اِسلا می معاشرہ کی تعمیر میں مسلما ن عورت کاکردار

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلما ن خواتین نے اپنے دین کے لیے بڑ ی قربانیاں دیں۔ اس کے لیے اُنھوں نے قریب ترین تعلقات اور رشتوں کی بھی پروا نہ کی۔خاندان اور قبیلہ سے جنگ مول لی۔مصیبتیں سہیں، گھر با ر چھوڑا ۔غرض یہ کہ مفادِدین سے اُن کا جو بھی مفاد ٹکرا یا، اُسے ٹھکرانے میں اُنہوں نے کوئی تامل اور پس و پیش نہیں کیا اور آخری وقت تک اپنے ربّ سے وفاداری کا جو عہد کیا تھا،اس کی مکمل پاسداری کی۔
مسلمان خواتین کی قربانیا ں
مکہ کے ابتدائی دور میں جن سعادت مند اور باہمت نفوس نے ایمان قبول کیا تھا ان میں عماربن یاسرؓ کا خاندان بھی تھا۔ان کی والدہ ابو حذیفہ بن مغیرہؓ کی باندی تھیں ،اُن کو دین سے پھیرنے کے لیے ہر طرح کی اَذیت دی جاتی رہی یہاں تک کہ ابو جہل نے جرمِ حق کی پاداش میں نیزہ مار کر ان کو شہید کر دیا، لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی۔یہ پہلی شہادت تھی جو حضورﷺکے پیغام پر لبیک کہنے کے نتیجہ میں کسی کو نصیب ہوئی۔(طبقات ابن سعد 8/ 193)
حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہؓ بنت ِخطاب ایمان لے آئیں تو حضرت عمر ؓ نے ان کو اس قدر زدوکوب کیا کہ لہو لہان ہوگئیں۔ حضرت عمر ؓ کی سختی کے جواب میں کہتی ہیں:
«یا ابن خطاب ما کنتَ صانعًا فَاصْنَعْه فإني قد أسلمتُ» مستدرك حاكم:4/59
''ابن خطاب !میں تو ایمان قبول کر چکی اب جو چاہو کرگزرو (میں اس سے پھر نہیں سکتی )''
ابو سفیا ن کے ایمان لانے سے قبل کا واقعہ ہے کہ وہ نبیﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے تو اپنی بیٹی اُمّ المومنین اُمِ حبیبہ ؓ سے بھی ملنے گئے۔گھر میں نبی کا بستربچھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھنے لگے تو بیٹی نے فوراً اس کو تہہ کر دیا ۔باپ کے لیے یہ حرکت سخت تعجب خیز تھی۔پوچھا ،کیا تم نے اس کو میرے شایانِ شان نہ سمجھ کر اُٹھا دیا یا مجھے اس قابل نہ سمجھا کہ اس پر بیٹھوں۔بیٹی نے جواب دیا۔یہ رسولِ خدا کا بستر ہے اور آپ مشرک اور نجس ہیں۔ میں اس مقدس بستر پر آپ کو بٹھا کر اس کو پلید کرنا نہیں چاہتی۔(طبقات ابن سعد:8/ 70)
قرآنِ مجید کا حکم ہے کہ خدا کے دشمنوں اور محاربین سے اہلِ ایمان کو کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ایک مرتبہ حضرت اسماؓکی مشرک والدہ بنت عبدالعزّٰی،تحفے تحائف لیے ہوئے مکہ سے مدینہ ان کے گھر آئیں ،حضرت اسما ؓنے ماں کے تحفوں کو قبول کرنے بلکہ ان کو اندر آنے کی اجازت دینے سے قبل رسول اللہﷺسے اجازت لی کہ کیا میں ان کو اپنے گھر ٹھہرا سکتی ہوں ؟اور یہ کہ وہ مجھ سے مدد اور ہمدردی کی توقع رکھتی ہیں کیا ان کے ساتھ تعاون اور حسن ِسلوک میرے لیے جائز ہے ؟حضور ؐنے جواب دیا:ہاں،تمہارے لیے یہ دونوں باتیں جائز ہیں۔
جن لوگوں نے حضرت عائشہؓ پر اِفتراپردازی میں حصہ لیا،ان میں مسطح ؓ بن اَثاثہ بھی تھے، ان کی ماں کے ایمانی تقاضوں نے اس کی اجازت نہ دی کہ بیٹے کی غلط حرکت کو گوارا کر لیں یاکم از کم تاویل وتوجیہ کے پردوں میں اس کو چھپا دیں۔ابن سعد نے لکھا ہے :
«کانت من أشد الناس علیٰ مسطح حین تکلم مع أهل الإفك في عائشة»صحيح بخارى:5978
''مسطح نے جب حضرت عائشہؓ پر افترا پردازی کرنے والوں کے ساتھ تہمت باندھنے میں حصہ لیا تو یہ ان پر اور تمام لوگوں سے زیادہ سخت تھیں ۔''
روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ہر وقت ان کے اس غیر شرعی اور نارواعمل پر پیچ وتاب کھاتی اور غم وغصہ کا اظہار کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ باہر سے گھر آرہی تھیں کہ پیر میں چادر اُلجھ گئی تو ایک دم وہی اندرونی جذبات اُبھرآئے اور بیٹے کو بددعا دینے لگیں۔حضرت عائشہ ؓ کواس وقت تک مسطح کی اس حرکت کا علم نہیں تھا اس لیے وہ مدافعت کرنے لگیں تو اُنھوں نے ان افواہوں کاذکر کیا جو مدینہ کی فضا میں گشت کر رہی تھیں۔ (طبقات ابن سعد:8/ 166)
جنگی خدمات
شریعت نے ریاست کے دفاع اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی، لیکن اس کے باوجوداللہ کے دین کو سر بلند دیکھنے کی تمنا اس کو دشمن کے خلاف محاذِ جنگ پر لے آتی اور مردوں کے ساتھ وہ بھی کفر کا علم سر نگوں کرنے میں حصہ لیتی رہی:
1.ایک انصاری صحابیہ اُمّ عمارہ ؓ نے جنگ ِاُحد میں مردوں کی سی ثابت قدمی اور دلیری کا مظاہرکیا۔سعد بن ربیع کی صاحبزادی اُمّ سعدؓنے اس کارنامہ کے متعلق دریافت کیا توتفصیل سے بتایا کہ میں صبح سویرے ہی مجاہدین کی خدمت کے لیے میدانِ کارزار میں پہنچ گئی تھی۔
ابتدا میں مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن بعد میں جب فتح و نصرت نے اُن کا ساتھ چھوڑ دیاتواُن میں افراتفری اورانتشار پھیل گیا۔اِس وقت حضور اکرمﷺ کے قریب پہنچ کر آپﷺکی مدافعت میں تیر اور تلوار چلانے لگی۔یہاں تک کہ دشمن کی ضر ب مجھ پر آن پڑی۔ اُمّ سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پر بہت ہی گہرے زخم کا نشان دیکھا اور پوچھا، کس نے آپ پر اتنا سخت حملہ کیا تھا؟ اُنہوں نے جواب دیا،ابن قمہ نے! اللہ اسے غارت کرے! جب مسلمان شکست کھا کر حضورﷺکے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تو یہ چلاتا ہوا آیا: بتاؤ محمد(ﷺ) کہاں ہے؟ اگر وہ اس جنگ میں بچ گیا تو میری نجات نہیں۔یہ میری ہلاکت اور موت ہے۔ یہ سن کر میں اور مصعب بن عمیر ؓ اور چند دوسرے اَصحاب نے جو آپ کے ساتھ جمے ہوئے تھے، اس کا سامنا کیا۔اس مقابلہ میں اُس نے مجھ پر یہ وار کیا جس کا نشان تم دیکھ رہی ہو۔ میں نے بھی تلوار سے کئی ایک حملے کیے، لیکن دشمنِ خدا دو دو زرہیں پہنے ہوئے تھا۔نبیﷺ کی مدافعت میں اُنہوں نے جس ہمت اور پامردی کا ثبوت دیا اس کی شہادت خود آپﷺنے ان الفاظ میں دی ہے:
«ما التفتُ یمینًا ولا شمالاً إلا وأنا أراها تُقابل دوني» سيرة ابن هشام:3/ 29, 30
''دائیں بائیں جس طرف بھی میں نے رُخ کیا اُمّ عمارہ ؓ کو اپنی مدافعت میں لڑتے دیکھا۔''
اس دن ان کے جمائواور ثابت قدمی کو دیکھ کر حضورﷺنے فرمایا:
«لمقام نسیبة بنت کعب الیوم خیر من مقام فلان وفلان»
''آج نسیبہ بنت کعب (اُمّ عمارہ) کی ثابت قدمی اور استقلال فلاں اور فلاں سے بہتر ہے۔''
اُحد کے علاوہ اُنہوں نے خیبر، حنین اور یمامہ کی جنگ میں بھی شرکت کی تھی۔یمامہ کے دن لڑتے لڑتے ان کا ہاتھ شہید ہو گیا اور اس کے علاوہ تلوار اور نیزوں کے بارہ زخم ان پر دیکھے گئے۔(طبقات ابن سعد:8/ 301تا304)
2.رومیوں سے مسلمانوں کی جنگ میں عکرمہ ؓ بن ابو جہل کی بیوی اُمّ حکیمؓ شریک تھیں۔ اجنادین کی لڑائی میں عکرمہؓ شہید ہو گئے،چار ماہ دس دن کی عدت کے بعد مرجِ صفر نامی ایک مقام پر ان کا نکاح خالد بن سعید ؓ سے ہو گیا۔ نکاح کے دوسرے دن خالد بن سعید ؓ نے دعوتِ ولیمہ کی، ابھی لوگ دعوت سے فارغ ہونے بھی نہ پائے تھے کہ رومیوں نے صف بندی شروع کر دی ۔جب گھمسان کا رن پڑا تو اُمّ حکیمؓ ، جن پر اب تک شب ِعروسی کے آثار نمایاں تھے اپنے خیمے کا ایک ڈنڈا لے کر میدان میں کود پڑیں اور دشمن کے سات افراد کو اس دن موت کے گھاٹ اتار دیا۔(الاستيعاب فى اسماء الاصحاب تذكره ام حكيم)
3.اَسماء بنت یزید کے ہاتھ سے جنگِ یرموک میں نو رومیوںکو موت کاپیالہ پینا پڑا۔(الاصابه فى تمييز الصحابه:4/ 335)
4.ایک اور انصاری خاتون اُمّ حارث ؓکی ثابت قدمی اور شجاعت دیکھئے کہ جنگِ حنین میں اسلامی فوج کے قدم میدان سے اُکھڑ چکے ہیں، لیکن یہ چند باہمت نفوس کے ساتھ پہاڑ کی طرح جمی ہوئی ہے۔(الاستيعاب فى الاسماء الاصحاب تذكره ام حارث)
5.حضرت انس کی والدہ اُمّ سلیم ؓ خنجر لئے ہوئے اُحد میں آئی تھیں۔ حنین میں بھی ان کے پاس خنجر تھا، اس طرح مسلح ہو کر آنے کا مقصد حضورﷺنے دریافت فرمایا تو جواب دیا:
«اتخَذْتُه إن دنا مني أحد من المشرکین بقرتُ به بطنه» صحيح مسلم:1809
''میں نے اس کو اس لیے ساتھ رکھا ہے تا کہ اگر کوئی مشرک قریب ہو تو اس سے اس کا پیٹ چاک کر دوں۔''
6.رومیوں میں جہاد میں شہرت رکھنے والی نامور شخصیت حبیب بن مسلمہ ؓ سے ان کی بیوی نے ایک جنگ کے موقع پر دریافت کیا۔ بتائیے! کل آپ کہاں ہوں گے؟ جواب دیا: یا تو دشمنوں کی صفوں کے اند ریا جنت میں۔اِن شاء اللہ،جواب سن کر بیوی نے بھی پورے عزم کے ساتھ کہا، ان دونوں جگہوں میں سے جہاں بھی آپ ہوں گے مجھے توقع ہے کہ میرا مقام بھی وہی ہو گا۔(البيان و التبيين :2/ 170)
7.ربیع بنت معوذ ؓکا بیان ہے:
«کنا لنغزو مع النبي ﷺ فنسقي القوم نخدمهم ونرد القتلی والجرحی إلی المدینة» صحيح بخارى:2883
''ہم نبیﷺکے ہمراہ جہاد پر جاتی تھیں اورہماری خدمات یہ ہوتی تھیں کہ مجاہدین کو پانی پلاتیں۔ ان کی خدمت کرتیں اور جنگ میں کام آنے والوں اور زخمی ہونے والوں کو مدینہ لوٹاتیں۔''
8.ایک اور صحابیہؓ جو حضورﷺکے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی تھیں، بیان کرتی ہیں:
« کنا نداوي الکلمی ونقوم علی المرضی» مسند احمد:5/ 84
''ہم زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کا علاج معالجہ اور ان کی تیمار داری کرتی تھیں۔''
9.اُمّ ؓ عطیہ اپنے متعلق فرماتی ہیں:
''میں نبی کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی تو میں لوگوں کے لیے کھانا بناتی،زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کرتی۔'' مسند احمد:5/ 84
10.اُحد کے زخمی مجاہدین کی مرہم پٹی اور خدمت کے لئے بہت سی صحابیات جنگ کے بعد مدینہ سے گئی تھیں، طبرانی کی روایت ہے :
«لمّا کان یوم أحد وانصرف إلی الصحابة یعینونهم وکانت فاطمة في من خرج» فتح البارى:7/ 287
''جس دن اُحد کی جنگ ہوئی اور جنگ کے بعد مشرکین واپس ہو گئے تو خواتین صحابہ کی معاونت کے لیے روانہ ہوئیں۔ حضرت فاطمہ ؓ بھی ان ہی میں تھیں۔''
چنانچہ حضورﷺ اس د ن زخمی ہوئے تو حضرت فاطمہ ؓ ہی نے اسے چٹائی کی راکھ سے بھرا تھا۔
11.حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ جنگ اُحد میں حضرت عائشہ ؓ اور اُمّ سلیمؓ نے بھی مجاہدین کی خدمت کی تھی :
« لقد رأیت عائشة بنت أبي بکر وأم سلیم وإنهما المشمّرتان أری خدم سوقهما تنقزان القرب علی متونهما ثم تفرغانه في أفواہ القوم ثم ترجعان فتملانهما ثم تجیئان فتفرغانه في أفواه القوم»صحيح بخارى:4064
''میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور اُمّ سلیم کو کمر بستہ (لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے) دیکھا۔ وہ اس قدر تیزی سے دوڑ دھو پ کر رہی تھیں کہ میں نے ان کی پنڈلیوں کے پازیب دیکھے، وہ اپنی پشت پر پانی سے بھرے ہوئے مشک لاد لاد کر لاتی تھیں اور مجاہدین کو پلاتیں پھر واپس جاتیں اور بھر کر لاتیں اور مجاہدین کی تشنگی دور کرتیں۔''
12.ایک انصاری خاتون اُمّ سلیطؓ کے متعلق حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں:
«إنها کانت تزمز لنا القرب یوم أحد» صحيح بخارى:2881
'' اُحد کے دن وہ ہمارے لیے مشکیزے بھرتی تھیں۔''
13.حمنہ بنت حَجشؓ نے بھی اس دن یہ خدمات انجام دی ہیں۔ ابن سعد نے لکھا ہے:
«وقد کانت حضرت أحدًا تسقي العطش وتداوي الجرحٰی» طبقات ابن سعد:8/ 185
''وہ اُحد میں موجود تھیں۔ پیاسوں کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کا علاج کرتیں۔''
14.اُمّ ایمن کے حالات میں بھی ابن سعدؓ نے اسی قسم کی روایت نقل کی ہے:
«وقد حضرتْ أمّ أیمن أحدًا وکانت تسقي الماء وتداوي الجرحٰی وشهدت خیبر مع رسول اﷲ ﷺ» طبقات ابن سعد:ص163
15.جنگ خیبر کے سلسلے میں مورخ ابن اسحق نے صراحت کی ہے:
«وقد شهد خیبر مع رسول اﷲ لنساء المسلمین» سيرة ابن هشام:3/ 334
''خیبر میں حضورﷺکے ساتھ مسلمان خواتین میں سے بہت سی خواتین نے شرکت کی۔''
16.حشربن زیاد کی دادی اور پانچ عورتیں بھی اس جنگ میں گئی تھیں۔ اُنہوں نے حضورﷺسے آنے کا مقصد ان الفاظ میں ظاہر کیا:
«یا رسول اﷲ! خرجنا نغزل شعر ونعین به في سبیل اﷲ ومعنا دواء للجرحی ونناول السهام ونسقي السویق»سنن ابو داؤد:2729
'' اللہ کے رسول! ہم بالوں کو بٹتی ہیں اور ا س کے ذریعے اللہ کے رستے میں تعاون کرتی ہیں۔ ہمارے ہمراہ زخمیوں کے لیے دوا ہوتی ہے، ہم تیر پکڑاتی اور ستو پلاتی ہیں۔''
17.خیبر ہی میں ابو رافع ؓکی بیوی، سلمہ ؓ قبیلہ اَشہل کی ایک خاتون اُمّ عامر، ایک انصاری عورت اُمّ خَلا(طبقات ابن سعد:8/ 336) اور کعیبہ بنت ِسعد کی شرکت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔(طبقات ابن سعد:ص213)
18.اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ وہ کسی خارجی دباؤ کے تحت یہ خدمات انجام نہیں دیتی تھیں بلکہ محافظین دین کی رفاقت اور تعاون کو اپنے لیے باعث ِ عزت سمجھ کر خود ہی پیش کش کرتی تھیں۔ اسی جنگ ِ خیبر کا واقعہ ہے کہ رسولﷺروانہ ہونے لگے تو قبیلہ غفار کی چند عورتوں نے آکر عرض کیا:
« إنا نرید یا رسول اﷲ أن نخرج معك إلیٰ وجهك هذا فنداوی لجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا»
''اے اللہ کے رسولﷺ! اس مبارک سفرمیں جس پر آپ جا رہے ہیں ہم بھی آپﷺکے ساتھ چلنا چاہتی ہیں تاکہ زخمیوں کا علاج کریں اور اپنے بس بھر مسلمانوں کی مدد کریں۔''
19.بعض خواتین میدان جنگ سے باہر بھی یہ خدمات انجام دیتی تھیں۔ مثلاً رفیدہ نامی قبیلہ اسلم کی عورت کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے :
''وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی اور اُنہوں نے مسلمانوں کے زخمیوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔''
چنانچہ مسجد ِ نبویؐ میں ان کا خیمہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ جنگ خندق میں زخمی ہوئے تو حضور1 نے ان کو رفیدہ ہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا تا کہ آپ بآ سانی ان کی عیادت کر سکیں۔(طبقات ابن سعد:8/ 213)
دین کی مدافعت اور اس کی ترغیب
دین کی مدافعت، خواتین جس طرح شمشیر و سنان کے ذریعہ کرتی رہی ہیں، اسی طرح زبان وبیان سے بھی اُنہوں نے فریضہ انجام دیا ہے۔ حق کی نصرت و حمایت میں نیزہ اور تلوار بھی بلند کیا ہے اور زبان کی قوت بھی صرف کی ہے۔ ان کی پرجوش خطابت و تقریر نے بہت سوں کے لیے اللہ کی راہ میں مرنا اور جینا اور اپنی متاعِ حیات کا لٹانا آسان بنا دیا۔
1.رسولِ اکرمﷺ کی پھوپھی اَرویٰ بنت عبدالمطلب کے متعلق ابن عبد البر نے لکھا ہے:
''وہ اپنی زبان سے نبی کا دفاع کرتیں اور اپنے بیٹے کو نبی کی مدد اور حکم پر اُبھارا کرتی تھیں۔''(الاستيعاب فى الاسماء الاصحاب تذكره اروىٰ بنت عبدالمطلب)
ان کے لڑکے طلیب ؓ مکہ کے ابتدائی دَور ہی میں ایمان لاچکے تھے۔ایک مرتبہ رسول اللہﷺچند صحابہ کے ساتھ جن میں طلیب ؓ بھی شامل تھے ،نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل،ابو لہب، عقبہ اور بعض دوسرے سردار اچانک ہلّہ بول بیٹھے اور زبان درازی شروع کر دی ۔صحابہؓ بھی پورے زور سے اظہارِ ایمان اور اپنی مدافعت کرنے لگے ۔طلیب ؓ نے تو آگے بڑ ھ کر ابو جہل کو بری طرح زخمی کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین نے اُن کو پکڑ کر باندھ دیا ۔بعض لوگ یہ خبر لے کر اَرویؓبنت عبدالمطلب کے پاس پہنچے اور کہا: ذرا اپنے بیٹے کی 'حماقت 'تو دیکھو کہ محمد(ﷺ)کے پھیر میں آکر لوگوں کے جو روستم کا نشانہ بن گیا ہے ۔ اُنہوں نے جواب دیا :
«خیر أیام طلیب یوم یدب عن ابن خاله وقد جاء بالحق من عند اﷲ»مستدرك حاكم:4/ 52
''وہ دن کہ جن میں طلیب نے اپنے ماموں زاد کی حمایت کی تھی بہترین دن ہیں،یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر آیا۔''
عبداللہ بن زید ؓ اُحد کے دن زخمی ہو گئے تو ان کی والدہ اُمّ عمارہؓنے مرہم پٹی کی اور بجائے اسکے کہ اپنے لختِ جگر کو تکلیف میں دیکھ کر آرام لینے اور سستانے کا مشورہ دیتیں حکم دیا :
«انهض بني فضارب القوم» ''میرے بیٹے اُٹھو اور دشمن کو مارو۔''(طبقات ابن سعد:8/ 302)
ابو سفیان کی بیوی ہندبنت عتبہ نے شہدائے اُحد کے خلاف اشعار کہے تو ہندبنت اَثاثہؓ نے ان کا شعر ہی میں ترکی بہ تر کی جواب دیا۔ سيرة ابن هشام:3/ 41 ,42
3.حضرت خنسائؓ اپنے بچوں کے ساتھ جنگ ِقادسیہ میں شریک ہوئی تھیں۔ان چاروں کو آغازِ شب ہی میں جمع کر کے کہا :اے میرے بچو!تم نے برضاور غبت ایمان قبول کیا اور کسی کے دبائو کے بغیر ہجرت کی۔ بخدا،جس طرح تمہاری ماں ایک ہے، اسی طرح تمہارا باپ بھی ایک ہے،کیونکہ تمہاری ماں نے نہ تو تمہارے باپ کے ساتھ کوئی خیانت کی نہ تمہارے ننہال کو رسواکیا، نہ تمہارے حسب کو بٹہ لگایا اور نہ تمہارے نسب کو غبار آلود کیا(یعنی شریف اور باعفت ماں کے بطن سے پیدا ہوئے ہو۔اس لیے تمہارے اعمال بھی شریفوں کے سے اور ارفع واعلیٰ ہونے چاہئیں)تمہیں معلوم ہے کہ خدا نے کفا رسے جنگ کے عوض کس قدر ثواب تیار کر رکھا ہے ۔خوب سمجھ لو !اس فنا ہونے والی دنیا سے دارالبقا بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اصبِر‌وا وَصابِر‌وا وَر‌ابِطوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ٢٠٠ ﴾.... سورة آل عمران
''اے ایمان والو! ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو۔حق کی راہ میں جمے رہو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح پاؤ۔''
اگر اللہ نے چاہا اور تم نے سلا متی سے صبح کی توپوری بصیرت کے ساتھ اور خدائے تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں نکل جائو اور جب گھمسان کا رَن پڑے اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تو تم اس کی بھٹی میں (بلا خوف وخطر ) کود پڑو۔جس وقت دشمن کا لشکر پورے جوش اور جذبہ سے لڑائی میں مصروف ہو تو تمہارے حملوں کا نشانہ اس کا سردار رہے اس طرح تم غنیمت او رجنت میں شرف و مرتبہ کے مستحق ہو کر لوٹو گے ۔
ماں کی زبان سے یہ پر عزیمت تقریر سن کر چاروں لڑکے رجزپڑھتے ہوئے سر بکف عر صۂ پیکا ر میں آنکلے، پھر ان کو خاک وخون میں غلطاں ہی دیکھا جا سکا ۔
4.جس زمانے میںحجا ج نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا محاصرہ کر رکھا تھا،ان کے تقریباًدس ہزار ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج کے ساتھ جاملے یہاں تک کہ ان کے دو لڑکے حمزہ اور خبیب بھی پناہ کے طالب ہو کر حجاج کے پاس چلے گئے۔ عبداللہ بن زبیر ؓ نے جاکر اپنی والدہ اسماء بنت ابی بکر ؓ سے اپنی بے بسی کا تذکرہ کیا کہ اور تو اور میری اولاد تک نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔اب میرے ساتھ گنے چنے افراد رہ گئے ہیں جو حجاج کے مقابلہ میں دیر تک ٹھہر نہیں سکتے۔ اگر میں اب بھی حجاج کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں تو دنیا کی جو نعمت چاہوں مل سکتی ہے بتائیے آپ کی کیا رائے ہے؟ ماں نے جواب دیا:
''اے میرے بیٹے!تو اپنی نیت خوب جانتاہے، اگر تو سمجھتا ہے کہ تو حق پر ہے اور حق کی طرف بلانے والا ہے تو اس پر صبر کر،تمہارے اَصحاب کو قتل کر دیا گیااور تمہاری گردن بھی نہ بچ سکے گی۔بنی اُمیہ کے لڑکے اس سے کھیلیں گے اور اگر توجانتا ہے کہ توحق پر نہیں ہے صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے توتوبہت برا بندہ ہے تو نے اپنے آپ کو ہلاک کر دیااور اپنے اصحاب کو بھی جو تیرے ساتھ قتل ہوں گے اور اگر تو حق پر ہے تو دین کو ہلکا نہ جان تو دنیا میں کتنی دیر زندہ رہے گا؟''
سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے ماں کے جذبات کی تائید کی اور حجاج کی مخالفت میں شہید ہو گئے۔(البدايه والنهايه:8/ 330)
اظہارِ حق
خواتین نے اپنوں ہی کو حق پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ معاشرہ میں جہاں کہیں ان کو بگاڑ نظر آیا، اس کو بدلنے اور اس کی جگہ خیر و صلاح کو قائم کرنے کی جدو جہد کرتی رہی ہیں۔
1.سیدناعبداللہ بن زبیر ؓ کو سولی دینے کے بعد حجاج ان کی والد ہ اسماء کے پاس گیا اور کہا: آپ کے صاحبزادے نے خدا کے گھرمیں بے دینی اور الحاد پھیلایا جس کی سزا خدا نے اس کو درد ناک عذاب کی شکل میں چکھائی ہے۔ حضرت اسماء نے کہا :
'' تو جھوٹ بولتا ہے وہ تو اپنے والدین کا فرمانبردار تھا ،روزے رکھنے والا اور قیام کرنے والا تھا میں نے نبیؐ سے سنا کہ ثقیف قبیلے سے دو جھوٹے نکلیں گے دوسرا پہلے سے زیادہ شروالا ہو گا۔''مسند احمد:6/ 351
2.سُمَیہ نامی ایک کنیز تھی جس سے دورِ جاہلیت میں اس کے آقا بیسوائی کراتے تھے۔ سیدنا معاویہؓ کا ظالم گورنر زیاد اس کا لڑکا تھا۔ عموماً جیسے بیسوائوں کی اولاد کے حسب و نسب کا کوئی علم نہیں ہوتا اسی طرح زیاد کے سلسلۂ پدری کا بھی کوئی پتہ نہیں تھا اور وہ نامعلوم النسب ہی مشہور تھا۔ حضرت معاویہ ؓ کے سامنے ایک شخص نے شہادت دی کہ ایک مرتبہ جاہلیت میں ابو سفیان ؓ کی سُمیّہ کے ساتھ خلوت ہو گئی تو اس کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوا۔ اس شہادت کی بنا پر حضرت معاویہ ؓ نے اس کو ابو سفیان ؓ کی اولاد اور اپنا بھائی قرار دے لیا۔
زیاد اس سے بہت خوش ہوا وہ چاہ رہا تھا کہ اکابر اُمت سے بھی اس کی تصدیق ہو جائے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کو اس نے ایک خط لکھا جس کا سرنامہ یہ تھاـ:''ـابوسفیان کے لڑکے زیاد کی جانب سے اُمّ المومنین عائشہؓ کے نام'حضرت عائشہ ؓ اس غیر اسلامی فعل کی کیسے تائید کر سکتی تھیں۔ انہوں نے نہ تو حضرت معاویہ ؓ کے فیصلہ کا کوئی احترام کیا اور نہ زیاد جیسے سخت گیر اور جور پیشہ گورنر کی کوئی پرواہ کی اور جواب کا آغاز ان کلمات سے کیا ''امّ المومنین عائشہؓ کی طرف سے نا معلوم باپ کے لڑکے زیاد کے نام''(طبقاب ابن سعد:1/ 71)
اَعیانِ حکومت کو نصیحت اور اس کے نتائج
تنقید یاتائید اسی وقت سود مند ہوتی ہے جب کہ اس کے پیچھے خلوص اور خیر خواہی کے جذبات کار فرما ہوں، ورنہ نہ تو تائید کا کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ تردید کا۔ مسلمان خواتین نے جو کچھ کہا اور کیا، ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر خالص دین اور ملت کے مفاد کی لئے کہا اور کیا۔
دین کے نفع و ضرر کا پاس و لحاظ، اس کے لیے ہر طرح کی قربانی اور شدید ترین و جاں گسل مواقع پر استقامت؛ خاتونِ مسلم کی یہ ایسی صفات تھیں جنھوں نے اس کے خلوص اور وفاداری کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کر دیا اور کوئی بھی شخص اس کو دین اور اَربابِ دین کی بدخواہ اور غدار نہیں ثابت کرسکا۔اُس نے فرد اور جماعت کے مفاد کے لئے جو بھی اقدام کیا اس کو ذاتی غرض اور نفسانی خواہش پر محمول نہیں کیا گیا بلکہ مخلصانہ جدوجہد سمجھ کر اس کاخیر مقدم کیا گیا۔عام اَفراد تو کیا،ذمہ دارانِ ریاست تک نے اس کی تنقید اور نصیحت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا اور اس سے استفادہ کیا ہے۔
1.سیدنا معاویہ ؓ نے سیدہ عائشہ ؓ کولکھا کہ مجھے ایک مختصر سی نصیحت کیجئے(جسے میں ہمیشہ کے لئے اپنے سامنے رکھ سکوں) تو امّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ نے انتہائی مؤثر اور ایک حاکم وقت کو رہنمائی کا کام دینے والا حضورﷺکا یہ ارشاد لکھ کر بھیجا:
«من التمس رضی اﷲِ بسخط الناس کفاه اﷲ مؤنة الناس ومن التمس رضا الناس بسخط اﷲِ وکله اﷲ إلی الناس»سنن ترمذى:2414
''جس شخص نے لوگوں کو ناراض کرکے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی ناراضی سے کافی ہوجائے گا۔ اور جس نے اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کو خوش کرنا چاہا، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے ہی سپرد کردے گا۔''
2.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کہیں جارہے تھے۔راستہ میں خولہ بنت ثعلبہ ؓ سے ملاقات ہوگئی۔وہ وہیں حضرت عمرؓ کو نصیحت کرنے لگیں۔ رعایاکے معاملہ میں خدا سے ڈرتے رہو ۔یہ بات ذہن نشین کرلو کہ جس شخص کو خدا کے عذاب کا خوف ہوگا وہ قیامت کو دور نہیں سمجھ سکتا اور جس کو موت کا کھٹکا لگا ہو گا(وہ لا ابالی زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ )اس کو نیکیوں کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ہر وقت خدشہ رہے گا۔''(الاستيعاب , تذكره خوله بنت ثعلبه)
3.ایک مرتبہ عمر ؓ نے فرمایا :مہر کی مقدار کم رکھو تو ایک عورت نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو اس کی تبلیغ کا حق نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ''اگر تم اپنی عورتوں کو مہر میں ایک ڈھیر مال بھی دے دو تو اس سے ایک حبہّ بھی نہ لو۔'' اس سے معلوم ہوا کہ مہر کی کوئی حد نہیں ہے حضرت عمر ؓ نے اعتراف کرتے ہوئے فرمایا: ''ایک عورت نے عمرؓ سے بحث کی اور غالب رہی۔'' فتح البارى:9/ 161
4.سودہ بنت عمارہ نے جنگ ِ صفین میں حضرت معاویہؓ کے خلاف حضرت علی ؓ کا ساتھ دیا تھا۔ حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد کا واقعہ ہے کہ یہ حضرت معاویہ ؓ کے پاس گئیں۔ پہلے تو ماضی میں جو کچھ ہوا، اس پر معافی چاہی پھر کہا :'' امیر المومنین! آپ لوگوں کے سردار اور ان کے معاملات کے ذمہ دار و نگہبان ہیں، اس لئے ان کے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیے ہیں ان کے متعلق وہ آپ سے ضرور پوچھے گا۔ ہم پر ایسے گورنر متعین ہو کر آتے ہیں جو آپ کے غلبہ و اقتدار کو مستقل اور وسیع کرنے کے ساتھ ہم کو کھیتی کی طرح کاٹ پھینکتے اور گائیوں کی طرح روند ڈالتے ہیں۔یہ ہمارے حقوق کو ٹھیک سے اَدا نہیں کرتے۔ہم کو خراب سے خراب ترچیز چکھاتے ہیں اور بڑی سے بڑی اور نفیس سے نفیس شے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ دیکھیے، ابن اَرطاۃ حاکم بن کر آیا تو اس نے ہمارے قبیلہ کے افراد کا خون بہانا شروع کر دیا اور میرا مال چھین لیا۔ آپ کی اطاعت ہم پر فرض ہے ورنہ ہمارے اندراتنا کس بل اور بچائو کی قوت ہے کہ ہر ظلم کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ اس کو معزول کر دیں تو ہم آپ کے مشکور ہوں گے ورنہ ہم آپ کو بھی دیکھیں گے۔'' حضرت معاویہ ؓ نے کہا: کیا تو مجھے اپنی قوم کے ذریعہ دھمکی دے رہی ہے؟ ''قسم خدا کی میں نے تو ارادہ کیا ہے کہ تجھ کو کانٹوں بھری سواری پر بٹھا کر اسی کے پاس لوٹائوں تاکہ وہ اپنا فیصلہ تجھ پر نافذ کرے۔ '' اس پر سودہ خاموش ہو گئیں۔ پھر کچھ دیر بعد دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:
''اللہ تعالیٰ اس روح پر رحمت نازل فرمائے جس کو ایک قبر نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے اور جس کے ساتھ عدل و انصاف بھی دفن ہو چکا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ اس کے عو ض دولت دنیا میں حاصل کرے گا، اس طرح حق اور ایمان اس میں جمع ہو گئے۔''
حضرت معاویہ ؓ نے پوچھا: وہ کون؟ علی ؓ بن ابی طالب۔ حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا: تجھ پر اس عدل و انصاف کا کوئی نشان نظر نہیں آتا؟ اس نے جواب دیا: میں یہ بلا دلیل نہیں کہہ رہی ہوں۔ میرے پاس ان کے انصاف کا ثبوت موجود ہے۔ ایک دن میں نے ان کی خدمت میں ان کے ایک محصل صدقات کی شکایت لے کر پہنچی۔ وہ اس وقت کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو محبت بھرے انداز میں پو چھا: کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ میں نے محصل کی زیادتی بیان کی تو رونے لگے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا: ''اے میرے اللہ!تو جانتا ہے، میں نے اپنے گورنروںکو تیری مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے اور تیرے حقوق کو چھوڑ بیٹھنے کا حکم نہیں دیا۔'' اس کے بعد فوراً جیب سے چمڑے کا ایک ٹکڑا نکالا اور اس پر اس کی معزولی کا حکم لکھ بھیجا۔ اس میں کسی قسم کی تاخیر روانہ رکھی (لہٰذا آپ کی حکومت کو بھی ایسے ہی عدل پر ور ہونا چاہیے کہ کسی بھی شخص پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے۔ حضرت معاویہ ؓ نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے۔ اس نے پوچھا: کیا انصاف میرے ہی ساتھ مخصوص ہے یا میری قوم بھی اس میں شریک ہے ؟ حضرت معاویہ ؓ نے کہا: تمہیں اپنے علاوہ دوسروں سے کیا مطلب ؟ اس نے کہا: ''انصاف ہو تو سب کے ساتھ ہو ورنہ یہ بہت ہی مذموم بات ہو گی کہ ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے اور دوسروں پر ظلم روا رکھا جائے۔ اگر آپ میرے کل قبیلہ کے ساتھ عدل نہیں کر سکتے تو مجھے بھی انصاف کی کوئی ضرورت نہیں ، میری قوم جس خستہ حالت میںپڑی ہوئی ہے میں بھی پڑی رہوں گی۔''
حضر ت معاویہ ؓ نے کہا: ابن ابی طالب نے تم کو جری بنا دیا ہے۔ پھر ماتحتوں کو حکم دیا کہ گورنر کو لکھ دو کہ اس کے مطالبات پورے کیے جائیں۔(العقد الفريد:1/ 211-212)
5.اسی طرح عکرشہ بنت اَطرش بھی حضرت معاویہ ؓ کے دربار میں ان کے گورنروں کی شکایت لے کر پہنچی اوربے باکانہ کہا کہ '' اس سے پہلے ہمارے اغنیا سے زکوۃ لی جاتی اور ہمارے غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی، لیکن اب نہ تو شکستہ حال کی شکستگی دور ہوتی ہے اور نہ محتاج کی محتاجی رفع کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ کی ایماء اور مشورے سے ہو رہا ہے تو آپ جیسے شخص سے ( توقع یہ کی جاتی ہے کہ ) تنبیہ ہوتے ہی فوراً چونک اُٹھیں گے اور توبہ کرینگے اور اگر اس میں آپ کی رائے اور مشورہ کو دخل نہیں ہے بلکہ گورنروں کی اپنی طرف سے ظلم و زیادتی ہے ( تو یہ بھی آپ جیسی ذمہ دار شخصیت کے منافی ہے کہ ) وہ امانت داروں کوچھوڑ کر خائنوں سے تعاون حاصل کرے اور ظالموں کو خدمات پر مامور کر دے۔'' حضرت معاویہ ؓ نے معذرت کی کہ کبھی کبھی ایسے خراب حالات سے ہم کو سابقہ پڑتا ہے کہ قانون پر عمل کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس نے کہا: سبحان اللہ! آپ کیسی بات کر رہے ہیں۔ اس دانائے غیب نے ہم پر کوئی ایسا فرض متعین ہی نہیں کیا ہے جس پر عمل سے دوسروں کو نقصان ہو۔ بالآ خر حضرت معاویہ ؓ نے اس قبیلہ کی زکوۃ کو اسی کے افراد کے اندر تقسیم کرنے اور اس کے ساتھ عدل و انصاف کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔'' ايضاً ص:216
اس جرأت و ہمت کو دیکھئے کہ کس طرح دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بے خوف ہو کر حق کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دین پر وہ ایمان رکھتی ہے،نا ممکن ہے کہ وہ باطل کی تاریک شب کو اس پر قبضہ جمانے کی اجازت دے۔ اگر وہ اس کی اجازت دیتی ہے تو اپنے دین و ایمان کی موت کا اعلان کرتی ہے۔ اس لئے وہ مجبور ہے کہ سو سائٹی میں باطل کے جراثیم کو پنپنے اور دین و ایمان کی غارت گر قوتوں کو قدم جمانے کا موقع نہ دے۔
سیدہ عائشہ کی تنقید و احتساب
بنو اُمیہ کے آغازِ خلافت کا ذکر ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے گورنر اپنے خطبوں میں حضرت علی ؓ اور ان کے حامیوں پر لعن طعن کرتے تھے۔ان کی اس روش پر کوفہ کے ایک صحابی حجر بن عدی ؓ برملا تنقید فرماتے اور ساتھ ہی حضرت علی ؓ اور ان کے اعوان و اَنصار کی مدح و توصیف کرتے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ کے گورنروں نے ان کی زبان بندی کی ہر چند کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اس کے برعکس حجر بن عدی ؓ کے ہم خیال اور مؤیدین میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت معاویہ ؓ نے حجر ؓ اور ان کے بعض ساتھیوں کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔اور جب یہ گرفتار کر کے ان کے پاس لائے گئے تو ان کے قتل کا فیصلہ کر دیا۔ حضرت عائشہؓ کو اس کا علم ہوا تو فوراً عبدالرحمن بن حارث کو حضرت معاویہ ؓ کے پاس بھیجا کہ وہ اس اقدام سے باز آجائیں، لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی حجر ؓ اور ان کے سات ساتھی شہید کیے جا چکے تھے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ بے حد خفا ہوئیں اور حضرت معاویہ ؓ سے سختی سے بازپرس کی عبدالملک بن نوفل روایت کرتے ہیں کہ وہ یہاں تک کہتی تھیں:
« لو لا یغلبنا سفهاء نا لکان لي ولمعاویة في قتل حجر شأن»البداية والنهاية:8/ 55
''اگر سفہا کے غلبہ کا اندیشہ نہ ہوتا تو حجر کے قتل کے سلسلہ میں میرا اور معاویہ کا معاملہ کچھ اور ہی ہوتا۔''
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اکابر صحابہ، فتنہ و فساد کے خدشہ سے بعض غیر شرعی اُمور انجام پاتے ہوئے دیکھنے کے باوجود خاموش رہے، اسی طرح حضرت عائشہ ؓ نے بھی اس معاملہ میں بر بنائے مصلحت سکوت اختیار کیا۔ ورنہ وہ کوئی سخت قدم اُٹھانا چاہتی تھیں۔
حج کے زمانے میں حضرت معاویہ ؓ کی حضرت عائشہ ؓ سے ملاقات ہوئی تو حضرت عائشہ نے تہدید آمیز انداز میں پوچھا:
''اے معاویہ! تو نے حجر اور اس کے ساتھیوں سے جو کیا وہ کیا۔ تو نہیں ڈرتا کہ میں کسی آدمی کو چھپا کے بٹھاؤں تاکہ وہ تجھے قتل کر دے۔''
روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے معذرت کرتے کرتے بڑی مشکلوں سے ان کی خفگی کو ختم کیا۔ٌ(البدايه والنهايه:8/ 55)
رائے اور مشوروں کا حق اور اس سے استفادہ
یہ تاریخی شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے سود و زیاں اور نفع وضرر سے مسلمان عورت کسی تماشائی کی طرح غیر متعلق نہیں رہ سکتی،کیونکہ معاشرہ کے بنائو اور بگاڑ اور اصلاح و فساد سے اس کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق ہوتا ہے۔ معاشرہ کا نقصان اس کا اپنا نقصان اور معاشرہ کا فائدہ اس کا اپنا فائدہ ہے۔ وہ معاشرہ کو خیر کی بنیادوں پر قائم رکھنے میں مدد دے گی تو لازماً شر کی راہ پر لے جانے کی مخالفت اور مزاحمت بھی کرے گی۔ بھلائیوں کا خیر مقدم کرے گی تو برائیوں پر احتجاج بھی کرے گی۔ یہ اس کا فطری حق ہے جو اجتماعی زندگی نے اس کو عطا کیا ہے۔
جہاں تک اس کے ذاتی مسائل کا تعلق ہے مثلاً نکاح، خلع وغیرہ تو ان کے متعلق شریعت نے صاف اور واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس پر اپنا فیصلہ لاد نہیں سکتا جو بھی اقدام کیا جائے گا، اس کی رضا اور خوشی کے بعد کیا جائے گا۔نبی 1کا ارشاد ہے:
« لا تنکح الأیم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن»صحيح بخارى:5136
''شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اِجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔''
ایک دوسری روایت ہے : «لا تنکحوا الیتامی حتی تستأمروهن» ابن قتيبه , عيون الاخبار:1/ 27
''یتیم لڑکیوں کا نکاح ان سے رائے اور مشورہ کرنے سے پہلے نہ کر دو۔''
'یتامی' کا لفظ یہاں بہت ہی قابلِ توجہ ہے۔ شفیق و مہربان اور خیر خواہ باپ کے نہ ہونے کی صورت میں بہت ممکن ہے کوئی ظالم سرپرست بے آسرا لڑکی کو ظلم وزیادتی کا نشانہ بنا لے اور شریعت نے اس کو اپنے متعلق فیصلہ میں رضامندی کا جو حق دیا ہے، اس سے محروم کر دے۔ اس لیے خصوصی طورپر اس سے رائے اور مشورے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ عورت پر کسی حال میں بھی جبر نہ ہو۔ ان معاملات کا تعلق تو اس کی اپنی شخصیت سے ہے۔ اس سے بھی آگے حضور اکرمﷺ کی ہدایت ہے:«آمروا النساء في بناتهن»سنن ابوداؤد:2095
'' عورتوں سے ان کی لڑکیوں کے معاملہ میں مشورہ لو۔''
یہ حدیث بتاتی ہے کہ جن شعبوں سے متعلق وہ تجربات رکھتی ہے اور ان کے نفع و نقصان سے بہتر طور پر واقف ہے، ان کے سلسلہ میں اس کے افکار و خیالات خصوصی توجہ اور اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنا ہمارے لئے کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا بلکہ ان معاملات میں اس کی رائے اور مشورہ سے فائدہ اٹھانے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔
یہ اُسوہ زندگی کے کسی ایک یاچندپہلوئوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔بلکہ اس کا تعلق ہر نوعیت کے مسائل اور تمام پہلوئوں سے ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں تاریخ کے صفحات میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔
حدیبیہ کی مشہور صلح، قریش اور مسلمانوں کے درمیان جن شرائط پر ہوئی تھی ۔ ابتدا میں ان سے مسلمانوں کی اکثریت ناخوش تھی۔ ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مسلمان اس سال عمرہ کیے بغیر لوٹ جائیں گے۔ اس شرط کی وجہ سے آپﷺنے صحابہ کو حدیبیہ ہی کے مقام پر احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا، لیکن صحابہ کے جذبات اس وقت اتنے بدلے ہوئے تھے کہ اس حکم کی تعمیل ہوتی نظر نہ آئی۔ آپﷺنے افسوس کے ساتھ ام سلمہؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے صحابہؓ کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے انتہائی دانش مندانہ مشورہ دیا کہ آپ کسی سے مزید گفتگو نہ فرمائیے بلکہ جو مناسک ادا کرنے ہیں ان کو آگے بڑھ کر ادا کیجیے۔ پھر دیکھیے، کس طرح لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔چنانچہ آپﷺنے ان کے مشورہ پر عمل کیا تو صحابہ کرامؓ نے بھی آپ کو دیکھ کر فوراً پیروی شروع کر دی۔ صحيح بخارى:2733
اس طرح اُم سلمہؓ کی درست اور صائب رائے نے آن کی آن میں یہ نازک صورتِ حال ختم کر کے رکھ دی۔حضرت عمر کے بارے میں ہے کہ
«إن کان عمر لیستشیر في الأمر حتی إن کان لیستشیر المرأة فربما أبصر في قولها أو یستحسنه فیأخذ به»بيهقى10/ 113
''عمرؓ پیش آمدہ مسائل میں (اصحاب الرائے لوگوں سے) مشورہ کرتے حتیٰ کہ (ان مسائل میں سمجھ بوجھ رکھنے والی) کوئی عورت ہوتی تو اس سے بھی اور بسا اوقات ان کی رائے میں خیرو خوبی کا کوئی پہلو دیکھتے یا کوئی مستحسن چیز پاتے تو اس کو اختیار کرتے۔''
شفاء بنت عبداللہؓ کے تذکرہ میں علامہ ابن عبدالبر ؒ لکھتے ہیں:
''شفاء ہجرت سے قبل اسلام لائیں، وہ مہاجرات میں سے ہیں اور نبی کی بیعت ہوئیں۔ آپ کا شمارفاضل اور زیرک عورتوں میں ہوتا تھا۔حضرت عمرؓ ان کی رائے کو مقدم رکھتے اور اسے ترجیح دیتے تھے۔''(الاستيعاب في الأسماء الأصحاب تذكرة شفابنت عبدالله)
جس زمانہ میں حضرت عائشہ ؓ حضرت عثمانؓ کے قاتلین سے قصاص لینے کی تیاری کررہی تھیں، اپنی ایک تقریر میں فرماتی ہیں:
''لوگ عثمان کے خلاف ہو رہے تھے اور ان کے عمال پر الزامات لگا رہے تھے۔ وہ ہم سے ان کی خبروں کے بارے مشورہ کرتے تھے تو ہم نے ان سب حالات میں عثمانؓ کو بے گناہ، متقی، اور وفادار پایا جب کہ اودھم مچانے والوں کو فاجر دھوکے بازاور حیلے باز پایا۔''(تاريخ كامل:2/ 90)
اِن الفاظ سے ایک تو یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہؓ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے اعمال کا دقت ِنظر سے مطالعہ کرتی رہتی تھیں کہ کون سے اُمور حدودِ عدل و انصاف کے اندر انجام پا رہے ہیں اور کہاں ان حدود سے تجاوز ہو رہا ہے، دوسرے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عوام کے مسائل و معاملات سے حضرت عائشہؓ کا بہت ہی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور لوگ اہم سیاسی مسائل تک میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ اُن کو سلجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔
حضرت عثمانؓ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے؟اس بنیادی سوال کو لے کر بصرہ کی مشہور شخصیت اور اپنے قبیلہ کے سردار احنف، حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکے علاوہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھی جاتے ہیں۔ جب تینوں کی رائے حضرت علیؓ کے حق میں پاتے ہیں تو مدینہ جا کر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ طبري:5/ 197
عملی تعاون
مختلف سیاسی و غیر سیاسی مسائل میں عورت کی رائے اور فہم سے اسلامی معاشرہ نے جس طرح فائدہ اُٹھایا ہے، اس طرح اپنی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں بھی اس کی عملی صلاحیتوں سے وہ مدد حاصل کرتا رہا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ضرورت پر خلافت نے بھی اس سے یہ خدمات حاصل کی ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے خوارج نے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہﷺعورتوں کو جہاد پر لے جاتے تھے؟اُنہوں نے جواب دیا:«وقدکان یغزوبهن فیداوین الجرحی» صحيح مسلم:1812
''ہاں آپ ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور وہ زخمیوں اور مریضوں کے علاج معالجہ کا کام انجام دیتی تھیں۔''
«کان رسول اﷲﷺ یغزو بأم سلیم ونسوة من الأنصار فیسقین الماء ویداوین الجرحی»صحيح مسلم:1812
''رسولﷺاُم سلیم اور انصار کی بعض خواتین کو لے کر جنگ پر روانہ ہوتے تھے تاکہ وہ پیاسوں کو پانی پلائیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کریں۔
اسکے علاوہ بعض سماجی اور مذہبی کام بھی ان سے لیے گئے ہیں مثلاً امّ ورقہ بنت عبداللہ کہتی ہیں:
«کان رسول اﷲ یزورها في بیتها وجعل لها مؤذنا یؤذن لها وأمرها أن تؤمن أهل دارها» سنن ابوداؤد:591
'' رسول اللہ ان کے گھر آتے تھے انہوں نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا جو اذان کہتا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائیں۔''
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنی ایک لونڈی کو حکم دیتے تھے کہ وہ رمضان کی راتوں کی نماز (تراویح) میں ان کی گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔(المحلى:3/ 118)
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلامی معاشرہ نے عورت پر بہت سی مذہبی اور سماجی ذمہ داریاں عائد کیں اور مسلمان عورت نے اپنی خانگی فرائض کے ساتھ اپنی اِن ذمہ داریوں کو بطریق اَحسن پورا کیا ہے ۔
دورِ حاضر اور مسلمان عورت کی ذمہ داری
آج کے دور میں مسلمان عورت کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ اس کا کام صرف گھر کی دیکھ بھال نہیں بلکہ اس کی اصل ذمہ داری نئی نسل کی پرورش و نگہبانی ہے جو انفرادی توجہ اور اچھی تعلیم وتربیت کی مستحق ہے۔ گھر ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ بچوں کی پرورش و تربیت، ان میں شعائر ِ اسلامی کا احترام پیدا کرنا، اسلامی خطوط پر ان کی اُٹھان، جہادِ زندگانی میں مردوںکی سچی رفیق ثابت ہونا، ان میں حوصلہ اور ہمت پیدا کیے رکھنا، ان کی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنا اور گھر میں آمدن و خرچ کے بارے میں صحیح رویے اختیار کرنا؛ یہ وہ تمام کام ہے جو آج کی عورت سر انجام دے سکتی ہے تاکہ گھر میں سکون و چین کی فضا پیدا ہو سکے۔
حاصل کلام یہ کہ تعمیر و اصلاح معاشرہ کے کام میں باشعور اور دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ مند خواتین بہت عمدگی سے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ معاشرے میں نمودار ہونے والے بعض منفی ر جحانات تو ایسے ہوتے ہیںجن کی خواتین اوّل قدم پر ہی اپنی انفرادی کوششوں سے درونِ خانہ بیخ کنی کر سکتی ہیں۔شوہروں کے لیے جسمانی و روحانی سکون و تسکین، اپنے قول و عمل سے اولادوں کو دین داری کا درسِ اوّلین، گھروں میں توکل و قناعت اور سکون وآرام کی فضا کی فراہمی،سب فرائض سے وہ کما حقہ نمٹ سکتی ہیں۔کم آمدنیوں کو اپنے سلیقے اور محنت سے استعمال کر کے عزت اور خودداری سے رہنے کا سامان پیدا کر سکتی ہیں۔اپنے تعاون، رفاقت اور ہمت افزائی سے مردوں کو دینی اور دنیوی ترقی کے دروازے پر پہنچا سکتی ہیں۔ اپنے ہمسایوں اور عزیزوں کے سامنے اپنے کردار و اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کر کے کتنے ہی گھروں میں اصلاحِ احوال کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔دینی اجتماعات کی بدولت کتنے ہی دلوں میں اپنے اخلاق کی عمدگی،شائستگی،احترام و حسن خلق سے دین داری کا شوق پیدا کر سکتی ہیں۔ ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے حسن سلوک سے اپنے آس پاس ایک ہمدرد، مہذب، دیندار اور معاون ماحول پیدا کر سکتی ہیںاور دین کیلئے ایثار کا عملی مظاہرہ کرکے ان مجاہدات میں شامل ہو سکتی ہیں۔جن کے لیے حضورﷺ نے ان کے گھروں کو ہی میدانِ جہاد قرار دیا ہے۔