مسلم مشرق پر مغربی مظالم اور ردِّ امریکہ

(القاعدہ کے خلاف امریکی فردِ جرم پر ایک نظر)
اسلام اور عیسائیت اگرچہ الہامی مذاہب ہیں ،مگر گزشتہ چودہ صدیوں میں اسلامی مشرق اور مسیحی مغرب کے درمیان بالواسطہ اور براہِ راست کشمکش ، باہم پیکار اور تصادم کی فضا قائم رہی ہے ۔ بیت المقدس میں باز نطینی رومی شہنشاہیت کی شکست کا احساس مسیحی کلیسا نے عوام اور حکمرانوں کے لئے ایک عسکر ی رومانویت بناکر پیش کیا ۔ تثلیث کے فرزندون کو اِس رومانویت کو عملی شکل دینے کے لئے پانچ صدیاں انتظار کرنا پڑا کیونکہ اسلامی سلطنت کے سامنے وہ بے بس تھے ۔ بالاآخر گیارھویں صدی عیسوی میں خلافت ِ اسلامیہ جب سیاسی انتشار سے دوچار ہوئی تو پورا یورپ مسلمانوں کو شکست دینے او ریروشلم ( بیت المقدس ) کی بازیابی کے 'مقدس 'مشن کے لئے نکل کھڑا ہوا ۔ یا د رہے کہ اس 'مقدس جنگ ' کی ہدایت پاپائے روم نے دی تھی ۔ اسی لئے مسیحی افواج نے صلیب کو اپنا نشان بنا لیا ۔
مسیحی عساکر اِس صلیبی یلغار کے نتیجے میں یررشلم پر 90 سال تک قابض رہے ۔ بالآخر تاریخ اسلام کے عظیم ہیرو صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو بازیاب کرا کے صلیبیوں کو بحیرۂ روم کے اُس پار دھکیل دیا ۔ صلیبی جنگوں کا عرصہ کم وپیش ڈیڑھ سو سال پر محیط ہے ۔ سپین پر مسلمانوں نے تقریبا آٹھ سو سال تک حکومت کی اور سسلی پر ان کا عرصۂ اقتدار اڑھائی سوسال سے بھی زیادہ ہے ۔ پھر عثمانی ترکوں نے جب 1453ء میں باز نطینی سلطنت کے صدر مقام قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تو مسیحی یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں مزید شدت پیدا ہو گئی ۔ عثمانی ترکوں نے یورپ کی راجدھانیوں کو عرصہ دراز تک لرزہ اندام کئے رکھا ۔ اُنہوں نے مشرق یورپ کے وسیع علاقے کو اپنی قلم رومیں شامل کر لیا ، ان کی فاتح افواج ہواناتک جا پہنچیں ۔ دوسری طرف صاحبقران امیر تیمور نے روسیوں کے دارالسلطنت ماسکو کو تاراج کیا ۔ گیارہویں ، بار ہویں اور تیرہویں صدیوں کے دوران مسلمان یورپ کے حواس پربری طرح چھائے رہے ۔ اہل یورپ پر صرف احساس ِ ہزیمت ہی نہیں ، مسلمانوں سے مرعوبیت اور ان کے خوف کا احساس بھی غالب رہا ۔ یہی ہزیمت او رخوف کی وہ طویل تاریخ ہے جس کے آئینے میں دورِ حاضر کے یورپ اور امریکہ کے حکمرانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس دور کے یورپ کا لٹریچر ہمارے اس تجزیے کی تائید کرتا ہے ۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو اسلامی مشرق میں مسیحی مغرب کے خلاف رد عمل کی نفسیات اور نفرت کے جذبات پیدا کرنے میں بہت سے عوامل نے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ قرونِ اوّل کے مسلمانوں نے محرّف عیسائی مذہب کی مخالفت اس کے نظریۂ تثلیث کی بنیاد پر کی ، بعد میں سیاسی کشمکش نے باہم آویزش کو فروغ دیا ۔ صلیبی جنگوں کے دوران جس طرح مسیحی جنونیوں نے یروشلم او ردیگر علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ، بلاشبہ مسلم ذہن اس سے شدید متاثر ہوا ۔ 1492ء میں اندلس کی آ خر ی پناہ غرناطہ پر جب مسیحی افواج نے قبضہ کر لیا تو مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور انہیں عیسائیت قبول کرن کے لئے ناقابل ِ بیان ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ۔ نہایت بے سروسامانی ، ذلّت اور نکبت کی حالت میں اُنہیں اندلس سے نکال دیا گیا ۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں یورپی استعماری اقوام نے عالم اسلام کے بہت بڑے حصے کو اپنی نو آبادیات میں شامل کر لیا ۔ ایک وقت تھا کہ ترکی ، سعودی عرب، افغانستان اور ایران ( جزوی طور پر) کے علاوہ تمام اسلامی ممالک یورپی استعماریت کے پنجۂ استبداد کے نیچے کراہ رہے تھے ۔ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، ہالینڈ، اٹلی ، پرتگال اور روس کی استعماری طاقتوں نے نہ صرف مسلمانوں کے ملکوں پر سیاسی غلبہ حاصل کر لیا بلکہ اُنہوں نے پوری کوشش کی کہ اُنہیں اپنی تہذیب و ثقافت چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اپنا لینے پر مجبور کر دیا جائے ۔
دین ایمان کی حفاظت ہر مسلمان ایک متاعِ عزیز جان کی طرح کرتا ہے ۔ وہ مال و اسباب سے محرومی برداشت کر لیتا ہے مگر اپنے دین پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا ۔
فاتح استعماری اقوام نے مقبوضہ علاقوں میں کلیسا کے ذریعے مسلمانوں کو عیسائی بنانےکی ناپاک مہم برپا کی ۔ متعصب مستشرقین نے اسلام اور اسلامی کلچر پر توہین آمیز حملے کئے ۔ پغمبر ِاسلام ﷺ فداہ اُمّی وابی کی ذاتِ اقدس کی اہانت کے ذریعے مسلمانوں کے قلوب کو چھلنی کیا جاتا رہا ۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ یورپی اقوام نے عہدِ استعماریت میں عالم اسلام کے مادی وسائل کو جی بھر کرلوٹا ۔
سونا ،چاندی اور قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر پر ہاتھ صاف کئے ۔ یہاں سے خام مال لیکر اپنی صنعتوں کو ترقی دی اور پھر نو آبادیات کو صارفین کی منڈیوں کے طور پر استعمال کیا ۔
یا تاریخ کا بدترین اور طویل ترین معاشی استحصال تھا جس کا عالم اسلام نے سامنا کیا ۔ پھر جنگ عظیم دوم کے بعد جب مشرق وسطی ، ہندوستان اور افریقہ کے مسلمان ممالک نے یورپی استعمار سے سیاسی آزادی حاصل کی تو یہاں کے باشندوں کی فطر ی خواہش تھی کہ انہیں اپنے دین و مذہب ،ثقافتی و تہذیبی اقدار اور نظام ہائے حیات کے مطابق اپنی حکومتیں چلانے کی آزادی میسر ہو ، وہ اپنی مرضی سے اپنے معاشی و سائل کو اپنے عوام کی ترقی و بہود کے لئے استعمال کر سکیں مگر یہ بات استعماری اقوام کے لئے قابلِ قبول نہ تھی ۔ اُنہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ عالم اسلام میں مغرب کے حامی حکمران بر سراقتدار ہیں ۔
بظاہر سیاسی محکومی سے آزاد ہونے والے اسلامی ممالک کو فکری محکومی اور ثقافتی استعماریت کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ۔
ارضِ فلسطین پر صہیونیوں کو قابض کرا کے فلسطین مسلمانوں کو اپنے وطن سے محروم کر دیا گیا ۔ مسلمانوں کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے سیاسی چالوں ، معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ان پر جنگیں مسلط کی گئیں ۔ اُنہیں تباہ برباد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ عراق ، افغانستان اور دیگر مسلمان ملکوں پر خوفناک جنگ مسلط کر کے ان پر قبضہ کر لیا گیا ۔ اسرائیل نے با ر بار فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، مگر امریکہ اور یورپی ریاستوں نے اسے منع کرنے کی بجائے اس کی ہر ممکن طریقے سے مدد کی ۔ ایسے حالات میں عالم اسلام میں اگر امریکہ مخالف جذبات پیدا ہوئے ، تو یہ ایک فطری امر ہے !
ردِّ امریکیت
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھا جا سکتا ہے ۔ ایک امریکہ وہ ہے جسے اُس کی جمہوری روایات ، مساوات اور آزادی اور اعلیٰ انسانی اقدار اور کثرت پسندی کی وجہ سے جانا جاتا ہے ۔
1776ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کی قیادت میں جس ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا قیام عمل میں لایا گیا ، اس میں اعلیٰ انسانی قدروں کی پاسدار ی اور وفاقی نظام کے تحت جمہوری ریاست کے آئینی ڈھانچے کو بے حد اہمیت دی گئی۔
یہی امریکہ ہے جو بعد میں لبرل ڈیموکریسی کری علامت کے طور پر دنیا کے نقشے پر اُبھرا ۔ اس امریکہ کی فکر ی اساس کی جھلک ہمیں جارج فرینکلن ، جیفرسن ، تھا مس آدم ، ابراہم لنکن ، وڈروولسن اور روز ویلٹ جیسے مشہور امریکی صدور کے 'سٹیٹ آف دی یونین' خطبات میں نظر آتی ہے ۔ ہر امریکی صدر اپنی پہلی تقریر میں ان امریکی اقدار کا ذکر بڑے تفاخر سے کرتا ہے ۔
ایک دوسرا 'امریکہ ' بھی ہے جو بالکل ہی متضاد صورت پیش کرتا ہے ۔ یہ امریکہ بالفعل جنگ عظیم دوم کے بعد عالمی سٹیج پر ایک سپر پاور کی صورت میں نمودار ہوا۔ یہ برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ہالینڈ اور اٹلی جیسی یورپی استعماری قوتوٹ کی معاشی تباہی کے بعد ان کے جانشین کی صورت میں سامنے آیا ۔ اس دور میں اس کی خارجہ پالیسی میں اساسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ اس دوسرے امریکہ نے پہلے امریکہ کی انسانی قدروں پر مشتمل اعلیٰ تصورات کو پامال کرتے ہوئے اپنے استعماری سفر کا آغاز ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بموں سے بتاہی پھیلا کر کیا ۔
جنگ عظیم دوم کے بعد اس امریکہ نے کمیونزم کے خلاف عالمی پولیس مین کا کردار ادا کیا ۔ سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان طویل فکری تصادم اور کشمکش کو 'سرد جنگ ' کا نام دیا گیا جس کا خاتمہ 1989ء میں اوّل الذکر کی شکست وریخت پر ہوا ۔
امریکہ کو جمہوریت کے محافظ کی حیثیت سے جہاں خراجِ تحسین پیش کیا گیا ، وہاں اوّل دور سے ہی امریکی قوم کو نفرت اور تعصب کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ امریکی دانشور اِسے ردّامریکیت یعنی Anit- Americanism کا نام دیتے ہیں ۔اس موضوع پر وسیع لٹریچر موجود ہے ۔ ردّامریکیت کو عام طور پرتین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:
پہلا دور امریکی انقلاب کے چند سال بعد شروع ہوتا ہے اور جنگ عظیم دوم کے خاتمہ یعنی 1945ء تک جار یرہتا ہے اس دور میں یورپ کی ترقی بافتہ اقوام کی طرف سے امریکہ کو ثقافتی پسماندگی کا طعنہ دے کر تحقیر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ۔
ردّامریکیت کا دوسرا دور 'سردجنگ ' کا دور ہے ۔ اس میں بائیں باز و کے انتہا پسند لبرل دانشوروں نے امریکہ کے سرمایہ دارانہ استحصالی کردار کوسخت تنقید کا نشانہ بنائے رکھا ۔ کمیونزم کے عالمی پھیلاؤ کی وجہ سے ردّ امریکیت کا یہ دور بے حد اہم شمار کیا جاتا ہے ۔11/9 کے بعد سے ردّامریکیت کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے ، اس دور میں اسلامی جہاد تحریکوں کی طرف سے امریکہ کے خلاف بھر پور مہم چلائی گئی۔ امریکہ کی خارجہ پولیسی پر صہیونی لابی کے اثرات ، مسئلہ فلسطین میں امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت ، عالم ِ اسلام کے وسائل پر زبر دستی قبضہ اور امریکہ کے استعماری عزائم کے حوالے سے اس کے بھیانک کر دار کو واضح کیا گیا ۔ امریکہ پر زور دیاگیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے علاقوں سے اپنی فوجیں نکال لے اور آمر حکمرانوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لے ۔ مشرقِ وسطیٰ اور عالم اسلام پر امریکی فوج یلغار نے رد عمل کے جذبات کو مزید انگیخت دی ۔ جہادی عسکریت پسندوں کی طرف سے ردّامریکیت کا یہ مرحلہ دنیا کی واحد سپر پاور کے لئے کافی اہمیت اختیار کر گیا جس کا جس کا دنیا بھر میں امریکہ خوب ڈھنڈورا پیٹتا ہے ۔
ردّامریکیت کی اس آخری صورت کے حقیقی اسباب کا معروضی جائزہ لیے بغیر القاعدہ یا اُسامہ بن لادن کی امریکہ کے خلاف عسکری جدوجہد کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنا نہایت دشوار امر ہے ۔ آخر کو ئی تو وجہ تھی کہ یہ جہادی گروہ ایک سپر پاور کی بے پناہ فوجی طاقت اور تباہ کن ہتھیاروں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی جانوں پر کھیل گئے ۔ آج جس بات کو دہشت گردی ، عسکریت پسندی ، انتہا پسند کہا جا رہا ہے ، اس کے فروغ پانے کے اسباب بھی تو کچھ ہوں گے ۔ ہمارے ہاں جب اس طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو بعض جذباتی افراد اِسے دہشت گردی کو 'جواز 'عطا کرنے کی کاوش قرار دیتے ہیں ۔
منطقی طور پر کسی چیز پر کسی چیز کا جواز اور چیز ہوتا ہے ، تا ہم اس کے ظہور پذیر ہونے کی وجوہات کا تعین کرنا ایک بالکل ہی مختلف امر ہے ۔
اُسامہ بن لادن اور ردامریکیت
بہت سی تاریخی شخصیات کو متنازعہ قرار دیا گیا ہے ۔ مگر ہماری معلومات کے مطابق اُسامہ بن لادن (جب سے امریکہ نے دعویٰ کیا کہ 2 مئی کے ایبٹ آباد آپریشن میں القاعدہ کے سر براہ اسامہ بن لادن کو ہلاک ( ہمار ے خیال میں شہید) کر دیا گیا ہے ، میڈیا اور اخبارات میں اُ س کے متعلق اس قدر پرگرام نشر اور مضامین شائع ہوئے ہیں ، اگر انہیں مدوّن کر دیا جائے تو ہزاروں صفحات پر مبنی ضخیم کتاب تیار کی جا سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ پندرہ برسوں میں امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک دولت مند عرب خاندان کے اس چشم و چراغ کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا اس قدر طومار باندھا کہ خود امریکی کالم نگاروں نے بارہا تحریر کیا کہ اسامہ بن لادن دنیا میں سب سے زیادہ جانا جانے والا (Well- know ) شخص ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات میں شاید ہی کوئی شخصیت ہو جس کے مخالف نہ ہوں ۔ مگر عالمی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا کردار ہو جو متنازع فیہ ہو جتنا کہ اسامہ بن لادن ہے ۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران استعمار ی سرمایہ دارانہ نظام نے جرمنی کے ہٹلر ،روس کے سٹالن اور عراق کے صدام حسین کے خلاف بلاشبہ اس قدر شدّت سے پراپیگنڈہ کیا کہ پڑھنے اور سننے والوں ( بالخصوص اہل مغرب ) کو وہ 'شیطانِ مجسم' دکھائی دینے لگے ۔ مگر اسامہ بن لادن کے خلاف مغربی میڈیا جس قدر زہر افشانی کی ہے ، اس کا حجم مذکورہ بالا تینوں شخصیات کے اجتماعی حَجم سے بھی سینکڑوں گنا زیادہ ہے ۔ ا س کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز اور اخبارات کی تعداد میں جو اضافہ ہوا ہے وہ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ ہے ۔ اسامہ بن لادن کو بے حد نفرت انگیز القابات سے نوازہ گیا ہے ۔ ایک بیحد حیران کن او رتوہین آمیز لقب ملا حظہ کیجئے :
Chief of Terroist Staff یہ لقب بہت سے امریکی کالم نگاروں نے ایبٹ آباد آپریشن کے بعد بیان کرنا شروع کیا ہے ۔ مغرب کا کم ظرف شیطانی دماغ اپنے مخالفین بالخصوص اہل اسلام کے لئے ایسے القابات تخلیق کرنے میں بے حدزرخیز واقع ہوا ہے ۔ )
کے علاوہ کوئی دوسری شخصیت ایسی نہیں ہے جسے ایک طرف 'رئیس المجاہدین 'کا نہایت قابل احترام اعزاز بخشا جاتا ہو، تو دوسری طرف اسے دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد' بھی کہا جاتا ہو۔
بلا شبہ یہ دونوں القاب دینے والوں کی سوچ میں بعد المشرقین ہے ۔ آج دنیا اُسامہ بن لادن کا ذکر جس طرح چاہے کرے مگر اس کے بدترین دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں ہےکہ ایک غیر معمولی انسان اور کرشماتی شخصیت تھے ۔ جن لوگوں کو اُسامہ بن لادن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے 'وہ بطور انسان اس کے اوصافِ حمیدہ کے معترف ہیں ۔ ان دنوں ذرائع ابلاغ میں اسامہ بن لادن کے خاندانی پس منظر ، بچپن ، جوانی اور جہاد افغانستان میں شرکت کے متعلق جو معلومات دی گئی ہیں ، اس سے یہ تاثر پید نہیں ہوتا کہ وہ طبعی طور پر کوئی خونخوار درندہ صفت انسان تھے ۔ ان میں ہر وہ خوبی تھی ، جو اُن کے خاندان کے دیگر افراد میں تلاش کی جا سکتی ہے ۔ یہ تفصیلات اس مضمون کے مرکزی موضوع سے مناسبت نہیں رکھتیں ، لہذا ان سے صرف قلم کیا جا سکتا ہے ۔
ہمارے خیال میں جاننے کی ضرورت ہے کہ سعودی عرب کے ارب پتی خاندان کا ایک نوجوان جہاد ِ افغانستان کی طرف مائل کیونکر ہوا ؟ ایک دولت مند خاندان کے شہزادے نے عیش و عشرت کی زندگی تر ک کرکے افغانستان جیسے سنگلاح پہاڑوں کی سر زمین میں جہادی زندگی کواپنا مقصدِ حیات کیونکر منتحب کر لیا ؟ اس کے جہادی فکر کے ارتقا میں کن کن عوامل نے کردار ادا ر کیا ؟ افغانستان سے سوویت یونین کی شکست خوردہ افواج کی واپسی کے بعد امریکی استعمار کے خلاف عالمی جہادی مہم برپا کرنے کا خیال اس کے ذہن میں کیسے پیدا ہوا ؟ اور پھر امریکی مفادات پر حملوں کی منصوبہ بندی کیسے کی ؟ اس کا م کے لئے وسائل کیسے مہیا کئے؟ اگرچہ بارہا اس پر لکھا جا چکا ہے ، مگر اب بھی اس سوال کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ 11۔9 کے واقعہ میں اُسامہ بن لادن کا ہاتھ تھا ؟ ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اُسامہ بن لادن کی آئیڈیالوجی کیا تھی اور کیا عالم اسلام اس آئیڈیالوجی پر عمل کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ آخر میں اُسامہ بن لادن کے مشن اور اس کی وضع کردہ حکمتِ عملی کے نتائج کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ یہاں ہم مغربی پریس کے اس نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں جو اُنہوں نے القاعدہ ، بالخصوص اُسامہ بن لادن کے بارے میں بڑے تسلسل سے پھیلایا ۔ ہمارے علم میں ہونا چاہئے کہ القاعدہ کے مخالف ان پر کیا فرد جرم عائد کرتے رہے جس کے ساتھ ساتھ اپنے مختصر بتصرے میں ہم اس کا جائزہ بھی پیش کریں گے :
(1)ایبٹ آباد آپریشن کے دوسرے روز یعنی 2۔مئی 2011ء کے' روز نامہ واشنگٹن پوسٹ' میں اُسامہ بن لادن کے متعلق تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے :
''وہ (اُسامہ بن لادن) مٹھی بھر اسلامی انقلابیوں ( Islamic Radicals )میں سے تھا ، جس نے 1988ء میں سوویت فوج کے خلاف افغانستان میں برسرپیکار مختلف گرہوں کی سرگرمیوں کو منضبط کرنے کے لئے 'القاعدہ ' کی بنیاد رکھی ۔ جب سویت یونین نے افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لیں تو القاعدہ نے ایک اور سپر پاور 'امریکہ ' کو اپنی جدوجہد کا ہدف بنا لیا ۔ بے حد جار حانہ مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے القاعدہ نے امریکہ پر سعودی عرب سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لئے شدید دباؤ ڈالنے اور عرب دنیا میں اپنے اتحادی حکمرانوں کی مدد سے دستبر دار ہونے کے لئے شدید دباؤ ڈالنے اور عرب دنیا میں اپنے اتحادی حکمرانوں کی مدد سے دستبردار ہونے کے لئے دہشت گردی کے ایجنڈے کو اپنا لیا ۔
اس رپورٹ میں بھی واضح طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ القاعدہ نے سعودی عرب میں امریکی افواج کو موجودگی کے خلاف شدید ردّ عمل کے طور پر 'دہشت گردی ' کی پالیسی اپنائی اور دوسرا ان کا مطالبہ یہ تھا کہ امریکہ عرب ممالک کے حکمرانوں کی سر پرستی نہ کرے ۔ ان کے مقاصد کے حصول کے لئے امریکی حکومت کو وہ دباؤ میں لانا چاہتے تھے ۔ سعودی عرب کے مقدص مقامات کے متعلق حساسیت کا پایا جانا کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے ۔ القاعدہ ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمان چاہتے تھے کہ امریکی افواج سعودی عرب سے نکل جائیں ۔
یہ بے حد جذباتی معاملہ تھا ، عرب نوجوانوں کے جذبات بے حد مشتعل تھے ۔ ان میں سے بہت سے نوجوان کچھ عرصہ پہلے جہادِ افغانستان میں عملی طور پر شریک رہے تھے ، اُنہوں نے اُسامہ بن لادن کی آواز پر لبیک کہا ۔ وہ اس بات سے قطعی طور پر بے پروا تھے مگر ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں تھی ۔ یہ تحریک عام مسلمانوں میں پذیرائی حاصل نہ کرسکی ، کیونکہ وہ اِسے انتہا پسندانہ حکمتِ عملی سمجھتے تھے ۔
معروف امریکی ہفت روزہ 'ٹائم'(20۔مئی2011ء)نے The End of Bin Laden کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا ہے اس کے سرورق پر اسامہ بن لادن کی تصویر شائع کی ہے مگر اس پر سرخ کراس + لگا دیا ہے ۔ اُسامہ بن لادن سے یہ نفرت کا بے ہودہ اظہار مغربی صحافت کے ایک انتہا پسند طبقے کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس میگزین کے منیجنگ ایڈیٹر نے اپنے مختصر ادارتی نوٹ میں بیان کیا ہے کہ اس سے پہلے ایڈولف ہٹلر( 7 مئی1947ء) صدام حسین (21۔اپریل 2003ء) اور ابومصعب زرقاوی (19 جون 2006ء) کے متعلق خصوصی شماروں کی اشاعت میں ان کی تصویروں کو بھی صفحہ اوّل پرسرخ کراس کے ساتھ شائع کیا گیا تھا ۔ ان شماروں کے عکس بھی تازہ شمارے میں دیئے گئے ہیں۔
(2)'ٹائم' کے مضمون نگار پیٹربرگن(پیٹربرگن نیو امریکہ فاؤنڈیشن میں نیشنل سیکورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہا ہے ۔ اُس کی آخری کتاب حال ہی میں مار کیٹ میں آئی ہے ، اس کا عنوان ہے :
The Longest War: The Enduring conflict between America and Al-Qaida" روزنامہ ڈان (8۔مئی2011ء ) کے سنڈے میگزین میں اس کتاب پر مفصل تبصرہ شائع ہوا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ 1997ءمیں جب وہ CNN کا پروڈیوسر تھا ، وہ مشرقی افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملا ، جہاں اُس نے اُسامہ کا پہلا ٹیلی ویژن انٹریو کیا ۔ ( ٹائم) وہ لکھتا ہے :
He struck me intelligent and well – informed.
''اس کی غیر معمولی ذہانت اور باخبر یت نے مجھے ششدر کردیا ۔'')
نے القاعدہ کے تزویراتی مقاصد کے ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
''پہلی نظر میں 11۔9 کا حملہ القاعدہ کے جہادی جتھے کی چونکادینے والی فتح دکھائی دیتا تھا جس نے دنیا کی واحد سپر پاور کی ناک خون آلود کر دی تھی ۔ لیکن اگر غور سے دیکھیں تو یہ بات کم اہم نظر آتی ہے کیونکہ نیویارک اور وشنگٹن پر حملوں سے بن لادن کے اہم تزویراتی ہدف Strategic Goal حاصل نہ ہوئے ، اور یہ ہدف تھا مشرقی وسطی ٰ سے ریاست ہائے متحدہ کی واپسی کا ، جس کے متعلق اس کا خیال تھا کہ وہ امریکی حمایت یافتہ آمریت پسند عرب حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمہ کا باعث بنے گی۔ ''(ہفت روزہ ٹائم ،A long time going by peter Bargen)
(3)فرید زکریا کا نام محتاجِ تعارف نہیں ۔ پہلے وہ 'نیوویک ' میں کالم لکھتا تھا ، آج کل Time سے وابستہ ہے ۔ مزید آں CNN کا اینکرپرسن بھی ہے ۔ اس کی رائے کو امریکہ اور مغرب میں بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ 'ٹائم' کے مذکورہ شمارے میں اس نے القاعدہ کی طرف سے امریکہ کو ہدف بنانے کے متعلق یوں خیال آرائی کی ہے :
''ریاست ہائے متحدہ امریکہ اُن کا ہدف بنا، کیونکہ ہم نے عرب آمریتوں کی پیٹھ ٹھونکی ۔ القاعدہ ایک سعودی +مصری اتحاد ہے ( بن لادن ، سعودی اور ایمن الظواہر ی، مصری) جس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سعودی اور مصری اور دیگر عرب حکومتوں کا تختہ اُلٹا یا جائے ...
'القاعدہ' یقین رکھتا تھا کہ عر ب دنیا سے آمریتوں کا تختہ اُلٹنے کا واحد راستہ تشدد کا ہے ، ان کے خیال میں سیکوبر سیاست میں حصہ لینا ارتداد میں شامل ہے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ لوگ اسلامی حکومت چاہتے ہیں ۔''
پیٹربرگن کے تجزیے میں ریاست ہائے متحدہ کی مشرق ِوسطیٰ سے واپسی کو القاعدہ کا پہلا ہدف بتایا گیا ہے ، مگر فریدزکریا نے عرب حکومتوں کے تختہ اُلٹنے پر توجہ مرتکز کی ہے ۔ ہمارے خیال میں اُسامہ بن لادن نے بارہا مشرقِوسطیٰ بالخصوص سعودی عرب سے امریکی استعماری افواج کی واپسی کے لئے جدوجہد کو اپنا مشن قرار دیا ۔ وہ سعودی حکومت سے بھی اس وجہ سے اُلجھ پڑے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ امریکیوں کو ارضِ مقدس سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوئی ۔ مگر اس نے اپنی تقاریر اور بیانات میں عرب حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کو اپنا مشن قرار نہیں دیا ۔
امریکی حکومت کے حامی صحافی اس بات کا پراپیگنڈا شاید اس لئے کرتے ہیں تا کہ عرب حکمرانوں کو 'القاعدہ' یا جہادی انقلابیوں کے خلاف اقدامات کے لئے مشتعل کر سکیں ۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی مناسب ہوگا کہ پاکستان 'افغانستان وعراق کے برعکس سعودی حکومت نے آخر کار اسامہ بن لادن کےاندیشے کے غلط کر دکھایا اور امریکی حکومت سے نجات حاصل کر لی ۔
(4)'ٹائم' نے اسامہ بن لادن کی پیدائش ( 1957ء) سے لیکر اُس کی ایبٹ آباد آپریشن میں مبینہ 'ہلاکت ' (شہادت) کے سال بہ سال اہم واقعات کا مختصر خاکہ پیش کیا ہے ۔ اس کے چند سالوں کا اندراج قابلِ توجہ ہے :
1990: '' عراق کا کویت پر حملہ : سعودی بادشاہت کی طرف سے امریکی افواج کی سعودی سر زمین پر قبولیت بن لادن کے سخت اشتعال کا باعث بنتی ہے ۔ وہ 1991ء میں سعودی عرب کو چھوڑ کر سوڈان میں جا بستا ہے ۔''
1996: '' بن لادن افغانستان واپس لوٹ آتا ہے جہاں اسے طالبا ن کی طرف سے القاعدہ کے تربیتی کیمپ قائم کرنے کی اجازت مل جاتی ہے ۔ بن لادن امریکہ کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہے ۔''
1998:''بن لادن اعلان کرتا ہے کہ امریکیوں اور ان کے اتحادیوں ( فوجی اور شہری) کو قتل کرنا ہر مسلمان کا انفرادی فرض ہے ۔ القاعدہ کے آدمی تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں کو بم کا نشانہ بناتے ہیں جس سے 224۔ اشخاص ( بشمول 12 امریکی ) مارے جاتے ہیں ۔ امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے کیمپ پر کروز میزائل سے حملہ کرتا مگر وہ بن لادن کو قتل کرنے میں ناکام رہتا ہے ''
ستمبر2001ء:'' 11 ستمبرکے دن چار جہاز نیویارک سٹی میں ورلڈٹریڈسنٹر پینٹا گان سے ٹکراتے ہیں ۔ 19 ہائی جیکرون سمیت 3000 سے زیادہ لوگ جان بحق ہوتے ہیں ۔ 16 ستمبر کو صدر جارج ڈبلیوبش، بن لادن کو سب سے بڑا مشکوک قرار دیتے ہیں ۔ بن لادن ایک بیان جاری کرتا ہے :
'' میں زور دے کر یہ بیان کرتا ہوں کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ۔''
(ہفت روزہ ٹائمI stress that I have not carried out this act صفحہ42 )
اکتوبر2001ء: جب طالبان بن لادن کے حوالگی سے انکار کرتے ہیں ، امریکہ افغانستان پر حملہ کر دیتا ہے ۔ ایک ویڈیو ٹیپ پیغام میں اسامہ بن لادن کہتا ہے :
''امریکہ پر خوف طاری ہوگیا ہے ۔ الحمدللہ!''
اکتوبر2004ء: '' امریکہ کے صدارتی انتخاب سے کچھ دن قبل لادن ایک ویڈیو ٹیپ جار ی کرتا ہے ، جس میں وہ پہلی دفعہ سارے جہاں کے سامنے تسلیم کرتا ہے کہ 11۔9 کے حملوں میں القاعدہ ملوث تھا ۔ بن لادن 1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کا حوالہ دیتا ہے اور خبر دار کرتا ہے کہ اس طرح کے حملے دوبارہ بھی ہو سکتے ہیں ۔'' (ہفت روزہ ٹائم :صفحہ 42،41)
اُسامہ بن لادن کا 2004ء میں امریکی قوم سے خطاب
'ٹائم' نے جو خاکہ پیش کیا ہے ، امریکی حکومت کا بھی موقف مختلف نہیں ہے ۔ ان معلومات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ صدر جارج ڈبلیوبش اور ان کی انتظامیہ 11۔9 کے پانچ دن کے بعد اُسامہ بن لادن کو مشکوک قرار دیتی ہے ۔ گویا کہ اس سے پہلے اُنہیں اُسامہ بن لادن کے متعلق شک نہیں تھا ۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ اُسامہ بن لادن نے بے حد زور دیکر انکار کیا کہ وہ 11۔9 میں ملوث نہیں ہے ، پھر وہ تین سال تک بالکل خاموش رہے جب 2004ء کے امریکی انتخابات کے انعقاد میں محض چند روز باقی تھے ، مغربی پریس یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اچانک منظر عام پر آکر یہ اعلان کیا کہ 11۔9 کا اقدام القاعدہ نے کیا ہے ۔ اُسامہ بن لادن کے اکتوبر 2004ء کے اس اعلان کے متعلق شکوک و شبہات وارد کئے جاتے رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کے خیال میں اُسامہ بن لادن دسمبر2001ء میں تورا بورا پر شدید بمباری کے نتیجے میں شہید ہوگئے تھے ، اس بیان کو جعلی قرار دیتے ہیں ۔ ایک دوسرا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ 2003ء میں گردوں کے مرض کی وجہ سے اُسامہ بن لادن کی طبعی موت واقع ہوئی ، وہ بھی اس کی صداقت کو تسلیم نہیں کرتا ۔تیسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو اِسے 'سازش' قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق جارج ڈبلیوبش کو انتخابات میں دوبارہ کامیاب کرانے کے لئے میڈیا پر یہ اعلان چلایا گیا ۔ اس بات کا اعتراف بہت سے امریکی صحافی بھی کرتے ہیں کہ اس اعلان کا سیاسی فائدہ جارج بش کو ملا ، کیونکہ امریکیوں نے اُسامہ بن لادن سے نفرت کی بنا پر صدر جارج بش کی حمایت کی ۔ البتہ امریکہ کے نو قدامت پسند اور صحافیوں کی اکثریت اب تک یہ سمجھتی ہے کہ یہ ویڈیو ٹیپ اُسامہ بن لادن کی آواز پرہی مبنی ہے ، لیکن قرائن بہر حال اس کی تصدیق نہیں کرتے ۔ ہمار ی معلومات کے مطابق القاعدہ کی قیادت نے اس ویڈیو ٹیپ کی میڈیا پر کبھی تردید تو نہیں کی تا ہم اس بات کا قوی امکان ہے مہ ان کی اس تردید کو میڈیا پر آنے ہی نہ دیا گیا ہو ۔
اُسامہ بن لادن کی مذکورہ ویڈیو ٹیپ کا تحریری مسودہ ( Fabricated) خطاب ہے ، تب بھی اس جعل سازی کے مرتکب کی کاوش حیران کن ہے ۔
اُسامہ بن لادن کا 2004ء کا خطاب
حمدو ثنا کے بعد اسامہ بن لادن اپنے خطبہ کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں :
'' اے امریکہ کے عوام ! یہ آج میری گفتگو آپ سے ہے ۔ اس کا تعلق اس رات سے ہے کہ دوسرے 11۔9 سے بچاؤ کا مثالی راستہ کیا ہے ، نیز اس جنگ کی وجوہات اور نتائج کیا ہیں ؟ اس سے پہلے کہ میں اپنی تقریر کا باقاعدہ آغاز کروں ، میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ سیکیورٹی ، انسانی زندگی کا ایک ناگزیر ستون ہے ۔ جارج بش دعویٰ کرتا ہے کہ ہم آزادی سے نفرت کرتے ہیں ، میں ہتا ہوں کہ آزاد انسان اپنی آزادی کو کبھی سلب نہیں ہونے دیتے ۔ اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے ۔ تو اسے چاہئے کہ وضاحت کرے ۔
آخر ہم دوسرےممالک مثلاً سویڈن پر حملہ کیوں نہیں کرتے ؟.. نہیں ، ہم لڑائی کر رہے ہیں ، کیونکہ ہم آزاد انسان ہیں جو ظلم کے شب میں سویا نہیں کرتے ۔ ہم اپنی قوم کی آزادی کو بحال کر نا چاہتے ہیں ۔ جیسے آپ ہماری قوم کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔ بالکل اِسی طرح ہم بھی تمہاری قوم کو بتاہ کریں گے ۔
سوائے ایک بہرے چور کے کوئی بھی شخص نہیں جودوسروں کی سیکورٹی ( تحفظ) کے ساتھ کھلواڑکرے اور پھر یہ بھی سمجھتا رہے کہ وہ خود محفوظ رہے گا ۔''
پھر بیان کرتے ہیں :
'' پس آج میں آپ کو بتاؤں گا کہ ان واقعات کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے اور میں آپ کو اور میں آپ کو دیانتدار ی سے بتاؤں کا کہ وہ کیا لمحات تھے جب یہ فیصلہ کیا گیا تاکہ آپ غور کر سکیں ۔ میں آپ کو بتاتا ہوں ، خدا جانتا ہے کہ ٹاورز کو تباہ کرنے کا خیال ہمارے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ لیکن جب یہ نا قابل ِبرداشت ہوگیا اور ہم نے دیکھا کہ امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں ہمارے لوگوں کو جارحیت اور ظلم کا نشانہ بنایا ہے ، تو یہ بات میرے ذہن میں آئی ۔''
(اصل انگریزی الفاظ یہ ہیں : ''It came to my mind'' یہ جملہ پچھلی سطر میں 'ہمارے ذہن میں کبھی نہیں آیا 'سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا 'میرے ذہن ' کے الفاظ شک سے بری معلوم نہیں ہوتے ۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ جملہ اُسامہ بن لادن کی طرف سے اعتراف کے ثبوت کے لئے شامل کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم !)
اُسامہ بن لادن اس فیصلے تک کیوں پہنچے ؟ اس کا پس منظر یوں بیان کرتے ہیں :
'' وہ امریکہ جنہوں نے میری روح کو براہِ راست گھائل کیا ، 1982ء میں شروع
ہوئے امریکہ نے اسرائیل کو لبنان پر فوج کشی کی اجازت دی اور امریکہ کے چھٹے
بیڑے نے ان کی امداد کی ۔ اس بمبار ی میں بہت سے لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے ، بے شمار لوگ و حشت زدہ ہوکر بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے ۔
میں ان دل دوز مناظر کو کبھی فراموش نہ کر سکا ۔ ہر طرف خون اور بکھرے ہوئے اعضا، عورتیں اور بچے بے حد بری حالت میں ۔ گھر اپنے مکینوں کے ساتھ بتاہ کر دیئے گئے ۔ ہمارے گھروں پر نہایت بے رحمی سے راکٹ برسائے گئے ۔
ان صبر آزما لمحات میں بہت سے ناقابلِ بیان خیالات میرے دل میں آئے ۔ بالآخر ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے شدید جذبات پیدا ہوئے اور ظالموں ک سزادینے کا مضبوط عزم پیدا ہوا۔ اور جب میں نے ماضی میں جھانک کر لبنان کے تباہ شدہ تاورز کو دیکھا ، میرے ذہن میں خیال پیدا ہوا کہ ہمیں بھی ظالم کو اسی انداز میں سزا دینی چاہئے اور ہمیں بھی امریکہ کے ٹاور ز کوتباہ کرنا چاہئے تاکہ ہم نے جو کچھ چکھا، وہ بھی اس کا مزہ چکھ سکیں اور تا کہ آئندہ وہ ہمارے عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کر سکیں ۔
پس کچھ اس طرح کی تصویریں میرے ذہن میں گھومتی رہیں ۔ 11 ستمبر کے واقعات ان عظیم غلطیوں کا جواب تھے ۔ کیا ایک آدمی اپنی آبرو اور قوم کے تحفظ کے لئے الزام دیا جا سکتا ہے ؟ کیا اپنے آپ کا دفاع کرنا اور ظالم کو ویسی ہی سزا دینا قابلِاعتراض دہشت گردی ہے ؟ اگر یہ ایسا ہے تو پھر ہمارے لئے اس سے گریز ممکن نہیں ۔''
راقم الحروف کا دل نہیں مانتا کہ اسامہ بن لادن نے اس اسلوب میں بات کی ہو گی ۔ فرض کیجئے کہ یہ الفاظ اسامہ بن لادن کے ہیں تو 11۔9 کے واقعات کے لئے جو جواز پیش کیا گیا ہے ، وہ غیر منطقی اور ناقابل فہم ہے ۔ 1982ء کے لبنان کے واقعات کا 2001ء میں بدلہ لینا کیا معنی رکھتا ہے ؟ پھر اس کے لئے اسرائیل کی بجائے امریکہ کا انتخاب بھی عجیب لگتا ہے ۔ اسلامی شریعت بھی اس جواز کو تسلیم نہیں کرتی ۔
ا س کے بعد امریکی عوام کو کہا گیا کہ اُسامہ بن لادن کی طرف سے 'ٹائم میگزین '
(1996ء) سی این این(1995ء)، جان وینرWeiner (1998ء) اور رابٹ فسک کو دیئے گئے انٹرویوز کا مطالعہ کریں ۔ 11۔9 کے واقعات کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کہتے ہیں :
''جہاں تک اس کے نتائج کا تعلق ہے ، خدا کے فضل و کرم سے یہ انتہائی مثبت اور شاندار رہے ہیں اور ہر اعتبار سے یہ ہماری توقعات سے بڑھ کر رہے ہیں ۔''
(یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ امریکیوں سے خطاب میں یہ اُسلوب کیونکر اختیار کیا جا سکتا ہے ۔)
اس خطاب میں اسامہ بن لادن نے امریکی صدر سینئر بش کی جانب سے ا پنے بیٹوں کو گورنر بنانے کے عمل کو طنز و تشنیع کا موضوع بنایا ہے اور اسے عرب بادشاہوں کی تقلید ا نام دیا ہے ۔
یہ بیان کرنے کے بعد کہ مجاہدین نے کس طرح روس کا دس سال مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں وہ دیوالیہ ہو گیا او رشکست کھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا ، وہ امریکہ کے متعلق اپنی پالیسی کا ذکر دھمکی آمیززبان میں یوں کرتے ہیں :
''پس ہم امریکہ کو خون میں نہانے کی اپنی پالیسی جار ی رکھے ہوئے ہیں ،اس قت تک کہ جب امریکہ دیوالیہ ہو جائے ۔ ان شاء اللہ ایسا ہوگا اور اللہ بزرگ و برتر کی طاقت سے کچھ بھی نا ممکن نہیں ۔''
امریکہ کے لئے اس طرح کی جنگیں کس طرح فائدہ مند رہی ہیں اسانہ بن لادن کے الفاظ ہیں:
''امریکہ کی جنگ کے بارے میں پالیسی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہر طرف جنگی محاذ
(War Fronts )کھولے جائیں تا کہ اس کی مختلف کارپوریشن مصروف رہیں خواہ وہ اسلحہ سازی ،تیل یا تعمیرات کے کام کرتی ہوں ۔''
خطاب کے آخر ی حصے میں اسامہ بن لادن نے امریکی صدر جارج ڈبلیوبش جونیئر پر طنز ے تیکھے نشتر چلائے ہیں اُنہوں نے اپنے خطاب میں ایک عجیب انکشاف بھی کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ ''کمانڈر جنرل محمد عطا کے ساتھ ہم نے اتفاق کی تھا کہ تمام آپریشن 20 منٹ کے اندر ہی مکمل کر لئے جائیں ، اس سے پہلے کہ بش انتظامیہ اس کا نوٹس لے مگر جارج بش کے ست ردّ عمل کی وجہ سے اُنہیں تین گنا زیادہ وقت مل گیا ۔''
اسامہ بن لادن کے طنزیہ جملے انگریزی میں درج کرنے کے لائق ہیں :
It never occurrd to us that the commander-in-chief of the American arren forces would abandon 50.000 of his citizens in the two towers to face those great horrors alone rhe time when they most needed him.But it seemed to him that occupying himself by talking to the little girl about the goat and its burning was more important than occupying himself with the planes and their buttinig of the sky-scrappers, we were given three times the period required to execute the operations."
''ہم نے کبھی نہ سوچا کہ امریکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف اس وقت اپنے پچاس ہزار شہریوں کو دونوں ٹاور ز میں خوفناک دہشت کا سامنا کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیں گے جب انہیں اس کی اشد ضرورت تھی ۔ لیکن کیونکہ اس (جارج بش) نے خیال کیا کہ اس کا ایک چھوٹی بچی سے ایک بکری
(جب جہاز ورلڈٹریڈسنٹر سے ٹکرائے ، جارج بش ایک سکول میں بچوں کے ساتھ موجود تھے ۔ اُنہیں وہاں اطلاع دی گئی ۔ اطلاع سن کر ان کا چہر ہ فق ہوگیا مگر وہ اس وقت ایک بچی کو بکر ی کی کہانی سنا رہے تھے ۔ اُنہوں نے تقریباً سات منٹ میں اِس اضطراب کی حالت میں وہ کہانی مکمل کی او راس کے بعد تقریب سے چلے گئے ۔ یہ اُس کی طرفل اشارہ ہے )
کے متعلق کہانی بیان کر کے خود کو مصروف رکھنا اس بات سے زیادہ اہم تھا کہ وہ بلندوبالاعمارتوں سے ٹکرانے والے جہازوں کے متعلق توجہ کرتے ۔ اس طرح ہمیں اپنے اپریشن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تین گنازیادہ وقت مل گیا ۔''
ان طنزیہ جملوں او رچوٹ (Taunting )کا امریکی میڈیا نے سخت نوٹس لیا ۔ خود امریکی صدرجارج ڈبلیوبش نے اس پر شدید ردّ عمل ظاہر کیا ۔ خطاب کے آخر میں اسامہ بن لادن نےامریکی عوام کو متنبہ کیا :
''آخر میں ، مَیں آپ سے بالکل سچی بات کہتا ہوں کہ آپ کی سیکورٹی جان کیری (صدارتی امیدوار) یا جارج بش یا القاعدہ کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ آپ کی سکیورٹی (تحفظ) آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ او رہر وہ ریاست جو ہماری سکیوٹی سے نہیں کھیلتی ، وہ خود بخود اپنے آپ کو تحفظ عطا کرتی ہے ۔''
(اس خطاب کا پورامتن اِن ویب سائٹس پر ملا حظہ کیا جا سکتا ہے :
Aljazeera.net/osamabinladen,www.worldpress.org)
ہمارے خیال میں اس خطاب کے اصل اور جعلی ، دونوں امکانات میں سے جعلی ہونے کا امکان غالب ہے ، بہر حال ہم نے اس خطاب کے اہم حصوں کو بیان کر دیا ہے ۔ اس خطاب میں 1991ءکی خلیجی جنگ میں عراقیوں کے قتل ِ عام یا افغانستان پر امریکی حملے کا ذکر نہیں ہے ، یہ بات بڑی حیران کن ہے ۔ دوسری یہ بات تعجب سے خالی نہیں ہے کہ 2001ء میں تورا بورا کی وحشیانہ بمباری سے بچ نکلنے کے تین سال بعد امریکی قوم سے اس طرح کا جسارتِ آمیزاور اشتعال انگیز خظاب کیا گیا ۔
امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ 1996ء
اگست 1996ء اُسامہ بن لادن نے ایک 'مفصل اعلامیہ'شائع کیا جسے امریکی پریس نے 'بن لادن کا فتویٰ' کے نام سے تشہیر دی ۔
ہمار ے خیال میں اسامہ بن لادن کے فکری ارتقا، آئیڈیالوجی اور جہادی عسکریت کے محرکات کی معروضی تفہیم کے لیے یہ اعلامیہ اہم ترین دستاویز ہے ۔ 30 سےزیادہ مفصل صفحات پر پھیلا ہوا یہ اعلامیہ کسی تحقیقی مقالے سے کم نہیں ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسامہ بن لادن اکیلے کی دماغ سوزی کا نتیجۂ فکر نہیں ہے بلکہ القاعدہ کے دیگر علما نے بھی اس میں معاونت کی ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ 'اعلامیہ' اصل ہے اور اس میں تحریف کا کم احتمال ہے ۔ اس اعلامیہ کا جائزہ بے حد مفید ہوگا۔ خطبہ مسنونہ کے بعد قرآن مجید کی متعدد آیات ( مثلاًسورۃ آل عمران :102، النساء:1،الاحزاب:70،71 سورۂ ہود:88،اور
آل عمران:110)
کا بیان ہوتا ہے ۔
اعلامیہ کا آغاز صہیونی /صلیبی اتحاد کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جا بجا بہیمانہ ظلم ز ستم کے نہایت رقت آمیز تذکرہ سے ہوتا ہے ۔ دنیا کے مختلف خطوں (مثلاًلبنان ، تاجکستان ، برما، کشمیر، آسام ، فلائن ، صومالیہ ، اریٹیریا،چیچینا، فلسطین اور ابوسنیا وغیرہ )
میں خونِ مسلم کی ارزانی کا نوحہ پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے قلوب کو متاثر کرنے والا خطاب کیا گیا ۔ اسلام دشمنوں کی لرزہ خیز بربریت او راس پر اقوام عالم کی حیران کن بے حسی کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ انسانی حقوق کے علمبر دارامریکیوں کی طرف سے مسلمانوں کے انسانی حقوق کی پامالی اور اس کے خلاف مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہونے کی تفصیلات دی جاتی ہیں ۔ پھر تازہ ترین مگر اس بدترین جارحیت کا بے حد جذباتی انداز میں بیان ہوتا ہے جو حرمین شریفین کی مقدس زمین پر قبضے کی صورت میں کی گئی ہے ۔ مسلمانوں کے مکرن ترین مقامات پر صہیونی /صلیبی افواج کے قبضے کا ذکر اس اعلامیہ میں متعدد مقامات پر آتا ہے ۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن نے امریکی استعمار کی طرف سے علماے حق اور داعیانِ اسلام کو قید و بند کی سختیوں سے دو چار کرنے کا ذکر کیا ہے ۔ ان کے خیال میں دشمنانِ اسلام ایسا اس لئے کر رہیں تا کہ یہ علمائے کرام اپنے عظیم آباؤ اجداد ( جیسے کہ ابن تیمیہ اور علی ابن عبدالسلام ) کی طرح امتِ مسلمہ کو دشمنان ِ اسلام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب نہ دے سکیں ۔ اُسامہ کہتے ہیں کہ مجاہد شیخ عبداللہ عزام(شیخ عبداللہ عزام جہادِافغانستان کے حوالہ سے معروف ہیں ۔ اُنہوں نے پشاور میں مجاہدین کی تربیت کا مرکز قائم کیا ہوا تھا ۔ 1986ء میں اسامہ بن لادن بھی اس مرکز میں آئے ۔ وہ عبداللہ عزام کو اپنا فکری استاد مانتے تھے ۔ 1989ء میں انہیں پشاور میں شہید کر دیا گیا ۔ کہا جاتاہے کہ آخری برسوں میں وہ اسامہ بن لادن سے بہت خو ش نہ تھے ۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوی نے ایک انٹرویو میں اسامہ بن لادن کے ساتھ ان کے اختلاف کا ذکر بھی کیا ۔ ابھی حال میں ہی حافظ محمد زبیر تیمی نے ' تکفیر اور حاکمیت ' پر اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اسی مضمون میں سعودی عرب کے جید علما کی جانب سے اسامہ بن لادن اور تکفیری تحریک کے دیگر جہادی سلفی علما کے خلاف فتاویٰ کا بھی ذکر کیاگیا ہے ۔ شیخ احمد یاسین چند سال پہلے اسرائیل ریاست کی دہشت گردی کا نشانہ بنے ۔ شیخ عبدالرحمٰن ابھی تک امریکی شہر میں ہیں ، ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 1993ء میں رمزی یوسف کی طرف سے ورلڈٹریڈسنٹر پر حملہ کے معاملے میں معاونت کی تھی ۔ وہ مصر کے جہادی اسلامی فکری رہنما ہیں ۔ القاعدہ کے اہم رہنما ایمن الظہواہر ی کا تعلق اسی جماعت سے ہے ۔)
کو امریکیوں نے قتل کیا اور مجاہد شیخ احمد یاسین اور مجاہد شیخ عمر عبدالرحمٰن کو انہوں نے گرفتار کیا ۔ مزید برآں امریکیوں کے حکم کی تعمیل میں سعودی حکومت کثیر تعداد میں علما(ان میں شیخ سلمان العود اور شیخ سفر الحوالی کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے ۔یہ علمائے کرام تکفیری تحریک کے نمایاں ترین نام بتائے جاتے ہیں ، جن میں سے بعض لوگوں نے اب رجوع بھی کرلیا ہے ۔) ،
داعی اور نوجوان حراست میں لے لئے ۔ پھر وہ بیان کرتے ہیں کہ کس طرح انہیں اور ان کے گروہ سے وابستہ افراد کو نا انصافی کا شکار کیاگیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب وہ اُسی کو ہستانی محفوظ سر زمین میں ہیں جہاں دورِ حاضر کے کفار کی سب سے بڑی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اب وہ اسی کوہ ہندوکش سے صلیبی و صہیونی اتحاد کے خلاف صف آراہیں ۔
مندرجہ بالا اُمور پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد اسامہ بن لادن اعلان کرتے ہیں :
''یہاں سے ، آج ہم اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں ، ہم عالم اسلام بالعموم اور حرمین شریفین کی ارضِ مقدس کو بالخصوص جن مسائل کا سامنا ہے ، اس کی اصلاح اور حل کی بات کریں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم تمام مسائل کا مطالعہ کریں جس سے ہم اس افسوس نا ک صورتِ حال کو دوبارہ اُس کی پہلی سطح پر لا سکیں تا کہ لوگوں کو ان کے حقوق واپس مل سکیں ۔''
ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کا مصمم عزم کر چکے تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے معاشرہ کے مختلف طبقات مثلاً شہری ، سرکرکاری ملازمین ، تاجر ،نوجوان ،بوڑھے ، طلبا کے ساتھ کے جانے والی نا انصافیوں اور ظلم کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔ انہوں نےایک ماہر معیشت دان کی طرح صنعت وزراعت، معیشت ، افراطِ زر، غیر حکومتی قرضہ جات اور مہنگائی کو دلائل سے بیان کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے ؟
لوگ یقین کرتے ہیں کہ یہ ہم پر اللہ کا عذاب اسی لیے نازل ہوا ہے ، کیونکہ ہم حکمرانوں کے ظلم اور غیر عادلانہ رویے کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے (ضروری نہیں ہے کہ تمام لوگ اس طرح سوچتے ہوں ۔ مقرر کی جانب سے اس میں حسن ِ مبالغہ کو بھی کافی دخل ہے ۔)
وہ سعودی حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ
''شریعت کو نظر انداز کر رہی ہے ، لوگوں کے جائز حقوق غضب کر رہی ہے ، حرمین شریفین کی ارضِ مقدس پر قبضہ کرنے کی اجازت دے رہی ہے ۔ (اس مضمون کے آخر میں ہم جائزہ لیں گے کہ اس الزام میں کس قدر صداقت ہے ؟) مخلص علما کو قید و بند کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ حکمرانوں کے اقدامات سلطنت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں ۔''
اسامہ کہتے ہیں کہ ہر طبقۂ فکر کی طرف سے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے متعدد بار کاوشیں کی گئی ہیں ۔ اب حکومت دو اسباب کی بنا پر اپنا جواز کھوچکی ہے :
(5)عوام کے جان ومال کےتحفظ میں ناکامی اور امریکی صلیبی افواج کو ارضِ مقدس پر قبضہ کرنے کی اجازت دے کر اس تباہ کن صورتِ حال کو پید ا کرنے کی ذمہ دار حکومت ہے
(6)اسلامی شریعت کی معطلی اور اس کے بدلے میں انسانوں بنائے ہوئے (وضعی) شہری قوانین کا نفاذ ۔ حکومت نے حق گو علما کے خلاف محاذ کھولا ہے اور صالح نوجوانوں پر ظلم کیا ہے ۔
اسامہ کہتے ہیں کہ اصلاح احوال کی تمام تجاویز کو حکومت نے مضحکہ خیز اور بے قرار دے کر مسترد کردیا ۔ مئی 1991ء میں چار سو افراد جن میں علما، تاجر ،ریٹائرڈفوجی حکام ، ماہرین تعلیم اور دانشوروں کی طرف سے شاہ فہد کو ایک خط ارسال کیا گیا تھا جس میں نا انصافی کے خاتمے کی درخواست کی گئی تھی مگر اس خط کو نظر انداز کر دیا گیا ۔
اسامہ بن لادن نے 1994ء میں بادشاہ کو پیش کی جانے والی ایک اہم یاد داشت کا بھی ذکر کیا ہے جس میں مسائل کی تشخیص اور اس کا سائنسی پیش کیا گیا تھا ۔ مگر اس رپورٹ کو بھی مستر د کر دیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ
''اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ اصلاح کے علمبردار پُر امن ذرائع کے استعمال میں بے حد سنجید ہ تھے تا کہ ملک کا اتحاد قائم رہے او رخون ریز ی کا خاتمہ ہو ۔ پھر ایسا کیوں کہ تمام پُر امن راستے بند کر دیے ہیں اور لوگو ں کو مسلح جدوجہد کی طرف دھکیل دیا ہے ۔(یہ غور طلب بات ہے کہ یہاں امریکہ کی بجائے سعودی حکومت کو الزام دیا جا رہا ہے کہ اُس نے اُنہیں مسلح جدوجہد کی طرف دھکیل دیا )
اب یہ واحد راستہ ہے جو بچ گیا ہے تا کہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔'' پھر وہ کہتے ہیں کہ امریکی اسرائیل اتحاد کو خواہش ہے کہ سعودی عر ب کے شہر ی اور فوج آپس میں لڑیں ، مگر عوام ان کے اس شیطانی منصوبے سے با خبر ہیں جو اپنے ایجنٹوں ( سعودی حکمران) کے ذریعے یہاں پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتے ہیں ۔ بالآ خر وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں :
''اس لیے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس صورتِ حال کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک وہ اس مسئلے کی اصل جڑنہ کاٹ دی جائے ۔ اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ اصل دشمن
(یعنی صلیبی ۔ صہیونی اتحاد/Crusader Alliance The Zoinist) پرضرب کاری لگائی جائے جس نے گذشتہ کئی دہائیوں سے اُمت کو چھوٹے بڑے ملکوں میں تقسیم کر کے انتشار پھیلا رکھا ہے ۔''
مندرجہ بالا سطور اس خطبے کا Climax (نقظۂ عروج ) ہیں ۔ اس کے بعد مختلف حوالہ جات کے ذریعے انہوں نے امریکہ کےخلاف اس اعلان ِ جنگ کو جواز عطا کرنے کے لیے دلائل کی بھر مار کی ہے ۔ دلائل کا رنگ عقل سے زیادہ جذباتی ہے۔
اپنی رائے کو بظاہر ' علمی اور شرعی 'جواز عطا کرنے کے لیے علامہ ابن تیمیہ کے ایک قول اور فتویٰ کو تائید دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ اسامہ بن لادن کے خطاب کا یہ حصہ اصل الفاظ میں درج کیا جاتا ہے :
''ان سارے سوالات کا جواب یہ ہے کہ ہم وہ راستہ اختیار کریں جس کا اہل علم نےفیصلہ کیا (علامہ تقی الدین ابن تیمیہ تیرہویں صدی عیسوی کے نابغہ عصر تھے۔ انہوں نے تاتاریوں کے خلاف اسلامی لشکر کے ساتھ مل کر جہاد کیا ۔ انہوں نے بے شمار موضوعات پر 400 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں ۔ بعض صاحبانِ علم انہیں تاریخ اسلام کا سب سے بڑا مجدد قرار دیتے ہیں ۔ عالم عرب میں حنابلہ اور سلفی تحریکیں ان کے افکار سے متاثر ہیں ، بالخصوص سعودی عرب میں ان کی وہی حیثیت اور مقام حاصل ہے جو احناف کے ہاں امام ابوحنیفہ کو حاصل ہے ۔ انہوں نے تاتاری فتنے کو 'کفر عظیم ' قرار دیا ۔ القاعدہ کی طرف سے علامہ ابن تیمیہ کی مندرجہ بالا رائے سے استنباط قیاس مع الفارق کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ، ورنہ ان کا مقصد یہ نہیں تھا جو سمجھتا گیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے تو مسلمانوں کو 'اسلامی فوج' میں شامل ہو کر 'کفرکبیر' کا مقابلہ کرنے کے لیے ترغیب دی تھی ۔)
مثلاًابن تیمیہ نے فرمایا : ''اہل اسلام کو فوج میں شامل ہونا چاہیے اور اس 'کفر عظیم' سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک دوسر کی مدد کرنی چاہیے جو مسلمانوں کے ممالک پر قبضہ کئے ہوئے ہے ۔ اگر اس بڑے کفر سے چھٹکارہ پانے کے لیے کچھ نقصان بھی برداشت کرنا پڑے تو کر لینا چاہیے ۔''
اس کے بعد اسامہ بن لادن مسلمانوں کو ان کے اہم ترین فرض کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
''اگر ایک سے زیادہ فرائض کو ادا کرنے کا معاملہ ہو اہم ترین فرض کو ترجیح دینی چاہیے ۔ یہ بات واضح ہے کہ ایمان کے بعد کوئی دوسرا فرض اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ امریکی دشمن کو ارضِ مقدس سے نکال باہر کرنا اہم ہے۔
سوائے ایمان کے تحفظ کے کسی دوسرے فرض کو اس پر فوقیت نہیں دی جا سکتی ۔''
ابن تیمیہ نے فرمایا:
'' مذہب اور ایمان کے تحفظ کے لئے جہاد کرنا مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ ہے ، ایمان کے بعد دوسراکوئی بھی فرض اس سے زیادہ اہم نہیں ہے کہ اس دشمن کے خلاف جہاد کیا جائے جو مسلمانوں کی جان اور ان کے مذہب کو خطرات لاحق کرتا ہے اس فرض کی ادائیگی کے لیے کوئی پیشگی شرط نہیں ہے ۔ دشمن کے خلاف پوری قوت سے لڑنا چاہیئے ۔''(فتاویٰ ابن تیمیہ )
ایک اور جگہ ابن تیمیہ تا تاریوں کے حوالے سے فرماتے ہیں :
''خدا کی رضا کے حصول ،اعلائے کلمۃالحق ، اس کے مذہب کو استحکام دینے اور اس کے محبوب پیغمبراکرم ﷺ کی اطاعت کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کا تقاضا ہے کہ دشمن کا مقابلہ کیا جائے ۔ ہر اعتبار سے اور مکمل طور اگر مذہب ِ اسلام کو لاحق خطرہ ، دشمن کے خلاف نہ لڑنے کی نسبت لڑنے کی صورت میں زیادہ ہے ، تب بھی یہ ان کا فرض ہے کہ دشمن سے لڑیں ، اگرچہ بعض لڑنے والوں کی نیت بھی خالص نہ ہو ۔
دوخطرات میں سے بڑے خطرے کو ٹالنا اسلام کے اُصولوں میں شامل ہے جس پر عمل کرنا چاہیے ۔'' (مجموع الفتاویٰ)
اُسامہ بن لادن نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کوخبر دار کیا ہے کہ وہ آپس میں نہ لڑیں کیونکہ اس طرح مسلمانوں کی افرادی قوت اور ان کے مالی وسائل تباہ ہو جائیں گے جس کا نتیجہ مسلم معاشرہ میں انتشار اور فساد کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اندورنی جنگ بہت بڑی غلطی ہے ، خواہ
اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں ۔ ان جنگوں کے نتیجے کو طور پر قابض امریکی افواج بین الاقوامی کفر فائدہ اٹھائے گا۔(تحریک طالبان پاکستان کو اسامہ بن لادن کی اس ہدایت پر غور کرنا چاہیے ۔)
اُنہوں نے ایک دفعہ پھر خبر دار کیا کہ
''خلیج کی ریاستوں میں صلیبی امریکی فوج کی موجودگی دنیا کے تیل کے سب سے بڑےذخائر کے لیے سنگین خطرہ ہے ۔''
اُنہوں نے مسلمان مجاہدین کوہدایت کی کہ '' وہ مسلمانوں کی اس دولت کی حفاظت کریں ۔ یہ ایک عظیم اسلامی دولت ہے جو انشاءاللہ عنقریب قائم ہونے والی اسلامی ریاست (گویا ان کے ذہن میں اسلامی ریاست کا قیام بھی تھا ۔ شاید وہ اسی مقصد کے حصول کے لیے عرب حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے ۔)
کے لیے اقتصادی طاقت فراہم کرےگی ۔''
اس کے بعد فوج اور سکیورٹی فورسز کے 'بھائیوں ' کی طرف ان کا روئے سخن ہوتا ہے ۔ یہاں اسامہ بن لادن کا انداز خطاب بے حد ولولہ انگیز ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے قدیم عرب قبائل کا کوئی سردار کسی مخالف قبیلے سے جنگ کرنے کے لیے قبیلے کے نوجوانوں کے جنگ کا جوش دلارہا ہو ۔ وہ یوں خطاب کرتے ہیں :
'' اے دین و ایمان کے محافظو!اے اپنے عظیم اسلاف کے فرزندو! وہ اسلاف جنہوں نے ہدایت کا نور پوری دنیا تک پہنچایا ، اے سعد بن ابی وقاص اور ان کے عظیم رفقا کے بیٹو!
اے مجاہدین اسلام کے روحانی فرزندو!تم نے تو فوج میں اسی لئے شمولیت کی تھی تا کہ تم اللہ کے راستے میں جہاد کرو اور حرمین شریفین کی مقدس سر زمین کو صلیبیوں سے محفوظ رکھو، مگر حکومت نے ان اصولوں کو تبدیل کر دیا ہے ۔ صلیبیوں کو حرمین شریفین کی ارض مقدس پر قبضے کی اجازت دے دی گئی ہے ۔
اس ارض مقدس کے سینے پر امریکی اڈے بنا دئیے گئے تمہیں تو معلوم ہے کہ ان امریکی افواج کا تخم کتنا ہے ، ان کے ارادے کیا ہیں اور ام کی مودگی میں سے کتنا خطرہ ہے ۔''
اس کے علاوہ 1998ء میں بھی اسامہ بن لادن نے ایک فتویٰ صادر کیا جس میں ایک دفعہ پھر امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کیا گیا ۔ طوالت کی بنا پر اس کا ذکر مؤخر کیا جاتا ہے ۔
امریکہ کے خلاف جہادی حکمتِ عملی کا ناقدانہ جائزہ
آج جب کہ اُسامہ بن لادن اس دنیا میں نہیں رہے او رالقاعدہ کی قیادت کی اہم اراکین گرفتار کر لئے گئے ہی ں یا امریکی افواج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور ایمن الظواہر ی جیسے جو چند راہنما ابھی زندہ ہیں ، وہ بھی خفیہ ٹھکانوں میں قیام پذیر ہیں ، ضروری معلوم ہوتا ہے انقلابی جہادیوں کے اس استعمار مخالف گروہ کے مشن اور حکمتِ عملی کے ناقدانہ جائزہ لیا جائے ۔
ہمارے خیال میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی قیادت کے مشن کے جواز کو کسی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ اگر ان کا مشن یہ تھا کہ امریکی افواج کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے واپس جانے پر مجبور کیا جائے اور انہیں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو اس سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے گامگر ان مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے جس مسلح جدوجہد کو بطور حکمتِ عملی کے مخالف ہو گئے ہیں جو کبھی امریکہ مخالف جذبات سے مغلوب ہو کر اسے درست سمجھتے تھے ۔ ہمارے خیال میں انقلابی جہادیوں کی امریکہ مخالف جدوجہد کی ناکامی کے نمایاں اسباب درج ذیل ہیں :
(1)امریکہ کے خلاف عسکری حملوں کی حکمتِ عملی غیر دانش مند اور غیر حکیمانہ تھی ۔ ان کے پاس نہ مطلوبہ قوت تھی او رنہ ہی حربی وسائل کی فراہمی کا کوئی معقول بندوبست تھا۔
یمن کے سمندر ی حدود میں کھڑے امریکی بحری حہاز یو ایسا یس کول پر ایک دخانی کشتی سے اچانک حملہ کرنا مشکل ہے نہ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر حملہ کر دوچار مسلح افراد کو ہلاک کرنا کوئی بڑا کار نامہ کہا جا سکتا ہے ۔ اصل بات ان چھوٹے چھوٹے اشتعال انگیز واقعات کے مضمرات اور نتائج ہیں جن کو وہ ذہن میں رکھتے تو شاید ان اقدامات سے گریز کرتے ۔ جوش جہاد میں وہ مستقبل میں پیش آنے والے ہولناک مناظر کز چشم تصور میں لانے سے بالکل قاصر رہے ۔
(2) فرض کیجئے القاعدہ نے 11۔9 کو امریکی سر زمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی ۔ اگر ان کا خیال یہ تھا کہ وہ امریکہ کی معاشی طاقت ورلڈٹریڈ سنٹر اور عسکری قوت کے مرکز پینٹا گون کو نقصان پہچا کر امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ سے نکلنے پر مجبور کر دیں گے تواِسے نرم ترین الفاظ میں ان کی عاقبت نا اندیشی کہنا چاہیے ۔ معلوم ہوتا کہ وہ سپر پاور اور طاقتور ریاست کی اجتماعی نفسیات او راس کے ممکنہ رد عمل کے متعلق کوئی ادراک نہیں رکھتے ۔ ایک علاقے کا جاگیر دار ہو ، یا عسکری طاقت کے نشہ میں سر شار امریکہ جیسی سپر پاور ، طاقت کبھی ہار نہیں مانتی او راس طرح کے اچانک حملوں کا جواب کئی گنا بڑے جوابی حملوں سے دیا کرتی ہے ۔
یہ بات تو ایک معمولی فہم کا آدمی بھی سمجھ سکتا ہے مگر القاعدہ کی قیادت 'طاقت کی نفسیات ' سے بالکل بے بہر ہ نظر آتی ہے ۔ 11۔9 کے بارے میں دوسر ی اہم بات یہ ہے کہ اس میں انسانی جانوں کی ہلاکت نے ایک جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ جو لوگ امریکہ کی خارجہ پالیسی سے سخت اختلاف بھی رکھتے تھے ، انہوں نے بھی اس اقدام کو انسانیت کے خلاف ہولناک جرم قرار دیا ۔ امریکہ نے اس جذباتی فضا کو افغانستان میں حملہ کے لئے بے حد ہنر مندی سے استعمال کیا ۔ ان کے ذرائع ابلاغ نے صرف امریکی قوم میں شدید انتقام اور خوف کے جذبات کو بھڑکایا بلکہ پوری دنیا میں امریکہ سے ہمدردی کے جذبات بھی پید ا کئے ۔ بلا شبہ یہ ایک عدیم النظیر اور لرزہ خیز واردات تھی جس نے پوری دنیا کو اعصاب زدگی سے دوچار کر دیا ۔
(3)انتہا پسند انقلابی جہادی گروہ امریکہ میں نو قد امت پسندوں کو صورت میں بڑھتی ہوئی مسیحی انتہا پسندی کا بالکل اندازہ نہ کر سکے ۔ 'تہدیبوں کے تصادم ' کے فلسفے سے پرورش پانے والی زہر یلی ذہنیت کو انہوں نے سنجیدہ مطالعے کا موضوع کبھی نا بتایا ۔ ان کی بد قسمتی تھی کہ جس وقت 11۔9کا واقعہ پیش آیا ، اس وقت جارج ڈبلیوبش کی صدارت میں بشارتی مسیحی اور نو قد امت پسند اقتدار پر قابض تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے دل میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی تھی ۔ یہ مسلمانوں کے تیل کے ذخائر اور معدنی و سائل پر قبضے کے منصوبے بنائے ہوئے تھے ، اگر ڈیموکریٹس اقتدار میں ہوتے تو شاید القاعدہ کو تباہ کرنے کے لئے افغانستان پر حملہ نہ کرتے یا کن ازکم اس فوجی یلغار کوقدر طول نہ دیتے ۔ جارج ڈبلیوبش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ 'کو' کروسیڈ'
(Crusade) کا نام دیا ۔ یہ لفظ ان کی زبان سے انجانے میں نہیں نکلا تھا ۔ انہوں نے اپنے دورِ اقدار میں جس مذہبی جوش و خروش سے اس جنگ کو پھیلایا ، بلا شبہ اِسے 'کروسیڈ' سمجھ کرہی آگے بڑھا رہے تھے ۔
(4)اسامہ بن لادن اور دیگر جہادی انقلابیوں کی ایک بہت بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ ساتھ عرب کے مسلمان حکمران کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ۔ انہوں نے نے ان حکمرانوں کو نہ صرف امریکہ کے پھٹو قرار دیا بلکہ ان کے خلاف ارتداد کے فتاویٰ بھی جار ی کئے ۔
اس تکفیری مہم میں حتی کہ خادم الحرمین الشریفین کو بھی نہ بخشا گیا ۔ سعودی عرب کے جید علماءِ ان کے ایسے خیالات کو شراور فساد پر مبنی قرار دیا اور بعض اکابر علماء نے انہیں دور حاضر کے خوارج قرار دے دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابی جہادیوں کو سعودی عرب اور دیگر عر ب ریاستوں میں کوئی خاطرخواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ وہ حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مسلم عوام کی ہمدردی اور حمایت سے بھی محروم ہوگئے ۔ اس شر انگیزی کا نتیجہ تھا 1994ء میں سعودی عرب کی حکومت نے اسامہ بن لادن کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور اس خامیوں کی کڑی نگرانی شروع کردی ۔