مولانا خليل احمد؛ حالات وخدمات

موت اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو انکاراورفرار نہیں مگر علما کی موت عظیم سانحہ اورالم ناک حادثہ ہے جس کی تکلیف مدت تک محسوس ہوتی ہے۔ ایسے علما میں سے ہی ایک مولانا خلیل احمد تھے جن کی جدائی کا صدمہ تازہ تازہ ہے۔ مرحوم کے احوال اور زندگی کے کوائف حوالۂ قرطاس ہیں تاکہ ان کی یاد تازہ اور تابندہ رہے اور طلبہ اور نونہالانِ ملت استفادہ کرسکیں ۔؏

مرنے والا عزیز مر کر بھی         زندہ رہتا ہے نیک یادوں سے

خاندان، ولادت اور ابتدائی تعلیم: قیام پاکستان کے وقت آپ کا خاندان موضع سنانہ روپڑ انبالہ ہندوستان سے ہجرت کر کے لیہ پنجاب چک نمبر 125 TDAنڑکی میں رہائش پذیر ہوا ۔ آپ کے والد صوفی محمد ابراہیم جبکہ دادا کا نام محمد شیخ انصاری تھا۔1947ء کے آ خر میں خلیل احمد پیدا ہوئے۔ آ پ چار بھائی تھے، وہیں دینی تعلیم اور ناظرہ قرآن مجید والد مرحوم سے پڑھا۔پرائمری تک تعلیم حاصل کی، پھر لیہ شہر گورنمنٹ ہائی سکول میں مڈل کی تعلیم حاصل کی۔ آ پ کے والد محترم متوسط درجہ کے عالم، تبلیغ کے دلدادہ اور بزرگ علماے کرام کے تربیت یافتہ تھے۔ پنجابی اشعار خوب ازبر تھے۔ کافی عرصہ چوبارہ ضلع لیہ کی جامع مسجد اہل حدیث میں امام وخطیب رہے۔روپڑی علما کی بہت عزت وتکریم اوران کی دینی خدمات کا اعتراف کرتے۔
اوڈانوالہ درس میں داخلہ: حضرت صوفی محمد عبداللہ(م1975ء)کے رفیق خادم محترم مولانا یوسف سفیرکے بیٹے مولانامحمد داؤدکے ساتھ اوڈانوالہ آئے۔٢٤جون١٩٦٢ء میں مدرسہ میں داخلہ لیا۔یہاں آپ نے مندرجہ ذیل اَساتذہ کرام سے تعلیم حاصل کی:
1. مولانا محمد شمعون صمیم وہاڑی
2. حضرت مولانا عبدالرشید اٹاروی
3. حضرت مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی ﷾
4. شیخ الا دب حضرت مولانا عبدالصمد رؤف (متوفی ٢٠٠٥ء)
5. شیخ التفسیر و الحدیث حضرت مولانا محمد یعقوب ملہوی (م١٩٨١ء؍١٣٨٧ھ)
١٩٦٧ء میں دورانِ تعلیم ہی دورۂ تفسیر حضرت مولانا محمد یعقوب بن مولانانور محمد ،گوجرہ کے پاس مکمل کیا اور سند حاصل کی۔
طالب علمی کا دور: آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ فہم اور حافظہ سے نوازا تھا، دورانِ تعلیم بہت محنتی، پابند، مطالعۂ کتب کے شائق،علما، اساتذۂ کرام کے فرمانبردار اور مؤدب تھے۔ اَساتذہ بھی آپ کا بہت خیال رکھتے۔مدرسہ کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کرتے۔ ١٧شعبان١٣٨٨ھ بمطابق٨ نومبر١٩٦٨ء بروزجمعۃ المبارک کو آپ نے سند ِفراغت حاصل کی۔
آغازتدریس: علومِ اسلامی خصوصاًعلم حدیث میں مزید پختگی حاصل کرنے کے لیے جامعہ اسلامیہ، آبادی حاکم رائے گوجرانوالہ میں داخلہ کا پروگرام بنایا جہاں حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی تفسیر ، حدیث کا درس دیتے تھے۔ آپ کے ساتھ مولانا عبدالغفور، مولانا رفیع الدین فردوسی اورراقم الحروف عبدالمجید فردوسی بھی تھے۔نصابی کتب حاصل کر لیں۔حضرت مولانا ابوالبرکات احمد مدارسی کے قیمتی نصائح سے مستفید ہوئے،اسی دوران حضرت الاستاذمولانا محمد یعقوب ملہوی اوڈانوالہ سے گوجرانوالہ تشریف لائے اور راقم الحروف اورمولانا خلیل احمد کو اوڈانوالہ لے آئے۔ جدید نظم ونسق کی تشکیل کے مراحل میں انہیں بھی مدرسے میں اُستاد مقرر کر دیا گیا۔ یہ١٨شوال المکرّم١٣٨٨ھ بمطابق٨جنوری١٩٦٩ء بروزبدھ کی بات ہے۔٧٥روپے وظیفہ مقرر کیا گیا اور استادصاحب نے فرمایاکہ جب میں نے١٩٤٦ء میں پڑھاناشروع کیاتھا، میری تنخواہ چالیس روپے تھی۔اور استاذالاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی کی ابتدا میں تنخواہ 18روپے اورایک من گندم تھی، جب گندم کا ڈیڑھ روپے فی من ریٹ تھا ۔مولانا خلیل احمدصاحب اس دن سے لے کر تا وفات اوڈانوالہ مدرسہ میں بطورِمدرّس مقیم رہے اور مدرسہ سے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔
اندازِ تدریس: اَسباق کا مطالعہ کر تے، پوری تیاری سے پڑھاتے، ابتدائی کتابیں شروع کیں اور انتہائی کتب تک تدریس کی مسندسنبھالی۔ قدرت نے حافظہ، ذوق،شوق اور خلوص سے حصہ وافر عطا فرمایا تھا،طلبہ کو ہر طرح سے مطمئن کرتے۔اسباق اور حدیث کی عبارت سنتے۔اعرابی اغلاط کی اصلاح کرتے۔کسی مسئلے میں حوالے کی ضرورت ہوتی تو کتاب منگوا کر تحقیق کرتے۔مسلک اہل حدیث سے محبت اور کتاب وسنت کے دلائل بڑی خوش اُسلوبی واضح کرتے۔ طلبہ کے ساتھ مشفقانہ رویہ رکھتے۔ اساتذہ،علما اور مصنّفینِ کتب کا ذکر احترام سے کرتے۔ضروری بات طلبہ کو نوٹ کرنے کی تلقین کرتے۔ یہی تصور جاگزیں تھا اور جس کی تلقین کرتے کہ!

لو جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے
جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے

کتابوں کے حوالے اوربعض ضروری،مفید نوٹ شروع کتاب میں درج کرتے۔اِصلاحات حواشی میں لکھتے۔علمی تاریخی اورضروری معلومات بحوالہ کتاب مع جلداورصفحہ ڈائری میں لکھتے۔
اُمورِطلبہ کی نگرانی: طلبہ کے علاج، لباس،خوراک اور رہائش کا انتظام آپ کے ذمے تھا۔ اس خدمت کو بڑی ذمہ داری اور خوشی سے نبھاتے رہے۔ طلبہ کے ذاتی معاملات اور مسائل میں ان کی مناسب رہنمائی کرتے۔ ادارہ میں تقریب،اجتماع اور جلسہ میں مطبخ اور مہمانی کے فرائض بھی آپ کے ذمہ ہوتے جسے خوش اُسلوبی سے اَدا کرتے،عموماًہرسال فارغ ہونے والے طلبہ کی دعوت کرتے۔
خطابت: آپ سادہ،عام فہم،قرآن وحدیث سے مدلّل پنجابی اشعار سے مزین خطاب کرتے۔ گاؤں کے احباب اور ارد گرد کے دینی ساتھیوں سے گہرا تعلق اور ربط رکھتے ۔شادی اور غمی میں شریک ہوتے اور مناسب حد تک معاون بنتے ۔موقع کی مناسبت سے ہلکی پھلکی شاعری کر لیتے۔ گذشتہ دنوں سند کی اہمیت پر جامعہ محمدیہ، لوکوورکشاپ،لاہور میں مقالہ بزبانِ عربی پیش کیا۔
شادی: ١٩٧٠ء میں آپ کی شادی ہوئی۔تین بیٹے اور سات بیٹیاں ہیں جن میں سے چار شادی شدہ اورصاحب اولاد ہیں۔بڑا بیٹا عالم دین ہے۔ مولوی عطاء الرحمٰن جو کہ اوڈانوالہ سے فارغ التحصیل ہیں اور جامعہ تعلیم القرآن سمندری میں 12سال مدرّس اور منتظم رہے اور اب اُنہیں دارالعلوم اوڈانوالہ میں اُستا ذمقررکردیا گیاہے اور اللہ کے فضل و کرم سے صاحب ِاولادہیں۔مولانا مرحوم کے چھوٹے بھائی مولانا عبدالوہاب جامع مسجداہلحدیث لیہ میں امام وخطیب ہیں۔
اَسناد: مولانا کے پاس اوڈانوالہ مدرسہ اور مولانا محمد یعقوب ملہوی کی ذاتی اسناد تھیں۔گوجرہ میں دورہ تفسیر کیا، وفاق المدارس کی العالمیہ کی سندپر لاہور میں١٤٠٥ھ؍١٩٨٤ء میں تعلیم اللغة العربیة والثقافة الإسلامية کے عنوان سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ نے دوماہ کی ورکشاپ منعقدکرائی، اس میں بھی شریک ہوئے اور سندحاصل کی ۔
آپ کے شاگرد: دارالعلوم تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ، ضلع فیصل آباد میں مولانا نے ٤٢،٤٣ سال بطورِ مدرّس خدمات سر انجام دیں۔کثیر تعداد میں طلبہ آپ سے مستفید ہوئے جو مرحوم کے لیےصدقہ جاریہ ہیں اور ملک کے اطراف و اَکناف میں دین اسلام کی خدمت اور علومِ اسلامیہ کی ترویج کر رہے ہیں۔
ذاتی کتب خانہ: دینی اور نصابی کتابیں،علما اور مدرّسین کا زیور اور اسلحہ ہیں۔یہ زندگی میں بہترین اور بے ضرر ساتھی ہیں ۔مولانا کے پاس ذاتی کتب خانہ تھا جس میں تفسیر ،حدیث،سیرت،فقہ، تاریخ اور اَحکام کی وقیع اور معتبر کتب جمع کیں اور مستقل الماریوں میں عمدہ سلیقے اور مرتب انداز میں محفوظ کیا۔اَحادیث کے حوالے خوب اَزبر تھے۔
مہمان نوازی: نرم طبیعت،دل نشین اندازِگفتگو اور محبت و اُلفت سے سرشار دل رکھتے تھے۔ ہمسایوں، رشتہ داروں اور تعلق داروں کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شریک ہوتے۔ہرمہمان کی خاطر مدارت کرتے۔ہلکا پھلکا مزاح اور خوش طبعی سے شاداں اور فرحاں رہتے اورساتھیوں کوبھی رکھتے۔آپ قناعت اور سادگی میں بہت سے لوگوں کے لئے بہترین مثال تھے۔
امانت و دیانت: ذاتی ڈائری میں اکثر آمدو خرچ کا حساب لکھتے ۔خصوصاً مدرسہ اور طلبہ کی ہر چیز کا اِندراج کرتے۔ امانت کی حفاظت اور اس کی کماحقہ ادائیگی کرتے۔تعاون مدرسہ؍ چندہ کا مکمل حساب بر وقت جمع کرواتے۔بیرونی سفیروں، محتاجوں اور حاجت مندوں کے لیے تعاون کی مؤثر اپیل کرتے۔کسی کی تکلیف اور صدمہ سے بے چین ہوتے اور اس کی دل جوئی کرتے کیونکہ؏

نہ ہو جس دل میں دردِ قوم وہ بھی کوئی دل ہے
نہیں وہ دل نہیں بے درد کے سینہ میں اِک سل ہے

علالت اورسفرِآخرت: ہرنیا کا کئی دفعہ آپریشن ہوا،گزشتہ سال بائیں جانب فالج کا حملہ ہوا جس سے آپ کو شفا ہو گئی ۔ جگر کی تکلیف ہوئی جس کا علاج جاری تھاکہ دوبارہ فالج کی تکلیف ہوگئی۔چند دن عزیز فاطمہ ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔ ١٧فروری٢٠١١ء بروزجمعرات گھر واپس آگئے۔ علاج جاری رہا،کمزوری بہت ہو گئی۔ کچھ طبیعت سنبھل رہی تھی کہ اَچانک٢٤فروری٢٠١١ء بمطابق٢٠ ربیع الاوّل ١٤٣٢ھ بروز جمعرات صبح پانچ بجے آخری وقت آن پہنچا۔ معمولی سی ہچکی آئی اور کھچاؤ پیدا ہوا کہ روح پرواز کر گئی۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
اسی دن عصر کے بعد آپ کی نمازِجنازہ مولانا حافظ محمد امین نے پڑھائی۔یہ جنازہ واقعی مثالی تھا۔دوردور سے علما،طلبا،احبابِِ جماعت اورواقف حضرات شامل ہوئے۔ رشتہ دار بھی بروقت پہنچ گئے۔ مغرب سے پہلے آپ کے جسدخاکی کوسپردِخاک کر دیاگیا۔
درخواست ِدعا: علما کرام، عزیز طلبا اور محترم قارئین سے اپیل ہے کہ مولانا مرحوم کی مغفرت اور بلندئ درجات کی دعا کریں۔ان کی خدمات اورحسنات کو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ان کی بشری لغزشوں سے درگزرفرمائے۔ادارہ کو ان کا نعم البدل عنایت فرمائے اور ورثا خصوصاً مولانا عطاء الرحمن کواللہ تعا لیٰ مرحوم کا حقیقی جانشین بنائے اور سب لواحقین کو صبرِجمیل عطا فرمائے!

مضى صاحبي واستقبل الدهر مصرعي
ولا بد أن القــى حمــامـــي فاصــرعا

''میرا ساتھی چلتا بنا،اب زمانہ میری موت کے درپے ہے۔ میری موت کا آنا بھی یقینی ہے اور مجھے گرا دیا جائے گا ۔''
سپاسِ تعزیت از ادارہ اوراہل خانہ: مولانا خلیل احمدکی تیمارداری اورتعزیت کرنے والے تمام علما، طلبا اوراہل اسلام کاہم دلی شکریہ اداکرتے ہیں۔ اس حوصلہ افزائی پرادارہ اور مولانامرحوم کے اہل خانہ ان کے ممنون ہیں، اللہ تعالیٰ سب کوجزاےخیر اوراجرِعظیم عطافرمائے۔آمین!