جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ( قسط 1)

اسلام عدل اور متوازن عمل کا مذہب ہے یا توازن اور عدل کا حصول شریعت کا اہم مقصد ہے۔
شریعت ہر طریقے میں انصاف اور عدل کے راستے کا انتخاب کرتی ہے۔
فلاں بات یا کام شریعت کی غلط تعبیر ہے، کیونکہ یہ عدل کے خلاف ہے۔
اسلام دین فطرت ہے یا دین کی ہر بات فطرتِ انسانی کے مطابق ہوتی ہے۔
فلاں بات یا کام شریعت نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ فطرتِ انسانی کے خلاف ہے اور اسلام دین فطرت ہے۔
دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی تعلیم دیتا ہے۔
ہمیں انسانیت کے پیمانے پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
سب کے نظریات و خیالات کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے کیونکہ سب لوگ انسان ہیں۔
فلاں کام یا قدر مذہب تو کجا انسایت کا بھی تقاضا ہے یا فلاں کام تو انسایت سے بھی گرا ہوا ہے۔ وغیرہ

مندرجہ بالا اور اسی طرح کے بے شمار بیانات ہر ذی علم شخص کو پڑھنے اور سنے کو ملتے ہیں۔ ان بیانات کی درست تعیر اور وضاحت کلامی اعتبار سے اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ ان کے غلط معنی کی آڑ میں دلائلِ فاسدہ کا ایک طومار کھڑا کر کے احکاماتِ شریعت کی قطع و برید کا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ زیر نظر مضمون کا مقصد چند ایسے اہم فکری ابہامات کا جائزہ پیش کرنا ہے جن کی وجہ سے دورِ جدید کے مفکرین فکری کج رویوں کا شکار ہو گئے اور جن کی وجہ سے نہ ۔صرف یہ کہ اسلام کی اصل پوزیشن سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ یہ غلبہ اسلام کی غلط حکمتِ عملی وضع کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اب ہم بالترتیب ان تصورات پر گفتگو کرتے ہیں:

1. اسلام اور عدل :1
یاد رکھنا چاہئے کہ بیانات نمبر 1 تا 3 کی دو ممکنہ تعبیرات کی جا سکتی ہیں:
اوّلاً: تصورِ دل گویا احکاماتِ شریعہ اَخذ کرنے اور جانچنے کا آزاد اور مستقل اُصول ہے، اس کے لئے انبیاء کی رہنمائی اور وحی کی ضرورت اضافی ہے جیسا کہ معتزلہ اور شیعہ نے سمجھا۔
ثانیاً: شریعت عدل اور توازن کا راستہ ان معنی میں ہے کہ شریعت بذاتِ خود عدل کی تعریف بیان کرتی ہے، جیسا کہ اہل سنت والجماعت نے سمجھا۔

اُصولی اور عقلی اعتبار سے ان جملوں کی صرف دوسری تعبیر ہی درست تسلیم کی جا سکتی ہے۔ 'اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام 'عدل' کا مذہب ہے مگر اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ 'عدل کیا ہے؟' عدل کی سادہ تعریف یہی ہے کہ 'حقدار کا حق ادا کرنا' یعنی جس شے کا جو حق ہے وہ اسے دینا'عدل کہلاتا ہے۔ اس تعریف کے بعد اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ

''کسی شے کا حق کیا ہے اور یہ کیسے معلوم ہو گا؟''


چنانچہ عدل کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو توازن اور اعتدال کا راستہ قرار دیتا ہے تو وہ اپنے تمام علم کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ وہ اس طریقے کا خالق ہے جس کے ذریعے ہم متوازن و غیر متوازن عمل کے درمیان فرق کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طریقے کی وضاحت انبیائے کرام کے ذریعے فرما دی ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہی انسان اپنی زندگی کو عدل کے تقاضوں کے مطابق گزار سکتا ہے۔ یہ طریقہ اپنی اصل شکل میں قرآن، احادیثِ نبوی ﷺ اور اجماعِ اُمت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اسی طریقے (شریعت) کو اللہ تعالیٰ نے نیکی و بدی، عدل و ظلم، اعتدال اور انتہا کے درمیان فرق قرار دیا ہے۔2 انسانی کوششوں، حسیات، عقل اور وجدان کی مدد سے اس طریقے کو پا لینا ناممکن ہے۔

درج بالا بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اِدراکِ حقیقت کے لئے انسانی حسیات، عقل اور وجدان کا انکار کرنے کے بعد ہی کوئی شخص الہامی رہنمائی کی ضرورت کا قائل ہو سکتا ہے۔ ارسطو اور افلاطون جیسے یونانی فلاسفہ کا یقین تھا کہ وہ عقل کے ذریعے عدل اور ظلم کے درمیان فرق تلاش کر سکتے ہیں۔ ارسطو کا خیال تھا کہ صحیح عمل و انتہاؤں کے درمیان حدِ اَوسط کا نام ہے مگر وہ 'حدِ اوسط' کیا ہے، ارسطو اس بارے میں کوئی واضح تمیز قائم کر سکنے سے قاصر رہا۔

جن عیسائی اور مسلم مفکرین نے ارسطو وغیرہ کے فلسفے پر اعتماد کیا، اُنہیں پیغمبروں کی ضرورت تسلیم کرنے میں مشکل محسوس ہوئی اور بالآخر وہ اس سمجھوتے پر اُتر آئے کہ پیغمبروں اور فلاسفہ دونوں کی تعلیمات کا مقصد صحیح اور غلط کے درمیان فرق واضح کرنا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انبیا کا طریقہ سادہ و آسان ہے اور وہ عام لوگوں کے لئے ہے جبکہ فلاسفہ کا طریقہ مشکل اور سمجھنے میں دشوار گزار ہے لہٰذا وہ خواص کے لئے ہے۔ گویا ان کے اس تصور کا یہ نتیجہ نکلا کہ فلاسفہ کا طریقہ ایک اعتبار سے انبیاء سے اعلیٰ ہے۔

مسلم دنیا میں فارابی و ابن سینا نے اور عیسائی دنیا میں اگسٹائین و ایکوناس نے یونانی فلاسفہ کی تعلیمات کو اسلام و عیسائیت سے مربوط کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر امام غزالیؒ نے اس قسم کی مفاہمانہ کوششوں کو کلی طور پر مسترد کر دیا اور اُنہوں نے اس قسم کے دعووں کی ناموزونیت کو واضح کر دیا۔ امام صاحبؒ اہل سنت والجماعت کی ترجمانی میں فرماتے ہیں کہ صحیح و غلط، عدل و ظلم، اِعتدال و انتہا کے درمیان فرق جاننے کے صحیح طریقے کو جاننے سے عقل مکمل طور پر قاصر ہے۔ ان فلاسفہ کے بے تکے دعووں کو قبول کرنے کا مطلب دراصل تعلیماتِ انبیا کی تردید ہے جو کہ انسان کی بنیادی ضرورت 'رہنمائی' سے انکار ہے۔

معلوم ہوا کہ شریعتِ اسلامی ہی وہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم نیکی و بدی، صحیح و غلط عدل اور ظلم کے درمیان تمیز قائم کر سکتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایسی کوئی غیر اَقداری قدر (عقل یا فطرت وغیرہ) نہیں جس کے ذریعے اسلام کو جانچا جا سکے کہ اسلام عدل ہے یا نہیں؟ اِنتہا ہے یا اعتدال، کیونکہ اسلام ہی عدل و ظلم قائم کرنے کا پیمانہ و معیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت نے شیعہ اور معتزلہ کے برعکس عدل کو اسلام کے بنیادی ستونوں میں شامل نہیں کیا، کیونکہ عدل کو شریعت کے علاوہ کسی دوسری (غیر جانبدارانہ) اصطلاح میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا یہ سوال کہ 'عدل کیا ہے؟' اس کا واحد جواب ہے: 'شریعت'، اور عدل کو احکاماتِ شریعت اخذ کرنے اور اُنہیں جانچنے کے مستقل اور آزاد اُصول کے طور پر پیش کرنا درست نہیں۔

سادہ سی بات ہے کہ جب ہر معاملے میں خود شریعت عدل و ظلم کی تعریف بیان کرتی ہے تو احکام اَخذ کرنے کے لئے عدل کس طرح بطورِ اُصول تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ یعنی جب شریعت خود اس بات کی وضاحت کرے گی کہ کیا چیز معتدل ہے اور کیا غیر معتدل، تو ازن، اعتدال اور انصاف کے تصورات کو کسی عمل کی اجازت دینے یا نہ دینے کے لئے آزاد اُصول کے طور پر قبول کرنا نا قابل فہم ہو جاتا ہے۔ اگر انصاف کا مطلب اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے اور توازن کا مطلب اس طریقے کا انتخاب ہے جو کتاب و سنت میں بیان ہوا، تو انصاف و توازن کو اَخذِ احکامات کے لئے ایک اُصول کے طور پر سمجھنا کس طرح ممکن ہے؟

یاد رہنا چاہئے کہ اسلام ہی عدل و توازن کا نام ہے اور کفر اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم و عدمِ اعتدال ہے۔ ظلم کا مطلب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا:


وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُولَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّـٰلِمُونَ...﴿٤٥﴾...سورة المائدہ

''جو لوگ اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتے جو ہم نے نازل کیا تو وہی تو ظالم ہیں۔''

قرآنِ کریم میں فرمانِ الٰہی ہے:
وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ ۚ...﴿٥٨﴾...سورة النساء
''جب تم لوگوں كے مابين فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ ہی فیصلہ کرو۔''

شریعتِ اسلامیہ کے تصورِ عدل کی حتمی وضاحت نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے جسے حضرت علیؓ نے جامع ترمذی میں روایت کیا ہے:
((کتاب اللہ فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم ھو الفصل ليس بالھزل. من قال به صَدَق ومن عمل به أُجرو من حَكَمْ به عدل))
''یہ اللہ کی کتاب (قرآنِ مجید) ہے جس میں گذشتہ قوموں کے حالات ہیں اور آنے والے واقعات کی خبر ہے۔ یہ کتاب تمہارے مابین پیش آنے والے مسائل کے لئے فیصلہ کن (حَکَم) ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، کوئی مذاق نہیں۔ جس نے اس کی بنا پر کوئی بات کی تو اس نے سچ بولا۔ جس نے اس کی بنا پر عمل کیا تو وہ اجر کا مستحق ہو گیا، اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا تو اُسی نے عدل کو ملحوظ رکھا۔''3

چنانچہ ہر وہ تصورِ عدل جس کا منبع شریعت کے علاوہ کچھ اور ہو، درحقیقت ظلم ہے۔ ہر وہ جدوجہد جو شریعت کے علاوہ کسی دیگر تصور عدل کو نافذ کرنے کے لئے برپا کی جائے 4درحقیقت سرکشی ہے۔ یہی بات ابو الحسن اشعری نے صدیوں پہلے یوں ارشاد فرما دی تھی کہ ''حسن و قبح، عدل و ظلم افعال کے ذاتی وصف نہیں بلکہ شرعی وصف ہیں، عقل میں صلاحیت نہیں کہ وہ ان کا اِدراک کر سکے۔''

2. اسلام اور فطرت:
اسلامی تاریخ کے قرونِ اُولیٰ میں جو کلامی و فکری گمراہی معتزلہ کی شکل میں ظاہر ہوئی، مسلم دنیا میں اس کی نشاةِ ثانیہ برطانوی استعمال کے بعد متجد دین کی صورت میں ہوئی جنہیں ہم جدید معتزلہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ گو کہ دونوں گروہوں کے طریقۂ واردات میں حیرت انگیز طور پر یکسانیت ہے البتہ دونوں کے مباحث میں قدرے فرق ہے اور ایسا ہونا ضروری ہے، کیونکہ مغربی استعمار نے جو فکری مسائل پیدا کئے ہیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان مسائل سے مختلف ہیں جو یونانی فکر کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ جدید متز لہ کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ خود شریعت کو معیار بنانے کے بجائے دیگر اقدار اور تصورات کو اَحکامات اخذ کرنے کے لئے بطورِ معیار قبول کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ ان تصورات میں سے ایک اہم اُصول 'فطرتِ انسانی' اور اس کے تقاضے ہیں۔ (ایک اور اہم اصول 'حالات اور وقت کے تقاضے' بھی ہیں مگر یہاں ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں)۔

مذہب سے ماورا تصورِ عدل کی طرح اوپر دیئے گئے بیانات نمبر 4 اور 5 بھی فکری کج روی کا باعث بنتے ہیں، کیونکہ ان کے دو معنی ممکن ہیں:
اوّلاً: انسانی فطرت علیحدہ سے کوئی معلوم شے ہے اور اسلام اس کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے فطرت احکامات اَخذ کرنے کا ایک علیحدہ مستقل اُصول ٹھہرتا ہے۔ بدقسمتی سے عام طور پر اس جملے کے یہی معنی سمجھ لئے گئے ہیں۔
ثانیاً: جب شارع یہ کہتا ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ انسانی فطرت کا خلاق ہے بلکہ اس طریقے کا بھی خالق ہے جس کی روشنی میں انسان اپنی فطرت کو سمجھ سکتا ہے اور اس طریقے پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنی فطرت کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔

ان جملوں کے پہلے معنی نہایت خطرناک ہیں، کیونکہ اس معنی کے تحت ہم اسلام کو انسانی فطرت پر کسنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہنا ضروری ہے: (Islam must correspond to human nature) اس معنی کے مطابق اسلام کا انسانی فطرت کے تابع ہونا لازم ٹھہرتا ہے اور یہ واضح گمراہی ہے کیونکہ اس کا معنی یہ ہوئے کہ حق و باطل کا معیار وحی کے علاوہ کچھ اور (مثلاً نفس انسانی اور دیگر ذرائع علم وغیرہ) ہے۔ فطرت کو مستقل اور ماورائے مذہب اُصول کے طور پر قبول کرنے میں اصل مشکل یہ سوال ہے کہ وہ مستقل انسانی فطرت جس پر ہم وحی کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا مافیہ ؍ مشمول (Content) کیا ہے اور اس کا علم ہمیں اسلام کے علاوہ کس ذریعہ علم سے ہوا؟ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ ہمیں کسی دوسرے ذریعۂ علم سے فطرت کا علم حاصل ہو گیا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس دوسرے ذریعہ علم کو وحی پر فوقیت دیتے ہیں، اور اس صورت میں ہمیں یہ ماننا ہو گا حق و باطل کی پہچان کے لئے اسلام کے بجائے ان دیگر ذرائع پر انحصار کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔ اپنے فکری اَجداد کی روش برقرار رکھتے ہوئے جدید معتزلہ اس مشکل مقام پر یہ عجیب و غریب سمجھوتہ کرتے ہیں کہ شریعت کی ضرورت ان (گنے چنے) معاملات میں پڑتی ہے جہاں انسانی فطرت و عقل کے پاس فیصلہ کرنے کی کوئی بنیاد موجود نہ ہو، دیگر تمام معاملات میں فطرت وغیرہ ہی سے ہدایت حاصلل کی جائے گی۔ ظاہری بات ہے کہ یہ سمجھوتہ خلطِ مبحث کے سوا اور کچھ نہیں، کیونکہ سوال پھر وہی پیدا ہو گا کہ جن معاملات میں آپ شریعت کو خاموش کرتے ہیں، وہاں فطرت کو جاننے کا ذریعہ کیا چیز ہے؟ جدید فلسفے میں علم اخلاقیات کے مباحث و مسائل کے ہر طالبِ علم پر یہ بات خوب واضح ہے کہ انسانی کلیات کے ذریعے انسانی فطرت کے بارے میں جاننا ناممکن ہے، یعنی انسانی ذرائعِ علم میں ایسا کوئی حتمی طریقہ موجود ہی نہیں جس کے ذریعے ہم نفسِ انسانی کا مطالعہ کر کے اس سوال کا جواب دے سکیں کہ ''انسانی فطرت کیا ہے؟''

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کی اُصولی کتابوں میں فطرت بطورِ ماخذِ شریعت کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ان کے نزدیک ان جملوں کا درست مفہوم صرف وہی ہے جو دوسرے معنی میں ادا کیا گیا ہے کہ انسانی فطرت وہی ہے جو اسلام کہتا ہے، یعنی اسلام ہی انسانی فطرت ہے اور اسلام جس شے کا حکم دیتا ہے، وہی انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ 5

مثلاً اگر اسلام کہتا ہے کہ داڑھی رکھو تو یہی فطرت ہے، اس لئے کہ ہمارے پاس انسانی فطرت کی پہچان کا کوئی مستند ذریعہ نہیں ہے۔ فطرت اسلام سے علیحدہ کوئی ایسی شے نہیں کہ جسے ماورائے مذہب سمجھا جا سکتا ہو اور جس کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ فلاں کام جائز ہے یا ناجائز جیسا کہ دورِ جدید کے چند معتزلہ نے 'مباحاتِ فطرت' اور 'دین فطرت' کے اُصول موضوعہ کی روشنی میں شریعت کی از سر نوع تعبیر کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ 6

جب اسلام خود فطرت کی تعریف بیان کرتا ہے تو پھر فطرت کو احکام اخذ کرنے کے لئے شریعت سے ممیّز اور ما قبل ایک آزاد اُصول کے طور پر قبول کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے؟ اسلام کے علاوہ اس کائنات میں انسانی فطرت جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہی نہیں۔ چنانچہ اگر یہ سوال کیا جائے کہ فطرتِ انسانی کیا ہے تو اس کا جواب ہے: 'اسلام'۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ انسانی مقاصد سے علیٰ الرغم انسانی رویوں کے کوئی فطری قوانین (Natural Laws) نہیں ہوتے جیسا کہ سوشل سائنسز یہ جھوٹا دعویٰ کرتی ہیں۔ 7

اس کائنات میں دو ہی طرح کے قوانین ہیں، وہ جو خدا نے بنائے اور وہ جو انسان خود وضع کرتا ہے۔ جس طرح مادی کائنات سے متعلق فطری قوانین خدا نے بنائے ، اسی طرح انسانی رویے کے فطری اظہار اور اس کی پہچان سے متعلق قوانین بھی خدا نے بنائے جو شریعت کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ قوانین ایسے نہیں جنہیں تجربیت یا عقلیت کی روشنی میں اخذ کیا جا سکے۔ اس امکان کو ماننا در حقیقت ضرورتِ نبوت کا انکار کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے علاوہ انسانی زندگی مرتب کرنے کا جو بھی قانون انسان وضع کرتا ہے، وہ سرکشی و بغاوت ہے نہ کہ اسکی فطرت کا تقاضا۔ پس فطرتِ سلیمہ وہی ہے جو اسلامی احکامات اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ جو شخص اسلامی احکامات کو اپنی فطرت اور مزاج کے خلاف محسوس کرتا ہے، درحقیقت فطرتِ غیر سلیمہ کا مالک ہے اور ایسی ہی غیر سلیم فطرت کے تزکیہ کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے تابع بنایا جائے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا کہ:
((لا یؤمن أحدکم حتی یکون ھواہ تبعًا لما جئت به))8
''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہشاتِ نفس اس چیز کے تابع نہ ہو جائیں جو میں لے کر آیا ہوں (یعنی قرآن اور سنت)۔''

قرآن و حدیث میں کسی مقام پر بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ ''لوگو! ہدایت کے لئے اپنی فطرت کی طرف رجوع کرو'' یا ''پیروی کرو اپنی فطرت کی۔'' وغیرہ اور نہ ہی یہ فرمایا کہ ''اگر کسی تک نبی یا رسول کے ذریعے میرا مطالبہ نہ پہنچا تو میں اس شخص سے حواس کی بنیاد پر موأخذہ کروں گا۔'' 9

اس سلسلے میں قرآنِ کریم کی درج ذیل واضح آیت فطرتِ انسانی کا تعین کرتی ہے:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَ‌تَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ‌ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَ‌ٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ...﴿٣٠﴾...سورة الروم
''یہ 'فطرت' اللہ کی تخلیق ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنے والا کوئی نہیں۔ اور وہ (فطرت) دین قیم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔''

اسی طرح ایک حدیث نبوی میں ارشاد ہے کہ ہر نومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے، جس کو اس کے ماں باپ (بگاڑ کر) یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ 10

اسی فرمانِ نبوی ﷺ کی ایک اور روایت میں فطرتِ اسلام بھی آیا ہے۔ یوں بھی آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نومولود کو اس کے ماں باپ مسلمان بنا دیتے ہیں بلکہ وہ پہلے ہی اللہ کی تخلیق کے مطابق اپنی فطرتِ حقیقی یعنی اسلام پر ہوتا ہے۔ الغرض انسان کی فطرت اسلام کے مطابق ہے اور ہمارے پاس اپنی فطرت کو پہچاننے کا کوئی مستند ذریعہ شریعت الٰہیہ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

3. اسلام اور انسانیت:
جدید مغربی اعتزال کی پھیلائی ہوئی فکری گمراہیوں میں سے ایک اہم انسانیت پرستی (Humanism) بھی ہے۔ اس تصور کا اظہار شروع میں دیئے گئے بیانات نمبر 6 تا 8 وغیرہ میں ہے۔ انسانیت پرستی در حقیقت اجتماعی زندگی سے مذہب کو بے دخل کرنے کا کلیدی سیکولر تصور ہے۔ اس کے مطابق انسان اَصلًا عبد نہیں بلکہ آزاد (Autonomous) اور قائم بالذات (الصَّمد Self-Determined) ہستی ہے، یعنی جدید اعتزال فرد کو اصلاً عبد (انسان) کے بجائے Human سمجھتا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سیکولرازم اس بات پر نہایت شد و مد سے زور دیتا ہے کہ ایک عادلانہ معاشرتی تشکیل کے لئے ہمیں 'انسانیت' کی سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے، نہ کہ کسی خاص مذہب، رنگ یا نسل وغیرہ کی بنیاد پر، یعنی معاشروں کی بنیاد ایسی قدر پر استوار ہونی چاہئے جو ہم سب میں مشترک ہے اور وہ اعلیٰ ترین اور بنیادی قدرِ مشترک شے اس کے نزدیک 'انسانیت' کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ مغربی اعتزال نے 'ہیومن رائٹس' کے نام پر ایک متوازی مذہب ایجاد کر کے دنیا بھر کو اس کی خود ساختہ میزان پر پرکھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سیکولر حضرات اپنے دعوے کی معقولیت ثابت کرنے کے لئے یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ ''آیا پہلے اور اصلاً ہم انسان ہیں یا مسلمان؟'' عام طور پر اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اصلاً تو ہم انسان ہیں اور مسلمان بعد میں، یعنی مسلمان ہونے کے لئے پہلے انسان ہونا ضروری ہے جس سے ثابت ہوا کہ ہماری اصل انسانیت ہے نہ کہ مسلمانیت۔ یہی وہ تصور ہے جس کے ذریعے سیکولرازم مذہب کو فرد کانجی مسئلہ بنا ڈالتی ہے، کیونکہ انسانیت کو اصل قرار دینے کے بعد زیادہ معقول بات یہی دکھائی دیتی ہے کہ اجتماعی نظام کی بنیاد ایسی شے پر قائم کی جائے جو سب کی اصل اور سب میں مشترک ہوتا کہ زیادہ وسیع النظر معاشرہ وجود میں آسکے۔ نیز اگر مذہب کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دینے کو روا رکھا جائے گا تو پھر ہمیں رنگ، نسل اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشروں کو بھی معقول ماننا پڑے گا۔ انسان کی اصل انسانیت کو قرار دینے کے بعد مذہب کا نجی مسئلہ بن جانا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے اور یہی نقطہ تمام سیکولر نظام ہائے زندگی (چاہے وہ لبرلزم ہو یا اشتراکیت) کی اصل بنیاد ہے۔ (سیکولرازم سے ہماری مراد ایسا نظام زندگی ہے جو وحی سے علیٰ الرغم انسانی کلیات یعنی حواس و عقل وغیرہ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہو)۔ حیرت انگیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مفکرین جب سیکولر حضرات سے گفتگو فرماتے ہیں تو انسانیت کی بنیاد پر اپنے دلائل قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے یا تو اُنہیں دورانِ گفتگو پے در پے شکست ہوتی چلی جاتی ہے اور یا وہ کمزور دلائل اور تاویلات کا سہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ در حقیقت انسانیت پرستی کو ردّ کئے بغیر مذہب کو اجتماعی زندگی میں شامل کرنے کی کوئی معقول علمی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے ہی نہیں۔

یہ سوال کہ ''آیا پہلے اور اصلاً میں انسان ہوں یا مسلمان؟'' اس کا واضح اور قطعی جواب یہ ہے کہ ''میری حقیقت اور اصل مسلمان (بمعنی عبد) ہونا ہے جبکہ انسان ہونا محض ایک حادثہ اور میری مسلمانیت (عبدیت) کے اظہار کا ذریعہ ہے۔'' اس کی تفصیل یہ ہے کہ میری اصل عبد یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہونا ہے، میں انسان سے پہلے ایک مخلوق ہوں جس کا کوئی خالق ہے۔ جبکہ میری انسانیت ایک حادثہ اور اتفاقی امر ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے یوں سوچیں کہ اگر میں انسان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ایک صورت یہ ہے کہ میں جن یا فرشتہ ہوتا، دوسری صورت یہ ہے کہ میں حیوانات، جمادات یا نباتات کی اجناس سے تعلق رکھتا۔ مگر میں کچھ بھی ہوتا، ہر حال میں مخلوق ہوتا، یعنی اپنے وجود کی ہر ممکنہ صورت میں میری اصل مخلوق (عبد) ہونا ہی ہوتی ، یہ اور بات ہے کہ میری عبدیت کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ مثلاً اگر میں پودا ہوتا تو میری عبدیت کا اظہار پودا ہونے میں ہوتی، اگر میں فرشتہ ہوتا تو یہ ملکوتیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ بنتی اور جب میں انسان ہوں تو میری انسانیت میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ الغرض میرا حال تو تبدیل ہو سکتا ہے، لیکن میرا مقام بہرحال مخلوق (عبد) ہونا ہی رہے گا اور یہ بہرصورت ناقابل تبدیل ہے۔

میرے وجود کی ہر حالت میرے لئے ان معنوں میں اتفاقی (Contingent) ہے کہ میں اپنی کسی حالت کا خود خالق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس حالت میں چاہا، مجھے میری مرضی کے بغیر تخلیق کر دیا نیز وہ اس بات پر مجبور نہ تھا کہ مجھے انسان ہی بناتا۔ پس ثابت ہوا کہ میری اصل مسلمانیت (بمعنی عبدیت) ہے اور انسان ہونا گویا میری مسلمانیت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اس کے علاوہ میری انسانیت اور کچھ بھی نہیں۔ ہم نے عبدیت کو مسلمانیت سے اس لئے تعبیر کیا ہے، کیونکہ اصلاً تو ہر عبد مسلمان ہی ہوتا ہے، چاہے وہ اس کا اقرار کرے یا انکار، اگر وہ اس کا اقرار زبان اور دل سے کر لیتا ہے تو مؤمن و مسلم (اپنی حقیقت اور اصل کا اقرار کرنے والا اور تابعدار) کہلاتا ہے اور اگر ماننے سے انکار کرے تو کافر (یعنی اپنی حقیقت کا انکار کرنے والا) ٹھہرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کافر کوئی نئی حقیقت تخلیق یا دریافت نہیں کرتا بلکہ اصل حقیقت (مسلمانیت یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ ہونے) کا انکار کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب میں غیر مسلم سے مخاطب ہوتا ہوں تو اُنہیں اسلام کی دعوت دے سکتا ہوں، لیکن کسی 'ماورائے اسلام انسانی مفاد' کے تناظر میں ان سے مکالمہ نہیں کر سکتا۔ جب یہ ثابت ہو گیا کہ میری حقیقت عبد ہونا ہے اور انسانیت محض میری عبدیت کے اظہار کا ذریعہ ہے تو یہ سمجھنا بالکل آسان ہو گیا کہ میری انسانیت کا وہی اظہار معتبر ہو گا جس میں عبدیت جھلکتی ہو نہ کہ میری خود کی مرضی اور نفس پرستی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میری عبدیت کے اظہار کا واحد معتبر ذریعہ صرف اور صرف اسلام ہے، لہٰذا میری انسانیت معتبر تب ہی ہو گی جب میری زندگی کا ہر گوشہ اسلام کے مطابق ہو۔ اسی لئے اس نے فرمایا:

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ ٱلْإِسْلَـٰمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ...﴿٨٥﴾...سورہ آل عمران
''جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے اپنی عبدیت کا اظہار کرے گا تو اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا۔''

إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ ۗ...﴿١٩﴾...سورہ آل عمران
یعنی ''اظہار عبدیت کا واحد معتبر طریقہ اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔''

اس تفصیل کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہو گیا کہ جب ہماری انسانیت محض اظہارِ عبدیت (اسلام) کا ذریعہ ہے تو اس کا اظہار زندگی کے ہر گوشے میں ہونا ضروری ہے، چاہے اس کا تعلق میری نجی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔

اس گفتگو سے یہ غلط فہمی بھی دور ہو جانی چاہئے کہ ''مذہب سکھانے سے پہلے بچوں کو انسان بننا سکھانا چاہئے۔'' یعنی پہلے اُنہیں یہ سکھائیں کہ انسان کیا ہے، پھر مذہب کی بات کریں۔ در حقیقت یہ فلسفہ انسانیت پرستی کی تصویب (Endorsement) ہی کی ایک شکل ہے، کیونکہ ماورائے مذہب اپنے وجود کے ادراک کا مطلب یہی ہے کہ انسان اپنے ہونے کا جواز و پہچان خود اپنے اندر رکھتا ہے اور جس کا اِدراک تعلیماتِ انبیا کے بغیر بھی ممکن ہے، یعنی اصلاً ایک انسان اللہ تعالیٰ کے ماسوا ایک مستقل بالذات حقیقت، Being without Godہے۔

سوال یہ ہے کہ خود کو مذہب سے علیٰ الرغم بطور انسان پہچاننے سے کیا مراد ہے؟ یعنی میں اپنی انسانیت کو کیاپہچانتا ہوں، اظہارِ عبدیت کا ذریعہ یا اپنی اصل؟ اگر اسے اپنی اصل پہچانا تو یہی انسانیت پرستی ہے، اور اگر اظہارِ عبدیت کا ذریعہ پہچانا تو پھر مذہب سے ماورا اپنی پہچان کی بات ہی مضحکہ خیز ہے، کیونکہ اس صورت میں جو دعویٰ میں کرتا ہوں وہ یہی تو ہے کہ انسان اپنے ہونے کا جواز اور پہچان خدا سے حاصل کرتا ہے یعنی میں لا محالہ Being with God ہوں، اور اپنے وجود کے اِدراک سے 'پہلے' مجھے خدا کا ادراک حاصل کرنا ہو گا۔ چنانچہ تعلیماتِ انبیا سے صرفِ نظر کر کے انسانی ذات کا جو بھی ادراک حاصل کیا جائے گا، لازماً غلط ہو گا، کیونکہ اس کے علاوہ حقیقت کے اِدراک کا کوئی ذریعہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں۔

4. اسلام اور خیر:
اب ہم ابتدائے مضمون میں بیان کئے گئے آخری جملے کی طرف آتے ہیں۔ تصوراتِ عدل اور فطرت کی طرح 'بنیادی انسانی قدروں' کا فلسفہ بھی عمیق غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے۔ 'بنیادی انسانی قدروں' کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ خیر کے چند تصورات (مثلاً سچ بولنا) ایسے ہیں جو انسانیت کا تقاضا ہیں اور وہ ان معنی میں ماورائے مذہب ہیں کہ وہ اپنے جواز کے لئے مذہبی دلیل کے محتاج نہیں بلکہ وہ اپنا جواز از خود اپنے اندر (Self-Evident) رکھتے ہیں، کیونکہ وہ تصورات آفاقی ہیں۔ مزید یہ کہ خیر کے ان تصورات کو تمام مذاہب نے اپنی تعلیمات میں اسی لئے بطورِ خیر متعارف کروایا ہے کہ یہ آفاقی انسانی قدریں ہیں۔

انہی 'انسانی اقدار' کی آڑ میں آج کل ''بین المذاہب مکالمے' کی دعوتِ عام کی جا رہی ہے۔ اہل سنت والجماعت کے نقطہ نگاہ سے کسی قدر یا خیر کو ماورائے مذہب انسانی قدر کے طور پر قبول کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں، کیونکہ خیر کسی عمل کا 'ذاتی وصف' نہیں بلکہ ان کی بنیاد 'حکم خداوندی' ہے (نہ کہ انسانی عقل یا فطرت وغیرہ)۔ خیر وہ ہے جس کا شارع حکم دے، اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی شخص کو 'اپنی عقل' سے کسی چیز کا اچھا یا برا ہونا محسوس ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں کہ جس چیز کو اس کی عقل اچھا سمجھتی ہے، اسے اختیار بھی کرے اور جس کو اس کی عقل برا سمجھتی ہے، اسے ترک کر دے۔ بلکہ وہ شخص صرف اسی بات کا مکلّف ہے جس کا شارع نے اس سے مطالبہ کیا ہے۔ مثلاً عام طور پر سچ بولنے کو انسانی ق قدر (Value) سمجھا جاتا ہے، لیکن سچ بولنا بذاتِ خود کوئی قدر نہیں، کیونکہ یہ تو اس وجہ سے بھی بولا جا سکتا ہے کہ ایسا کرنا انسانی مجبوری ہے کہ وہ 'جو بھی' معاشرتی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے حصول کے لئے اسے لازماً سچ بولنا پڑے گا، بصورتِ دیگر اس مقصد کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔

فرض کریں زید کا مقصد سرمائے میں لا محدود اضافہ ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے لازم ہے کہ زید اور اس جیسے سب لوگ سچ بولنے کو لازم سمجھیں، کیونکہ اگر سب لوگ جھوٹ بولنے لگیں تو لوگ ایک دوسرے کے معاہدات پر بھروسہ نہیں کریں گے اور سرمائے کا حصول ممکن ہی نہیں رہے گا۔ پس اگر کوئی شخص اس وجہ سے سچ بولتا ہے کہ سچ بولنا کسی معاشرتی مقصد (مثلاً سرمائے میں اضافے) کے حصول کے لئے ضروری ہے تو سچ بولنا ہرگز بھی خیر نہیں، کیونکہ قدر کسی عمل کے تسلسل یا موافقت (Consistency) کی صفت سے ہم آہنگ ہونے کا نام نہیں، بلکہ قدر تو تب بنتا ہے جب اسے حکم خدا سمجھ کر کیا جائے۔ اسلام میں بھی سچ کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن یہ شرعی احکامات کے تابع ہے، چنانچہ میاں بیوی کے مابین صلح و صفائی کا راجح مقصد جب غالب آجائے تو حکم شرعی کے مطابق ہی وہاں جھوٹ کی گنجائش موجود ہے۔

اس طرح غریب کی مدد کرنا بالذات کوئی اچھائی نہیں بلکہ اچھائی یہ تب ہو گا جب وہ حکم خداوندی سمجھ کر کیا جائے، کیونکہ غریب کی مدد اس طور پر بھی کی جا سکتی ہے کہ ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے یا اس سے میری قوم کا بھلا ہوتا ہے۔

اگر ارادہ خداوندی سے ماورا اور اوپر (Transcendantal) کسی خیر و قدر (Value) کے کسی تصور کا امکان مان لیا جائے تو پھر کسی مذہب کے بجائے ان 'انسانی قدروں' کی بنیاد پر معاشرتی و ریاستی صف بندی کی بات بھی تسلیم کرنا ہو گی۔ چنانچہ اسلام سے باہر یا علاوہ کسی خیر اور اخلاقیات کا کوئی وجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر میں کسی سے کلام کر سکوں۔ میں جب بھی غیر مسلم سے مخاطب ہوتا ہوں، اسے اسلام ہی کی طرف دعوت دے سکتا ہوں نہ کہ اس کے علاوہ کسی انسانی قدر یا حقوق وغیرہ کی طرف۔

جونہی میں یہ کہتا ہوں کہ مذہب (اسلام) کے علاوہ بھی کچھ آفاقی قدریں ہیں تو گویا میں اس بات کے امکان کا اقرار کر لیتا ہوں کہ خیر کا تعین کرنے کا کوئی پیمانہ ارادۂ خداوندی سے باہر بھی ہو سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ شارع کے حکم سے اوپر بھی کوئی اُصول یا حقیقت ایسی ہے جس کی پابندی خود شارع پر لازم ہے نیز اسلام ہی الدین اور الحق نہیں بلکہ کسی بڑے تصورِ خیر کا ایک حصہ ہے۔ اخلاقیات کو ہر قسم کی ایمانیات سے ماورا کوئی انسانی وصف سمجھ کر محض 'انسانی قدروں' کے طور پر قبول کرنا غلط فہمی ہے، کیونکہ اخلاقیات کوئی ٹیکنیکل چیز نہیں بلکہ ایمانیات (Metaphysics) ہی سے ماخوذ ہوتی ہیں۔ ایک عمل کسی ایک تصورِ خیر میں برا اور کسی دوسرے میں اچھا ہو سکتا ہے۔ مثلاً سود دینا اور لینا اسلام میں گناہِ کبیرہ اور جرم (Corruption) ہے جبکہ سرمایہ دارانہ تصورِ خیر کا یہ لازمی جز ہے اور وقت پر سود ادا کرنا عمدہ اخلاق کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں بیان ہوا:
لَّيْسَ ٱلْبِرَّ‌ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ ٱلْمَشْرِ‌قِ وَٱلْمَغْرِ‌بِ وَلَـٰكِنَّ ٱلْبِرَّ‌ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ‌ وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ...﴿١٧٧﴾...سورة البقرة
''نيكی یہ نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان ایمان لائے اللہ پر، یومِ آخرت پر، فرشتوں پر، (نازل کردہ) کتابوں پر اور انبیا پر۔''

اس تفصیلی تقاضائے ایمان کے بعد قرآن نیکی کرنے کے چند مخصوص اعمال کا ذکر کرتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ۔ یہ آیت واضح طور پر یہ حقیقت بیان کر رہی ہے کہ خیر و شر کا منبع ایمان ہے۔

بنیادی انسانی قدروں کے فلسفلے کا ایک گمراہ کن پہلو اس کی بنیاد پر ایک آفاقی اور ماورائے اسلام فلسفۂ عروج و زوال اخذ کرنا ہے۔ اس فلسفے کے مطابق قوموں کے عروج و زوال کا راز بنیادی انسانی قدروں کو اپنانے میں پنہاں ہے، یعنی جب کوئی قوم اجتماعی طور پر ان قدروں کا ارادہ کر لیتی ہے جو بنیادی انسای قدریں ہیں تو پھر دنیا کو زمامِ کار اسے سونپ دی جاتی ہے، یہی قانونِ الٰہی ہے۔ جب تک مسلمان بحیثیتِ قوم ان اقدار کے محافظ رہے تو وہ دنیا پر غالب رہے، آج مغرب نے اُنہیں اپنا رکھا ہے تو دنیا کی امامت کا تاج ان کے سر پر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا یہ دلیل دنیاوی سیادت کا اخلاقی جواز بنیادی انسانی قدروں سے فراہم کرتی ہے۔ نیز مسلمانوں اور مغرب کے غلبے کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہے۔

یہ دلیل اپنی وضع میں بالکلیہ غلط ہے، کیونکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے بنیادی سوال یہ ہے کہ دنیا کی امامت و سیادت حاصل ہو جانے سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا معنی یہ ہے کہ چند ایسی اقدار ہیں کہ جو قوم اُنہیں اپنا لے، وہ لازماً خلافتِ ارضی اور اُمتِ وسط کے درجے پر فائز کر دی جاتی ہے اور نوعِ انسانیت کو جنت کی طرف بلانے میں امام بن جاتی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں، کیونکہ مغرب کے تسلط نے نوعِ انسانی کے لئے جنت نہیں بلکہ جہنم جانا سہل بنا دیا ہے کہ یہ شر کا غلبہ ہے۔ اگر کسی قوم کا عالمی غلبہ لازماً جنت بنانا سہل کرتا ہے تو مغرب کے لئے ایسا کیوں نہ ہوا؟

درحقیقت یہ دلیل دینے والے غلبے کو دنیاوی جاہ و حشمت، تسخیر کائنات، تصرف فی الارض سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے بالذات خیر تصور کرتے ہیں، جبکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے نہ تو مطلوب غلبہ تصرف فی الارض میں آگے بڑھ جانا ہے اور نہ ہی غلبہ بذاتِ خیر ہوتا ہے، بلکہ خیر کا باعث تب ہوتا ہے جب خلافت کا باعث بنے اور غلبہ خلافت تب بنتا ہے جب احکاماتِ الٰہی کی پیروی کی بجائے۔ چنانچہ اسلامی نقطہ نگاہ سے ایسے کوئی ماورائے مذہب قدر نہیں جسے اختیار کرنا خیر پر مبنی غلبے کا باعث بن جائے۔

مغرب کے غلبے کا راز یہ ہے کہ جس شر (آزادی اور خواہش نفس کی بندگی) کی وہ دعوت دیتا ہے، دنیا کی بڑی اکثریت نے اسے قبول کر کے اس کے حصول کے لئے ادارتی صف بندی اختیار کر رکھی ہے۔ مغرب کا غلبہ کسی بنیادی انسانی قدر کا نہیں بلکہ اوصافِ خبیثہ کی عمومیت کا نتیجہ ہے، اسی لئے وہ شرکا باعث بن رہا ہے۔ اسی طرح اسلامی غلبہ بھی کسی بنیادی انسانی قدر کا نہیں بلکہ شریعتِ اسلامی کی عمومیت کا نتیجہ تھا اور اسی لئے وہ خیر کا باعث بنا کیونکہ خیر اسلام کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس دلیل کا تقاضا یہ ماننا ہے کہ:

مغرب کا غلبہ در حقیقت حق کا غلبہ ہے 11کیونکہ اس کی بنیاد آفاقی انسانی قدریں ہیں۔

اصل مطلوب غلبہ وہی ہے جو مغرب نے حاصل کیا یعنی تصرف فی الارض میں اضافہ۔

غلبہ اسلام کا مطلب تصرف فی الارض کی امامت کا تاج مسلمانوں کے سر پر رکھ دینے کے سوا اور کچھ نہیں جس کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔12

عروج و زوال کا یہ باطل فلسفہ درحقیقت تصرف فی الارض کو ہم ترین اسلامی قدر ثابت کرنے کا جواز ہے۔

درج بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ اسلام پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں کسی تیسری اصطلاح کا استعمال نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے ذریعے عدل، فطرت و خیر کی ایک غیر جانبدارانہ اور ماورائے اسلام اصلاح کا امکان پیدا ہوتا ہے اور جن کی روشنی میں احکاماتِ شریعت کی از سر نو تشریح کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے جو کہ شریعتِ الٰہی کے مفاہیم کو بدلنے کی ایک سازش ہے۔

یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی اصطلاح غیر جانبدارانہ نہیں ہوتی، اگر ان اصطلاحات کے معنی ہم شریعت سے اَخذ نہیں کرتے تو فی زمانہ ان کے معنی غالب مغربی علمی و تہذیبی روایت ہی سے اَخذکئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب زدہ زہن کے لئے ان تصورات کے شرعی معنی اجنبی ہوتے چلے جا رہے ہیں، کیونکہ وہ ان کے معنی مغربی علمی روایت سے اَخذ کرتا ہے۔ افسوس کہ معتزلی سکالرز کو بجائے جدید ذہن تبدیل کرنے کے شریعت تبدیل کرنے کی فکر لاحق ہے جیسا کہ ان کے اس جملے ہی سے واضح ہوتا ہے:

''ہمیں اسلام کو موجودہ حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے تاکہ یہ جدید ذہن کے لئے قابل قبول ہو سکے۔''

یعنی عصر حاضر کے ذہن کی ما بعد الطبعیاتی سطح کو انبیا کے طریقہ کار کے مطابق بدلنے کے بجائے جدید متکلمین نے اس ذہن کے اعتزال کے مطابق اسلام کو ڈھالنے کا کام کیا جس کے نتیجے میں دین کا حلیہ تو بگڑ گیا مگر عصر حاضر کا ذہن جہاں تھا، وہیں رہا۔ لہٰذا کسی تیسری اصطلاح پر اصرار محض بے وقوفانہ حرکت نہیں بلکہ اسلام کو جدید بنانے کی ایک خطرناک چال ہے۔ مذکورہ خطرہ تصوراتی یا محض خطرہ ہی نہیں بلکہ یہ وہ عمل ہے جو اس سے قل عیسائیت کے ساتھ ہو چکا اور اگر یہ رجحان جاری رہا تو اسلام کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

اس تمام عمل میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ بعض اوقات اس کی اگلی صفوں میں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو روایت پسندی کے علمبردار ہیں۔ جدید اعتزال کی اس لہر کا مقابلہ صرف اہل سنت والجماعت کے ان اصولوں پر کیا جا سکتا ہے جو قرآن، سنت اور اجماع کے ساتھ اس تہذیبی و علمی روایت اور تسلسل پر بھی زور دیتا ہو جو اسلامی تاریخ کے بہترین دور میں رہا۔


حوالہ جات
1. مضمون کا یہ حصہ جناب علی محمد رضوی کے مضمون 'اسلام میں اعتدال پسندی کے فکری ابہام پر ایک نظر' (ماہنامہ ساحل کراچی، شمارہ ستمبر 2005ء) سے ماخوذ ہے۔
2. سورة البقرة کی آیت نمبر 185 کی طرف اشارہ ہے جس میں قرآن کو 'الفرقان' کہا گیا۔
3. سنن ترمذی: 2906
4. جیسے پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی حالیہ تحریک جس کا مقصد ہیومن رائٹس پر مبنی سیکولر تصورِ عدل کے حامی قانون کی بالا دستی قائم کرنا ہے۔
5. مشہور حدیثِ مبارکہ ((کل مولود یولد علی الفطرة)) یعنی ''ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔'' کا معنی یہی ہے کہ وہ فطرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔
6. فطرت بطورِ ماخذ شریعت' جاوید غامدی صاحب کے گروہ کا ایک اہم اُصول ہے جس کی آڑ میں وہ موسیقی وغیرہ کا جواز بیان کرتے ہیں۔
7. سوشل سائنسز در حقیقت کسی مجرد انسان نہیں بلکہ ہیومن (وہ انسان جو خود کو قائم بالذات سمجھتا ہے) کے رویے سے بحث کرتی ہیں۔
8. السنة لابن ابی عاصم: 14
9. بعض جدید مفکرین نے آیتِ کریمہ (إِنَّ ٱلسَّمْعَ وَٱلْبَصَرَ‌ وَٱلْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔولًا ...﴿٣٦﴾...) ''یقیناً روزِ محشر آنکھ، کان اور قلب کا حساب ہونا ہے۔'' (بنی اسرائیل:36) کو بنیاد بنا کر یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ آنکھ، کان اور قلب ایسے انسانی ذرائع علم ہیں جن کی بنیاد پر انسان تعلیماتِ انبیا کے بغیر بھی محض حواس کی بنا پر ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ آیتِ کریمہ کا یہ معنی ہر گز نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ روزِ محشر انسان سے پوچھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں آنکھ، کان و قلب کی صورت میں اسے عطا کی تھیں، وہ اس نے کہاں صرف کیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہوا کہ آنکھ، کان اور قلب سب کے زنا سے بچو۔
10. صحیح بخاری: 1358
11. جیسے کہ علامہ اقبالؒ وغیرہ کا خیال ہے مغربی تہذیب کا باطن عین خیر اور اسلام پر مبنی ہے، البتہ اسے برتنے میں چند غلطیاں سرزد ہو گئیں۔
12. یہی مسلم قوم پرستی ہے جس کا مقصد سرمایہ دارانہ نظم میں مسلمانوں کی جاہ و حشمت قائم کرنا ہے۔ دنیا کے سامنے ایک 'ماڈل اسلامی ریاست قائم' کر کے پیش کرنا اسی فکر کا ایک شاخسانہ ہے۔ اس ماڈل اسلامی ریاست کا نقشہ چند اسلامی ترمیمات کے ساتھ تقریباً وہی ہے جو سوٹزر لینڈ اور دیگر سکینڈے نیو یا Scandinavian ریاستوں میں قائم ہو چکی ہے، جہاں افراد کو ہیومن رائٹس کے علاوہ تمام ویلفیئر حقوق فراہم کئے جاتے ہیں۔

 


جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 2)

جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ (قسط 3)