اللہ اورسولﷺسے’محبت‘کی جائےیا’عشق‘ ؟

قرآن نے حب ِ الٰہی کو مؤمن کی پہچان اور ایمان کی جان قرار دیا ہے: {وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ﷲِ} (البقرۃ:125) قرآن میں حب ِ الٰہی کا یہ غیر معمولی مقام اس دلیل کی مضبوطی کا باعث ہے کہ قرآن کا بنیادی تصورِ تزکیہ اللہ کی محبت ہی ہے، نہ کہ اس کی والہانہ اطاعت۔ یہ اطاعت تو اس محبت کا صرف لازمی ثمرہ ہوگی۔ یقینا حبِ الٰہی کی دین میں غیر معمولی اہمیت ایک ناقابل اختلاف حقیقت ہے۔ تاہم صوفیا کے ہاں 'حب ِالٰہی' کی بجائے 'عشق الٰہی' کی اصطلاح مستعمل ہے۔
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دین کااصل تصورِ تزکیہ قرآن کے نزدیک بھی عشق الٰہی ہی ہے، دو باتوں کا ثابت شدہ ہونا ضروری ہے: ایک یہ کہ قرآن میں جس محبت ِالٰہی کا ذکر ہے، اس کا حقیقی مفہوم وہی ہے جو عشق الٰہی کا ہے اور دوسری یہ کہ قرآنی ارشادات اور اسالیب ِکلام کی رو سے اللہ کی یہ محبت ہی ا س کے دین کا بنیادی تصور ہے۔ کیا حقیقت ِواقعی یہی ہے؟ قرآن کی داخلی شہادتیں اس سلسلے میں کیا فیصلہ دیتی ہیں ، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے...

قرآن اورحب ِالٰہی

پہلی بات یہ ہے کہ قرآن میں صرف 'محبت' ہی کا لفظ استعما ل ہوا ہے جبکہ لفظ 'عشق' سے مکمل اجتناب برتا گیا ہے۔ انسانی کلام میں تو بے سوچے سمجھے بھی الفاظ کا استعمال ہوجاتا ہے لیکن کلامِ الٰہی کے ایک ایک لفظ کے انتخاب میں کوئی احتیاط، کوئی موزونیت اور کوئی معنویت ایسی نہیں ہوتی جو فکر ونظرسے اوجھل رہ گئی ہو۔ یہاں لفظ 'عشق' سے اجتناب کی کوئی نہ کوئی وجہ اور مصلحت ضرور ہے اور وہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ حب ِالٰہی کے لفظ کے جو معنی تھے، وہ اللہ کے نزدیک 'عشق الٰہی' کے لفظ کے معنی و مراد سے مختلف تھے اور چونکہ قرآن کو مطلوب قلب ِمؤمن کی وہ کیفیت تھی جس کی تعبیر وہ 'حب ِالٰہی' کے لفظ سے کرتا ہے، نہ کہ وہ کیفیت جس کا نام 'عشق الٰہی' ہے۔ اس لئے اس نے بالکل ضروری سمجھا کہ کہیں ایک جگہ بھی عشق کا لفظ نہ آنے پائے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اہل لغت نے عشق کے معنی فرط الحب کے لکھے ہیں ۔ گویا کہ ان کے ہاں محبت ِالٰہی اور عشق ِالٰہی میں فرق اصل اور حقیقت کا نہیں بلکہ صرف درجات کا ہے۔ یعنی محبت ادنیٰ درجے کی چیز اور عشق اعلیٰ درجے کی۔ دوسرے لفظوں میں یہ محبت جتنی بڑھتی جائے گی، اللہ کی نظروں میں اتنی ہی زیادہ پسندیدہ ہوتی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر وہ حد سے زیادہ بڑھے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کا مطالبہ ٔ حب ِالٰہی بہترین شکل میں پورا ہوگیا اور حد سے زیادہ بڑھ جانے والی محبت ہی کا نام 'عشق' ہے۔ اس لئے عشق اور محبت میں فرق کے باوجود عشق کے مطلوبِ تزکیہ ہونے پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
یہ اندازِ فکر بظاہر بڑا مدلل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے نزدیک بھی اس کی مطلوب محبت ِالٰہی وہی محبت تھی جو بڑھ کر عشق بن جاتی ہے تو آخر کس چیز نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اپنے اس عندیے کے صاف صاف اظہار سے روک دیا تھا؟ آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ وہ کم از کم ایک ہی بار صراحت سے فرما دیتے کہ محبت ِالٰہی اگر مطلوب ہے تو عشق الٰہی مطلوب تر ہے۔ قرآن نے نہ تو کبھی عشق کا لفظ استعمال کیا اور نہ کہیں اس کے مخصوص عملی تقاضوں کو محبت ِالٰہی کے تقاضوں کی حیثیت سے پیش کیا۔
یہ دُہری حقیقت اس امرکی کھلی شہادت ہے کہ محبت ِالٰہی اور چیز ہے اور عشق الٰہی دوسری چیز۔ دونوں میں صرف درجات کا نہیں ، بلکہ بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔

حب ِالٰہی کی اصل نوعیت

حب ِالٰہی کی اصل حقیقت پر جن آیتوں سے روشنی پڑتی ہے، ان میں سے سب سے زیادہ واضح یہ آیت ہے:

                 وَمِنَ النّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دونِ اللَّـهِ أَندادًا يُحِبّونَهُم كَحُبِّ اللَّـهِ ۖ وَالَّذينَ ءامَنوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّـهِ  (البقرۃ: 165)
'' بعض لوگ ایسے بھی جواللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ۔''

اس آیت میں ا س محبت کو جو مشرکین ِعرب اپنے معبودوں سے رکھتے تھے، بنیادی طور پر اس محبت کے مشابہ قرار دیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے۔ گویا کہ قرآن نے جس حب الٰہی کو مطلوب ٹھہرایا ہے وہ اسی طرح کی محبت ہے جو مشرکوں کے دلوں میں اپنے معبودوں کے لئے پائی جاتی تھی۔ یہ محبت کس طرح کی تھی؟ کیا یہ طبعی نوعیت کی اور عشق الٰہی کے معنی و مفہوم کی تھی یا عقلی و اعتقادی قسم کی تھی؟ کیا وہ اپنے معبودوں کو اس نظر سے دیکھتے تھے جس نظر سے ایک عاشق اپنے محبوب کو دیکھتا ہے یا ایسی نظر سے جس سے کوئی اپنے عظیم المرتبت محبوب آقا، حاجت روا اور محسن و ولی ِنعمت کو دیکھتا ہے۔ کیا ان کا منتہائے مقصود اپنے معبودوں کی عبادت سے یہ تھا کہ انہیں ان کا دیدار اور وصال حاصل ہوجائے جیسا کہ ایک عاشق کا ہوا کرتا ہے یا یہ تھا کہ ان کی خوشنودی حاصل ہوجائے۔

ہر واقف ِحال جانتا ہے کہ مشرکوں کو اپنے معبودوں کے ساتھ جو محبت تھی، وہ دوسری قسم کی اور دوسرے معنوں میں تھی، پہلے معنوں میں ہرگزنہ تھی۔ ان کا رویہ ان کے بارے میں طالب ِرضا کا تھا، طالب ِو صال کا نہ تھا اور مقصود یہ تھا کہ انہیں ان کی نظر کرم اور خوشنودی حاصل ہوجائے۔ قرآن نے اپنی مطلوبہ محبت ِالٰہی کو اس محبت کے مشابہ قرار دے کر گویا خود ہی یہ بات واضح کردی کہ مجھے جو محبت ِالٰہی مطلوب ہے، وہ بنیادی طور پر اسی قسم کی محبت ہے نہ کہ کسی اور قسم کی۔ اپنی مطلوبہ محبت کو قرآن نے مشرکوں کی 'محبت ِانداد' کے مشابہ قرار دیا ہے ۔ تاہم ا س کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ محبت اپنی وسعت اور گہرائی میں بھی اس کے بقدر ہے بلکہ صرف یہ ہے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے اعتبار سے اس کے مطابق ہے۔

دوسری آیت:

          قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّـهُ (آل عمران: 31)

''(اے نبیؐ!) کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خو د اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔''


اس آیت سے اتباعِ رسول کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے صحیح اور معیاری مفہوم میں ٹھیک وہ محبت ہے جو اس کے رسولؐ کے اندر موجود تھی۔ قلب ِرسولؐ میں اپنے اللہ سے جو محبت موجزن تھی، وہ کس نوعیت کی تھی؟ ا س کا جواب آپؐ کی عملی زندگی ہی دے سکتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ حیاتِ نبویؐ کے اعمال صاف پکارتے ہیں کہ وہ جس تخم محبت کے برگ و بار ہیں ، وہ اصلاً اللہ تعالیٰ کی عقلی واعتقادی محبت ہے نہ کہ طبعی و عشقی محبت، کیونکہ طبعی محبت (عشق) کے اَعمال و مظاہر بالکل دوسرے ہوتے ہیں ، وہ نہیں ہوتے جو حیاتِ مبارکہؐ میں پائے جاتے ہیں ۔ قرآنی ارشادات سے واضح محبت ِالٰہی کی یہ نوعیت اہل نظر سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی۔چنانچہ ابن عطا ؒ نے محبت ِالٰہی کی مشیت ان الفاظ میں بیان کی:

''أغصان تغرس في القلب فتثمر علی قدر العقول''(1)

'' اس کی شاخیں دل میں پیوستہ ہیں اور اس کی ثمر آوری بقدرِ عقل ہوتی ہے۔''

علی قدر العقولکے الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ کہنے والے کے نزدیک محبت ِالٰہی کا اصل سرچشمہ انسانی عقل ہے نہ کہ طبعی جذبات۔

سید اسمٰعیل شہیدؒ کی ذیل کی عبارت سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے، فرماتے ہیں :

''این جانکتہ ایست بس باریک کہ اکثر اہل زماں ازاں در غفلت و نسیان اندوآں تمیز است درمیان حب ِنفسانی کہ ملقب بعشق است و حب ِایمانی کہ مشہور بحب ِعقلیت'' (2)'' یہاں ایک باریک نکتہ ہے جسے اکثر وبیشتر لوگ سمجھ نہیں پاتے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ 'حب نفسانی 'جسے عشق کے ساتھ ملقب کیاجاتا ہے اور 'حب ایمانی 'جو 'حب عقلی' سے مشہور ہے میں فرق پایا جاتا ہے۔''

 

شاہ صاحب کے بیان سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ حب ِنفسانی، عشق کا اور حب ایمان، حب ِعقلی کا نام ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی مطلوبہ محبت دوسری ہے نہ کہ پہلی۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ خود راہِ تصوف کے راہی ہیں ، ان کا ارشاد بھی اس باب میں صریح ہے، فرماتے ہیں :

''خدائے تعالیٰ سے جس محبت کا امر ہے، وہ حب ِعقلی ہے نہ کہ طبعی۔ اس لئے نصوص میں حب ِطبعی یعنی 'عشق' کا عنوان کہیں مذکور نہیں بلکہ جابجا حب کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حب ِطبعی مطلوب نہیں ، بلکہ حب ِعقلی مطلوب ہے۔'' (3)مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے تعلق باللہ کی اساسات میں محبت کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ لفظ عشق کے استعمال کو تزکیہ کے قرآنی منہج کے مطابق ناقابل قبول قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں :'' یہ امر نگاہ میں رہے کہ ہم نے لفظ 'محبت' استعمال کیا ہے، 'عشق' یا اس قسم کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قرآن وحدیث میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، کہیں عشق کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ وہ یہ کہ لفظ 'عشق' ایک غیر متوازن کیفیت پر دلیل ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کا استعمال نہ صرف ناموزوں ہے بلکہ اس میں احتمال سوئِ ادب کا بھی ہے۔ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بندوں کے سارے معاملات حدودِ شریعت کے پابند ہیں ۔ اگر بال برابر بھی ان سے تجاوز ہوجائے، تو گو یہ تجاوز جذبہ عشق کی تحریک ہی سے ہو، لیکن اس سے بدعت و ضلالت میں پڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔''(4)

 

صوفیا کے ہاں لفظ 'محبت'کی جگہ 'عشق' کی اصطلاح کیوں مروّج ہوئی، اس بارے میں مولانا اصلاحیؒ لکھتے ہیں :

''انہوں نے محبت کے عام اور معروف لفظ کو اپنے جذبہ محبت کی تعبیر سے قاصر پایا اور ا س کی جگہ لفظ عشق کو اختیار کیا جو ان کے ہاں اصل محبوب لفظ ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ ایک نزاعِ لفظی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس عشق نے تصوف میں جو بدعتیں داخل کی ہیں ، ان کا شمار ممکن نہیں ۔ محبت، عشق کی طرح کوئی مبہم، مجہول اور بے قید چیز نہیں ہے، بلکہ ایک معروف، معین اور پابندِ آئین چیز ہے۔ یہ ایک جانی پہچانی کسوٹی ہے جس پر آدمی اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی پرکھ کر دیکھ سکتا ہے کہ کس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہے۔''(5)

حب ِالٰہی کا عملی اظہار

 قرآنِ مجید نے حب ِالٰہی کے عملی مفہوم کی کئی جگہ وضاحت کی ہے۔ مذکورہ صدر آیت : قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّـهُ (آل عمران: 31) سے یہ واضح ہے کہ محبت ِالٰہی کا فطری تقاضا، ضروری مظہر اور واحد لازمی ثبوت اتباعِ رسولؐ ہے۔ جوشخص اس اتباع میں جتنا زیادہ بڑھا ہوا ہوگا، اتنی ہی زیادہ اپنے اللہ سے محبت رکھنے والا قرار پائے گا۔

'اتباعِ رسولؐ 'ایک ایسا معروف لفظ ہے جس کا مدعا مسلمہ طور پر یہ ہے کہ آپؐ کے جمیع احکام کی اطاعت کی جائے۔ آپؐ قرآنی ہدایت نامے کی مکمل عملی تصویر تھے۔ اس ہدایت کی تعمیل میں آپؐ ایک طرف تو عابد ِمرتاض، خشیت و انابت کے پیکر، صبر و شکر کا مجسمہ، طالب آخرت اور رضاے مولیٰ کے حریص تھے، دوسری طرف عائلی زندگی سے لے کر تمدن و سیاست کے میدانِ کار میں بھی قرآنی ہدایت کے عملی ترجمان تھے۔ یہی زندگی ہے جو قرآنی فیصلے کے تحت محبت ِالٰہی کا واحد عملی مفہوم اور ا س کی حقیقت کا واحد لازمی مظہر ہے۔اس لئے جس کسی کی 'محبت ِالٰہی' عمل کے اس قالب میں ظاہر نہ ہوتی ہو، قرآن کی مطلوبہ محبت نہیں ہوسکتی!!

   يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْ‌تَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ
'' اے ایمان والو! تم میں سے جوشخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کولائے گا جواللہ کی محبوب ہو گی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی۔ وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور تیز ہوں گے کفار پر، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے۔'' (سورۃ المائدہ: 54)

سورۃ المائدہ کی مذکورہ بالا آیت نمبر 54 کے مطابق جن لوگوں کے دلوں میں حب ِالٰہی ہوتی ہے، ان سے یہ اعمال لازماً صادر ہوتے ہیں :

(1)   اہل ایمان سے نرمی و فروتنی کا رویہ

(2)   اعدائے دین سے سختی کی روش

(3)   نصرت و اقامت ِدین کی خاطر جہاد

(4)ہر طرح کی ملامتوں سے بے پرواہ ہوکر محض اللہ کے لئے دنیاوی مفادات کی قربانی

  قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَ‌تُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَ‌فْتُمُوهَا وَتِجَارَ‌ةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْ‌ضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَ‌بَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِ‌هِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
'' (اے نبیؐ!) آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے ،قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو ، اگر یہ (سب کچھ) تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔'' (سورۃ التوبہ: 24)

سورۃ التوبہ کی آیت24 بھی جہاد فی سبیل اللہ کو محبت ِالٰہی کی پرکھ کی کسوٹی قرار دیتی ہے۔ گویا قرآن کے نزدیک جہا دکی محبت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، دونوں ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں ۔

علامہ ابن تیمیہؒ حب ِالٰہی کے مسئلے پر بحث کرتے ہو ئے صراحت سے لکھتے ہیں :

''اتباعِ شریعت اور جہاد ہی وہ سب سے بڑا فرق و امتیاز ہے جو اللہ سے سچی محبت کرنے والوں اورجھوٹے مدعیوں کے درمیان پایا جاتاہے اور جس کے ذریعے ان اولیاء اللہ کے، جو اللہ کے واقعی محب اور محبوب ہیں ، اور ایسے مدعیانِ محبت کے درمیان تمیز کی جاسکتی ہے، جو دعواے محبت کے ساتھ مخالف ِشرع باتوں اور اپنے جی سے گھڑی ہوئی بدعتوں کا اتباع کرتے ہیں یا جو محبت کا خود ساختہ مفہوم لیتے ہیں (کہ خدا کی پیدا کردہ ہرچیز سے محبت کی جائے) تو ان کا دعویٰ محبت یہود و نصاریٰ کے دعویٰ محبت جیسا ہے۔'' (6)

عشق اور صفاتِ الٰہی

قرآن حکیم میں بیان شدہ صفاتِ الٰہی کا جائزہ ہمیں دو حقیقتوں سے آگاہ کرتا ہے: ایک یہ کہ ان میں معشوقیت کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ان صفات میں جہاں جمالی صفات ہیں ، وہاں جلالی صفات بھی ہیں ۔ تعلق باللہ کی ٹھیک ٹھیک حیثیت معلوم و متعین کرنے کے لئے اللہ کی بلا استثنا ان تمام قسم کی صفات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگرکوئی شخص ان ساری صفات کو اپنے قلب و ذہن میں جگہ دینے کی بجائے ان میں سے کچھ خاص صفات کا انتخاب کرلیتا ہے اور صرف انہی کی بنیاد پر اللہ کا تصور قائم کرتا ہے تو یہ تصور بالیقین ایک ناقص اور غلط تصور ہوگا۔ مثلاً بعض مذاہب کا یہ تصور کہ خدا صرف رحمت و محبت ہے، قرآنی نقطہ نظر سے یکسر قابل ردّ ہے۔

صفاتِ الٰہی سے متعلق ان مسلمہ حقیقتوں سے اللہ تعالیٰ کی وہ حیثیت، جس کا اپنی اس کائنات کے مقابلے میں وہ فی الواقع مالک ہے، منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سے واضح اور متعین ہوجاتی ہے۔ منفی طور سے یہ کہ یہ حیثیت 'معشوق' کی نہیں ہے اور مثبت طو ر سے یہ کہ یہ حیثیت انتہائی محبوب آقا و فرماں رواے مطلق کی ہے کیونکہ جب صفاتِ الٰہی میں معشوقیت سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو ا س کے معشوق قرا رپانے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہ جاتا۔
جب یہ بنیادی بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کی اصل مشیت فی الواقع کیا ہے تو اب دوسری بات بھی نامعلوم نہیں رہ گئی کہ اللہ اور انسان کے درمیان اصل تعلق کی نوعیت کیا ہے؟ اللہ جن 'جلالی' اور 'جمالی' دوگونہ صفات سے متصف ہے، ان سے قدرتی طور پر یہ نوعیت انتہائی محبوب آقا اور مکمل باوفا غلام، حقیقی فرمانروا اور اطاعت گزار رعیت ہی کی ہوسکتی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کی اصل حیثیت اور انسانی سے اس کے تعلق کی اصل نوعیت معلوم و متعین ہوگئی تو قرآن کے تصورِ تزکیہ کا مسئلہ بھی خود بخود حل ہوگیا۔ کیونکہ ان دونوں حقیقتوں کی موجودگی میں تزکیہ کا وہ تصور پروان چڑھ ہی نہیں سکتا جس کی بنیاد عشق الٰہی پررکھی گئی ہو۔ بلکہ وہ تصور ہی نشوونما پائے گا جو اللہ کی مکمل اور والہانہ اطاعت اور محبت آمیز عبادت پر مبنی ہوگا۔

سورۃ الذاریات کی آیت 56 {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ} میں انسان کا مقصد ِتخلیق 'عبادت' بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ کے حضور ظاہراً و باطناً جھکنا اور جذبہ اخلاص و تذلل کے ساتھ احکامِ الٰہی کی پابندی۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ قرآنی تصورِ تزکیہ عشق الٰہی والانہیں ہوسکتا کیونکہ یہ بات سراسر نامعقول ہے کہ تخلیق انسان کامقصد کچھ اور ہو اور اسے عطا کئے جانے والا تصورِ تزکیہ اور نوعیت کا ہو...!!

حب ِالٰہی کا بصیغہ امر ذکر نہ کرنے میں قرآنی حکمت و احتیاط

قرآنِ حکیم نے دوسری صفاتِ ایمان کے متعلق صاف طور سے امر و حکم کی زبان استعمال کی ہے لیکن عشق الٰہی تو کجا خود حب ِالٰہی کی تمام تر دینی اہمیت کے باوجود بھی اس کا بصیغہ امر کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کی وجہ ہمیں دینی مصالح، قرآنی حکمت ِکلام، لفظ محبت کے معنوی ابہامات اور تاریخ ِمذاہب میں ملے گی۔ حدو دِ محبت جس طرح عشق سے ملی ہوئی ہیں ، عام لوگ عشق و محبت کے الفاظ کو جس طرح بالکل ہم معنی سمجھ بیٹھے ہیں ، پیروانِ مذاہب عشق اور محبت کے نازک مگر دور رَس نتائج پیدا کرنے والے فرق کو جس طرح نظر انداز کرکے مزاج ومقصد ِدین کو کچھ سے کچھ بنا دیتے ہیں ، ان سب باتوں پرنظر ڈالنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ایسا دین کے حقیقی تصور اور غایت تزکیہ کے تحفظ کی خاطر کیا گیا ہے۔ جیساکہ مولانا صدر الدین اصلاحی فرماتے ہیں :
''دین میں حب ِالٰہی کا تقاضا تو یہی تھا کہ اس کا صریح انداز میں اہل ایمان کو حکم دیا جاتا لیکن پچھلی تاریخ مذاہب کو دیکھتے ہوئے قوی اندیشہ تھا کہ اگر 'اُعْبُدُوْا اﷲَ ' اور 'اَطِیْعُوْا اﷲ' کی طرح 'اَحِبُّوْا اﷲ' بھی فرمایا گیا تو پیروانِ قرآن کے لئے بھی کہیں اس طرح کی غلط فہمی میں پڑ جانے کی وجہ نہ پیدا ہوجائے جس طرح کی غلط فہمی میں پچھلے مذاہب والے پڑتے رہے ہیں اور کہیں وہ بھی پہلے قدم پر تو محبت ِالٰہی کو اور پھر عشق الٰہی کو دین کا بنیادی تصور نہ سمجھ بیٹھیں ۔''(7)
حب ِالٰہی کی عظیم اہمیتوں کے باوجود قرآنِ حکیم کی اس غیرمعمول احتیاط سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کو عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ سے کتنا بُعد ہے۔ عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ کے متعلق سلبی پہلو سے ضروری واقفیت حاصل کرلینے کے بعد ہمیں عشق کے بارے میں تین بنیادی سوالات کاجواب ایجابی پہلو سے معلوم کرنا ہوگا :

1۔ اس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ کیا ہے؟
2۔ اس کا فطری مزاج کیا ہے؟
3۔ اس کے بنیادی عملی تقاضے کیا ہیں ؟

(1)   سرچشمہ

پہلے سوال کا منفی جواب تو پیچھے گذر چکا ہے کہ اس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ قرآن وحدیث نہیں ہے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ اس کا ماخذ وحی الٰہی نہیں ہے، ہمارے سامنے یہ حقیقت ایک مثبت جواب بن کر سامنے آتی ہے کہ تزکیہ کا یہ تصور انسانی ذہن کی ایجاد اور اس کے اپنے ہی افکار و جذبات کی پیداوار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین میں بدعت و ضلالت کے دروازے کا کھلنا تصورِ عشق کا لازمی نتیجہ ہے۔

(2)   فطری مزاج

جس تصورِ تزکیہ کی بنیاد عشق ہو، اس کا مزاج بھی عقل و بصیرت کا نہیں بلکہ وہی ہوگا جو عشق کا مزاج ہے۔ اس لئے عشق الٰہی پر مبنی تصورِ تزکیہ کا فطری مزاج معلوم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ پہلے خود نفس عشق کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ سید اسمٰعیل شہیدؒ حقیقت ِعشق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

''عشق سے مراد وہ بے قراری و شوریدگی ہے جو اپنا مطلوب و مقصود حاصل نہ ہونے کے باعث انسان کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اور پیدا ہوکر تمام باطنی قوتوں میں سرایت کرجاتی ہے اور اس کی غایت مقصود تک رسائی اور وصالِ محبوب ہے۔ اوّلاً عشق کا مقام قلب ِانسانی ہوتا ہے پھر وہ پھیل کر تمام باطنی قوتوں پر چھا جاتا ہے اور ا س کی غایت یہ ہے کہ انسان اپنے محبوب و مطلوب کی یافت میں محو اور اپنے سے بے خبر ہورہے۔'' (8)

سید شہیدؒ کے اس بیان سے مزید عشق کی حسب ِذیل خصوصیات متعین ہوتی ہیں :

(1)   پہلی یہ کہ بارگاہِ عشق میں عقل و دانش کو کسی طرح رسائی حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ باطنی شورش، اضطراب اور تعقل میں کھلا ہوا تضاد ہے جس کسی کے اندروں میں ہرچہار طرف بے قراری چھائی ہوگی وہ عقل کو اپنے قریب ہرگز نہ آنے دے گا اور اگر آنے دے گا بھی تو صرف اس صو رت میں کہ وہ اپنے وظیفہ حیات سے دستبردار ہوچکی ہو اور کسی بات پر بھی 'کیوں ' اور 'کیا' کی گستاخی نہ کرتی ہو بلکہ ہر اداے عشق پر منطق و استدلال کی چھاپ بے تکلف لگانا اپنا فرض سمجھتی ہو۔

(2)   دوسری یہ کہ عشق انسان کو اجتماعیت گریز اور سخت قسم کا انفرادیت پسند بنا دیتا ہے حتیٰ کہ انفرادیت سے بھی پاک ہوکر انسان اپنے محبوب و مقصود کے سوا خود اپنے سے بھی بے خبر ہو رہتا ہے۔

(3)   تیسری یہ کہ عشق کے تسلط کے بعد انسان کے اندر سے توازن و اعتدال پسندی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ عشق کا معمول ایک زبردست انجذابی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ یاد محبوب اسے یوں اپنی طرف کھینچتی ہے کہ اگر وہ گردوپیش کی صداؤں پر کان دھرنا بھی چاہے تو ایسا نہیں کرسکتا۔

(4) چوتھی یہ کہ مبتلاے عشق انسان آداب و رسوم اور ضوابط کا پابند نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس کے دل و دماغ اور فکر و احساس سبھی پر محبوب کا دلآویز تصور چھایا رہتا ہے جب اسے باہر کی دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں تو وہ آداب و رسوم شرعی اور ضوابط و قوانین کو کیا جانے۔(9)

عشق کے اس مزاج کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جس تصورِ تزکیہ کی بنیاد عشق الٰہی پر ہوگی، اس کا مزاج کیا ہوگا۔ عشق کا یہ فطری مزاج قرآن میں بیان کردہ اجتماعی احکامات سے قطعی طور پر متصادم ہے۔ قرآنی ہدایت ہمہ گیر نوعیت کے احکام و مسائل پر مبنی ہے۔ احکامِ قرآنی کی یہ نوعیت تصورِ تزکیہ کو عشق الٰہی پر مبنی خیال کرنے کے خلاف ہے۔ کیونکہ عشق الٰہی کی تو عین فطرت میں یہ شامل ہے کہ انسان دنیا و مسائل دنیا سے یکسر بے تعلق ہوجائے حتیٰ کہ خود اپنے وجود کے احساس سے بھی اونچا ہو رہے۔

(3)   عملی تقاضے

تیسرا سوال عشق کے عملی تقاضوں سے متعلق ہے۔ عشق الٰہی پرمبنی تصورِ تزکیہ کے عملی تقاضوں کا ہم قطعیت کے ساتھ تعین نہیں کرسکتے (جبکہ قرآنی تصور تزکیہ کے تقاضے ہم 'حب ِ الٰہی کا عملی مفہوم' کے تحت بیان کرچکے ہیں )۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف اسی فکر کے عملی تقاضے قطعیت سے متعین کئے جاسکتے ہیں جو خود بھی متعین، منضبط اور قطعی حیثیت رکھتی ہو۔ جو محسوساتِ ذہنی کو دوسروں تک پہنچانے کے معروف اور فطری اُسلوب سے بیان کی جاسکتی ہو۔ جیسا کہ قرآنی تصور اپنی مضبوط اور منضبط بنیادوں پر استوار ہونے کی وجہ سے 'کلامِ مبین' قرار پاتا ہے۔ لیکن عشق الٰہی کے تصور کی نہ تو کوئی متعین سند ہے کہ جس کی طرف اس کے سمجھنے کے لئے رجوع کیا جاسکے، نہ ضبط ِالفاظ کے ذریعے اس کی کوئی مستند ترجمانی ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس چیز کو 'علم سینہ' کہا جاتاہے وہ بھی محض 'احساسِ سینہ' ہے جو الفاظ و عبارات کی دسترس سے بڑی حد تک باہر ہے۔ علاوہ ازیں سینوں کے احساسات اور دلوں کے جذبات بھی تو یکساں نہیں ہوتے۔ اس لئے جس تصورِ تزکیہ کا سرچشمہ احساسات و جذبات ہوں ، اس کے بارے میں کوئی اطمینان توکیا، یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی حقیقت اور صورت عام اتفاقِ رائے کے ساتھ بالکل ایک ہوگی۔ کیونکہ ایسا خیال کرنا گویا یہ مان لینا ہے کہ مختلف انسانوں کے جذبات و احساسات اور ذوق و وجدان لازماً یک رنگ ہوتے ہیں جو کہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ (10)

مولانا امین احسن اصلاحی ؒکے الفاظ میں :

''یہ محبت ہے جس کا دین میں اعتبار اور جس پر آدمی کے اُخروی مراتب کا انحصار ہے، اس کو جانچنے اور پرکھنے کے لئے خود قرآن نے ایک واضح کسوٹی بھی مقرر کر دی ہے جس پر ہر مدعی کو آپ جب چاہیں ، جانچ سکتے ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو اپنے زعم میں محبت کے زیر اثر گریباں اور دامن چاک کرکے برہنہ سر اور برہنہ پا گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور صحراؤں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں تو ان کی محبت کو پرکھنے کے لئے ہمارے پاس کوئی کسوٹی نہیں ہے اور یہ کہنا بھی ہمارے لئے مشکل ہے کہ فی الواقع یہ عشق الٰہی ہے یا عشق لیلیٰ ہے یا محض خلل دماغ ہے۔'' (11)

جب حقیقت ِحال یہ ہے تو یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ اس تصورِ تزکیہ کے اندر قرآنی تصورِ تزکیہ کی سی شانِ انضباط پیدا ہوسکتی ہے اور اس طرح اس کے سارے ہی عملی تقاضوں کو قطعیت کے ساتھ متعین کیا جاسکتا ہے۔

قرآنی دلائل اور اکابرین اُمت کی مذکورہ آرا کی روشنی میں عشق الٰہی کے تصور پر وارد ہونے والے اعتراضات کا خلاصہ یہ ہے :

(1)لفظ عشق قرآن و حدیث میں استعمال ہی نہیں ہوا۔
(2)لفظ عشق ایک غیر متوازن کیفیت پر دلیل ہوتا ہے۔
(3)تصورِعشق سے دین میں بدعت کا داخلہ ہوتا ہے۔
(4)مبہم و بے قید چیز ہونے کے باعث عشق کی پرکھ کیلئے کوئی معروف و متعین کسوٹی نہیں ۔

حو ا لہ جا ت

(1)  ابی القاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری: الرسالۃ القشیریۃ، مکتبہ مصطفی البابی، مصر، 1940ء :ص 159

(2)   صراطِ مستقیم، مطبع مجتبائی دہلی، ص:4

(3)  شریعت و طریقت، ادارئہ اسلامیات لاہور، 1981ئ، ص:125

(4)  تزکیۂ نفس، فاران فاؤنڈیشن لاہور ، 1994ئ، ج:2 ص:67۔68

(5)   ایضاً، ص:68

(6)  العبودیہ، المکتبۃ الاسلامی بیروت، 1389ھ، ص:133

(7)  دین کا قرآنی تصور، ص103

(8)  صراطِ مستقیم، ص:5

(9)  دین کا قرآنی تصور، ص:137،138

(10)  ایضاً، ص:139، 140

(11)   تزکیہ نفس: 2؍69