نظام عدل ریگولیشن 2009 کا متن

ملک بھر میں اس وقت 'نظامِ عدل ریگولیشن' کا چرچا ہے اور دنیا بھر میں اسے موضوعِ بحث بنایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں 15/فروری 2009ء کا وہ معاہدۂ امن جو اس نظامِ عدل کی اساس بنا، اور 13/ اپریل کو قومی اسمبلی کی قرار داد کے بعد صدر کے دستخطوں سے منظور ہونے والے نظامِ عدل ریگولیشن کے مسودے کا اُردو ترجمہ، ان دونوں کو ذیل میں شائع کیا جا رہا ہے۔ نظامِ عدل کا انگریزی مسودہ تو خال خال دستیاب ہے، البتہ اس کا اُردو ترجمہ کافی محنت کے بعد ترتیب دیا گیا ہے۔ اس متن میں بطورِ خاص آرٹیکل 2 کی دفعہ ہ،ی اور وضاحت، آرٹیکل 4، آرٹیکل 7 کی دفعہ 3 اور آرٹیکل 8 و 9 قابل توجہ ہیں جس سے اس نظام عدل کی نوعیت اور اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس مسودہ پر مزید تبصرہ و تجزیہ اگلے شماروں میں ملاحظہ فرمائیں۔ ح م

''شمال مغربی سرحدی صوبے کے وہ قبائلی علاقے جنہیں صوبائی سطح پر صوبہ سرحد کے زیر انتظام علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، عدالتوں کے ذریعے نفاذ نظام شریعت کے تحت آئیں گے، ماسوائے ان قبائلی علاقوں کے جو مانسہرہ کے ضلع سے ملحقہ اور ہزارہ ڈویژن کی سابق ریاست 'امب' کے ذیل میں آتے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی آرٹیکل 247، دفعہ 3 کی رو سے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) یا صوبائی اسمبلی کے کسی بھی اقدام یا تحریک، کا اطلاق صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں پر، یا ان کے کسی حصے پر اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک کہ صوبے کا گورنر، جس کی عمل داری میں مذکورہ علاقہ جات واقع ہیں، صدرِ مملکت کی منظوری کے ساتھ اس کی ہدایات، جاری نہ کرے دے اور ایسی ہدایات جاری کرتے وقت کسی بھی قانون کے سلسلے میں، گورنر ایسی ہدایات بھی جاری کر سکتا ہے کہ قبائلی علاقوں پر کسی قانون کا اطلاق کرتے وقت، یا اس کے کسی مخصوص حصے پر ایسا اطلاق کرتے وقت ان تمام مستثنیات اور ترامیم کو مؤثر تصور کیا جائے گا جو وقتاً فوقتاً اس سمت میں تجویز کی جائیں گی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247، دفعہ 4 کی رو سے صوبے کا گورنر، صدرِ مملکت کی پیشگی منظور کے بعد کسی بھی ایسے معاملے کی بابت، جو صوبائی اسمبلی کی قانونی عمل داری میں آتا ہو، ایسے ریگولیشنز (قواعد و ضوابط) وضع کر سکتا ہے جو صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امن اور گڈ گورننس کے قیام کو یقینی بنا سکے۔ چنانچہ ان اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر نے صدرِ مملکت کی منظوری کے بعد درج ذیل ریگولیشنز کا اعلان کیا ہے:

1. مختصر عنوان، مدت اور آغاز:

  • اس ریگولیشن کو 'شریعت کے نظامِ عدل ریگولیشن 2009ء' کا نام دیا جائے گا۔
  • اس کا اطلاق صوبے کے زیر انتظام آنیوالے ان تمام علاقوں پر ہو گا ماسوائے ان قبائلی علاقوں کے جو ضلع مانسہرہ سے ملحقہ اور سابق ریاست امب میں شامل ہیں، اور آگے چل کر جنہیں مذکورہ علاقوں کے نام سے پکارا جائے گا۔
  • اس ریگولیشن پر فوری عمل در آمد کیا جائے گا۔


2. تعریفات
1. ان ریگولیشنز میں اسی وقت تک، جب تک، موضوع یا متن میں کسی قسم کی ناخوشگوار تبدیلی واقع نہ ہو جائے:

  • 'عدالت' کا مطلب ہو گا، ایسی عدالت جس کا دائرۂ عمل و اختیار مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہو اور جسے موجودہ ریگولیشن کے تحت قائم اور مقرر کیا گیا ہو۔ جس میں اپیل کے لئے بھی عدالت شامل ہو گی یا پھر کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے نظر ثانی کی عدالت بھی شامل کی جا سکتی ہے۔
  • 'دارُ القضا' کا مطلب ہو گا: ایسی عدالت جہاں آخری اپیل دائر کی جا سکے یا نظر ثانی کی عدالت جو مذکورہ علاقے کی حدود کے اندر واقع ہو اور جو آئین کے آرٹیکل 183 کی دفعہ 2 کے عین مطابق ہو۔
  • 'دار القضا' کا مطلب ہو گا: اپیل یا نظر ثانی کی عدالت جسے شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر نے مذکورہ علاقے کی حدود کے اندر قائم کیا ہو، جو آئین کے آرٹیکل 198 کی دفعہ 4 کے عین مطابق ہو۔
  • 'گورنمنٹ' سے مراد ہو گی: شمال مغربی سرحدی صوبے کی گورنمنٹ
  • 'پیرا گراف' کا مطلب ہو گا: اس ریگولیشن کا ایک پیرا گراف ۔۔۔۔ 'تسلیم شدہ ادارے' کا مطلب ہو گا: شریعت اکیڈمی جسے 'انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی' آرڈیننس 1985ء، (XXX of 1985) کے تحت قائم کیا گیا ہو یا پھر کوئی ایسا ادارہ جو علومِ شرعیہ کی تربیت دیتا ہو اور جسے حکومت منظور کر چکی ہو۔
  • 'تجویز کردہ' کا مطلب ہو گا، اس ریگولیشن کے زمرے میں آنے والے قوانین کے تحت تجویز کردہ۔
  • 'قاضی' کا مطلب ہو گا، ایسا مقرر کردہ عدالتی افسر جسے شیڈول 2 کے کالم 3 کے عین مطابق تعینات کیا گیا ہو۔
  • 'منظور شدہ ادارے' کا مطلب ہو گا: شریعہ اکیڈمی جسے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی آرڈیننس 1985ء یا کسی ایسے ادارے کے تحت قائجم کیا گیا ہو جو شرعی علوم کی تربیت دیتا ہو اور حکومت سے منظور شدہ ہو۔
  • 'شیڈول' کا مطلب ہو گا: موجودہ ریگولیشن کا کوئی شیڈول
  • 'شریعت' سے مراد ہو گی: وہ اسلامی تعلیمات و احکامات جو قرآنِ مجید اور سنت نیز اجماع اور قیاس میں بیان کی گئی ہیں۔

وضاحت: کسی بھی مسلمان فرقے کے پرسنل لا کا اطلاق کرتے وقت، جب کبھی قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی ﷺ کی وہ تعبیر و تشریح جو مذکورہ مسلمان فرقے کے نزدیک صحیح اور درست ہے۔

2. دیگر تمام الفاظ، جن کی تعریف موجودہ ریگولیشنز میں نہیں کی گئی، ان کا مطلب اور مفہوم وہی ہو گا جو کسی بھی ایسے قانون میں موجود ہو گا جو مذکورہ علاقے میں وقتی یا عارضی طور پر نافذ العمل ہوں گے۔

3. بعض قوانین کا اطلاق:

  • وہ قوانین جو شیڈول نمبر 1 کے کالم 2 میں دیئے گئے ہیں اور شمال مغربی سرحدی صوبے میں اس ریگولیشنز کے نفاذ سے قبل نافذ العمل تھے، اور ان کے علاوہ وہ تمام قوانین، نوٹیفکیشن اور احکامات جو ریگولیشنز کے آغاز اور نفاذ سے قبل مذکورہ علاقوں میں نافذ العمل تھے۔
  • وہ تمام قوانین جن کا اطلاق مذکورہ علاقے پر ہو گا جن میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جو ذیلی پیرا گراف نمبر 1 میں بیان کئے گئے ہیں اور جو ان تمام مستثنیات اور ترامیم سے مشروط ہوں گے جن کا ذکر موجودہ ریگولیشنز میں کیا گیا ہے۔


3. عدالتیں: 'دار القضا' اور 'دار القضا' کے علاوہ مذکورہ علاقے میں درج ذیل عدالتیں بھی کام کرتی رہیں گی جنہیں با اختیار دائرۂ عمل و اختیار حاصل رہے گا:

  • ضلع قاضی کی عدالت
  • اضافی ضلع قاضی کی عدالت
  • اعلیٰ علاقہ قاضی کی عدالت
  • علاقہ قاضی کی عدالت
  • ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی عدالتِ قضا


4. ان کے اختیارات اور فرائض:

  • مذکورہ علاقے میں تعینات ہونے والے علاقہ قاضی کو شامل مغربی سرحدی صوبے کے عدالتی افسر کا درجہ اور حیثیت حاصل ہو گی۔ بہرنوع اس سلسلے میں ترجیح ان عدالتی افسران کو دی جائے گی جنہوں نے کسی تسلیم شدہ ادارے سے شریعت کے کورس کی تکمیل کی ہو گی۔
  • فوجداری مقدمات کی کاروائی اور پیش رفت کے حوالےسے تمام تر اختیارات، فرائض اور ذمہ داریاں شمال مغربی سرحدی صوبے کے ان عدالتی افسران کو ان قوانین کے تحت تفویض کی جائیں گی جو علاقے میں وقتی طور پر نافذ العمل ہوں گے اور جن پر شیڈول نمبر 2 کے متعلقہ کالم کے تحت تسلیم شدہ اُصولِ شریعہ کے عین مطابق عمل در آمد کیا جا رہا ہو گا۔
  • دار القضا کے عہدے کی نگرانی سے مشروط، ضلع قاضی ماتحت عدالتوں کی کارروائی کی نگرانی کرے گا اور متعلقہ ضلعی پولیس افسر کے توسط سے خدمت گار اسٹاف کی تقرری کو اپنے دائرۂ اختیار کی مقامی حدود میں رہتے ہوئے ممکن بنائے گا۔


5. ایگزیکٹو مجسٹریٹ

  • ہر ضلع اور محفوظ علاقے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، سب ڈویژنل مجسٹریٹس اور دیگر ایگزیکٹو مجسٹریٹس صوبے کے گورنر کی ضروریات کے عین مطابق تعینات کئے جائیں گے۔
  • ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور تمام دیگر ایگزیکٹو مجسٹریٹس اپنے فرائض، ذمہ داریوں اور اختیارات کا استعمال شریعت کے تسلیم شدہ قوانین کے علاوہ ان قوانین کے مطابق کریں گے جو وقتی طور پر اس علاقے میں نافذ العمل ہیں۔
  • قیامِ امن، نظم و نسق، امن عامہ، حکومت کی ایگزیکٹو اتھارٹی کا نفاذ اور سدِ ذرائع جنایات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فرائض منصبی، ذمہ داریوں اور اختیارات میں شامل ہو گا۔ اس مقصد کے حصول کی غرض سے وہ شریعت کے تسلیم شدہ قوانین کی رو سے کسی بھی فرد کے خلاف ایکشن لینے کا مجاز ہو گا۔
  • وہ تمام کیسز جو اس ریگولیشنز کے شیڈول نمبر III میں شامل ہیں، اُنہیں خصوصی طور پر ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی عدالتوں میں چلایا جا سکے گا۔

وضاحت: 'سد ذرائع جنایات' کا مطلب ہے: وہ تمام اقدامات اور فیصلے جو شرعی قوانین کے تحت یا کسی دیگر ایسے قانون کی روشنی میں کئے گئے ہیں جو جرائم پر قابو پانے کے لئے علاقے میں نافذ العمل ہے۔

6. قاضی عدالت یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو چالان کی پیشی:

  • پولیس اسٹیشن کے ہر ایک افسر انچارج کی ڈیوٹی ہو گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر ایک فوجداری مقدمے میں مکمل چالان متعلقہ عدالت کے روبرو، ایف آئی آر درج کرانے کی تاریخ کے، چودہ دنوں کے اندر اندر پیش کر دیا جائے ماسوائے اس کیس کے، جس میں متعلقہ قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ نے مخصوص مدت کے لئے وقت کی خصوصی توسیع کے احکامات صدر کئے ہوں۔ اگر کوئی بھی افسر انچارج جس کا تعلق پولیس اسٹیشن یا تحقیقاتی افسر سے ہو مکمل چالان مقررہ مدت کے اندر جمع کرانے میں ناکام ہو تو قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ اس معاملے کو مجاز اتھارٹی کے حوالے کر دے ا تاکہ اس تاخیر کے ذمے دار کے خلاف تادیبی کاروائی کی جا سکے اور اس کے خلاف ضروری تنظیمی کارروائی کرتے ہوئے اس کی اطلاع متعلقہ قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو دی جائے۔
  • پولیس اسٹیشن کا افسر انچارج، ایف آئی آر کی ایک نقل متعلقہ قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے روبرو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر پیش کرتے ہوئے قاضی اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ کو وقتاً فوقتاً کیس کی تحقیقیات پیش رفت سے آگاہ کرتا رہے گا۔

7. شرعی قوانین کے عین مطابق کارروائی

  • قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ، قرآنِ مجید، سنتِ نبوی ﷺ، اجماع اور قیاس سے،ضروری ہدایات اور رہنمائی کی روشنی میں تمام مقدمات کی کاروائی کو چلائیں گے، جو شرعی قوانین کے طریقۂ کار کے عین مطابق ہو گی اور تمام مقدمات کے فیصلے بھی شریعت کے قوانین کی روشنی میں کئے جائیں گے۔ قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی ﷺ کی تعلیمات، احکامات اور ہدایات کی تعبیر و تشریح کے پیش نظر قاضی اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی ﷺ کی تعلیمات کے مسلمہ اُصولوں کو ہر ہر قدم پر پیش نظر رکھیں گے اور اس مقصد کے حصول کی غرض سے اسلام کی تسلیم شدہ فقہا کی آراء اور خیالات کو بھی مد نظر رکھیں گے۔
  • کوئی بھی عدالت اس وقت تک کسی مقدمے کی سماعت نہیں کر سکے گی جب تک مدعی اور مدعا علیہ متعلقہ کاغذات و دستاویزات کی بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک وصولی کی توثیق و تصدیق نہ کر دیں۔'' (جاری ہے)