کو اسلام سے خارج کردیا جائے توجو کچھ باقی بچے گا، وہ صحیح اسلام نہیں ہوگا بلکہ ناقص اور اُدھورا اسلام ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناقص اور اُدھورا اسلام مقبول نہیں ۔

کیا حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا؟
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو عقائد صرف حدیث سے ثابت ہیں ، وہ اُن سب کے منکر ہیں ۔

اہل علم جانتے ہیں کہ بہت سے اسلامی عقائد کی بنیاد صرف 'احادیث' پر ہے اور وہ صرف حدیث ہی سے ثابت ہیں جیسے :
تقدیر پر ایمان: تقدیر پر ایمان لانا حدیث ِجبریل ؑ سے ثابت ہے اور اس حدیث میں جو اُمور بیان ہوئے ہیں ، اُن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 'دین' قرار دیا ہے(یُعَلِّمکم دینکم)4 لہٰذا تقدیر پر ایمان لانادین کا حصہ ہے اور اُن امور میں سے ہے جن پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوتا۔ مگر غامدی صاحب فرما رہے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ اگریہ کہا جائے کہ تقدیر پر ایمان لانا کوئی الگ عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ توحید کے عقیدے کی فرع ہے تو پھر عقیدۂ آخرت کو عقیدۂ توحید کی فرع قرار دینے میں کون سا امر مانع ہے۔ وہ بھی تو توحید ہی کے عقیدے کی فرع ہے، لیکن اُس کی ایک مستقل حیثیت ہے اسی طرح تقدیر پر ایمان لانے کا عقیدہ بھی اپنی ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ِجبریل ؑ میں اس کو الگ اور مستقل حیثیت سے بیان فرمایا ہے اور اس عقیدے کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔

عقیدۂ توحید کے علاوہ بہت سے عقائد احادیث ہی کی بنیاد رکھتے ہیں ، مثال کے طور پر
قبر کا عذاب 5
قبر میں فرشتوں کا آنا اور میت سے سوال و جواب کرنا 6
یہ عقیدہ کہ تمام اَعمال کا دارومدار نیت پر ہے 7
ختم نبوت کا عقیدہ اور مدعی ٔ نبوت کا واجب القتل ہونا۔ 8
یہ عقیدہ کہ گناہگار مؤمن دوزخ کی سزا پانے کے بعد بالآخر جنت میں جائیں گے۔ 9
عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اُٹھایا جانا (رفع عیسیٰ ؑ) ؛ اور اُن کا دوبارہ قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لانا (نزولِ عیسیٰ ؑ) 10
نیک اعمال کو وسیلہ بنانے کا عقیدہ 11
آخرت میں پُل صراط کا ہونا (جَسْر) جس پر سے سب انسانوں کو گزرنا پڑے گا پھر جو لوگ جنت کے مستحق ہوں گے، وہ اسے عبور کرکے جنت میں داخل ہوں گے اور دوزخی اسے پار نہ کرکے جہنم میں گرجائیں گے۔ 12
(رحمت کے) فرشتے اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصاویر اور کتے موجود ہوں ۔ 13
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ِکبریٰ جب آخرت میں وہ سجدہ میں جاکر اپنی اُمت کے لئے شفاعت کریں گے اور وہ مقبول شفاعت ہوگی۔14
فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں ۔15

یہ اور اس طرح کے مزید بہت سے مسلّمہ اسلامی عقائد ہیں جو صرف حدیث سے ثابت ہوتے ہیں ۔ اب اگر غامدی صاحب کے اس نظریے کو درست مان لیا جائے کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو ہمیں بہت سے مسلّمہ اسلامی عقائد کو ترک کرنا پڑے گا اور ہم غامدی صاحب کی خاطر اسلام کے مسلّمہ عقائد چھوڑ نہیں سکتے، کیونکہ ایسا کرنا عین گمراہی ہے۔

کیا کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا؟
غامدی صاحب کے خیال میں حدیث سے دین کا کوئی عمل یا حکم ثابت نہیں ہوتا ،لیکن اُن کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح حدیث سے دین اسلام کے عقائد ثابت ہوتے ہیں ، اسی طرح ان سے دینی اعمال و احکام بھی ثابت ہوتے ہیں ۔

پھر جس طرح حدیث سے ثابت شدہ عقائد کا انکار کفر اور گمراہی ہے، اسی طرح حدیث سے ثابت شدہ اعمال و احکام کا انکار بھی کفر اور گمراہی ہے۔ جو شخص بھی حدیث سے ثابت شدہ عقائد و اعمال کا منکر ہے، علماے اسلام کے نزدیک وہ کافر اور گمراہ ہے۔ ذیل میں ہم چند ایسے دینی اعمال و احکام بیان کرتے ہیں جو صرف حدیث کی بنیاد پر ثابت ہیں :
مرتد کے لئے سزاے قتل 16
شادی شدہ زانیوں کے لئے رجم یعنی سنگساری کی سزا 17
شراب نوشی پر سزا 18
مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا 19
عورتوں کے لئے خاص ایام میں نماز کا معاف ہونا 20
کسی کی منگنی پر دوسرے کا منگنی نہ کرنا 21
کسی کے سودے (بیع) پر دوسرے کا سودا نہ کرنا 22
مردوں کے لئے سونے کے استعمال کا حرام ہونا 23
مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننے کی ممانعت و حرمت 24
شہید کی میت کو غسل نہ دینا اور اُسے کفن نہ پہنانا 25
کسی مسلمان مرد کے لئے اپنی پھوپھی، بھتیجی یا خالہ ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کا حرام ہونا 26
پالتو گدھے ،کچلی والے درندے ،اور پنجے والے شکاری پرندوں کا گوشت حرام ہونا 27
نمازِ تراویح 28
نمازِ استسقا 29
نمازِ کسوف 30
کسی نبی کو اُس جگہ دفن کرنا جہاں اُس کی وفات ہوئی ہو 31
مختلف قسم کے اَموال پر زکوٰۃ کے نصابات 32
سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد 'آمین' کہنا 33
مریض کی عیادت کرنا 34
مردہ مچھلی کا حلال ہونا 35
جوتا پہنتے وقت پہلے دائیں پاؤں میں جوتا پہننا اور اُتارتے وقت پہلے بائیں پاؤں سے جوتا اُتارنا 36
مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا کرنا اور مسجد سے باہر نکلتے وقت دعا کرنا 37
نومولود کو گھٹی دینا 38
حج مبرور کی جزا جنت ہے! 39
وضو میں موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا 40

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں دینی اعمال و اَحکام ہیں جو صرف صحیح حدیث سے ثابت ہوتے ہیں اور ان کو دینی اعمال و اَحکام یا 'سنت' سے خارج سمجھنا (جیسا کہ غامدی صاحب سمجھتے ہیں ) اسلام سے ناواقفیت اور پرلے درجے کی جہالت ہے۔
البتہ یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہئے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صور ت میں قبول کیا جائے گا جب وہ صحیح طور پر ثابت ہو۔ ضعیف اور موضوع قسم کی کسی حدیث سے دین کا کوئی حکم یا عمل ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
حدیث کی اہمیت اور حجیت ایک مسلّمہ دینی امر ہے اور غامدی صاحب دین کے مسلمات ہی کے منکر ہیں ۔ اس لئے وہ ہمارے نزدیک نہ صرف منکر ِحدیث ہیں بلکہ منکر دین بھی ہیں ۔ حدیث سے محرومی پورے دین سے محرومی ہے۔ دین ایک اکائی ہے اور اس کے کسی ایک جزو کا انکار اس کے کل کا انکار ہے۔ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ اسلام کے بعض عقائد و اعمال کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں ۔ آپ کو یا تو اسلام کے تمام عقائد و اعمال کو تسلیم کرنا ہوگا یا سب کو ترک کرنا ہوگا۔آدھا، پونا، تہائی اور دو تہائی اسلام ایک بے معنی چیز ہے۔ دین اسلام میں اگر آپ حدیث کو چھوڑ دیں گے تو آپ کو پورے دین اسلام سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اور کوئی مسلمان اپنے آپ کو دین سے محروم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا۔

غامدی صاحب کو سوچنا چاہئے کہ حدیث کے بارے میں وہ اپنا عجیب وغریب نظریہ اختیار کرنے کے بعد کہاں کھڑے ہیں ؟ دائرئہ اسلام کے اندر یا دائرئہ اسلام کے باہر؟ کیونکہ دائرئہ اسلام کے اندر والے تمام اہل اسلام، اسلام کے بیشتر عقائد اور اعمال و احکام حدیث ہی سے لیتے ہیں جبکہ غامدی صاحب حدیث سے کوئی عقیدہ یا عمل یا حکم لینے ہی کے منکر ہیں ۔

قرآن میں کئی مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے کا حکم موجود ہے۔جو حدیث ہی کی پیروی کا دوسرا نام ہے:
ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُواٱلرَّ‌سُولَ وَلَا تُبْطِلُوٓاأَعْمَـٰلَكُمْ ﴿٣٣...سورۃ محمد
''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور ان (دونوں کی نافرمانی کرکے) اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔''

دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا ۚ...﴿٧﴾...سورۃ الحشر
''رسولؐ جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے روکے اُس سے رُک جاؤ۔''
یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو واجب الاطاعت قرار دیتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صحیح حدیث کو ماننا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

بلکہ یہاں تک فرما دیا گیا کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرلی تو اُس نے اللہ کی اطاعت کرلی:
مَّن يُطِعِ ٱلرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ...﴿٨٠﴾...سورۃ النساء
''جو شخص رسول ؐ کی اطاعت کرلے، اُس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔''

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ چونکہ غامدی صاحب کے نزدیک :
حدیث صرف اخبارِ آحاد کا نام ہے اور اس میں اخبارِ متواترہ شامل نہیں ۔
حدیث اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں اور حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔
کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔
کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل اور حکم ثابت نہیں ہوتا۔

لہٰذا ہماری رائے میں غامدی صاحب اپنے مذکورہ بالا نظریات رکھنے کی بنا پر 'منکرحدیث' قرار پاتے ہیں اور ان کا شمار منکرین حدیث میں ہوجاتا ہے، کیونکہ حدیث کے بارے میں اُن کے یہ خیالات اُمت کے اُن مسلمہ عقائد و اعمال کے بالکل خلاف ہیں جن کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کی جاچکی ہے۔ (جاری ہے)


حوالہ جات
1. میزان :ص10،11 طبع دوم اپریل 2002ء، لاہور واُصول و مبادی: ص11، طبع دوم فروری 2005ء، لاہور
2. اُصول و مبادی : ص68، طبع دوم فروری 2005ء، لاہور
3. میزان : ص68، طبع دوم اپریل 2002ء، لاہور
4. صحیح مسلم:9
5. صحیح بخاری:1372
6. صحیح بخاری:1338
7. صحیح بخاری:1
8. صحیح بخاری:3535،سنن ابی داود:4252
9. صحیح بخاری:7440
10. صحیح بخاری:2222
11. صحیح بخاری:2215
12. صحیح بخاری:7440
13. صحیح بخاری:3225
14. صحیح بخاری:4712
15. صحیح مسلم:2996
16. صحیح بخاری:6878
17. صحیح بخاری:6824
18. صحیح مسلم:1706
19. صحیح بخاری:5893
20. صحیح بخاری:306
21. صحیح بخاری:5144
22. صحیح بخاری:2139
23. سنن ترمذی:1720
24. صحیح بخاری:5833،ترمذی:1720
25. صحیح بخاری:1347،سنن ابی داود:3133
26. صحیح بخاری:5109
27. صحیح بخاری:3155
28. صحیح بخاری:1147
29. صحیح بخاری:1005
30. صحیح بخاری:1041
31. سنن ترمذی:1018
32. دیکھئے کتب حدیث
33. صحیح ابن حبان:1802
34. صحیح بخاری:1240
35. صحیح بخاری:4362
36. صحیح بخاری:5856
37. صحیح مسلم:713
38. صحیح بخاری:5467
39. صحیح بخاری:1773
40. صحیح بخاری:205،سنن ابی داود:146