غامدی صاحب اور انکار حدیث (قسط 3)
غامدی صاحب کے انکارِ حدیث کا سلسلہ بہت طولانی ہے۔ وہ فہم حدیث کے لئے اپنے من گھڑت اُصول رکھتے ہیں جن کا نتیجہ انکارِ حدیث کی صورت میں نکلتا ہے۔ وہ حدیث اور سنت کی مسلمہ اصطلاحات کا مفہوم بدلنے کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ حدیث کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے۔ وہ اس کے ثبوت کے لئے اپنی طرف سے اجماع اور تواترکی شرائط عائد کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کا کوئی اہتمام نہیں فرمایا تھا۔ حدیث و سنت کے بارے میں اُن کے ہاں کھلے تضادات بھی پائے جاتے ہیں۔
انکارِ حدیث کے حوالے سے وہ حدیث سے کسی قرآنی حکم کی تخصیص و تحدید واقع ہونے کو نہیں مانتے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب 'میزان' میں لکھتے ہیں کہ:
''قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے، اُس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔''1
اپنے اس دعوے کے بارے میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ:
''حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔''2
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک
- دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا۔
- حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہو سکتی۔
- اگر قرآن کے کسی حکم میں حدیث سے تحدید و تخصیص مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ اور مشکوک ہو جاتا ہے۔
1. کیا دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ قرآن کی روشنی میں ہو گا؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی آیاتِ بینات کی روشنی میں ہو گا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ خود قرآن مجید ہی ان کے اس دعوے کی تردید کر دیتا ہے۔ وہ ہر معاملے کے فیصلے کے لئے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے۔
گویا دوسرے لفظوں میں دین کے ہر معاملے کا فیصلہ قرآن او حدیث و سنت کی روشنی میں کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُوا ٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّسُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌوَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ...﴿٥٩﴾...سورة النساء
''اے ايمان والو! اطاعت كرو الله، اطاعت كرو رسول ﷺ كی اور اُن كی جو تم میں سے اہل اختیار ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔''
یہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے کہ اہل ایمان کے درمیان کسی بھی مسئلے کی شرعی حیثیت معلوم کرنے کے لئے اللہ و رسول ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے ا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دین کے ہر معاملے میں ردّ و قبول کا فیصلہ قرآن اور حدیث و سنت کی روشنی میں ہو گا، نہ کہ صرف قرآن کی روشنی میں۔
چنانچہ غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کے تحت لکھا ہے:
''رد إلی اللہ والرسول کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی امر میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو تو پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو پھر اس کے معلوم کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔''3
پھر مولانا اصلاحی نے اس آیت کی مزید تفسیر کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ:
''اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ قانونِ اسلامی کے مرجع کی حیثیت سے کاب اللہ کی طرح سنتِ رسول ﷺ کی حیثیت بھی مستقل اور دائمی ہے۔ اس لئے کہ فرمایا کہ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ (پس اس کو اللہ و رسول ﷺ کی طرف لوٹاؤ) ظاہر ہے کہ یہ ہدایت نبی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی تک کے لئے محدود نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اس اختلاف کے پیدا ہونے کا غالب امکان تو حضور ﷺ کی وفات کے بعد ہی تھا اور آیت خود شہادت دے رہی ہے کہ اس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی سنت ہی ہے جو آپ ﷺ کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔''4
اس سے معلوم ہوا کہ غامدی کا یہ دعویٰ کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا، ایسا بے اصل اور غلط دعویٰ ہے جو کہ قرآنِ مجید کے بھی خلاف ہے، سنت کے خلاف ہے، اجماعِ صحابہؓ و اجماعِ اُمت کے بھی خلاف ہے اور اُن کے بھی خود اپنے اُستاذ امام کے موقف کے بھی خلاف ہے۔
2. کیا حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید یا تخصیص ہو سکتی ہے؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی بالکل غلط ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے بہت سے احکام کی تحدید اور تخصیص ہوئی ہے اور اہل علم کے ہاں اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حدیث سے قرآنی حکم کی تحدید کی مثالیں:
حدیث کے ذریعے قرآنِ مجید کے کئی احکام میں تحدید واقع ہوئی ہے۔ ذیل میں اس کی دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَٱلَّـٰتِى تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهْجُرُوهُنَّ فِى ٱلْمَضَاجِعِ وَٱضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا ...﴿٣٤﴾...سورة النساءٰ
''اور جن بيويوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو اُنہیں سمجھاؤ، ان سے ہم بستری چھوڑ دو اور (اس پر نہ مانیں تو) اُنہیں مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان کے خلاف الزام تراشی نہ کرو۔ بے شک اللہ سب سے برتر اور بہت بڑا ہے۔''
اس آیت کے الفاظ: واضربوھن (اور ان بیویوں کو مارو) مطلق تھے اور یہ مارنا ہر طرح مارنا اور زخمی کرنا ہو سکتا تھا، لیکن ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید (تقیید) ہو گئی ہے کہ صرف ایسی مار جائز ہے جو اتنی تکلیف دہ نہ ہو کہ اُس سے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((فاضربوھن ضربا غیر مبرح))۔۔۔۔ 5
''پس تم ان کو اتنا مار سکتے ہو جو ایسا تکلیف دہ نہ ہو کہ اس سے انکے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچے۔''
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تحدید ہو سکتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ غامدی صاحب نے خود اپنے 'اُصولِ حدیث' کے خلاف حدیث کے ذریعے قرآن کی مذکورہ آیت کے حکم وَاضْرِبُوْھُنَّ (اور ان بیویوں کو مارو) کی تحدید مانی ہے کہ اس سے مراد صرف ایسی سزا ہے جو پائیدار اثر نہ چھوڑے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب 'میزان' اور 'قانونِ معاشرت' میں لکھتے ہیں کہ:
''نبی ﷺ نے اس کی حد 'غیر مبرح' کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے''6
دین کے بارے میں ایسے کھلے تضاد کا حامل ہونا صرف غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔
تحدید کی دوسری مثال یہ ہے:
وَيَسْـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَٱعْتَزِلُواٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ...﴿٢٢٢﴾...سورة البقرة
''اور وہ آپ ﷺ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ ﷺ کہیں وہ ایک گندگی ہے لہٰذا اس میں بیویوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔''
اس آیت میں یہ حکم ہے کہ فَٱعْتَزِلُواٱلنِّسَآءَ فِى ٱلْمَحِيضِ (پس تم بیویوں سے اُن کے حیض کی حالت میں الگ رہو) یہ الگ رہنا ایک مطلق حکم ہے جس کا مطلب یہ بھی ہو سکا تھا کہ ایسی حالت میں بیویوں سے الگ تھلگ رہو۔ اُن کو الگ مقام پر رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دو اور ان سے میل جول نہ رکھو۔ لیکن اس بارے میں صحیح احادیث سے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید ثابت ہو کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف مباشرت منع ہے، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے کسی قرآنی حکم کی تحدید ہو سکتی ہے۔
خود غامدی صاحب حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید کو مانتے ہیں۔ چنانچہ وہ اسی حوالے سے ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
''انہی (سیدہ عائشہؓ) سے روایت ہے کہ ہم میں سے کوئی حیض کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ ﷺ اس کے قریب آنا چاہتے تو ہدایت کرتے کہ حیض کی جگہ پر تہہ بند باندھ لے، پھر قریب آجاتے۔''7،8
اس طرح غامدی صاحب پہلے اپنا یہ اُصولِ حدیث بتاتے ہیں کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم کی تحدید نہیں ہو سکتی اور پھر اپنے اس اُصول کی خود ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرآن کے احکام کی تحدید حدیث ہی سے ثابت کر دیتے ہیں۔
حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص واقع ہونا اہل علم کے نزدیک ثابت ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے:
يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِىٓ أَوْلَـٰدِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ ۚ...﴿١١﴾...سورة النساء
''اللہ تمہارے اولاد کے بارے میں تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ (وراثت میں) ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔''
اس آیت سے واضح ہے کہ اولاد ہر حال میں اپنے والدین کے ترکے کی وارث ہو گی اور بیٹے کو بیٹی سے دکنا حصہ ملے گا۔ لیکن صحیح حدیث میں ہے کہ:
((لا یرث القاتل شیئاً))9
''قاتل وارث نہیں ہو سکتا۔''
اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
قرآن کا حکم عام تھا کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے ترکے کا وارث ہو گا مگر حدیث نے قاتل بیٹے کی تخصیص کر دی کہ وہ اپنے باپ کے ترکے کا وارث نہیں ہو سکتا۔ یہی اسلامی شریعت ہے اور اہل علم کا اسی پر اتفاق اور اجماع ہے کہ قاتل کو مقتول کی وراثت سے محروم کیا جائے گا۔ اس طرح حدیث نے قرآن کے ایک حکم عام میں تخصیص کر دی ہے۔
تخصیص کی دوسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا...﴿٢٧٥﴾...سورة البقرٰة
''اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سُود کو حرام ٹھہرایا ہے۔''
مذکورہ آیت ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہراتی ہے، کیونکہ اس میں عموم پایا جاتا ہے۔ لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے مروی حدیث ہے کہ:
((إن اللہ ورسوله حرَّما بیع الخمر والمیتة والخنزیر والأصنام))
''بے شک اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔''10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے۔ اب اگر قرآن کے حکم کو دیکھا جائے تو ہر قسم کی تجارت حلال ہے، کیونکہ قرآنی الفاظ میں مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام ہے اور قرآن میں جس تجارت کے حلال ہونے کا ذِکر ہے اس میں شراب، مردار، خنزیر او بتوں کی تجارت شامل نہیں ہے۔
اب اگر غامدی صاحب کے بتائے اس اُصولِ حدیث کو مانا جائے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص نہیں ہو سکتی تو پھر مذکورہ صحیح حدیث کا انکار کرنا پڑے گا اور اسلام میں شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت بھی حلال ہو جائے گی جو غامدی صاحب کی خود ساختہ شریعت تو ہو سکتی ہے مگر وہ اسلامی شریعت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث سے قرآن کے کسی حکم میں تحدید و تخصیص کو نہ ماننا ''محض سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔''
1. کیا حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید یا تخصیص ہونے سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے:
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اگر حدیث سے کسی قرآن حکم کی تخصیص یا تحدید مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنی احکام میں تخصیص اور تحدید واقع ہونے سے قرآنِ مجید کا فرقان ہونا قطعاً مشتبہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے قرآن احکام کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان کا صحیح مدعا اور منشا معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ اُوپر کی مثالوں سے واضح ہے۔
رہی یہ بات ہے کہ قرآن کو 'میزان' کہا گیا ہے تو یہ بالکل ایک غلط اور بے اصل بات ہے۔ قرآن نے اپنی صفتِ میزان کہیں بھی بیان نہیں فرمائی۔ اُمت کے معتمد اور ثقہ اہل علم میں سے کسی نے کبھی بھی میزان کو قرآن کی صفت قرار نہیں دیا۔
اسی طرح حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم میں تخصیص یا تحدید ہونے سے اُس کا فرقان ہونا کسی طرح مشتبہ یا مشکوک قرار نہیں پاتا۔ فرقان بلاشبہ قرآن کا صفاتی نام ہے اور قرآن سے ثابت بھی ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بہت سے احکام مجمل طور پر بیان ہوئے ہیں اور حدیث ان کی تفصیل اور تشریح کرتی ہے۔ حدیث کے ذریعے قرآن کے بہت سے مجمل احکام کی وضاحت ہوتی ہے اور اس سے قرآن کا فرقان ہونا کسی طرح مشتبہ یا مشکوک نہیں ہو جاتا۔ یہ غامدی صاحب کا محض وہم ہے اور وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔
حوالہ جات
1. میزان: ص 25، طبع سوم مئی 2008ء لاہور؛ اُصول و مبادی: ص 24 طبع فروری 2005ء لاہور
2. میزان: ص 35، طبع سوم مئی 2008ء لاہور؛ اُصول و مبادی: ص 36، طبع فروری 2005ء، لاہور
3. تدبر قرآن: جلد 2، ص 325، طبع 1983ء لاہور
4. ایضاً: جلد 2، ص 326، طبع 1983ء لاہور
5. صحیح مسلم حدیث: 2950
6. میزان: ص 423، طبع سوم 2008ء، لاہور؛ قانونِ معاشرت، ص 30، طبع اوّل، مئی 2005ء، لاہور
7. صحیح بخاری حدیث: 292
8. میزان: ص 433، طبع سوم، مئی 2008ء؛ قانونِ معاشرت: ص 43، طبع اوّل، مئی 2005ء، لاہور
9. سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، حدیث 4564
10. صحیح بخاری: کتاب البیوع، حدیث 2236