کیا حائضہ عورت قرآنِ مجید کی تلاوت کرسکتی ہے ؟
ایامِ مخصوصہ (حیض) اور نفاس و جنابت میں عورت قرآن کریم کی تلاوت کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیز اس حالت میں اس کا قرآن کو چھونا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ کوئی جواز کا قائل ہے اور کوئی عدمِ جواز کا۔ اس میں عدم جواز (نہ پڑھنے والا) مسلک سب سے زیادہ مشہور ہے اور دوسرے موقفوں پر لوگ حیرت و استعجاب کا بالعموم اظہار کرتے ہیں۔جبکہ اس بارے میں بالعموم درج ذیل پانچ فقہی آرا ہیں:
1. حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا اور اسے چھونا مطلقاً ناجائز اور ممنوع ہے۔
2. حائضہ عورت کا قرآن مجید پڑھنا اور اسے چھونا مطلقاً جائز ہے۔
3. ایک آدھ آیت کا پڑھنا جائز ہے ، اس سے زیادہ نہیں۔
4. حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے، جنبی کا قرآن پڑھنا جائز نہیں۔
5. اس کی بابت منقول کراہت، کراہت تحریمی نہیں بلکہ کراہتِ تنزیہی ہے، یعنی اس حالت میں قرآن کریم پڑھنے اور چھونے سے بچنا بہتر ہے تاہم اگر ضرورت ہو تو جنبی مرد اور حائضہ عورت کے لیے قرآن پڑھنا اور اسے چھونا جائز ہے۔
یہی آخر الذکر پانچواں مسلک راجح ہے، جس کے دلائل آگے آئیں گے۔
عدم جواز کے قائلین کے دلائل
1. نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
«لاَ تَقْرَأِ الحَائِضُ، وَلاَ الجُنُبُ شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ»[1]
’’حائضہ عورت اور جنبی دونوں قرآن سے کچھ نہ پڑھیں۔‘‘
اس روایت کو بعض حضرات نے اس کے کچھ متابعات کی بنیاد پر صحیح کہا ہے لیکن محدث عصر شیخ البانی نے اُنہیں بھی غیر معتبر قرار دے کر اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے۔
[2]
بلکہ تعلیقاتِ مشکاۃ میں امام احمد کے حوالے سے اسے باطل کہا ہے۔
[3]
حافظ ابن حجرنے بھی امام طبری کے حوالے سے اس روایت کی بابت کہا:
"ضعیف من جمیع طرقه" [4]
’’جتنے بھی طرق سے یہ روایت آتی ہے، سب ضعیف ہیں۔‘‘
2. سیدنا علی سے مروی ہے:
کان ﷺ یقضی حاجته ثم یخرج فیقرأ القرآن ویأکل معنا اللحم ولا یحجبه، وربما قال: لا یحجزه من القرآن شيء لیس الجنابة. (رواه الخمسة) [5]
’’نبیﷺ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر نکلتے تو قرآن پڑھتے اور ہمارے ساتھ گوشت تناول فرماتے اور آپﷺ کے قرآن پڑھنے میں سوائے جنابت کے کوئی چیز رکاوٹ نہ بنتی تھی۔‘‘
اس روایت کی بابت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بعض نے اس کے بعض راویوں کی تضعیف کی ہے اور حق بات یہ ہے کہ یہ روایت حسن کے قبیل سے ہے جو حجت کے قابل ہوتی ہے۔‘‘
[6]
حافظ ابن حجر کی اس رائے کی وجہ سے اکثر علماء اس روایت سے استدلال کرتے ہیں، لیکن شیخ البانی نے ابن حجر کی اس رائے کا رد کرتے ہوئے دیگر محدثین کی تائید سے اسکو ضعیف قرار دیا ہے۔
[7]
3. تیسری حدیث جو مذکورہ حدیث کے متابع کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور اسے علمائے معاصرین میں سے بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کہا ہے،یہ مسند احمد (۱؍۱۱۰) کی روایت ہے۔ اس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
’’حضرت علی کے پاس وضو کا پانی لایا گیا، پس آپ نے کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور اپنے دونوں ہاتھ اور دونوں بازو تین تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سرکا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے، پھر فرمایا: میں نے رسول اللّٰہﷺ کو اسی طرح دیکھا ہے کہ آپﷺ نے وضو کیا۔ پھر قرآن کریم سے کچھ پڑھا اور فرمایا: یہ (قرآن کا پڑھنا) اس شخص کے لیے ہے جو جنبی نہیں ہے۔ رہا جنبی تو وہ ایک آیت بھی نہیں پڑھ سکتا۔‘‘
اس روایت کو بعض علماء نے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ لیکن شیخ البانی نے ضعیف راوی ابو الغریب
[8] کی وجہ سے اس سے بھی اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ
ثانیاً:… اگر یہ روایت صحیح بھی ہو، تب بھی اس کا مرفوع ہونا صریح نہیں۔
ثالثاً:… اس کا مرفوع ہونا بھی اگر صریح ہو تو یہ شاذ یا منکر ہے، اس لیے کہ عائذ بن حبیب اگرچہ ثقہ ہے لیکن ابن عدی نے اس کی بابت کہا ہے کہ اس نے کئی منکر روایات بیان کی ہیں۔
شیخ البانی مزید کہتے ہیں کہ
’’ یہ روایت بھی شاید انہی (منکر) روایات میں سے ہو، اس لیے کہ اس سے زیادہ ثقہ اور اس سے زیادہ حفظ و ضبط رکھنے والے راوی نے اسے حضرت علی سے موقوفاً بیان کیا ہے جو دارقطنی (رقم : ۴۴) میں ہے۔ یہ موقوف روایت حسب ذیل ہے۔ ابو الغریف ہمدانی کہتے ہیں:
’’ہم حضرت علی کے ساتھ تھے کہ آپ نے پیشاب یا پاخانہ کیا، پھرآپ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اپنے ہاتھ دھوئے، پھر قرآن کے آغاز سے کچھ حصہ پڑھا، پھر فرمایا: جب تک تم میں سے کسی کو جنابت نہ پہنچے تو قرآن پڑھے، پس اگر جنابت پہنچے تو ایک حرف بھی نہ پڑھے۔‘‘
امام دارقطنی فرماتے ہیں: ’’یہ روایت حضرت علی سے (موقوف) صحیح سند سے ثابت ہے۔‘‘
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حدیث مذکور
«لَا یَحْجُبُهُ… الخ» کی متابع یہ روایت موقوف ہے، یعنی حضرت علی کا قول ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن خزیمہ نے کہا کہ حدیث
«لَا یَحْجُبُهُ… الخ» (اگر صحیح بھی ہو تو) اس شخص کی دلیل نہیں بن سکتی جو جنبی کو قرآن پڑھنے سے منع کرتا ہے،ا س لیے اس میں ممانعت کا حکم نہیں ہے بلکہ یہ صرف حکایتِ فعل ہے۔‘‘
[9]
4. چوتھی روایت جس سے استدلال کیا جاتا ہے، وہ ہے جس میں رسول اللّٰہﷺ نے گھروں کا رخ مسجد نبوی سے پھیرنے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کا آنا جانا مسجد کے اندر سے نہ ہو بلکہ باہر سے ہو اور مسجد میں وہ صرف اسی وقت آئیں جب وہ پاک ہوں اور مسجد میں آنے کا مقصد نماز پڑھنا ہو۔ا س حکم کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی:
«فإني لا أحل المسجد لحائضٍ ولا جنبٍ»[10]
’’میں مسجد کو حائضہ عورت اور جنبی کے لیے حلال نہیں کرتا۔‘‘ (یعنی مسجد کے اندر سے ان کے گزرنے کو جائز نہیں سمجھتا)
شیخ البانی نے اس حدیث کی سند پر بھی تفصیلی گفتگو کر کے اسے بھی ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
[11]
علاوہ ازیں یہ روایت قرآن کے بھی خلاف ہے۔ قرآن مجید کی آیت ﴿وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ﴾ (النساء : 43) سے جنبی کا مسجد سے گزرنا جائز معلوم ہوتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت کی کچھ توضیح کر دی جائے۔
مذکورہ آیت کی مختصر وضاحت
قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے ایمان والو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ، یہاں تک کہ اپنی بات سمجھنے لگو اور جنابت کی حالت میں (بھی) یہاں تک کہ غسل کر لو مگر یہ کہ راہ چلتے گزرو۔‘‘ (اس صورت میں گزرنا جائز ہے۔)
آیت کا پہلا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب شراب کی حرمت کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بعد میں جب شراب حرام کر دی گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ دوسرا حکم جنبی آدمی (عورت ہو یا مرد) کے لیے ہے کہ وہ مسجد میں جنابت کی حالت میں نہ جائیں، ہاں مسجد میں سے صرف گزرنا ہو تو جائز ہے لیکن وہاں زیادہ دیر ٹھہرنا اور بیٹھنا ممنوع ہے۔ اس تفسیر کی رو سے صلاۃ (نماز) سے مراد موضع الصلاة (نماز پڑھنے کی جگہ) یعنی مسجد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نشے میں مدہوش شخص نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جائے نہ جنبی آدمی، جب تک غسل نہ کر لے۔ الاّ یہ کہ مسجد اس کا راستہ ہو تو اس صورت میں وہ مسجد میں سے گزر سکتاہے۔
امام ابن جریر طبری وغیرہ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے اور اس تفسیر کی رو سے جنبی کے مسجد سے گزرنے کی اجازت نکلتی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے بھی امام ابن جریر کی اس تفسیر کو نقل کر کے لکھا ہے:
"ومن هذه الآیة احتج کثیر من الائمة على أنه یحرم على الجنب اللبث فى المسجد ویجوز له المرور وکذا الحائض والنفساء أیضا فى معناه."
’’اس آیت سے اکثر ائمہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جنبی کا مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے، البتہ اس کے لیے گزرنا جائز ہے اور حائضہ اور نفاس والی عورتیں بھی اسی حکم میں ہیں۔‘‘
دوسرے مفسرین نے ﴿وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ ﴾ سے مسافر مراد لیا ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جنبی آدمی بھی مسجد میں نہ آئے، ہاں اگر وہ مسافر ہو اور اسے پانی نہ ملے تو وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔
امام ابن جریر طبری وغیرہ مفسرین کے نزدیک پہلی تفسیر اس لیے زیادہ صحیح ہے کہ اس آیت میں اس کے بعد ہی مسافر کے لیے پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنے کا حکم ہے۔ اگر ﴿إِلّا عابِرى سَبيلٍ﴾ سے مراد مسافر لیا جائے تو پھر تکرار لازم آئے گی، اس لیے ﴿إِلّا عابِرى سَبيلٍ﴾سے مراد صرف گزرنے والا، راستہ عبور کرنے والا ہے۔
اس طرح اس آیت سے جنبی آدمی کا مسجد سے گزرنے کا جوا زثابت ہوتا ہے۔ بنا بریں مذکورہ حدیث سنداً ضعیف ہونے کے علاوہ قرآن کے بھی خلاف ہے۔
5. پانچویں دلیل، جس سے استدلال کیا جاتا ہے، نبیﷺ کا وہ فرمان ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کے نام لکھا تھا، اس میں فرائض و سنن، دیات اور صدقات وغیرہ کی تفصیل تھی، اس میں ایک بات یہ بھی تھی: «لا یمس القرآن إلا طاهر»
’’قرآن کو وہی چھوئے جو پاک ہو۔‘‘
اس روایت کی صحت میں بھی اگرچہ اختلاف ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’اسے دارقطنی نے عمرو بن حزم، عبد اللّٰہ بن عمر اور عثمان بن ابی العاص سے مسند طور پر بیان کیا ہے لیکن ان میں ہر ایک کی سند محل نظر ہے۔‘‘
[12]
تاہم محدثین کی اکثریت اس کی صحت کی قائل ہے۔ شیخ البانی نے بھی اسے مجموعی طرق کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے۔
[13] لیکن یہ روایت مسئلہ زیر بحث میں واضح نہیں ہے، اس لیے اسے بھی مدار استدلال نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کیوں کہ اس میں طاہر (پاک شخص) کو قرآن مجید چھونے کی اجازت دی گئی ہے اور طاہر کا لفظ چار قسم کے افراد پر بولا جاتا ہے:
٭ جو ’حدثِ اکبر‘ (جنابت، حیض و نفاس) سے پاک ہو۔
٭ جو ’حدث اصغر‘ سے پاک ہو ۔ (یعنی بے وضو نہ ہو)
٭ جس کے بدن پر ظاہری نجاست نہ ہو۔
٭ جو مومن ہو ۔ (چاہے وہ جنبی ہو یا بے وضو)
اس آخری مفہوم کی تائید قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے: ﴿ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ ﴾ (التوبۃ: ۲۸) ’’مشرک ناپاک ہیں۔‘‘ اس کا مفہوم دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ مومن پاک ہے، چاہے وہ کسی حالت میں بھی ہو۔ علاوہ ازیں حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
«إن المؤمن لا ینجس»[14] ’’مومن نجس (ناپاک) نہیں ہوتا ۔‘‘ (یعنی وہ پاک ہوتا ہے)
اور نبیﷺ نے یہ بات حضرت ابوہریرہ سے اس وقت فرمائی تھی، جب ابوہریرہ جنبی تھے۔ جس سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ مومن ہر حالت میں طاہر ہی ہوتا ہے، البتہ اس سے وہ صورتیں مستثنیٰ ہوں گی جن کی صراحت نص سے ثابت ہے، جیسے بے وضو یا اجنبی آدمی کی بابت حکم ہے کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتا، جب تک وہ وضو یا غسل نہ کر لے۔ لیکن اس کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے وہ پاک ہی متصور ہو گا۔
اس کی مزید تائید ان احکام سے ہوتی ہے جو حائضہ عورتوں کی بابت دیے گئے ہیں، جیسے خاوند اس کے ساتھ لیٹ سکتا اور (شرم گاہ کے علاوہ) مباشرت کرسکتا ہے، اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا جائز ہے، اس کی گود میں لیٹے ہوئے قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ نے نبیﷺ کا یہ عمل بیان فرمایا ہے۔ بلکہ ایک موقع پر نبیﷺ نے مسجد میں ہوتے ہوئے حضرت عائشہ سے فرمایا، جب کہ وہ ایام مخصوصہ میں تھیں:
’’مجھے کپڑا (چادر) پکڑا دو۔‘‘ حضرت عائشہ نے کہا: إِني حائض ’’میں تو حیض کی حالت میں ہوں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا:
«إن حَیْضَتَكِ لَیْسَتْ بِیَدِكِ»[15]
’’تیرا حیض تیرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔‘‘[16]
اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ طاہر کے چاروں معنوں میں سے یہ آخری معنی دوسرے دلائل کی رو سے زیادہ صحیح ہے، جب کہ دوسرے معانی اتنے قوی نہیں ہیں اور اس آخری معنی کی رو سے جنبی یا حائضہ کا قرآن پڑھنا یا اسے چھونا ممنوع ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جنبی اور حائضہ بھی مومن ہونے کی وجہ سے پاک ہیں۔
عدم مس (نہ چھونا) علیحدہ مسئلہ اور عدم قراء ت (نہ پڑھنا) علیحدہ مسئلہ ہے
بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ مُحْدِثِ حَدَثِ اکبر (یعنی جنبی اور حائضہ) کے لیے قرآن کریم کا چھونا جائز نہیں ہے ، اس لیے طاہر کے معنی، حدثِ اکبر سے پاک شخص، متعین ہیں اور یوں یہ حدیث اس مسئلے میں نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اجماع کا دعویٰ ہی صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ امام بخاری، امام ابن جریر طبری، امام داؤد ظاہری، امام ابن حزم، امام ابن المنذر، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم وغیرہم جنبی اور حائضہ کو قرآن کریم پڑھنے کی اجاز ت دیتے ہیں۔ (ان کے دلائل آگے بیان ہوں گے)
جب یہ بات ہے تو پھر دعوائے اجماع کیوں کر صحیح ہے؟
6. چھٹی دلیل، جس سے استدلال کیا جاتا ہے، قرآن کریم کی آیت ﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ﴾ (الواقعہ : ۷۹) ہے، جس کا ترجمہ ہے: ’’پاک لوگ ہی اسے چھوتے ہیں۔‘‘
لیکن یہ خبر ہے، حکم نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نفی کا صیغہ ہے،نہی کا نہیں ۔ اگر یہ نھی کا صیغہ ہوتا تو لَا یَمَسَّهُ (بفتح السین) ہوتا، پھر اس کا ترجمہ حکم کا ہوتا یعنی ’’اسے پاک لوگ ہی چھوئیں‘‘ اس صورت میں اس سے عدم قراء ت اور عدم مس قرآن پر استدلال ہو سکتا تھا۔
لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ اللّٰہ تعالیٰ اس میں یہ خبر دے رہا ہے کہ لوح محفوظ کو یا قرآن کریم کو صرف فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی اس قرآن یا لوح محفوظ تک رسائی نہیں ہے۔ لَا یَمَسُّهُ میں ضمیر کا مرجع بعض نے لوح محفوظ کو اور بعض نے قرآن کو بنایا ہے۔ مطلب دونوں صورتوں میں مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن، شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللّٰہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے، یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے کیوں کہ ایک تو وہ لوح محفوظ میں ہے جس تک کسی کی رسائی نہیں ہے۔ ثانیاً: پاک فرشتے ہی اسے چھوتے ہیں، فرشتوں کے علاوہ کوئی اور وہاں پہنچ ہی نہیں سکتا۔ ثالثاً: فرشتے (روح الامین) ہی اسے لے کر زمین پر اترتے ہیں۔
اس اعتبار سے آیت کا تعلق مسئلہ زیر بحث سے کہ طاہر شخص کے سوا اسے کوئی چھو سکتا ہے یا نہیں؟ ہے ہی نہیں۔ علاوہ ازیں یہ سورت مکی ہے اور مکی سورتوں میں احکام و مسائل کا زیادہ بیان نہیں ہے۔ بلکہ ان میں توحید ورسالت اور آخرت کے اثبات پر زور دیا گیا ہے، البتہ فحوائے آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدث اصغر، اکبر سے پاک ہو کر قرآن کی تلاوت کرنا افضل ہے تو اس کی افضلیت میں یقینا کوئی کلام نہیں۔ (جیسا کہ آگے اس کی تفصیل آئے گی)
بعض اُردومفسرین کی آرا
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ زیر بحث اور آیت کے سلسلے میں عصر حاضر کے بعض اردو مفسرین کی آرا بھی ذکر کر دی جائیں۔
1. مولانا مودودی آیت مذکور سے ممانعت کا مفہوم لینے والوں کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تفسیر آیت کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے تو اس کے الفاظ سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے، مگر جس سلسلۂ کلام میں یہ وارد ہوئی ہے اس میں رکھ کر اسے دیکھا جائے تو یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع نظر نہیں آتا کہ ’’اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہ چھوئے‘‘ کیوں کہ یہاں تو کفار مخاطب ہیں اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ اللّٰہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے، اس کے بارے میں تمہارا یہ گمان قطعی غلط ہے کہ اسے شیاطین نبی پر القا کرتے ہیں۔ اس جگہ یہ شرعی حکم بیان کرنے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص طہارت کے بغیر اس کو ہاتھ نہ لگائے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آیت یہ حکم دینے کے لیے نازل نہیں ہوئی مگر فحوائے کلام اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں اس کتاب کو صرف مطہرین ہی چھو سکتے ہیں، اسی طرح دنیا میں بھی کم از کم وہ لو گ جو اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اسے ناپاکی کی حالت میں چھونے سے اجتناب کریں۔‘‘
مختلف مسالک کی آرا
مولانا مودودی اس بارے میں مختلف مسالک کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
’’مسلک حنفی:… رہا قرآن پڑھنا، تو وہ وضو کے بغیر جائز ہے۔ (بدائع الصنائع)
اور بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ تعلیم کے لیے قرآن بچوں کے ہاتھوں میں دیا جا سکتا ہے خواہ وہ وضو سے ہوں یا بے وضو۔ (فتاویٰ عالمگیری)
مذہب مالکی:… مصحف کو ہاتھ لگانے کے لیے وضو شرط ہے۔ لیکن قرآن کی تعلیم کے لیے وہ استاد اور شاگرد دونوں کو اس سے مستثنیٰ کرتے ہیں۔ بلکہ حائضہ عورت کے لیے بھی وہ بغرض تعلیم مصحف کو ہاتھ لگانا جائز قرار دیتے ہیں۔ ابن قدامہ نے المغنی میں امام مالک کایہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جنابت کی حالت میں تو قرآن پڑھنا ممنوع ہے مگر حیض کی حالت میں عورت کو قرآن پڑھنے کی اجازت ہے کیوں کہ ایک طویل مدت تک اگر ہم اسے قرآن پڑھنے سے روکیں گے تو وہ بھول جائے گی۔
ظاہریہ کا مسلک یہ ہے کہ قرآن پڑھنا اور اس کو ہاتھ لگانا ہرحال میں جائز ہے خواہ آدمی بے وضو ہو یا جنابت کی حالت میں ہو، یا عورت حیض کی حالت میں ہو۔ ابن حزم نے المحلی
[17] میں اس مسئلے پر مفصل بحث کی ہے جس میں انہوں نے اس مسلک کی صحت کے دلائل دیے ہیں او ریہ بتایا ہے کہ فقہاء نے قرآن پڑھنے اور اس کو ہاتھ لگانے کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں، ان میں سے کوئی بھی قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے۔‘‘
[18]
2. مفتی محمد شفیع طہارت کو ضروری قرار دینے کے باوجود لکھتے ہیں:
’’مگر حضرت ابن عباس کی حدیث جو بخاری و مسلم میں ہے اور حضرت علی کی حدیث جو مسند احمد میں ہے، اس سے بغیر وضو کے تلاوت قرآن فرمانا رسول اللّٰہﷺ سے ثابت ہے، اس لیے فقہا نے بلاوضو تلاوت کی اجازت دی ہے۔ (تفسیر مظہری)‘‘
[19]
3. اسی آیت ﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ﴾ سے فقہانے وجوبِ طہارت کا جو مسئلہ اخذ کیا ہے، مولانا امین احسن اصلاحی فقہا کے طرز استدلال پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جن فقہا نے قرآن کی زبانی تلاوت یا اس کو ہاتھ لگانے تک کے لیے بھی طہارت کی وہ شرطیں عائد کی ہیں جو نماز کے لیے ضروری ہیں،ان کے اقوال غلو پر مبنی ہیں۔ قرآن اللّٰہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس وجہ سے وہ ہر پہلو اور خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ، اخذ و استنباط کا حوالہ اور استدلال کا مرکز بھی ہے۔ اگر اس کو ہاتھ لگانے یا اس کی کسی سورت یا آیت کی تلاوت کرنے یا حوالہ دینے کے لیے بھی آدمی کا طاہر و مطہر اور باوضو ہونا ضروری قرار پا جائے تو یہ ایک تکلیف مالایطاق ہو گی جو دین فطرت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس طرح کی غیر فطری پابندیاں عائد کرنے سے قرآن کی تعظیم کا وہی تصور پیدا ہو گا جس کی تعبیر سیدنا مسیح نے یوں فرمائی ہے کہ ’’تمہیں چراغ دیا گیا کہ اس کو گھر میں بلند جگہ رکھو کہ سارے گھر میں روشنی پھیلے لیکن تم نے اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر رکھا ہے۔‘‘
[20]
4. محدث العصر شیخ محمد ناصر الدین البانی کا موقف پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مُحْدِثْ (بے وضو) جنبی اور حائضہ کے قرآن پڑھنے سے ممانعت کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے۔
[21]
5. تفسیر ثنائی: اس آیت کی بنا پر بعض اہل علم بغیر وضو کے قرآن پاک کو چھونا جائز نہیں جانتے مگر اکثر محققین یہاں مراد لیتے ہیں کہ قرآن پاک سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو پاک باطن ہیں۔
[22]
جواز کے قائلین کے دلائل
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ پہلی رائے، یعنی عدم جواز کے قائلین کے پاس کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔ اس کے برعکس دوسرا موقف یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کا قرآن پڑھنا اور چھونا جائز ہے۔ ان مجوزین میں امام طبری اور امام بخاری جیسے حضرات اور دیگر کئی جلیل القدر ائمہ شامل ہیں، ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
1. ممانعت کی تمام روایات ضعیف ہیں، اس لیے وہ قابل احتجاج نہیں، اگر کوئی صحیح ہے تو وہ محتمل المعانی ہے، اس لیے اس سے بھی استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے) اور جب روایات میں ضعف شدید ہو تو مجموعۂ روایات بھی قابل استدلال نہیں ہوتا۔
بنابریں اس رائے میں بھی کوئی وزن نہیں کہ یہ سب روایات ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں، چنانچہ شیخ البانی مسجد میں جنبی اور حائضہ کے داخلے کی ممانعت والی حدیث کی تضعیف کے بعد لکھتے ہیں:
"وللحدیث بعض الشواهد، لکن بأسانید واهیة لا تقوم بها حجة، ولا یأخذ الحدیث بها قوة."[23]
’’اس حدیث کے بعض شواہد ہیں لیکن ان کی سندیں نہایت کمزور ہیں جن سے نہ حجت قائم ہوتی ہے اور نہ حدیث کو کوئی قوت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث «لا یقرأ الجنب ولا الحائض شیئا من القرآن» کے ضعف پر بحث کرتے اور اس کے ایک راوی کو بعض حضرات کے ثقہ کہنے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فقد اتفقت کلمات هؤلاء الأئمة على تضعیف ابن مسلمة هذا، فلو سلمنا بأن الدارقطنی أراده بقوله "هو ثقة"، لوجب عدم الاعتداد به لما تقرر فى المصطلح أن الجرح مقدم على التعدیل لا سیما إذا کان مقروناً ببیان السبب کما هو الواقع هنا." [24]
’’تمام ائمہ کے اقوال اس ابن مسلمہ کی تضعیف پر متفق ہیں اور اگر ہم تسلیم کرلیں کہ دارقطنی کے قول ’’وہ ثقہ ہے۔‘‘ سے مراد یہ ابن مسلمہ ہی ہے، تب بھی ضروری ہے کہ اسے کوئی اہمیت نہ دی جائے کیونکہ مصطلحاتِ حدیث میں یہ اصول طے ہے کہ جرح، تعدیل پر مقدم ہے، بالخصوص جب کہ جرح مفصل ہو، یعنی اس کے ساتھ اس جرح کی وجہ بھی بیان ہو، جیسا کہ یہاں ہے۔‘‘
2. صحیح روایات کے عموم سے ہر حالت میں قرآن پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، جیسے حدیث میں ہے:
«کان النبیﷺ یذکر الله على کل أحیانه» [25]
’’نبیﷺہر حالت میں اللّٰہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث سے ان کا استدلال یہ ہے کہ ذکر کا لفظ عام ہے جس میں قرآن بھی شامل ہے کیوں کہ قرآن کو بھی ذکر کہا گیا ہے:
﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنا عَلَيكَ القُرءانَ تَنزيلًا ﴿٢٣﴾... سورة الدهر
’’ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
گویا ان کے نزدیک اس حدیث کے عموم سے جنابت سمیت ہر حال میں قرآن کا پڑھنا جائز ثابت ہوا۔ شیخ البانی نے بھی اس حدیث (ہر حال میں اللّٰہ کا ذکر کرتے تھے) سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’محْدِثْ (بے وضو)، جنبی اور حائضہ کے لیے قرآن پڑھنے سے ممانعت کی کوئی حدیث صحیح نہیں ہے بلکہ حضرت عائشہ سے مروی حدیث سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ رسول اللّٰہﷺ ہر حالت میں اللّٰہ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘
[26]
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
’’اسی لیے امام بخاری اور ان کے علاوہ ان ائمہ نے جو جواز کے قائل ہیں جیسے: طبری، ابن منذر اور امام داؤد، ان سب نے حدیث «کان یذکر الله… الخ» کے عموم سے دلیل پکڑی ہے، اس لیے کہ ذکر کا لفظ عام ہے اس میں قرآن اور غیر قرآن دونوں آجاتے ہیں۔ ذکر اور تلاوت میں جو فرق کیا جاتا ہے اس کی بنیاد صرف عرف ہے۔‘‘
3. اس حدیث سے بھی استدلال کیا گیا ہے جس میں رسول اللّٰہﷺ نے حضرت عائشہ سے، جب وہ ایام حج میں حائضہ ہو گئی تھیں،فرمایا تھا:
«فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»[27]
’’تم پاک ہونے تک بیت اللّٰہ کے طواف کے سوا وہ سب کچھ کرو جو حاجی کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ اعمالِ حج، ذکر، تلبیہ، تلاوت قرآن اور دعا پر مشتمل ہیں اور نبیﷺ نے انہیں بیت اللّٰہ کے طواف کے سوا کسی چیز سے منع نہیں کیا، صرف طواف کو مستثنیٰ کیا اور جب حائضہ کے لیے قرآن پڑھنا جائز ہوا تو جنبی کے لیے بطریق اولیٰ جائز ہو گا کہ عورت کا حدث مرد کے حدث سے زیادہ غلیظ ہے۔
4. امام بخاری نے حضرت عائشہ کے اسی واقعے کو بنیاد بنا کر باب باندھا ہے:
"باب: تقضی الحائض المناسك کلها إلا الطواف بالبیت"
’’حائضہ عورت حج کے تمام مناسک ادا کرے، سوائے بیت اللّٰہ کے طواف کے۔‘‘
اس باب میں امام بخاری نے مذکورہ دونوں احادیث کے علاوہ بعض صحابہ و تابعین کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں، چنانچہ اس باب کے تحت امام موصوف نے جو اقوال و دلائل نقل کیے ہیں، ان کا ترجمہ یوں ہے:
’’ابراہیم (نخعی) نے کہا: حائضہ عورت اگر ایک آیت پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت ابن عباس نے جنبی کے قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں دیکھا اور نبیﷺ ہر حالت میں اللّٰہ کا ذکر کرتے تھے۔ حضرت ام عطیہ نے کہا: ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ حائضہ عورتیں نکل کر (عیدگاہوں میں) جائیں، پس وہ مردوں کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور دعا میں شریک ہوں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: مجھے حضرت ابوسفیان نے خبر دی کہ ہرقل (بادشاہ روم) نے نبیﷺ کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں تھا: بسم الله الرحمٰن الرحیم ﴿يـأَهلَ الكِتـبِ تَعالَوا إِلى كَلِمَةٍ﴾ (اس کے بعد وہی حضرت عائشہ کے ایام حج میں حائضہ ہونے کا اور نبیﷺ کے فرمان کا ذکر ہے۔)‘‘
امام بخاری کے طرزِ استدلال کو اس طرح واضح کیا گیا ہے، ذیل میں ہم اس کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:
’’امام بخاری کا مطلب اس باب سے حضرت عائشہ کے واقعہ سے حائضہ اور جنبی کے قرآن پڑھنے کے جواز پر استدلال کرنا ہے،ا س لیے کہ نبیﷺ نے حج کے تمام مناسک میں سے طواف کے سوا کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں کیا… اور حج کے اعمال، ذکر، تلبیہ اور دعا پر مشتمل ہیں اور حائضہ کو ان میں سے کسی چیز سے نہیں روکا گیا۔پس اسی طرح جنبی کا معاملہ ہے، اس لیے کہ عورت کا حدث مرد کے حدث سے زیادہ ناپاک ہے (جب حائضہ عورت قرآن پڑھ سکتی ہے تو جنبی تو بطریقِ اولیٰ پڑھ سکتا ہے) اور امام بخاری کے نزدیک اس ضمن میں وارد احادیث میں سے کوئی حدیث صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس کی بابت وارد احادیث دوسروں کے نزدیک باہم مل کر قابل احتجاج بن جاتی ہیں۔ لیکن ان میں اکثر احادیث قابل تاویل ہیں۔‘‘
[28]
5. حافظ ابن قیم نے بھی ’اعلام الموقعین‘ میں اس مسئلے پر گفتگو کی ہے۔ ایک تو انہوں نے بھی منع قراء ت کی روایت کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
ثانیاً: قراءتِ قرآن کے جواز کے موقف کو اس طرح واضح کیا ہے:
’’اللّٰہ تعالیٰ نے حائضہ عورت کے بارے میں احکام کو دو قسموں میں تقسیم فرمایا ہے۔ احکام کی ایک قسم تو وہ ہے جس کا ازالہ حالت حیض کے بعد حالت طہر میں آسانی سے ممکن ہے تو ایسے احکام حالتِ حیض میں اس کے لیے ضروری قرار نہیں دیے بلکہ اس سے ساقط کر دیے (سقوط کی بھی دو صورتیں ہیں) یا تو مطلقاً ساقط کر دیے، جیسے نماز ہے، حالت حیض میں نماز بالکل معاف کر دی۔ یا حالت طہر میں ان احکام کی قضا (ادائیگی) کا حکم دیا، جیسے روزے ہیں۔ حیض میں تو روزہ رکھنے سے منع کر دیا لیکن بعد میں اس کمی کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
اور احکام کی دوسری قسم وہ ہے جس کا بدل بھی ممکن نہیں اور حالت طہر تک اس کا مؤخر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا تو اس کی مشروعیت کو حیض کے باوجود برقرار رکھا، جیسے احرام باندھنا، عرفات میں وقوف کرنا، طواف کے علاوہ دیگر مناسک حج کا ادا کرنا ہے۔ اسی طرح حالت حیض میں اس کے لیے قراء تِ قرآن کاجائز ہونا ہے اس لیے کہ حالت طہر میں اس کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ حیض کی مدت لمبی ہوتی ہے، اس مدت میں قرآن کی تلاوت سے روکنے میں کئی نقصان ہیں، جیسے حفظ قرآن میں خلل وغیرہ۔‘‘
[29]
6. امام ابن حزمنے بھی جواز کے مسلک کی پرزور تائیدکی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید کا پڑھنا اور اس کی آیت سجدہ پر سجدہ کرنا، قرآن مجید کا چھونا اور اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کرنا، یہ سارے کام جائز ہیں، چاہے وضو ہو یا نہ ہو اور چاہے جنبی ہو یا حائضہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مذکورہ سارے کام افعال خیر ہیں جو مستحب ہیں اور ان کا کرنے والا اجر کا مستحق ہے، جو شخص اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ مذکورہ کام بعض حالتوں میں منع ہیں تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے۔‘‘
اس کے بعد امام ابن حزم نے ان تمام دلائل کا جائزہ لیا ہے جو مانعین کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک بھی منع کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔
[30]
7. شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
’’جنبی اورحائضہ کا قرآن پڑھنا، اس کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں: ایک رائے ہے کہ ان دونوں کے لیے جائز ہے اور یہ امام ابو حنیفہ کا مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کا بھی مشہور قول یہی ہے۔ دوسری رائے ہے کہ جنبی کے لیے جائز نہیں ہے اور حائضہ کے لیے جائز ہے۔ اس کے لیے یا تو مطلقاً (یعنی ہر وقت) جائز ہے یا اس وقت جب اسے بھولنے کا خوف ہو اور یہ امام مالک کا مذہب ہے اور امام احمد وغیرہ کا مذہب بھی ایک قول کے مطابق یہی ہے، اس لیے کہ حائضہ عورت کے قرآن پڑھنے کی بابت نبی کریمﷺ سے کوئی چیز ثابت نہیں، سوائے اس حدیث کے جو اسماعیل بن عیاش سے موسیٰ بن عقبہ عن نافع عن ابن عمر کی سند سے مروی ہے کہ ’’حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھے۔‘‘ اسے ابوداؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث، حدیث کی معرفت رکھنے والوں کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے اور اسماعیل بن عیاش اہل حجاز سے جو روایت کرتا ہے، وہ سب احادیث ضعیف ہیں،بخلاف ان روایات کے جو وہ اہل شام سے بیان کرتا ہے اور یہ روایت ثقہ راویوں میں سے کوئی بھی نافع سے روایت نہیں کرتا اور یہ معلوم ہے کہ عورتیں نبیﷺ کے زمانے میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپﷺ نے ان کو قراءت قرآن سے منع نہیں کیا جیسے آپ نے انہیں ذکر و دعا سے منع نہیں کیا۔بلکہ حائضہ عورتوں کو آپﷺ نے حکم دیا کہ وہ عید کے دن گھروں سے نکلیں اور مسلمانوں کی تکبیرات کے ساتھ وہ بھی تکبیرات پڑھیں اور (اسی طرح) آپﷺنے حائضہ کو حکم دیا کہ وہ بیت اللّٰہ کے طواف کے علاوہ حج کے سارے مناسک ادا کرے، وہ حالت حیض میں ہوتے ہوئے تلبیہ کہے، اسی طرح مزدلفہ اور منی اور ان کے علاوہ دیگر مشاعر میں (حج کے افعال) سرانجام دے۔
اس کے برعکس نبیﷺ نے جنبی کو حکم نہیں دیا کہ وہ عید میں حاضر ہو اور یہ کہ وہ نماز پڑھے، نہ اسے حج کے مناسک ادا کرنے کا کہا، اس لیے کہ جنبی آدمی کے لیے یہ ممکن ہے کہ فوری طور پر پاک ہو جائے، پس اس کے ناپاک رہنے کے لیے اس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ بہ خلاف حائضہ عورت کے کہ اس کی ناپاکی باقی رہنے والی ہے، اس کے لیے اس کی موجودگی میں پاکیزگی حاصل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جنبی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ پاک ہوئے بغیر عرفہ یا مزدلفہ اور منیٰ میں وقوف کرے، اگرچہ وقوف کے لیے طہارت شرط نہیں ہے لیکن مقصود یہ ہے کہ شارع نے حائضہ کو تو بطور وجوب یا بطور استحباب اللّٰہ کا ذکر اور اس سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور جنبی کے لیے ان چیزوں کو مکروہ جانا ہے۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حائضہ کو جو رخصتیں دی گئی ہیں وہ جنبی آدمی کو نہیں دی گئیں اور اس کی وجہ صرف (وہ قدرتی) عذر ہے (جو عورت کو حاصل ہے) اگرچہ اس کا حدث زیادہ غلیظ ہے۔ اسی طرح قرآن پڑھنے کا مسئلہ ہے، شارع نے حائضہ عورت کو اس سے منع نہیں کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ شارع نے جنبی کو منع کیا ہے (تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) جنبی کے لیے تو یہ ممکن ہے کہ وہ پاک ہو جائے اور قرآن پڑھ لے ، بخلاف حائضہ عورت کے کہ وہ کئی دن تک اسی حالت پر قائم رہتی ہے، پس وہ (اتنے دنوں تک، اگر قرآن اس کے لیے پڑھنا ممنوع ہو) قرآن پڑھنے سے محروم رہے گی اور یہ اس کے لیے ایسی عبادت سے محرومی ہے جس کی وہ ضرورت مند ہے اور وہ طہارت بھی حاصل کرنے سے عاجز ہے اور قراء ت قرآن نماز کی طرح نہیں ہے، اس لیے کہ نماز کے لیے تو شرط ہے کہ حدث اکبر (جنابت و حیض) اور حدث اصغر (عدم وضو) سے پاک ہو۔ اور قرآن کا پڑھنا حدث اصغر (عدم وضو) کے ساتھ جائز ہے۔ یہ نص سے بھی ثابت ہے اور اس پر ائمہ کا اتفاق بھی ہے۔
علاوہ ازیں نماز کے لیے استقبال قبلہ، لباس اور نجاست سے پاکیزگی بھی ضروری ہے، جب کہ قراء تِ قرآن کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی ضروری نہیں، بلکہ نبیﷺ حضرت عائشہ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھ دیاکرتے تھے، جب کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں اوریہ بات صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہے۔نیز صحیح مسلم میں ہے، اللّٰہ تعالیٰ نبیﷺ سے فرماتا ہے:
«وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لَا يَغْسِلُهُ الْمَاءُ، تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ»[31]
’’میں تجھ پر ایسی کتاب نازل کر رہا ہوں جسے پانی نہیں مٹا سکتا، تو اسے سوتے جاگتے پڑھ سکتا ہے۔‘‘
پس قرآن کا پڑھنا (ہر حالت میں) جائز ہے، انسان کھڑے ہو یا بیٹھا، چل رہا ہو ، لیٹا ہویا سوار ہو۔‘‘
[32]
اس دوسرے مسلک کی رو سے،جس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزری،جنبی اور حائضہ کا قرآن پڑھنا مطلقاً جائز ہے اور اس کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
اول یہ کہ ممانعت کی تمام احادیث ضعیف ہیں، وہ قابل حجت نہیں۔
دوم یہ کہ صحیح احادیث کے عموم سے جواز کا اثبات ہوتا ہے۔
تیسرا موقف
تیسرا موقف یہ ہے کہ ایک آدھ آیت پڑھی جا سکتی ہے۔
تبصرہ : لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ رائے معقولیت پر مبنی نہیں۔ اگر ممانعت کی صحیح دلیل موجود ہے تو پھر ایک آیت کے بھی پڑھنے کا جواز کس طرح نکل سکتا ہے؟ اور اگر ممانعت کی کوئی واضح دلیل نہیں تو پھر صرف ایک آدھ آیت ہی پڑھنے کی اجازت کیوں؟ پھر جتنا کوئی پڑھنا چاہے کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ علاوہ ازیں آیات لمبی بھی ہیں اور چھوٹی بھی،لمبی آیت کی صورت میں صفحہ ڈیڑھ صفحہ بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں کیا قرآن کا اکرام و احترام متأثر نہیں ہوگا۔
چوتھا موقف
اسی طرح یہ موقف بھی کمزور ہے کہ حائضہ قرآن پڑھ سکتی ہے لیکن جنبی نہیں پڑھ سکتا، اس کی دلیل ان کے نزدیک یہ ہے کہ حیض کی مدت طویل ہے، اتنے عرصے تک قرآن نہ پڑھنے میں زیادہ نقصان ہے، جبکہ جنابت کی مدت نہایت قلیل ہے۔ حافظ ابن حزم اس مسلک کی بابت اور اسکی غیر معقولیت کو واضح کرتے ہیں:
’’اگر قراء ت قرآن حائضہ کے لیے حرام ہے تو اس کی مدت حیض کی طوالت قراء ت قرآن کو اس کے لیے حلال نہیں کر سکتی اور اگر اس کے لیے قرآن پڑھنا جائز ہے تو طول مدت سے استدلال کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘
[33]
پانچواں اور راجح مسلک
پانچویں رائے اس مسئلے میں یہ ہے کہ حیض و جنابت کی حالت میں قرآن پڑھنا کراہت تحریمی نہیں، کراہت تنزیہی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ان حالتوں میں قرآن پڑھنے اور چھونے سے اجتناب بہتر ہے۔ تاہم پڑھ اور چھو لیا جائے تو جائز ہے۔ یہ رائے دو لحاظ سے راجح ہے۔
اولاً:… جمہور علماء جو مطلقاً ممانعت کے قائل ہیں، ان کے پاس اپنے موقف کے اثبات کے لیے کوئی صحیح حدیث اور واضح نص نہیں ہے۔ جن احادیث سے استدلال کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں اور ایک آدھ حدیث جو صحیح ہے، محتمل المعنی ہے، اس لیے وہ بھی نص صریح یا دلیل قاطع نہیں بن سکتی۔ اسی طرح امام بخاری، امام ابن حزم اور دیگر ائمہ، جو مطلقاً جواز کے قائل ہیں، ان کے پاس بھی کوئی واضح دلیل نہیں ہے، ان کا استدلال صرف عمو م الفاظ پر مبنی ہے، اس لیے اس سے مطلقاً جواز کا مفہوم محل نظر ہے۔ کیونکہ عموم کے باوجود حدیث میں ملتا ہے کہ نبیﷺ نے قضاے حاجت سے فراغت کے بعد جب تک وضو نہیں کر لیا، سلام کا جواب دینا پسند نہیں فرمایا۔
[34]
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ "یذکر الله على کل أحیانه" کے عموم کے باوجود نبیﷺ نے بعض حالتوں میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے،اس سے یقینا کراہتِ تنزیہی کا اثبات ہوتا ہے۔ کیوں کہ کراہت ، جواز کے منافی نہیں، چنانچہ شیخ البانیسنن ابوداؤد کی مذکورہ حدیث کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں:
’’پیشاب سے فراغت کے بعد نبیﷺ کا سلام کرنے والے کو یہ جواب دینا کہ ’’میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ بغیر طہارت کے اللّٰہ کا ذکر کروں۔‘‘ یہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جنبی کے لیے قراء ت قرآن مکروہ ہے، اس لیے کہ حدیث میں یہ بات سلام کا جواب دینے کے ضمن میں آئی ہے جیسا کہ ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند سے مروی ہے۔ پس قرآن تو سلام سے اولیٰ ہے جیسا کہ ظاہر ہے اور کراہت، جواز کے منافی نہیں جیسا کہ معروف ہے، اس لیے اس حدیث صحیح کی وجہ سے کراہت والی رائے کا اختیار کرنا ضروری ہے اور اگر اللّٰہ نے چاہا تو یہ سب اقوال میں سے سب سے زیادہ انصاف پر مبنی رائے ہے۔‘‘
[35]
ثانیاً: آج کل ہر جگہ مدرسۃ البنات (بچیوں کے تعلیمی مدارس) عام ہو گئے ہیں، حفظِ قرآن کے بھی اور دینی علوم کی تدریس کے بھی۔ مطلقاً ممانعت اور عدم جواز کے فتویٰ پر عمل سے ان مدارس میں پڑھنے والی طالبات اور پڑھانے والی استانیوں کو جو مشکلات پیش آسکتی ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ یہ فقہی اصطلاح میں گویا عموم بلویٰ کی صورت پیدا ہو گئی ہے جس میں فقہاء جواز کا فتویٰ دیتے ہیں۔
شیخ محمدبن صالح عثیمین کی رائے
غالباً اسی لیے عصر حاضر کے بعض ان کبار علماء نے بھی، جو عدم جواز کے قائل ہیں، مدارسِ دینیہ میں زیر تعلیم طالبات اور ان میں پڑھانے والی استانیوں کے لیے جواز کا فتویٰ دیا ہے، چنانچہ شیخ محمد بن صالح عثیمین تحریر فرماتے ہیں :
’’اس مسئلے میں علماء کا اختلاف جاننے کے بعد یہی بات زیادہ شایان ہے کہ یہ کہا جائے کہ حائضہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ قرآن کریم زبان سے نہ پڑھے، سوائے ضرورت و حاجت کے۔ جیسے کوئی استانی (معلم) ہے، اس کے لیے طالبات کو پڑھانا اس کی ضرورت ہے یا امتحان کے موقع پر خود طالبات کو بھی امتحان دینے کے لیے قرآن کریم کا پڑھنا ایک ضرورت ہے یا اور اس قسم کی کوئی ضرورت ہو (تو حائضہ کے لیے قرآن کریم کا پڑھنا جائز ہے۔)‘‘
[36]
بنا بریں یہ حالات اور ضروریات اس بات کی متقاضی ہیں کہ جواز کے فتویٰ کو تسلیم کیاجائے، بالخصوص جب کہ دلائل کے عموم سے اس کی تائید ہوتی ہے نہ کہ تردید، علاوہ ازیں جب کہ ممانعت کے دلائل بھی صحت و استناد کے اعتبار سے محل نظر ہیں، اس لیے زیادہ سے زیادہ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ حائضہ اور جنبی اگر اجتناب کر سکیں تو بہتر ہے، بہ صورت دیگر جواز سے مفر نہیں۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!
قرآن مجید کو چھونے (ہاتھ لگانے اور ہاتھ سے پکڑنے) کا حکم
گزشتہ دلائل سے واضح ہے کہ مؤمن ہر وقت پاک ہے حتی کہ جنابت کی حالت میں بھی وہ پاک ہی ہوتا ہے۔ بنابریں اس کے لیے ہر وہ کام جائز ہے جس کی ممانعت نہیں آئی ہے۔ مثلاً: نماز کی بابت وضاحت ہے کہ وہ عدم وضو یا حالت جنابت میں نماز نہیں پڑھ سکتا تو نماز پڑھنا اس کے لیے یقیناً ممنوع ہے جب تک کہ وہ وضو یا غسل نہ کر لے لیکن قرآن مجید وہ پڑھ سکتا ہے کیوں کہ اس کی ممانعت کی بابت کوئی صریح اور صحیح حدیث ثابت نہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کا چھونا یعنی اسے ہاتھ لگانا اور ہاتھ سے پکڑنا بھی جائز ہے، اس کے لیے وضو یا غسل ضروری نہیں، جیسا کہ اکثر علماء غسل کو (جنبی اور حائضہ) کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس کی دلیل وہ قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:
﴿لا يَمَسُّهُ إِلَّا المُطَهَّرونَ ﴿٧٩﴾... سورة الواقعة
’’اسے پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔‘‘
یعنی آسمانوں پر لوح محفوظ میں صرف فرشتے ہی اسے چھوتے اور وہاں سے نقل کرتے ہیں۔ اس میں شیطان یا اس کے چیلے چانٹوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، جیسا کہ پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
بنا بریں اس سے یہ استدلال صحیح نہیں کہ جنبی یا حائضہ قرآن مجید کو نہیں چھو سکتے، اس لیے کہ مومن اس حالت میں بھی پاک ہی ہوتا ہے، اسی طرح حدیث:
«لا یمس القرآن إلا طاهر»[37]
’’قرآن پاک کو پاک شخص ہی چھوئے۔‘‘
بہ شرطِ صحت یہ مطلوبہ مفہوم میں واضح نہیں، اس لیے کہ مومن پاک ہی ہوتا ہے، حدیث میں ہے:
«إن المؤمن لا ینجس»[38] ’’مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘
﴿ إِنَّمَا المُشرِكونَ نَجَسٌ...﴿٢٨﴾... سورة التوبة
’’صرف مشرک ہی نجس ہیں۔‘‘
اسی لیے نبیﷺ نے دشمن (مشرکوں ) کی سرزمین پر قرآن ساتھ لے کر جانے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ ان کے ناپاک ہاتھوں سے محفوظ رہے۔ بہرحال اس امر کی بھی واضح دلیل اور نص نہیں کہ جنبی یا حائضہ قرآن کو نہیں چھو سکتے۔حافظ ابن حزم نے ’المحلی‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے اور مصحف کو چھونے کا اثبات کیا ہے، اسے ملاحظہ فرما لیا جائے۔
٭جب حائضہ کے لیے قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے تو دیگر اوراد و و ظائف اور اذکار وغیرہ پڑھنا، احادیث و تفاسیر اور دیگر دینی کتب و رسائل کا مطالعہ کرنا بطریق اولیٰ جائز ہو گا۔
٭حائضہ عورت مسجد میں داخل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس کی بابت علماء کے پانچ قول ہیں۔ اکثر علماء عدم جواز کے قائل ہیں اور بعض علماء جواز کے۔
قائلین جواز کے دلائل حسبِ ذیل ہیں:
1. مومن پاک ہی ہوتا ہے، ناپاک نہیں۔ جب ایسا ہے تو اسے مسجد میں داخل ہونے سے کس طرح روکا جا سکتا ہے؟
2. اہل صفہ اور اصحابِ رسولﷺ، مسجد میں سو بھی جاتے تھے اور نیند کی حالت میں احتلام کا خطرہ رہتا ہے، اس کے باوجود رسول اللّٰہﷺ نے اپنے صحابہ کو مسجد میں سونے سے منع نہیں فرمایا، جس سے جنبی وغیرہ کا مسجد میں دخول کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
3. ازواج مطہرات مسجد نبوی ہی میں اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں،و ہاں ان کے حائضہ ہونے کا امکان رہتا تھا، اس کے باوجود نبیﷺ نے ان کومنع نہیں فرمایا۔
4. ممانعت کی حدیث:
«فأني لا أحل المسجد لحائض ولا جنب»[39]
’’میں حائضہ اور جنبی کے مسجد میں داخلے کو جائز قرار نہیں دیتا۔‘‘
شیخ البانی كے بقول سنداً ضعیف ہے جیسا کہ پہلے بھی تفصیل گزری۔ اس لیے اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔
$1e نماز عید کے اجتماع میں عورتوں کی شرکت کی جس حدیث میں تاکید کی گئی ہے، اس میں ہے:
« وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ المُصَلَّى»[40] ’’حائضہ عورتیں مصلی سے الگ رہیں۔‘‘
ان علماء کے نزدیک یہاں ’مصلی‘ سے مراد مسجد (جائے نماز) نہیں بلکہ نماز ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ نبیﷺ کی نماز عید مسجد میں نہیں بلکہ کھلی فضا میں ہوتی تھی، اس لیے مصلی کو جائے نماز (مسجد) سمجھنا صحیح نہیں، اسی طرح قرآن کی آیت: ﴿وَلا جُنُبًا إِلّا عابِرى سَبيلٍ﴾ (النساء : ۴۳) میں جنبی کو صرف گزرنے کی اجازت دی گئی ہے ٹھہرنے کی نہیں۔ لیکن یہ حکم جنبی کے لیے ہے، حائضہ کو جنبی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ جنبی فوری طور پر پاک ہو سکتا ہے لیکن حائضہ کا پاک ہونا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔
حائضہ کے لیے طوافِ قدوم، طوافِ افاضہ اور طوافِ وداع کا حکم
(۱) طوافِ قدوم
جو خاتون حج کی تیاری کرچکی ہو لیکن اس کے حیض کے ایام شروع ہوجائیں تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اگر وہ آٹھ ذوالحجہ سے، جب کہ حج کے ارکان شروع ہوتے ہیں، آٹھ، دس دن پہلے مکہ مکرمہ پہنچ جائے تو وہ جاتے ہی اپنے محرم کے ساتھ طواف قدوم (اور سعی) نہ کرے بلکہ پاک ہونے کا انتظار کرے۔ اور پاک ہونے کے بعد سات ذوالحجہ تک طواف اور سعی اور تقصیر (بال کاٹنے کا کام) کرلے۔ یہ اس کا عمرہ ہوگیا اور اس کا حج، حج تمتع ہوگیا۔ یہ دوسرا طواف، طواف افاضہ، اور سعی اور تقصیر ۱۰ ذوالحجہ کو کرے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ حائضہ عورت حج کے قریب مکہ پہنچے تو اس حالت میں چونکہ وہ طواف (طواف قدوم) نہیں کرسکتی۔ تو وہ حج تمتع کے بجائے حج قِران کی نیت کرلے اور احرام کی حالت میں رہے اور آٹھ ذوالحجہ سے اپنے محرم کے ساتھ حج کے تمام ارکان ادا کرے، اس حالت میں حج کے دیگر سارے ارکان وہ ادا کرسکتی ہے۔ ۱۰ ذوالحجہ کو اگر وہ پاک ہوچکی ہو تو طواف افاضہ اور سعی اور تقصیر کرے۔ اس کے بعد وہ احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجائے گی اور اس کا حج بھی مکمل ہے۔ تاہم یہ حج قِران ہے۔
حضرت عائشہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا تھا، ان کا حج بھی حج قِران تھا۔ حج قِران ہو یا حج تمتع، دونوں کے لیے قربانی ضروری ہے۔ تاہم حج تمتع میں عمرے کے بعد احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں اور آٹھ ذوالحجہ سے دوبارہ شروع ہوجاتی ہیں اور حج قِران میں احرام کی پابندی طواف افاضہ تک برقرار رہتی ہے۔
(۲) طوافِ افاضہ
یہ دس ذوالحجہ (یوم النحر) کو ہوتا ہے، اسے طوافِ زیارت بھی کہتے ہیں، یہ حج کا ایک رکن ہے جس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ لیکن اگر عورت ۱۰ ذوالحجہ تک پاک نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ یہ طواف نہایت ضروری ہے لیکن حیض اس کے کرنے میں مانع ہے۔
جب سفرِ حجاز کے لیے آنے جانے کی یہ پابندیاں نہیں تھیں جو اب ہیں کہ واپسی کی تاریخیں مقرر ہوتی ہیں اور تنہا عورت اپنے قافلے اور گروپ سے علیحدہ بھی نہیں ہوسکتی، جب ایسی صورت نہیں تھی تو اہل قافلہ رک جایا کرتے تھے اور جب عورت پاک ہوجاتی تو وہ طواف افاضہ کرلیتی تھی اور پھر قافلہ واپسی کے لیے روانہ ہوجاتا۔ اب صورت حال یکسر بدل گئی ہے، اب واپسی میں کسی کا اختیار نہیں ہے اور ایک دن کی تاخیر بھی بالعموم ممکن نہیں۔ اب عورت کیا کرے؟
فقہائے کرام نے اس کے مختلف حل تجویز کیے ہیں لیکن سب میں مشکلات ہیں، جبکہ عورت کا یہ عذر ایسا ہے جو اس کے اختیار میں نہیں ہے اور شریعت نے غیر اختیاری عذر میں سہولتیں دی ہیں، صاحبِ عذر کو مشکل میں نہیں ڈالا ہے۔ جیسے مریض کو اس کی بیماری کی نوعیت کے اعتبار سے سہولتیں دی ہیں، حتیٰ کہ مُضطر اور لاچار کو جان بچانے کے لیے مردار تک کھانے کی اجازت دی گئی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں اعلان بھی فرمایا ہے:
﴿ وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَجٍ... ﴿٧٨﴾... سورة الحج
’’اللّٰہ نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘
﴿ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفسًا إِلّا وُسعَها...﴿٢٨٦﴾... سورة البقرة
’’اللّٰہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف (ذمے دار) نہیں بناتا۔‘‘
﴿يُريدُ اللَّهُ بِكُمُ اليُسرَ وَلا يُريدُ بِكُمُ العُسرَ ...﴿
١٨٥﴾... سورة البقرة
’’اللّٰہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔‘‘
جب اللّٰہ تعالیٰ صاحبِ عذر کو آسانی مہیا فرماتا ہے تو حائضہ عورت کو جس کا عذر بھی طبعی اور غیر اختیاری ہے، کس طرح مشکل میں ڈالنا جائز ہوگا، اس لیے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن قیمدونوں نے اس مسئلے پر بڑی تفصیل سے بحثیں کی ہیں اور فقہاء کے تجویز کردہ تمام حلوں کو مزاجِ شریعت کے خلاف قرار دیا اور خود اس کا یہ حل تجویز کیا ہے کہ ’’حائضہ عورت، مستحاضہ عورت کی طرح، اچھی طرح لنگوٹ وغیرہ کس لے اور اسی حالت میں طوافِ افاضہ کرلے اور اس پر کوئی دم وغیرہ بھی نہیں ہے۔‘‘
[41]
سعودی علماء کا فتویٰ
عصر حاضر کے سعودی علما نے بھی امام ابن تیمیہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے یہی فتویٰ دیا ہے کہ حائضہ عورت (سفر کی موجودہ مشکلات کی وجہ سے) لنگوٹ باندھ کر طواف افاضہ کرلے کیونکہ اس کے لیے قافلے سے الگ ہوکر پاک ہونے تک مکہ مکرمہ میں ٹھہرنا بھی نہایت مشکل ہے اور اپنے ملک واپس جاکر آئندہ سال دوبارہ حج کے لیے آنا بھی یا اپنے ملک میں جاکر طوافِ افاضہ کے انتظار تک حالت احرام میں رہنا بھی نہایت مشکل ہے۔
[42]
(۳) طوافِ وداع
یہ طواف اس وقت کرنے کا حکم ہے جب حاجی مکے سے روانہ ہونے لگے، یہ بالکل آخری وقت میں کرے اور اس کے فوراً بعد مکے سے نکل جائے، مکے میں نہ ٹھہرے۔ اسی لیے جو مکے ہی کے مستقل باشندے ہیں، ان کے لیے یہ طواف ضروری نہیں ہے، یہ صرف ان حجاج کرام کے لیے ہے جو دیگر علاقوں سے صرف حج کے لیے آتے ہیں اور مکے میں ان کا قیام عارضی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت طوافِ افاضہ کے بعد حائضہ ہوجائے اور تاریخ ِ روانگی تک وہ پاک نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اس کے دوسرے ہم سفر یہ طواف کرلیں اور یہ خود یہ طوافِ وداع نہ کرے۔ رسول اللّٰہﷺ کے حجۃ الوداع میں ام المومنین حضرت صفیہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا، عین کوچ والی رات کو ان کے ایام شروع ہوگئے۔ حضرت عائشہ نے رسول اللّٰہﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:
«اَحَابِسَتُنَا هِی» ’’کیا وہ ہماری واپسی میں رکاوٹ بنے گی؟‘‘
آپ کو بتلایا گیا کہ انہوں نے طواف افاضہ کرلیا ہے اور اس کے بعد ایام شروع ہوئے ہیں تو آپ نے فرمایا:
«فَلَا إِذًا»[43] ’’تب کوئی حرج والی بات نہیں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ طوافِ وداع کے بغیر حائضہ عورت کا مکہ چھوڑ دینا جائز ہے، ایسی حالت میں اس کے لیے رخصت ہے، اس کا حج مکمل ہے، طوافِ وداع کے لیے اس کا ٹھہرنا ضروری نہیں۔
مانع حیض گولیوں کا استعمال
آج کل حیض کی عارضی بندش کے لیے گولیاں مل جاتی ہیں، ڈاکٹر کے مشورے سے ان کے استعمال کو علماء نے جائز قرار دیا ہے۔ اس لیے اگر ان کے استعمال سے حیض کے آنے کا خطرہ نہ رہے تو پھر پورے سفر حج میں وہ مشکلات پیدا نہ ہوں جو حیض کی وجہ سے طوافِ قدوم اور طوافِ زیارت کے موقع پر ہوتی ہیں۔ یہ گولیاں حیض کی عارضی بندش کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہیں ،اگر کوئی کرنا چاہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب!
حوالہ جات:
[1] جامع ترمذی،
أبواب الطهارة عن رسول ﷺ، باب ماجاء فى الجنب والحائض أنهما لايقرآن القرآن: ۱۳۱
امام ترمذی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’صحابہ و تابعین اور مابعد کے اکثر اہل علم کا، جیسے: سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق ہیں، قول ہے کہ حائضہ اور جنبی قرآن سے کچھ نہ پڑھیں، البتہ کوئی حرف یا آیت کا کوئی حصہ پڑھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے ان کو تسبیح و تہلیل کی اجازت دی ہے۔‘‘
اس روایت کی سند کے بارے میں خود امام ترمذی نے یہ صراحت کی ہے: ’’میں نے محمد بن اسماعیل (امام بخاری) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اسماعیل بن عیاش اہل حجاز اور اہل عراق سے منکر روایات بیان کرتا ہے، گویا انہوں نے اس کی ان روایتوں میں اسے ضعیف قرار دیا ہے جو اہل حجاز و اہل عراق سے متفرد طور پر بیان کرتا ہے اور (امام بخاری نے) فرمایا کہ اسماعیل بن عیاش کی صرف وہ روایات قابل قبول ہیں جو وہ اہل شام سے بیان کرتا ہے… الخ‘‘
اور زیر بحث روایت اسماعیل بن عیاش، موسیٰ بن عقبہ سے روایت کرتا ہے جو اہل حجاز میں سے ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اس حدیث کی حد تک ضعیف قرار پاتا ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کے بیان کرنے میں اسماعیل بن عیاش متفرد ہے اور اہل حجاز سے اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے جس سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی، امام احمد اور یحییٰ بن معین وغیرہ حفاظ محدثین کا یہی قول ہے اور یہ روایت اس کے علاوہ دوسرے راوی سے بھی مروی ہے اور وہ بھی ضعیف ہے۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے اسماعیل بن عیاش کی یہ حدیث ذکر کی اور کہا کہ اس نے غلطی کی ہے، یہ دراصل ابن عمر کا قول ہے۔‘‘ (تحفۃ الأحوذی: ۱؍۱۲۴)
[3] مشکاة المصابيح بتحقیق الالباني: ۱؍۱۳۴
[5] إرواء الغلیل : ۲؍۲۴۱، رقم الحدیث : ۴۸۵
[6] فتح الباری : ۱؍۵۳۰۔ طبع دارالسلام، الریاض
[7] ’’اس حدیث کے بارے میں حافظ کی اس رائے سے ہم موافقت نہیں کرتے، اس لیے کہ مشار الیہ (ضعیف) راوی عبدا للہ بن سلمہ ہے اور تقریب التہذیب میں خود حافظ ابن حجر نے اس کے ترجمے میں کہا ہے ’’سچا ہے لیکن اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔‘‘ اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ یہ حدیث اس کے اسی دور کی ہے جب اس کے حافظے میں خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ پس بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر نے جس وقت اس حدیث پر حسن ہونے کا حکم لگایا تو اس کا ترجمہ ان کے ذہن میں مستحضر نہیں رہا، واللّٰہ اعلم۔ یہی وجہ ہے کہ امام نووی نے المجموع (۲؍۱۵۹) میں جب یہ حدیث نقل کی اور امام ترمذی کی تصحیح بھی ذکر کی تو انہوں نے امام ترمذی کی رائے پر تعقب کیا اور کہا: ’’امام ترمذی کے علاوہ دیگر حفاظ محققین نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
پھر انہوں نے امام شافعی اور امام بیہقی کی وہ رائے نقل کی ہے جو امام منذری نے ’مختصر السنن‘ میں نقل کی ہے ،جس میں دونوں نے اسے ضعیف کہا ہے۔ ان محققین نے جو کہا ہے، وہی ہمارے نزدیک راجح ہے کیوں کہ اسے بیان کرنے میں عبد اللّٰہ بن سلمہ متفرد ہے اور اس کی یہ روایت اس وقت کی ہے جب اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔‘‘ (إرواء الغلیل: ۲؍۲۴۲)
امام منذری کی جس عبارت کا حوالہ آیا ہے، اس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے:
’’امام بخاری نے عمر و بن مرۃ کے حوالے سے کہا ہے کہ عبد اللّٰہ بن سلمہ ہمیں حدیث بیان کرتا ہے، کچھ کو ہم پہچانتے ہیں اور کچھ کو نہیں پہچانتے اور وہ سن رسیدہ ہو گیا تھا، اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی اور امام شافعی نے یہ حدیث ذکر کی اور فرمایا: اہل حدیث (محدثین) کے نزدیک یہ حدیث پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ امام بیہقی نے کہا: امام شافعی نے اس حدیث کے ثبوت میں جو توقف کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا مدار عبد اللّٰہ بن سلمہ کوفی پر ہے اور یہ سن رسیدہ ہو گیا تھا اور اس کی حدیث اور عقل میں کچھ نکارت محسوس کی گئی اور اس نے یہ حدیث بھی سن رسیدگی کے بعد ہی بیان کی ہے۔‘‘ (مختصر السنن للمنذری : ۱؍۱۵۶)
[8] اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ابو الغریب راوی ہے جس کی توثیق ابن حبان کے سوا کسی نے نہیں کی اور ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں، اس لیے ان کی توثیق قابل اعتبار نہیں، بالخصوص جب کہ دیگر ائمہ کی رائے ان کے معارض ہو۔ ابوحاتم راوی نے اس کی بابت کہا ہے کہ کہ ابو الغریب مشہور نہیں۔ محدثین نے اس میں کلام کیا ہے اور یہ اصبغ بن نباتہ جیسے راویوں کا استاذ ہے اور اصبغ ابو حاتم کے نزدیک لین الحدیث اور دوسروں کے نزدیک متروک ہے، اس قسم کے راوی کی حدیث حسن بھی نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ صحیح تسلیم کی جائے۔
[9] إرواء الغلیل : ۲؍۲۴۳۔۲۴۴
[10] سنن أبي داؤد، كتاب الطهارة، باب فى الجنب لايدخل المسجد : ۲۳۲
[11] إرواء الغلیل : ۱؍۲۱۰، حدیث نمبر: ۱۹۳؛ مشکاة المصابيح بتحقیق الالباني: ۱؍۲۱۱
[12] تفسیر ابن کثیر: 4؍315 زیر آیت الواقعہ :99، دارالسلام ، الریاض، 1992
[13] إرواء الغلیل ، حدیث نمبر : ۱۲۲
[14] صحیح مسلم، كتاب الحيض، باب الدليل على أن المسلم لا ينجس : ۳۷۱
[15] صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب الحيض تناول من المسجد: 298
[16] إرواء الغلیل : ۱؍۲۱۲،رقم الحدیث : ۱۹۴
[17] جلد اول، صفحہ: ۷۷ تا ۸۴
[18] تفہیم القرآن: ۵؍۲۹۵
[19] تفسیر معارف القرآن : ۸؍۲۸۷، ۲۸۸
[20] تفسیر تدبر قرآن: ۸؍۱۸۴
[21] حاشیہ ’ریاض الصالحین‘ بہ تحقیق شیخ الالبانی، باب ۲۴۵، ص : ۴۹۵، طبع بیروت
[22] قرآن مجید، ثنائی ترجمہ:ص ۶۴۳
[23] إرواء الغلیل : ۱؍۲۱۱،رقم الحدیث : ۱۹۳
[24] إرواء الغلیل : ۱؍۲۰۹، رقم الحدیث : ۱۹۲
[25] صحیح البخاری، فى ترجمة الباب، کتاب الحیض، باب : ۷
[26] ریاض الصالحین ،حاشیہ بہ تحقیق شیخ البانی، ص : ۴۹۵، طبع بیروت
[27] صحیح البخاری، كتاب الحيض، باب تقضى الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت : ۳۰۵
[29] إعلام الموقعین : ۳؍۲۸۔ طبع ۱۹۶۹ء بہ تحقیق عبد الرحمن الوکیل
[30] المحلى لابن حزم ، مسئلہ نمبر : ۱۱۶
[31] صحيح المسلم،
كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب الصفات التى يعرف بها فى الدنيا...:2865
[32] مجموع الفتاوی : ۲۱؍۴۵۹۔۴۶۲
[33] المحلى : ۱؍۱۰۴۔ط۱۹۶۷ء۔ مکتبة الجمهوریة العربیة، مصر
[34] سنن أبي داؤد،
كتاب الطهارة، باب فى الرجل يذكر الله تعالى على غير طهر: ۱۷
[35] إرواء الغلیل :1؍92،93
[36] مجموع فتاوی و رسائل شیخ محمد بن صالح العثیمین : ۱۱؍۳۱۱
[37] إرواء الغليل،رقم 122 ، 1؍ 158
[38] صحیح مسلم،
كتاب الحيض، باب الدليل على أن المسلم لا ينجس : ۳۷۱
[39] سنن أبي داؤد،
كتاب الطهارة، باب الجنب يدخل المسجد: ۲۳۲
[40] صحیح البخاری،
كتاب الحيض، باب الشهود الحائض العيدين ودعوة المسلمين : ۳۲۴
[41] مجموع الفتاوی : ۲۶۔۱۷۶۔ ۲۴۱ إعلام الموقعین لابن القیم: 3؍30، 38
[42] فتاویٰ ارکان اسلام از شیخ عثیمین:ص ۴۲۸، ۴۲۹۔ فتاویٰ اسلامیہ: ۲؍۳۱۷، ۳۱۸۔ مطبوعہ دارالسلام
[43] صحیح البخاری، کتاب الحج، باب إذا حاضت المرأة بعد ما أفاضت : ۱۷۵۷ و ۱۷۷۱
#b