علم مختلف الحدیث؛ایک تحقیقی مطالعہ

علومِ حدیث کی اقسام و انواع بہت زیادہ ہیں۔ متقدمین میں سے حاکم نیشاپوریؒ نے معرفۃ علوم الحدیث میں ۵۲، ابن صلاحؒ نے مقدمۃ ابن الصلاح، امام نوویؒ نے التقریب في أصول الحدیث اور ابن ملقنؒ نے المقنع في علوم الحدیث میں ۶۵ اوراما م جلال الدین سیوطیؒ نے ۹۳ علومِ حدیث ذکر کیے ہیں۔
علامہ سیوطیؒ سے ان کی بابت منقول ہے:
«اعلم أن أنواع علوم الحدیث کثیرة لا تُعدّ »1
'' علومِ حدیث کی انواع بہت زیادہ ہیں، جن کو گنا نہیں جا سکتا۔''
حازمیؒ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
«علم الحدیث یشمل علی أنواع کثیرة تبلغ مائة،کل نوع منھا علم مستقل،لو أنفق الطالب فیه عمره ما أدرك نهایته»2
'' علم حدیث کی سو تک اقسام ہیں، ہر نوع ایک مستقل علم ہے اور اگر کوئی طالب علم اپنی پوری عمر ایک علم میں کھپا دے، تب بھی اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔''
انہی اَنواع میں سے ایک اہم نوع 'علم مختلف الحدیث' ہے۔ اس علم کا تعلق متن حدیث سے ہے۔اس میں صرف ان اَحادیث کو زیر ِ بحث لایا جاتا ہے جو درجہ کے اعتبار سے مقبول ہوں اور جن میں تضاد اور تناقض کا پایا جانا صرف ظاہراً ہو، چنانچہ اَحادیث کے اس ظاہری تعارض کو رفع کرنے کے لیے اس علم کے مختلف اُصول و قواعد کو بروئے کار لاتے ہوئے باہم جمع و تطبیق سے کام لیا جاتا ہے۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر ناسخ و منسوخ یا وجوہاتِ ترجیح کے ذریعے ان کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔اُصولِ حدیث کی کتابوں میں اس علم کے لیے کچھ دوسرے نام بھی ملتے ہیں:مثلاً تلفیق الحدیث3، اختلاف الحدیث4، تاویل مختلف الحدیث5، تأویل مشکل الحدیث6، مناقضۃ الاحادیث وبیان محامل صحیحہا7، مشکل الحدیث 8اور تاویل الحدیث9 وغیرہ
لغوی مفہوم
لغت میں لفظ 'مختلف' اختلاف اور التخالف سے ماخوذ ہے جو اتفاق کی ضد ہے۔
فیروز آبادی لکھتے ہیں: «واختلف: ضدّ اتفق»10
ابن منظور لکھتے ہیں:
«تخالف الأمران،واختلفا: لم یتفقا،وکل ما لم یتساو فقد تخالف واختلف»11
''دو معاملے آپس میں ایک دوسرے کے ناموافق ہو گئے اور مختلف ہو گئے یعنی متفق نہ ہو سکے، اسی طرح ہر وہ چیز جو برابر نہ ہو، تو وہ مختلف ہوتی ہے۔''
اِصطلاحی مفہوم
اِصطلاح میں اس علم سے مراد دو ایسی مقبول احادیث ہیں جو بظاہر باہم متعارض ہوں، لیکن ان میں تطبیق ممکن ہو، چنانچہ ابنِ صلاحؒ لکھتے ہیں:
«أن یمکن الجمع بین الحدیثین ولا یتعذر إبداء وجه ینفي تنافیهما، فیتعین حینئذ المصیر إلی ذلك والقول بهما معًا»12
''دو حدیثوں کے مابین جمع (یعنی تطبیق) ممکن ہو اور کسی ایسی وجہ کا ظاہر ہونا مشکل نہ ہو جو دونوں حدیثوں کی باہمی مخالفت کی نفی کر دے، تو ایسی صورت میں تطبیق دینا طے شدہ امر ہے اور فتویٰ ان دونوں پر مبنی ہو گا۔''
امام نوویؒ اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
«أن یاتي حدیثان متضادان في المعنی ظاهرًا،فیوفق بینهما أو یرجح أحدهما»13
''ظاہری معنی کے اعتبار سے دو متعارض حدیثیں آ جاتی ہیں تو پھر ان دونوں کے درمیان تطبیق دی جاتی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جاتی ہے۔''
طیبیؒ، ابن ملقنؒ، محمد بن محمد علی فارسیؒ اور محمد بن علوی مالکی حسنیؒ نے بھی اس علم کی یہی تعریف کی ہے جب کہ قاضی محمد بن محمد شہبہؒ نے اس میں تھوڑا سا اِضافہ بھی کیا ہے۔14
ابنِ حجرؒ اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فإن أمکن الجمع فھو مختلف الحدیث»15
''پس اگر (دو حدیثوں کا) جمع کرنا ممکن ہو تو وہ مختلف الحدیث ہے''۔
نواب صدیق حسن قنوجیؒ اس کی تعریف اور ایسی اَحادیث میں تطبیق کی وضاحت کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں:
«هو علم یبحث فیه عن التوفیق بین الأحادیث المتنافیة ظاهرًا،إما بتخصص العام تارة أو بتقیـید المطلق أخرٰی،أو بالحمل علی تعدد الحادثة إلی غیر ذلك من وجوه التاویل»16
''یہ ایک ایسا علم ہے جس میں ظاہراً ایک دوسرے کے مخالف اَحادیث کے مابین تطبیق دینے کے بارے میں بحث کی جاتی ہے، کبھی عام کو خاص یا کبھی مطلق کو مقید کے ساتھ تطبیق دی جاتی ہے یا بسا اوقات کسی واقعہ کو کئی مرتبہ وقوع پذیر ہونے پر محمول کیا جاتا ہے یا پھر تاویل کی دیگر وجوہات میں سے کسی وجہ کے ذریعے تطبیق دی جاتی ہے۔''
عجاج خطیب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
«ھو العلم الذي یبحث في الأحادیث التي ظاهرھا متعارض،فیزیل تعارضھا أو یوفق بینھا،کما یبحث في الأحادیث التي یشکل فھمھا أو تصورھا،فیدفع إشکالھا ویوضح حقیقتھا»17
''یہ وہ علم ہے جس میں بظاہر متعارض احادیث کے بارے میں بحث کی جاتی ہے، پس ان کے تعارض کو دور کیا جاتا ہے یا ان کے درمیان مطابقت پیدا کی جاتی ہے، علاوہ ازیں ان اَحادیث کے متعلق بحث کی جاتی ہے جن کا فہم و تصور مشکل ہوتا ہے پس یہ علم ان کے اشکال کو دور اور ان کی حقیقت واضح کرتا ہے۔''
عصر حاضر میں علوم الحدیث پر لکھنے والے معروف ڈاکٹر محمود طحان مختلف الحدیث کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں:
«ھو الحدیث المقبول المعارض بمثله مع إمکان الجمع بینھما أي ھو الحدیث الصحیح أو الحسن الذی یجيء حدیث آخر مثله في المرتبة والقوة ویناقضه في المعنیٰ ظاهرًا،ویمکن لأولي العلم والفھم ثاقب أن یجمعوا بین مدلولیھما بشکل مقبول»18
''ایسی مقبول حدیث جو اپنے جیسی کسی دوسری حدیث سے متعارض ہو، لیکن ان دونوں کو جمع کرنا ممکن ہو۔یعنی وہ کوئی ایسی حدیث صحیح یا حسن ہو جو اپنے ہم مرتبہ کسی دوسری حدیث سے معنوی طور پر بظاہر متعارض نظر آتی ہو اور اہل علم و فہم کے لیے ممکن ہو کہ وہ دونوں کے مفاہیم میں ایسی صورت میں یکسانیت پیدا کریں جو قابل قبول ہو۔''
ظاہر تعارض کی وضاحت
اِن تمام تعریفات میں اَحادیث کے باہمی تعارض کو ظاہر کے ساتھ اس لیے مشروط کیا گیا ہے کہ سنت ِ نبویؐ میں حقیقی تعارض محال ہے، جیسا کہ ابوبکر باقلانیؒ فرماتے ہیں:
«وکل خبرین عُلِم أن النبي تکلّم بھما فلا یصح دخول التعارض فیھما علی وجه،وإن کان ظاهرھما متعارضین»
''ہر وہ دو خبریں، جن کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ نبیؐ نے ان کو بیان فرمایا ہے تو ان میں کسی صورت میں بھی تعارض نہیں ہو سکتا، اگرچہ ظاہراً وہ متعارض نظر آ رہی ہوں۔''
مزید فرماتے ہیں:
«متی عُلِم أن قولین ظاهرھما التعارض ونفي أحدهما لموجب الآخر أن یحمل النفي والإثبات علی أنھما في زمانین أو فریقین أو علی شخصین،أو علی صفتین مختلفین ھذا ما لابد منه مع العلم بـإحالة مناقضته علیه السلام في شيء من تقریر الشرع والبلاغ»19
''جب یہ معلوم ہو جائے کہ دو قول جو کہ ظاہراً متعارض ہیں اور ان (دونوں) میں سے ایک کی نفی دوسرے کے وجود کو لازم ہے تو نفی اور اثبات کو اس طرح محمول کیا جائے گا کہ وہ دو (مختلف) زمانوں یا گروہوں یا دو شخصیات یا دو (الگ الگ) صفتوں کے بارے میں ہے اور اس کے ساتھ لازمی طور پر یہ علم ہونا ضروری ہے کہ شریعت و ابلاغ کی تشریح میں رسول اللہ 1کی کسی بات میں تناقض کا پایا جانا محال ہے۔''
اسی طرح ابن خزیمہؒ فرماتے ہیں:
«لا أعرف أنه روي عن النبي ﷺ حدیثان بـإسنادین صحیحین متضادان،فمن کان عندہ فلیأتني لأؤلف بینھما»20
''میں نہیں جانتا کہ نبیﷺسے دو اَحادیث صحیح سند کے ساتھ مروی ہوں (اور وہ) متضاد ہوں، جس کے پاس ہوں تو وہ میرے پاس لائے، میں ان کے درمیان تطبیق دیتا ہوں۔''
شرائط مختلف الحدیث
بیان کردہ تمام تعریفوں سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوئی حدیث اس وقت تک علوم حدیث کی اس قسم میں شمار نہیں کی جائے گی جب تک اس میں درج ذیل چار شرائط نہ پائی جائیں:
1. حدیث مقبول ہو۔
2. جس حدیث سے اختلاف ہے وہ دوسری حدیث ہو جو پہلی حدیث کے ساتھ ظاہراً متعارض ہو۔ایسی اَحادیث اور آثار کو 'مختلف الحدیث' میں شمار نہ کیا جائے گا جن کا پہلا حصہ دوسری حدیث کے آخری حصہ سے یا آخری حصہ پہلے حصے سے متعارض ہو۔ اس قسم کی اَحادیث کو 'مشکل الحدیث' میں شمار کیا جاتا ہے۔
3. متعارض حدیث قابلِ احتجاج ہو اگرچہ وہ رتبہ میں (صحیح اور حسن کے لحاظ سے)اپنے معارض کے برابر نہ بھی ہو۔
4. دو متضاد احادیث میں جمع و تطبیق ممکن ہو۔21
مختلف الحدیث کی اَقسام اور ان کے اَحکام
اس کی دو قسمیں ہیں:
قسم اوّل اور اس کا حکم: ایسی دو متعارض اَحادیث جن کے مابین تطبیق ممکن ہو۔ ان کا حکم یہ ہے کہ ان کے مابین تطبیق واجب ہے اور عمل ان دونوں پر کیا جائے گا۔
قسم ثانی اور اس کا حکم: وہ متعارض احادیث جن کے مابین جمع و تطبیق ناممکن نظر آ رہی ہو تو اس سے متعلقہ احکام یہ ہیں:
1. جب دو متعارض احادیث میں جمع و تطبیق ناممکن ہو، لیکن یہ معلوم ہو جائے کہ ان میں سے ایک حدیث ناسخ ہے اور دوسری منسوخ تو منسوخ کو ترک کر کے ناسخ پر عمل کیا جائے گا۔
2. اگر ناسخ و منسوخ کا علم نہ ہو تو پھر ان متعارض احادیث کے مابین ترجیح کو اختیار کیا جائے گا۔
3. اگر وجہ ترجیح ظاہر نہ ہو تو ایسی صورت میں دونوں پر عمل کرنے سے توقف کیا جائے گا جب تک کسی ایک کے لیے وجۂ ترجیح ظاہر نہ ہو جائے۔22
اہمیت
اس علم پر دسترس اور مکمل عبور کے بغیر مختلف اَحادیث کا مفہوم سمجھنا، متعین کرنا اور اس کی حکمتوں سے آگاہ ہونا انتہائی دشوار ہے اور کوئی بھی عالم و فقیہ صرف حدیث حفظ کر کے اور اس کے تمام طرق جمع کر کے' محدث' نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اسے اس علم کا اِدراک نہ ہو۔ چنانچہ امام نوویؒ اس علم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ھذا من أھم الأنواع،ویضطر إلی معرفته جمیع العلماء من الطوائف، ... وإنما یکمل له الأئمة الجامعون بین الحدیث والفقه،الأصولیون والغواصون علی المعاني»23
''یہ اہم ترین انواع میں سے ہے۔ ہر گروہ کے تمام علماء اس کی معرفت کے حصول میں مجبور ہیں ... اور اس (علم) کو صرف (وہی) ائمہ مکمل کر سکتے ہیں جو حدیث اور فقہ کے جامع ہوں، اُصولی اور معانی کی تہہ تک پہنچنے والے ہوں۔''
محمد محمد ابوزہو اس علم کو ناگزیرقرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«کل عالم بل کل مسلم یحتاج للوقوف علیه فإن بمعرفته یندفع التناقض عن کلام النبي ﷺ ویطمئن المکلف إلی أحکام الشرع»24
''ہر عالم بلکہ ہر مسلمان اس علم سے واقفیت کا محتاج ہے، کیونکہ اس علم کی معرفت سے ہی نبیؐ کے کلام سے تناقض اور تعارض دور ہوتا ہے اور مکلف شریعت کے اَحکام پر شرع کے بارے میں مطمئن ہو جاتا ہے۔''
عجاج خطیب نے اس کی اہمیت پر جامع انداز میں کلام فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
«ھذا العلم من أهم علوم الحدیث یحتاج إلیه المحدثون والفقهاء وغیرهم من العلماء ولا بد للمشتغل به من فھم ثاقب وعلم واسع، ودربة ودرایة ... وھذا العلم ثمرة من ثمار حفظ الحدیث،وضبطه وفھمه فھمًا جدیدًا ومعرفة عامه وخاصه ومطلقه ومقیده، وغیر ذلك من أمور الدرایة والخبرة، إذ لا یکفي للمرء أن یحفظ الحدیث ویجمع طرقه ویضبط ألفاظه من غیر أن یفھمه ویعرف حکمه»25
''یہ علم، علوم حدیث میں سے اہم ترین ہے۔ محدثین، فقہا اور دیگر علما اس کے محتاج ہیں۔ اس فن سے منسلک آدمی کے لیے روشن فہم، وسیع علم، مہارت اور گہرا علم ضروری ہے ... اور یہ علم حفظ ِحدیث کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ ہے اور اس کا ضبط اور اچھا فہم اس کے عام، خاص، مطلق اور مقید کی معرفت وغیرہ درایت اور مہارت کے اُمور میں سے ہیں۔ پھر آدمی کے لیے یہی کافی نہیں کہ وہ اس علم کے فہم اور حکم کی معرفت کے بغیر صرف حدیث حفظ کرے، اس کے طرق جمع کرے اور اس کے الفاظ ضبط کرے۔''
آغاز و اِرتقا
اس علم کا آغاز عہد صحابہ سے ہی ہو گیا تھا، لیکن دوسرے علوم کی طرح اس عہد میں اس کے قواعد و ضوابط متعین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، البتہ علما نے بہت سارے اَحکام میں اجتہاد کیا،بظاہر باہم متعارض اَحادیث میں تطبیق دی اور ان کے مفاہیم کو واضح کیا۔ چنانچہ عجاج خطیب لکھتے ہیں:
«وقد اهتم علماء الأمة بعلم مختلف الحدیث ومشکله منذ عصر الصحابة،الذین أصبحوا مرجع الأمة في جمیع أمورها بعد وفاة الرسول فاجتهدوا في کثیر من الأحکام،وجمعوا بین کثیر من الأحادیث ووضحوھا،وبیّنوا المراد منھا،وتتالی العلماء جیلاً بعد جیلٍ،یوفقون بین الأحادیث التي ظاهرها التعارض ویزیلون إشکال ما یشکل منھا»26
''علماے اُمت نے علم مختلف الحدیث پر صحابہؓ کے دور ہی سے توجہ مرکوز کر دی تھی، حضوؐر کی وفات کے بعد وہ تمام اُمور میں اُمت کے مرجع الخلائق تھے۔ پس اُنہوں نے بہت سارے اَحکامات میں اجتہاد کیا،بہت ساری اَحادیث اکٹھی کیں، ان کی وضاحت کی، ان کے مفاہیم بیان کیے، ایک نسل کے بعد دوسری نسل کے علما پے در پے آئے، وہ باہم متعارض اَحادیث میں موافقت پیدا کرتے رہے اور ان کے اشکالات کو زائل کرتے رہے۔''
آغاز میں اس علم پر علیحدہ کتب لکھنے کا رواج نہیں تھا بلکہ علومِ حدیث کی کتب میں ہی اسے بیان کر دیا جاتا تھاجیسے امام حاکم نیشاپوریؒ نے معرفۃ علوم الحدیث اور خطیب بغدادیؒ نے الکفایۃ في علم الروایۃمیں اس فن کا ذکر کیا ہے۔اگرچہ اُنہوں نے اس کا وہ اصطلاحی نام ذکر نہیں کیا جو بعد میں مشہور ہوا۔ ان کے بعد ابن صلاحؒ نے اپنی معروف کتاب علوم الحدیث،المعروف بہ مقدمۃ ابن الصلاحمیں اس علم کو علوم حدیث کی انواع میں سے ایک نوع قرار دیتے ہوئے اجمالی طور پر اس کے قواعد و ضوابط بیان کیے۔اسی طرح ابوزکریا یحییٰ بن شرف نوویؒ نے التقریب التیسیرمیں، ابن کثیرؒ نے اختصار علوم الحدیثمیں، ابن حجر عسقلانیؒ نے نخبۃ الفکر في مصطلح أھل الأثرمیں اور ان کے بعد آنے والے علماے حدیث نے اپنی اپنی تصانیف میں اس فن کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ بعد اَزاں علما نے اس فن میں مستقل تصانیف مرتب کیں۔ ان میں سے بعض نے اپنی کتب میں تمام مختلف اَحادیث کو جمع کیا اور بعض نے اپنی تصانیف کو ان اَحادیث کی تطبیق تک محدود رکھا اور ان کے اِشکالات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مراد و مفاہیم کی بھی وضاحت کی۔اس فن کیحوالے سے جو مستقل کتب لکھی گئیں، وہ درج ذیل ہیں:
1. اختلاف الحدیث ازمحمد بن ادریس الشافعی (۲۰۴ھ)
2. تاویل مختلف الحدیث ازابو محمد عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ دینوری (۲۷۶ھ)
3. کتاب ابن خزیمہ ازابن خزیمہ (۳۱۱ھ)
4. مشکل الآثارازابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ طحاوی (۳۲۱ھ)
5. شرح معانی الآثار،ایضاً
6. مشکل الحدیث وبیانه ابوبکر محمد بن الحسن بن فورک (۴۰۶ھ)
7. التحقیق في أحادیث الخلاف
ابن جوزی، عبد الرحمن بن ابی الحسن بن علی بن محمد بن علی (۵۹۷ھ)27
علم مختلف الحدیث کی مثال اور تطبیق کے طریقوں کی وضاحت
کتب ِ اَحادیث میں توہم پرستی کے حوالے سے کچھ صحیح اَحادیث ملتی ہیں جنہیں دیگر احادیث سے مختلف ہونے کی بنا پر اس علم کے تحت بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً
«لا عدوٰی ولا طیرة ولاھامة ولاصفر»28
''کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے۔''
«فرّ من المجزوم کما تفر من الأسد»29
''کوڑھی سے ایسے بھاگو جیسے تم شیر سے بھاگتے ہو۔''
«لا یوردن ممرض علی مصح»30
''بیمار اونٹ تندرست کے قریب نہ لایا جائے۔''
ان اَحادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہو رہا ہے یعنی ایک طرف تو حضورﷺ بدشگونی اور توہم پرستی کی نفی فرما رہے ہیں کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور دوسری طرف اس کے برعکس بات بیان کی گئی ہے جس سے نہ صرف بیماری کے متعدی ہونے کا پتہ چلتا ہے بلکہ شگون لینا بھی درست معلوم ہوتا ہے۔اس صورتِ حال میں علماے حدیث بظاہر ان متضاد البیان اَحادیث کو اس علم کے ذریعہ سے مختلف طریقوں کے ساتھ تطبیق دیتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
ابن صلاحؒ کی تطبیق:مندرجہ بالا اَحادیث میں تطبیق کے حوالے سے ابن صلاحؒ نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ آنحضورؐ کا بیماری کو متعدی بتانا اس لیے نہیں کہ متعدی ہونا اس بیماری کی کوئی ذاتی صفت ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ایک فرد سے دوسرے فرد تک بیماری کے منتقل ہونے کا ایک قوی سبب مخالطت ہے جو کبھی واقع ہوتا ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتا۔ لہٰذا اس سبب سے بچنے کے لیے آپؐ نے کوڑھی سے بھاگنے کا حکم دیا اور یہ اَسباب اللہ ہی کی مشیت ہیں تو گویابیمار شخص یا اس کی بیماری فاعل حقیقی نہ ہوئے اور جہاں تک آپؐ کے اس فرمان کا تعلق ہے کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے تو یہ ایک اُصولی بات ہے جو براہِ راست عقیدئہ توحید سے متعلق ہے یعنی اس میں بھی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فاعل حقیقی اور متصرف فی العالم اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ ابن صلاحؒ رقم طراز ہیں:
«أن ھذہ الأمراض لا تعدي بطبعھا ولکن اﷲ تبارك وتعالی جعل مخالطة المریض بھا للصحیح سببًا لأعدائه مرضه ثم قد یتخلف ذلك عن سببه کما في سائر الأسباب ففي الحدیث الأول نفٰی ﷺ ما کان یعتقدہ الجاھل من أن ذلك یعدي بطبعه ولهذا قال:«فمن أعدٰی الأول؟» وفي الثاني اعلم بأن اﷲ سبحانه جعل ذلك سببًا لذلك وحذر من الضرر الذي یغلب وجودہ عند وجودہ بفعل اﷲ سبحانه وتعالیٰ»31
ابن حجرؒ کا مؤقف اور تطبیق:ابن حجرؒ نے آپؐ کے کسی بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کو مطلق اور عموم کے زمرے میں بیان کیا ہے اور کسی سبب کے باعث اس کے متعدی ہونے کی نفی بھی کی ہے اور اپنے موقف کی تقویت کے لیے انہوں نے آپؐ کے فرمان کہ «فمن أعدی الأوَّل؟»کو بھی دلیل بنایا ہے یعنی آپؐ نے اس شخص کو یہ فرمایا جس نے آپؐ کے سامنے دوسرے اونٹ کے خارش زدہ ہونے کا ذکر کیا تھا، گویا آپؐ کے نزدیک کوئی بیماری متعدی نہیں ہو سکتی۔جہاں تک مجذوم سے بھاگنے کے متعلق آپؐ کے فرمان کا تعلق ہے تو ابن حجرؒ نے اس بیان کو دو طرح سے احتیاط پر مبنی بتایا ہے۔ایک یہ ہے کہ کوئی شخص بیماری کے متعدی ہونے کے عقیدہ کو اختیار نہ کرے اور دوسرا یہ کہ اس بد اعتقادگی سے لوگوں میں تنگی اور حرج پیدا نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگیں تو اسی سبب سے آپؐ نے جذامی سے دور رہنے کا حکم دیا۔
ابن حجرؒ کی رائے ملاحظہ ہو:
«أن نفیه ﷺ للعدوٰی باق علی عمومه،وقد صح قوله ﷺ «لا یعدي شيء شیئًا» وقوله ﷺ لمن عارضه بأن البعیر الأجرب یکون في الإبل الصحیحة فیخالطھا فتجرب حیث رد علیه بقوله «فمن أعدی الاوّل» یعنی أن اﷲ سبحانه وتعالی ابتدأ ذلك في الثاني کما ابتدأه في الأول وأما الأمر بالفرار من المجذوم فمن باب سدّ الذرائع،لئلا یتفق للشخص الذي یخالطه شيء من ذلك بتقدیر اﷲ تعالیٰ ابتداء لا بالعدوٰی المنفیة،فیظن أن ذلك بسبب مخالطته فیعتقد صحة العدویٰ فیقع فی الحرج، فأمر بتجنبه حسمًا للمادة۔۔ واﷲ أعلم»32
ابوبکر باقلانیؒ اور ابن بطالؒ کا مؤقف:ابوبکر باقلانیؒ نے تطبیق میں استثنائی صورت اختیار کرتے ہوئے جذام اور اس جیسے دیگر امراض کو آپؐ کے ارشاد«لا عدوٰی»کے تحت شمار نہیں کیا بلکہ اس کو آپؐ کی طرف سے نفی کی ایک عام صورت قرار دیا ہے۔ ابوبکر باقلانیؒ رقمطراز ہیں:
«إن إثبات العدوٰی في الجذام ونحوہ مخصوص من عموم نفي العدوی فیکون معنی قوله (لا عدوٰی) أی إلا من الجذام ونحوہ،فکأنه قال لا یعدي شيئٌ إلا فیما تقدم تبنی له أنه یعدي»33
ابن بطالؒ کا بھی یہی مؤقف ہے۔34
ضعیف موقف
تطبیق کے حوالے سے ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ آپؐ کا مجذوم سے فاصلہ پر رہنے کا ارشاد دراصل اسے احساسِ مرض اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔اس ضمن میں آپؐ کے ایک دوسرے ارشاد: «لا تدیموا النظر المجذومین»35 کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے:
«أن الامر بالفرار رعایة لخاطر المجذوم لأنه إذا رأی الصحیح تعظم مصیبته وتزداد حسرته،ویؤیدہ حدیث«لا تدیموا النظر إلی المجذومین» فإنه محمول علی ھذا المعنیٰ»36
لیکن یہ موقف ضعیف ہے، کیونکہ ہمیشہ تندرست انسان کی مصلحت کو پیش نظر رکھا جاتاہے جیسا کہ احمد محمد شاکر اس موقف کے بارے میں لکھتے ہیں:
«وأضعفھا المسلك الرابع کما ھو ظاهر، لأن الأمر بالفرار ظاهر في تنفیر الصحیح من القرب من المجذوم۔ فھو ینظر بمصلحة الصحیح أولاً،مع قوة التشبیه بالفرار من الأسد؛ لأنه لا یفر الانسان من الأسد رعایة لخاطر الاسد أیضًا»37
احمد شاکر کی رائے
احمد شاکر نے ابن صلاحؒ کے موقف کو قوی ترین قرار دیا ہے۔ان کی رائے ملاحظہ فرمائیے:
«أقواھا عندي المسلك الأول الذي اختارہ ابن الصلاح،لأنه قد ثبت من العلوم الطبیة الحدیثة أن الأمراض المعدیة تنتقل بواسطة المکروبات،ویحملھا الھواء أو البصاق أو غیر ذلک،علی اختلاف أنواعھا،وأن تأثیرھا في الصحیح إنما یکون تبعًا لقوته وضعفه بالنسبة لکل نوع من الأنواع،وإن کثیرًا من الناس لدیهم وقایة خلقیة تمنع قبولھم لبعض الأمراض المعینة،ویختلف ذلك باختلاف الأشخاص والأحوال فاختلاط الصحیح بالمریض سبب لنقل المرض،وقد یتخلف ھذا السبب کما قال ابن الصلاح رحمه اﷲ»38
''میرے نزدیک قوی ترین مسلک اوّل ہے جسے ابن صلاحؒ نے اختیار کیا ہے اس لیے کہ جدید سائنسی علوم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ متعدی بیماریاں چھوٹے ذرات کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں اور ان ذرات کو ہوا، تھوک اور اس طرح کی دوسری چیزیں منتقل کرتی ہیں۔ ان ذروں کے مختلف ہونے کے سبب بیماریاں مختلف تاثیر رکھتی ہیں اور تندرست آدمی میں ان بیماریوں کی تاثیر ان کی قوت و ضعف کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ بیماری کی تمام اقسام میں یہ بات ملحوظ ہوتی ہے اوریقینا بہت سارے لوگوں میں طبعی طور پر بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت موجود ہوتی ہے جو نفس کو بعض معین بیماریوں کے اثرات قبول کرنے سے روکتی ہے یہ لوگوں اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے، پس تندرست آدمی کا مریض کے ساتھ اختلاط مرض کے منتقل ہونے کا سبب بنتا ہے اور بعض اوقات اختلاط مرض کے منتقل ہونے کا سبب نہیں بھی بنتا اور یہی ابن صلاحؒ کا موقف ہے۔''


حوالہ جات

1تدریب الراوی شرح تقریب النواوی ازالسیوطی،ص:۲۲
2 ایضاً
(3،9) مفتاح السنۃ،ص:۱۵۹،أبجد العلوم للقنوجي:۲؍۱۷۲،اُصول الحدیث علومه ومصطلحه از عجاج،ص:۲۸۳،الرسالة المستطرفة للکتاني، ص:۱۲۹
10 القاموس المحیط: ۲؍۱۰۸۶۔۱۰۸۷
11لسان العرب: ۹؍۹۱
12مقدمہ ابن الصلاح،ص: ۱۴۳
13التقریب فن اصول الحدیث، ص: ۲۳
14الخلاصہ فی اصول الحدیث، ص:۵۹؛المقنع فی علوم الحدیث:۲/۴۸۰؛جواهر الأصول في علم حدیث الرسول، ص:۴۰؛ المنهل اللطیف في أصول الحدیث الشریف، ص:۵۲
15شرح نخبۃ الفکر، ص:۵۹
16أبجد العلوم: ۲؍۱۷۲
17اُصول الحدیث، ص:۲۸۳
18 تیسیر مصطلح الحدیث، ص:۵۵
19الکفایة في علم الراویة،ص:۴۳۳
20مقدمہ ابن الصلاح، ص:۱۴۳؛ الکفایہ، ص:۴۳۳،توجیہ النظر إلی أصول الأثر، ص:۲۲۴
21مختلف الحدیث بین المحدّثین والأصولیین الفقهاء، ص:۲۶۔۲۷
22مقدمہ ابن الصلاح، ص:۱۴۳؛ التقریب، ص:۲۳؛تدریب الراوی في شرح تقریب النواوي، ص:۲۷۵۔۲۷۶؛ المقنع فی علوم الحدیث:۲؍۴۸۱۔۴۸۲
23التقریب، ص:۲۳
24الحدیث والمحدثون، ص:۴۷۱
25اُصول الحدیث، ص:۲۸۳۔۲۸۴
26اُصول الحدیث، ص:۲۸۳۔۲۸۴
27مقدمہ ابن الصلاح، ص:۱۴۳؛التقریب، ص:۲۳؛ شرح نخبۃ الفکر، ص:۶۵؛الرسالۃ المستطرفہ، ص:۱۳۰، توضیح الأفکار لمعاني تنقیح الأنظار: ۲/۴۲۶؛ اصول الحدیث: ص۲۸۴۔۲۸۶
28صحیح بخاری:۵۷۵۷،صحیح مسلم:۲۲۲۰،۲۲۲۲
29صحیح بخاری:۵۷۰۷
30صحیح بخاری:۵۷۷۱
31مقدمہ ابن الصلاح، ص: ۱۴۳
32شرح نخبۃ الفکر، ص:۵۹۔۶۰
33الباعث الحثیث، ص:۱۶۷، ألفیة السیوطي في علم الحدیث،ص:۱۸۰
34فتح الباری: ۱۱؍۳۰۹
35سنن ابن ماجہ:۳۵۴۳
36الفیۃ السیوطی، ص:۱۸۰،الباعث الحثیث، ص:۱۶۷، فتح الباری: ۱۱؍۳۰۹
37الفیۃ السیوطی، ص:۱۸۰
38الباعث الحثیث، ص:۱۶۷