پاکستان میں امریکہ کی جنگ کہاں تک؟

روزنامہ جنگ کے کالم نگار حامدمیر اپنے کالم 'قلم کمان' میں لکھتے ہیں :
''رحمانی بخش سے ملے بغیر آپ کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی کہ سوات، بونیر اور دیر کے لوگوں کی ایک بڑی اکثریت فوجی آپریشن کی مخالف کیوں ہے؟ یہ لوگ طالبان کے حامی نہیں ہیں لیکن حکومت نے جس انداز میں آپریشن شروع کیا ہے، اس انداز نے ان لوگوں کی نظروں میں طالبان اور حکومت کا فرق مٹا دیا ہے۔ رحمانی بخش نے اپنی گود میں دو سال کی بیٹی کو اُٹھا رکھا تھا جس کے معصوم چہرے پر زخموں کے نشانات واضح تھے۔

اُس نے بتایا کہ چند دن پہلے بونیر کے علاقے پیر بابا کے آس پاس موجود طالبان پر بمباری شروع ہوئی تو اُس نے پورے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گاڑی میں بٹھا کر جیسے ہی اپنے گھر سے نکلا تو گدیزئی کے قریب سڑک پر ٹینک کھڑا نظر آیا۔ رحمانی بخش نے فورا گاڑی روکی اور ہاتھ اوپر اُٹھا کر ٹینک کی طرف بڑھا تاکہ فوجیوں کو بتا سکے کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقام کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ ابھی وہ چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ ٹینک سے فائر ہوا اور چند ہی لمحوں میں رحمانی بخش کا پورا خاندان تباہ ہو گیا۔ اس نے شور مچایا کہ گاڑی میں عورتیں اور بچے ہیں لیکن دوسرا فائر بھی ہو چکا تھا۔ رحمانی بخش زخمی ہو کر زمین پر گر چکا تھا۔ کچھ دیر کے بعد ایک بندوق بردار فوجی اس کے قریب آیا اور زخمی رحمانی بخش سے کہا: کیا تم نہیں جانتے تھے کہ علاقے میں کرفیو نافذ ہو چکا ہے اور کرفیو میں گھر سے باہر آنے والے کو گولی مار دی جاتی ہے؟ رحمانی بخش نے کہا کہ اسے یا اس کے خاندان کو کرفیو کا کوئی علم نہیں تھا۔ وہ تو اپنے گھر کے آس پاس شروع ہونے والی بمباری کے باعث سب سامان چھوڑ کر گھر سے بھاگ نکلے تھے۔ فوجی نے کہا کہ کیا لاؤڈ اسپیکر سے کرفیو کا اعلان نہیں ہوا؟ رحمانی بخش نے نفی میں جواب دیا۔ فوجی نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا تم نے ٹیلی ویژن پر کرفیو کی خبر نہیں سنی؟ رحمانی بخش نے جھنجھلا کر کہا کہ ہمارے علاقے میں دو دن سے بجلی بند ہے، موبائل فون بھی بند ہیں اور پی ٹی سی ایل کی سروس بھی۔ ہمیں کیا پتہ کہ حکومت نے کرفیو لگا دیا ہے۔ اب مجھے اپنے خاندان کی لاشیں اُٹھانے دو۔ اس دوران مزید فوجی آ گئے۔ تباہ شدہ گاڑی میں ۱۶؍افراد جاں بحق ہو چکے تھے۔ رحمانی بخش کی بوڑھی والدہ، بیوی اور ایک چھوٹی بچی زخمی تھے لیکن اس کے باقی بچے، اس کے دو بھائیوں کی بیویاں اور ان کے بچے اور تین قریبی رشتہ دار لقمۂ اَجل بن چکے تھے۔

رحمانی بخش بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میرا کیا قصور تھا؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کا دردناک سوال سن کر قریب کھڑا حلیم باچا سسکیاں بھر کر رونے لگا۔ حلیم باچا بھی پیر بابا کا رہنے والا ہے۔ اُس نے کہا کہ دو سال پہلے وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو لے کر اسلام آباد جایا کرتا تھا اور وہاں سپریم کورٹ کے سامنے جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے لئے نعرے لگاتا تھا، پولیس کے ڈنڈے کھاتا تھا اور آج جب رحمانی بخش ہم سے اپنا قصور پوچھتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری اس جیسے مظلوموں کی آواز کیوں نہیں سن رہے؟ میں نے حلیم باچا سے کہا کہ رحمانی بخش کا المیہ ابھی تک میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے اور اگر میڈیا کے ذریعے چیف جسٹس کو پتہ چل بھی جائے تو وہ کیا کر سکتے ہیں ؟

سوات، بونیر اور دیر میں حکومت کی عمل داری نہیں تھی، اس عمل داری کو بحال کرنے کے لئے آپریشن کیا گیا لیکن آپریشن کے دوران حکومت سے مجرمانہ غلطیاں ہوئی ہیں اور ان غلطیوں کا نوٹس ضرور لیا جانا چاہئے۔ حلیم باچا میری وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ میڈیا والوں نے زمینی حقائق جانے بغیر شور مچا دیا کہ بونیر پر طالبان کا قبضہ ہو گیا حالانکہ اِن طالبان کی تعداد 200سے زیادہ نہ تھی، یہ طالبان جان بوجھ کر بونیر آئے تاکہ یہاں بھی آپریشن ہو کیونکہ بونیر والوں نے دو سال سے طالبان کو یہاں آنے سے روک رکھا تھا۔ طالبان نے ایک کامیاب حکمت ِعملی کے تحت ایک تیر سے دو شکار کئے۔ اُنہوں نے بونیر پر آفت مسلط کر کے ہم سے بدلہ بھی لے لیا اور آخرکار بے گھر ہونے والوں کے بچوں کی کچھ نہ کچھ تعداد کو اپنا ساتھی بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ حلیم باچا نے طنزیہ انداز میں کہا کہ دراصل فوجی آپریشن میں جلدبازی محض اس لئے کی گئی کہ آپ کے صدر آصف علی زرداری کو امریکہ کا دورہ کامیاب بنانا تھا ۔ متاثرین مالاکنڈ کی اکثریت میں حکومت کے خلاف بے چینی اور غصہ بڑھ رہا ہے۔ جس دن مظلوموں کے سینے میں بھڑکنے والی آگ ٹھنڈی ہو گی، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت جائیں گے۔''1

اس تحریر میں مہاجرینِ سوات کی الم ناک صورتحال کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ان مہاجرین کے پریشان کن حالات سے زیادہ فکرانگیز امر یہ ہے کہ رحمانی بخش اور اس جیسے کئی دیگر مظلوموں کے سینے میں جل اُٹھنے والے رنج والم کے دیے کون بھجائے گا؟اپنے پیارے کنبے کے افراد کی جدائی اور مظلومانہ ہلاکت سے اگر کوئی شخص ردعمل اور انتقام کے جذبات کا شکارہوگیا تو اسے اپنے غصے کے اظہار کا کوئی موقعہ درکار ہوگا۔اس پر مستزاد یہ کہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک دردناک انجام کی طرف بڑھتی ہے،کیونکہ یہ ظلم وستم صرف اکیلے رحمانی بخش پر نہیں ہوا بلکہ مہاجرین کے ہردوسرے گھرانے کو اس کا سامنا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سوات ومالاکنڈ کے علاقوں میں پھیلے 50 کے لگ بھگ امریکہ کے انٹیلی جنس یونٹوں کا کام شروع ہوتا ہے۔پاک افغان سرحد پر۱7 سے زائد بھارتی قونصل خانے سرگرم ہوجاتے ہیں اور انتقام کی آگ میں جلنے والے مسلمانوں کو اپنے ظالمانہ مقاصد کی بھینٹ چڑھانے کے مکروہ منصوبہ پر عمل درآمدشروع کرتے ہیں ۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ظلم وستم کی یہ کہانی کئی برسوں سے دہرائی جارہی ہے، پاکستانی طالبان کا موجودہ کردار بھی 2004ء کے جنوبی وزیر ستان کے ظالمانہ آپریشن کا ردّ عمل ہے جس کے مہلک اثرات نے دیگر علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔ ہم یہاں بیت اللہ محسود، مولوی فضل اللہ اور صوفی محمد کی بے جا وکالت نہیں کرنا چاہتے لیکن واقعاتی حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج کے خلاف حالیہ مسلح جدوجہد کے دو اوّلین کرداروں کو بھی حکومتی جارحیت کے نتیجے میں اپنے پیاروں سے جدا ہونا پڑا تھا، فضل اللہ کا بھائی سمیع اللہ 2004ء میں ایک فوجی حملے میں مارا گیااور صوفی محمد کے بیٹے کی ہلاکت تو ابھی چند روز کا واقعہ ہے۔2007ء میں لال مسجد کی عفت مآب بیٹیوں کے جسموں کو پگھلا کر جب برساتی نالے میں قرآن کریم کے مقدس اوراق کے ساتھ بہایا گیا تو ان سرحدی علاقوں کے نوجوانوں میں انتقامی نفسیات نے جنم لیا۔

کتنے برس گزرے کہ آئے روز ان قبائلی علاقہ جات کے مدارس میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والے معصوم بچوں کو اجتماعی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا، ایسے واقعات اس قدر کثیر تعداد میں رونماہوئے کہ اہل پاکستان سمیت ملت ِاسلامیہ، پاکستانی حکومت کی اجازت سے ہونے والے اس ظلم کو معمول کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کرنے لگی۔ اِن دنوں متاثرہ علاقوں کے مکین ردّ عمل اور انتقام سے مغلوب ہوکر یہ وارننگ دیا کرتے کہ اگر ہلاکتوں اور بمباریوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہم پاکستان کا اَمن وسکون بھی تہ وبالا کردیں گے، لیکن ملک وملت کے کسی بہی خواہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور آج دہشت گردی کا یہ عفریت آہستہ آہستہ پورے ملک کے امن وسکون کو غارت کررہا ہے، جس کا سامنا دانش مندی اور حکمت عملی سے کرنے اور اس کی مناسب روک تھام کی بجائے ہم اپنے ہی ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے خلاف ستم کی نئی تاریخ رقم کرنے چل پڑے ہیں ۔متاثرہ قبائلی علاقہ جات سے آنے والے بتاتے ہیں کہ آخراس ظلم سے تنگ آکر معصوم بچوں کے اجتماعی جنازوں میں شریک ہونے والے افراد نے قرآن پر حلف اُٹھائے کہ وہ اس ظلم کے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ آج یہی عوامی غیظ وغضب طالبان کا روپ دھار چکا ہے جو دراصل طالبانِ انصاف ہیں اور اپنے ناحق مقتولین کے خون کی دہائی دیتے ہیں ۔

سوات ومالا کنڈ آپریشن کے بارے میں قوم میں دو رائیں اس بنا پر پائی جاتی ہیں کہ جو لوگ ان علاقوں میں جاری دہشت گردی کو ایک مستقل واقعہ تصور کرتے ہیں ان کا ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی رٹ کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو پوری قوت سے کچل دیا جائے۔ اور جو لوگ ان علاقوں کی صورتحال کے پورے پس منظر کو ملحوظ رکھتے ہیں ، سات برس سے جاری ظلم وستم کو تازہ رکھتے اور امریکہ کے بعد پاکستانی اَفواج کی جارحیت کو بھی یاد رکھتے ہیں ، وہ ان کے بارے میں ہمدردی کے جذبات رکھ کر، اُنہیں اپنا ہم وطن اور دینی بھائی جان کر ایک طرف ان پر ظلم وستم کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ان مظلوموں کو ہرطرح کے شدید اقدام سے باز رکھنے کی کوششیں کرتے ہیں ۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو درپیش المیے کے بارے میں یہ سوال خصوصیت سے قابل توجہ ہے کہ کیا یہ لوگ ہمیشہ سے ہی پاکستان کے خلاف قانون شکن رجحانات کے حامل رہے ہیں ، یا ان کی حالیہ شدت پسندی کا کوئی تازہ داعیہ بھی موجود ہے۔لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پاکستانی طالبان 2004ء میں پاک فوج کی جارحیت سے قبل کیوں موجود نہیں تھے؟یہ سب لوگ ہمیشہ سے یہاں کے رہائشی ہیں اور پر امن زندگی بسر کرنے والے تھے، اگر ان میں باہر سے غیرملکی ایجنٹ داخل ہوئے ہیں تو ان کو روکنا حکومت ِوقت اور اس کی ایجنسیوں کا کام ہے، لیکن یہاں کے رہائشی بعض لوگ آج کیوں ریاست کے خلاف اس قدر مشتعل ہوگئے ہیں کہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیرپوری قوم کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کرنے پر تل گئے ہیں ۔

جب کسی گھرانے کا کوئی فرد بلاو جہ قتل کردیا جائے اور وہ کسی کے ہاتھ پر ا س کا خون بھی تلاش نہ کرپائے، قرائن بھی موجود ہوں کہ یہ کسی وقتی حادثے کی بجائے اس مہم جوئی کے نتیجے میں مارا گیا جو پڑوس میں اسلام کے خلاف ایک سپرقوت ظلم روا رکھے ہوئے ہے، تو آخر کار یہ عوامی غیض وغضب پھٹ ہی پڑتا ہے۔ ایسے گھرانے اپنے پیاروں کو یاد کرکے انتہا پسندی پر مجبور ہوہی جاتے ہیں ۔ ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ غیرمتاثرہ فریق کی طرح بڑا متوازن رویہ اختیار کریں گے، نادانی اور حماقت ہے۔ مقتولین کے ورثا ایک فریق ہیں اور فریق کا ردّ عمل نہ تو متوازن شخص کا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی گواہی قبول ہوتی ہے۔ اس کی سادہ مثال اس آدمی سے سمجھی جاسکتی ہے جو کسی وقت پولیس کے بلاوجہ ظلم کا شکار ہوا ہو، زندگی بھرکے لئے پولیس کے بارے میں اس کا رویہ دیگر لوگوں سے اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنا پر مختلف اور شدید تر ہوگا۔ آج ایسے مظلوم ومتاثرین سے توازن واعتدال کی توقع رکھنا نادانی ہے، اس کو مظلوم ومتاثر فریق سمجھ کر ہمیں اس پر مظالم کی تلافی کرنا ہوگی، وگرنہ ایسے متاثرہ لوگ ہمارے مکار دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل میں بڑی آسانی سے دھوکہ کھا سکتے ہیں ۔

پاکستان میں اسلام کے خلاف امریکہ سرکار کی سرپرستی میں مسلسل 8 سال سے بڑے زور وشور سے نہ صرف قتل وغارت کی جنگ جاری ہے بلکہ نظریاتی معرکہ بھی گرم ہے۔ ہماری نظر میں اسی متاثرہ سرحدی علاقوں میں جاری ظلم وستم اور قتل وغارت کے نتیجے میں طالبان کا اُبھرنا دراصل جوابی ردّ عمل کا اِظہار ہے جو دین کے خلاف نظریاتی یلغار کے نتیجے میں دین اسلام کے نعرے تلے، طالبانیت کے سائے میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ اگر یہ ظلم وستم اسی طرح جاری رہا اورپاکستان کے دیگر خطوں کی طرف خدا نخواستہ بڑھا تو وہاں بھی لوگ مجبوراً طالبانیت کے نعرے میں پناہ ڈھونڈیں گے۔ اس لئے پاکستان کا اصل مسئلہ طالبانیت نہیں بلکہ امریکانائزیشن ہے جس کی اندھی تائید میں اپنی قوم اور نظریہ کو لگاتار ہدف بنایا جارہا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے پاکستانی فوج کے خلاف جارحیت کیوں کر شروع کی؟ اس کا بھی جواب بڑا واضح ہے۔ شروع شروع میں جب امریکہ نے ان کے دینی مراکز پرحملے کئے، اور عوام کو ہلاکت وبربادی سے دوچار کیا تو ا س کے نتیجے میں یہ قبائلی لوگ امریکہ کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔امریکہ نے اپنے اتحادی ملک پاکستان سے انہیں دبانے کے لئے نہ صرف مدد طلب کی بلکہ یہاں موجود اپنے مطلوب افراد کو پکڑنے کے لئے بھی مشرف حکومت کو ڈالروں کا لالچ دیا۔ یوں پاکستانی حکومت نے نادانی میں امریکہ کی جنگ کو اپنا لیا اور اس میں اپنے عوام کی حفاظت کی بجائے امریکی ظلم میں شریک ہوکر اپنے عوام کے خلاف امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ اس سے یہ لوگ پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے بھی خلاف ہوگئے۔ دراصل یہ علاقے ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی پاک افغان سرحد پر ہیں ، اور ایک ہی نسل ہونے کے ناطے یہاں سے امریکہ کے خلاف افغان مزاحمت کو بھرپور مدد ملتی تھی۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنے خلاف مزاحمت کو کمزور کرنے کے لئے ان لوگوں کو اپنی سلامتی کی جنگ میں دھکیل دیا، اور یہ جنگ جو افغانستان کی سرزمین پر لڑی جانا تھی، اسے پاکستان کے داخلی علاقوں میں بھڑکا دیا۔ اس لئے ہم اس جنگ کو پاکستان کی بجائے امریکہ کی جنگ سمجھتے ہیں ، جو پاکستان امریکہ کی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے لڑ رہا ہے اور اس کو اپنے گلے ڈال چکا ہے۔

امریکہ ان علاقوں میں ہمیشہ عوام او رپاک فوج کے مابین مفاہمت کا مخالف رہا ہے اور کئی امن معاہدوں کے شرکا کو ہلاک بھی کرچکا ہے، تاکہ یہ لوگ اپنی جنگ میں مصروف رہیں اور یہاں قتل وغارت کا بازار گرم رہے جس کا فائدہ ایک طرف افغانستان میں جاری مزاحمت میں کمی کے ذریعے اُٹھایا جائے تو دوسری طرف پاکستانی حکومت کو شدت پسندوں کے خلاف ناکام قرار دے کر عالمی سطحپر ناکام اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی امریکہ افغانستان میں طالبان سے مفاہمت کی پیش کش کرچکا ہے تاکہ وہاں سیاسی عمل دخل بڑھا کر اپنے رہنے کی مدت کو طویل تر کیا جائے۔ لیکن جواباً افغانی طالبان نے جو 80 فیصد افغان علاقے پر حکمران ہیں ، امریکہ سے ہر طرح کی مفاہمت کو اس وقت تک خارج از امکان قرار دیا ہے جب تک امریکی افواج یہاں سے نکل نہیں جاتیں ۔

الغرض پاکستان کو درپیش ان حالات کے پس پردہ تحریک ِطالبان کا وہ رویہ اور رجحان ہے جو خالصتاً ردّ عمل اور انتقامی بنیادوں پر مبنی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی طالبان پر ظلم کیا گیا ہے۔ان پر ظلم کی موجودگی اُن کے لئے قدرے ہمدردی تو پیدا کرسکتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کے موقف اورجوابی انتہاپسندی کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کوئی چور اس بنا پر چوری کا پیشہ اختیار کرلے کہ بچپن میں اس کا مال لوٹا گیا تھا، ظاہر ہے کہ یہ ظلم کا جواز نہیں بنتا۔ قرآنِ کریم میں اس کے بارے میں یہ رہنمائی موجود ہے کہ
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِۦ ۖ وَلَئِن صَبَرْ‌تُمْ لَهُوَ خَيْرٌ‌ لِّلصَّـٰبِرِ‌ينَ ...﴿١٢٦﴾...سورة النحل
''اگر تم بدلہ تو اسی قدر ہو جتنا تمہیں تکلیف دی گئی ہے، اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے زیادہ بہتر ہے۔''

ظلم وستم کا بدلہ چکانے کے لیے یہ جوابی رویہ بھی ان حالات میں گوارا ہے جب کہ مقابل دشمن متعین فرد موجود ہو، حالانکہ ردّ عمل میں جوابی شدت پسندی کا مظاہرہ کرنے والے اگر اس بنا پر پاکستان کے پرامن باشندوں یا سیکورٹی فورسز کے ایسے اہل کاروں کے خلاف کھڑے ہوجائیں جنہوں نے خود اُن پر ظلم نہیں کیا تو اس کی اسلام میں گنجائش نہیں ۔

اس سے زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ طالبان کے اس ردّ عمل کو بھی امریکہ نے ہائی جیک کرلیا ہے اور اس نے ان میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے ان کے اہداف کو نہ صرف مشکوک و ناجائز بنا دیا ہے بلکہ اس سے پاکستان کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈالنے کا مذموم ہدف پورا کروا رہا ہے۔آپریشن کے ابتدائی ایام میں ہماری حکومت جوابی مزاحمت اور امریکہ میں اس تعلق کی نشاندہی کرنا قرین مصلحت نہیں سمجھتی تھی، بلکہ ہر ظلم کو براہ راست اسلام کے نام لیوا طالبان کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا،لیکن گذشتہ دنوں حکومت نے ان طالبان کے پاس نیٹو کا اسلحہ ہونے کا اقرار کیا ہے، 5 جون کے اخبارات میں وزیر داخلہ کا بیان موجود ہے کہ طالبان کی مزاحمت کے پیچھے منصوبہ ساز دماغ کوئی اور ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے کفار کے لئے ابلاغی جنگ سب سے آسان ہے، پھر دوسروں کو مالی لالچ دے کر اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا بھی مشکل نہیں ۔ سب سے مشکل بلکہ ناممکن کام ان کے لئے بذات خود مسلمانوں سے دوبدو جنگ کرنا ہے جس سے امریکی اور نیٹو فوجی ڈرتے ہیں ۔ ان حالات میں پاکستان میں جاری مخاصمت، جو دراصل انتقامی بنیادوں پر استوار ہوئی تھی، اس میں اپنے ایجنٹ داخل کرکے امریکہ نے ڈالروں کے بدلے لڑنے والے بھی حاصل کرلیے ہیں اورخود عملاً جنگ سے باہر بیٹھ کر محض منصوبہ بندی اور غداری کے ذریعے اپنے مذموم اَہداف کی تکمیل کی جارہی ہے۔

پاکستان کے لئے امریکہ کی موجودہ حکمت ِعملی کی سادہ مثال یہ ہے کہ کچھ عرصے سے امریکہ بلوچستان میں القاعدہ قیادت کے چھپے ہونے کا مغالطہ دے کر پاکستانی حکومت سے بلوچستان میں بھی ڈرون حملے کرنے کے لئے شدید دباؤ ڈال رہاہے۔ اگر حکومت نے امریکہ کی مکاری اور چالبازی کو نہ سمجھا یا وقتی مفاد اور شدید دباؤ کے پیش نظر بلوچستان میں امریکہ کو ان حملوں کی اجازت دے دی تو اس صوبہ کی صورتحال بھی سرحد سے مختلف نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں حکومت نے پہلے ہی امریکی فوج کو کئی ہوائی اڈے دیے ہوئے ہے، یہی وہ صوبہ ہے جو معدنی وسائل سے مالا مال اور گرم پانیوں تک رسائی رکھتا ہے۔ افغانستان میں اپنے قیام کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں سے مکمل مفاد حاصل کرنے کے لئے امریکہ کو براہِ راست سمندر تک رسائی درکار ہے، اسی صوبہ کی اہم ترین سیاسی شخصیت نواب اکبر بگٹی کو پہلے ہی حکومت ہلاک کرچکی ہے۔ شورش سے بھرپور ان حالات میں امریکی ڈرون حملے خدانخواستہ وہاں بھی ظلم وستم کا بازار گرم کریں گے، اور ظلم کا نشانہ بننے والے عوام حکومت کے تحفظ سے محروم ہوکر ردعمل اور انتقام کی راہ پر چل نکلیں گے۔ یہی وہ حالات ہوں گے جن میں امریکی اَفواج کو براہ راست سامنے آئے بغیر محض اپنے سرمائے اور منصوبہ بندی سے ان عوام کو پاکستانی ریاست کے خلاف استعمال کرنا بآسانی ممکن ہوجائے گا۔ بظاہر مسلمان اورپاکستانی لڑیں گے، عوام اور سیکورٹی فورسز برسرپیکار ہوں گی، لیکن درحقیقت عالمی استعمار پس پشت رہ کر ہر دو فریق کی ڈور ہلائے گا اور اپنے مذموم مقاصد پورے کرے گا۔

پاکستان کچھ عرصے بالخصوص اوباما انتظامیہ کے بعد اسی قسم کی مخدوش صورتحال اورسفارتی دباؤ کا شکار ہے، جس کے لئے اب سفارتی استعمار کی اصطلاح اپنائی جانے لگی ہے۔ چند ماہ پہلے تک دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ فرنٹ لائن سٹیٹ بن کر اس کی بھرپور مدد کررہا تھا۔ آج سے چھ ماہ قبل دسمبر اور جنوری میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں حالات کافی پرسکون تھے،یہ ایک خوش کن خبر تھی کہ ا س سال جنوری کا پورا مہینہ ایک دھماکہ بھی نہیں ،لیکن امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اُکسا رہا تھا اورپاکستان اس کے لئے آمادہ نہیں ہورہا تھا۔ امریکہ کی مکاری اور پاکستانی حکومت کی نادانی کا یہ کرشمہ ہے کہ آج امریکہ پاکستان کا معاون بنا ہوا ہے اور پاکستان کے لئے یہ دہشت گردی سب سے بڑا دردِ سر! حتی کہ ملکی سلامتی کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان کو قبائلیوں سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ایک طرف ان علاقوں پر لگاتار ڈرون حملے کئے گئے تاکہ وہاں کے رہائشیوں کے پاس جوابی تشدد اور جارحیت کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور دوسری طرف گذشتہ چار ماہ میں لگاتار پاکستان کے اہم مقامات کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تاکہ پوری قوم کو طالبان کے خود ساختہ خوف کے خلاف جمعکیا جاسکے اور اُنہیں ملکی سلامتی کے خلاف ایک سیکورٹی رسک کے طورپر متعارف کرایا جائے۔

ہماری نظر میں لاہور میں ہونے والے مناواں سنٹر اور ریسکیو بلڈنگ پر حملے اسی قبیل سے ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، 27 مئی کو لاہور میں ہونے والا حملہ بھی دراصل سوات ومالاکنڈ میں ہونے والی فوجی جارحیت کے خلاف جواز مہیا کرنے کے لئے ہے، تاکہ پاکستانی عوام میں طالبان کے بارے ہم دردی کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہونے پائے۔ فوجی جارحیت کے ان دنوں میں دیر و بونیر سے ایسے زخم خوردہ مسلمان تلاش کرنا چنداں مشکل نہیں جو اپنے انتقام کی آگ بھجانے کے لئے ہر طرح کے تعاون، منصوبہ بندی اور ہلاکت خیز مواد کے متلاشی ہوں ۔ لیکن کیا ایسے دھماکوں کو کسی ظاہری خودکش شخص پر ڈال کر اور اصل منصوبہ ساز دماغ کو نظر انداز کرکے، جس کا اعتراف وزیر داخلہ بھی کرچکے ہیں ، حکومت اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات کا استحصال کرنے والا اصل مجرم ہے جس کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ طالبان کے خلاف ردّ عمل کو مزید تیز کرنے کے لئے سوات ومالاکنڈ آپریشن کے بعد دیگر پرامن شہروں کو بھی ا س آپریشن کے ردّ عمل کے نام پر ہلاکت خیزی کا شکار کیا جائے گا اور اس طرح پاکستانی حکومت کے کمزور ہونے کاعالمی پروپیگنڈا اور طالبان کے مزید قوی ہونے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں گردش کریں گی۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی ہمیشہ مخصوص مقاصد کے تحت فروغ پاتی رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی عوام میں دہشت گردی کے حقیقی رجحانات اور داخلی وجوہات موجود نہیں ہیں بلکہ اپنی معصومیت واخلاص کی بدولت دشمن اُنہیں اپنا آلہ کار بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سالہا سال تک شیعہ سنی فسادات کی آگ میں جلتے پاکستان میں اس نوعیت کی دہشت گردی کا کوئی واقعہ اب کئی برسوں سے رونما نہیں ہوا۔ ماضی میں مساجد اور سیکورٹی فورسز کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اب نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں جس نوعیت کی دہشت گردی کی واردات ہورہی ہیں ، اس میں حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے، سینمائوں اور مغربی تہذیب کے مراکز کو نشانہ بنانے اور پرامن شہریوں کو بڑے پیمانے پر ہلاکت وبربادی سے دوچارکرنے کارجحان غالب ہے۔

افسوس اِس امر پر ہے کہ ہماری حکومت ملکی سلامتی کو درپیش اس گھمبیر صورتحال میں فہم وفراست کی بنا پر کوئی کاروائی کرنے کی بجائے سراسر نادانی سے اپنے ہی ملک اور اس کے باسیوں کو مزید آگ میں جھونکنے جیسے اقدامات کررہی ہے جس سے یہ جنگ کم ہونے کی بجائے سالہا سال تک پوری ریاست میں جاری رہنے کے امکانات روز بروز بڑھ رہے ہیں ۔

امریکہ ایک ماہ قبل جس شد ومد سے پاکستانی حکومت کو اپنے ہی ناراض ہم وطنوں سے لڑانے کے لئے دبائو ڈال رہا تھا، آج ہم اپنے دشمن کی حکمت ِعملی پر پوری طرح کاربند ہوچکے ہیں ۔ان حالات میں امریکہ کو جنگ کے ہردوفریق کو محض اِمداد او رروپے کے نام پر انتہائی سستے داموں اپنی جنگ جاری رکھنے اور ہماری قوت ختم کرنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ عراق میں امریکہ کا ماہانہ جنگی خرچ 70 بلین ڈالر ہے جب کہ پاکستان میں محض ڈیڑھ بلین ڈالر سالانہ امداد کے دبائو پر امریکہ پاکستانی حکومت کو جنگ لڑنے پر مجبور کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کررہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ دوماہ قبل پاکستان کے لئے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر امداد کے موقعہ پر قومی قیادت نے اسے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا تھا، آج پاکستان واقعتا اس امداد اور عالمی قرضوں کے حصول کے نام پر اپنی سلامتی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس امداد پر خوشیاں منائی جاتیں اور قوم کو خوشخبریاں دی جاتی ہیں ،لیکن امداد کے متعینہ مصارف اورطے کردہ شرائط سے عوام کو بے خبر رکھا جاتا ہے۔

حکومت ان حالات میں اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف جارحیت اور عسکریت کی راہ اپنا کر شدید نادانی کامظاہرہ کررہی ہے۔ طالبان کی جس قیادت بیت اللہ محسود اور مولوی فضل اللہ کے سروں کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر مقرر کی جارہی ہیں ، انہی کے ناموں پر امریکی مفادات کی سیاست ہو رہی ہے اور اس قیادت کو محفوظ ومامون رکھ کر امریکی عزائم پورے کئے جائیں گے، جیسا کہ کئی بار پاکستانی حکومت نے امریکہ کو بیت اللہ محسود کی کسی مقام پر موجودگی کی اطلاع دی لیکن اس کو بدترین دشمن باور کروانے کے باوجود امریکہ نے وہاں کوئی حملہ نہ کیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح اُسامہ بن لادن کا نام دہشت گردی کااستعارہ بن کر لگاتار امریکی مفادات کی تکمیل کا سبب بنا رہا، اسی طرح مذکورہ رہنمائوں اور ان کی تنظیموں کے اعترافات سے خود ساختہ دشمن پروان چڑھا کر اپنی جارحیت کو جواز مہیا کیا جارہا ہے۔یاد رہے کہ ان رہنمائوں کو امریکی ایجنٹ قرار دینے کی بجائے ہم ان کے بیانات کے استحصال کی نشاندہی کررہے ہیں جن بیانات کی خبریں اکثر وبیشتر ہمیں عالمی خبررساں ایجنسیوں کے ذریعے موصول ہوتی ہیں ۔

پس چہ بایدکرد؟

پاکستان نہ صرف بیرونی سطح پر براہِ راست جنگ کا شکارہے بلکہ خود پاکستانی قوم بھی اندرونی طورپر باہم برسرپیکار ہے، مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے، اس سے افسوسناک صورتحال اور کیا ہوگی کہ پاک فوج اپنے ہی شہریوں اور اپنی ہی سرزمین پر جنگ کر رہی ہے۔ وہ قبائلی جنہیں پاکستان کا بازوئے شمشیر زن کہا جاتا تھا، آج ایسے حالات میں اس بازوئے شمشیر زن سے لڑائی جاری ہے کہ ہردو سرحدوں پر دشمن فوجیں تیارکھڑی ہیں اور ہم اپنی ہی دفاعی قوت کو پامال کر رہے ہیں ۔ ان علاقوں کے رہائشی خواہ وہ فوجی یا عوام کل کلاں کس جذبے کے تحت پاک وطن کے دفاع کے فرض کی تکمیل کریں گے۔ یہ حقائق بڑے تلخ ہیں اور جب تک پاک افغان سرحد پر آمد و رفت کو کنٹرول نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کی جنگ ایک دوسرے سے مربوط ومنسلک رہے گی۔ ان سنگین حالات میں قوم کے ہرطبقہ کو انتہائی ذمہ داری اور دانائی کا ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہے، وگرنہ ہم شیاطین ثلاثہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے مکروہ عزائم کو خاک میں نہیں ملا پائیں گے:
اپنے عوام کو تحفظ دینا ہوگا اور ان پر جارحیت ختم کرنا ہوگی کیونکہ یہ مزید المیوں کو جنم دیتی اور سرحد پر بیٹھے دشمن کو مکاری کے ذریعے اپنے مقاصد پورا کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

امریکی فوج اور اس کی ایجنسیوں کو ملک سے نکال باہر کرنا ہوگا، ان کی سپلائی لائن کو بند کرنا ہوگا، وگرنہ یہ غیرملکی ایجنسیاں اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوکر ملک کو مزیدبدترین صورتحال سے دوچار کریں گی، اور اس کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کو ناکام قراردے کر ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کی کوششیں کریں گی۔

حکومت کو اپنی قوم سے مصالحت کی راہ تلاش کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں صوفی محمد کا معاہدہ امن ایک قابل اتباع مثال ہے، معاہدئہ امن کے طے شدہ تقاضوں کو بھرپور طریقے سے پورا کیا جائے اور دونوں طرف سے کوتاہیوں کو رفع کیا جائے تو جنگ کے شر سے ایک عظیم خیر رونما ہوسکتی ہے۔البتہ صوفی محمد کی نظامِ عدل کی ترجیحات میں ملک کی مسلمہ دینی قیادت کی مخلصانہ سفارشات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ پاکستان میں امن وامان آخرکار مصالحت ومفاہمت کے نتیجے میں ہی آئے گا، اور ایک روز حکومت کو اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔

ہمارے سیاستدانوں کو اس نازک وقت میں ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ملکی سلامتی پر اوّلین توجہ دینا چاہئے، مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کہ طالبان اسلام آباد تک پہنچ سکتے ہیں ، نے امریکہ کے کونسے کونسے مقاصد پورے کئے اور نواز شریف کے آپریشن کی حمایت میں بیانات ملک میں کیسا بحران پیدا کررہے ہیں ، اس کا اندازہ ہر صاحب ِبصیرت کرسکتا ہے۔ امریکہ کبھی اپنی خوشامد وچاپلوسی کے نتیجے میں نواز شریف کو فیصلہ کن عہدے پر فائز نہیں کرے گا، البتہ وہ نواز شریف اور جنرل کیانی کواہمیت دے کر حکومت ِوقت کو مزید دبائو کا شکار کررہا ہے، تاکہ حکومت متبادل حکام کی موجودگی میں امریکہ کی زیادہ سے زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کا مظاہرہ کرے۔

پاکستان کی دینی جماعتوں کواس نازک موقع پر باہمی اختلاف کا مظاہرہ کرکے مفادات کی سیاست سے ہرممکن گریز کرنا چاہئے۔ لوگوں کو بخوبی علم ہوتا جارہا ہے کہ کون امریکہ اور حکومت کے ایجنڈے پر چل رہا ہے اور کون اپنی جنگ لڑرہا ہے۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں کی نادانی پر مبنی حکمت ِعملی کا یہ نتیجہ ہوگا کہ وہ امت میں انتشار کا سبب بنیں گی اور اہل دین سے الگ تھلگ ہوجائیں گی، نظریاتی جنگ کے اس مرحلے پر دینی جماعتوں کو ایک متفقہ موقف اپنا کر عوام کی درست رہنمائی کرنا چاہئے اور فرقہ وارانہ رجحانات سے عوام کو مزید منتشر ہونے سے بچانا چاہیے۔

عوام کو یہ سوچ کر کہ جنگ صرف سرحدی علاقوں کی ہے، اپنی ذمہ داری سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہئے۔ جب امریکہ نے عراق وافغانستان پر آتش وآہن برسایاتو ہم لوگ مطمئن رہے کہ ہم پر تو کوئی پریشانی نہیں آئی، ہمارے سرحدی علاقے متاثر ہوئے تو ہم نے سوچا کہ یہ تو قبائلیوں کا مسئلہ ہے اور اپنی روزمرہ دلچسپیوں میں مشغول رہے۔ اگر ہمارا یہی وطیرہ رہا تو کل کلاں ہم پر ہونے والی کسی جارحیت پر باقی مسلمان اسی طرح خوابِ خرگوش کے مزے لیں گے۔ آج حالت یہ ہے کہ بدامنی اور قتل وغارت ہمارے شہروں میں داخل ہوچکی ہے اور ایک خبر کے مطابق لاہور شہر میں 35 بارود سے بھری گاڑیاں داخل ہوچکی ہیں ۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ باشعور مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی دبائو پر اپنے ہم وطنوں پر جارحیت کی مخالفت کریں اور امریکہ کو اپنے وطن سے نکال باہر کرنے کے لئے وکلا تحریک کی طرح تمام تر عوامی دبائو منظم کریں ۔ بصورتِ دیگرجب دشمن سر پر آن پہنچا تب اس کا جواب دینا ممکن نہ ہوگا۔ اس وقت 'گوامریکہ گو' کی عوامی تحریک چلانا دینی و قومی جماعتوں کا اوّلین فرض ہے۔

پاکستانی حکومت تمام تر صورتحال سے بخوبی واقف ہے، اسے اپنی فوج کو حقائق کے مطابق استعما ل کرنا چاہئے، یہ اللہ کے دین کے محافظوں کی فوج ہے جس کا ہدف کسی مسلمان کی بجائے کافر ہی ہونا چاہئے۔ فوجی حکام کو بھی اس امر کا شعور ہونا چاہئے، اور اندھے بہرے ہوکر اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف خود ساختہ 'جہاد' کے احکامات دے دیے جائیں ،کیونکہ اس نادانی کے نتیجے میں لوگ ایک اور لال مسجد کا المیہ رونما ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔

حکومت سے متحارب پاکستانی طالبان کو مسلمان بھائیوں کے خلاف اپنی متشددانہ روش سے باز آجانا چاہئے، ایسے حالات میں جنگ کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ اس کا تمام تر فائدہ امریکہ اُٹھا رہا ہو۔ فرض کریں اگر ان پر ظلم ہوا ہے تو اُنہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر ڈرون حملے امریکہ نے کئے ہیں ،اور اگر پاکستانی فوج ان کے مد مقابل ہے تو وہ بھی کسی اور کے احکام کی تعمیل پر مجبور ہے۔ اس لئے ان کا ہدف کسی مسلمان کو نہیں ہونا چاہئے۔

اگر طالبان کا کوئی ساتھی انتقام سے مغلوب ہوکر خودکش حملے میں پناہ تلاش کرتا ہے تو اس کو بتانا چاہئے کہ پرامن مسلمانوں کی جانوں سے کھیلنا شریعت ِاسلامیہ میں قطعاً جائز نہیں ہے۔ اصل دشمن سے توجہ ہٹا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو ہدف بنانے کی سازش مکار امریکہ کی ہے، اگر کوئی مسلمان اپنی جان کی قربانی تک کے لئے تیار ہے تو یہ قربانی کفار کے خلاف کام آنی چاہئے، نہ کہ مسلمان بھائیوں کے خلاف!

پاکستانی طالبان میں افغانی طالبان کے برعکس نہ تو کوئی مرکز ہے اور نہ متفقہ حکمت ِعملی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت نے افغانی طالبان میں قیادت اور مرکزیت کو مستحکم کردیا، اور ان کا دشمن اور ہدف بھی ایک اور واضح ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بھگایا جائے، جبکہ پاکستانی طالبان محض ظلم کے خلاف کسی مرکزی قیادت اور منظم منصوبہ بندی کے بغیر اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔پاکستانی طالبان متعدد گروہ ہیں اور ہر ایک کی علیحدہ شوریٰ کے اپنے اہداف اور حکمت ِعملی ہے۔ ان منتشر حالات میں افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر نے صوبہ خوست سے پاکستانی طالبان کو یہ ہدایت جاری کی ہے کہ وہ پاکستان میں لڑنے کی بجائے افغانستان میں امریکہ کے خلاف جمع ہوجائیں ۔ اُنہوں نے پاکستانی طالبان کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑنے سے منع کیا ہے۔ ان ہدایات کے نتیجے میں شورش زدہ علاقوں سے طالبان نے افغانستان کی طرف نکلنا بھی شروع کردیا ہے پاکستانی طالبان کے یہاں سے انخلا کی ایک رپورٹ بھی شائع ہوچکی ہے۔ 2

یہ بالکل درست حکمت ِعملی ہے، اپنے ہدف کو واضح اور دوٹوک رکھنا کامیابی کے لئے اشد ضروری ہے۔لہٰذا اسلام کے نام پربڑھنے والاہر قدم شریعت اسلامیہ کی رہنمائی کے عین مطابق ہونا چاہئے۔ اگر اہل پاکستان پر ظلم ہوا ہے تو اس وقت اصل ظالم کو بھگا کر اس ظلم کا حقیقی خاتمہ کیا جاسکتا ہے، یہی پاکستانی مجاہدین اور حکومت ِپاکستان کا نکتہ اشتراک ہونا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری عزت، کامیابی اور بقا مضمر ہے!


حوالہ جات
1. روزنامہ جنگ، 28؍مئی 2009ء
2. ندائے ملت': 5 جون2009ء