ترقی سائنس، ارتقا اور معیارِ زندگی کی بلندی کے مفروضات کی تلاش میں سرگرداں ہونے سے قبل اس سوا ل پرنہایت گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے کہ رسول اللہﷺ تاریخ کے کس موڑ پر تشریف لائے؟ جب آپؐ دنیا میں آئے تو اس دنیا کا کیانقشہ تھا؟ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت کے لیے جس خطے کا انتخاب کیا،اس کی جغرافیائی اہمیت و حیثیت کیا تھی؟
حرمین شریفین کی جغرافیائی اہمیت اور حیثیت
مکہ مکرمہ قدیم اور جدید جغرافیہ دانوں کی تحقیق کے مطابق دنیا کے وسط میں واقع ہے۔ گویا کائنات کی مرکزی ہستی ختمئ مرتبﷺ کو کائنات کے مرکز میں مبعوث کیا گیا، اس بعثت کے ذریعے خانۂ کعبہ کی مرکزیت کو دنیا کے لیے ایک مرتبہ پھر ابد تک قائم کردیا گیا کہ اب پوری دنیا کو رہتی دنیا تک اس مرکز ِخداوندی اور اس مرکزی ہستی رسالت مآبﷺ کے ساتھ دائمی تعلق قائم کرنا تھا جو تمام عالمین کے لیے رحمت اور كافةً للناس ہیں اور آپﷺ کا پیغام پوری دنیا کے لیے آخری، حتمی، قطعی اور ابدی پیغام ہے۔
جزیرۃ العرب کی جغرافیائی اہمیت یہ ہے کہ دنیا کے تین برّاعظم اس سے ملتے ہیں۔ حج کی عبادت کے باعث دنیا بھر کے تجارتی قافلے جزیرۃ العرب کے ذریعے اس سرزمین سے، جونہ صرف مرکز کائنات [Centre of Universe] بلکہ ازل سے ابد تک کے لیے مرکز رُشد و ہدایت بھی ہے؛ تجارت، کاروبار، حج اور اسفار کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہتے تھے اورپیغام رسالت مآبﷺ ان قافلوں کے ذریعے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں فطری طریقے سے پہنچ سکتا تھا۔ یہ پیغام لے جانے والے پیامِ رسالتﷺ کی صرف زبانی ترسیل نہ کرتے بلکہ پیغام دینے والے پیامبر کی سیرت اور شخصیت کے گوشوں سےبھی ذاتی طور پر واقف ہوتے تھے، کیونکہ وہ قرآنِ مجسم رسالت مآبﷺ کو جزیرۃ العرب کے گردوغبار، درودیوار، دیار و اَمصار، کوچہ و بازار اورنقش و نگار میں ایک نورانی و روحانی وجود کے طور پر چلتا پھرتا ہوا پاتے تھے۔ ایک لفظی قرآن تیس سپاروں میں بند تھا اور دوسرا عملی قرآن مکہ کے گلی کوچوں میں شب و روز اُن کے درمیان موجود تھا جس کے ایمان کی حرارت سے پتھردل پگھل رہے تھے اور صحرا میں موجود ریت کے ذرّوں کوبھی شعور حاصل ہورہا تھا۔ آپؐ کی سیرت کے گوشے ان کے لیے مہر جہاں تاب کی کرنوں کی طرح روشن تھے۔ یہ پیغام رسانی' عین الیقین' کے درجے میں ہوتی تھی۔
بعثت ِنبویؐ کے وقت قومِ حجاز کی تمدنی حالت
عالم عرب کے ایک جانب یونانی فلسفے، سائنس، منطق، تہذیب و تمدن کے آثار محفوظ تھے تو دوسری جانب ایران، چین، ہند او رروم کی تہذیبیں اپنے علوم و فنون کی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ تھیں۔ فلسفہ، سائنس، ٹیکنالوجی اور علومِ عقلیہ میں جزیرۃ العرب ان اقوام سے مسابقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ جس قوم، بنو اسمٰعیل میں آپؐ تشریف لائے وہ 'اُمیون' تھے۔ صرف اہل کتاب اس خطے میں لکھنے پڑھنے سے واقف تھے۔ اس کے برعکس مدارس اور جامعات کے ذریعے تعلیم یونان، ہند، چین اور ایران کے خطوں میں عام تھی۔ ان خطوں سے متصل ماضی کی مِٹی ہوئی تہذیبیں: ہڑپہ، موہنجودڑو و ٹیکسلا کے آثار بھی اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ رسالت مآب ﷺ کو ان کی آمد سے پہلے کی عظیم الشان قوموں اور ان کے عہد میں موجود مخالف تہذیب و تمدن کے علوم عقلیہ[Natural Philosophy, Science & Technology]سے کچھ عطا نہیں کیا گیا۔
چین، ہند ، روم، یونان اور ایران کی عمارات کے مقابلے میں مدینۃ النبیؐ میں کوئی ایک عمارت عہدِ رسالت میں تو کیا اس کے بعد بھی ماضی قریب تک تعمیر نہیں کی جاسکی تو آخر کیوں؟ اُنیسویں صدی کے آخر تک مکہ معظمہ میں فراہمئ آب و نکاسئ فضلات[Water and Drainage System] کا کوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں تھا، جبکہ رسالت مآبﷺ کی آمد سے تین ہزار سال پہلے کی تہذیب موہنجودڑو میں نکاسی غلاظت کا زبردست نظام موجود تھا۔ مدینۃ النبیؐ میں اس طرح کی سڑکیں، گلیاں، بازار، مکان، سماعت گاہیں [Auditorium]اور یونیورسٹیاں موجود نہ تھیں جو رسالت مآبﷺ کی آمد سے پہلے موہنجودڑو ، ہڑپا ، ٹیکسلا، یونان اور روم وغیرہ کی تہذیبوں میں موجود تھیں۔ اتنی عظیم الشان تہذیبوں، قوموں اور تمدنوں کے مقابلے میں جو ہر قسم کے علوم وفنون سے آراستہ تھیں، ایک ایسی ہستی کو کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا جو نہ لکھنا جانتی تھی، نہ پڑھنا جانتی تھی:
﴿وَما كُنتَ تَتلوا مِن قَبلِهِ مِن كِتـٰبٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذًا لَارتابَ المُبطِلونَ ٤٨ ﴾.... سورة العنكبوت
''اے نبیﷺ! آپ اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے او رنہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے؛ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔''
اصل علم وحکمت کیا اور اُمیّت کیا ہے؟
ایسی ہستی کا انتخاب کرنے کی حکمت مالکُ الملک کے سوا کون جان سکتا تھا؟ عرب میں یہودی بھی لکھنے کے فن سے واقف تھے مگر اس فن کی خالق کائنات کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی کہ یہودی اس کتاب کوبھلا چکے تھے جو زندگی کا سرچشمہ تھی لہٰذا اس سرچشمے سے لاتعلقی کے بعد کوئی علم اور کوئی ہنر پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا۔ رسالت ِمآبﷺ میں اُمّی ہونے کی صفت کو عیب کے بجائے اس ہستی کے حق میں ہنر اور کمال قرار دیا گیا اور قرآن نے'اُمّی'کے لقب سے آپﷺ کو اور آپؐ کی قوم کو خود پکارا۔
یہ پکار، یہ اعلان اس امر کا استعارہ ہے کہ اے اہل عالم! تمہاری نظر میں جہل اور علم کے دائرے، اس کےاُصول و منہاج، پیمانے اور معیارات، اس کے اندازے،اس کو پرکھنے کے تمام طریقے او راس کی تمام تعریفیں بالکل غلط ہیں۔ تم عظیم الشان عمارتوں، کتابوں، کتب خانوں، اداروں، مدرسوں، فلسفوں، سائنس و منطق کو علم سمجھتے ہو مگر یہ کیسا علم و عقل اور کیسی روشنی ہے کہ تم حقیقت ِکائنات اور مالکِ حقیقی کی معرفت سے محروم ہو۔ وہ علم جو تمہیں حقیقت الحقائق سے وابستہ نہ کرسکے، وہ قیامت تک علم نہیں، جہل ہے۔ علم وہ ہے جو تمہیں اپنے خالق کی معرفت سے آگاہ کرے اور اپنی آخرت سنوارنے کے طریقے بتائے لہٰذا اصلاً اُمّی رسالت مآبﷺ نہیں ؛اہل یونان، روم، ہند، چین و ایران ہیں جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہیں؛ جو اپنے مالک حقیقی کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ جو اس نور سے محروم ہو، اس سے بڑا محروم کون ہوسکتا ہے؟
اُمّی ہونے کے باوجود رسالت مآبﷺ پر علم کس ذریعے سے نازل کیا گیا؟ کیا قلم سے؟ جس کی قسم سورۃ العلق میں کھائی گئی۔ کیا کتاب سے؟ جو اس عہد کے تمام بڑے تمدنوں میں موجود تھی۔ کیا قرطاس سے؟ جو اس عہد کے لوگوں کے لیے اجنبی نہ تھا۔ بلکہ علم آپﷺ کے قلب ِاطہر پر نازل کیا گیا کہ یہی قلب علم کا اصل سرچشمہ ہے۔ انبیا اسی قلب کو درست کرنے کے لیےبھیجے جاتے ہیں جس میں باطل نقب لگاتا رہتا ہے:
﴿قُل مَن كانَ عَدُوًّا لِجِبريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلىٰ قَلبِكَ بِإِذنِ اللَّهِ ..... ٩٧ ﴾.... سورة البقرة
''ان سےکہو کہ جبرئیلؑ نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن آپکے قلب پرنازل کیا ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے رسالت مآبﷺ کی رسالت کو قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے وسیع فرما دیا اور آپ پر نبوت کا اختتام کردیا۔ آپ كافة للناس ہیں، آپ کی ہستی کو اللہ تعالیٰ نے ابد تک کے انسانوں کی زندگی سنوارنے، ان کو کتاب او رحکمت کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث فرمایا :
﴿هُوَ الَّذى بَعَثَ فِى الأُمِّيّـۧنَ رَسولًا مِنهُم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ٢ ﴾.... سورة الجمعة
'' وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُنھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور اُنھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے یقیناً یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔''
ان زمانوں کے لیے جو سائنس و ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہونے کا دعویٰ کریں، قرآن نے واضح کردیا کہ اس رسول کی بعثت ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے نہیں ملے ہیں :
﴿وَءاخَرينَ مِنهُم لَمّا يَلحَقوا بِهِم وَهُوَ العَزيزُ الحَكيمُ ٣ ﴾.... سورة الجمعة
'' اور دوسروں کے لیے بھی انھی میں سے جو اَب تک ان سے نہیں ملے۔''
رسالت مآبﷺ کو اپنے عہدکے عظیم الشان تمدنوں کے سامنے کھڑا کرکے دنیا کو قیامت تک کے لیے بتا دیا گیا کہ اصل علم و دانش اور روشنی و نور وحی الٰہی او رعلومِ نقلیہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اس روشنی، نور اور دانش سے محروم معاشرے مادّی طور پر خواہ کتنے ہی عظیم الشان ہوں، وہ تاریک ترین اورجہالت میں غرق ہیں اور اُن کو جہالت سے نکال کر روشنی میں لانا اُمت ِوسط کی بنیادی ذمہ داری ہے، جو صبح قیامت تک برقرار رہے گی۔
رسالت مآبﷺ کو قرآن نے 'سراجِ منیر' کے نام سے پکارا، اس لیے کہ العلم، الکتاب آجانے کے بعد روشنی اورعلم آجاتا ہے اور'اُمّیت'باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا قرآن نے اُمّی اُن کو کہا جو اپنی قوم کے ایک بے مثال فرد پر روشنی، نور، فرقان، میزان، فصل الخطاب، حکم، لب، ضیا، ذکر، حکمت، خیرکثیر اور العلم نازل ہونے کے باوجود اس سے دانستہ محروم رہے، جو الکتاب کے نزول کے باوجود اس نور سے پھوٹنے والے علم سے بے بہرہ تھے:
﴿وَمِنهُم أُمِّيّونَ لا يَعلَمونَ الكِتـٰبَ إِلّا أَمانِىَّ وَإِن هُم إِلّا يَظُنّونَ ٧٨ ﴾.... سورة البقرة
''ان میں ایك د وسرا گروہ اُمیّوں کا ہے جوکتاب کا تو علم نہیں رکھتے بس اپنے بے بنیاد آرزوؤں او راُمیدوں کو لیےبیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔''
حقیقی علم کے حامل وعامل ہونے کا نتیجہ دین ودنیا کی سرفرازی ہے!
کتابِِ ہدایت سے محرومی اور العلم کے مقابلے میں وہم و گمان کی پیروی اور بے بنیاد اُمیدوں و آرزوؤں کے لیے سرگرمی'اُمّیت'ہے اوراِسے ترک کرنا نور، روشنی، برہان، فرقان، عرفان، ایمان، سراج اور چراغ ہے۔ اس روشنی کانتیجہ وہ عظمت، رعب و دبدبہ، ہیبت و فضیلت اور اِعزاز و اکرام ہے جو حامل وحی گروہ کوروئے زمین پر عطا کی جاتی ہے:
﴿كُلًّا نُمِدُّ هـٰؤُلاءِ وَهـٰؤُلاءِ مِن عَطاءِ رَبِّكَ وَما كانَ عَطاءُ رَبِّكَ مَحظورًا ٢٠ انظُر كَيفَ فَضَّلنا بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَلَلءاخِرَةُ أَكبَرُ دَرَجـٰتٍ وَأَكبَرُ تَفضيلًا ٢١ ﴾.... سورة الاسراء
''تیرے ربّ کی طرف سے اس کی عطا ہر ایک کو پہنچتی ہے۔ تیرے پروردگار کی بخشش کہیں رکی ہوئی نہیں۔ مگر دیکھ لو کہ دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت میں اس کے درجے اور بھی زیادہ ہوں گے اور اس کی فضیلت او ربھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی۔''
اس فضیلت کا ایک اثر قرآن نے یہ بھی بیان کیاکہ اس گروہ کے کردار، اقبال اور گفتار کے باعث اللہ تعالیٰ اہل عالم کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا فرما دیں گے ۔ یہ عزت، محبت، برتری اور فضیلت سائنس وٹیکنالوجی کی بنیاد پر نہیں، علم صحیح اور اعمالِ صالحہ کے صلے میں عطا ہوگی۔اس محبت کا سبب ان کی اخلاقی و روحانی ایمانی فضیلت ہوگی اورکچھ نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں :
﴿إِنَّ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ سَيَجعَلُ لَهُمُ الرَّحمـٰنُ وُدًّا ٩٦ فَإِنَّما يَسَّرنـٰهُ بِلِسانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ المُتَّقينَ وَتُنذِرَ بِهِ قَومًا لُدًّا ٩٧ ﴾.... سورة مريم
''یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عمل صالح کررہے ہیں، عنقریب رحمٰن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کردے گا۔ پس اے نبیﷺ! اس کلام کو ہم نے آسان کرکے تمہاری زبان میں اس لیے نازل کیا ہے کہ تم پرہیزگاروں کو خوش خبری دے دو۔''
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے ربّ سے اپنی اولاد کے لیے دعا فرماتے ہوئے یہ آرزو کی تھی کہ
﴿رَبَّنا إِنّى أَسكَنتُ مِن ذُرِّيَّتى بِوادٍ غَيرِ ذى زَرعٍ عِندَ بَيتِكَ المُحَرَّمِ رَبَّنا لِيُقيمُوا الصَّلوٰةَ فَاجعَل أَفـِٔدَةً مِنَ النّاسِ تَهوى إِلَيهِم وَارزُقهُم مِنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُم يَشكُرونَ ٣٧ ﴾.... سورة إبراهيم
'' اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کے جنگل میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔''
یہ مرتبہ اور فضیلت تاریخ کے کسی بھی دور میں، کسی بھی مرحلے پر اور کسی بھی وقت حاصل کی جاسکتی ہے، لیکن جدیدیت کے زیر اثر عہد ِحاضر کےبعض راسخ العقیدہ مسلمان حلقے بھی اب اس فضیلت کے کچھ زیادہ قائل نہیں رہے ہیں۔ ان کے خیال میں سائنس وٹیکنالوجی کے بغیر فضیلت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا او رکم از کم عصر حاضر میں صرف اخلاق اور کردار پیدا کرنے سے کچھ نتیجہ نہیں نکلے گا، بالفاظِ دیگر اُمت کی علمیّت اور مابعد الطبیعیات رفتہ رفتہ تبدیل ہورہی ہے!!
کسی قوم کے عروج کی ضمانت کیا سائنس وٹیکنالوجی ہیں؟
تو کیا سائنس و ٹیکنالوجی کا انکار کردیا جائے؟
سوال انکار و اقرار کا نہیں ،اُصول کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو اس لیے تباہ نہیں کیا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئی تھی بلکہ اس لیے تباہ کیا کہ وہ گناہ کی زندگی میں بہت آگے بڑھ گئی تھی او رپیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھی او رکسی قوم کو عروج اس لیے عطا نہیں فرمایا کہ وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں اپنی مقابل تہذیب سے بڑھ گئی تھی۔ استخلاف فی الارض کو پاکیزگئ قلب و نظر سے مشروط کیا گیاہے، سائنس و ٹیکنالوجی زیادہ سے زیادہ فرضِ کفایہ کے درجے میں ہے، لیکن اب اُمّت صرف اس کے حصول کو واحد فریضۂ دینی تصور کررہی ہے۔ فرضِ کفایہ نے افضل ترین فرض کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ ہے فکرونظر میں تبدیلی، کہ فضیلت، برتری، کامیابی اور استخلاف کا واحد سبب محض سائنس و ٹیکنالوجی کو سمجھ لیا گیا ہے۔ پوری اُمّت اسی کی تعلیم و تحصیل کو افضل ترین علم تصور کررہی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے زوال کی رات مزید گہری ہورہی ہے۔
اُمید کا مرکز العلم اور الکتاب نہیں بلکہ وہ علم ہوگیا ہے جو مغرب نے تخلیق کیا ہے اور ہم صرف اسی علم کی آرزو سے تبدیلی کی صبح کا انتظار کررہے ہیں۔ یہ وہ بنیادی تغیر ، رویہ اور سوچ ہے جس نے اُمت کے لیے بلندی کے تمام راستے مسدود و محدود کردیئے ہیں۔ قرآن میں عروج و زوال سے متعلق آیات میں ایک آیت بھی ایسی نہیں بتائی جاسکتی جو عروج کو صرف اور صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حصول سے مشروط کرتی ہو ، نہ ہی استخلاف کی کسی آیت میں کسی نبی کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ زمین میں اقتدار کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے علم کی تدریس و تعلیم کو اوّلیت دیں گے۔ ہر جگہ صلوٰۃ، زکوٰۃ، امربالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جس علم کو جو مرتبہ و مقام دیا گیا ہے، اس مرتبے و مقام سے اُسے ہٹا دیا جائے تو یہ عدل نہیں، ظلم ہے۔ اس ظلم کے اقرار اور اس پر تین سو برس مسلسل اصرار کے باوجود اُمّت کا حال کیا ہے؟ ملائیشیا، ترکی، ایران، سوڈان، مصر اور پاکستان تمام تر دعوؤں کے باوجود نہ دین میں آگے ہیں، نہ دنیا میں بلکہ شکست کی رات مسلسل طویل ہورہی ہے۔
قرآن حکیم نے عروج و زوال کے قانون میں کہیں سائنس و ٹیکنالوجی کو زوال و عروج کا سبب قرار نہیں دیا۔اسی لیے:﴿إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم... ١٣ ﴾....سورة الحجرات ''اللہ کے یہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔''
سائنس داں اور ٹیکنالوجسٹ ہونا کوئی عظمت نہیں۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ رسالت مآبﷺ کے ساتھ رکوع و سجود میں اللہ کے فضل کی تلاش کے لیے سرگرداں رہتے تھے:
﴿مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَّهِ وَالَّذينَ مَعَهُ أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم تَرىٰهُم رُكَّعًا سُجَّدًا يَبتَغونَ فَضلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضوٰنًا سيماهُم فى وُجوهِهِم مِن أَثَرِ السُّجودِ ذٰلِكَ مَثَلُهُم فِى التَّورىٰةِ وَمَثَلُهُم فِى الإِنجيلِ كَزَرعٍ أَخرَجَ شَطـَٔهُ فَـٔازَرَهُ فَاستَغلَظَ فَاستَوىٰ عَلىٰ سوقِهِ يُعجِبُ الزُّرّاعَ لِيَغيظَ بِهِمُ الكُفّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ مِنهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا ٢٩ ﴾.... سورة الفتح
'' محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، کافروں پر سخت ہیں۔آپس میں رحم دل ہیں، تو انھیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدےکر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضا مندی کی جستجو میں ہیں۔ ان کے نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ان کی یہی مثال تورات اور انجیل میں ہے۔''
کبھی تسخیر کائنات، تسخیر ارض اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تلاش میں اُنہیں سرگرداں نہیں پایا گیا ،اسی لیے قرآن نےبتایا کہ گناہِ عظیم پر اصرار کرنے والے جہنم میں ہوں گے:
﴿إِنَّهُم كانوا قَبلَ ذٰلِكَ مُترَفينَ ٤٥ وَكانوا يُصِرّونَ عَلَى الحِنثِ العَظيمِ ٤٦ ﴾.... سورة الواقعة
'' بے شک یہ لوگ اس سے پہلے بہت نازوں میں پلے ہوئے تھے اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرتے تھے۔''
سائنس وٹیکنالوجی نہ جاننے والوں یا اس میں پیچھے رہ جانے والوں کو قرآن کی کسی ایک آیت میں بھی جہنم کی وعید نہیں سنائی گئی، آخر کیوں؟ حضرت ابراہیم کو ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا گیا:
﴿فَأَوجَسَ مِنهُم خيفَةً قالوا لا تَخَف وَبَشَّروهُ بِغُلـٰمٍ عَليمٍ ٢٨ ﴾.... سورة الذاريات
'' پھر تو دل ہی دل میں اُن سے خوفزدہ ہو گئے، انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کیجیے۔''
تو اس علم سے مراد سائنس و ٹیکنالوجی کا علم نہیں، خالق کائنات کی معرفت اور آخرت کی حقیقت کا علم مراد تھا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ نےبچپن میں ہی حکم سے نوازا۔ ﴿يـٰيَحيىٰ خُذِ الكِتـٰبَ بِقُوَّةٍ وَءاتَينـٰهُ الحُكمَ صَبِيًّا ١٢ ﴾.... سورة مريم" جبکہ حکم کی یہ صفت دیگر انبیا کو نبوت کے ساتھ عطا کی گئی۔ یہ حکم کیا سائنس و ٹیکنالوجی تھا؟
اسلامی نظریۂ حیات
کفار و مشرکین کی تباہی کا سبب یہ تھا کہ ان کے سامنے ان کے ربّ کی آیات میں سے جو آیت بھی آتی ہے، یہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے:
﴿وَما تَأتيهِم مِن ءايَةٍ مِن ءايـٰتِ رَبِّهِم إِلّا كانوا عَنها مُعرِضينَ ٤٦ ﴾... سورة يٰس
ایسے تمام افراد اور تمام قوموں پر اللہ کا عذاب دراصل ان کے گناہوں کے باعث نازل ہوا: ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ﴾.... سورةالعنكبوت" اور مؤمنين كی كاميابی كا سبب یہ تھا کہ وہ گناہگار زندگی سے نفرت کرتے تھے، پاکیزہ زندگی بسر کرتے اور اس دنیا کو گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ذمے دار بنائے گئے :
﴿وَمَن أَرادَ الءاخِرَةَ وَسَعىٰ لَها سَعيَها وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ كانَ سَعيُهُم مَشكورًا ١٩ ﴾.... سورة الاسراء
'' جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسا کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے اور ہو وہ مؤمن تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی۔''
ا للہ اپنے بندوں کا نہایت خیرخواہ ہے:
﴿يَومَ تَجِدُ كُلُّ نَفسٍ ما عَمِلَت مِن خَيرٍ مُحضَرًا وَما عَمِلَت مِن سوءٍ تَوَدُّ لَو أَنَّ بَينَها وَبَينَهُ أَمَدًا بَعيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفسَهُ وَاللَّهُ رَءوفٌ بِالعِبادِ ٣٠ ﴾.... سورة آلِ عمران
'' جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کو موجود پالے گا، آرزو کرے گا کہ کاش! اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی، اللہ اُنہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔''
وه اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا .....
﴿أَلَم يَأتِهِم نَبَأُ الَّذينَ مِن قَبلِهِم قَومِ نوحٍ وَعادٍ وَثَمودَ وَقَومِ إِبرٰهيمَ وَأَصحـٰبِ مَديَنَ وَالمُؤتَفِكـٰتِ أَتَتهُم رُسُلُهُم بِالبَيِّنـٰتِ فَما كانَ اللَّهُ لِيَظلِمَهُم وَلـٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ ٧٠ ﴾.... سورة التوبة
''کیا انھیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں: قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم اور اہل مدین اور موتفکات کی۔ ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیل لے کر پہنچے، اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا۔''
اور تمہارا ربّ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ اگر وہ ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑنا چاہتا تو ان پر فوراً عذاب بھیج دیتا:﴿فَأَتبَعَ سَبَبًا ٨٥ ﴾.... سورة الكهف
اسی لیے اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے لیے لازم کرلیا ہے۔(الانعام:35)
اس رحمت کے باعث وہ فوراً سزا نہیں دیتا، سورۃ فاطر کی آیت 45 میں ارشاد ہے:
''اگر وہ کہیں لوگوں کو ان کے اعمال کی پاداش میں فوراً پکڑتا تو زمین کی پشت پرایک جاندار کو بھی نہ چھوڑتا ،لیکن وہ ان کو ایک معین مدت تک مہلت دے رہا ہے۔''
لہٰذا وہ انسان کو مہلت ِعمر دیتا ہے کہ وہ عہد اَلست کو یاد کرکے اپنے خالق کی پناہ میں آجائے۔''کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق لے سکتا تھا؟'' (فاطر:37) انسان نے وہ قرض ادا نہیں کیا جس کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا :﴿كَلّا لَمّا يَقضِ ما أَمَرَهُ ٢٣ ﴾.... سورة عبس" یعنی بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے نیکیوں میں سبقت کرنے والے:﴿أُولـٰئِكَ يُسـٰرِعونَ فِى الخَيرٰتِ وَهُم لَها سـٰبِقونَ ٦١ ﴾.... سورة المؤمنون" اس آيت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لیے عرصۂ حیات کا تعین اس لیے فرمایا کہ ان کے اندر جو خیر مخفی ہے، اس کوظاہر ہونےکا موقع عطا فرمائے او ریہ عمر اس خیر کے ظہور میں آنے کے لیے بہت کافی ہے۔لیکن یہ انسان عہدِ الست کو یاد کرنے کے بجائے ویسی ہی بحثوں میں پڑ گئے جیسی بحثو ں میں پچھلی گمراہ قوموں کے لوگ پڑے تھے:
﴿كَالَّذينَ مِن قَبلِكُم كانوا أَشَدَّ مِنكُم قُوَّةً وَأَكثَرَ أَموٰلًا وَأَولـٰدًا فَاستَمتَعوا بِخَلـٰقِهِم فَاستَمتَعتُم بِخَلـٰقِكُم كَمَا استَمتَعَ الَّذينَ مِن قَبلِكُم بِخَلـٰقِهِم وَخُضتُم كَالَّذى خاضوا أُولـٰئِكَ حَبِطَت أَعمـٰلُهُم فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَأُولـٰئِكَ هُمُ الخـٰسِرونَ ٦٩ ﴾.... سورة التوبة
''مثل ان لوگوں کی جوتم سے پہلے تھے تم میں سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال واولاد والے تھے۔پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیاجیسے تم میں سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح جداگانہ بحث کی جیسے کہ انھوں نے کی تھی ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت ہوئے یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔''
مؤمنین اس دنیا کو عیش کی بجائے مشقت، آزمائش او رامتحان کی جگہ سمجھتے تھے ،کیونکہ انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیا ہے۔ (البلد:4) اور عیش صرف جنت میں میسر ہوگا جہاں ہر خواہش پوری ہوگی۔(الفرقان:16) جو کچھ (جنت میں) وہ طلب کریں گے، ان کے لیے حاضر ہے۔(یٰس:57) لہٰذا دنیا میں عیش وعشرت تلاش کرنے کی بجائے مومن اسے جنت کے حصول تک ملتوی کردیتے ہیں اور سادہ زندگی کو اپنے پیغمبرﷺ کی اتباع میں اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔ کفار کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ اس زمین کو جنتِ ارضی بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی دوڑ دھوپ دنیا سے زیادہ سے زیادہ تمتع پر مرکوز رہتی ہے اور مؤمنین استخلاف فی الارض کی نعمت ملنے کے بعد نماز، زکوٰۃ کا نظام قائم کرتے اور معروف کی تلقین و منکر کا خاتمہ کرتے ہیں:
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلوٰةَ وَءاتَوُا الزَّكوٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ ٤١ ﴾.... سورة الحج
''یہ وہ لوگ ہیں اگر ہم زمیں میں ان کو اقتدار دیں تو یہ پو ری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔''
وہ متاعِ دنیا کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔(الحجر:88) نماز اُنہیں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے کہ یہ دین کا ستون ہے اور کفر او راسلام میں حد فاصل ہے۔ اس لیے قرآن میں آتا ہے: ﴿وَمِن حَيثُ خَرَجتَ فَوَلِّ وَجهَكَ شَطرَ المَسجِدِ الحَرامِ وَحَيثُ ما كُنتُم فَوَلّوا وُجوهَكُم شَطرَهُ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَيكُم حُجَّةٌ إِلَّا الَّذينَ ظَلَموا مِنهُم فَلا تَخشَوهُم وَاخشَونى وَلِأُتِمَّ نِعمَتى عَلَيكُم وَلَعَلَّكُم تَهتَدونَ ١٥٠ ﴾.... سورة البقرة
''اور جس جگہ بھی آپ ہوں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور جہاں کہیں تم ہو اپنے چہرے اسی طرف کیا کرو تاکہ لوگوں کی کوئی حجت تم پر باقی نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا ہے۔ تم اُن سے نہ ڈرو، مجھ ہی سے ڈرو تاکہ میں اپنے نعمت تم پر پوری کروں، اس لیے بھی کہ تم راہ ِراست پاؤ۔''
یہ آیت کفر و اسلام میں حد کا تعین کرتی ہے۔ ارشاد ہے اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو: ﴿وَأمُر أَهلَكَ بِالصَّلوٰةِ وَاصطَبِر عَلَيها لا نَسـَٔلُكَ رِزقًا نَحنُ نَرزُقُكَ وَالعـٰقِبَةُ لِلتَّقوىٰ ١٣٢ ﴾.... سورة طٰه" مؤمنین کو تجارت خرید و فروخت اللہ کی یاد، اقامت ِنماز اور ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کرتی:
﴿رِجالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلوٰةِ وَإيتاءِ الزَّكوٰةِ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصـٰرُ ٣٧ ﴾.... سورة النور
'' ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی، اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور آنکھیں اُلٹ پلٹ جائیں گی۔''
نماز کے بغیر ایمان معتبر نہیں ہے، اس لیے سورۂ توبہ میں مشرکین کو چار مہینے کی مہلت دی گئی تویہ بھی کہا گیا کہ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کردیں تو اُنہیں چھوڑدو۔ (آيت:5)
نماز اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی مخلوق کا حق ہے۔ ان دونوں حقوق کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ كی اور فرمايا کہ اگر یہ اونٹ کی رسّی کے برابر زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کریں گے تو ان کے خلاف جنگ ہوگی، اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں ہوسکتی !!
دور ِنبویؐ کا احیا ہی مطلوب ِدین ہے!
رسالت مآبﷺ کو حکم دیا گیا :
﴿وَلَو شِئنا لَبَعَثنا فى كُلِّ قَريَةٍ نَذيرًا ٥١ فَلا تُطِعِ الكـٰفِرينَ وَجـٰهِدهُم بِهِ جِهادًا كَبيرًا ٥٢ ﴾.... سورة الفرقان
''اگر ہم چاہتے تو ایک ایک بستی میں ایک ایک خبردار کرنے والا اُٹھا کھڑا کرتے پس اے نبی ! کافروں کی بات ہرگز نہ مانیئے اوراس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کیجئے۔''
ان آيات ميں بتا ديا گیا کہ قیامت تک کے لیے سرچشمۂ روشنی کے طور پر کل دنیا کے لیے رسالت مآبﷺ کافی ہیں جس طرح ایک سورج سارے جہاں کے لیے کافی ہوتا ہے۔