قربانی کا حکم اور حکمت

قربانی کا حکم اور حکمت
انسانی فطرت ہے کہ وہ جسے ملجا و ماویٰ سمجھتا ہے، اسی کے سامنے نذرونیاز پیش کرتا ہے۔ غیر اللہ کے لئے ایسا کرنا اللہ نے 'شرک' قرار دے کر منع کیا تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اس فطری جذبے کی تسکین کا راستہ بھی بنا دیا۔ انسان اگر غیر اللہ کو سجدہ کرتا تھا تو اللہ نے جہاں غیراللہ کو سجدہ کرنا حرام ٹھہرایا، وہاں اس کے متبادل کے طور پر نماز کو فرض کردیا۔ غیر اللہ اور بتوں کی نذر ونیاز کی جگہ زکوٰة کو فرض کیا۔ استھانوں کے طواف کی جگہ خانہ کعبہ کے طواف کو عبادت کا حصہ بنا دیا۔ اسی طرح انسان قدیم زمانے سے اپنے دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھاتا رہا ہے تو اسے اللہ نے صرف اپنے لئے قربانی کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک طرف تو خدا نے کہا کہ جس پر بھی غیر اللہ کا نام لیا جائے {وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ‌ اللَّـهِ بِهِ} اور جسے بھی استھانوں پر ذبح کیا جائے {وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ} حرام ہے تو دوسری طرف نماز پڑھنے اور قربانی دینے کا حکم فرمایا:{فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌} غرض یہ کہ عبادت کی اکثر وہ صورتیں جو انسان نے غیر اللہ کے لئے اختیار کی ہیں، اسلام میں اُنہیں صرف اللہ کے لئے خاص کردیا گیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ انسان کے لئے ہر نعمت کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ذہن و نفس کے عطیہ کا شکریہ ایمان و طاعت سے اور جسم کا شکریہ نماز اور روزے سے ادا ہوتا ہے۔ زرعی پیداوار اور جانوروں کا شکریہ زکوٰة کی صورت میں ایک مسلمان ادا کرتا ہے۔ اسی طرح خدا نے اپنے پیدا کئے ہوئے جانوروں پر انسان کو جو قدرت دی ہے، اس کے شکریہ کی صورت قربانی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
كَذَٰلِكَ سَخَّرْ‌نَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٣٦...سورۃ الحج
''اسی طرح ہم نے تمہارے لئے ان جانوروں کو مسخر کیا تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔''

تیسری بنیادی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ مخلوقات پر انسان کو اس قدر اقتدار و تصرف دیا گیا ہے کہ انسان سے زیادہ طاقتور جانور بھی اس کے مطیع و فرمانبردار بنا دیے گئے ہیں۔ اس کا یہ تقاضا ہے کہ انسان کسی گھمنڈ،غرورِ نفس اور اپنی بڑائی کے احساس میں مبتلانہ ہوجائے بلکہ خدا کی عظمت و کبریائی اور حاکمیت و ملکیت کا ہی اعتراف کرتا رہے۔ اس میں سب کچھ اپنی ملکیت ہونے کی غلط فہمی پیدا نہ ہونے پائے۔ چنانچہ جانوروں کے بارے میں اسی سورة حج میں فرمایا:

كَذَٰلِكَ سَخَّرَ‌هَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُ‌وا اللَّـهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ...﴿٣٧﴾...سورۃ الحج
''اسی طرح تمہارے لئے ان جانوروں کو مسخر کردیا تاکہ تم کو جو اللہ نے ہدایت دی ہے، اس پر اللہ کی بڑائی کا اعلان کرو۔''

گویا کہ اللہ کے لئے قربانی کرنا انسانی فطرت کی تسکین کا ذریعہ اور جانوروں پر انسان کو جو قدرت و اختیار دیا ہے، اس پر ربّ کی بڑائی اور شکرگزاری کا ایک طریقہ ہے۔

جدید افکار سے متاثر و مرعوب ایک گروہ نے قربانی کی شرعی حیثیت سے انکار کیا ہے۔ ان کے انکار پر مبنی اعتراضات تین حیثیتوں سے ہیں: ایک یہ کہ قرآن میں قربانی کا کہیں ذکر نہیں۔ دوسرے یہ کہ قربانی رُسومِ جاہلیت میں سے ایک رسم ہے اور وحشی قوموں کی رسم کو ملاؤں نے اسلامی شعار بنا لیا۔ تیسرا یہ کہ معاشی حیثیت سے یہ عمل نقصان دہ ہے۔

ذیل میں ہم ان اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے قربانی کی مشروعیت اور اس کی حکمت وفلسفہ کو قرآن و سنت کے دلائل کی مدد سے بیان کریں گے :

قربانی کے قرآنی احکام
قرآن میں بیان شدہ احکام قربانی تین اقسام پر مبنی ہیں:
مناسک ِحج میں سے ایک خاص منسک قربانی ہے، لہٰذا قرآن میں ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا:
وَيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌ ﴿٢٨...سورۃ الحج
''اور چند مقرر دِنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انہیں بخشے ہیں، خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔''

جس چیز کا حکم اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کو دیا تھا، اسی حکم کا اطلاق اُمت ِ محمدیہؐ پر بھی ہوا :
وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا...﴿٩٧﴾...سورۃ آل عمران
''اور اللہ کے لئے لوگوں پرحج فرض ہے جو بھی اس کے راستے کی استطاعت رکھتا ہو۔''

اسی طرح اُمت ِمحمدیہؐ کو بھی قربانی کا حکم ہوا :
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ‌ اللَّـهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌ ۖ فَاذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَيْهَا...﴿٣٦﴾...سورۃ الحج
''اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے۔ تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے۔ پس ان پر اللہ کا نام لو۔''

حج تمتع یا حج قران کے فدیہ کی صورت میں یا اِحصار جو حالت ِاحرام میں ہو، کی صورت میں قربانی کا حکم دیا ہے :
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُ‌ءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ...﴿١٩٦﴾...سورۃ الحج
''حج اور عمرے کی نیت کرو تو اسے پورا کرو۔ اور اگر تم کہیں گھر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے، اللہ کے حضور پیش کرو اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے۔''

اس سے آگے مزید فرمایا:
فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَ‌ةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ‌ مِنَ الْهَدْيِ...﴿١٩٦﴾...سورۃ البقرۃ
''جو تم میں سے زمانہ حج آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے، وہ حسب ِمقدور قربانی دے۔''

قربانی کا تیسرا حکم وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ذریعے عام مسلمانوں کو دیا گیا ہے :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُ‌وا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَ‌زَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ...﴿٣٤﴾...سورۃ الحج
''ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔''

دوسری جگہ فرمایا:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِ‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْ‌تُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣...سورۃ الانعام
''کہہ دیجئے کہ بیشک میری نماز، میری قربانی، زندگی اور مو ت اللہ پروردگار عالم کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور یہی مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے مسلمان ہوں۔''

اس آیت میں{وَبِذَٰلِكَ أُمِرْ‌تُ} قابل توجہ ہے، یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اور{أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ} ''یعنی تمام مسلمانوں کے لئے سنت بنا دی۔'' سورئہ کوثر میں فرمایا: {فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌} ''پس اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھو اور قربانی دو۔''

اوقات ِ قربانی کا تعین:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی جو شکل متعین فرمائی، یہ بھی ا س بات کا ثبوت ہے کہ قربانی اللہ کے حکم سے ہے۔ چنانچہ ایک تو دوسری عبادات کی طرح قربانی کو بھی ویسے ہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اس میں اجتماعی رُوح پیدا کرنے کے لئے اس کا ایک دن مقرر کیا تاکہ معاشرے میں وحدت و یگانگت کا ماحول پیدا ہو۔ دوسرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق نماز کو قربانی پر مقدم رکھا، یعنی {إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي} اور {فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌} کے حکم کے عین مطابق۔ ہر معاشرہ فطری طور پر چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں جس میں وہ مل جل کر خوشی کا اظہار کرسکیں۔ اسلام میں تہوار کی یہ صورت ہے کہ اس کا آغاز عبادت سے ہو۔

عیدالاضحی ؛ ایک تاریخی دن: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے خوشی کا یہ تہوار اس دن مقرر فرمایا جس دن تاریخِ اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ ظہور میں آیا ؛ اطاعت ِخداوندی کا عظیم مظہر، ایمانی زندگی کا منتہائے مقصود اور مثل اعلیٰ کی عظیم یادگار اور رضاے الٰہی کے حصول کے لئے سب کچھ نچھاور کرنے کے لازوال واقعہ کے ظہور کا دن۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھا گیا: یا رسول اﷲ ما ھذہ الأضاحي؟ یعنی یہ قربانیاں کیسی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سنة أبیکم إبراھیم)1
''یعنی یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے۔''
گویا کہ قربانی سنت ابراہیمی تھی جسے آپ ؐ نے زندہ کیا۔

قربانی کو عالمگیر بنانے کی حکمت: فرضیت ِحج کے بعد جب پہلے سال حج کا زمانہ آیا تو کفارِ مکہ کی طر ف سے حرم کے دروازے بند کرنے پر مسلمانوں کو یہ بات بہت کھل رہی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے غم کی تلافی کے لئے ایامِ حج کو مدینہ ہی میں ان کے لئے ایامِ عید بنا دیا اور اسے فتح مکہ کے بعد عام کردیا اور اسی طرح ہم اپنے گھروں میں ہونے کے باوجود حجاج کے عمل میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور حج اُنہی تک محدود نہیں، ساری دنیا کے کروڑوں مسلمان ان حجاج کے شریک ِحال ہوتے ہیں۔

قربانی کی حقیقی رُوح :قربانی کا جو طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا، وہ یہ تھا کہ عیدالاضحی کی نماز کے بعد قربانی کی جائے اور جانور ذبح کرتے وقت یہ کہا جائے: انی وجھت وجھي۔۔۔ ''میں اپنا چہرہ اسی طرف کرتا ہوں۔۔۔'' اور إن صلاتي ونسکي۔۔۔ ''بے شک میری نماز اور میری قربانی اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔۔۔'' ان الفاظ پر غور کریں، ان میں وہ تمام وجوہ شامل ہیں جن کی بنیاد پر قرآن قربانی کا حکم دیتا ہے : اس میں اس بات کا اعلان ہے کہ دیوتاؤں کے لئے قربانی دینے والوں کے برعکس ہم صرف ربّ ِواحد کے لئے یہ عبادت کرتے ہیں۔

جانوروں سے جو فائدہ اُٹھانے کی نعمت ملی ہے، اس کے شکریے کے لئے ہم یہ نذر پیش کرتے ہیں۔
اس مال کے اصل مالک ہم نہیں بلکہ خدا کی کبریائی کے لئے یہ نذرگزار رہے ہیں۔
جس طرح حکم دیا گیا تھا، اسی طرح نماز پڑھ کر اب خالصتاً اسی کے لئے قربانی دیتے ہیں۔
اس میں عہد ہے کہ اللہ کے لئے ہماری نماز اور قربانی ہی نہیں، ہمارا مرنا جینا بھی اسی کی ذات کے لئے ہے۔ اور یہ عہد اس دن ہوتا ہے جس دن اللہ کے دو بندوں نے اس پر عمل کرکے دکھایا تھا۔

قربانی کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی اندرونی شہادت
اُوپر کے نکات میں غور کرنے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خداداد بصیرت و حکمت نمایاں نظر آتی ہے کہ اگر قربانی کے سنت ِ رسولؐ ہونے کی کوئی اور شہادت نہ بھی ہو تو تب بھی اس کے اس طریقہ کی اندرونی شہادت خود یہ بتا دینے کے لئے کافی تھی کہ اس کو اسی خدا کے رسول نے مقرر کیا جس پر قرآن نازل ہوا ہے۔ غیرنبی ان ارشادات سے کبھی بھی یہ منشا نہ پاسکتا کہ دنیاے اسلام کے لئے قربانی کا ایک دن مقرر ہو، اسے یوم العید قرار دیا جائے،یہ دن سنت ِابراہیمی کی یادگار ہو، قربانی کے دن زمانہ حج کے مطابق ہوں اور یہ قربانی ایسے طریقوں سے ادا ہو کہ اس سے اسلام کے تقاضے پورے ہوں۔ قربانی کے سنت ِرسولؐ ہونے کی اندرونی شہادت کے علاوہ اس کی خارجی شہادتیں بھی اتنی زیادہ اور مضبوط ہیں کہ بجز ہٹ دھرم آدمی کے کوئی انکار نہیں کرسکتا...!!

احادیث سے قربانی کا ثبوت:پہلی خارجی شہادت وہ کثیر روایات ہیں جو معتبر کتب ِحدیث میں موجود ہیں، مثلاً
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'' جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔'' 2

حضرت براء بن عازب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ
''ہماری آج کے دن پہلی عبادت نماز اور پھر ذبح کرنا ہے۔ پس جس نے اس طریقے پر عمل کیا، اس نے ہماری سنت پالی۔''3
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل بھی انہی ارشادات کے مطابق رہا۔ چنانچہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورؐمدینہ میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کرتے رہے۔ 4

ابن عمر ؓہی کی ایک اور روایت میں آتا ہے کہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں ہی ذبح اور نحر فرمایا۔''5

فقہاے اُمت کا اتفاق :دوسری خارجی شہادت یہ ہے کہ کسی ایک فقیہ کا قول بھی قربانی کے اس عمل کے خلاف نہیں۔ فقہاے اُمت سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ سب کے سب بلاتحقیق اس فعل کو سنت مان بیٹھتے اور وہ بھی ایسے زمانے میں جبکہ تحقیق کے ذرائع بھی موجود تھے اور ذوقِ تحقیق بھی فراواں تھا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ 80ہجری میں پیدا ہوئے گویا کہ رحلت ِنبویؐ کے صرف ستر سال بعد، پھر تیس سال خلافت ِراشدہ کا دور ہے۔ ابھی طویل العمر صحابہؓ موجود تھے۔ کوفہ بھی دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے صحابہؓ کا ایک بڑا مرکز تھا۔ اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 93ہجری کی ہے۔ ساری عمر مدینة النبي ﷺ میں گزری۔ جہاں تمام بزرگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا مشہور اور معروف عمل ان سے پوشیدہ رہا ہو یا اُنہوں نے اس کی تحقیق نہ کی ہو۔

تعامل اُمت : تیسری خارجی شہادت اُمت کا مسلسل تعامل ہے جس میں ایک سال کا بھی انقطاع نہیں ہے۔ یہ تعامل ایسا ہی ہے جیسے قرآن کے ہم تک پہنچنے میں تواتر پایا جاتا ہے۔ اگر چودہ سو سال بعد کوئی شخص اس تعامل کو مشکوک قرار دے تو پھر اسلام کی کون سی چیز باقی رہ جائے گی۔

منکرین قربانی کے دلائل کا رُوحانی اعتبار سے جائزہ
جو لوگ قربانی کے بارے میں مرعوبیت کا شکار ہیں، ان کے پاس سب سے بڑی وزنی دلیل یہ ہے کہ اس سے مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ قربانی پر خرچ ہونے والی اتنی خطیر رقم اگر رفاہِ عامہ یا قومی ترقی کے کسی کام میں خرچ ہو تو ہر سال کئی ترقیاتی پراجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ دینی عمل کی اہمیت و افادیت جانچنے کا یہ ایک خالص مادّہ پرستانہ رویہ ہے۔ اس لئے کہ
جس چیز کا حکم اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، اس میں مال اور محنت کا ضیاع تصور کرنا، بجائے خود دین کے فہم سے ناآشنا ہونے کی علامت ہے کیونکہ مسلمان کے لئے اس کے مال سے بھی زیادہ قیمتی چیز اس کا ایمان ہے اور ایمان کا ضیاع وہ کسی صورت قبول نہیں کرسکتا اور جس عمل اور عبادت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہو، اس میں چاہے کتنا ہی خرچ ہو، وہ اس کو مال کا ضیاع تصور نہیں کرسکتا۔

اسلام کی نگاہ میں رفاہِ عامہ کی بھی قدروقیمت ہے۔ مگر مسلمان کا شرک سے محفوظ رہنا زیادہ قیمتی ہے۔ اسلام میں خدا کے لئے ہی سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ ہی وہ بنیادی محرک ہے جو تمام رفاہی و خدمت ِخلق کے کاموں کی بنیاد بنتا ہے۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی جو شکل مقرر فرمائی ہے، کوئی چیز اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ اگر مالی خسارے کے پیش نظر عبادات میں تغیر و تبدل کی راہ نکال لی جائے تو پھر اس سے کوئی عبات بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ حج کے بارے میں کہا جائے گا کہ اتنی خطیر رقم اور اتنا قیمتی وقت خرچ ہوتا ہے، اس کی بجائے اسے ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے تو اتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں، ترکی میں اس قسم کے دلائل کی بنیاد پر پچیس سال تک حج کرنے پر پابندی لاگو رہی۔ نماز میںصرف ہونے والے وقت کا حساب لگا کر بتایا جائے گا کہ اس سے اتنا قومی خسارہ ہوتا ہے، اس وقت کو کسی مفید کام میں صرف کیا جائے، یہ قیاس بھی محض فرضی نہیں ہے بلکہ سوویت روس میں شامل مسلمان ریاستوں میں بہت سے ناصحین نے نماز کے انہی نقصانات کی منطق سے لوگوں کی نماز چھڑوائی۔ یہی منطق روزے کے بارے میں اختیار کی جاسکتی ہے کہ اس سے جسمانی توانائی متاثر ہوتی ہے جس سے کام اور محنت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح مسلمان اگر مادّی پیمانوں سے عبادات کو پیمائش کرنے لگے گا تو کبھی اس کے روحانی پہلو سے مستفید نہ ہوسکے گا جو کہ مذہب کا اصل موضوع ہے۔ اس لئے :


یہ پیمانے یہ سزائیں اُٹھالو، جذبہ ایماں
اسے ناپا نہیں جاتا، اسے تولا نہیں کرتے


اجتماعی نقطہ نظر سے
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو اپنے قومی تہواروں اور اجتماعی تقریبات پر کروڑوں روپیہ صرف نہیں کرتی۔ کیونکہ ان چیزوں کے تمدنی و اجتماعی اور اخلاقی فوائد اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کے مادّہ پرست معاشرہ میں بھی کرسمس پر کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہندو بنیا بھی اپنے قومی و مذہبی تہواروں پر اتنا خرچ کرتا ہے۔ پھر ہم خود مختلف قسم کے جشنوں پر حکومتی سطح پر کتنا بے دریغ خرچ کرتے ہیں، وہاں ہم کوئی قدغن لگانے کے لئے تیار نہیں جبکہ عیدالاضحی کی تقریب تو بہت ہی سادہ و کم خرچ اور روحانیت سے بھرپور ہوتی ہے۔

اقتصادی نقطہ نظر سے
خدا نے قربانی کے لئے فرمایا: {لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ‌} یعنی اس میں تمہارے لئے بھلائی ہے اور حکم دیا کہ اس کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤ اور محتاج فقیر کو بھی دو:
{فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ‌} تو اس میں مالی ضیاع کیسے ہوا ؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ پیسہ قوم میں ہی رہتا ہے اور زیادہ امیر سے کم امیر یا غریب کی طرف آتا ہے۔ ہزارہا چرواہوں کو ایک معقول رقم یک مشت مل جاتی ہے۔ ہزاروں قصائیوں کو ذبح کرنے کی اُجرت حاصل ہوتی ہے۔ لاکھوں غریبوں تک کھالوں کی رقم پہنچتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بہت سے لوگوں کو ہفتوں اور مہینوں کی اچھی قوت بخش خوراک ملتی ہے۔ اب تو یہ گوشت چند گھنٹوں میں دنیا بھر میں مہاجرین و مجاہدین تک بھی پہنچایا جاتا ہے۔ جس سے کم آمدنی والے یا بے بس لوگ بھی اچھی خوراک سے استفادہ کرلیتے ہیں، یہ گوشت ضائع تو نہیں ہوتا۔

جو لوگ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی کمی اور دودھ گھی کی قلت کا رونا روتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ جانوروں کا قحط پیدا کرنے کے لئے اس سے بڑا نسخہ کوئی نہیں کہ ان کی کھپت گھٹا دی جائے۔ کیونکہ جب جانور پالنے والوں کو اس شعبے میں کوئی خاص فائدہ ہی نظر نہ آئے گا تو وہ اپنی روزی کسی اور کام میں تلاش کریں گے۔

پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مختلف جانوروں اور درندوں کی نسل کے ختم ہونے کی ہم خبریں پڑھتے رہتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں سنا گیا کہ گائے یا بھیڑبکری کی نسل کے خاتمے کا اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیز اللہ کے نام پر ذبح ہوتی ہے ،اس کی نسل کبھی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اللہ اسے بڑھاتا اور اپنی خاص حکمت وتدبیرسے ان میں اضافہ کرتا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ جانور کے گلے پر چھری چلانا دراصل اس عزم کا اظہار ہے: اے اللہ! تو نے ہم سے جانور کا مطالبہ کیا، ہم نے اس کے گلے پرچھری رکھ دی، لیکن اگر تو ہماری جان بھی مانگے تو وہ بھی اسی طرح حاضر ہے جس طرح حضرت اسماعیل ؑ نے اپنی جان کو پیش کردیا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے یہ چھری اپنے بیٹے کے گلے پر نہیں بلکہ اپنی تمام تمناؤں اور خواہشات پر پھیری تھی اور ایک مسلمان بھی اس روز اسی عہد کو تازہ کرتا ہے۔


حوالہ جات
1. ضعیف سنن ابن ما جہ :672
2. صحیح سنن ابن ماجہ:2532
3. صحیح سنن نسائی:1472
4. ضعیف سنن ترمذی:261
5. صحیح سنن النسائی:4070