غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
غضب کی تعریف
یہ غضب، یغضب غضباً سے مصدر ہے ۔ کہا جاتا ہے رجل غضبان اور امرأة غضبي۔(لیکچرار ایف جی پوسٹ گریجویٹ کالج ، راولپنڈی کینٹ.. سکالر پی ایچ ڈی، جامعہ کراچی)
یہ رضا کی ضد ہے۔ (لسان العرب:5۔3662)
مطلقاً یہ غصہ اور اشتعال کے لے بولا جاتا ہے ۔
جرجانی کہتے ہیں :
الغضب تغير يحصل عند غليان دم القلب ليحصل عنه التشفي للصدر (التعریفات : ص 162)
''دل کے خون کے کھولنے کی وجہ سے جو تغیر ہوتا ہے اس کو غضب کہتے ہیں تا کہ دل کو تسلی ہو سکے ۔''
غصے کی حالتیں
غصے کی تین حالتیں کا تذکرہ کیا گیا ہے :
(1)یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اور جو وہ کہہ رہا ہو، ا س کوبخوبی جانتا ہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہو جائے گی اور وہ اپنے اَقوال کا مکلف ہو گا۔
(جامع العلوم و الحکم :ص 148)
(2)ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
حافظ ابن قیم الجوزیہ فرماتے ہیں :
وذلك أنه يعلم صدور الطلاق منه فهو شبه ما يكون بالنائم والمجنون و نحوهم
( إغاثة اللهفان في حكم طلاق الغضبان:ص39)
'' چونکہ وہ طلاق کے صدور کے متعلق نہیں جانتا ہوتا لہذا وہ بھی سوئے ہوئے اور پاگل وغیرہ کے مشابہ تصور ہو گا ۔''
(3)غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھے۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کی تنقید اور عدم تنقید میں علما کے مابین اختلاف ہے ۔
غصّے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم
غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کے بارے میں دو قسم کی آرا ہیں :
(1)اَحناف اور بعض حنابلہ کا موقف ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار نہیں ہو گی ۔ (حاشیہ ابن عابدین:2۔427)
(2) مالکیہ اور حنابلہ کا خیال ہے کہ غصے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی اور اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔(حاشیہ الشرح الکبیر:2۔366)
فریق اوّل کے دلائل
احناف اور ان کے مؤیدین نے درج ذیل اَدلہ سے استدلال کیا ہے :
(1)حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« لا طلاق ولا عتاق في إغلاق»(سنن ابوداؤد: 2193)
'' زبر دستی طلاق اور آزادی نہیں ہے ''
اور زبر دستی غصے کو بھی شامل ہے ، کیونکہ اس رائے پر بندش لگ جاتی ہے ۔
فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغوِ فى أَيمـٰنِكُم...﴿
٢٢٥﴾... سورة البقرة
'' اللہ تعالیٰ تمہیں ان قسموں پر نہ پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ''
عبداللہ بن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
لغو اليمين أن تحلف و أنت غضبان
(بیہقی:2۔450)
''لغو قسم یہ ہے کہ آپ غصے کی حالت میں قسم اٹھائیں ۔''
اسی پر قیاس کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی طلاق شمار نہیں کیا جائیگا ۔(طلاق الغضبان:ص32)
(3)فرمانِ الٰہی ہے :
﴿وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ﴿٢٠٠﴾... سورة الاعراف''اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیجئے ۔''
متکلم شدید غصے کی حالت میں شیطان کے بہکانے سے طلاق یا اسطرح کے دیگر الفاظ غیرارادی طور پر بول دیتا ہے لہذا ایسی حالت میں اسپر طلاق کے احکام مترتب نہیں ہوں گے ۔(طلاقالغضبان:ص35)
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا :( إن الغضب من الشيطان)
(سنن ابوداؤد:4748 )
'' غصہ شیطان کی طرف سے ہے ''
(4)عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
« لا نذر في غضب و كفارته كفارة يمين»(سنن نسائی:3842 )
'' غصے کی حالت میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے ۔''
اللہ تعالیٰ نے اپنی نظروں کو پورا کرنے والوں کی تعریف کی ہے ۔ تو جب حالتِ غضب میں مانی گئی نذر میں رخصت موجود ہے تو طلاق میں یہ رخصت کیوں باقی نہ رکھی جائے ۔( طلاق الغضبان:ص41)
(5)حدیثِ ابوبکرہ :
« لا يقض القاض بين اثنين وهو غضبان»(سنن ابن ماجه : 2316)
''قاضی غصے کی حالت میں دو لوگو ں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۔''
اس کی وجہ یہ ہے کہ غصہ علم و ارادہ پراثر انداز ہوتا ہے اور درُست فیصلہ کرنے میں مانع ہوتا ہے تو ایسی حالت میں دی گئی طلاق بھی معتبر نہیں ہوگی ۔( طلاق الغضبان:ص43)
(6)نشہ ایک سبب ہے جو طلاق کے عدم و قوع پر دلالت کرتا ہے ، کیونکہ متکلم کا طلاق دینے کا ارادہ نہیں ہوتا ۔ یاد رہے کہ غصے کی حالت نشے سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ۔(طلاق الغضبان:ص45)
مذکورہ دلائل کا جائزہ
(1)اس سلسلہ میں حضرت عائشہ کی بیان کردہ حدیث اس نزاع سے خارج ہے ، کیونکہ اس سے مراد زبردستی ہے اور زبردستی محض غصے کا نام نہیں ہے ۔ امام ابن قیم فرماتے ہیں :
« الغلاق انسدادباب العلم والقصد عليه»(تہذیب السنن : 6۔187)
''غلاق علم وارادہ کے دروازہ کو بند کرتا ہے ۔''
لہذا یہ غصے کی دوسری حالت کو شامل ہے جس میں بالاتفاق طلاق واقع نہیں ہوتی ۔
(2)حضرت ابن عباس ؓ کی طرف منسوب تفسیر صحیح نہیں ہے۔
ابن رجب فرماتے ہیں : لا يصح إسناده (جامع العلوم والحکم :ص149)
''اس کی سند صحیح نہین ہے ''
ابن اسی آیت کی تفسیر میں آپ سے دیگر اقوال بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ جیسا کہ ابن ابی حاتم نے تفسیر ابن کثیر(1۔268)
میں سعید بن جبیرکے طریق سے بیان کیا ہے کہ ''لغو قسم وہ ہے جس میں آپ ایسی چیز کو حرام قرار دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہو۔''
ابن رجب فرماتے ہیں:
صح عن غير واحد من الصحابة أنهم أفتوا أن يمين الغضبان منعقدة و فيها الكفارة (جامع العلوم والحكم:ص149)
''دیگر بہت سے صحابہ کرام نے فتویٰ دیا کہ غصے کی حالت میں اُٹھائی گئی قسم کا انعقاد ہو گا اور اس ( کو پورا نہ کرنے ) پر کفارہ ہوگا ۔''
(3)یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں انسان شیطان کے اُکسانے پر بول رہا ہوتا ہے ۔ لہذا اس پر حکم مرتب نہ ہوگا ۔ تو ایسا کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے ، کیونکہ زیادہ تر گنا ہوں اور بُرائیوں کا ظہور تو شیطان کی اکساہٹ اور وساوس ہی کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ پھر اس کا مطب تو ہے کہ شیطان کے اکسانےپر کیے جانے والے کسی بھی عمل پر احکام مرتب نہ کیے جائیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سر اسر خام خیالی ہے !
(4) حضرت عمران بن حصین کی بیان کر دہ حدیث ضعیف ہے ۔
(5) '' ابوبکرہ ؓ کی حدیث میں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے قاضی کو حالت غصہ میں فیصلہ نہ کرنے کا پابند کیا ہے جس سے قاضی خود غصے کی حالت میں بھی مکلف ہی ٹھہرتا ہے اور یہ حدیث قاضی کے مکلف ہونے کی دلیل ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ قاضی نے اپنے علاوہ کسی اور کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور یہ طلاق کے مشابہ نہیں ہو سکتا ، کیونکہ طلاق تو اس کا صیغہ بولنے والے کے لیے خاص ہے اور وہ اس وقت اپنا فیصلہ خود کر رہا ہوتا ہے ، نہ کہ دوسرے کا ۔ ''
(6) اس حالت کو نشہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔ کیونکہ نشہ میں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور اسے پتہ نہیں ہوتا وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ اور یہ غصہ کی دوسری حالت کو شامل ہے ۔ ایسی حالت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقرَبُوا الصَّلوٰةَ وَأَنتُم سُكـٰرىٰ حَتّىٰ تَعلَموا ما تَقولونَ...﴿
٤٣﴾... سورةالنساء
''اے ایمان والو! جب تم نشہ میں مست ہو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ ۔ جب تک کہ اپنی بات سمجھتے نہ لگو۔''
فریق ثانی کے دلائل
مالکیہ اور حنابلہ نے درج ذیل دلائل کو سامنے رکھا ہے :
(1)خولہ بنت ثعلبہ اوس ثابت کی اہلیہ تھیں ، ایک روز اُن دونوں میں جھگڑا ہوگیا تو اوس بن ثابت نےغصے سے ظہار کر ڈالا ۔ حضرت خولہ پریشانی کے عالم میں حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں – پھر رسول اللہ ﷺ ان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا ۔
(سنن ابن ماجہ : 2063)
(2) اوس بن ثابت نے غصّے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا اور طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے ۔(جامع العلوم : ص149)
علامہ ابن رجب فرماتے ہیں :
''اوس بن ثابت نے غصّے کی حالت میں ظہار کیا تھا اور رسول اللہ ﷺ اس وقت ظہار کو طلاق شمار کرتے تھے اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا ۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپ ﷺ نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا ۔''(ص:149)
ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا جاتا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے اور اس سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے ۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو محمول کیا جائے ۔ اس میں اگرچہ غصہ تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی ، اجماعِ امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہا کو پہنچ جاتا ہے ۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔
(3)مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا:
'' مجھ میں اتنی جرت نہیں ہے کہ تیرے لیےوہ حلال کر دوں جو اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔''(دارقطنی:4۔13)
(4)حسن بصری کا قول ہے : سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ آدمی طہر کی حالت میں ایک طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو ۔ ایسی صورت میں اس کے بعد تیسرے حیض تک اسے اختیار حاصل ہو گا کہ وہ رجوع کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے ۔ اگر آدمی نے غصے میں طلاق دی ہے تو تین حیض یا تین مہینے میں اس کا غصہ کا فور ہو سکتا ہے ۔ (جامع العلوم والحکم :ص 149)
(5)قاعدہ فقہیہ ہے :
دلا الأحوال تختلف بها دلالة الأقوال في قبول دعوى ما يوافقها وردّما يخالفها وتترتب عليها الأحكام بمجردها
(القواعد لابن رجب:ص 322)
''دعویٰ کو قبول و ردّ کرنے سلسلے میں احوال کی حالت سے اقوال کی دلالت مختلف ہو جاتی ہے ۔ احوال پر احکام مرتب ہوں گے چاہے اقوال احوال کے مخالف ہوں یا موافق ..''
ابن رجب فرماتے ہیں : اس قاعدے سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑائی جھگڑے اور غصّے کی حالت میں دی گئی طلاق شمار ہوگئی او ر کسی کا یہ دعویٰ کہ طلاق کا ارادہ نہ تھا ، قابل قبول ہو گا ۔
مغنی لابن قدامہ میں ہے :
والغضب هٰهنايدل علىٰ قصد الطلاق فيقوم مقامه(8۔450)
''یہاں پر غصہ ارادہ طلاق پر دلالت کرتا ہے ، لہذا اس کو اس کے مقام پر محمول کیا جائے گا ۔''
راجح موقف
سابقہ مبحث سے انداز ہوتا ہے کہ مالکیہ ، حنابلہ اور ان کے مؤیدین کا موقف راجح ہے ،کہ غصّہ کی حالت میں طلاق کا وقوع ہو جائے گا اور اس کی ترجیح اِن اُمور کی وجہ سے ہے :
(1)دلائل کو قوت
( 2)مسئلے پرمکمل گرفت اور وضاحت
(3)مخالفین کے دلائل کا ضعف
(4)قاعدہ ہے :
أن الأصل في الأبضاع التحريم فالواجب التثبت في أمرها والتنبه لها
'' یعنی شرمگاہوں میں اصل تحریم ہے لہذا اس معاملہ میں پور ی تحقیق اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے ۔''
خلاصہ
فقہا ، محدثین ، مفسرین اور اُصولیین کی آ را کو نقل کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
(1)زبر دستی کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہو گی ۔
(2)اور ایسے غصے کی حالت میں طلاق جس میں انسان اپنے ہوش و حواس میں ہوتا ہے طلاق واقع ہو جائے ہوگی۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ بعض نا گزیر وجوہات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نےطلاق کو حلال قرار دیا ہے ، اسے دیگر اُمور کے لیے سیڑھی کے طور پر استعمال کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض جہلاتربیت اور ڈرانے دھمکانے کے نام پر اس کا ناجائز استعمال کرتے ہیں ۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق بنانے کے سوا کچھ نہیں !