الوہیتِ مسیح () کا مسیحی عقیدہ
قرآن ،اناجیل اور عقل کی روشنی میں
عقیدہ اُلوہیت و ابنیتِ مسیح اور قرآن مجید
1. عیسائی جہاں سیدنا عیسیٰکے ابن اللّٰہ ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں، وہاں انہیں تثلیث کا ایک جز بھی مانتے ہیں جبکہ قرآن مجید اس کی کھلے الفاظ میں تردیدکرتاہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَقَد كَفَرَ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ ثالِثُ ثَلـٰثَةٍ وَما مِن إِلـٰهٍ إِلّا إِلـٰهٌ وٰحِدٌ وَإِن لَم يَنتَهوا عَمّا يَقولونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذينَ كَفَروا مِنهُم عَذابٌ أَليمٌ ﴿
٧٣﴾... سورة المائدة
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوچکے جنہوں نے کہا کہ ’’اللّٰہ تین میں کا تیسرا ہے۔‘‘حالانکہ الٰہ تو صرف وہی اکیلا ہے اور اگر یہ لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو کافر رہے انہیں دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔‘‘
دوسرے مقام پر اللّٰہ اور مسیح کے ما بین اتحاد و حلول کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لَقَد كَفَرَ الَّذينَ قالوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ المَسيحُ ابنُ مَريَمَ قُل فَمَن يَملِكُ مِنَ اللَّهِ شَيـًٔا إِن أَرادَ أَن يُهلِكَ المَسيحَ ابنَ مَريَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِى الأَرضِ جَميعًا وَلِلَّهِ مُلكُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَما بَينَهُما يَخلُقُ ما يَشاءُ وَاللَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَىءٍ قَديرٌ ﴿
١٧﴾... سورة المائدة
’’یقیناً وہ لوگ کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ ’’مسیح ابن مریم ہی اللّٰہ ہے۔‘‘آپ ان سے پوچھئے کہ : اگر اللّٰہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو اور اس کی والدہ کو اور جو کچھ بھی زمین میں ہے، ان سب کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ وہ اللّٰہ کو اس کے ارادہ سے روک سکے؟‘‘ اور جو کچھ آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان ہے ،سب اللّٰہ ہی کی ملکیت ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے ،اور اللّٰہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘
2. ان کے ابن اللّٰہ ہونے کی قرآن کریم نے یوں نفی کی، فرمایا:
﴿وَقالُوا اتَّخَذَ الرَّحمـٰنُ وَلَدًا ﴿
٨٨﴾ لَقَد جِئتُم شَيـًٔا إِدًّا ﴿
٨٩﴾ تَكادُ السَّمـٰوٰتُ يَتَفَطَّرنَ مِنهُ وَتَنشَقُّ الأَرضُ وَتَخِرُّ الجِبالُ هَدًّا ﴿
٩٠﴾ أَن دَعَوا لِلرَّحمـٰنِ وَلَدًا ﴿
٩١﴾ وَما يَنبَغى لِلرَّحمـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿
٩٢﴾... سورة مريم
’’اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بری بات تم گھڑ لائے ہو ۔ جس سے ابھی آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ دھڑام سے گر پڑیں ۔ اس بات پر انہوں نے رحمٰن کے لئے اولاد کا دعویٰ کیا حالانکہ رحمٰن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔‘‘
قرآن نے مزید کہا ہے:
﴿ما كانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِن وَلَدٍ سُبحـٰنَهُ إِذا قَضىٰ أَمرًا فَإِنَّما يَقولُ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿
٣٥﴾... سورة مريم
’’اللّٰہ تعالیٰ کو یہ شایاں نہیں کہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے وہ (ایسی باتوں سے) پاک ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس یہ کہہ دیتا ہے کہ ’ہوجا‘تو وہ ہوجاتی ہے۔‘‘
3. اور سیدنا مسیح کی بغیر باپ کے معجزانہ پیدائش کو اُلوہیتِ مسیح کی دلیل سمجھنے والوں کا یوں ردّ کیا کہ اس طرح تو اللّٰہ تعالیٰ نے جناب آدم کو بغیر ماں اور باپ کے اور حوا علیہا السلام کو آدم سے بغیر ماں کے پیدا کیا ہے۔ دراصل وہ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اسےكُنْ (ہوجا )کہتا ہے تو وہ فَيَكُوْنُ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے:
﴿إِنَّ مَثَلَ عيسىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ ءادَمَ خَلَقَهُ مِن تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُن فَيَكونُ ﴿
٥٩﴾... سورة آل عمران
’’بلاشبہ اللّٰہ کے ہاں عیسیٰ کی مثال آدم جیسی ہے جسے اللّٰہ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے حکم دیا کہ ’ہوجا‘تو وہ ہوگیا۔‘‘
یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے واضح کیا ہے کہ آدم کو مٹی سے پیدا کر دیا حالانکہ انسانی بدن سے اس کا ظاہری لحاظ سے کوئی تعلق نہیں تو کیا وہ ایک عورت سے بچہ پیدا نہیں کر سکتا جس کا بدن بھی انسانی ہے ؟
4. ایسے ہی اُلوہیت مسیح اور اُلوہیتِ مریم کی تردید ان الفاظ میں کر کے ان دونوں کو اس سے
برئ الذمہ قرار دیا ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ وَإِذ قالَ اللَّهُ يـٰعيسَى ابنَ مَريَمَ ءَأَنتَ قُلتَ لِلنّاسِ اتَّخِذونى وَأُمِّىَ إِلـٰهَينِ مِن دونِ اللَّهِ قالَ سُبحـٰنَكَ ما يَكونُ لى أَن أَقولَ ما لَيسَ لى بِحَقٍّ إِن كُنتُ قُلتُهُ فَقَد عَلِمتَهُ تَعلَمُ ما فى نَفسى وَلا أَعلَمُ ما فى نَفسِكَ إِنَّكَ أَنتَ عَلّـٰمُ الغُيوبِ ﴿١١٦﴾... سورة المائدة
’’ غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللّٰہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنا لو؟" تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللّٰہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے نفس میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں۔‘‘
جناب عیسیٰ نے اپنی قوم کا رویّہ دیکھ کر ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے رفع إلى السماء کے بعد والے حالات کو اللّٰہ تعالیٰ کے سپرد کیا ہے ۔اللّٰہ تعالی نے مزید فرمایا:
﴿فَلَمّا أَحَسَّ عيسىٰ مِنهُمُ الكُفرَ قالَ مَن أَنصارى إِلَى اللَّهِ قالَ الحَوارِيّونَ نَحنُ أَنصارُ اللَّهِ ءامَنّا بِاللَّهِ وَاشهَد بِأَنّا مُسلِمونَ ﴿
٥٢﴾رَبَّنا ءامَنّا بِما أَنزَلتَ وَاتَّبَعنَا الرَّسولَ فَاكتُبنا مَعَ الشّـٰهِدينَ ﴿
٥٣﴾... سورة آل عمران
’’پھر جب عیسیٰ کو ان کے کفر و انکار کا پتہ چل گیا تو کہنے لگے : ’’کوئی ہے جو اللّٰہ (کے دین) کے لیے میری مدد کرے؟‘‘ حواری کہنے لگے : ’’ہم اللّٰہ (کے دین) کے مددگار ہیں ۔ ہم اللّٰہ پر ایمان لاتے ہیں اور گواہ رہئے کہ ہم مسلمان (اللّٰہ کے فرمانبردار) ہیں۔اے ہمارے پروردگار! جو کچھ تو نے نازل کیا ہے ہم نے اسے مان لیا اور رسول کی پیروی کی، لہٰذا ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔‘‘
اس آیت میں آنے والا آخری لفظ الشّٰهِدِيْنَ اُمتِ محمدیہ کے لیے بولا گیا ہے کیونکہ انہوں نے یہود و نصاریٰ پر حجت قائم کر کے حضرت عیسیٰ کو ان الزامات سے بری کروایا ،نیز انہیں توحیدِ باری تعالیٰ کی دعوت دے کر شرک سے دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔
5.اللّٰہ تعالیٰ نے بذات خود الوہیتِ مسیح کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ ایک انسان اور بشر تھے، اُنہیں بھی دیگر انسانوں کی طرح عوارض لاحق ہوتے تھے۔ یعنی کھاتے، پیتے اور قضاے حاجت کرتے، غم زدہ، پریشانی اور دکھ کا بھی اظہا ر کرتے تھے ۔جبکہ ایسی صفات کا حامل الٰہ اور معبود نہیں ہو سکتا ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَهُوَ يُطعِمُ وَلا يُطعَمُ...﴿
١٤﴾... سورة الانعام
’’وہ کھلاتا ہے اوراسے کوئی نہیں کھلاتا ۔‘‘
جبکہ عیسیٰ کے حوالے سے آیا ہے:
﴿مَا المَسيحُ ابنُ مَريَمَ إِلّا رَسولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدّيقَةٌ كانا يَأكُلانِ الطَّعامَ انظُر كَيفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الءايـٰتِ ثُمَّ انظُر أَنّىٰ يُؤفَكونَ ﴿
٧٥﴾... سورة المائدة
’’مسیح ابن مریم ایک رسول ہی تھے، جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے ہیں اور اس کی والدہ راست باز تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ دیکھئے ہم ان کے لیے کیسے واضح دلائل پیش کر رہے ہیں پھر یہ بھی دیکھئے کہ یہ لوگ کدھر سے بہکائے جارہے ہیں؟‘‘
جناب عیسیٰ کے متعلق اسلامی نظریہ کا خلاصہ یہی ہے جو قرآن کی زبانی یہاں بیان کیا گیا ہے، اب درج ذیل سطور میں بائبل سے ان کا انسان ہونے کے دلائل بیان کیےجاتے ہیں ۔
جناب مسیح اور بائبل
بائبل دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے کو عہدِ قدیم اور دوسرے کو عہدِ جدید کہا جاتا ہے ۔پہلا حصہ یہود اور مسیحیوں کے ہاں معتبر گردانا جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ فقط مسیحیوں کے ہاں تسلیم شدہ ہے ۔ جناب مسیح کے حالات اور ان کی تعلیم کا تذکرہ اسی دوسرے حصّہ میں ہے، لہٰذا اس کو سرسری نظر سے پڑھتے ہی عیسیٰ کی انسانیت وبشریت واضح ہو جاتی ہے :
1. انجیل متی کی ابتدا یوں ہوتی ہے : ’’یسوع مسیح ابن داود ابن ابرہام کا نسب نامہ ‘‘
[1]
2. ’’جناب مسیح کا پیدائش کے آٹھویں دن ختنہ ہوا ۔‘‘
[2]
3. ’’جناب مسیح کو پیدائش کے بعد بادشاہ قتل کرنا چاہتا تھا لیکن ان کے والدین انہیں لے کر مصر کی طرف بھاگ گئے اور جب تک وہ بادشاہ زندہ رہا، ڈر کے مارے وہیں چھپے رہے۔ ‘‘
[3]
4. ’’عام انسانوں کی طرح جسم او رعقل دونوں لحاظ سے آہستہ آہستہ بڑھنے لگے۔ ‘‘
[4]
5. ’’لوگوں کو جب تعلیم دینے لگے تو اُن کی عمر تیس برس تھی۔‘‘
[5]
6. ’’جناب مسیح کی چالیس دن تک شیطان آزمائش کرتا رہا۔‘‘
[6]
7. سفر کی وجہ سے انہیں تھکاوٹ ہو جاتی تھی اور پیاس بھی لگتی تھی ،چنانچہ اسے مٹانے کے لیے ایک مرتبہ کنویں پر بھی گئے لیکن انہیں پانی پلانے والا کوئی نہ تھا تو اُنہوں نے یہودی ہونے کے باوجود سامری
[7]عورت کو پانی پلانے کا کہا حالانکہ یہودی ان سےکوئی برتاؤ نہیں رکھتے تھے۔
[8]
8. لعزر (نامی شخص)کی موت پر جناب عیسیٰ کے آنسو بہنے لگے۔
[9] ایک مرتبہ شہر کو دیکھ کر بھی روئے۔
[10]
9. ایک مرتبہ عیسیٰ نے فرمایا: ’’اب میری جان گھبراتی ہے، پس میں کیا کہوں؟ ‘‘
[11]
10. انا جیل کے مطابق پکڑے جانے سے قبل جناب مسیح نہایت غمگین اور بے قرار تھے چنانچہ لکھا ہے :
’’اس وقت یسوع ان کے ساتھ گتسمنی نامی ایک جگہ میں آیا او ر اپنے شاگردوں سے کہا: یہیں بیٹھے رہنا جب تک کہ میں وہاں جاکر دعا کروں ۔ اور پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر غمگین اور بے قرار ہونے لگا۔ اس وقت اس نے ان سے کہا: میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے۔ تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو۔ پھر ذرا آگے بڑھا او رمنہ کے بل گر کر یوں دعا کی کہ اے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے تو بھی نہ جیسا میں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تو چاہتا ہے، ویسا ہی ہو ۔‘‘
[12]
11. واضح الفاظ میں اقرار کیا :’’ میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا، جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت درست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔‘‘
[13]
12. زندگی کے آخری دن جناب عیسیٰ نے اپنے دوبارہ آنے کے وقت سے لاعلمی کا اظہار کر کے اپنی بشریت وانسانیت دو ٹوک الفاظ میں عیاں کر دی ،فرمانے لگے :
’’لیکن اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے، نہ بیٹا مگر باپ۔‘‘
[14]
13. حضرت مسیح کے حوالے سے پولوس نے خوب لکھا ہے :
’’اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا او رخدا ترسی کے سبب سے اس کی سنی گئی۔‘‘
[15]
’’موت سے خود نہیں بچ سکتے بلکہ کوئی دوسری ذات ہے جس سے دعا کرتے تھے ۔‘‘
’’لیکن صلیب کے اوپر جان دینے لگے تو پکا رنے لگے : ایلی ایلی لما شبقتنی اے میرے خدا! اے میرے خدا! تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ ‘‘
[16]
سیدنا عیسیٰ کس سے دعا کرتے تھے ؟ کس نے دعا قبول نہیں کی او رگلے شکوے کس سے تھے ؟ کیا ایک خدا دوسرے خدا سے یہ باتیں کر رہا تھا ؟ فیا للعجب
14. جناب عیسیٰ نے سیدنا یحییٰ (یوحنا) سے بپتسمہ لیا۔
[17]
جبکہ بائبل ہی بتاتی ہے کہ یہ بپتسمہ گناہوں سے معافی کے لیے ہوتا تھا ۔
[18]
15. ایک خاتون اپنے دو بیٹوں کو لے کر جناب مسیح کی خدمت میں آئی او ردرخواست کی:
’’ میرا ایک بیٹا تیری بادشاہی میں تیرے داہنی طرف او ردوسرا بائیں طرف بیٹھے تو جناب مسیح نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا : اپنے دائیں یا بائیں کسی کو بٹھانا میرا کام نہیں مگر جن کے لیے میرے باپ کی طرف سے تیار کیا گیا، ان ہی کے لیے ہے۔ ‘‘
[19]
16. کسی نے جناب عیسیٰ کو کہا :اے نیک استاد! تو فرمانے لگے :
’’تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے ؟ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ‘‘
[20]
ایک اور انداز سے الوہیتِ مسیح کا تجزیہ
مسیحیوں کے نزدیک خدا اور مسیح یسوع( عیسیٰ) ایک ہی ہیں لہذا انہی مذکورہ حوالہ جات میں اگر لفظ یسوع اور مسیح کی جگہ’ خدا ‘ رکھ کر پڑھیں تو خدا تعالیٰ کا تصور عجیب صورت اختیا ر کر جائے گا : تجربہ شرط ہے ۔مثلاً
نعوذ باللہ خدا کا نسب نامہ، .....کا ختنہ ہوا ، خدا گھبرا گیا ،خدا تین دن تک مرا رہا ، خدا کو بھوک لگی، خدا کو قیامت کا علم نہیں ، خدا بے اختیار ہے ، خدا رو پڑا ، وغیرہ وغیرہ
خدا اور مسیح میں فرق
پچھلے حوالہ جات سے واضح ہو رہا ہے کہ جناب عیسیٰ خدا ہرگز نہیں تھے بلکہ ایک انسان او ربشر تھے عیسائیت کی معتبر کتب میں ہی مزید باتیں ملاحظہ فرمائیں جن سے ذاتِ الہ اور سیدنا عیسیٰ میں فرق واضح ہوتا ہے :
1. موجودہ مسیحیت کا اصل بانی پولوس ہے۔ اس نے کھلے الفاظ میں لکھا :
’’خدا ایک ہے اور خدا اور انسان کے بیج میں درمیانی جہت ایک یعنی مسیح یسوع جو انسان ہے۔ ‘‘
[21]
2. مسیحیوں کا نظریہ ہے کہ باپ ،بیٹا اور روح القدس تثلیث کے تین اقانیم اور اجزا ہیں ۔ باپ سے مراد اللّٰہ تعالیٰ اور بیٹے سے جناب عیسیٰ ، جبکہ روح القدس کے تعین میں اختلاف ہے۔ بہرحال اس پر سب متفق ہیں کہ یہ تینوں ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے یعنی جو باپ ہے، وہ بیٹا نہیں اور جو بیٹا ہے وہ باپ نہیں اسی طرح روح القدس ہے ۔
[22] یہ نظریہ بھی بتاتا ہے کہ خدا اور یسوع میں فرق ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پولوس نے یسوع کو خدا کے برابر نہیں بلکہ کم رتبہ دیا ہے جیسا کہ حوالہ ابھی گزرا ہے۔ پولوس کا ایک قول یہ بھی ہے :
’’ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور ہم اسی کے لیے ہیں اور ایک ہی خداوند ہے یعنی یسوع مسیح جس کے وسیلے سے سب چیزیں موجود ہوئیں اور ہم بھی اسی کے وسیلہ سے ہیں ۔ ‘‘
[23]
اگر یسوع بھی خدا یا خدا کے برابر ہوتا تو اس کا تذکرہ الگ نہ کیا جاتا اور نہ ہی اسے وسیلہ قرار دیا جاتا ۔
3. خدا کے لیے لفظ’باپ ‘ اور یسوع کے لیے لفظ ’بیٹا‘‘ بھی واضح کرتا ہے کہ دونوں میں فرق ہے ، ذات کے اعتبار سے بھی اور زمانے کے لحاظ سے بھی کیونکہ باپ پہلے اور بیٹا بعد میں ہوتا ہے ۔ اگر دونوں کی حیثیت برابر یا دونوں ایک چیز ہیں تو یہ تقدیم و تاخیر چہ معنی دارد ؟
4. انجیل یوحنا میں یوں لکھا ہے :
’’باپ بیٹے سے محبت رکھتا ہے اور اس نے سب چیزیں اس کے ہاتھ میں دے دی ہیں ۔‘‘
[24]
اگر دونوں برابر ہیں تو کون کس سے محبت رکھتا ہے اور کس نے کس کو اختیار دیا ہے ؟
5. آگے جا کر لکھا ہے :
’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا سواے اس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہے... باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے...میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو میرا کلام سنتا اور میرے بھیجنے والے کا یقین کرتا ہے... اس لیےکہ وہ آدم زاد ہے... میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا ، جیسا سنتا ہوں، عدالت کرتا ہوں اور میری عدالت راست ہے کیونکہ میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں ۔ ‘‘
[25]
6. جناب عیسیٰ کا فرمان یوں مذکور ہے :
’’کیونکہ میں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا، اسی نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ ایسا کہوں اور ایسا بولوں اور میں جانتا ہوں کہ اس کا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے پس جو کچھ میں کہتا ہوں جس طرح باپ نے مجھ سے فرمایا ہے، اسی طرح کہتا ہوں۔‘‘
[26]
7. اللّٰہ تعالیٰ کے حوالے سے لکھا ہے :
’’نہ تو خدابدی سے آزمایا جاسکتا ہے اور نہ وہ کسی کو آزماتا ہے۔‘‘
[27]
جبکہ دوسری طرف جناب مسیح کے حوالے سے پولوس لکھتا ہے :
’’وہ (مسیح یسوع ) سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا ۔‘‘
[28]
بائبل مزید صراحت کرتی ہے کہ ’’چالیس روز تک حضرت مسیح کی شیطان آزمائش کرتا رہا۔‘‘
[29]
8. خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا ۔
[30] مسیح یہودیوں سے مخاطب ہو کر اللّٰہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’تم نے نہ کبھی اس کی آواز سنی ہے اور نہ اس کی صورت دیکھی۔‘‘
[31]
جبکہ مسیح کو یہ لوگ روز دیکھتے تھے اور آواز سنتے تھے۔
9. پولوس نے لکھا :
’’وہ (یسوع مسیح )گناہوں کو دھو کر عالم با لا پر کبریا کی داہنی طرف جا بیٹھا اور فرشتوں سے اسی قدر بزرگ ہو گیا جس قدر اس نے میراث میں ان سے افضل نام پایا۔‘‘
[32]
اگر مسیح ہی خدا ہے تو پولوس کو فرشتوں سے افضل کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا خدا تعالیٰ کی افضلیت کے بارے میں کوئی شک کر سکتا ہے ؟
مزید یہ کہ وہ کس کبریا کی داہنی طرف جا بیٹھا ؟آیا کوئی شخص خود اپنی داہنی طرف بیٹھ سکتا ہے؟
انجیل مرقس میں بھی یوں لکھا ہے :
’’غرض خداوند یسوع ان سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اٹھایا گیا اور خدا کی داہنی طرف بیٹھ گیا۔‘‘
[33]
10. پولوس لکھتا ہے:
’’ہاں وہ (مسیح) کمزوری کے سبب سے مصلوب ہوا لیکن خدا کی قدرت کے سبب سے زندہ ہے۔ ‘‘
[34]
اللّٰہ تعالیٰ نہ تو کمزور ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی صلیب دے سکتا ہے ۔
11. خدا کو کسی سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر چیز تو اس کے پاس ہے ۔ جبکہ حضرت مسیح دعا مانگا کرتے تھے اور بڑی عاجزی سے۔ چنانچہ لکھا ہے : ’’وہ جنگلوں میں الگ جا کر دعا کیا کرتا تھا ۔‘‘
[35]
دوسری جگہ یوں لکھا ہے :’’پھر وہ (مسیح ) سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دل سوزی سے دعا کرنے لگا اور اس کا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا ۔‘‘
[36]
پولوس نے جناب مسیح کے متعلق کس قدر واضح لکھا ہے : ’’اس نے اپنی بشریت کے دنوں میں زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اس کو موت سے بچا سکتا تھا اور خدا ترسی کے سبب سے اس کی سنی گئی ۔‘‘
[37]
12. اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ،کوئی ذرہ بھی اس سے مخفی نہیں جبکہ حضرت مسیح کو تو یہ بھی علم نہیں کہ دوبارہ وہ دنیا میں کب آئیں گے، چنانچہ فرماتے ہیں :
’’اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے، نہ بیٹا مگر باپ ۔‘‘
[38]
13. اللّٰہ تعالیٰ نہ تو کسی کا محتاج ہے اور نہ اس کو بھوک و پیاس لگتی ہے ۔جبکہ مسیح کے حوالے سے لکھا ہے :
’’اور جب صبح کو پھر شہر کو جارہا تھا، اسے بھوک لگی او رراہ کے کنارے انجیر کا ایک درخت دیکھ کر اس کے پاس گیا او ر پتوں کے سوا اس میں کچھ نہ پاکر اس سے کہا کہ آئندہ تجھ میں کبھی پھل نہ لگے اور انجیر کا درخت اسی دم سوکھ گیا ۔‘‘
[39]
14. خدا تعالیٰ اگر سو جائے تو ظاہر ہے دنیا جہاں پر اس کا کنٹرول ختم ہو جائے گا، اس لیے نیند آنا یا اونگھنا اس کی شان کے منافی ہے ،بائبل یہی کہتی ہےجیساکہ لکھا ہے:
’’تیرا محافظ اونگھنے کا نہیں ،دیکھ اسرائیل کا محافظ نہ اونگھے گا نہ سوئے گا، خداوند تیرا محافظ ہے۔‘‘
[40]
جبکہ جناب مسیح کے متعلق آتا ہے کہ و ہ کشتی میں گدی پر سو رہے تھے اور ایسا گہرا سوئے کہ بڑی آندھی چلی ،کشتی پانی سے بھرگئی، پھر بھی بیدار نہ ہوئے، شاگردوں نے انہیں اٹھایا ۔ ‘‘
[41]
15. ہر نیکی کا مبدا اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے ،ہر خوبی اسی کے لیے سزاوار ہے جبکہ مسیح نے اپنے آپ کو نیک کہنے سے لوگوں کو منع کر دیا تھا، جیساکہ انجیل مرقس
[42] میں لکھا ہوا ہے ۔
16. ’’اللّٰہ تعالیٰ کسی کی مرضی کا پابند نہیں جو چاہے کر گزرتا ہے جبکہ مسیح کسی کی مرضی کے پابند تھے، خود اپنے چاہنے سے کچھ نہیں کر سکتے تھے، جیسا کہ پچھلے عنوان میں نمبر 11، 13، 15
17. اللّٰہ تعالیٰ کو موت نہیں اور نہ اس کی شان کے لائق ہے جبکہ مسیح تین دن تک مرے رہے اور پھر دوبارہ زندہ ہو گئے ۔
18. اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کو مصائب و پریشانی سے نجات دلاتا ہے، نہ کہ خود کسی سے اس کا طالب ہوتا ہے چنانچہ مسیح فرماتے ہیں :
’’اب میری جان گھبراتی ہے ،پس میں کیا کہوں : اے باپ مجھے اس گھڑی سے بچا ۔ ‘‘
[43]
19. اللّٰہ تعالیٰ کسی سے جھوٹا وعدہ نہیں کرتا اور نہ ہی مستقبل کے حوالے سے اس کی بتائی ہوئی بات غلط ہو سکتی ہے جبکہ بقول بائبل مسیح اس معیار پر بھی پورے نہیں اترتے ، مثالیں ملاحظہ کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ انبیا علیہم السلام چونکہ اللّٰہ تعالیٰ کے چنیدہ افراد ہوتے ہیں اور ان کی طرف وحی آتی ہے، اس لیے ان کی کبھی نہ کوئی پیش گوئی جھوٹی ہوتی ہے او رنہ ہی وہ کسی سےجھوٹا وعدہ کرتے ہیں ۔
درج ذیل حوالےمحض دعوتِ فکر کے لیے بائبل سے پیش کیے جارہے ہیں ہمارا نظریہ اور ایمان اس کے مطابق نہیں کیونکہ ہم سیدنا عیسیٰ (مسیح) کو اللّٰہ تعالیٰ کا سچا نبی اور رسول تسلیم کرتے ہیں :
1. جناب مسیح نے قربِ قیامت دنیا میں اپنے آنے کی بابت بتایا او راس زمانے کی چند علامتیں بھی بتاتیں ہیں اس کے ساتھ ایک پیش گوئی بھی واضح الفاظ میں کردی کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں، یہ نسل ہر گز نہ ہو گی۔
[44]
اسی انجیل کے باب9 میں لکھا ہے:
’’ اور اس (مسیح )نے ان (حاضرین اور شاگردوں ) سے کہا: میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں، ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک خدا کی بادشاہی کو قدرت کے ساتھ آیا ہوا نہ دیکھ لیں، موت کا مزاہرگز نہ چکھیں گے ۔‘‘
[45]
تو کیا ایسا ہوا؟ ہرگز نہیں ۔ اس نسل کو گزرے تقریبا دو ہزار سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک یہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی ۔
2. جناب مسیح کو جب سولی دی گئی تو ان کے ساتھ دو مجرم اور بھی تھے ، ایک نے جناب مسیح کو طعنہ دیا تو دوسرے نے اس کو ڈانٹ دیا اور کہنے لگا: اے یسوع! جب تو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا ۔ اس نے کہا: میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا۔‘‘
[46]
جبکہ پطرس کا کہنا ہے :
’’وہ جسم کے اعتبار سے تو مارا گیا لیکن روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا ، اسی میں اس نے جا کر ان قیدی روحوں میں منادی کی ، جو اس اگلے زمانے میں نافرمان تھیں جب خدا نوح کے وقت میں تحمل کر کے ٹھہرا رہا تھا ۔‘‘
[47]
یعنی حضرت مسیح اپنی وفات کے دنوں میں گنہگاراور قیدی روحوں میں منادی کرنے کے لیے گئے تھے جو بہشت ہرگز نہیں تھی،لہٰذا اپنا وعدہ کہ آج ہی تو میرے ساتھ فردوس میں ہو گا، پورا نہ کرسکے ۔
3. سیدنا مسیح نے اپنے متعلق کہا تھا کہ مرنے کے بعد تین دن اور تین راتوں تک میں قبر میں رہوں گا جیسا کہ یوناہ [یونس ]نبی مچھلی کے پیٹ میں رہا ، پھر میں زندہ ہو جاؤ ں گا ۔‘‘
[48]
لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ بائبل کے مطابق سبت سے پچھلے دن (جمعہ) کے آخری پہر جناب مسیح کی جان صلیب پرنکلی ، سورج غروب ہونے سے قبل ان کو دفنا دیا گیا ، اور اتوار کی صبح جب خواتین قبر پر جاتی ہیں تو ان کی قبر کھلی ہوتی ہے اور ان کا زندہ ہونا مشہور ہو جاتا ہے ۔
[49]
کسی بھی انداز سے شمار کر لیں ، یہاں تین دن اور تین راتیں کسی طرح نہیں بنتے ۔
4. اپنے شاگردوں کے حوالے سے جناب مسیح نے کہا :
’’میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھےچلتی ہیں اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابدتک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا ۔‘‘
[50]
لیکن ان کے خاص الخواص بارہ شاگردوں میں سے ایک مرتد ہوگیا تھا جس نے حضرت عیسیٰ کو تیس روپوں کے عوض پکڑوایا تھا ، اس کا نام ’یہوداہ اسکریوتی‘ تھا
[51]۔ سوال یہ ہے کہ اس کو جناب مسیح سے کس نے چھینا تھا؟
5. ایک مرتبہ جناب مسیح نے اپنے بارہ شاگردوں کو فرمایا :
’’جب ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تو تم بھی جو میرے پیچھے ہولیے ہو، بارہ تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔‘‘
[52]
جب یہوداہ اسکریوتی مرتد ہو گیا تو وہ کیسے تخت پر بیٹھے گا ؟
حوالہ جات:
[7] یہ بھی یہودیوں کا ہی ایک فرقہ ہے لیکن ان میں چونکہ غیر یہودی قوموں کی آمیزش ہوگئی۔ ان کا قبلہ الگ اور موسیٰ کے بعد کسی نبی کو نہیں مانتے،نیز تورات کی پانچ کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب کو نہیں مانتے اس لیے عام یہودیوں نے ان سے مکمل جدائی اختیار کری ہوئی ہے۔
[15] عبرانیوں کے نام خط 5: 7
[19] انجیل متی 20: 20تا23
[20] انجیل مرقس 10: 8 ، لوقا 18: 19
[22] تفصیل کے لیے میرا کتابچہ دیکھیں: ’’تثلیث: عقل و نقل کی روشنی میں‘‘ زیرِ طبع
[25] انجیل یوحنا 5 :19-30
[26] انجیل یوحنا 12: 49-50
[28] عبرانیوں کے نام خط 15:4
[32] عبرانیوں کے نام خط 1 :3-4
[37] عبرانیوں کے نام خط 7:5
[39] انجیل متی 18:21-19... مزید دیکھیں:گذشتہ عنوان کا نمبر7
[43] انجیل یوحنا 12: 27...پچھلے باب کا نمبر 13 بھی دیکھیں
[46] انجیل لوقا 23: 42-43
[48] انجیل متی12: 40، 17: 23
[50] انجیل یوحنا 10: 27-29
[52] انجیل متی 28:19،لوقا 30:22