سوات معاہدہ،نقل مکانی اور ملکی صورتحال
مدیر اعلیٰ 'محدث' حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ ایک اہم ملی مشن کی تکمیل کے لئے مئی 2009ء کے وسط میں عرب امارات کے دورے پر تھے۔ شارجہ میں 'جیو نیوز' کے مشہور پروگرام 'عالم آن لائن' میں اُنہیں سوات کی صورتحال پر تبادلہ خیال کی دعوت دی گئی۔ ملکی سطح پر اس انٹرویو کو خو ب سراہا گیا اور کئی بار نشر کیا گیا،کیونکہ اس میں بہت سے ایسے پہلو اُجاگر کئے گئے ہیں جو پہلے میڈیا میں نمایاں نہ تھے۔ضروری نوک پلک درست کرنے کے بعد یہ مکالمہ ہدیۂ قارئین ہے۔ (ح م )
السلام علیکم ورحمة اﷲ وبرکاتہ
عالم آن لائن' میں آپ کو خوش آمدید!
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین:حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب! آپ نے مولانا سید عدنان کاکا خیل کی زبانی مہاجرینِ سوات کی صورتحال سماعت فرمائی، اسکے بارے آپ کیا فرماتے ہیں ؟
حافظ عبد الرحمن مدنی: ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ! آپ نے آغاز میں سوات اور مالا کنڈ میں جاری المیے کی جو توجیہات ذکر فرمائی ہیں ، وہ تمام تر روحانی ہیں ، البتہ زمینی حقائق اور حالات کے واقعاتی جائزہ سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستان ماضی میں کن غلطیوں کا شکار رہا، اور کونسی ایسی کوتاہیاں تھیں جن کی وجہ سے پاکستان پر ایسی آفتیں آئیں ؟ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان پر یہ آفت ان روحانی وجوہ کے علاوہ کچھ اپنی کوتاہیوں کی بنا پر بھی آئی ہے۔
جس میں یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی جوہر ی قوت ہے اورپہلی جوہری قوت ہونے کے باوجودپاکستان کی حالت یہ ہے کہ جب حادثہ 11؍ستمبر2001ء کے بعد امریکی وزیر خارجہ کا جنرل پرویز مشرف کو فون آیا تھا تو اس وقت جنرل پرویز مشرف نے پاکستان بھر سے نمائندہ زعمائے ملت کو جمع کیا، اور تین اہم مواقع پر ہمارے ساتھ ان کی نشستیں ہوئیں ۔پہلی ہی مشاورت میں ہم نے اُنہیں کہا تھا کہ کسی بلیک میلر کی پہلی بات کا انکار کرنا ضروری ہوتا ہے، اگر اس کی ابتدائی بات مان لی جائے تو اس کے بعد تسبیح کے دانوں کی طرح تمام کی تمام باتیں ماننی پڑتی ہیں ، چنانچہ حالات نے بتایا کہ پرویز مشرف نے درجہ بدرجہ امریکہ کی وہ تمام باتیں مان لیں جس کے منظور ہونے کی امریکہ کو بھی اُمید نہ تھی۔
اس وقت تو پاکستان میں جمہوری حکومت موجود ہے، لیکن افسوس ناک صورتِ حال یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت پرویز مشرف سے بھی بڑھ کر امریکہ کو وفاداری کا یقین دلار ہی ہے۔ اِدھر سوات آپریشن کی تیاری شروع ہوئی۔ اُدھر ہمارے صدر داد لینے اور یہ بتانے کے لئے امریکہ پہنچ گئے کہ ہم نے وہ کام شروع کردیا ہے جو امریکہ کا ایجنڈا اوردیرینہ مطالبہ تھا۔ البتہ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ اس وقت تک صوفی محمدکے بعض بیانات یا طالبان کے کردارکے بارے میں جو باتیں میڈیا میں آئی ہیں ، اس کی رو سے یہ لوگ انتہا پسند ہیں ۔
ڈاکٹرصاحب: ان لوگوں کو کیونکر معصوم قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ آ پ دیکھیں کہ خود کش حملے ہوئے، مساجد کو لہوسے رنگین کیا گیا،یہ زیادتیاں ان کی طرف سے ہوئی ہیں !!
حافظ صاحب: جب اس طرح کا کوئی واقعہ ہو تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ ایسے واقعات کا ارتکاب درحقیقت کن لوگوں نے کیاہے؟ مثال کے طور پر کچھ واقعات مزارات کے بارے میں ہوئے ہیں ، جس پر ہمارے ہاں بریلوی مکتب ِفکر بہت سیخ پا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مزاروں کی توہین کی گئی ہے، لیکن دوسری طرف میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ تحریک ِنفاذِ شریعت کے سربراہ صوفی محمد نے حکومت سے جس 'نظامِ عد ل ریگولیشن' کی تعمیل کا مطالبہ کررکھا ہے، اس کے پہلے شیڈول میں یہ شق موجود ہے کہ پاکستان میں 19۷۵ء کے 'تحفظ ِنوادارات 'قانون کی پابندی کی جائے گی۔ واضح ہے کہ جب وہ نوادارت کے تحفظ کا معاہدہ کررہے ہیں تو ان کے اندر یہ مزاربھی شامل ہیں ، جن کے تحفظ کا وہ معاہدہ کررہے ہیں ۔ تو جب 'تحریک ِنفاذ شریعت' نے 'تحفظ ِنوادرات' کا معاہدہ ومطالبہ کررکھا ہے تو وہ لوگ خود ایسی حرکت کیسے کرسکتے ہیں ؟
ڈاکٹرصاحب: مگر اس کے باوجود اُنہوں نے مزارات کو نقصان پہنچایا۔
حافظ صاحب: میں اسے تحریک ِنفاذ شریعت کے خلاف پروپیگنڈہ سمجھتا ہوں ، کیا صوفی محمد نے اُنہیں نقصان پہنچایا ہے؟
ڈاکٹرصاحب: ہم اس میں نہیں پڑتے کہ کس نے یہ کام کیاہے، لیکن مزارات کو نقصان تو پہنچا ہے؟ قبروں سے لاشیں نکال کر لٹکائی گئیں ،یہ سب کچھ ہوا، لیکن فی الحال اس کو چھوڑ دیں ، کیونکہ یہ ایک مستقل بحث ہے، آپ یہ فرمائیے کہ سوات کی موجودہ صورتِ حال میں نقل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے لئے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ علماء کو کیا کرنا چاہیے، ماشاء اللہ آپ جیسے قابل افراد موجودہیں ، جو دین کا شعور رکھتے ہیں ... ہم اس وقت کیا کریں ؟
حافظ صاحب: اَفراد کی نقل مکانی کا مسئلہ واقعتابہت بڑا المیہ ہے، اس المیہ کے افسوسناک ہونے کے بارے میں تو تمام لوگ کہہ رہے ہیں ، لیکن 'عالم آن لائن' کا تقاضا کچھ اور بھی ہے کہ اس کی وہ وجوہ جانی جائیں جو خاص طور پر اس المیہ کا سبب بنی ہیں ۔ یوں بھی 'تحریک ِنفاذ شریعت محمدیؐ' شریعت کے نفاذ کی تحریک ہے، اس کے موقف اورکوتاہیوں کو یہاں زیر بحث آنا چاہئے۔ شریعت کے طالب ِعلم کی حیثیت سے ہمیں اس کا شرعی جائزہ لینا چاہئے، اس لیے کہ پاکستان میں اسلا م کے مخالفت کی دس سالہ جنگ کے بعد نفاذِ شریعت کی یہ آواز گویا ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے جس میں شرعی نظام عدل کو قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
پاکستانی عوام نے قیام عدل کی ایک تحریک تو وکلا کے ساتھ چلائی جو 1۵؍مارچ کو کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی ہوئی اور ہمارے مروّجہ نظامِ عدل کو جمہوری طور پر آزادی ملی۔اور اس کے ساتھ دوسری 'تحریک ِنفاذ شریعت محمدی' بھی قیام عدل کا ایک اہم سنگ ِمیل ہے جس کے پس پردہ وہ معاہدئہ امن ہے جس پر قومی اسمبلی کی قرار داد پاس ہو نے کے بعدبالآخر صدر صاحب نے دستخط بھی کردیے ۔یہ بھی ایک خوش کن خبر تھی،اور اس سے یہ اُمید بندھی تھی کہ بالآخرپورا پاکستان اپنے مقصد ِقیام کی طرف لوٹ جائے گا۔
ڈاکٹر صاحب: لیکن یہاں صوفی محمد کو اپنی زبان کو بھی تھوڑا سا کنٹرول رکھنے کی ضرورت تھی۔ صوفی محمد صاحب کو جلسہ کر کے ایسی تقریر کرنے اور بعد میں انٹر ویو دینے کی کیا ضرورت تھی جس کی وجہ سے پوری قوم میں شبہات پیدا ہوئے۔ علماء بھی کہتے ہیں کہ اس میں بعض بیانات قابل غور ہیں ۔
حافظ صاحب:میں یہ سمجھتا ہوں کہ صوفی محمد سے یہ موقف اُگلوایا گیا، اور ان کے یہ پرانے خیالات جو عوام کے لئے ان کی ذات کے حوالے سے نئے تھے، پھیلاکر ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی گئی۔
ڈاکٹر صاحب: لیکن یہ تو صوفی محمد کا اپنا جلسہ تھا، اس میں کون سوال پوچھنے والا تھا؟
مدنی صاحب:آپ درست فرما رہے ہیں کہ صوفی محمد صاحب نے جلسہ کے بعد اپنے انٹرویو میں جو کچھ کہا ہے ،اس کی کوئی بھی حکیمانہ نظر رکھنے والا شخص تائید نہیں کرے گا، کیونکہ وہ فراست ودانائی کے منافی باتیں ہیں اورپھر بھی یہ ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں عوام کوئی گہرا شعور نہیں رکھتے، مثال کے طور پر اسمبلیوں یا آئین کو نہ ماننے کی بات کہہ دینا ،یا یوں کہہ دیناکہ ہماری نماز فلاں فلاں کے پیچھے نہیں ہوتی، ایسے نقطہ نظر کی کوئی بھی شخص تائید نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ یہ انتہاپسندانہ نظریات ہیں جنہیں عام لوگ گوارا نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب: کیا صوفی محمد کے پیش کردہ نظامِ عدل کو نافذ کر نا چاہیے؟
مدنی صاحب:ڈاکٹر صاحب! یہاں ایک بات قابل توجہ ہے: صوفی محمدکے اخبارات میں شائع شدہ موقفکو اگر غلط بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا موقف رکھنے والوں کی ہمارے قانون یا اسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے؟ کیا ایسے بیانات کی سزا یہ ہے کہ اس بنا پر اُنہیں قتل کردیا جائے۔چنانچہ فوجی کاروائی کی اصل وجہ یہ بیانات دینا نہیں بلکہ اس کے پس پردہ محرکات کچھ اور ہںب ۔
ہمارے ہاں بعض اوقات قرآنِ مجیدکے خستہ اوراق کو تلف کرنے کے لئے کچھ لوگ انہیں دفن کرنے سے قبل جلا دیتے ہیں ،جس پربعض لوگ ایسے شخص کے خلاف مشتعل ہوکر اس پر بدترین ظلم شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآنِ مجید کی توہین ہوئی ہے جیساکہ گوجرانوالہ کے اندر کچھ عرصہ قبل ایک حافظ ِقرآن کو اسی وجہ سے مارو! مارو!، پکڑو!کی دہائی دے کر ختم کر دیا گیا، اسی طرح لال مسجد کے واقعہ میں غازی برادران کے بعض اقدامات کی سزا اُنہیں یہ دی گئی کہ نہ صرف غازی عبدالرشید بلکہ لال مسجد کی عام طالبات کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کرکے نشانۂ عبرت بنا دیا گیا، یہ تو غلطی کو بڑا بنا کر ظلم کے جواز کے لئے استعمال کرنے والی بات ہوئی۔ دراصل سوات میں بھی جو کاروائی کی گئی ہے، اس میں ان بیانات سے یہی مقصد پورا کیا گیا کہ اب ہمارے لئے یہ آپریشن ناگزیر ہو گیا ہے !!
ڈاکٹر صاحب: لیکن جو بیانات صوفی محمد نے دیے ہیں وہ بھی صحیح نہیں تھے، اس کی وجہ سے ایک ماحول بن گیا۔ البتہ میں اس کی تائید کرتا ہوں کہ نظامِ عدل کو نافذ ہونا چاہیے ۔یہ بالکل صحیح ہے کہ ہمیں اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ پھر جس طرح صوفی محمد صاحب ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو عوام کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہیں ، توبہت سی باتیں مخالف اسلام دیگر لوگ بھی پاکستان میں کرتے ہیں ، جب ہم اُنہیں برداشت کرتے ہیں تو اِسی طرح اِنہیں بھی برداشت کرنا چاہیے۔ نظامِ عدل کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟
مدنی صاحب: افسوس کہ ہم صوفی محمد کے سلسلے میں انصاف نہیں کرسکے۔ جہاں تک نظام عدل کی بات ہے تو دنیا بھر مثلاً مشرقی یورپ وامریکہ وغیرہ میں ایسی عدالتیں موجود ہیں کہ جہاں فریقین آپس میں فیصلہ کرانے کے لیے خود قانون کا تعین کرکے فیصلے کرواتے ہیں ۔ ایسا اگر پاکستان میں بھی ہوجائے تو اس میں کیا حرج ہے؟بلکہ یہ تو پاکستان کے بنیادی مقصد کی طرف ہی پیش قدمی ہوگی۔
ڈاکٹر صاحب:مدنی صاحب! یہ سب کچھ تو ہو گیا، اب صورتحال تویہ ہے کہ اس وقت جو تیرہ لاکھ لوگ کیمپوں میں اس وقت محصور ہیں ، ان کے لئے علماء کو کیا کرنا چاہیے۔
مدنی صاحب: اس المیہ کا قوم کو پوری اجتماعی قوت سے سامنا کرنا چاہئے۔ جس طرح 19۴۷ء میں لاکھوں لٹے پٹے لوگ پاک سرزمین پر آئے تھے اور ہم نے ان کو سنبھالا تھا، اسی طرح تین برس قبل زلزلہ کے وقت جو کچھ ہمارے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں ،ہمیں اسی داستانِ وفا کو دہرانا ہوگا۔بلکہ بہت سے لوگ توکیمپوں میں کم جارہے ہیں ان کے جان پہچان کے لوگوں نے اُنہیں اپنے گھروں کے اندر جگہ دی ہوئی ہے۔ بعض لوگ بے حس بھی ہیں ، لیکن یہاں بہت سے احساس کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں ، ان کو مزید توجہ دلائی جاسکتی ہے بلکہ ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میں خود اس صورتحال کو قابو کرنے کے لئے اپنی سی بھرپور کوشش کروں ۔
یہ باتیں توسب لوگ کررہے ہیں ، کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آنی چاہیے جو کوئی بھی نہیں کرتا، مثال کے طور پر میں یہ سوال اُٹھانا چاہتا ہوں کہ صوفی محمد نے جمہوریت کو کفر کہہ دیا، یا یہ کہ میری فلاں فلاں کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس بیان کی وجہ سے وہ اس سزا کا حقدار ہو گیا ہے کہ اس کے بیٹے کی گردن اُڑا دی جائے۔کیاہمارا قانون اس سزا کی اجازت دیتا ہے؟
صوفی محمد کی تحریک کا بیس سالہ ماضی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ لوگ مجھ پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگاتے ہیں ، لیکن میں نے تو آج تک کسی کا ٹماٹر تک نہیں توڑا۔حالانکہ وہاں طالبان کا صوفی محمد کے'' امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تصور ''کے بارے اختلاف ہے،کیونکہ طالبان کا تصور صوفی محمد سے مختلف ہے،لیکن ان کے باہمی اختلاف کے باوجود صوفی محمدنے اس بات کی ذمہ داری اُٹھائی تھی کہ میں امن قائم کروں گا، ابھی امن معاہدہ کے تقاضے ہی پورے نہیں کئے گئے کہ فوجی آپریشن شروع کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بیس ، تیس لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور ہوگئے، جبکہ صوفی محمد اپنے عہد معاہدے کے ذریعے امن کوششوں کی دہائی دے رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب: یہ طالبان کا کیا پس منظرہے ؟
مدنی صاحب:امریکہ پاکستان کی جوہری قوت کو ختم کرنا چاہتا ہے جب کہ طالبان میں بعض شرپسند امریکہ کے اس ایجنڈے کی تکمیل کا سبب بن رہے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب: مطلب یہ کہ طالبان ان کے ایجنٹ ہیں؟
مدنی صاحب: (سب طالبان کے بارے میں یہ کہنا درست)نہیں !جب کسی مقام پر کوئی تحریک چلتی یا کوئی شورش اٹھتی ہے تو اس میں غلط کار لوگ شامل ہو کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ طالبان اندر غلط کار لوگ شامل نہیں ہیں ،بلکہ یہ یقینی امر ہے کہ ان کے اندر رَا کے ایجنٹ ہیں یا ہمارے دشمن بھی...!
ڈاکٹر صاحب: کیا ان کے اندر خودکش حملہ آور نہیں ہیں ؟
مدنی صاحب: کسی بھی پر امن شخص پر خودکش حملہ تو غلط بات ہے ۔
ڈاکٹر صاحب: کیا پر امن شخص کے علاوہ کسی اور شخص پر یہ حملہ کیا جاسکتا ہے؟
مدنی صاحب: مسلمانوں اور کافروں کی دو بدو جنگ میں تو اپنی جان دی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب: کیا خودکش حملہ کر کے...؟
مدنی صاحب:قرآن کریم کی سورة البروج میں ایک شخص کا ذکر آیا ہے جس نے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خاطراپنے آپ کو مارنے کا یہ طریقہ بتایا تھا کہ میرا یہ تیر لو اوراس پر اللہ کا کلمہ پڑھ کرمیرے یہاں مارو تو میں مر جاؤں گا،کیا یہ خود کش اِقدام نہیں ہے؟
ڈاکٹر صاحب: وہ توبالکل مختلف بات ہے، اس کا اس سے کیا تعلق ؟ آپ نے یہ کہا کہ صحابہ کا یہ طریقہ رہا ہے،حالانکہ صحابہ کرام تو شہادت کے لئے بے تاب وبے قرار رہتے تھے،غازی نہیں بننا چاہتے تھے۔ پھر بھی خود کش حملہ انہوں نے نہیں کیا۔ خود کش حملہ آورتو یہ سوچ کر جاتا ہے کہ میں نے شہید ہی ہو نا ہے ۔
مدنی صاحب:ساٹھ ہزار افراد پر جب ساٹھ آدمی حملہ آور ہوں تو کیا یہ خود کش حملہ نہیں ہے۔ کیا خالد بن ولیدؓ نے ساٹھ ہزار پرساٹھ آدمیوں کو لے کر حملہ نہیں کیا۔ کیا یہ خود کش حملہ نہیں ہے جبکہ ساٹھ کا ساٹھ ہزار سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب: اس طرح تو ایک ہزار افراد پر تین سوتیرہ نے حملہ کیاتوکیا یہ خود کش حملہ ہوگا، نہیں ، جی! یہ بالکل خود کش حملہ نہیں ہے۔
مدنی صاحب: اس وقت ہم خودکش حملے کی حمایت نہیں کررہے۔
ڈاکٹر صاحب:طالبان میں ایسے ہی لوگ گھسے ہوئے ہیں جو خود کش حملے کرتے ہیں ۔
مدنی صاحب: واضح رہے کہ خود کش حملے کے بارے میں ہم یہ توکہتے ہیں کہ اس شخص نے معصوموں کوہلاک کر دیا ہے، لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ اس شخص کے اندر کیا احساس محرومی ہے جو اپنے آپ کو پہلے ختم کررہا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب: وہ تو پاگل ہے ؟
مدنی صاحب: پاگل پن کی وجوہات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اصل وجہ کوئی ضرور ہوگی،کیونکہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی جان سے نہیں کھیل سکتا، یقینا شدید محرومی (Frastration) یا ظلم کا احساس ہی اس کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب:سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ذہنی پسماندگی ہے کہ آپ اپنا حق اور بات کہنے کے لئے کسی غلط رستہ کو اختیار کریں ۔ مدنی صاحب! پوری دنیا اس وقت یہ پروگرام دیکھ رہی ہے،ہمیں تو اسلام کا وہ امیج بتانا ہے جو اسلام کی اصل حقیقت ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے کہ خود کش حملے درست ہیں ۔ ہم اپنا کیس خود خراب کرتے ہیں ، پھر ہم دوسروں کو کوستے ہیں ۔ ہمیں تو ایسے حملہ آور کو سمجھانا چاہئے کہ تو پاگل ہو گیا ہے ، تمہارا تو یہ احساس ہی ختم ہو گیا ہے کہ زندگی میری بھی گئی اور دوسروں کی بھی۔
مدنی صاحب: ڈاکٹر صاحب! میں خود خودکش حملے کی حمایت نہیں کرتابلکہ میں تو خود کش حملے کی وجہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب: ہاں ، یہ وجہ بالکل ہوسکتی ہے۔
مدنی صاحب: چند دن قبل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر فتح محمد ملک نے کہا تھا کہ یہ جوکچھ ہو رہا ہے، یہ امریکی ظلم کے خلاف لوگوں کا ردّ عمل ہے۔ اگر ہم اس ری ایکشن کا خاتمہ نہیں کرتے تو اس نوعیت کے انتہائی اقدامات کا خاتمہ بھی مشکل ہے۔ غرض میں معصوم جانوں کے ضیاع کے لیے طالبان کی ہم نوائی میں خود کش حملہ کی حمایت قطعاً نہیں کررہابلکہ میں اس کی اصل وجہ پیش کر رہا ہوں ۔
ڈاکٹر صاحب!جہاں تک یہ المیہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے، ان کے بارے میں آپ جو بھی تجزیہ کریں اور جو بھی توجہ قوم کو دلائیں تو یہ بڑا قابل قدر کام ہے اور الحمد للہ آپ ایک اہم ملی فریضہ انجام دے رہے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہوں ، لیکن جو چیزیں اس وقت میڈیا میں نہیں آرہیں ،ان سے بھی ہمیں قوم کو باخبر کرنا چاہئے۔ میں صوفی محمد کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتابلکہ تمام مکاتب ِ فکر کی ایک مرکزی 'ملی شرعی کونسل' کے گذشتہ دنوں لاہور میں تین اجتماعات ہوئے، پہلے بریلوی مکتب ِفکر کے ہاں جامعہ نعیمیہ میں ہوا،پھر دیوبندی مکتب ِفکر کے ہاں جامعہ اشرفیہ میں ، پھر اہل حدیث کے مرکز ِقادسیہ میں علما کا ایک نمائندہ اجتماع ہوا۔ان اجتماعات میں تمام دینی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس بات کی حمایت کی کہ صوفی محمد سے مل کر، میڈیا میں ان کے خلاف جو یک طرفہ پیغام جا رہا ہے اس کی وضاحت حاصل کرنا چاہئے۔ضروری ہے کہ میڈیا میں تصویر کا دوسرا رخ بھی آئے۔یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ تمام لوگ صوفی محمدکی حکمت ِعملی سے اختلاف کرتے ہیں ، ان کے انتہا پسندانہ بیانات سے کوئی بھی اتفاق نہیں کرتا۔کیونکہ یہ موقع فتویٰ بازی کا نہیں ۔ لوگوں کو اسلام کے بارے میں مطمئن کرنے کا رویہ اپنانا چاہیے، لیکن یہ بات بطورِ خاص سامنے رہنی چاہئے کہ سوات وغیرہ میں اب ایسی صورت حال کیوں بنی ہے، نائن الیون سے پہلے یہ طالبان کہاں تھے ؟
نائن الیون سے پہلے طالبان کی طرف سے خود کش حملے کیوں نہیں تھے۔یہ خود کش تب کہاں تھے؟ جن کو ہم آج خود کش کہہ کر ان کی مذمت میں متفق ہیں ۔ یہ درست ہے کہ نائن الیون ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کے بعد ہم نے جوہری قوت ہو نے کے باوجود امریکہ کے سامنے سر نڈر کر دیااب اگرچہ فوجی حکومت کے بعدجمہوری حکومت آگئی ہے، لیکن یہ جمہوری حکومت پہلے سے بڑھ کر اپنے آپ کو امریکہ کا وفادار ثابت کر نے میں لگی ہوئی ہے۔ بلکہ ہم نے اپنے عوام کو تحفظ دینے کی بجائے ان کو بے یارو مددگار چھوڑرکھا ہے اور فوجی کاروائی حکومت کا یہ پروگرام تھا بھی تو کم ازکم اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا، تاکہ عوام کم سے کم متاثر ہوتے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں کے اندر گولے گر رہے ہیں ،گولیاں برس رہی ہیں اور لوگ وہاں سے صرف اپنے جسم پرموجود کپڑوں میں بے یارو مددگار نکل رہے ہیں ۔
پھر زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو سوات ومالا کنڈ میں کیا جارہا ہے، یہ پاکستان کااپنا ایجنڈا نہیں بلکہ امریکہ کا ایجنڈا ہے، جس کے لئے نیٹو افواج کو یہاں لاکر بٹھایا گیا ہے اور ڈرون حملے کیے جارہے ہیں ،مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا جار ہا ہے اور اس کے بدلے میں شرم کی بات ہے کہ یہاں خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ہمیں اتنے ڈالر مل گئے ہیں ،اس کا معنی تو یہ ہوا کہ ہم نے اپنے بچوں ، عورتوں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بیچ کرڈالر حاصل کرنے ہیں ۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات اور کیا ہوسکتی ہے!
ڈاکٹر صاحب! پروگرام کے آغاز میں آپ نے جو حدیث سنائی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری بہت بڑی کثرت ہو نے کے باوجود تم دنیا کے لئے اس طرح بے وزن ہوجاؤ گے جس طرح بھس ہوتا ہے۔اسی فرمانِ نبویؐ میں یہ ذکر ہے کہ ''تم مال کے اُمیدوار بنو گے، مال کا لالچ کروگے اور موت سے تمہیں نفرت ہوگی۔'' ہم نے کیا کیا ہے، یہ صرف مال کا لالچ ہے اور ہم برابر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اتنے ڈالر مل گئے ہیں ۔ بھائی بہت ڈالر مل گئے ہوں گے لیکن یہ تو بتائیے کہ یہ جو بیس لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے ہیں ، یہ کس کی وجہ سے ہوئے ہیں ؟ اگر صورت حال یہ ہے تو کیا یہ سب کچھ امریکہ کے ایکشن کا رِی ایکشن نہیں ہے؟ اگر طالبان زیادتی کر رہے ہیں تو دیکھئے! وہ عالم لوگ نہیں ہیں بلکہ انتقام و ردّ عمل میں بپھرے ہوئے ہیں ۔ ان کے طریقہ کار سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن دوسوال یہاں ضرور ہیں کہ سب سے پہلے وہ لوگ تشدد پر کیوں اتر آئے۔ اتنی محرومی اور مایوسی کیوں پیدا ہوئی ہے؟ جب کوئی خود کش حملے کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ آدمی اپنی جان دیتا ہے! جب وہ اپنی جان دے سکتا ہے تو اس کے نزدیک کسی کی قیمت نہیں ہوتی۔ اپنی جان وہ کسی شدید احساس کی وجہ سے دیتا ہے، اس کے اندرمحرومی و مایوسی کی شدت ہوتی ہے !
ڈاکٹر صاحب: اپنے لوگوں کو ذبح اوراپنے لوگوں کو قتل کرنے سے امریکہ کو کیا فرق پڑا؟
مدنی صاحب:دیکھیں ، یہ طریقۂ کار غلط ہے !
ڈاکٹر صاحب: یہ بات سو فیصد غلط ہے، محض جذباتی بات نہیں ہے ۔
مدنی صاحب: یہ سارا کچھ غلط ہے، لیکن غلط کام کے بارے میں کم ازکم حکومت کو یہ بتاناچاہیے کہ غلطی کس قدر ہے؟ کیا اس غلطی کا معنی یہ ہے کہ اُن کے پرخچے اُڑا دیے جائیں یا سب کے سب لوگ ختم کر دیے جائیں ۔
ڈاکٹر صاحب: یہ بالکل آپ نے صحیح فرمایا کہ ری ایکشن ہے، لیکن جو غلط ہے، وہ غلط ہے اس کو اچھا بھی نہیں کہنا چاہیے۔ یہ بتائیے کہ (پوری دنیا آپ کو سن رہی ہے) ، آپ ایک تجویز اور نصیحت کے طور پر حکمرانوں کو کیا کہنا چاہیں گے کہ اُنہیں کس طرح سے اس معاملے کو ہینڈل کرنا چاہیے۔
مدنی صاحب: ہر ایک آدمی کو برابرکا مجرم سمجھ کرکے اس کے پرخچے اُڑا دینا درست نہیں ہے۔ اس وقت اپنے لوگوں سے ڈائیلاگ اور مکالمہ کی ضرورت ہے ۔یہ طالبان جن کو آپ شر پسند اور تشدد پسند سب کچھ کہہ رہے ہیں ،اگرچہ مجھے طالبان کے رویے سے بالکل اتفاق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ انہی علاقوں میں آباد تھے وہاں تو کوئی بد امنی نہیں تھی، امن موجود تھا۔ اَب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے جو آپریشن شروع کردیا ہے تو یہ بالکل بنگلہ دیش کی تاریخ دہرائی جارہی ہے، بنگلہ دیش میں جب ایک دفعہ آپریشن ہوا تھا تو ہم لوگوں نے پاک فوج کا ساتھ دیا تھا ،لیکن اس کے بعد جو کچھ حشر ہوا ہے، وہ حشر بھی لوگوں نے دیکھ لیا۔ میں یہ سمجھ رہا ہوں کہ جس طرح لال مسجد کے سانحہ نے سوات کے المیہ کو جنم دیا ہے، سوات کا المیہ ایک نیا المیہ دکھا رہا ہے جس کے ساتھ پاکستان مزید کمزوری کا شکار ہو سکتا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب: خاکم بدہن ، اللہ اس سے ہمیں عافیت نصیب فرمائے!
مدنی صاحب: خاکم بدہن! اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے۔حکمران کو میری تجویز یہ ہے جو ہمیں باربار ڈالروں کی نوید سنا رہے ہیں ، میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ حکومت کے لوگ کھا جائیں گے، لیکن سوال یہ ہے کہ لوگوں نے بہت کچھ دیکھا کہ اتنے لوگ ڈالروں کے بدلے سپرد کر دیئے گئے۔یہ اسلام نہیں ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو کسی کے سپرد کریں یا کسی کے کہنے پر اپنے بھائیوں کو تہہ تیغ کریں ۔ ان کے ساتھ ڈائیلاگ ہونا چاہیے، ان کو ابھی بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے لیکن صرف اس طرح مطمئن کیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جن پر اُنہیں اعتماد ہے، ان لوگوں کو درمیان میں لایا جائے جس طرح لال مسجد کے سانحہ میں علما کو لایا گیا تھا، اس وقت بھی ایسے علما موجود ہیں جن کو وہاں بھیجا جاسکتا ہے اور وہ مسئلہ حل کرسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب: آپ جائیں گے وہاں ؟
مدنی صاحب: میں جانے کے لئے تیار ہوں ، اور اس کمیٹی میں میرا نام لکھا گیا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب: کیا آپ قوم کے ساتھ وہاں جانے کا وعدہ کرتے ہیں ۔
مدنی صاحب: بالکل جاؤں گا،میں اپنے ساتھ تمام مکاتب ِفکر: شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کو لے کر جاؤں گا۔ ملی شرعی کونسل اس بات کی خواہش مند ہے کہ مسلمانوں کا ایک ہی موقف سامنے آنا چاہئے اور لوگوں کو علما کی طرف سے انتشار کا پیغام نہیں ملنا چاہئے۔لیکن یاد رہے کہ اس سے پہلے وفاق المدارس کا جو وفد سوات پہنچا تھا، ان کی ملاقات بھی نہیں ہونے دی گئی۔
ڈاکٹر صاحب: آپ کی کمٹمنٹ بہت اچھی ہے، آپ نے وعدہ کیا ہے قوم سے۔ بہت اچھی آپ کی سوچ ہے، بہت اچھی فکر ہے۔ ہم آپ کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آ پ کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ جائیں اوروہاں جاکر ان کے ذہن بدلیں وہ ذہن جو انسان دشمن ذہن ہو گئے ہیں ، ملک دشمن تو بہت دور کی بات، انسان دشمن ذہن ہو گئے ہیں جو وحشی، خونی اورجنگلی ہوگئے ہیں ۔ آپ ان ذہنوں کو بدلیں اور وہ صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہی تبدیل کیے جاسکتے ہیں !