کیا صفاتِ الٰہیہ میں ائمہ اربعہ 'مفوضہ' ہیں
برصغیر کے حنفی حضرات عقیدہ میں کس منہج سے تعلق رکھتے ہیں؟
توحید کی علماے کرام نے تین اقسام بیان کی ہیں:
1. توحید اُلوہیت
2. توحید ربوبیت
3. توحید اسماء وصفات
توحید اسماء و صفات کے بیان میں اہل سنت والجماعت یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ اربعہ اور محدثینؒ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت میں بیان شدہ اسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں جبکہ اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے مثلاً قرآن میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت 'ِید' کا اثبات ہے تو اہل سنت والجماعت اللہ کے لیے صفت ِ'ید' کے حقیقی لغوی و عرفی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور اس کی کیفیت یا تشبیہ بیان کرنے کو بدعت قرار دیتے ہیں۔
اہل سنت والجماعت کےاس عقیدہ کے برعکس ایک اُسلوب اہل تاویل کا ہے جو صفاتِ ذاتیہ کے علاوہ دیگراَسماء وصفاتِ باری تعالیٰ کو بھی اُن کے حقیقی معنی کے بجائے مجازی معنی پر محمول کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں 'ید' بمعنی ہاتھ ہے۔اہل سنت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پاؤں وغیرہ مانتے ہیں،لیکن اہلِ تاویل صفتِ ید کا مجازی معنی 'قدرت' بیان کر دیتے ہیں اور اس لفظ کے حقیقی معنیٰ 'ہاتھ'کا اللہ کی ذات کے لیے اِثبات نہیں کرتے ہیں۔اہل تاویل جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات کی تاویل کرتے ہیں اسی طرح صفاتِ لازمہ اور غیر لازمہ ناموں سے تقسیم کر کے ان کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کرتے ہیں اگرچہ اہل تاویل کے ہاں تعبیرات کے بعض باریک فرق پائے جاتے ہیں۔تاہم تاویل کرنے میں معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ وغیرہ سب شامل ہیں۔ معتزلہ اسماء و صفات دونوں کی حقیقت کے منکر ہیں جبکہ اشاعرہ اور ماتریدیہ 'ید' (ہاتھ) وغیرہ کے تو منکر ہیں ،لیکن اسما ء الٰہی کے قائل ہیں البتہ تین صفاتِ فعلیہ (غیر لازمہ)میں اس طرح تاویل کرتے ہیں کہ 'حقیقت' کے بجائے 'مجاز' کو ہی تسلیم کیا جائے، مثلاً اہل تاویل کے ہاں اللہ تعالیٰ لفظی گفتگو پر قادر نہیں، لہٰذا قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی نفسی کلام ہے۔البتہ صفاتِ باری تعالیٰ میں سے چار صفاتِ لازمہ حیات، قدرت، علم اور ارادہ کے قائل ہیں جب کہ کلام، سمع اور بصر جوصفات غیر لازمہ کہلاتی ہیں۔اہل سنت اور اشاعرہ، ماتریدیہ کے ہاں یہی معرکۃ الآراء ہیں۔
اہل سنت والجماعت کے بالمقابل تاویل سے بچنے کا ایک دوسرا طریق کار اہل تفویض کا ہے جو اللہ تعالی ٰکی صفات کے لیے کوئی مجازی معنیٰ پیش کر کے تاویل تو نہیں کرتے،لیکن سرے سے عربی الفاظ کا مفہوم ہی تسلیم کرنے سے انکار کر جاتے ہیں اور ان صفات کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مقصد یہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کا کوئی لغوی معنی بھی بیان نہ کیا جائے ۔
مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا موقف
ماہنامہ 'وفاق المدارس'ملتان کے نومبر ۲۰۱۰ء کے شمارہ میں وفاق المدارس العربية کے صدر اور شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ایک مضمون شائع ہواجس میں صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے بحث کی گئی ہے۔اس مقالہ میں مولانا نے سلفی حضرات کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے مسئلۂ صفاتِ باری تعالیٰ میں اُنہیں متشدد قرار دیا ہے۔ہمیں اس وقت سلفی حضرات کے تشدد اور عدمِ تشدد پر کوئی بحث نہیں کرنا بلکہ ائمہ اربعہ کے بارے میں مولانا کی اس مسئلے میں ایک بنیادی غلط فہمی کو رفع کرنا مقصود ہے جس میں بہت سے معاصر حنفی علما شعوری یا لاشعوری طور پر مبتلا ہیں۔
مولانا سلیم اللہ خان نے توحیدِاسماء وصفات کےضمن میں اہل سنت کے تین مسالک بیان کیے ہیں اوراُن کے خیال میں جمہور اہل سنت یعنی صحابہ، تابعین اور ائمہ اربعہ کا موقف توحیدِاسماء وصفات کے بیان میں یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے مطلقاً تفویض کے قائل ہیں یعنی وہ اللہ کی صفات کی کیفیت بیان کرنا تو کجا ان کے لغوی/عرفی معنی ہی کے قائل نہیں خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ۔ مولانا لکھتے ہیں:
1. پہلامسلک:جمہور علماے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص ان متشابہات میں سے ہیں جن کے معنی صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور ہم ان کو ثابت تسلیم کرنے کے بعد، ان کے حقیقی یا مجازی معنی بیان و متعین نہیں کر سکتے۔ یہ متشابہ المعنی بھی ہیں اور متشابہ الکیفیہ بھی ہیں: ﴿وَ مَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ﴾ یعنی اس کی تفسیر صرف اللہ ہی کو معلوم ہے، یہ مسلک ِتفویض ہے اور یہی جمہور متقدمین اہل سنت اور اَئمہ اربعہ کا مسلک ہے۔
2.دوسرا مسلک یہ ہے کہ یہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان جو حقیقی معنی اس کے ہو سکتے ہیں۔ وہی مراد ہیں،اس کی کیفیت،کنہ اور صورت کیا ہوگی؟یہ معلوم نہیں، یعنی یہ نصوص و صفات معلوم المعنی اور متشابه الکیفية ہیں۔اسی مسلک کی وضاحت میں مشہور مقولہ کہا گیا: الإستواء معلوم والکیف مجهول والسؤال عنه بدعة اور الاستواء غیر مجهول والکیف غیر معقول والإیمان به واجب. امام مالک اور ان کے اُستاذ ربیعہ بن ابو عبد الرحمن وغیرہ کی طرف یہ مقولہ منسوب ہے۔
3.اہل السنت والجماعت کا تیسرا مسلک یہ ہے کہ ان صفات ونصوص کے ایسے معنی مجازی بیان کیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہوں اور لفظ کے اندر اس معنی کے مراد لینے کی گنجائش ہو، مثلاً ید سے قدرت، وجه سے ذات اور استوا سے اِستیلا مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس مسلک کو 'مسلک ِتاویل' کہتے ہیں اور اکثر متاخرینِ اہل سنت نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ البتہ جو مجازی معنی مراد لیے جاتے ہیں، وہ یقینی اور قطعی نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ان پر جزم کا عقیدہ رکھتے ہیں، بلکہ وہ ظن اور احتمال کے درجہ میں ہوتے ہیں، یعنی ید کی تاویل وہ قدرت سے کر کے کہتے ہیں کہ یہ ایک تاویل اور احتمالی تفسیر کے درجہ میں ہے۔ ید سے یقینی اورحتمی طور پر نصوص کے اندر قدرت کے معنی مراد ہیں، اس کا عقیدہ وہ نہیں رکھتے۔''1
آگے چل کر ایک مقام پر مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس بارے مولانا عبد الحی لکھنوی کی تحقیق سے اختلاف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''مولانا عبد الحی لکھنوی نے دوسرے مسلک کو اکثر علما کا اور تیسرے مسلک کو اکثر متاخرین متکلمین کا مذہب قرار دیا،چنانچہ مولانا سلیم اللہ خاں اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں:
''اس باب میں علما کے چند مسلک ہیں: ایک مسلکِ تاویل کہ استوا بمعنی استیلا اور ید بمعنی قدرت اور وجہ بمعنیٰ ذات، وعلیٰ ہذا القیاس اور یہی مختار اکثر متاخرین متکلمین کاہے۔ دوسرا مذہب:تشابه فی المعنی وفی الکیفية۔ تیسرامسلک:معلوم المعنی، متشابہ الکیفیہ اور حق ان میں مسلک ِثالث ہے اور یہی مذہب صحابہ وتابعین و ائمہ مجتہدین ومحدثین وفقہا واُصولیین محققین ہے۔
راجح اور محتاط مسلک: لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکثر علما نے پہلا مسلک اختیار کیا ہے جو مسلک تفویض سے مشہور ہے اور وہی مسلک سب سے زیادہ اَسلم اور مذہب ِمحتاط ہے۔''2
اپنے مقالہ کے آخر میں مولانا سلیم اللہ خاں لکھتے ہیں :
''علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم اس مسئلہ میں متشدد تھے لیکن سلفی حضرات اورغیر مقلدین صرف اپنے مسلک کو حق سمجھتے ہیں اور اسی کو اہل سنت کا مسلک قرار دیتے ہیں، بقیہ حضرات کو وہ گمراہ اور باطل پر سمجھتے ہیں۔جمہور اہل السنت جن میں حضرات صحابہ، تابعین اور جلیل القدر ائمہ کرام داخل ہیں کو گمراہ سمجھنا، خود بڑی گمراہی ہے۔''3
مسئلے کا تاریخی پس منظر
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے اپنے اس مقالہ میں تفویض مطلق کے مسلک کی نسبت صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہؒ کی طرف کی ہے جو خلافِ حقیقت ہے۔ اس مسئلے میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب کی نسبت مولانا عبد الحی لکھنوی کی تحقیق راجح اور امر واقعہ کے زیادہ قریب ہے کہ صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کا مسلک تفویض مطلق نہیں تھا بلکہ وہ صفاتِ باری تعالیٰ کو معلوم المعنی او ر متشابہ الکیفیہ بیان کرتے تھے۔
اس مسئلے پر تحقیقی گفتگو سے پہلے ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اُلجھن کو سامنے لائیں جس کے پیش نظر وہ عقیدہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید حرام سمجھنے کی بنا پر امام ابو حنیفہ(متوفی ۱۵۰ھ) کی تقلید ترک کر دیتے ہیں لیکن حنفی عوام کے سامنے اپنے امام کی مخالفت کے طعن سے بچنے کے لیے امام صاحب کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے تاویلات اور حِیَل کا ایک نہ ختم ہونے والاباب کھول دیتے ہیں۔ جن حضرات نے ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مناقب پر لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور وہ سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین کے دور کے بہت بعد چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے فقہی جمود کے پس منظر سے بھی واقف ہیں، اس مناظراتی، جدلیاتی اور فکری جنگ سے ضرور آگاہ ہوں گے جو چوتھی صدی ہجری کے تقلیدی جمود کے دور سے شروع ہو کر صدیوں حنفیہ اور شافعیہ کے مابین جاری رہی۔ بعد ازاں ایک طرف تو شافعیہ جغرافیائی اعتبار سے شرقِ بعید مثلاً انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ کے علاقوں میں پھیل گئے اور دوسری طرف برصغیر پاک و ہند میں تقلید ِجامد کے خلاف شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے فروغ ِ حدیث (اہل حدیث) کی تحریک برپاہوئی یعنی نصوص کو فصوص پر اور سنت کو فقہ پر ترجیح دینے یا اجتہادات ِائمہ کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کے دور کا آغاز ہوا تو ان مناظروں اورمجادلوں کا رخ شافعیہ سے اہل حدیث کی طرف پھرگیا اور حنفیہ اور غیر مقلداہل حدیث کے مابین بظاہر نہ ختم ہونے والے مناظرات کے ایک طویل سلسلہ نے جنم لیا۔
اہل حدیث کے ساتھ اس فکری اورعلمی مباحثہ میں علماے حنفیہ نے ائمہ کی تقلید پراتنا زور دیاکہ نہ صرف ائمہ اربعہ میں سےہر ایک کی تقلیدشخصی کو واجب قرار دیابلکہ اُنہوں نے اپنے عوام الناس میں اس فکر کو خوب اچھی طرح راسخ کر دیا کہ فقہی مسالک میں تقسیم ہو کر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ مزید برآں اپنی درسگاہوں میں ائمہ اربعہ میں سے بھی ائمہ ثلاثہ کے موقف پر امام ابو حنیفہ کے مذہب کو عقلی ونقلی دلائل سے راجح قرار دینے کے لیے زندگیاں کھپا دیں اور بعض انتہا پسندوں نے تو فقہ حنفی کے راجح ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی بیان کر دی کہ سیدنا حضرت عیسیؑ بھی امام ابوحنیفہ کے مقلد4 ہوں گے۔علماے حنفیہ نے اگرچہ یہ سارا کام اس پردہ میں کیا ہے کہ عدمِ تقلید ایک فتنہ ہے اوراس سے اجتناب ضروری ہے حالانکہ اعتقادی مسائل میں ان کے ہاں بھی تقلید حرام ہے۔پس حنفیہ نے اہل حدیث پر اس لحاظ سے بہت زیادہ طعن کیا کہ وہ غیر مقلد ہیں اور کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں یہاں تک کہ حنفی عوام الناس میں 'غیر مقلدہونا' ایک گالی بن کررہ گیا۔
ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ حنفی علما نے اپنے عوام کے سامنے اہل حدیث کا اتباع اور تقلید میں فرق کا وہ موقف، جو ولی اللّٰہی تحریک کی اساس ہے، صحیح طور پر آج تک پیش ہی نہیں کیاحالانکہ بہت سے دیوبندی علمابھی شاہ ولی اللہ کی فکر کے حاملین میں سے ہونے کے دعویدار ہیں۔ پس جہاں تک عقیدہ میں تقلید کا مسئلہ ہے تو اس بارے حنفی اور اہل حدیث علما کا اتفاق ہے کہ تقلید نہیں ہونی چاہیے، لیکن فقہی وفروعی مسائل میں دونوں کے مابین 'اتباع' یعنی کتاب وسنت کی دلیل کی بنیاد پر سلف صالحین کی پیروی اور 'تقلید' یعنی بلادلیل کسی متعین فقیہ کی پیروی کا فرق ہے۔'تقلید' کا لفظ آج کل عرب ممالک میں 'نقالی' کے لیے استعمال ہوتا ہے،مثلاً سڑکوں پر یہ بورڈ آویزاں ہوتے ہیں:احذر التقليد ولاحظ الماركة ''نقالوں سے ہوشیار رہو اور ٹریڈ مارک دیکھ کر سودا کرو''
حنفی علما کے نزدیک بے علم عوام الناس کے لیے فقہی مسائل میں ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کی تقلید ہونی چاہیے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ اعتقادی مسائل تو اس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہونے کے باوصف تقلید ائمہ کے حقدار کیوں نہیں ہیں؟ حنفیہ میں سے عقائد میں تقلید کے حرام ہونے کی وجہ ہی سے بعض حنفی اعتقادی طور پر معتزلی ہوتے ہیں جیسا کہ علامہ زمخشریؒ اور بعض سلفی بھی ہیں جیسا کہ امام ابویوسف، امام محمد، امام طحاوی، اور ابن ابی العز حنفی رحمہم اللہ وغیرہ ۔ بعض علما نے امام بزدوی اور ملا علی قاری کے متعلق سلفی ہونے کا دعوی کیا ہے اور بعض 'اشعری' ہیں جیسا کہ شیخ احمد سرہندی(مجدد الف ثانی) جبکہ برصغیر کے احناف کی اکثریت 'ماتریدی' ہے جیساکہ اکابر علماے دیوبند کی اکثریت 'ما تریدیہ' ہے۔ خلیجی ممالک کے اکثر حنفی عقیدہ میں سلفی ہیں۔
عقیدہ کی مذکورہ بالا تقسیم تو حنفیہ کے مابین قرونِ وسطیٰ میں رہی ہے جبکہ برصغیر پاک وہند میں یہ حضرات تصوف میں غلو اور اعتدال کی بحث کے نتیجے میں دو بڑے دھڑوں بریلوی اور دیوبندی مسالک میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ آج حنفی بریلو ی علماء کی اکثریت کو توحید ِاُلوہیت کے باب میں جب امام ابو حنیفہ اور متقدمین فقہاے حنفیہ کے اقوال سنائے جاتے ہیں اور اُنہیں اعتقادی مسائل میں اپنے حنفی ائمہ سلف کی پیروی کی دعوت دی جاتی ہے تو اُن کا سادہ جواب یہ ہوتا ہے کہ ''عقائدمیں تقلید حرام ہے۔''
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حنفیہ نے فقہی مسائل میں تو تقلید ِجامد کا ثبوت دیا اور اس کو واجب قرار دیا لیکن اعتقادی مسائل میں امام ابو حنیفہ کی تقلید نہ کرنے کی وجہ سے یہ کئی فرقوں اشعری،ماتریدی،معتزلی،بریلوی، دیوبندی، حیاتی، مماتی،وجودی، شہودی، مفوضہ،مؤوّلہ وغیرہ میں بٹ گئے۔پس حنفیہ من وجہ مقلد ہیں اور من وجہ غیر مقلد ہیں۔فقہی مسائل میں حنفی مذہب کے مقلد ہیں جب کہ اعتقادی مسائل میں یہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کے قائل نہیں ہیں ۔
اس کے برعکس سلف صالحین کی اتباع کے دعویدار ' اہل حدیث' کی دعوت یہ ہےکہ اعتقادی مسائل میں ائمہ سلف یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اربعہ کی پیروی ہونی چاہیےاسی بنا پر اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع پر کاربند ہونے کی وجہ سے ہی اہل حدیث 'سلفی' کہلاتے ہیں۔ جبکہ فقہی مسائل میں اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید کے قائل نہیں ہیں۔بلکہ تمام فقہی آراء کو کتاب وسنت پر پیش کر کے اقرب الی السنۃ کو اختیار کر لیتے ہیں۔
البتہ دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے کہ اہل حدیث فقہی مسائل میں اگر علماے اُمت کا اجماع ہو تو اس اجماع کی حجیت کے قائل ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب اہل حدیث کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ تجدد کی راہ پر ہیں یا کسی نئی فقہ کی تدوین کر رہے ہیں بلکہ علماے اہل حدیث کے فتاویٰ کو دیکھا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ ائمہ کی آراء کو قرآن وسنت پر پیش کر کے قدیم مسائل میں کسی نہ کسی فقہی مذہب یا امام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں، البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ائمہ اربعہ تک محدود نہیں رہتے۔ جدید مسائل میں وہ کتاب وسنت سے ائمہ سلف کے طریقہ کار کی روشنی میں براہ راست استدلال کرتے بھی نظر آتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ فقہاے حنفیہ نے فقہ حنفی میں متقدمین حنفیہ سے مروی متفرق اَقوال میں دلائل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح قول کا جو منہج اختیار کیا ہے اور ایسے فقہا کو 'اصحابِِ ترجیح' کا نام دیا ہے ، اسی معنی میں اہل حدیث نے فقہ حنفی کی بجائے جمیع مذاہب ِاسلامیہ یا معروف فقہا سے مروی اَقوال میں قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر ترجیح کا موقف اختیار کیا ہے۔قدیم فقہی مسائل میں اہل حدیث کا یہی طرزِ عمل ہے البتہ جدید مسائل کا معاملہ ہو تو وہاں شاید حنفی مقلدین، اہل حدیث کی نسبت زیادہ اجتہاد کر نے کے دعوے دار ہیں جب کہ محقق اہل حدیث اسے 'حیلے 'قرار دیتے ہیں۔آج کل مروّجہ اسلامی بینکاری اس کی ایک مثال ہے۔گویا قدیم مسائل میں حنفی ایک ہی مذہب میں علما کے اختلاف کی صورت میں ترجیح قائم کرنے کےباوجود اسے تقلید کا نام دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث جمیع مذاہب ِاسلامیہ:حنفی، شافعی،مالکی،حنبلی،ظاہری وغیرہ کے اقوال و آرا میں دلیل کی بنیاد پر راجح اور مرجوح کا تعین کرتے ہیں اور اسے 'اتباع' کا نام دیتے ہیں۔
چونکہ اعتقادی مسائل میں عموماً قیاس وغیرہ کی گنجائش نہیں ہوتی،یعنی اعتقادی مسائل حالات اور زمان و مکان کی تبدیلی سے متاثر ہوئے بغیر ویسے ہی رہتے ہیں،کیونکہ ان کا تعلق زیادہ تر خبر سے ہوتا ہے جو غیر متبدل رہتی ہے، پس عقیدے کے مسائل میں ہمیں پیچھے سے پیچھے جانا چاہیے اور سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ اسلاف ؒ کے طریق کار کی اتباع کرنی چاہیے۔
یہ بھی واضح رہے کہ اعتقادی مسائل میں اہل سنت(سلف صالحین) میں کوئی زیادہ اختلاف مروی نہیں ہے بلکہ اکثر اعتقادی مسائل میں ائمہ اربعہ کا عقیدہ تقریبا ایک ہی ہے، سوائے ایمان کی حقیقت کے مسئلے میں،جس میں امام ابو حنیفہؒ کا اختلاف نقل ہوا ہے لیکن اس مسئلے کے بارے میں بھی امام ابن عبد البرمالکی اور امام ابن ابی العز حنفی کا رجحان یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے اسی قول کی طرف رجوع5 کر لیا تھا جو ائمہ ثلاثہ کا ہے۔ اس کے برعکس فقہی اور عملی مسائل میں حالات اور زمانے کے تغیرات کی وجہ سے بہت دفعہ نصوص کا اطلاق تبدیل ہونے کا مغالطہ ہوتا ہے۔اسی بنا پر ابن قیم اسے فتوی کی تبدیلی سےتعبیر کرتے ہیں۔ لہٰذا ان میں اجتہاد کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو قدیم مسائل میں اصحابِِ ترجیح کا سا ہوتا ہے نہ کہ اجتہادِ مطلق کی حیثیت کا حامل۔ اہل الحدیث کے فتاویٰ ہماری اس بات کے شاہد ہیں۔
پس حنفیہ نے کسی متعین فقہ کی تقلیدکو لازم قراردے کر کسی تعبیر خاص کو عین دین اسلام یا وحی کی صورت شریعت ِاسلامیہ کی طرح دائمی قرار دے دیا ہے جبکہ اہل حدیث کے نزدیک کوئی متعین فقہ ایک عارضی اور بدلتی شے ہے جب کہ صرف وحی والہام (شریعت ِاسلامیہ)ہی دائمی ہے لہٰذاحق کسی ایک متعین فقہ میں محصور نہیں ہے چنانچہ وہ کتاب وسنت کی بنیاد پر سب فقہوں اور جمیع فقہاےمحدثین سے برابر کی سطح پر استفادہ کے قائل ہیں۔
بعض حنفی علما نے جب یہ دیکھا کہ اہل الحدیث اعتقادی مسائل میں سلف صالحین کی اتباع کے قائل ہیں اور حنفیہ کو اس باب میں امام ابو حنیفہ کے سلفی ہونے کی بنا پر ان کی تقلید کی دعوت بھی دیتے ہیں تو اُنہوں نے امام ابو حنیفہ سے مروی سلفی عقیدے میں تاویلات کا ایک باب کھول کر اُنہیں 'ماتریدیہ' کی طرح 'مؤوّلہ' ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔ مولاناسلیم اللہ خاں صاحب نے بھی اپنے اس مقالہ میں ان علماء کی مذمت کی ہے جو امام ابو حنیفہ کو کھینچ تان کر اہل تاویل میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ تاویل کے رد عمل میں ان علما نے ایک دوسری انتہاء یہ اختیار کی کہ اپنے امام کو مفوضہ بنا دیا۔ان علما میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور بعض علماے دیوبند شامل ہیں، حالانکہ امام ابو حنیفہ کے سلفی عقیدے کو کھینچ تان کر 'مفوضہ' اور اہل تفویض کا عقیدہ بنانے کی یہ کاوش امام ابوحنیفہؒ (سلفی) پر بڑی زیادتی ہے۔ واضح رہے کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب ،امام ابوحنیفہ کا عقیدہ 'تفویض' بتلاتے ہیں اور اسی عقیدے کو حق قرار دیتے ہیں اورخود بھی اسی کے قائل ہیں۔ گویاعلماے دیوبند میں بعض خود مفوضہ ہونے کی بنا پر امام ابو حنیفہ کی طرف تفویض کے عقیدے کی نسبت کرتے ہیں جبکہ اکثر علماے دیوبند اہل تاویل ہیں اور ابو منصور ماتریدی(متوفی ۳۳۳ھ) کے پیروکار ہیں۔
کیا ائمہ اربعہ مفوضہ تھے؟
اس تمہید کے بعد ہم اصل نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ کیا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے کہ سلف صالحین یا ائمہ اربعہ مفوضہ ہیں؟اگر ہم اس مسئلے کی تحقیق میں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کو شامل کر لیں تو شاید یہ مضمون بہت طویل ہو جائے لہٰذا سردست ہم ائمہ اربعہ کے بارے بالعموم اورامام ابوحنیفہ کے بارے بالخصوص اس موقف کا جائزہ لے رہیں ہے کہ وہ اہل تفویض میں سے تھے یا نہیں؟
امر واقعہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ یا فقہاے محدثین اور متقدمین صوفیا کا صفاتِ باری تعالیٰ کے بارے عقیدہ وہی ہے جسے آج ہم 'سلفی عقیدہ' کے نام سے جانتے ہیں۔ یعنی ائمہ اربعہ اور فقہائے محدثین صفاتِ باری تعالیٰ کے لیے مروی الفاظ کو ان کے حقیقی معانی پر محمول کرتے ہیں لیکن ان صفات کی کیفیت بیان نہیں کرتے گویا ائمہ اربعہ یہ کہتے ہیں کہ جب قرآن نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ'ید' کا اثبات کیا ہے تو 'ید' کے حقیقی معنیٰ ہاتھ کا اللہ تعالیٰ کے لیے اثبات کیا جائے گا،لیکن اللہ کا ہاتھ کیسا ہے ؟ ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کریں گے اورنہ ہی اس کے بارے قیل وقال میں پڑیں گے۔
امام ابن تیمیہ ( متوفی ۷۲۸ھ) سے جب یہ سوال ہوا کہ دو اشخاص کا آپس میں جھگڑا ہوا ہے اور ان میں سے ایک یہ کہتا ہے کہ جو شخص اللہ کے آسمان میں ہونے کا اعتقاد نہ رکھے تو وہ گمراہ ہے اور دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ میں منحصر نہیں ہے تو اس بارے امام شافعی (متوفی ۲۴۰ھ) کا عقیدہ کیا ہے؟ توامام صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
«الحمد ﷲ، اعتقاد الشافعي رضي اﷲ عنه واعتقاد سلف الإسلام کمَالك والثوري والأوزاعي وابن المبارك وأحمد بن حنبل وإسحٰق بن راهویه وهو اعتقاد المشایخ المقتدٰی بهم کالفُضیل بن عیاض وأبي سلیمان الداراني وسهل بن عبد اﷲ التستري وغیرهم، فإنه لیس بین هؤلاء الأئمة وأمثالهم نزاع في أصول الدین وکذٰلك أبو حنیفة رحمة اﷲ علیه فإن الاعتقاد الثابت عنه في التوحید والقدر ونحو ذلك موافق لاعتقاد هؤلاء واعتقاد هؤلاء هو ما کان عليه الصحابة والتابعون لهم بـإحسان وهو ما نطق به الکتاب والسنة»6
''امام شافعی رضی اللہ عنہ اور سلف صالحین امام مالک، امام اوزاعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، امام اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا بھی وہی عقیدہ ہے جو ان مشائخ کا ہے جن کی لوگوں نے پیروی کی ہے جیسا کہ فضیل بن عیاض، ابو سلیمان دارنی اور سہیل بن عبد اللہ تستری رحمہم اللہ وغیرہ ۔ ان تمام ائمہ میں اُصولِ دین یعنی عقائد میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے یعنی توحید اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے جو عقیدہ ثابت ہے، وہ وہی عقیدہ ہے جو مذکورہ بالا ائمہ کا ہے۔ اور ان ائمہ کا عقیدہ وہی ہے جوصحابہ اور تابعین کا ہے۔ اور صحابہ و تابعین کا عقیدہ وہی ہے جو کتاب وسنت میں صراحتاً بیان ہوا ہے۔''
علامہ نواب صدیق حسن خان (متوفی ۱۳۰۷ھ) ایک جگہ سلف صالحین کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فمذهبنا مذهب السلف إثبات بلا تشبیه وتنزیه بلا تعطیل وهو مذهب أئمة الإسلام کمالك والشافعي والثوري وابن المبارك والإمام أحمد وغیرهم فـإنه لیس بین هؤلاء الأئمة نزاع في أصول الدین وکذلك أبو حنیفة رضي اﷲ عنه فإن الاعتقاد الثابت عنه موافق لاعتقاد هؤلاء وھو الذي نطق به الکتاب والسنة»7
''ہمارا مسلک اس بارے وہی ہے جو سلف صالحین کا تھا اور وہ یہ کہ اللہ کی صفات کا اثبات کیا جائے لیکن اُنہیں مخلوق سے تشبیہ نہ دی جائے اور اللہ کی صفات کو کیفیات وغیرہ سے تو پاک قرار دیا جائے لیکن یہ پاک قرار دینا اس طرح نہ ہو کہ اس سے صفات ہی باطل ہو جائیں [یعنی ان کا ظاہری اور حقیقی معنی ہی باطل قرار پائے]۔ یہی مسلک امام مالک، امام شافعی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ؒ وغیرہ کا ہے۔ ان ائمہ میں اُصولِ دین میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ امام ابو حنیفہ کا بھی ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ سے جو عقیدہ ثابت ہے وہ وہی عقیدہ ہے جس کے قائل یہ ائمہ تھے اور اسی عقیدہ کا اثبات قرآن وسنت سے ہوتا ہے۔''
اب ہم نسبتاً تفصیل سے امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ کا عقیدہ بنیادی مصادر سے نقل کررہے ہیں:
امام ابو حنیفہ کا عقیدہ
٭ فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ۴۸۲ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے اعتقادی مسائل میں 'فقہ اکبر' کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جس میں اُنہوں نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا تھا اور صفات کے اثبات کا یہی منہج متقدمین فقہاے حنفیہ کا ہے۔ بزدوی لکھتے ہیں:
«العلم نوعان: علم التوحید والصفات وعلم الشرائع والأحکام والأصل في النوع الأول هو التمسک بالکتاب والسنة ومجانبة الهوٰی والبدعة ولزوم طریق السنة والجماعة الذي علیه الصحابة والتابعون ومضٰی علیه الصالحون وهو الذي کان علیه أدرکنا مشایخنا وکان علی ذلك سلفنا أعني أبا حنیفة وأبا یوسف ومحمد أو عامة أصحابهم رحمهم اﷲ وقد صنّف أبو حنیفة رضي اﷲ عنه في ذلك کتاب الفقه الأکبر وذکر فیه إثبات الصفات»8
''علم دو قسم کا ہے: ایک توحید اور صفاتِ باری تعالیٰ کا علم اور دوسرا شرائع اور احکام کا علم ہے۔پہلی قسم کے علم میں کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور ہواے نفس اور بدعتی مناہج سے دور رہنا اور اہل سنت والجماعت کے منہج کو مضبوطی سے پکڑ لیناہی اصلاً مقصود ہے۔ اہل سنت والجماعت کا منہج وہی تھا جوصحابہؓ و تابعین کا ہے اور جو سلف صالحین کا ہے اور اسی منہج پر ہم نے اپنے مشائخ حنفیہ اور متقدمین حنفیہ یعنی امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف، امام محمد اور ان کے اصحابؒ کو پایا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ نے ایک کتاب 'فقہ اکبر' کے نام سے لکھی ہے اور اس کتا ب میں اُنہوں نے صفات کا اثبات کیا ہے۔''
امام بزدوی کی اس عبارت میں چند بنیادی باتیں بیان ہوئی ہیں:
4. امام ابو حنیفہ نے اعتقادی مسائل میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام 'فقہ اکبر' ہے۔
5. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے وہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور کبار حنفی علما و مشائخ کا ہے۔
6. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہوا ہے، وہی صحابہ وتابعین کا عقیدہ ہے۔
7. اس کتاب میں جو عقیدہ بیان ہو اہے، وہ اہل سنت والجماعت کا ہے۔
اب ہم امام ابو حنیفہ کی اس کتاب میں بیان شدہ عقیدہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے؟ کیاوہ تاویل کا عقیدہ ہے جیسا کہ ماتریدیہ حنفیہ کا عقیدہ ہے ؟ یا وہ تفویضِ مطلق کاعقیدہ ہے جیسا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ ہے؟ یا صفات کو ان کے حقیقی معنی پرباقی رکھنے اور کیفیت نہ بیان کرنے کا عقیدہ ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے؟
٭ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
«وله ید و وجه ونفس کما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن، فما ذکره اﷲ تعالىٰ في القرآن من ذکر الوجه والید والنفس فهو له صفات بلا کیف، ولایقال إن یده: قدرته أو نعمته لأن فیه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولکن یده صفته بلا کیف وغضبه ورضاه من صفات اﷲ تعالىٰ بلا کیف»9
''اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ ، چہرہ او ر نفس ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا قرآن میں اِثبات کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے لیے ہاتھ، چہرہ اور نفس کی جو صفات بیان کی ہیں تو وہ بلا کیفیت ہیں اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے ہاتھ سے مراد اس کی قدرت ہے یا اس کی نعمت ہے کیونکہ اس طرح کے قول سے اللہ کی صفت باطل قرار پاتی ہے اور ایسا کام [یعنی صفات میں تاویل کرنا] معتزلہ اور قدریہ کرتے ہیں۔لیکن 'ید' اللہ تعالیٰ کی صفت ہے بلا کیفیت کے، اور اللہ کا غضب اور اس کی رضا اس کی صفات ہیں بلا کیفیت ۔''
اس عبارت میں ایک طرف تو امام ابو حنیفہ نے صفاتِ باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے اور دوسری طرف ان صفات میں تاویل سے منع کیا ہے اور تاویل کو معتزلی منہج قرار دیا ہے۔ گویا صفاتِ باری تعالیٰ میں تاویل کا مذہب تو قطعی طور پر ردّ ہو گیا یعنی تاویل والا مسلک امام صاحب اوراہل سنت والجماعت کا نہیں ہے۔
اب امام صاحب نے اللہ کی صفات کا جو اثبات کیا ہے تو کیا اس اثبات سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ ان صفات کا حقیقی معنی بھی بیان نہیں کرتے اور اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات لیتے ہیں جیسا کہ مفوضہ کا عقیدہ ہے یا اُن کی مراد یہ ہے کہ وہ صفات کا حقیقی معنی تو بیان کرتے ہیں لیکن کیفیت بیان نہیں کرتے اور اثباتِ صفات سے ان کی مراد حقیقی معنیٰ کا اثبات ہے جیسا کہ سلفی عقیدہ ہے۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ امام ابو حنیفہ کی یہ عبارت مفوضہ کا ردّ کر رہی ہے او ر سلفی عقیدے کو بیان کر رہی ہے کیونکہ امام صاحب نے جب صفات کا اثبات کیا تو کیفیت کی نفی کی ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ صفات کے حقیقی معنی کے قائل ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں بیان شدہ صفاتِ باری تعالیٰ کے اثبات سے مراد اگر لفظوں کا اثبات لیا جائے تو اس کا انکار قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی کلام ماننے والا کوئی مسلمان نہیں کر سکتا کیونکہ قرآن کے الفاظ کا انکار تو کوئی کافر کر سکتا ہے۔یا وہ شخص جو قرآن کے اللہ کی کلام لفظی ہونے کا منکر ہے کیا امام صاحب اپنی عبارت ولکن یده صفة بلا کیفسے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ کا انکار نہ کرنا؟کیا امام صاحب یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ بھی ثابت ہیں؟ یعنی امام صاحب اہل علم کو وہ عقیدہ بتلانا چاہتے ہیں جس سے مسلمانوں کا بچہ بچہ واقف ہے۔ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ امام صاحب کا اس عبارت سے مقصود یہ ہے کہ صفات اپنی حقیقی معنیٰ کے ساتھ ثابت ہیں لیکن بغیر کیفیت کے ہیں۔اگر امام ابوحنیفہ کے لیے مفوضہ یا مولانا سلیم اللہ خان صاحب کا عقیدہ لیں تو پھر صفات کے اِثبات سے مراد صرف الفاظ کا اثبات ہو گا کیونکہ تفویض کی صورت میں تو کوئی بھی معنیٰ مراد نہیں لیا جاتا۔
٭ اب ہم اس طرح آتے ہیں کہ کبارحنفی علما نے امام ابو حنیفہ کی ان عبارات سے تفویضِ مطلق کا عقیدہ سمجھا ہے یا صفات کے حقیقی معنی کے اثبات کا سلفی عقیدہ؟
8. فخرالاسلام امام بزدوی 'فقہ اکبر' کی اس عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں :
«(فهو له صفات بلا کیف) أي أصلها معلوم ووصفها مجهول لنا فلا یبطل الأصل المعلوم بسبب التشابه والعجز عن درك الوصف، رُوي عن أحمد بن حنبل رحمه اﷲ تعالىٰ أن الکیفية مجهول والبحث عنه بدعة»10
(پس یہ اللہ کی صفات ہیں بلا کیفیت کے) امام ابو حنیفہ کی اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ ان صفات کا حقیقی اور اصلی معنیٰ معلوم ہے جبکہ کیفیت مجہول ہے۔ پس ان صفات کے حقیقی اور اصلی معنی کا انکار اس وجہ سے نہ کیا جائے گا کہ اس سے مخلوق کے ساتھ (صفات میں) تشابہ لازم آتا ہے اور اس وجہ سے بھی اس حقیقی و اَصلی معنی کا انکار نہیں ہو گا کہ اس کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ صفات کی کیفیت مجہول ہے اور اس کیفیت کے بارے بحث کرنا بدعت ہے:
9. ملا علی القاری(متوفی ۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں کہ صفات کے مسئلے میں جو عقیدہ امام ابن تیمیہ کا تھا، وہی امام ابو حنیفہ کا عقیدہ ہے جو اُنہوں نے 'فقہ اکبر ' میں بیان کیا ہے۔ ملا علی القاری یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کو تجسیم کا قائل قرار دینا صحیح نہیں ہے بلکہ صفات کے بارے ان کا موقف وہی تھا جو سلف صالحین کا ہے اور وہ یہ ہے کہ صفات کا معنی معلوم اور کیفیت مجہول ہے۔ ملا علی القاری لکھتے ہیں:
«قال: الاستواء معلوم والکیف غیر معقول والإیمان به واجب والسؤال عنه بدعة ـــ فَرَّقَ بین المعنٰی المعلوم من هذه اللفظة وبین الکیف الذي لا یعقله البشر وهذا الجواب من مالك رحمه اﷲ شاف عام في جمیع مسائل الصفات من السمع والبصر والعلم والحیاة والقدرة والإرادة والنزول والغضب والرحمة والضحك ـــ فمعانیها کلها معلومة وأما کیفیتها فغیر معقولة إذ تعقل الکیف فرع العلم بکیفية الذات وکنهها۔ فإذا کان ذلك غیر معلوم فکیف یعقل لهم کیفية الصفات والعصمة النافعة من هٰذا الباب أن یصف اﷲ بما وصف به نفسه ووصف به رسوله من غیر تحریف ولا تعطیل ومن غیر تکییف ولا تمثیل بل یثبت له الأسماء والصفات وینفی عنه مشابهة المخلوقات فیکون إثباتك مُنزّها عن التشبیه ونفیك مُنزّها عن التعطیل فَمَنْ نفٰی حقیقة الاستواء فهو مُعطِّل ومن شبَّهه باستواء المخلوقات علی المخلوق فهو مشبه ومن قال استواء لیس کمثله شيء فهو الموحد المنزه.انتهٰی کلامه وتبین مرامه وظهر أن معتقده موافق لأهل الحق من السلف وجمهور الخلف فالطعن التشنیع والتقبیح الفظیع غیر موجه علیه ولا متوجه إلیه فإن کلامه بعینه مطابق لما قاله الإمام الأعظم والمجتهد الأقدم في فقهه الأکبر ما نصه وله تعالی ید ووجه ونفس»11
''(امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:) امام مالک نے کہا کہ اللہ کا مستوی ہونا تو معلوم ہے لیکن کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کیفیت کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ امام مالک نے ان الفاظ کے ذریعہ صفات کے معلوم معنیٰ اور غیر معقول کیفیت میں فرق کیا ہے۔امام مالک کا یہ جواب جمیع صفاتِ باری تعالیٰ مثلاً سماعت، بصارت، علم، حیات، قدرت، اِرادہ، نزول، غضب، رحمت اور ضحک وغیرہ کے بارے کافی وشافی ہے۔ پس جمیع صفاتِ باری تعالیٰ کے معانی معلوم ہیں جبکہ ان کی کیفیات غیر معقول ہیں کیونکہ صفات کی کیفیات کا معقول المعنیٰ ہونا، ذات کی کیفیت اور اس کی کنہ کے علم کی ایک شاخ ہے۔پس جب اللہ تعالیٰ کی ذات اور کنہ غیر معلوم ہے تو اس کے صفات کی کیفیات بھی معقول نہیں ہو سکتیں۔ اس مسئلے میں نافع اور محتاط قول یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر اس صفت سے موصوف کیا جائے جس کے ساتھ اللہ نے خود یا اللہ کے رسول نے اللہ تعالیٰ کو موصوف کیا ہو اور ان صفات کے معانی میں نہ تو تحریف کی جائے [یعنی تاویل] اور نہ ہی تعطیل کی جائے [یعنی ان صفات کے حقیقی معانی کا انکار کیا جائے یعنی تفویض مطلق وغیرہ] اور نہ ہی ان کی کیفیت بیان کی جائے اور نہ ہی ان کی مثال بیان کی جائے [یعنی مخلوق سے مشابہت دی جائے ]بلکہ اللہ کے لیے جمیع اَسما اور صفات کا اثبات کیا جائے اور ان اسما و صفات کی مخلوق کے اسما و صفات سے مشابہت سے انکار کیا جائے۔ پس تیرا صفات کا اِثبات اس طرح ہو کہ اس میں تشبیہ موجود نہ ہو اور صفات کی کیفیات کے بارے تیری نفی یوں ہو کہ اس سے صفات کا ظاہری اور حقیقی معنی کا انکار نہ ہو۔ پس جس نے اِستوا کے حقیقی معنیٰ کا ہی انکار کر دیا تو وہ معطلہ میں سے ہے اور جس نے استوا کی تشبیہ یوں بیان کی کہ یہ ایسا ہے جیسے ایک مخلوق دوسری مخلوق پر ہوتی ہے تو یہ مشبہ میں سے ہے اور جس نے یہ کہا کہ اِستوا تو ہے لیکن اس طرح کہ اس کی مانند کوئی شے نہیں ہے تو وہی درحقیقت موحد اور تنزیہ بیان کرنے والا ہے۔یہاں پر امام ابن تیمیہ کا کلام ختم ہوا۔
(اب میں یعنی ملا علی القاری یہ کہتا ہوں) کہ اس کلام سے امام ابن تیمیہ کا مقصد واضح ہو گیا ہے اور اُن کا عقیدہ بھی کھل کر سامنے آ گیا ہے اور یہ وہی عقیدہ ہے جو سلف صالحین اور جمہور خلف کا ہے۔ پس طعن و تشنیع اور بدترین تقبیح کی نسبت امام ابن تیمیہ کے لیے درست نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ کا کلام بعینہٖ وہی کلام ہے جسے امام اعظم اور مجتہد اکبر امام ابو حنیفہؒ نے اپنی کتاب 'فقہ ِاکبر' میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ اور چہرہ اور نفس ہے ۔''
10. اپنی ایک اور کتاب فقه أبسط میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:
«لایوصف اﷲ تعالىٰ بصفات المخلوقین، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته بلا کیف، وهو قول أهل السنة والجماعة، وهو یغضب ویرضٰى ولا یقال: غضبه عقوبته، ورضاه ثوابه»12
''اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے موصوف نہیں کیا جائے گا۔ غضب او ر رضا اللہ کی صفات میں سے دو صفات ہیں جن کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غضب میں بھی آتے ہیں اور راضی بھی ہوتے ہیں ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اللہ کے غضب سے مراد اُس کی طرف سے سزا ہے اور اس کی رضا سے مراد اس کی طرف سے ثواب ہے۔''
11. عقیدہ کی مشہور کتاب العقیدہ الطحاویہ کے شارح علامہ ابن العز حنفی لکھتے ہیں:
«روٰی شیخ الإسلام أبو إسمٰعیل الأنصاري في کتابه الفارق بسنده إلی مطیع البلخي أنه سأل أبا حنیفة عمن قال: لا أعرف ربي في السماء أم في الأرض فقال : قد کفر لأن اﷲ یقول: الرحمٰن على العرش استوٰی وعرشه فوق سبع سماواته. قلت: فإن قال: إنه علىٰ العرش ولکن یقول لا أدري العرش في السماء أم في الأرض؟ قال: هو کافر لأنه أنکر أنه في السماء فمن أنکر أنه في السماء فقد کفر»13
''شیخ الاسلام ابو اسماعیل انصاری نے اپنی کتاب 'الفارق' میں اپنی سند سے مطیع بلخی سے نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے امام ابو حنیفہ سے اس شخص کے بارے سوال کیا جو یہ کہتا ہے: میں نہیں جانتا کہ میرا ربّ آسمان میں ہے یا زمین میں؟ تو امام صاحب نے فرمایا : اس نے کفر کیاکیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ وہ عرش پر مستوی ہیں اور اللہ کا عرش سات آسمانوں پر ہے۔ میں [یعنی مطیع بلخی] نے پھر یہ سوال کیا کہ اگر وہ شخص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو عرش پر ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ عرش آسمان میں ہے یا زمین میں ؟تو امام ابو حنیفہ نے کہا: یہ شخص بھی کافر ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا تو وہ کافر ہے۔''
مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کو متشدد قرار دیا ہے۔ اب وہ بتائیں کہ اس مسئلے میں متشدد کون ہے؟ تکفیر تو امام ابو حنیفہ کریں اور متشدد سلفیہ قرار پائیں۔ عقیدہ طحاویہ ، عقیدے کی کتاب ہے جس کے مصنف حنفی فقیہ امام طحاوی ہیں۔ پھر اس کتاب کی شرح 'شرح عقیدہ طحاویہ' جس کا ہم نے حوالہ دیا ہے، ایک حنفی عالم دین ابن ابی العز حنفی(متوفی ۷۹۲ھ) کی ہے۔پس حنفی عقیدے کی کتاب اور حنفی عالم دین (شارح) اس روایت کے ناقل ہیں اور نقل بھی حنفی فقہا کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ اب بھی اگراسکے جواب میں معاصر حنفی علما یہ کہیں کہ سلفیہ نے یہ عقیدہ امام ابو حنیفہ کے کھاتے میں ڈال دیا ہے تو اُن کا اللہ ہی حافظ ہے۔'فقہ اَبسط' میں بھی امام صاحب کایہ قول موجود ہے جو خود امام صاحب کی طرف منسوب کتاب ہے۔ پھر جلیل القدر محدثین نے اس قول کی نسبت امام صاحب کی طرف ثابت کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی کتاب کا حوالہ ہم نے نقل کیا ہے:
12. امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ) اپنی سند کے ساتھ امام ابو حنیفہ سے یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ان سے جب ایک عورت نے یہ سوال کیا ہے کہ آپ جس 'الٰہ' کی عبادت کرتے ہیں، وہ کہاں ہے؟ تو امام صاحب نے اس عورت کو جواب نہ دیا اور سات دن تک اس کے سوال کا جواب دینے سے رُکے رہے، یہاں تک کہ سات دن بعد امام صاحب تشریف لائے اور اپنی دو کتابیں [غالباً مراد فقہ اکبر اور فقہ ابسط ہے] سامنے رکھیں اور کہا:
«اﷲ تبارك وتعالىٰ في السماء دون الأرض. فقال له رجل : أرأیت قول اﷲ عز وجل:﴿وَ هُوَ مَعَكُمْ﴾ قال: هو کما تکتب إلىٰ الرجل إني معك وأنت غائب عنه»14
'' اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور زمین میں نہیں ۔ ایک شخص نے اس پر کہا کہ قرآن کی اس آیت کہ ﴿وَ هُوَ مَعَكُمْ﴾ سیعنی وہ اللہ تمہارے ساتھ ہے ، کے بارے آپ کی کیا رائے ہے تو امام صاحب نے کہا : یہ ایسے ہی ہے جیساکہ تو کسی آدمی کو کوئی خط لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، حالانکہ تو اس سے غائب ہوتا ہے۔''
اب اس کو مولانا سلیم اللہ خان صاحب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تفویض مطلق ہے؟ اور استوا کا اس قدر معنیٰ بیان کرنا ہی تفویض کہلاتا ہے۔اگرتو مولانا کی تفویض سے یہی مراد ہے جو امام ابوحنیفہ کے حوالے سے مذکورہ بالا عبارت میں بیان ہوئی ہے تو پھر ان کے اور سلفیہ کے مابین اختلاف لفظی ہے۔ یعنی استوا سے مراد آسمان میں ہونا لینا کیا تفویض مطلق ہے یا لفظ کو حقیقی معنی پر برقرار رکھ کر اس کی کیفیت بیان کرنے سے اجتناب کرنا ہے؟
13. امام ابو حنیفہ سے جب اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا پر نازل ہونے کے بارے سوال ہوا تو اُنہوں نے جواباً کہا: ینزل بلا کیف15
''اللہ تعالیٰ نازل ہوتے ہیں لیکن اس کی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔''
14. مشہور حنفی فقیہ شمس الائمہ امام سرخسی (متوفی ۴۳۸ھ) محکم اور متشابہ کی بحث میں قرآن میں متشابہ کا معنی سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وبیان ما ذکرنا من معنی المتشابه من مسائل الأصول أن رؤية اﷲ بالأبصار في الآخرة حق معلوم ثابت بالنص، وهو قوله تعالىٰ ﴿وُجوهٌ يَومَئِذٍ ناضِرَةٌ ٢٢إِلىٰ رَبِّها ناظِرَةٌ ٢٣ وَوُجوهٌ يَومَئِذٍ باسِرَةٌ ٢٤ ﴾.... سورة القيامة" ثم هو موجود بصفة الکمال، وفي کونه مرئیا لنفسه ولغیره معنٰی الکمال إلا أن الجهة ممتنع، فإن اﷲ تعالىٰ لا جهة له فکان متشابها فیما یرجع إلی کیفية الرؤية والجهة، مع کون أصل الرؤية ثابتًا بالنص معلومًا کرامة للمؤمنین، فإنهم أهل لهذه الکرامة، والتشابه فیما یرجع إلىٰ الوصف لا یقدح في العلم بالأصل ولا یبطل، وکذلك الوجه والید على نص اﷲ تعالىٰ في القرآن معلوم وکیفیــية ذلك من المتشابه فلا یبطل به الأصل المعلوم. والمعتزلـة ــ خذلهم اﷲ ـــ لاشتباه الکیفية علیهم أنکروا الأصل فکانوا بإنکارهم صفات اﷲ تعالىٰ وأهل السنة والجماعة ــ نصرهم اﷲ ــ أثبتوا ما هو الأصل المعلوم بالنص وتوقفوا فیما هو المتشابه وهو الکیفية ولم یجوزوا الاشتغال بطلب ذلك»16
''اعتقادی مسائل میں متشابہ کا جو معنی ہم نے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت میں آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا دیدار نص سے معلوم ، حق اور ثابت ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔پھر وہ صفت ِکمال کے ساتھ موجود بھی ہے اور اللہ کے اپنی ذات اور دوسروں کے لیے دیکھنے جانے سے مراد کمال درجے میں دیکھا جانا ہے مگر اس دیکھنے میں کوئی خاص جہت نہیں ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ جہات سے پاک ہے۔ پس اس صورت میں متشابہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو دیکھے جانے کی کیفیت اور جہت متشابہ ہے [نہ کہ دیکھنا یعنی رؤیت کا حقیقی معنی ہی متشابہ ہے]جبکہ دیکھنا تو نص سے معلوم اور ثابت ہے اور اس میں اہل ایمان کی فضیلت ہے۔ اور تشابہ [یعنی متشابہ ہونا] یہاں پررؤیت کی کیفیت میں ہے اور ایسے تشابہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ رؤیت کا حقیقی واصلی معنی ہی باطل یا قابل عیب ٹھہرے ۔ اس طرح کا معاملہ صفت ِ'ید' او ر صفت'ِوجہ' کا بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قرآن میں بیان کیا ہے تو اُن کا معنی معلوم ہے لیکن ان کی کیفیات متشابہ ہیں۔ پس کیفیت کے متشابہ ہونے کی وجہ سے حقیقی و اصلی معنیٰ باطل قرار نہیں پائے گا۔ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے، اللہ اُنہیں رسوا کرے، اُنہوں نے صفات کی کیفیت کے مشتبہ ہوجانے کی وجہ سے ان کے حقیقی معنی کا بھی انکار کر دیاپس وہ اللہ کی صفات کے منکر بن گئے۔جبکہ اہل سنت والجماعت، اللہ تعالیٰ ان کی مدد ونصرت فرمائے، صفات کی نصوص کے حقیقی و اصلی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جو چیز متشابہ ہے اس میں توقف کرتے ہیں اور وہ متشابہ چیز ان کی کیفیت ہے اور اس کیفیت کے پیچھے پڑنے کو اہل سنت جائز قرار نہیں دیتے ہیں۔''
یہ واضح رہے کہ سلفی حنفی علما اللہ تعالیٰ کے لیے جہات کا انکار کرتے ہیں لیکن صفت ِعلو یا فوقیت کو ثابت کرتے ہیں جیسا کہ 'فقہ اکبر'اور عقیدہ طحاویہ اور شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
15. امام بزدوی بھی متشابہ کے بارے مشایخ حنفیہ کا مسلک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«إثبات الید والوجه حق عندنا معلوم بأصله متشابه بوصفه ولا یجوز إبطال الأصل بالعجز عن إدراك الوصف بالکیف وإنما ضلت المعتزلة من هٰذا الوجه فإنهم ردّوا الأصول لجهلهم بالصفات فصاروا معطلة»17
''[اللہ کی صفات میں سے]ہاتھ اور چہرہ کا اثبات ہمارے نزدیک حق ہے اور اس کا اصل معنی [یعنی حقیقی معنی]معلوم ہے جبکہ اس کی کیفیت متشابہ ہے۔ پس صفات کے اصل[یعنی حقیقی] معنی کو اس وجہ سے ردّ کرنا جائز نہیں ہے کہ صفات کے اس اصل معنی کی کیفیت کا اِدراک ممکن نہیں ہے۔ معتزلہ اسی وجہ سے گمراہ ہوئے اور اُنہوں نے اپنی جہالت کے سبب صفات کے حقیقی معانی کا بھی انکار کر دیا اور معطلہ بن گئے۔''
16. اسی طرح امام طحاوی (متوفی ۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:
«وأن القرآن کلام اﷲ منه بدأ بلا کیفية قولا»18
''یہ کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اسی سے اس کی ابتدا باعتبارِ قول کے ہوئی ہے اور اس کی کوئی کیفیت بیان نہیں ہو گی۔''
امام مالک بن انس کا عقیدہ
امام مالک (متوفی ۱۷۹ھ) کا بھی صفاتِ باری تعالیٰ میں وہی عقیدہ ہے جو امام ابو حنیفہ کا ہے۔امام بیہقی (متوفی ۴۵۸ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی (متوفی ۴۶۳ھ) امام مالک سے اپنی اپنی سند کے ساتھ ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
«یحیٰی بن یحیٰی یقول: کنا عند مالك بن أنس فجاء رجل فقال: یا أبا عبد اﷲ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ فکیف استوٰی؟ قال: فأطرق مالك برأسه حتی علاه الرحضاء ثم قال: الاستواء غیر مجهول، والکیف غیر معقول، والإیمان به واجب، والسؤال عنه بدعة، وما أراك إلا مبتدعًا، فأمر به أن یخرج»19
''یحییٰ بن یحییٰ سے روایت ہے کہ ہم حضرت انس بن مالک کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اوراس نے سوال کیا: اے عبد اللہ! اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور یہ استواء کس طرح کا ہے؟ [راوی کہتے ہیں کہ] امام مالک نےاپنا سر جھکایا یہاں تک کہ اُنہیں غصے سے پسینہ آ گیا۔ پھر اُنہوں نے کہا:استوا مجہول نہیں ہے [یعنی معلوم ہے] اور اس کی کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے سوال کرنا بدعت ہے۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ تو [یعنی سائل] بدعتی ہے ۔اور امام مالک نے اس سائل کو اپنی مجلس سے نکالنے کا حکم دیا۔''
بنیادی مصادر کی کئی ایک کتب میں امام مالک کا یہ قول کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے۔
امام شافعی کا عقیدہ
امام شافعی کا عقیدہ بھی صفات کے بارے وہی ہے جو امام مالک کا ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
«القول في السنة التي أنا علیها، ورأیت علیها الذین رأیتُهم، مثل سفیان ومالك وغیرهما: الإقرار بشهادة أن لا إلٰه إلا اﷲ وأن محمدًا رسول اﷲ وأن اﷲ تعالىٰ على عرشه في سمائه یقرب من خلقه کیف شاء، وأن اﷲ تعالىٰ وینزل إلى السماء الدنیا کیف شاء»20
''جس طریقہ کار کو میں نے اختیار کیا اورجس منہج پر میں نے امام سفیان ثوری اور امام مالک رحمہما اللہ کو دیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس کا ا قرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اوربلاشبہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ عرش پر آسمان میں ہے اور اپنی مخلوق سے بھی قریب ہوتاہے، جیسے وہ چاہتا ہے۔ اور آسمان دنیا پر وہ نزول فرماتا ہے جیسے چاہتا ہے۔''
امام شافعی کا یہ قول کئی ایک اور بھی بنیادی مصادر کی کتب میں نقل ہو اہے۔
امام احمد بن حنبل کا عقیدہ
حنبل بن اسحق ، امام احمد بن حنبل (متوفی ۲۴۱ھ)سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«نحن نؤمن بأن اﷲ علىٰ العرش،کیف شاء وکما شاء، بلا حد، ولاصفة یبلغها واصف أو یحده أحد، فصفات اﷲ له ومنه، وهو کما وصف نفسه»﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ﴾21
''ہم اس بات پرایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، جیسے ا ور جس طر ح اس نے چاہا ، بغیر کسی حد کے جسے کوئی بیان کرے، اور بغیر کسی کیفیت کے ، جسے کوئی بتلائے۔ پس اللہ کی صفات اس سے ہیں اور اس کے لیے ہیں، اوراللہ تعالیٰ ایسے ہی ہیں جیسے اُنہوں نے اپنے آپ کو موصوف کیا ہے اور نگاہیں اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔''
ائمہ اربعہؒ کے عقیدہ کے عقلی ومنطقی دلائل
ائمہ اربعہ کے بالمقابل اہل تاویل اور اہل تفویض کا عقیدہ قرآن وسنت کی نصوص کے تو خلاف ہے ہی لیکن عقل و منطق کے بھی خلاف ہے۔ائمہ اربعہ اور سلفیہ ایک با ت تویہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ 'ید'کو اپنے لیے استعمال کیا ہے تو ایک تو اس لفظ میں تاویل مثلاً اس کا مجازی معنی مراد لیناجائز نہیں ہے یعنی یہ کہنا کہ اللہ کے 'ید' سے مراد اس کی قدرت ہے ،کیونکہ یہ کہنا کہ'ید' کا لفظ عربی میں قدرت کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے، درست نہیں ہے۔
17. اس کی وجہ یہ ہے کہ الفاظِ قرآنی سے مراد حقیقت یعنی حقیقی معنی ہوگا اور مجازی معنی اس وقت لیا جائے گا جبکہ اس کا کوئی قرینہ ہو۔ یعنی گفتگو اور خطاب کا یہ ایک مسلم اُصول ہے کہ کلام میں اصل حقیقت ہوتی ہے ، چاہے وہ حقیقت ِلغوی ہو یا عرفی یا شرعی۔ مجازی معنی مراد لینے کے لیے کوئی دلیل چاہیے یعنی کلام میں مجاز مراد لینا دلیل کا متقاضی ہے۔ اگر تو کلام میں مجاز کو اصل مان لیا جائے تو کلام کا معنی کبھی متعین ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر کسی کا مجاز اپنا ہو گا جیسا کہ اہل تاویل کا اللہ کی صفات کے معانی بیان کرنے میں کبھی بھی اتفاق نہ ہو سکا۔ یعنی جہمیہ،معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ سب صفات کی تاویل کرتے ہیں لیکن ان کی تاویلات بھی باہم مختلف ہوتی ہے اور کسی ایک تاویل پران کا اتفاق نہیں ہے جبکہ دوسری طرف ائمہ اربعہ حقیقی معنی مراد لیتے ہیں لہٰذا ان میں اتفاق ہے۔
18. دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک اس لفظ کا حقیقی معنی [یعنی ہاتھ]مراد نہ لینا بھی صحیح منہج نہیں ہے جسے تفویض کہتے ہیں۔ تفویض سے یہ لازم آتا ہے کہ کلام مخاطب کو سمجھانے کے لیے نہ کی جائے اور جو کلام مخاطب کو سمجھ نہ آئے اسے فصیح اور بلیغ کلام نہیں کہتے۔یعنی صفات میں تفویض کا عقیدہ مان لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی ہم سے یہ پوچھے کہ﴿ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ﴾یا ﴿بَلْ يَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ﴾ یا ﴿لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ﴾وغیرہ جیسی قرآنی آیات کے کیا معنی ہیں؟ تو ہم یہ جواب دیں کہ ان آیات کا معنی اللہ ہی کو معلوم ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ہے۔اگر کلام کا معنی ہی واضح نہ ہو تو وہ کلام فصیح وبلیغ کیسے کہلائے گا؟ اللہ کی ذات اس سے بہت منزہ ہے کہ ایسا مبہم کلام کرے جو مخاطب کو سمجھ ہی نہ آئے ۔ بلکہ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں:
﴿إِنّا أَنزَلنـٰهُ قُرءٰنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُم تَعقِلونَ ٢ ﴾.... سورة يوسف
''بلاشبہ ہم نے اسے عربی قرآن بنا کر نازل کیا ہے تاکہ تم اسے سمجھو۔''
19. تفویض کے خلاف یہ دلیل بھی کافی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے 'ید' کا لفظ استعمال کیاتو اگرچہ اس کی کنہ ہمیں معلوم نہ بھی ہو لیکن یہ تو معلوم ہے کہ 'ید' سے مراد پاؤں،آنکھیں،چہرہ،ذات وغیرہ نہیں ہوتی ۔ گویا آپ نے 'ید' کے معانی سے ایک لمبی چوڑی فہرست کو جب خارج کر دیا تو 'ید'کا کچھ معنی تواز خود متعین ہو گیا۔ یعنی اگر مفوضہ سے یہ کہا جائے کہ کیا صفتِ 'ید' سے مراد صفت ِ'عین' ہو سکتی ہے تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ پس 'ید' کی حقیقت معلوم ہے اور اس سے مراد مجاز نہیں ہے جبکہ اس حقیقت کی کیفیت معلوم نہیں ہے۔
اہل تاویل اور اہل تفویض نے سلفیہ پر یہ جو اعتراض کیا ہے کہ صفات کا حقیقی معنی مراد لینے سے تجسیم لازم آتی ہے تو یہ اعتراض نہایت ہی بودا ہے۔اہل تاویل کے لیے تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ جن اہل تاویل نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفتِ وجود کا اثبات کیا ہے اور اس کا حقیقی معنی مراد لیا ہے۔ پس جب وہ اہل تاویل صفت وجود حقیقی معنی پر باقی رکھتے ہیں اور اس کی تاویل نہیں کرتے جبکہ دیگرصفات کی وہ تاویل کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ جو موقف صفت وجود کے لیے اختیار کرتے ہیں وہی دیگر صفات کے لیے بھی کرنا پڑے گا۔
جہاں تک اہل تفویض کا معاملہ ہے تو ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اللہ کی صفت ِوجود [یعنی موجود ہونا]میں بھی تفویض کے قائل ہیں یا نہیں؟اگر تو وہ صفت ِوجود میں بھی تفویض کے قائل ہیں تو دہریت لازم آتی ہے یعنی صفت ِوجود میں تفویض کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وجود کا معنی کیا ہے اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ کے وجود (Existence of God)یعنی ہونے اور نہ ہونے کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد کر دیں اور یہی دہریت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اقرار کرتے ہیں۔ اگر تو اہل تفویض صفت ِوجود کا حقیقی معنی مراد لیتے ہیں تو ان پر بھی تجسیم کا اعتراض لازم آتا ہے کیونکہ وجود تو کسی شے کا ہوتا ہے اور معدوم کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
خلاصۂ کلام: ائمہ اربعہ کا عقیدہ توحید اسماء وصفات میں یہ ہے کہ وہ حقیقی معنی کا اثبات کرتے ہیں اور اس معنیٰ کی کیفیت کے پیچھے نہیں پڑتے۔ حنفی ماتریدی، حنفی اشعری اور حنفی اہل تفویض کا عقیدہ ائمہ اربعہ اور امام ابو حنیفہ کے عقیدے کے خلاف ہے اور اگر اہل سنت والجماعت سے مراد ائمہ اربعہ کا عقیدہ ہے تو توحید ِاسماء وصفات کے پہلو سے ماتریدی، اشعری اور مفوضہ حنفی علماء اہل السنہ والجماعہ سے خارج ہیں۔پس برصغیر کے بریلوی علما اور علماے دیو بند، جیساکہ ان کے عقیدے کی نشاندہی مولانا سلیم اللہ خان صاحب نے کی، اس لحاظ سے اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں کہ وہ ائمہ اربعہ کے متفقہ عقیدہ پر نہیں ہیں۔
البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر حنفی اہل السنہ سے خارج نہیں بلکہ حنفیہ میں جوامام ابوحنیفہؒ کے عقیدہ پرہیں جیسا کہ امام ابو یوسف، امام محمد، امام طحاوی،اما م بزدوی، امام سرخسی، امام ابن ابی العز حنفی اور مولانا عبد الحیی لکھنویؒ وغیرہ تو وہ بلاشبہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ برصغیر کے احناف کوبھی امام ابو حنیفہ کی طرح خالص سلفی عقیدہ کو اپنانا چاہئے۔ باقی رہا اہل تاویل اوراہل تفویض کا اُخروی معاملہ تو ہم اس کے بارے کوئی کلام نہیں کرتے،کیونکہ یہ معاملہ جنتی اور جہنمی ہونے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کسی فرشتہ مقرب اور نبی مرسل کو بھی اس کا اختیار نہیں دیا۔ہم ظاہر کے مطابق کسی عقیدہ یا فقہ کے مسلک کو صحیح یا غلط،راجح یا مرجوح تو کہہ سکتے ہیں۔اسکے آگے ہمیں حق نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب!
اہل سنت (ائمہ اربعہ وغیرہ) یا سلفی قرآنِ کریم کو لفظاً ومعنیٰ اللہ کی کلام کہتے ہیں، اس طرح احادیث قرآن کریم کی تشریح وتفسیرہیں (جنہیں مرادِ الٰہی بھی کہا جا سکتا ہے) لہٰذا اسماء وصفاتِ الٰہی کے مسئلہ میں ان کو تعبیر کی پریشانی نہیں ہے۔وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ (نفس، ید، ساق وغیرہ) کو لفظاً اور معنیً بلا تعطیل و تکییف مانتے ہیں بلکہ دوسرے اسماء وصفات کو بھی اسی طرح بلا تاویل تسلیم کرتے ہیں۔ان کے بالمقابل اہل تاویل کا موقف یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اہل تاویل (جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، ماتریدیہ) قرآنِ کریم کے لیے اللہ تعالیٰ کی کلامِ لفظی ہونے کے قائل نہیں ہیں۔اگرچہ جہمیہ اور معتزلہ تو خلق قرآن کے قائل ہیں جب کہ اشعریہ اور ماتریدیہ صراحۃً تو قرآن کو مخلوق نہیں کہتے بلکہ اسے کلامِ نفسی کہتے ہیں۔تاہم قرآنِ کریم کے الفاظ( سب اہل تاویل کے نزدیک) اللہ تعالیٰ کی کلامِ لفظی نہ ہونے کی بنا پر، اس میں وارد اسماء وصفاتِ الٰہی کے بارے میں الفاظ کی حد تک، مسئلہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتا۔
دوسری طرف احادیث کےاخبارِ صحابہؓ ہونے کی بنا پر ان میں الفاظ کی بجائے اصل مفہوم ہی ہوتا ہے۔گویا کتاب وسنت میں وارد الفاظ کے اطلاقات کا مسئلہ تو اہمیت کھوبیٹھا۔اب مسئلہ صرف مفہوم کا رہ گیا ہے۔جہمیہ تو اسماء ا لٰہی (متکلم، سمیع، بصیر) کے منکر ہیں اور معتزلہ اسماء الٰہی کے الفاظ کی بجائے ان کے مفاہیم کی تاویل کر کے اُنہیں مجاز کی بحث میں لے گئے ہیں۔البتہ صفاتِ الٰہی (کلام، سمع، بصر) کے معتزلہ منکر ہیں،لیکن اشعریہ اور ماتریدیہ صفاتِ الٰہی (کلام، سمع، بصر) کا صراحۃً انکار تو نہیں کرتے تاہم مفہوم کی وہ بھی تاویل کر کے اسے مجاز ہی قرار دیتے ہیں۔گویا متکلمین کی تعبیرات متنوع ہیں جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔ہم نے بہت اختصار سے ایک خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ (محدث)
حوالہ جات
1 ماہنامہ 'وفاق المدارس'ص۷،۸نومبر ۲۰۱۰ء
2ماہنامہ 'وفاق المدارس'ص9
3ایضاً : ص ۱۳
4فتاویٰ شامیہ :جلد۱/ ص ۱۴۲، دار احیاء التراث العربی
5اعتقاد الأئمة الأربعة از ڈاکٹر محمد بن عبد الرحمن الخمیس : ص۷
6مجموع الفتاویٰ : ۵/۲۵۶، طبع دار الوفاء، ۲۰۰۵ھ
7تفسیر فتح البيان از نواب صدیق حسن خان
8اُصولِ بزدوی : ص۳، جاوید پریس، کراچی
9الفقه الأکبر مع شرحه: ص27، مکتبۃ الفرقان، 1419ھ
10شرح الفقہ الاکبر از امام بزدوی : ص۱۰
11مرقاة المفاتیح شرح مشکوٰة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني
12الشرح المیسر على الفقهین الأبسط والأکبر : ص۱۵۹، مکتبہ الفرقان، ۱۴۱۹ھ
13شرح العقیدة الطحاوية: ص۲۸۰، المکتب الاسلامي، بیروت ؛ الفقه الأبسط مع شرحه: ص۱۳۵، مکتبہ الفرقان ۱۴۱۹ھ ؛ العلو للذهبي: ص ۱۳۶، مکتبہ اضواء السلف، الریاض
14الاسماء والصفات : ۲/۳۳۸، مکتبہ السوادی، جده
15شرح الفقہ الاکبر از علی قاری : ص ۱۲۶، دار البشائر الاسلامیہ،بیروت ؛ شرح العقیدۃ الطحاویۃ از ابو العز حنفی: ص ۲۱۸، الاسماء والصفات از بیہقی: ۲/۳۸۰
16اُصول السرخسی: ص۱۷۰، دار الکتاب العلمیہ، بیروت
17اُصولِ بزدوی : ص۱۰، جاوید پریس، کراچی
18العقیدۃ الطحاویۃ : ص ۴۴،۴۵
19الاسماء والصفات از بیہقی: ۲/۳۰۵،۳۰۶؛ التمهید از ابن عبدالبر: ۷/۱۵۱، مؤسسہ القرطبہ، بیروت
20العلو از ذہبی: ص ۱۶۵، مکتبۃ أضواء السلف ، الریاض ؛ مجموع الفتاوی : ۴/۱۸۱، دار الوفاء، ۱۴۲۶ھ
21درء تعارض العقل والنقل : ۱/۲۵۴، دار الکنوز الأدبیۃ،الریاض