نظریات کبھی قوت سے تبدیل نہیں کیے جا سکتے

دعوتِ دین کا مضبوط اور مؤثر نیٹ ورک چلانے والے ممتاز عالم دین، دانش ور، ماہر قانون اور جامعہ لاہور اسلامیہ، گارڈن ٹاؤن لاہور اور معروف علمی مجلّہ 'محدث' کے مدیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ نظریات اور جذبات کبھی فوجی قوت سے دبائے نہیں جا سکتے ہیں۔ اس قسم کے مسائل کا واحد حل ذہن سازی ہے۔ سوات میں جس طرح مولانا صوفی محمد کو بیچ میں ڈال کر طالبان کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی گئی، اسی طرح مؤثر علمی شخصیات کے ذریعے اور اُنہیں واسطہ بنا کر مذہبی انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں اُنہوں نے لاہور میں ایڈیٹر 'حدیبیہ' سید عامر نجیب کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہیں۔ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ ڈپریشن کے مریض کا تشدد کے ذریعے علاج کبھی بھی کار آمد نہیں ہوتا۔ اُنہوں نے کہا کہ ملک کی موجودہ تشویشناک صورتِ حال امریکہ کی پیدا کردہ ہے۔ وہ پاکستان سے اسلام کا نام مٹانے اور ایٹمی صلاحیت کے خاتمے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے موجودہ حکومت مشرف سے بڑھ کر امریکی ایجنڈا پورا کرنے میں مگن ہے۔ جب پیسے کی اہیمت انسانی عزت و وقار سے بھی بڑھ جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے، ایسے میں غیرت و حمیت تو دَم توڑ دیتی ہے۔

طالبانائزیشن سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا اگر طالبانائزیشن سے مراد نفاذِ شریعت ہے تو ہم اس کے قائل ہیں لیکن اگر اس کا معنی تشدد کے ذریعے ملک بھر میں تحریک چلانا ہے تو ہم اس کے قائل ہیں اور اس بات کے طالبان بھی قائل نہیں۔ طالبان نے اپنے علاقوں کی حد تک تو شورش کی ہے لیکن پورے پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لئے تشدد کی کوئی لہر موجود نہیں۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا نعرہ لگانے والی جماعتیں پر امن ہیں اور آئینہ جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں۔ اس وقت پر تشدد تحریکوں کو جواز بنا کر اُن پر اَمن دینی جماعتوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی بات کرتی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ امریکہ نے جس طرح عراق میں فرقہ واریت کو فروغ دیا، ایک طرف سنیوں کو خود کچلا اور دوسری طرف شیعہ حکومت بنا کر ان کے ذریعے سنیوں کو تباہ کرایا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اُنہیں کمزور کیا، یہی کام وہ پاکستان میں کرنا چاہتا ہے۔ مزارات کا ایشو بھی اسی لئے اُٹھایا گیا ہے۔ دراصل طالبان تحریک میں بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیاں شامل ہو چکی ہیں اور ان کے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے کام کرائے جا رہے ہیں جیسا کہ یہ خبریں آئیں کہ طالبان مزارات کو توڑ رہے ہیں حالانکہ یہ صرف الزام ہے، اس مقصدکے لئے شر پسند ایجنٹ استعمال کئے گئے ہیں۔ طالبان کو دوسرے فرقہ کے عقائد پر حملہ آور ہوتے دکھانے کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا ہے، حالانکہ نظامِ عدل ریگولیشن میں مزارات کے تحفظ کی ضمانت موجود ہے جسے تحریکِ نفاذ شریعت نے نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ معاہدے میں یہ بات موجود ہے کہ 'نوادرات کے تحفظ کا قانون 19۷5ء، یہاں نافذ ہو گا اس قانون میں مزارات اور عبادت گاہوں کا تحفظ بھی موجود ہے۔ اگر مولانا صوفی محمد نے مزارات توڑے ہوتے تو وہ معاہدے کی یہ شق قطعی قبول نہ کرتے۔

اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کا طریقۂ واردات یہی ہے کہ وہ پہلے فرقہ واریت پھیلا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا ہے اور پھر جب وہ کمزور ہو جائیں تو اُن پر حملہ کر دیتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ صوفی محمد صاحب کا مطالبہ بڑا سادہ اور جائز تھا کہ ہمارا نظامِ عدل وہی رکھا جائے جو پہلے سے سوات میں چل رہا تھا، ہم انگریز کا نظام نہیں مانتے۔ لیکن حکومت کی پالیسیوں اور غیر ملکی مداخلت نے سوات کے مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سوات کے جنگجو اور پر امن لوگ سب یہ سمجھتے ہیں کہ ڈالروں کے لئے یہ آپریشن کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کو کہا گیا کہ آپ آپریشن کریں اور زرداری صاحب نے امریکہ میں اسے کیش کرایا۔ اُنہوں نے کہا کہ جہاد کے عالمی اتحاد کے تحت لڑنے والوں کو کچلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان میں مایوسی پیدا ہوئی ہے کہ ہم نے کن لوگوں کے لئے کام کیا تھا؟ اب ہمارے خلاف یہی یہ سارا کام کیوں ہو رہا ہے۔ یہ انتہا پسندی ایکشن کا رِی ایکشن ہے!!

ہم نے مشرف کو امریکہ کی بلیک میلنگ میں آنے سے منع کیا تھا
حدیبیہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے ۳0 کے قریب دینی رہنماؤں کو مشاورت کے لئے بلایا اور اُنہیں بتایا کہ امریکہ نے ہمیں دوستی اور دشمنی میں سے کسی ایک کے انتخاب کا کہا ہے اور درمیان کی کوئی راہ نہیں۔ آپ بتائیں، ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ میں الحمد للہ اس مجلس کے ان چند ایک لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے پرویز مشرف کو کہا کہ فوری حمایت کے بجائے ایسی حکمتِ عملی اختیار کریں کہ آپ کو کچھ مہلت مل جائے اور اس دوران آپ اسلامی ممالک سمیت تمام دوست ممالک سے مشاورت کریں اور ایسے حالات بنائیں کہ کوئی متفقہ آواز اُٹھائی جا سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا میں یہ کام کر چکا ہوں، سعودی عرب کے شاہ سے میری دو گھنٹے بات ہوئی ہے، اُنہوں نے کہا کہ آپ اس میں دیر نہ کریں، ورنہ آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔ دیگر مسلم حکمرانوں نے بھی اسی قسم کا مشورہ دیا ہے۔ اس موقع پر اکٹر اسرار احمد نے کہا کہ آپ صرف مسلمانوں حکمرانوں کی بات نہ کریں بلکہ اپنے ملک اور دنیا کے دیگر مسلمان عوام کے انداز سے بھی سوچیں جو امریکی چنگل سے نکلنے کے لئے بے چین ہیں۔ حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ ہم نے مشرف کے سامنے کلمہ حق کہا اور اُسے متنبہ کیا کہ اگر امریکہ کی اس بلیک میلنگ سے اکار نہ کیا تو پھر بار بار بلیک میل ہوتے جاؤ گے۔ مشرف نے ہمیں کہا کہ اگلے سال دیکھنا میری حکمتِ عملی مفید رہے گی لیکن اب حالات واضح ہو چکے ہیں کہ اس وقت ہم نے جو بات کہی تھی، وہ واقعی درست تھی۔ ہم نے دو ٹوک انداز میں اُنہیں امریکہ کی بلیک میلنگ میں آنے سے روکا تھا۔

موجودہ ملکی صورتحال ہمارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے!
مولانا مدنی نے کہا کہ روحانی اعتبار سے دیکھا جائے تو حقیقت یہی ہے کہ موجودہ بد ترین صورت حال ہمارے اپنے کرتوتوں کے نتائج ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ پاکستان سے اسلام کا نام مٹانا چاہتا ہے۔ نفاذِ اسلام کیلئے طریقۂ جدوجہد کیا ہو؟ اس کے جواب میں اُنہوں نے فرمایا کہ مسئلہ خروج ایک نازل مسئلہ ہے۔ اسی سلسلے میں انفرادی طور پر کوئی بھی فتویٰ انتشار و خانہ جنگی کا باعث ہو گا۔ اگر کبھی صورتِ حال ایسی بنی تو اہل علم اکٹھے ہو کر متفقہ فتویٰ دیں، تب ہی وہ فتویٰ مؤثر ہو گا۔

جب حافظ عبد الرحمٰن مدنی سے پوچھا گیا کہ جن لوگوں نے خروج کر رکھا ہے اور پاکستان آرمی سے لڑ رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کا کیال خیال ہے؟ تو حافظ صاحب نے اس بات کا بالکل انکار کیا کہ پاکستان میں کسی نے خروج کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آرمی سے کوئی نہیں لڑ رہا بلکہ آرمی اُنہیں کچل رہی ہے اور اپنا دفاع کرنا کوئی خروج نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں حافظ عبد الرحمٰن مدنی نے کہا کہ مولانا صوفی محمد کا انداز حکیمانہ نہیں تھا، ان کے انداز سے ہمیں اختلاف ہے۔ ان کا کام تھا کہ قرآن و سنت کی بات کرتے اور کہتے کہ میں تو محمد ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا قائل ہوں، ملک کے آئین کو بدلنے کی بات کرنے کا کوئی تک نہیں تھا۔ یہ لفظ کہنا کہ جمہوریت کفر ہے یا یہ کہنا کہ ہماری سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ٹھیک نہیں ہے، اس طرح اُنہوں نے جو مسائل چھیڑے، اس وجہ سے وہ صحافیوں اور سیاستدانوں کی حمایت سے بھی محروم ہو گئے۔ دینی جماعتوں کو چاہئے کہ موجودہ حالات میں آئین اور دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ اسلام کی جدوجہد کریں۔1


حوالہ جات
1. شائع شدہ ہفت روزہ 'حدیبیہ' کراچی؛ بابت 15؍ جون 2009ء، شمارہ 4