قرآن نے حب ِ الٰہی کو مؤمن کی پہچان اور ایمان کی جان قرار دیا ہے: {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ﷲِ} (البقرۃ:125) قرآن میں حب ِ الٰہی کا یہ غیر معمولی مقام اس دلیل کی مضبوطی کا باعث ہے کہ قرآن کا بنیادی تصورِ تزکیہ اللہ کی محبت ہی ہے، نہ کہ اس کی والہانہ اطاعت۔ یہ اطاعت تو اس محبت کا صرف لازمی ثمرہ ہوگی۔ یقینا حبِ الٰہی کی دین میں غیر معمولی اہمیت ایک ناقابل اختلاف حقیقت ہے۔ تاہم صوفیا کے ہاں 'حب ِالٰہی' کی بجائے 'عشق الٰہی' کی اصطلاح مستعمل ہے۔یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دین کااصل تصورِ تزکی مزید مطالعہ
قربانی کا حکم اور حکمتانسانی فطرت ہے کہ وہ جسے ملجا و ماویٰ سمجھتا ہے، اسی کے سامنے نذرونیاز پیش کرتا ہے۔ غیر اللہ کے لئے ایسا کرنا اللہ نے 'شرک' قرار دے کر منع کیا تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اس فطری جذبے کی تسکین کا راستہ بھی بنا دیا۔ انسان اگر غیر اللہ کو سجدہ کرتا تھا تو اللہ نے جہاں غیراللہ کو سجدہ کرنا حرام ٹھہرایا، وہاں اس کے متبادل کے طور پر نماز کو فرض کردیا۔ غیر اللہ اور بتوں کی نذر ونیاز کی جگہ زکوٰة کو فرض کیا۔ استھانوں کے طواف کی جگہ خانہ کعبہ کے طواف کو عبادت کا حصہ بنا دیا۔ اسی طرح مزید مطالعہ