حاکم کا ’صادق و امین‘ ہونا اور شریعتِ اسلامیہ

28 جولائی 2017 ء کو سپریم کورٹ نے پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کواس فیصلہ کی بنا پر اپنے عہدے سے معزول کردیا کہ وہ آئین پاکستان کی دفعہ 62 کے مطابق صادق اور امین نہیں رہے:
’’نواز شریف نے متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو 2013ء میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 ءکی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہٰذا وہ پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نااہل ہیں۔     الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔‘‘[1]
اس کے بعد سے مختلف سیاسی وسماجی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آئین کے اس آرٹیکل 62 کی کونسی ایک اہم ضرورت ہے جس کی بنا پر ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ بعض لوگ تو یہاں تک کہنے لگے کہ آئین میں ترمیم کرکے اس دفعہ کو حذف کرایا جائے کیونکہ یہ مستقبل میں بھی کسی بھی حاکم کو معزول کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیتی ہے۔ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 62 (1) کا مستند متن یہ ہے :
’’کوئی [مسلم] شخص مجلس شوری( پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا، اگر
(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔
(ھ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم Adequate knowledge of Islamic teachings نہ رکھتا ہو اوراسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند ، نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔
(و)وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو۔ اور ایمانداورامین Honest and Ameenنہ ہو۔ عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو۔‘‘[2]
سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں آرٹیکل 62 کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ کاغذات نامزدگی اپنے اثاثوں کا ذکر نہ کرنا غلط بیانی ہے اور عوامی نمائندگی کے قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس لیے وہ [وزیر اعظم]’صادق نہیں‘ ۔
جبکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے شق باسٹھ تریسٹھ کے بارے میں اپنے نوٹ میں لکھا کہ آئین میں دی گئی اصطلاحات میں ’صادق‘اور ’امین‘ کی تشریح واضح نہیں ہے اور یہ بھی کہ کسی ایک مقدمے کے شواہد اور واقعات پر ان کا کس طرح اطلاق ہو گا۔
بظاہر لگتا ہے کہ ان شقوں کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے قرآن سے رہنمائی لی گئی ہے، جہاں انھوں نے لکھا کہ گھریلو ملازم کے لیے ’قوی الامین‘اور وسائل کی حفاظت پر مامور کئے جانے والے افراد کے لیے ’حفیظ الامین‘کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں۔... آئین میں ان شرائط کا مطلب یہ یقینی بنانا تھا کہ بہترین صرف اچھے اور نیک مسلمان ہی اسمبلیوں تک پہنچیں اور وہ لوگ ریاست پاکستان میں اللّٰہ کی حاکمیت ایک امانت کے طور پر نافذ کر سکیں۔جسٹس کھوسہ نے لکھا کہ ان کے مطابق شق باسٹھ کا اطلاق کسی شخص کے ذاتی کردار کے مقابلے میں عوامی کردار تک محدود رکھنا جس سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہوں فائدہ مند اور قابل عمل ہے۔‘‘[3]
یہاں بعض لوگوں (بشمول سابقہ وزیر اعظم) کا خیا ل ہے کہ ’’جس شخص کو عوام منتخب کریں، اس کو امین نہ ہونے کے نام پر حکومت سے خارج کرنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے، اس کا راستہ بند کرنا ہوگا۔‘‘ ان کے موقف کی بنیاد یہ ہے کہ جمہوریت دراصل عوامی حاکمیت کا نام ہے، اور عوام اپنے حکام جس کو چاہیں مرضی منتخب کریں، یہی جمہوریت ہے۔چاہے تو خواتین کے ساتھ زیادتی اور جعلی یونیورسٹیاں چلانے کے ملزم شخص ڈونلڈ ٹرمپ کو یا مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو عوام اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز کردیں۔
اس بات کی وضاحت یوں ہے کہ
1.  جب تک ان لوگوں کے بارے میں عدالتی فیصلہ نہیں آجاتا، اس وقت تک وہ ملز م ہیں، مجرم نہیں۔ جبکہ پاکستان میں نواز شریف کے خلاف عدالتِ عظمی نے یہ فیصلہ کردیا ہے، اور اسی پہلو کو آرٹیکل 62 میں واضح الفاظ میں مشروط کیا گیا ہے،جیسا کہ خط کشیدہ الفاظ سے ظاہر ہے ۔
2.  عوامی حاکمیت کا ایک علم ووٹ سے ہوتا ہے ، اور دوسرا دستور سے۔ اور جب دستورِ پاکستان کی اٹھارویں ترمیم (اپریل 2010 ء)کے ذریعے عوامی نمائندوں (بشمول وزراے حکومت) نے صادق و امین اور دیگر شرائط کو مزید تفصیلات کے ساتھ متعین کردیا ہے، تو یہی وہ باضابطہ قانون ہے جو عوامی حاکمیت کا مظہر ہے۔ بالفاظِ دیگر عوام کے نمائندے پارلیمنٹ میں پہنچ کر جو قانون سازی کرتے ہیں، وہی عوام کی حقیقی ترجمانی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ووٹ عوام کی علاقائی نمائندگی کرتا ہے جس کے بعد پارلیمنٹ میں بننے والا قانون انہی عوامی نمائندوں کے ووٹنگ کے نتیجے میں پاس ہوجاتا ہے اور وہی برتر عوامی حاکمیت کا مصداق ہے۔
3.  پاکستان میں صرف جمہوریت نہیں ہے بلکہ ’اسلامی جمہوریت ‘ کا نظام ہے۔ جبکہ امریکہ اور بھارت میں ملحدانہ جمہوریت ہے۔ پاکستانی دستور نے متعدد آرٹیکلز کے ذریعے اس امر کو تحفظ دے رکھا ہے کہ یہاں کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں بن سکتا ۔ چنانچہ اگر پارلیمنٹ عوامی حاکمیت کے نام پر فحاشی یا ہم جنس پرستی کے جواز کا قانون بنانا چاہے تووہ 2؍الف، 227، 203 اور بہت سی دیگر دفعات اور اپنے عہدے کے حلف کی بنا پر ایسا نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر نری عوامی حاکمیت کے نام پر عوام پاکستان اللّٰہ تعالی اور اس کے رسول مکرّم کی منشا کے خلاف نہیں جاسکتے۔ اور یہی پاکستان کی اہم ترین نظریاتی بنیاد ہے۔
پانامہ کیس کے حالیہ فیصلے اور سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے قطع نظر، ضرورت اس امر کی ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ عہدوں اور امین وامانت کے حوالے سے قرآن وسنت مسلمانانِ پاکستان سے اُصولاً کیا مطالبہ کرتے ہیں، اور شریعتِ اسلامیہ میں امانت کے کیا کیا تقاضے ہیں، اس میں خیانت کا کون کون سا پہلو قابل ذکر ہے؟ اس قانون کی اہمیت اس بنا پر بھی غیرمعمولی ہے کہ اس کی روح پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہوکر پاکستانی مقننہ میں ایسے اہل حِل وعقدپہنچ سکتے ہیں جو شریعت پر عمل پیرا اوراس کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں جو بظاہر سیکولر جمہوریت میں ایک خواب ہی دِکھتا ہے۔اس سلسلے میں درج ذیل نکات ایک مفصّل استدلال فراہم کرتے ہیں جس میں اہل بصیرت کے لئے بے پناہ عبرتیں   اور اسلامی نظام سیاست کی بیش قیمت تفصیلات ہیں:
قرآن وحدیث میں قائدانہ اَوصاف واہلیت
قرآنِ کریم میں مذکور کئی واقعات میں قیادت کے تعین کے بارے میں رہنمائی موجود ہے:
1.    قوم بنی اسرائیل کو اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کے نبی سیموئل کے ذریعے جب حاکم کا تعین فرمایا تو ارشاد ہوا:
﴿وَقالَ لَهُم نَبِيُّهُم إِنَّ اللَّهَ قَد بَعَثَ لَكُم طالوتَ مَلِكًا قالوا أَنّىٰ يَكونُ لَهُ المُلكُ عَلَينا وَنَحنُ أَحَقُّ بِالمُلكِ مِنهُ وَلَم يُؤتَ سَعَةً مِنَ المالِ قالَ إِنَّ اللَّهَ اصطَفىٰهُ عَلَيكُم وَزادَهُ بَسطَةً فِى العِلمِ وَالجِسمِ وَاللَّهُ يُؤتى مُلكَهُ مَن يَشاءُ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٢٤٧﴾... سورة البقرة
’’ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللّٰہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔‘‘ وہ کہنے لگے : ’’بھلا ہم پر حکومت کا حقدار وہ کیسے بن گیا ؟ اس سے زیادہ تو ہم خود حکومت کے حقدار ہیں اور اس کے پاس تو کچھ مال و دولت بھی نہیں۔‘‘ نبی نے کہا :’’اللّٰہ نے تم پر حکومت کے لیے اسے ہی منتخب کیا ہے۔ اور علمی اور جسمانی اہلیت اسے تم سے زیادہ دی ہے اور اللّٰہ جسے چاہے اپنی حکومت دے دے، وہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔‘‘            (البقرۃ: 247)
مولانا اشرف علی تھانوی ﷫ اپنی تفسیر ’بیان القرآن‘ میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
’’بادشاہ ہونے کے لیے اس علم کی ضرورت زیادہ ہے تاکہ ملکی انتظام پر قادر ہو اور جسامت بھی بایں معنی مناسب ہے کہ موافق ومخالف کے قلب میں وقعت وہیبت پیدا ہو ۔‘‘
اس آیت میں علم اور جسم کی برتری کو حکومت ملنے کی وجہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ رعایا کے مطالبے : ’مال میں کثرت‘ کی نفی کی گئی ہے۔
2.سیدنا یوسف ﷤ کو جب اللّٰہ تعالیٰ نے مصر میں حکومت دی، وہ قرآنی مکالمہ یوں ہے:
﴿وَقالَ المَلِكُ ائتونى بِهِ أَستَخلِصهُ لِنَفسى فَلَمّا كَلَّمَهُ قالَ إِنَّكَ اليَومَ لَدَينا مَكينٌ أَمينٌ ﴿٥٤﴾ قالَ اجعَلنى عَلىٰ خَزائِنِ الأَرضِ إِنّى حَفيظٌ عَليمٌ ﴿٥٥﴾... سورة يوسف
’’یوسف کہنے لگے : مجھے زمین کے خزانوں کا نگران مقرر کردیجئے، میں ان کی حفاظت کرنے والا ہوں اور (یہ کام) جانتا بھی ہوں۔‘‘
مدینہ یونیورسٹی کے نامور استاذِ حدیث شیخ ربیع ہادی مدخلی اس واقعہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اگر اسلامی حکومت قائم نہیں ہے تو اللّٰہ تعالیٰ ہر نفس کو اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جتنی اس کے بس میں ہے۔ ایسی حالت میں مسلمان کسی بھی غیر مسلم حکومت کا عہدہ اس شرط پر قبول کرسکتا ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہے گا۔ اور اللّٰہ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہیں کرے گا۔ اور اللّٰہ کے قانون کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گا۔ جیسا کہ سیدنا یوسف   ﷤نے کیا، جب آپ نے ایک کافر بادشاہ کی نیابت کا منصب سنبھالا جو اللّٰہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتا تھا، جیساکہ قرآن ارشاد فرماتا ہے : ﴿ما كانَ لِيَأخُذَ أَخاهُ فى دينِ المَلِكِ إِلّا أَن يَشاءَ اللَّهُ﴿٧٦﴾... سورة يوسف’’آپ اپنے بھائی (بنیامین) کو بادشاہ کے دين (قانون) کی رو سے روک نہیں سکتے تھے، مگر یہ کہ اللہ چاہتا۔‘‘ لیکن آپ کافر نظام حکومت کے اعلیٰ منصب پر فائز رہتے ہوئے بھی رعایا کے مابین انصا ف کرتے رہے، اور انہیں توحید کی دعوت دیتے رہے۔ اس میں ان لوگوں کی زبردست تردید ہے جو عقیدہ توحید کو ہیچ سمجھتے ہوئے شرک اور اہل شرک سے تال میل رکھنے اور پینگیں بڑھانے(عہدے قبول کرنے) کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘[4]
اس آیتِ کریمہ میں سیدنا یوسف ﷤نے اپنے ذمہ دار ہونے پر جو استدلال قائم کیا، وہ حفیظ علیم کا ہے۔ جبکہ عزیز مصر نے ان کی اہلیت کو یوں ذکر کیا کہ آج تو ہمارے نزدیک قدرومنزلت والا اور امانت دار ہے۔ گویا کہ یہاں سے چار اوصاف حاصل ہوئےاور قرآن نے کسی کی تردید نہیں کی۔
3.سیدنا موسیٰ ﷤ کو جب مصر سے نکلنا پڑا اور وہ مدین کی سرزمین میں گئے تو وہاں انہیں شعیب نامی ایک بزرگ شخصیت نے اپنے ہاں ملازمت دی۔ ا س موقع کا تذکرہ قرآن کریم میں یوں ہے:
﴿قالَت إِحدىٰهُما يـٰأَبَتِ استَـٔجِرهُ إِنَّ خَيرَ مَنِ استَـٔجَرتَ القَوِىُّ الأَمينُ ﴿٢٦﴾... سورة القصص
’’ان میں سے ایک بولی: اباجان! انہیں آپ اپنا ملازم رکھ لیجئے۔ بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھنا چاہیں، وہی ہوسکتا ہے جو طاقتور اور امین ہو ۔ ‘‘
اس آیتِ کریمہ میں کسی ذ مہ داری کے لئے اَمین اور قوی کا وصف بیان کیا گیا ہے۔اس کی تفسیر کرتے ہوئے مولانا عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں:
’’معلوم ہوا کہ ملازمت کے لئے دو باتوں کو دیکھنا ضروری ہے ایک یہ کہ جس کام کے لئے کوئی شخص ملازم رکھا جارہا ہے، وہ اس کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں ۔ بالفاظِ دیگر اس کام کا اسے پہلے سے کچھ علم اور تجربہ ہے؟ اور اگر کوئی محنت والا کام ہے تو کیا اس کی جسمانی حالت اور قوت اتنی ہے کہ وہ اس کام کو بجا لاسکے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ دیانتدار اور امین ہو ۔ اور یہ دیانت و امانت دین سے بیزار اور خدا فراموش آدمیوں میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اب تعجب کی بات یہ ہے کہ جب کسی شخص نے کوئی نجی یا گھریلو ملازم رکھنا ہو تو وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتا ہے تو سرکاری ملازمتوں کے وقت صرف شرطِ اول یعنی اہلیت کو تو ملحوظ رکھا جاتا ہے لیکن دوسری شرط کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملازم رکھنے والے افسروں میں بھی یہ دوسری شرط مفقود ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت عام ہوجاتی ہے جس کا تعلق ملازمین سے ہی ہوتا ہے۔ لوگوں کے حقوق غصب اور تلف ہوتے ہیں ۔ ظالمانہ قسم کی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لئے اتنی شکایات اور مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کا حل ناممکن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہوتی ہے کہ شرائط ِملازمت میں سے دوسری شرط دیانت و امانت کو درخور اعتنا سمجھا ہی نہیں جاتا۔‘‘
4.  روح القدس سیدنا جبرائیل ﷤ کو اللّٰہ جل جلالہ نے بہت بھاری ذمہ داری دیے رکھی،یعنی انبیاے کرام تک اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام رسالت پہنچانا۔ اس اہم ترین ذمہ داری کے لئے ان کا جو وصف قرآن کریم نے ذکر کیا، ملاحظہ فرمائیے:
﴿إِنَّهُ لَقَولُ رَسولٍ كَريمٍ ﴿١٩﴾ ذى قُوَّةٍ عِندَ ذِى العَرشِ مَكينٍ ﴿٢٠﴾ مُطاعٍ ثَمَّ أَمينٍ ﴿٢١﴾... سورة التكوير
’’یہ ایک معزز فرشتے کی بات ہے۔ جو طاقت ور اور عرش کے مالک اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں بڑی منزلت والے ہیں۔ آپ کی اطاعت کی جاتی ہے، وہاں (اس کے پاس وہ) امانت دار بھی ہیں۔ ‘‘
﴿وَإِنَّهُ لَتَنزيلُ رَبِّ العـٰلَمينَ ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرّوحُ الأَمينُ ﴿١٩٣﴾ عَلىٰ قَلبِكَ لِتَكونَ مِنَ المُنذِرينَ ﴿١٩٤﴾... سورة الشعراء
’’بلاشبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔جسے روح الامین لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا۔تاکہ آپ ڈرانے والوں میں شامل ہوجائیں ۔‘‘
سیدنا جبریل﷤ کے لئے ’امین‘ کالفظ مالی امانت کی بجائےسراسر اس فرض رسالت کی تکمیل پر بولا گیا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کو سونپا تھا۔ثابت ہوا کہ ’امین‘ کا مفہوم کافی وسیع تر ہے۔
5.  سید المرسلین نبی مکرم ﷺ کا تو لقب ہی صادق وامین ہے، جب بیت اللہ کی تعمیر نو کے بعد حجر اسود کو رکھنے کا مرحلہ آیا تو بولے:الْأَمِينُ وَكَانُوا يُسَمُّونَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْأَمِينَ فَقَالُوا يَا مُحَمَّدُ قَدْ رَضِينَا بِكَ[5]
’’یہ تو امین آئے ہیں اور جاہلیت میں آپ کو اَمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، ہم آپ پر خوش ہیں۔‘‘
آپ نے سیدہ خدیجہؓ کے ساتھ نکاح سے پہلے جب کاروبار کیا، تو پوری امانت داری کا مظاہرہ کیا۔
ایک موقع پر کسی نے آپ کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا:            
«أَلاَ تَأْمَنُونِي وَأَنَا أَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً»[6]
’’ تم مجھے کیوں امین نہیں سمجھتے، حالانکہ اس اللّٰہ نے مجھے امین قرار دیا ہے جو آسمان پر ہے اور اس آسمان والے کی خبریں میرے پاس صبح و شام آتی ہے ۔‘‘
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی لمبی حدیث کے آخر میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
«قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِله، ‏‏‏‏‏‏وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ»[7]
’’اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللّٰہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں۔‘‘
توحید ورسالت کی دعوت پر مشرکین مکہ کی شدید ناراضی کے باوجود، کفار قریش آپ کے پاس ہی اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔چنانچہ جب نبی کریمﷺ کو ہجرت مدینہ پر مجبور ہونا پڑا تو آپ نے سیدنا علی﷜ کو پیچھے چھوڑا تاکہ وہ آپ کی امانتیں اصل مالکوں کو ادا کرکے آئیں۔
نبی کریمﷺ کا پیغام ہی امانت تھا، جیسا کہ نجاشی کے سامنے پیغام نبوت کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا جعفر طیار﷜ کہتے ہیں: حتى بَعَثَ الله إِلَيْنَا رَسُولاً مِنَّا نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ وَعَفَافَهُ، وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الحديث وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ وَصِلَةِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ[8]
’’حتی کہ اللّٰہ نے ہم میں ایک رسول کو مبعوث فرمادیا، جس کے نسب وصداقت اور عفت وامانت کو ہم جانتے پہچانتے ہیں۔ اس نے ہمیں سچائی، امانتوں کی ادائیگی، صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کا درس دیا۔‘‘
اور قیصر روم هرقل   نے اپنے دربار میں ابو سفیان  (﷜) کو جواب دیتے ہوئے کہا:
وَيَأْمُرُكُمْ بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ[9]
’’تمہیں وہ نماز ، صدقہ ، پاک بازی ، ایفاے عہداور اداےامانت کا حکم دیتے ہیں ۔پھر وہ کہنے لگا کہ ایک نبی کی یہی صفت ہے۔‘‘
6.  قرآن کریم میں سیدنا ہود ﷤ کا یہ فرمان موجود ہے:
﴿أُبَلِّغُكُم رِسـٰلـٰتِ رَبّى وَأَنا۠ لَكُم ناصِحٌ أَمينٌ ﴿٦٨﴾... سورة الاعراف
’’میں اپنے پروردگار کا پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امین خیرخواہ ہوں۔‘‘
یہاں امانت سے مراداللّٰہ کے پیغام اور رسالت کی کماحقہ تبلیغ ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اپنی اسی امانت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
اور سیدنا نوح نے اپنی دعوت کو ان الفاظ میں پیش کیا :
﴿إِذ قالَ لَهُم أَخوهُم نوحٌ أَلا تَتَّقونَ ﴿١٠٦﴾ إِنّى لَكُم رَسولٌ أَمينٌ ﴿١٠٧﴾ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطيعونِ ﴿١٠٨﴾... سورة الشعراء
’’جب ان کے بھائی نوح نے انہیں کہا: اللّٰہ کا تقوی کیوں اختیار نہیں کرتے۔ میں تمہاری طرف امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللّٰہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔‘‘
یہی بات سیدنا ہود اور سیدنا موسیٰ سمیت سب پیغمبروں نے اپنی قوم سے کہی اور یہ جملہ سورۃ الشعراء میں پانچ انبیا کی زبانی آیا ہے : ﴿إِنّى لَكُم رَسولٌ أَمينٌ ﴿١٠٧﴾...(الشعراء:107، 125، 143،162، 178)
﴿أَن أَدّوا إِلَىَّ عِبادَ اللَّهِ إِنّى لَكُم رَسولٌ أَمينٌ ﴿١٨﴾... سورة الدخان
’’ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔‘‘
7.  سیدنا علی﷜ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا:
قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ نُؤَمِّرُ بَعْدَكَ؟ قَالَ: «إِنْ تُؤَمِّرُوا أَبَا بَكْرٍ، تَجِدُوهُ أَمِينًا، زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا، رَاغِبًا فِي الْآخِرَةِ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عُمَرَ تَجِدُوهُ قَوِيًّا أَمِينًا، لَا يَخَافُ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَإِنْ تُؤَمِّرُوا عَلِيًّا - وَلَا أُرَاكُمْ فَاعِلِينَ - تَجِدُوهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، يَأْخُذُ بِكُمُ الطَّرِيقَ الْمُسْتَقِيمَ »[10]
’’آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنائیں تو آپ بولے: اگر ابوبکر کو بناؤ گے تو ان کو امین اور دنیا سے بےرغبت اور آخرت کا متلاشی پاؤگے۔ اگر عمر کو بناؤ گے تو انہیں امین او رطاقتور پاؤگے جو اللّٰہ کے دین میں کسی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اگر تم علی کو بناؤ گے اور مجھے نہیں لگتا کہ تم ایسا کرو تو انہیں رہنما اور ہدایت یافتہ پاؤگے جو تمہیں سیدھے راستے پر لے جائے گا۔‘‘
8.  سیدنا سلیمان﷤ کے سامنے جس عفریت جن نے ملکہ سبا   کا تخت لانے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا تو اپنی اہلیت یوں بیان کی:
﴿قالَ عِفريتٌ مِنَ الجِنِّ أَنا۠ ءاتيكَ بِهِ قَبلَ أَن تَقومَ مِن مَقامِكَ وَإِنّى عَلَيهِ لَقَوِىٌّ أَمينٌ ﴿٣٩﴾... سورة النمل
’’ایک دیو ہیکل جن نے کہا : آپ کے دربار کو برخواست کرنے سے پہلے میں اسے لا سکتا ہوں۔ میں اس کام کی پوری قوت رکھتا ہوں اور امانت داربھی ہوں ۔‘‘
9.  نبی کریم جن کو اپنا عامل وگورنر بنا کر بھیجتے، ان کی شان کیا ہوتی؟ سیدنا حذیفہؓ بن یمان سے مروی ہے کہ نبی کریم نے اہل نجران کو فرمایا: «لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ ﷺ فَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ»[11]
’’ میں تمہارے پاس ایک امانت دار آدمی جو حقیقی امانت دار ہو گا بھیجوں گا ۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ منتظر رہے ( کہ کون اس صفت سے موصوف ہے؟) تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ ﷜کو بھیجا ۔‘‘
آپ ﷺ نے سیدنا ابو عبید ہ بن جراح کو اپنی امّت کا امین(أمين هذه الأمة)کا لقب[12] دیا۔ اورسیدنا عمرؓ نے کہا کہ اگر آج ابو عبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں خلافت کی ذمہ داری ان کے سپرد کرکے برئ الذمہ ہوجاتا۔
10. نبی کریم کے صحابہ کرام اپنی حکومتوں ومناصب میں پوری طرح امانت دار تھے، چنانچہ جب سیدنا عمر کو مسجد نبوی میں شدید زخمی کردیا گیا تو سیدنا ابن عباس ﷜سب سے پہلے ان کے پاس پہنچے اور ان کو تسلی دی، جن میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ    وولَّيتَ أمرَ المؤمنين فقويت، وأدّيت الأمانةَ
’’آپ مؤمنوں کے حاکم بنے تو وہ طاقتورہوگئے اور آپ نے امانت کو خوب ادا کیا۔ ‘‘
جس کا جواب سیدنا عمر﷜ نے یوں دیا:
وأمّا قولك في أمر المؤمنين، فو الله لوددتُ أنّ ذلك كفافًا لا لِي ولا عَلَيّ...[13]
’’جہاں تک آپ کی مسلمانوں کی ذمہ داری پورا کرنے کی بات ہے تو میری تمنا ہے کہ اس میں برابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی حق ہو اور نہ ان کا مجھ پر کوئی حق رہے۔ ‘‘
11.خلفاے راشدین اپنی شوریٰ (اہل الحل والعقد) میں جن لوگوں کو شامل رکھتے، ان کا لازمی وصف کیا تھا؟
وَكَانَتِ الأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِيِّ ﷺ يَسْتَشِيرُونَ الأُمَنَاءَ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ فِي الأُمُورِ المُبَاحَةِ لِيَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا...[14]
’’نبی کریم ﷺ کے بعد جتنے امام اور خلیفہ ہوئے، وہ اہل علم میں سے امانت داروں سے جائز کاموں میں مشورہ لیا کرتے تا کہ آسان ترحل کو اختیار کریں...‘‘
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے علم ہوا کہ عہدہ یا ذمہ داری کی شرعی صفات حسبِ ذیل ہیں:
امین                                 جیسا کہ نبی کریم، جبریل ،سیدنا موسٰی، یوسف وجملہ انبیا وخلفا کے لئے ذکر ہوا۔
صادق                                 جیساکہ کوہ ِصفا پر نبی کریمﷺ نے اپنے صادق ہونے کا حوالہ دیا، اور سیدنا اسماعیل
اور سیدنا یوسف کو قرآنِ مجید نے صادق قرار دیا۔[15] بہت سے انبیا صدیق کہلائے۔
حفیظ                   جیسا کہ سیدنا یوسف   ﷤ کے بارے میں آیا۔
علم   جیسا کہ سیدنا یوسف اور بادشاہ طالوت   کے بارے میں بیان ہوا۔
طاقتور(قوی)        جیسا کہ سیدنا جبریل اورسیدنا موسٰی کے بارے میں ذکر ہوا۔
جسم                   جیسا کہ بادشاہ طالوت کے بارے میں بیان ہوا۔
مَکِین (وجاہت)                 جیسا کہ سیدنا یوسف اور جبریل امین کے بارے میں پتہ چلا۔
دوسری اور تیسری صفت صادق اور حفیظ اَمین کے قریب المعنی ہیں،کیونکہ امانت سے مراد زبان وبیان کی صداقت اور امانات کی حفاظت بھی ہے۔ جبکہ قوّت کے تحت پانچویں اور چھٹی صفت جسم اور علم بھی آسکتی ہیں   اور اَهلیّت یا اَصلحیّت کا لفظ ان تمام صفات کا جامع ہے جس میں مناسبت کے لحاظ سے ہر وصف شامل ہے۔   ان تمام منصبی صفات کے شرعی تقاضے کیا ہیں؟ ...راقم نے ایک مستقل مضمون میں ان کو بیان کردیا ہے۔
’امین وامانت‘ کا شرعی وسیاسی مفہوم
مذکورہ بالا صفات میں اصل صفت ’امین‘ کی ہے اور یہ ہر قسم کی ذمہ داری ، عہدے اور منصب کا اصل الاصول ہے۔ قرآنِ کریم کی آية الأمراء میں ہے :
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأمُرُكُم أَن تُؤَدُّوا الأَمـٰنـٰتِ إِلىٰ أَهلِها وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللَّهَ كانَ سَميعًا بَصيرًا ﴿٥٨﴾... سورة النساء
’’ اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حقدار ہیں، انہیں یہ امانتیں ادا کردو ۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔ اللّٰہ تعالیٰ یقیناً تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع ﷫لکھتے ہیں:
’’ قرآن نے لفظ ’امانات‘ بصیغہ جمع استعمال فرمایا جس میں اشارہ ہے کہ امانت صرف یہی نہیں کہ کسی کا کوئی مال کسی کے پاس رکھا ہو جس کو عام طور پر امانت کہا اور سمجھا جاتا ہے، بلکہ امانت کی کچھ اور قسمیں بھی ہیں۔ آیت کے نزول کا جو واقعہ [بیت اللّٰہ کی کنجی والا] ابھی ذکر کیا گیا خود اس میں بھی کوئی مالی امانت نہیں، بیت اللّٰہ کی کنجی کوئی خاص مال نہ تھا، بلکہ یہ کنجی خدمتِ بیت اللّٰہ کے ایک عہدہ کی نشانی تھی۔
حکومت کے مناصب اللّٰہ کی امانتیں ہیں : اس سے معلوم ہوا کہ حکومت کے عہدے اور منصب جتنے ہیں، وہ سب اللّٰہ کی امانتیں ہیں جس کے [بالخصوص] امین وہ حکام اور افسر ہیں جن کے ہاتھ میں عزل و نصب کے اختیارات ہیں، ان کے لئے جائز نہیں کہ کوئی عہدہ کسی ایسے شخص کے سپرد کر دیں جو اپنی عملی یا علمی قابلیت کے اعتبار سے اس کا اہل نہیں ہے، بلکہ ان پر لازم ہے کہ ہر کام اور ہر عہدہ کے لئے اپنے دائرہ حکومت میں اس کے مستحق کو تلاش کریں ۔
کسی منصب پر غیر اہل کو بٹھانے والا ملعون ہے : پوری اہلیت والا سب شرائط کا جامع کوئی نہ ملے تو موجود لوگوں میں قابلیت اور امانت داری کے اعتبار سے جو سب سے زیادہ فائق ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ایک حدیث میں رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی و تعلق کی مد میں بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا، اس پر اللّٰہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے ۔(جمع الفوائد: ص ٥٢٣)‘‘
اور نبی کریمﷺ نے فرمایا:  «لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ »[16]
’’اس شخص کا کوئی ایمان   نہیں جس کو امانت کا پاس نہیں۔ اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا، اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘
امانت کا ایک مفہوم تو عام معروف ہے : هي كلُّ حقٍّ لزمك أداؤه وحفظه[17]. یعنی ’’ہر ایسا حق جس کو ادا کرنا اور اس کی حفاظت کرنا لازمی ہے۔‘‘لیکن قرآن کریم اس کو وسیع تر معانی میں استعمال کرتا ہے جس میں دینی وشرعی امانت، منصبی امانت اور مالی امانت سب شامل ہیں۔ چنانچہ امانت کی شرعی تعریف یہ ہے :
كلُّ ما افترض على العباد فهو أمانة، كصلاة وزكاة وصيام وأداء دين، وأوكدها الودائع وأوكد الودائع كتم الأسرار[18]
’’ہر وہ شے جو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہے، وہ امانت ہے جیسے نماز، روزہ، زکاۃ اور قرض وغیرہ کی ادائیگی۔ اور اس میں اہم ترین امانت میں رکھی گئی چیزوں کی ادائیگی ہے اور سب سے بڑی امانت رازوں کی حفاظت ہے۔‘‘
مفسر قرآن امام قرطبی ﷫ فرماتے ہیں:
«الأمانة تعمّ جميع وظائف الدّين، ونسب هذا القول لجمهور المفسّرين، فالأمانة هي الفرائض الّتي ائتمن الله عليها العباد، واختلف في تفاصيل بعضها على أقوال: فقيل هي أمانات الأموال كالودائع وغيرها وقيل: في كلّ الفرائض، وأشدّها أمانة المال... وقيل: هذه الأمانة هي ما أودعه الله تعالى في السّموات والأرض والجبال والخلق من الدّلائل على ربوبيّته أن يظهروها فأظهروها إلّا الإنسان فإنّه كتمها وجحدها، والمراد بالإنسان على ذلك هو الكافر والمنافق.[19]
’’امانت دین کے تمام امور کو شامل ہے۔ اور یہی جمہور مفسرین کا قول ہے۔ امانت وہ فرائض ہیں جن کا اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو محافظ بنایا ہے۔ تاہم امانت کی جزئیات میں ایک سے زیادہ اقوال ہیں، کہا کہ اس سے مراد امانت شدہ اموال اور سامان وغیرہ ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ تمام فرائض دینیہ ہیں جن میں مالی امانت اہم ترین ہے۔یہ بھی کہا گیا کہ امانت یہ بھی ہے کہ عورت اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے۔ بعض نے کہا کہ غسل جنابت امانت ہے۔ کہا گیا کہ نماز امانت ہے( اگر چاہے تو کہہ دے کہ میں نے پڑھی ہے اور چاہے تو کہے کہ نہیں پڑھی) ۔اسی طرح روزے ، غسل جنابت اورزنانہ شرمگاہ امانت ہے۔ کان، آنکھ، زبان، پیٹ، ہاتھ اور ٹانگیں بھی (اللّٰہ کی طرف سے )امانت ہیں۔ نبی کریم کا فرما ن ہے کہ اس کا کوئی ایمان نہیں جس کو امانت کا پاس نہیں۔ اور کہا گیا کہ یہ وہی امانت ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان وزمین، پہاڑ اور جملہ مخلوقات کو سونپی کہ ان پر اپنی ربوبیت کے دلائل پیش کرکے انہیں ان کو اپنے اوپر ظاہر کرنے کا پابند کیا تو ان سب نے اپنی ذمہ داری قبول کرکے اس ربوبیت کو ظاہر کیا اور انسان نے اس کو چھپایا اور انکار کیا۔ ایسا کرنے والا انسان کافر ومنافق ہے۔‘‘
امین و امانت شریعتِ اسلامیہ کی اہم اصطلاح ہے۔ اور اس کے مفاہیم کو واضح کرنے کے لئے اس کو تین بڑے عنوانا ت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں سے پہلی دراصل جامع قسم ہے اور باقی دو اقسام کو مزید وضاحت کے لئے علیحدہ سے قسم کے طور پر پیش کیا گیا ہے:
پہلی قسم: امانتِ شرعیہ
1.     عوام کے لئے امانت سے مراد دراصل وہ سب سے بڑی امانت ہے، جو اللّٰہ نے بنی نوع انسانیت کو دی، اور وہ قرآن کریم کی اس آیت میں ہے :
﴿إِنّا عَرَضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا ﴿٧٢﴾... سورة الاحزاب
’’ہم نے اپنی امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیع ﷫نے اس آیت کی تفسیر میں اس امانت کی لمبی تفصیلات بیان کی ہیں:
’’ہم نے یہ امانت (یعنی احکام جو بمنزلہ امانت کے ہیں) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی (یعنی ان میں کچھ شعور پیدا کر کے جو کہ اب بھی ہے ان کے روبرو اپنے احکام اور بصورت ماننے کے اس پر انعام و اکرام اور بصورت نہ ماننے کے اس پر تعذیب و آلام پیش کر کے ان کو لینے نہ لینے کا اختیار دیا۔ اور حاصل اس پیش کرنے کا یہ تھا کہ اگر تم ان احکام کو اپنے ذمہ رکھتے ہو تو ان کے موافق عمل کرنے کی صورت میں تم کو ثواب ملے گا اور خلاف کرنے کی صورت میں عذاب ہوگا اور اگر نہیں لیتے تو مکلف نہ بنائے جاؤ گے، اور ثواب و عذاب کے بھی مستحق نہ ہو گے، تم کو دونوں اختیار ہیں کہ اس کو نہ لینے سے نافرمان نہ ہو گے جس قدر ان کو شعور تھا، وہ اجمالاً اس قدر مضمون سمجھ لینے کے لئے کافی تھا، چونکہ ان کو اختیار بھی دیا گیا تھا)۔ سو انہوں نے (خوف و عذاب کے سبب احتمالِ ثواب سے بھی دست برداری کی اور) اس کی ذمہ داری سے انکار کردیا اور اس (کی ذمہ داری) سے ڈر گئے (کہ خدا جانے کیا انجام ہو، اور اگر وہ اپنے ذمہ رکھ لیتے تو مثل انسان کے ان کو بھی عقل عطا کی جاتی، جو تفصیل احکام ومثوبات و عقوبات کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ چونکہ اس کو نہیں منظور کیا، اس لئے عقل کی بھی ضرورت نہ ہوئی۔ غرض انہوں نے تو عذر کر دیا) اور (جب ان سموات و ارض و جبال کے بعد انسان کو پیدا کر کے اس سے یہی بات پوچھی گئی تو ) انسان نے (بوجہ اس کے کہ علم الٰہی میں اس کا خلیفہ ہونا مقرر تھا) اس کو اپنے ذمہ لے لیا (غالباً اس وقت تک اس میں بھی اتنا ہی ضرورت کے قدر شعور ہوگا اور غالباً یہ پیش کرنا ’اخذِ میثاق‘[عہد ِاَلست] سے مقدم ہے، اور وہ میثاق اسی حمل امانت کی فرع ہے، اور اس میثاق کے وقت اس میں عقل عطا کی گئی ہوگی، اور یہ کسی خاص انسان سے مثل آدم ﷤کے نہیں پوچھا گیا ، بلکہ مثل اخذ میثاق کے یہ عرض بھی عام ہوگا اور التزام بھی عام تھا۔ پس سموات و ارض جبال مکلف نہ ہوئے اور یہ مکلف بنا دیا گیا۔‘‘
2.  امین یعنی ’امانت‘ سے مراد دراصل اللّٰہ تعالیٰ کی خشیت اور تقویٰ ہے، اور وہی شخص اصل امین ہے، جو سب سے بڑی امانت اور دنیا میں آنے کے مقصد سے آگاہ ہے۔ اس امانت سے مراد کلمہ طیبہ ہے یعنی اللّٰہ کی اطاعت کو قبول کرنے کا حلف اٹھانا۔ مفسر قرآن حافظ نیسا بوری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
الأمانة هي الطّاعة وهي التّكليف، ثمّ ذكر أنّ التّكليف هو الأمر بخلاف ما في الطّبيعة، وهذا النّوع ليس في السّموات والأرض والجبال، لأنّ السّموات لا يطلب منها الهبوط، والأرض لا يطلب منها الصّعود ولا الحركة، والجبال لا يطلب منها السّير، وكذا الملائكة مهتمّون بالتّسبيح والتّقديس، (وإنّما في الإنسان وحده) ، وسمّي التّكليف أمانة لأنّ من قصّر فيه فعليه الغرامة ومن أدّاه فله الكرامة، وعرض الأمانة بهذا المعنى على هذه الأجرام وإباؤها من حملها هو لعدم صلوحها لهذا الأمر وقد خصّ بعضهم التّكليف بقول: «لا إله إلّا الله عزّ وجلّ»[20]
’’امانت سے مراد اطاعت اور مکلف ہونا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تکلیف سے مراد ہے کہ کسی کو اس کی طبیعت کے مخالف چیز کا پابند بنایا جائے۔ او ریہ چیز آسمان وزمین اور پہاڑوں میں نہیں ہے کیونکہ آسمانوں سے گرنے کا مطالبہ نہیں، زمین سے بلند ہونے اور ہلتے رہنے کا تقاضا نہیں اور پہاڑوں پرچلنے کی ذمہ داری نہیں۔ ایسے ہی فرشتے صرف تسبیح وتقدیس میں ہی لگے رہتے ہیں۔ یہ مکلف بنانا صرف انسان کے لئے ہے۔ اوراس مکلف بنانے کو امانت اس لئے قرار دیا گیا، کہ جو اس میں کوتاہی کرے گا، اس پر سزا ہے۔ او رجو ادا کرے گا تو اس کے لئے عزت افزائی ہے۔ سو اس مفہوم کے ساتھ امانت کو اجرام فلکی پر پیش کیا گیا تو انہوں نے اس کو لینے سے انکار کیا کیونکہ وہ اس امانت کو اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بعض اہل علم کا موقف ہے کہ مکلف بنانے سے مراد انسان کا کلمہ طیبہ کا اقرار کرلینا یعنی اسلام قبول کرلینا ہے۔‘‘
حافظ نیسا بوری کا موقف کہ اس امانت سے مراد کلمہ طیبہ ہے، پوری وضاحت کرتا ہے کہ اس امانت کا امین شخص وہی ہے جو کلمہ طیبہ کا معترف ہے، باقی لوگ امین نہیں ۔نوع انسانی کا ’حمل امانت‘ اجمالاًاخذ ِمیثاق سے قبل تھا، اور تفصیلاً مسلمانوں نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اس اقرارکی تصدیق کی ۔ تاہم اُن کی یہ رائے کہ انسان کے علاوہ باقی اشیا : ارض وسما وغیرہ اس امانت کو اٹھانے سے اصلاً قاصر تھے، محل نظر ہے۔ کیونکہ پھر اللّٰہ کا اس امانت کو ان پر پیش کرنا بے معنی مکالمہ ٹھہرتا ہے جس سے اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت بالاتر ہے۔ اور انسان کے لئے ظَلومًا جَهولًا اس لئے ہے کہ انسانوں میں بھی اس امانت کو اٹھانے کی اہلیت موجود ہے، جیسا کہ صحابہ کرام﷢ کے ایمان کو قرآن نے مثالی ایمان اور اہل اسلام کے لئے سنتِ مطلوبہ قرار دیا ہے لیکن ظلم وجہالت کی بنا پر انسان اس امانت کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔اسی بنا پر اس کے لئے روزِ قیامت جزا وسزا ہے۔
3.  اوردسری آیت میں قرآن کریم کو اس ’امانت‘ کا مصداق بتایا گیا کہ
﴿لَو أَنزَلنا هـٰذَا القُرءانَ عَلىٰ جَبَلٍ لَرَأَيتَهُ خـٰشِعًا مُتَصَدِّعًا مِن خَشيَةِ اللَّهِ وَتِلكَ الأَمثـٰلُ نَضرِبُها لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ﴿٢١﴾... سورة الحشر
’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللّٰہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ غور و فکر کریں۔‘‘
اور کلمہ طیبہ یا قرآن کریم ، دونوں کا مصداق ایک ہی ہے، یعنی شریعت اسلامیہ پر عمل کرنے کا اللّٰہ تعالیٰ سے وعدہ کرنا اور یہی اصل شرفِ انسانیت ہے، جس کی بنا پر اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں پر انسان کو فضیلت دے کردنیا میں بھیجا کہ انسانوں میں بعض لوگ اللّٰہ کی امانت کو قبول کرتے ہوئے ، ہر نظامِ حیوۃ میں اس کی بندگی کریں گے۔ جیسا کہ اس امانت کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
ما قيل في الآية الكريمة من الأقوال العديدة لا تنافي بينها، بل هي متّفقة وراجعة إلى أنّها التّكليف وقبول الأوامر والنّواهي بشرطها، وهو أنّه إن قام بذلك أثيب، وإن تركها عوقب.[21]
’’اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں منقول متعدد اقوال ایک دوسرے کے منافی نہیں بلکہ سب ہی اس پر متفق اور مرکوز ہیں کہ اس سے مراد انسان کو اوامر ونواہی کا یوں مکلف بنانا ہےکہ اگر انسان ان کو پورا کرے تو اس کو ثواب ملے گا، ورنہ سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔‘‘
الغرض امانت کی تفسیر شرعی اوامر ونواہی کی پابندی قبول کرنا ہے، اور یہی موقف حبر الامۃ سیدنا ابن عباسؓ، حسن بصری، مجاہد، سعید بن جبیر، ضحا ک بن مزاحم، ابن زید اور اکثر مفسرین رحمہم اللّٰہ کا ہے۔ [22]
دوسری قسم : منصبی امانت
4.  خواص کے لئے امانت کا مفہوم: عہدے اور مناصب کی امانت ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرما ن ہے جسے سیدنا ابو ذرّ نے روایت کیا ہے:
«قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا تَسْتَعْمِلُنِي؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى مَنْكِبِي، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا»[23]
’’میں نے عرض کیا: اللّٰہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ’’ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔ )وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا)‘‘
5.  ہرانسان کو دی جانے والی زندگی بھی اللّٰہ کی امانت ہے، جو اللّٰہ تعالیٰ نے اسے اخذِ میثاق[عہدِ الست][24] کے بعد(کہ وہی ہمارا ربّ ہے؍ توحیدِ ربوبیت) اس عہد کی تکمیل کے لئے دی کہ وہ اپنی زندگی میں اس عہد کو پورا کرکے دکھائے۔ اور ہر انسان ہی اسلام میں مسئول و ذمہ دار ہے، او راس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ فرمانِ نبوی ہے جسے سیدنا عبد اللّٰہ بن عمر ﷜نے روایت کیا ہے:
«كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»[25]
’’تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس لوگوں کا حقیقی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (دوسر1) ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (تیسر1) عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ (چوتھا )غلام اپنے آقا ( سید ) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں ( قیامت کے دن ) پوچھ ہوگی۔‘‘
چنانچہ یہ امانت او رذمہ داری ہرمسلمان کی اپنی ذات اور اپنے گھر پر ہے، بیوی کی اپنے شوہر کے گھر اور اولاد پر ہے، اور حاکم کی اپنی رعایاپر ہے، خادم کی اپنے مالک کے مال پر ہے۔ اور قیامت کے دن ہر امین ومسئول سے اس کی امانت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
6.  یاد رہے کہ عہدے ومناصب دینے والی ذات اللّٰہ عزوجل کی ہے، جیسا کہ واقعہ طالوت والی پہلی آیت میں آیا کہ ’’اللّٰہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی بادشاہت سے عطا کرتا ہے۔‘‘ اور اس آیت میں ہے:
﴿قُلِ اللَّهُمَّ مـٰلِكَ المُلكِ تُؤتِى المُلكَ مَن تَشاءُ وَتَنزِعُ المُلكَ مِمَّن تَشاءُ...﴿٢٦﴾... سورة آل عمران
’’آپ کہئے : اے اللّٰہ ! بادشاہت کے مالک! جسے تو چاہتا ہے حکومت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ ‘‘
اور اس آیت میں ہے :         ﴿إِنَّ الأَرضَ لِلَّهِ يورِثُها مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ...﴿١٢٨﴾... سورة الاعراف
’’یہ زمین اللّٰہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے ۔‘‘
یہ زمین اللّٰہ کی ہے اور جس کو وہ چاہتا ہے ، اپنے بندوں پرحکومت عطا کرتا ہے۔ اس بنا پر ہر مسلمان حاکم امین ہے اور اللّٰہ نے مخصوص ذمہ داریوں کے ساتھ اس کو اپنی مسلم رعایا کی ذمہ داری سونپی ہے۔ جس کو جو منصب سونپا جائے ، وہ اس کو بخوبی پورا کرے تو یہ منصبی امانت دارہے ، جیسا کہ سیدنا جبریل کو وحی کی ذمہ داری سونپی گئی تو وہ رسولِ امین ہوئے، نبی کریم کو رسالت کا فرض سونپا گیا تو آپ نے شکوہ کیا کہ ’’آسمان والا تو مجھے امین مانتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے ۔‘‘ یعنی میں عظیم منصب امانت پر قائم ہوں، تو کہاں یہ چھوٹی سی مالی امانت میں کوتاہی ممکن ہے۔ اس بنا پر امانت میں منصب کے تقاضے پورے کرنا بھی شامل ہے حدیث میں ہے:
دَخَلَ أَبُو مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أبي سفيان، فقال: السلام عليكم أَيُّهَا الْأَجِيرُ؛ فَقَالُوا: قُلْ السَّلَامُ عَلَيْك أَيُّهَا الأمير. فقال السلام عليك أيها الْأَجِيرُ. فَقَالُوا: قُلْ: السَّلَامُ عَلَيْك أَيُّهَا الْأَمِيرُ. فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْك أَيُّهَا الْأَجِيرُ. فَقَالُوا قُلْ السلام عليك أَيُّهَا الْأَمِيرُ. فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْك أَيُّهَا الْأَجِيرُ. فَقَالَ مُعَاوِيَةُ. دَعُوا أَبَا مُسْلِمٍ فَإِنَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَقَالَ إنَّمَا أَنْتَ أَجِيرٌ اسْتَأْجَرَك رَبُّ هَذِهِ الْغَنَمِ لِرِعَايَتِهَا؛ فَإِنْ أَنْتَ هَنَّأَتْ جَرْبَاهَا، وَدَاوَيْت مَرْضَاهَا، وَحَبَسْت أُولَاهَا عَلَى أُخْرَاهَا: وَفَّاك سَيِّدُهَا أَجْرَك، وَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَهْنَأْ جَرْبَاهَا وَلَمْ تُدَاوِ مَرْضَاهَا؛ وَلَمْ تَحْبِسْ أُولَاهَا على أخراها عاقبك سيدها.[26]
’’ایک دن سیدنا ابو مسلم خولانی سیدنا معاویہ بن ابو سفیان ﷜ کے پاس آئے اور کہنے لگے: السلام علیك أيها الأجیر! (اجرت پر کام کرنے والے! آپ پر سلامتی ہو) لوگوں نے کہا: ایہا الامیر کہیے۔ تو انہوں نے پھر السلام علیك أيها الأجیر! کہا، لوگوں نے پھر کہا   : ایہا الامیر کہیے تو تیسری بار انہوں نے وہی جملہ دہرایا: السلام علیك أيها الأجیر! آخر سیدنا معاویہ نے کہا: ابو مسلم کو اپنی بات کہنے دو، وہ اسے ہم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد ابو مسلم بولے: اے معاویہ! تم اجیر(اجرت پر کام کرنے والے ملازم) ہو۔ان بکریوں کے ریوڑ کے لئے تم کو ان بکریوں کے رب نے اجرت پر رکھا ہے، اگر تم خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری کرو گے اور مریض بکریوں کی دوا کروگے اور ان بکریوں کی اچھی طرح حفاظت کرو گے، تو بکریوں کا مالک تمہیں پوری اجرت دے گا۔ اور اگر تم نے خارش زدہ بکریوں کی خبر گیری نہ کی، مریض بکریوں کی دوا نہ کی، ان کی اچھی حفاظت نہ کی تو بکریوں کا مالک تم کو سزا دے گا۔ ‘‘
جب یہ مناصب سراسر امانت ہیں تو اس میں خیانت کرنے والے کی سزا روزِ قیامت   جنت سے محرومی ہے:
وَقَالَ ﷺ: «لَا يَسْتَرْعِي اللهُ عَبْدًا رَعِيَّةً، يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهَا، إِلَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ»[27]
’’اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا نگران بناتا ہے او رموت کے دن وہ اس حالت میں مرتا ہے کہ رعیت کے حقوق میں دھوکے بازی کرنے والا ہے تو اللّٰہ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔‘‘
7.  شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ﷫ لکھتے ہیں:
فإن الخلق عباد الله، والولاة نُوَّابُ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ، وَهُمْ وُكَلَاءُ الْعِبَادِ على نفوسهم؛ بِمَنْزِلَةِ أَحَدِ الشَّرِيكَيْنِ مَعَ الْآخَرِ؛ فَفِيهِمْ مَعْنَى الْوِلَايَةِ وَالْوَكَالَةِ[28]
’’اللّٰہ کی مخلوق اللّٰہ کے بندے ہیں، اور مسلم حکام اللّٰہ کے بندوں پر اللّٰہ کے نائب[29] ہیں۔ اور وہ بندوں پر ان کی جانوں کے ذمہ دار[30] ہیں۔ جیسا کہ دو شریک ایک دوسرے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سو ان میں ولایت یعنی حکومت اور وکالت یعنی تفویض بیک وقت پائی جاتی ہے۔‘‘
اس عبارت کی شرح میں شیخ ابن عثیمین منصبِ حکومت کی امانت کی وضاحت کرتے ہیں:
بَیّن المؤلف أن الأمراء والحكام نواب الله على عباده يعني أن الله استنابهم على العباد ليقيموا شريعة الله فيهم والخليفة والحاكم وكيل الناس على أنفسهم يقيمهم ويهذب أخلاقهم ويسيرهم على شريعة الله... وهم من وجه آخر وكلاء للعباد على نفوس العباد يعني أن الشعب وكّل هؤلاء الحكام على نفوسهم كأنه يقول: كونوا لنا حكامًا لتقيمونا وتعدّلونا على شريعة الله[31]
’’ابن تیمیہ  نے واضح کیا ہے کہ امراء وحکام اللّٰہ کے بندوں پر اس کے نائب ہیں، یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بندوں پر اس لئے نائب بنایا ہے کہ وہ اللّٰہ کی شریعت کو ان میں قائم کردیں۔ اور خلیفہ وحاکم لوگوں کی جانوں پر ان کے وکیل بھی ہیں، کہ (مسلمانوں نے حکام کو یہ ذمہ دار سونپی ہے کہ ) ان کے اخلاق درست کریں اور ان کو اللّٰہ کی شریعت پر چلائیں۔اس دوسرے پہلو سے بندوں کی جانوں پر بندوں کے وکیل ہوئے کہ عوام نے ان حکام کو اپنی جانوں کی یہ ذمہ داری سونپی ہے گویا یہ کہا ہے کہ تم ہمارے حاکم بنو، تاکہ ہمیں سیدھا رکھو اور اللّٰہ کی شریعت کے مطابق ہم میں عدل قائم کرو۔‘‘
8.مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر امانت ہی مناصب کی ذمہ داری میں سب سے بنیادی وصف ہے، اور اس وصف کا اعتبار دنیوی امانت سے بڑھ کر ، اللّٰہ کی امانت کی تکمیل، اللّٰہ کے احکام پر خود چلنا اورحاکم کا اپنے ماتحتوں کو اس پر چلانا ہے۔ جو مسلمان شخص اللّٰہ کے احکام کا امین نہیں، امانتِ کبری میں کوتاہی کرنے والا ہے، وہ لوگوں کے حقوق میں بھی کوتاہی کرنے والا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی سیاست کی رو سے وہی شخص لوگوں کا نمائندہ بن سکتا ہے، جو سب سے پہلے خود اللّٰہ کی امانت کو پورا کرنے والا ہے۔ اور اللّٰہ کی امانت کا سب سے بڑا اظہار نماز کی پابندی خود کرنا اور لوگوں سے کروانا ہے۔ اور جب کوئی حاکم اس امانت کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کا حق کھو بیٹھتا[32]ہے۔
اسلام میں سیاست یعنی عہدے اور اقتدار بھی خدمت اور فروغِ دین کے لئے ہے، اسی لئے سیاسی حکمران اور نماز کے قائد دونوں کو ’امام‘ ہی کہتے ہیں۔ اور نبی کریمﷺ نے اپنے عمال وحکام کے لئے نماز کی امامت لازمی کررکھی تھی اور یہی کام خلفائے راشدین کرتے تھے۔ جیسا کہ
             i.            سیدنا ابوبکر صدیق﷜ کو جب نماز کا امام مقرر کیا گیا تو صحابہ کرام نے ان کو مسلمانوں کی سیاست کا امام (خلیفہ) بنالیا۔
          ii.            نبی کریم اپنے عمال وحکام کو نماز سے آغاز کرنے کی تلقین فرمایا کرتے:
بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ مُعَاذًا إلَى الْيَمَنِ قَالَ: «يَا مُعَاذُ! إنَّ أَهَمَّ أَمْرِك عِنْدِي الصَّلَاةُ»[33]
’’جب نبی کریمﷺ نے سیدنا معاذ کو (یمن میں عامل بنا کر )بھیجا تو فرمایا کہ اے معاذ! میرے نزدیک تمہاری سب سے اہم شے نماز ہے۔‘‘
        iii.            سیدنا عمر فاروق نے اپنے عمال کو حکم نامہ بھیجا:
إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ، فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ. وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ[34]
’’میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز پڑھنا ہے۔ جو اس کی خود حفاظت کرے اور دوسروں سے حفاظت کرائے تو اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی۔ اور جس نے اسے ضائع کردیا تو اس کے ماسوا امور کو وہ زیادہ ضائع کرنے والا۔ ‘‘
        iv.            امام ابن تیمیہ ﷫ لکھتے ہیں:
وَكَذَلِكَ إذَا اسْتَعْمَلَ رَجُلًا نَائِبًا عَلَى مَدِينَةٍ، كما استعمل عتاب ابن أَسِيدٍ عَلَى مَكَّةَ، وَعُثْمَانَ بْنَ أَبِي الْعَاصِ عَلَى الطَّائِفِ، وَعَلِيًّا وَمُعَاذًا وَأَبَا مُوسَى عَلَى الْيَمَنِ، وعمرَو بْنَ حَزْمٍ عَلَى نَجْرَانَ: كَانَ نَائِبُهُ هُوَ الَّذِي يُصَلِّي بِهِمْ، وَيُقِيمُ فِيهِمْ الْحُدُودَ وَغَيْرَهَا مِمَّا يَفْعَلُهُ أَمِيرُ الْحَرْبِ، وَكَذَلِكَ خُلَفَاؤُهُ بَعْدَهُ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْمُلُوكِ الْأُمَوِيِّينَ وَبَعْضِ الْعَبَّاسِيِّينَ.[35]
’’نبی کریم جب بھی کسی صحابی کو مدینہ پر نائب بناتے، جیسا کہ عتاب بن اسید کو مکہ پر، عثمان بن ابو العاص کو طائف پر، علی، معاذ، ابو موسیٰ کو یمن اور عمر وبن حزم کو نجران پر عامل بناکر بھیجا، تو آپ کا نائب ؍عامل ہی ان کی امامت کراتا اور ان میں حدود اور وہ ذمہ داریاں پوری کرتا جو عسکری قیادت سرانجام دیتی ہے۔یہی آپ کے بعد آپکے خلفا، اموی بادشاہوں کا اور بعض عباسی حکام کا طریقہ تھا۔ ‘‘
برصغیر کے عالم ربانی اور عظیم مجاہد   شاہ اسماعیل شہید (ش:1831ء) ’امام ‘کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ لفظ امام سے مراد مطلق امام نہیں، بلکہ وہ امام جس کا تعلق سیاست سے ہو...امام سے مراد صاحبِ دعوت ہے جس نے جہاد کا جھنڈا اعدائے دین پربلند کیا اور تمام مسلمانوں کو اس معرکے میں بلایا، اور شرعِ مبین کی اعانت پر کمر باندھی، سیاستِ دین کی مسند پر بیٹھا۔سوائے ملت کے مذہب کے، دوسرا مذہب نہ پکڑا، اور طریقہ سنت کے سوا دوسرا طریقہ اختیار نہ کیا۔ عدالت وسیاست میں آئین نبوی کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہ بنایا۔قوانین مصطفوی کے سوا کوئی دوسرا قانون نہ چھانٹا۔‘‘ [36]
آپ اپنی عظیم کتاب ’منصب امامت ‘میں حاکم؍امام کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جوکوئی مذکورہ کمالات میں کسی کمال میں انبیاء اللّٰہ سے مشابہت رکھتا ہو، وہی امام ہے...بعض کاملین کو انبیا کے ساتھ ایک کمال میں مشابہت ہوتی ہے اور بعض کو دو کمال میں اور بعض کو تین میں۔ اسی طرح بعض کو تمام کمالات میں مشابہت ہوتی ہے۔ پس امامت بھی مختلف مراتب پر ہوگی۔ کیونکہ بعض کے مراتب ، امامت میں دوسروں سے اکمل ہوں گے۔ ‘‘[37]
پھر ان احادیث سے شاہ صاحب نے استدلال کیا جس میں نبی کریمﷺ نے اپنے بعد بالفرض نبی ہونے میں سیدنا عمر کا تذکرہ کیا، اور سیدنا علی کو سیدنا ہارون کے مشابہ (ماسواختم نبوت)قرار دیا۔
9.  منصبی امانت کا تقاضا: حاکم کا یہ بھی منصبی فرض ہے کہ اپنے نائب ان کو مقرر کرے، جو معاشرے اورحکومت کو شرعی مقاصد کی طرف لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر وہ اپنی پسند ناپسند یا اپنی تائید ، یا خاندانی قوت کے فروغ، یا مال کو جمع کرنےکی غرض سے کسی کو حاکم مقرر کرے گا تو یہ بھی امانت کی خلاف ورزی ہے اور خیانت کے مترادف ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَلِهَذَا لَمَّا غَلَبَ عَلَى أَكْثَرِ الْمُلُوكِ قَصْدُ الدُّنْيَا، دُونَ الدِّينِ؛ قَدَّمُوا فِي وِلَايَتِهِمْ مَنْ يُعِينُهُمْ عَلَى تِلْكَ الْمَقَاصِدِ، وَكَانَ مَنْ يَطْلُبُ رِئَاسَةَ نَفْسِهِ، يُؤْثِرُ تَقْدِيمَ مَنْ يُقِيمُ رِئَاسَتَهُ.[38]
’’جب دنیا کے اکثر حکام پر دنیوی مقاصد غالب آگئے، دین کو نظر انداز کرتے ہوئے ، تو اُنہوں نے اپنی حکومتوں میں ایسے لوگوں کو عہدے دیے جو ان کے دنیوی مقاصد میں ان کی تائید کرسکتے۔ اور ہر وہ شخص جو اپنی چودھراہٹ چاہتا ہے، اسی کو آگے کرتا ہے جو اسکی حکومت وریاست کو تحفظ دے۔‘‘
منصبی امانت کو پورا کرنے والا شخص کونسا ہے؟ ...امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَإِذَا كَانَ التَّقْدِيمُ بِأَمْرِ اللهِ إذَا ظَهَرَ، وَبِفِعْلِهِ -وَهُوَ مَا يُرَجِّحُهُ بِالْقُرْعَةِ إذَا خَفِيَ الْأَمْرُ- كَانَ الْمُتَوَلِّي قَدْ أَدَّى الْأَمَانَاتِ فِي الْوِلَايَاتِ إلَى أَهْلِهَا. [39]
’’جب کوئی حاکم اللّٰہ کے حکم کے مطابق منصب دے گا، جبکہ صورتحال بالکل واضح ہو یا اپنے عمل سے اس کو عہدہ دے گا، جب مخفی ہونے کی صورت میں قرعہ کے ذریعے ترجیح دے ، تو یہی وہ حاکم ہے جس نے امانت کو مناصب دینے میں اس کے حقیقی اہل کے سپرد کردیا۔ ‘‘
او رجس حاکم نے یہ مناصب اہل افرا دکے سپرد نہ کئے تو
ثُمَّ الْوَلِيُّ وَالْوَكِيلُ مَتَى اسْتَنَابَ فِي أُمُورِهِ رَجُلًا، وَتَرَكَ مَنْ هُوَ أَصْلَحُ للتجارة أو العقار مِنْهُ، وَبَاعَ السِّلْعَةَ بِثَمَنٍ، وَهُوَ يَجِدُ مَنْ يَشْتَرِيهَا بِخَيْرٍ مِنْ ذَلِكَ الثَّمَنِ؛ فَقَدْ خَانَ صَاحِبَهُ، لَا سِيَّمَا إنْ كَانَ بَيْنَ مَنْ حاباه وبينه مودة أو قرابة، فإن صاحبه يبغضه ويذمه، ويرى أنه قد خانه وداهن قريبه أو صديقه.
’’جب حاکم اور وکیل، دونوں اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لئے ایسے شخص کو اپنا نائب بنالیں، اور تجارت وسامان کے لئے اصلح کو نظرانداز کردیں۔ سودے کو ایسی قیمت پر فروخت کریں جبکہ اس قیمت سے اچھی قیمت مل سکتی تھی، تو تب اس والی اور وکیل نے اپنے ساتھی سے خیانت کی۔ بلاشبہ اگر دونوں کے مابین محبت ومودّت یا قرابتداری تھی ، تب بھی اس کا ساتھی اس سے ناراض ہو کر اس کو برا ہی کہے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے خیانت کی، اور اپنے قریبی یا دوست سے دھوکہ کیا ہے۔‘‘
10.  منصبی ذمہ داری کا مقصد: چونکہ حکومت او رمنصب سمیت دنیا کی ہر نعمت اللّٰہ ہی عطا کرتا ہے، اوربندہ مؤمن ایمان لانے اور کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد اس کا اقرار کرتا ہے، اس لئے وہ اپنی ہر صلاحیت واختیار کو اللّٰہ کے بتائے ہوئےطریقے کے مطابق ہی استعمال کرتا ہے چنانچہ اللّٰہ نے حاکم کی یہ ذمہ داری قرار دی کہ
﴿الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَرضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَروا بِالمَعروفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ ﴿٤١﴾... سورة الحج
’’اُنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس بنا پر حاکم کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو بھی امانتِ شرعیہ کی طرف متوجہ کرے، ان کو نماز روزہ کی تلقین کرے اور ان میں امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جاری وسار ی کرے۔ اور یہ فرض صرف بڑے حاکم کا ہی نہیں، بلکہ ہرفرد، ہر گھر اور ادارے کے سربراہ، ہر ماں کا فرض اور ہر خادم کی ذمہ داری ہے۔ حاکم کا جب فرض متعین ہوگیا تو جو حاکم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے بجائے لوگو ں کے مفاد اور خواہشات کو پورا کرنے لگ جائے تو گویا کہ وہ اللّٰہ کے مقرر کردہ حاکم کی بجائے ، شیطانی خواہشات کا مؤید بن گیا۔ جس فرض کے لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو اقتدار دیا تھا، اس نے اس کی بجائے اس کو دوسرے مقصد پر صرف کردیا اور یہ بدترین خیانت ہے۔ چنانچہ ایسا حاکم اللّٰہ کی بجائے شیطان کا ساتھی ہے اوراس کا انجام بھی شیطان کے ساتھ ہی ہے،
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وَوَلِيُّ الْأَمْرِ إذَا تَرَكَ إنْكَارَ الْمُنْكَرَاتِ وإقامة الحدود عليهما بِمَالٍ يَأْخُذُهُ: كَانَ بِمَنْزِلَةِ مُقَدَّمِ الْحَرَامِيَّةِ، الَّذِي يُقَاسِمُ الْمُحَارِبِينَ عَلَى الْأَخِيذَةِ، وَبِمَنْزِلَةِ الْقَوَّادِ الَّذِي يَأْخُذُ مَا يَأْخُذُهُ؛ لِيَجْمَعَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَلَى فَاحِشَةٍ، وَكَانَ حَالُهُ شَبِيهًا بِحَالِ عَجُوزِ السُّوءِ امْرَأَةِ لُوطٍ، الَّتِي كَانَتْ تَدُلُّ الْفُجَّارَ عَلَى ضَيْفِهِ، الَّتِي قَالَ اللهُ تَعَالَى فِيهَا: ﴿فَأَنجَينـٰهُ وَأَهلَهُ إِلَّا امرَأَتَهُ كانَت مِنَ الغـٰبِرينَ ﴿٨٣ [الأعراف: 83] . وَقَالَ تَعَالَى: ﴿فَأَسرِ بِأَهلِكَ بِقِطعٍ مِنَ الَّيلِ وَلا يَلتَفِت مِنكُم أَحَدٌ إِلَّا امرَأَتَكَ إِنَّهُ مُصيبُها ما أَصابَهُم﴾ [هود: 81]. فَعَذَّبَ اللهُ عَجُوزَ السُّوءِ الْقَوَّادَةَ بِمِثْلِ مَا عَذَّبَ قَوْمَ السُّوءِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ الْخَبَائِثَ، وَهَذَا لِأَنَّ هَذَا جَمِيعَهُ أَخْذُ مَالٍ لِلْإِعَانَةِ على الإثم والعدوان، وولي الأمر إنما نُصِبَ لِيَأْمُرَ بِالْمَعْرُوفِ، وَيَنْهَى عَنْ الْمُنْكَرِ، وَهَذَا هُوَ مَقْصُودُ الْوِلَايَةِ. فَإِذَا كَانَ الْوَالِي يُمَكِّنُ مِنْ الْمُنْكَرِ بِمَالٍ يَأْخُذُهُ، كَانَ قَدْ أَتَى بضد المقصود، مثل مَنْ نَصَّبْتَهُ لِيُعِينَكَ عَلَى عَدُوِّكَ، فَأَعَانَ عَدُوَّكَ عَلَيْكَ. وَبِمَنْزِلَةِ مَنْ أَخَذَ مَالًا لِيُجَاهِدَ بِهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، فَقَاتَلَ بِهِ الْمُسْلِمِينَ. يُوَضِّحُ ذَلِكَ أَنَّ صَلَاحَ الْعِبَادِ بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ؛ فَإِنَّ صَلَاحَ الْمَعَاشِ وَالْعِبَادِ فِي طَاعَةِ اللهِ وَرَسُولِهِ، وَلَا يَتِمُّ ذَلِكَ إلَّا بِالْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ، وَبِهِ صَارَتْ هَذِهِ الْأُمَّةُ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ[40]
’’جو ولی الامر (حاکم) منکرات وجرائم کو نہیں روکے گا اور حدود کا اجرا نہیں کرے گا اور مال لے کر چھوڑ دے گا، وہ چوروں کے سردار اور فحاشی کرنے والوں کے دلال جیسا ہے جو دو زانیوں کو باہم ملا دیتا ہے، دونوں کا ناجائز حصہ دار بن کر مال لیتا ہے۔ اس کا حال وہی ہوگا جو لوط ﷤ کی بے حیا بیوی کا ہوا جو فاسق وفاجر لوگوں کو لوط ﷤ کے مہمانوں کی خبر دیتی تھی، سو اس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’پس ہم نے لوط کو اور ان کے گھر والوں کو عذاب سے نجات دی، مگر اس کی بیوی کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا: ’’تو تم اپنے اہل وعیال کو لے کر راتوں رات نکل چلو اور تم میں سے کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھےسوائے تمہاری بیوی کے جو عذاب اوروں پر نازل ہوگا ،وہ اس کو بھی پہنچے گا۔‘‘ دیکھئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس بدترین بڑھیا کو جو دلالی کرتی تھی، اسی عذاب میں مبتلا کیا جو اس بدترین قوم اور خبیث وجرائم پیشہ لوگوں کو دیا۔ اور یہ اس لئے کہ تمام کا تمام مال لینا دراصل اثم وعدوان کی اعانت وامداد ہے۔ اور حاکم اس لئے بنایا جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دے۔ یہی حکومت اور مناصب کا اصل اسلامی مقصد ہے۔اگر حاکم مال لے کر اور رشوت وصول کرکے کسی منکر کو پھلنے پھولنے دے گا، تو گویا وہ اصل مقصد ِحکومت کے خلاف اور اس کی ضد پر قائم ہوگیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے کہ تم نے کسی کو دشمن کے خلاف لڑنے کو بھیجا اور وہ تمہارے ہی خلاف تمہارے دشمن کی اعانت وامداد شروع کردے۔ اور یہ بمنزلہ اس مال کے ہے کہ تم نے کسی جہاد میں خرچ کرنے کے لئے مال دیا اور وہ اسے مسلمانوں کے قتل کرنے میں ہی خرچ کررہا ہے۔
جان لیجئے کہ بندوں کی اصلاح، فلاح وبہبود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہوتی ہے۔ اس لئے کہ بندوں کی معاش ومعاشرت اور ان کی فلاح وبہبود اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہے۔ اور یہ اسی وقت پوری ہوتی ہے، جبکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو کیا جائے۔ اس نیک کام کی بنا پر امت محمدیہ خیر الامم اور امت وسط (بہترین) قرار دی گئی۔‘‘
شیخ ابن تیمیہ ﷫نے اس اقتباس میں ایسے مسلم حکام کی تردید کی اور اُنہیں ان کے انجام سے خبردار کیا ہے جو اپنے مفادات کے لئے لوگوں پر اللّٰہ کے قانون کو نافذ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔اور حاکم کے مفادات میں مال کے ساتھ، اس کی حمایت ونصر ت (آج کی زبان میں ووٹ) اور اس کی تائید شامل ہے کہ جب کوئی حاکم ان سستے دنیوی مفادات کے لئے اپنے اصل فریضہ ’اللّٰہ کے قانون کے نفاذ‘ سے دست بردار ہوجائے تو وہ گویا شیطان کا معاون اور مسلمان رعایا پر ظالم بن گیا۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے ان حکام کو حکومت اسی لئے دی ہے کہ وہ اللّٰہ کے قانون کو اللّٰہ کے بندوں پر نافذ کریں تو پھر اپنے اس فرض سے انحراف کرنا گویا لوگوں کے حق اطاعت کا استحصال ہے کہ مسلمان اپنے حاکم کی اطاعت اسی لئے ہی کرتے ہیں کہ وہ انہیں اللّٰہ کے راستے پر چلنے میں مدد دے گا، اور ان پر اللّٰہ کے دین کو قائم کرے گا۔جب حاکم یہ فریضہ ترک کرکے ، الٹا شیطان کا معاون بن گیا تو دنیا میں بھی خائب وخاسر اور آخرت میں بھی شرمسار اور جواب دہ ہوگا۔
تیسری قسم :امانتِ مالیہ
11.امانت کو عام طور پر اسی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس خیانت کی مذمت اور اس کی وجہ اللّٰہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَخونُوا اللَّهَ وَالرَّسولَ وَتَخونوا أَمـٰنـٰتِكُم وَأَنتُم تَعلَمونَ ﴿٢٧﴾ وَاعلَموا أَنَّما أَمو‌ٰلُكُم وَأَولـٰدُكُم فِتنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجرٌ عَظيمٌ ﴿٢٨﴾... سورةالانفال
’’اے ایمان والو! دیدہ دانستہ اللّٰہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ ہی تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لئے آزمائش ہیں اور اللّٰہ کے ہاں اجر دینے کو بہت کچھ ہے ۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا عبد الرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں:
’’امانتوں میں خیانت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ امانتوں سے مراد وہ تمام عہد معاہدے اور وہ ذمہ داریاں ہیں جو کسی انسان پر عائد کی گئی ہوں ۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ سے انسان کا عہد، عہدِ میثاق بھی ہے جس کو پورا کرنے پر انسان اللّٰہ کا نافرمان رہ ہی نہیں سکتا اور وہ عہد بھی جو انسان ذاتی طور پر اللّٰہ سے باندھتا ہے جیسے نذریں اور منتیں وغیرہ۔ اللّٰہ کے رسول ﷺسے خیانت یہ ہے کہ جن باتوں پر کسی مسلمان نے آپ سے بیعت کی ہے، ان میں فرار کی راہیں سوچنے لگے اور لوگوں سے معاہدے دین کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ صلح و جنگ کے سمجھوتے بھی، نکاح کے بھی، پھر انسان پر اس کے منصب کے لحاظ سے طرح طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ غرض اس آیت کے مضمون میں انسان کی پوری زندگی آ جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر واقعہ کے وقت متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی حال میں خیانت نہ کرے۔‘‘
مولانا مفتی محمد شفیع اس آیت کے تحت رقم طراز ہیں:
’’ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حقوق میں یا آپس میں بندوں کے حقوق میں خیانت نہ کریں کہ حق ادا ہی نہ کریں یا اس میں کوئی اور کوتاہی کرکے ادا کریں ۔ آخر آیت میں وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ فرما کر یہ بتلا دیا کہ تم تو خیانت کی برائی اور اس کے وبال کو جانتے ہی ہو پھر اس پر اقدام کرنا قرین دانش مندی نہیں اور چونکہ حقوق اللّٰہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے غفلت و کوتاہی کا سبب عموما انسان کے اموال و اولاد ہوا کرتے ہیں، اس لئے اس پر تنبیہ کرنے کے لئے اگلی آیت نازل ہوئی۔ ‘‘
12.  حصولِ اقتدار عموماً اختیار واقتدار اور چودھراہٹ کے لئے کیا جاتا ہے، اور اس کا دوسرا مقصد اموال کا جمع کرنا اورعزیز واقارب کے لئے منافع کا حصول ہے۔علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فَالْوَاجِبُ اتِّخَاذُ الْإِمَارَةِ دِينًا وَقُرْبَةً يُتَقَرَّبُ بِهَا إلَى اللهِ؛ فَإِنَّ التَّقَرُّبَ إلَيْهِ فِيهَا بِطَاعَتِهِ وَطَاعَةِ رَسُولِهِ مِنْ أَفْضَلِ الْقُرُبَاتِ. وَإِنَّمَا يَفْسُدُ فِيهَا حَالُ أَكْثَرِ النَّاسِ لِابْتِغَاءِ الرِّيَاسَةِ أَوْ الْمَالِ بِهَا.[41]
’’ضروری ہے کہ دین داری اور اللّٰہ کے تقرب ورضا کیلئے ہی اقتدار کو قبول کیا جائے۔ اور اقتدار میں اللّٰہ کا تقرب اللّٰہ کی اطاعت اور اسکے رسول کی اطاعت کے ذریعے کرنا، تقرب کی بہترین شکل ہے لیکن اکثر لوگوں کا حال خراب ہے کہ اقتدار کو چودھراہٹ یا حصول مال کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں کہ اقتدار اصلاً بری چیز نہیں، نہ ہی حکام کے پاس بیٹھنا، لیکن
وَلَمَّا غَلَبَ عَلَى كَثِيرٍ مِنْ وُلَاةِ الْأُمُورِ إرادة المال والشرف وصاروا بمعزل عن حقيقة الإيمان في ولايتهم رأى كثير من الناس أن الإمارة تنافي الْإِيمَانِ وَكَمَالِ الدِّينِ.[42]
’’جب اکثر حکام پر مال اور ناموری کی خواہش غالب آگئی اور اپنی حکومت میں انہوں نے حقیقت ایمان کو نظرانداز کردیا تو لوگوں نے بھی یہ سمجھنا شروع کردیا کہ اقتدار ایمان اور کمال دین کے منافی ہے۔‘‘
13.  جبکہ ان مقاصد کے لئے عہدے او رحصولِ اقتدار سراسر ناجائز ہے۔کیونکہ اقتدار کے یہ دو ناجائز مقاصد فرعون وقارون کے تھےاور ان کا دنیا وآخرت میں بدانجام سب کے سامنے ہے۔ نبی کریمﷺ نے ان دو مقاصد اقتدار کو بدترین ہلاکتیں قرار دیا ہے:
«مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ»[43]
’’ دو بھوکے بھیڑیے اگر بھیڑوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے جائیں تو وہ اس کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ دو چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں: کثرتِ مال اور نام ونمود کی خواہش۔‘‘
اقتدار واختیار اور مال ودولت روزِقیامت کسی کام نہیں آئیں گے، جیساکہ قرآن نے جہنمیوں کا نقشہ کھینچا ہے: ﴿ما أَغنىٰ عَنّى مالِيَه ﴿٢٨﴾ هَلَكَ عَنّى سُلطـٰنِيَه ﴿٢٩﴾... سورة الحاقة
’’میرے مال نے مجھے کچھ نفع نہ دیا اور میری حکومت بھی مجھ سے جاتی رہی ۔‘‘
اور ان دو ناجائز مقاصد کے لئے سیاست کرنے والا کس کا جانشین ہے؟ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وَغَايَةُ مُرِيدِ الرِّيَاسَةِ أَنْ يَكُونَ كَفِرْعَوْنَ، وَجَامِعِ الْمَالِ أَنْ يَكُونَ كَقَارُونَ، وَقَدْ بَيَّنَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ حَالَ فِرْعَوْنَ وَقَارُونَ.[44]
’’چودھراہٹ کا متلاشی فرعون جیسا اور مال کا حریص قارون جیسا ہے اور دونوں کا انجام اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خوب کھول کر بیان کردیا ہے۔‘‘           (جیساکہ اوپر کی آیت میں گزرا)
شاہ اسماعیل شہید نے حکومت کی دوسری قسم ’سلطنتِ جابرہ‘ قرار دی اور اس کا نقشہ یوں کھینچا :
’’سلطانِ جابر سے وہ شخص مراد ہے جس پر نفس امارہ اس قد رحکمران ہو کہ نہ تو اسے خوفِ خدا مانع ہوسکتا ہے اور نہ مخلوق کی شرم۔ نفس امارہ جو بھی اس سے کہے، بلاتکلف بجا لاتا ہے بلکہ سلطنت کا ثمرہ لذاتِ نفسانیہ کو پورا کرنا ہی سمجھتا ہے... کسی کو تکبر وجبر مرغوب ہے، کسی کو ناز وتبختر، کسی کو تعدی وجور، کسی کو فسق وفجور، کسی کو منشیات ومُسکِرات، کسی کو لذیذ کھانے، کسی کو نفیس لباس، کسی کو لہو ولعب اور کسی کو نَشاط وطرب...نفس امارہ کی ہوا وہوس کے ہزاروں مقدمات ہیں،سواس کے چند اصول اور بے شمارفروع ہیں۔جن میں سے
(1) ایک حبِ مال ہے: مال جمع کرنا ان کا بہترین مشغلہ اور بہترین لذت ہوتی ہے، خزائن ودفائن کی زیادتی کے ہر رستے کو تلاش کرتے ہیں۔ اہل زراعت وتجارت اور اغنیا وفقرا سے ایک ایک دانہ گن کے لیتے ہیں، ہر حیلے بہانے سے مال کو جمع کریں۔ خود بھی اور ان کے ہم نشین جمع مال میں ساری صلاحیتیں صرف کرتے ہیں، وہی مشیر باتدبیر اور امیر کبیر ہے جس نے جمع مال کی کوئی اچھی اور نئی تدبیر نکالی۔
(2) ان کا دوسرا اُصول غلبہ وتکبّر ہے: بعض لوگ فطرتاً اِدعا پسند، خود پسند، خود ستائی، سرکش ہوتے ہیں۔ اپنے کو بلند ، دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔ اپنے ادنیٰ ہنر کو دوسروں کے کمال کے مقابلہ میں بلند رتبہ سمجھتے ہیں۔ دوسرں کی ذلت کو اپنی عزت اور مسلمانوں کی عار کو اپنی عظمت خیال کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کوئی ان سے مشارکت نہ کرسکے، مشابہت کی راہ نہ پاسکے۔ ایسا شخص منصبِ سلطنت پر پہنچ کر تکبر سے رفتار وگفتار، نشست وبرخاست، القاب وآداب اور تمام عادات ومعاملات میں اپنے آپ کو ممتاز سمجھتا ہے۔مساوات کی راہ مسدوداور ہر اہم چیز کو اپنے لئے خاص کردیتا ہے۔ایسا حاکم چاہتا ہے کہ اس کے آئین وقوانین ،اصول دین اور احکام شرع متین کے مقابلہ میں عوام میں زیادہ مقبول ہوں۔ اس کا تو جی چاہتا ہے کہ اس کو بندگانِ الٰہی اور امتیان رسول سے بھی نہ ہی شمار کیا جائے۔
(3) ان کا تیسرا اُصول عیاشی ہے:سلطانِ جابر کی ساری توجہ قوتِ شہوانی سے مغلوب اور ساری ہمتیں لذاتِ نفسانیہ کی تکمیل اور جسمانی راحت کے حصول میں مشغول رہتی ہیں۔رات دن طعام مرغوب، لباس خوش اسلوب، وشربِ خمور میں مست رہتے ہیں۔ شطرنج بازی ومزمار نوازی اور محافل رقص وسرود کے برپا کرنے، اغلام وجماع میں منہمک رہنے والے،عمارتیں اور باغات بنانے میں لگے رہنے والے، فسق وفجور کی داد دینے والے۔ ان کے وزیر باتدبیرلہوولعب اور نشاط وطرب کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے اور اس کو کمال فن تک پہنچاتے ہیں۔ جہاں حکام یہ کام کریں تو رعایا میں ظلم وجور پھیل جاتا اور سلاطین کی یہ خرابیاں فسق وفجور، ظلم وتعدی اور فسادِ ملک کا سبب بن جاتی ہیں۔‘‘[45]
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی ترجیحات اور اپنی اپنی امانت کی تکمیل میں اپنے تعلقات: رشتے ناطے، دوستی ودشمنی، محبت وغیریت (الحبّ في الله) اورعزت و نسبت میں اسی بات کو پیش نظر رکھے کہ چودھراہٹ اور جمع مال کی بجائے رضاے الٰہی، اور اعلاے کلمۃ اللہ کی بنا پر اپنے فیصلے کرےجیساکہ اس پر بہت سی احادیث ِ نبویہ موجود ہیں۔ اس اور اس کے بچوں کی تعلیم اور پیشے، عادات وعلامات بھی دنیوی غلبہ اور حصولِ مال کی بجائے رضاے الٰہی اور اعلاے دین کے لئے ہوں۔ مسلمانوں کی اجتماعی ترقی کا رخ بھی علووفساد میں کثرت کی بجائے دینی ترقی کا مظہر ہوکیونکہ حکام کی طرح ہرانسان بھی اپنے گھربار اور اپنے آپ کا مسئول وامین ہے۔جب عام مسلمان اپنی اس ذمہ داری کوسمجھیں گے اور اسی کے مطابق عمل کریں گے، تو ان کے حکام بھی اسی طرزِ فکر وعمل کے حامل ہی ہوں گے۔یہی مسلم معاشرے کی اصلاح کا شرعی منہاج ہے۔
14.  مالی امانت ادا کرنے کی جزا:نبی مکرّمﷺ کا فرمانِ گرامی سیدنا ابو موسیٰ اشعری نے روایت کیا ہے:
«الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ»[46]
’’ امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔‘‘
15.خیانت کی سزا : جو شخص بھی قومی مال میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر صرف کرتا ہے، اس کے لئے نبی کریمﷺ کی یہ وعید کافی ہے جو سیدنا عمر﷜سے مروی ہے:
لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا عَلَى رَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ فِي النَّارِ فِي بُرْدَةٍ غَلَّهَا - أَوْ عَبَاءَةٍ -» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، اذْهَبْ فَنَادِ فِي النَّاسِ، أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ»، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَنَادَيْتُ: أَلَا إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ.[47]
’’خیبر ( کی جنگ ) کا دن تھا ، نبی ﷺ کے کچھ صحابہ آئے اور کہنے لگے : فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے ، یہاں تک کہ ایک آدمی کا تذکرہ ہوا تو کہنے لگے: وہ شہید ہے ۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، میں نے اسے ایک دھاری دار چادر یا عبا(چوری کرنے ) کی بنا پر آگ میں دیکھا ہے، پھر رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا :’’ اے خطاب کے بیتے ! جاکر لوگوں میں ا علان کر دو کہ جنت میں مومنوں کے سوا کوئی داخل نہ ہو گا ۔‘‘ انہوں نے کہا : میں باہر نکلا اور (لوگوں میں) اعلان کیا : متنبہ رہو! جنت میں مومنوں کے سوا اور کوئی داخل نہ ہو گا ۔‘‘
اس حدیث میں مالِ غنیمت میں سے مال چوری کرنے والے کو جہنمی بتانےکے بعد نبی کریم نے مؤمن کی بات کی ہے گویا ایسے شخص کا ایمان ہی خطرے میں ہے جو قومی مال میں خیانت کا مرتکب ہے۔ مدینہ یونیورسٹی کے استاذ شیخ عبد الرزاق محسن البدراس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
والإيمان إذا كان كاملاً قد أدّٰى به صاحبه الواجبات، وترك المحرمات فإنه يمنع دخول النار، ويدخل صاحبُه الجنة بدون حساب أو عقاب، وإذا كان ناقصاً بترك واجب، أو فعل محرم فإنه يمنع صاحبه من الخلود في النار
’’جب ایمان کامل ہو تو مؤمن کو واجبات کی ادائیگی اور محرمات کو چھوڑدینے کی طرف لے جاتا   ہے اور اس طرح آگ میں داخلہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اور مؤمن بلا حساب وعقاب جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور جب ایمان کسی واجب کو ترک کرنے کی بنا یا حرام کے ارتکاب کی بنا پر ناقص ہو تو مؤمن کو جہنم میں ہمیشہ رہنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے ۔‘‘
16.  امانت میں خیانت ایسا بڑا جرم ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، قَالَ أَحَدُهُمَا: يُنْصَبُ، وَقَالَ الآخَرُ: يُرَى يَوْمَ القِيَامَةِ، يُعْرَفُ بِهِ»[48]
’’قیامت کے دن ہر خائن (عہد شکن)کے لیے ایک جھنڈا ہوگا ، ان میں سے ایک صاحب نے بیان کیا کہ وہ جھنڈا (اس کے پیچھے مقعد میں ) گاڑ دیا جائے گا اور دوسرے صاحب نے بیان کیا کہ اسے قیامت کے دن سب دیکھیں گے ، اس کے ذریعہ اسے پہچانا جائے گا ۔‘‘
17.حکام کی مالی خیانت کی صورتیں: امام ابن تیمیہ ﷫ لکھتے ہیں:
وليس لولاة الأمور أَنْ يُقَسِّمُوهَا بِحَسَبِ أَهْوَائِهِمْ، كَمَا يُقَسِّمُ الْمَالِكُ مِلْكَهُ، فَإِنَّمَا هُمْ أُمَنَاءُ وَنُوَّابٌ وَوُكَلَاءُ، لَيْسُوا مُلَّاكًا؛ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَا أُعْطِيكُمْ وَلاَ أَمْنَعُكُمْ، إِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ»[49]. فَهَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّهُ لَيْسَ الْمَنْعُ وَالْعَطَاءُ بِإِرَادَتِهِ وَاخْتِيَارِهِ، كَمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ الْمَالِكُ الَّذِي أُبِيحَ لَهُ التَّصَرُّفُ فِي مَالِهِ، وَكَمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ الْمُلُوكُ الذين يعطون من أحبوا ويمنعون من أبغضوا، وَإِنَّمَا هُوَ عَبْدُ اللهِ، يَقْسِمُ الْمَالَ بِأَمْرِهِ، فَيَضَعُهُ حَيْثُ أَمَرَهُ اللهُ تَعَالىٰ.
’’حکام کو جائز نہیں کہ مال کو اپنی خواہش کے مطابق لوگوں میں بانٹتے پھریں، جیسے کوئی مالک اپنا ذاتی مال بانٹتا ہے۔کیونکہ حکام تو امین، نائب اور وکیل ہی ہیں، نہ کہ مالک جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: بخدا میں کسی کو د ےنہیں سکتا اورکسی سے روک نہیں سکتا ،میں توصر ف تقسیم کرنے والا ہوں، جہاں مجھے حکم دیا گیا ہے۔یہ رب العالمین کے   رسول کی خبر ہے کہ روکنا اور دینا ان کے ارادے اور اختیار میں نہیں، جیسا کہ مالک کو اپنے مال میں تصرف کی پور ی اجازت ہے اور جیسا کہ بادشاہ اپنے من پسند لوگوں کو دیتے اور ناپسند لوگوں سے روکتے ہیں۔ آپﷺ تو اللّٰہ کے بندے ہیں، مال کو اسی کے حکم سے تقسیم کرتے اور وہاں دیتے ہیں جہاں اللّٰہ نے حکم دے دیا ہے۔‘‘[50]
یہی رویہ نبی کریمﷺ کے خلفاے راشدین کا تھا ، چنانچہ سیدنا عمر ؓبن خطاب سے مروی ہے کہ
قَالَ رَجُلٌ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَوْ وَسَّعْت عَلَى نَفْسِك فِي النَّفَقَةِ مِنْ مَالِ اللهِ تَعَالَى، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَتَدْرِي مَا مَثَلِي وَمَثَلِ هَؤُلَاءِ؟ كَمِثْلِ قَوْمٍ كَانُوا فِي سَفَرٍ، فَجَمَعُوا مِنْهُمْ مَالًا، وَسَلَّمُوهُ إلَى وَاحِدٍ يُنْفِقُهُ عَلَيْهِمْ، فَهَلْ يَحِلُّ لِذَلِكَ الرَّجُلِ أَنْ يَسْتَأْثِرَ عَنْهُمْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ؟ وَحُمِلَ مَرَّةً إلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ مَالٌ عَظِيمٌ مِنْ الْخُمُسِ: فَقَالَ: إنَّ قَوْمًا أَدُّوا الْأَمَانَةَ فِي هَذَا لِأُمَنَاءَ. فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْحَاضِرِينَ: إنَّك أَدَّيْت الْأَمَانَةَ إلَى اللهِ تَعَالَى، فَأَدُّوا إلَيْك الْأَمَانَةَ، ولو رتعت لرتعوا.[51]
’’ایک شخص نے انہیں کہا: یا امیر المؤمنین! اللّٰہ کے مال سے اپنے اوپر تھوڑا سے خرچ کرلیا کریں تو عمر بولے:کیا تمہیں پتہ ہے کہ میری اور ان مسلمانوں کی کیامثال ہے، جیسے کچھ لوگ سفر میں ہوں اور اپنا مال جمع کرکے ایک شخص کے پاس اس لئے رکھوا دیں کہ ان پر خرچ کرے تو کیا اس کے لئے جائز ہے کہ ان کے مال سے لے لے۔ ایسے ہی ایک بار سیدنا عمر بن خطاب کے پاس خمس کا بہت زیادہ مال آیا تو آپ بولے: لوگوں نے اپنے امین (حکام) کو اپنی امانت دے دی ہے۔تو حاضرین میں سے ایک بولا: آپ نے اللّٰہ کی امانت ادا کی، تو انہوں نے آپ کی امانت ادا کی، اگر آپ کھاجاتے تویہ بھی کھالیتے۔‘‘
18.  اب جو حکام مسلمانوں کا مال ناجائز جمع کرکے مال مفت بنالیں، ان کا حکم
فَأَمَّا إذَا كَانَ وَلِيُّ الْأَمْرِ يَسْتَخْرِجُ مِنْ الْعُمَّالِ مَا يُرِيدُ أَنْ يَخْتَصَّ بِهِ هُوَ وَذَوُوه، فَلَا يَنْبَغِي إعَانَةُ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، إذْ كُلٌّ مِنْهُمَا ظَالِمٌ، كَلِصٍّ سَرَقَ مِنْ لِصٍّ، وَكَالطَّائِفَتَيْنِ الْمُقْتَتِلَتَيْنِ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَرِئَاسَةٍ؛ وَلَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَكُونَ عَوْنًا عَلَى ظُلْمٍ... إذَا كَانَتْ الْأَمْوَالُ قَدْ أُخِذَتْ بِغَيْرِ حَقٍّ، وَقَدْ تَعَذَّرَ رَدُّهَا إلَى أَصْحَابِهَا، كَكَثِيرٍ مِنْ الْأَمْوَالِ السُّلْطَانِيَّةِ؛ فَالْإِعَانَةُ عَلَى صَرْفِ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فِي مَصَالِحِ الْمُسْلِمِينَ كَسَدَادِ الثُّغُورِ، وَنَفَقَةِ الْمُقَاتِلَةِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ: مِنْ الْإِعَانَةِ عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى؛ إذِ الْوَاجِبُ عَلَى السُّلْطَانِ فِي هَذِهِ الْأَمْوَالِ -إذَا لَمْ يُمْكِنْ معرفة أصحابها وردها عَلَيْهِمْ، وَلَا عَلَى وَرَثَتِهِمْ -أَنْ يَصْرِفَهَا- مَعَ التَّوْبَةِ إنْ كَانَ هُوَ الظَّالِمَ- إلَى مَصَالِحِ الْمُسْلِمِينَ. هَذَا هُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ، كَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ، وَأَحْمَدَ، وَهُوَ مَنْقُولٌ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ، وَعَلَى ذَلِكَ دَلَّتْ الْأَدِلَّةُ الشَّرْعِيَّةُ.[52]
اگر حاکم اپنے عاملوں سے اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے مال جمع کرتا ہے تو ان دونوں کی مدد کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ دونوں ہی ایسے ظالم ہیں جیسے چور دوسرےچورسے چوری کرے یا دو جماعتیں عصبیت و چودھراہٹ کے لئے لڑیں۔ اور کسی مسلمان کو ظلم کا مددگار نہیں بننا چاہیے...اور اگر نا حق اموال جمع ہوجائیں اوران کو اصل مالکوں تک لوٹانا ناممکن ہو جیسا کہ اکثر سرکاری مال ایسے ہی ہیں تو ایسے مالوں کو مسلمانوں کی مصلحت میں صرف کردینا بہتر ہے، جیسے قلعے بنانا، مجاہدین کے اخراجات دینا وغیرہ ایسے کام جو نیکی وتقوی کی قبیل سے ہوں۔ کیونکہ حاکم پر ایسے اموال میں، جن کے مالکوں کی معرفت اور ان کو یا ان کے ورثا کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو وہ توبہ کرتے ہوئے ان کو مسلمانوں کی مصلحت میں صرف کرے۔یہی جمہور فقہا: مالک، ابو حنیفہ اور احمدرحمہم اللہ کا قول ہے، اور اکثر صحابہ سے یہی منقول ہے۔ شرعی دلائل اسی کی تائید کرتے ہیں ۔‘‘
جو حکام دنیا پرستوں میں مسلمانوں کا مال بانٹ دیتے ہیں، ان کی مذمت میں ابن تیمیہ رقمطراز ہیں:
وَلَا يَجُوزُ لِلْإِمَامِ أَنْ يُعْطِيَ أَحَدًا مَا لَا يَسْتَحِقَّهُ لِهَوَى نَفْسِهِ: مِنْ قَرَابَةٍ بَيْنَهُمَا، أَوْ مَوَدَّةٍ، وَنَحْوِ ذَلِكَ؛ فَضْلًا عَنْ أَنْ يُعْطِيَهُ لِأَجْلِ مَنْفَعَةٍ مُحَرَّمَةٍ مِنْهُ، كَعَطِيَّةِ الْمُخَنَّثِينَ مِنْ الصبيان الـمُرْدَان: الأحرار والمماليك ونحوهم، والبغايا والمغني، وَالْمَسَاخِرِ، وَنَحْوِ ذَلِكَ، أَوْ إعْطَاءِ الْعَرَّافِينَ مِنْ الْكُهَّانِ وَالْمُنَجِّمِينَ وَنَحْوِهِمْ... وَهَذَا النَّوْعُ مِنْ الْعَطَاءِ، وَإِنْ كَانَ ظَاهِرُهُ إعْطَاءَ الرُّؤَسَاءِ وَتَرْكَ الضُّعَفَاءِ، كَمَا يَفْعَلُ الْمُلُوكُ؛ فَالْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ؛ فَإِذَا كَانَ الْقَصْدُ بِذَلِكَ مَصْلَحَةَ الدِّينِ وَأَهْلِهِ، كان من جنس عطاء النبي ﷺ وخلفائه، وإن كان المقصود العلو في الأرض والفساد، كَانَ مِنْ جِنْسِ عَطَاءِ فِرْعَوْنَ.[53]
’’حاکم کے لئے جائز نہیں کہ اپنی خواہش نفس سے مال بانٹتا پھرے،محض اپنی قرابت داری یا پسند وغیرہ کی بنا پر۔ چہ جائیکہ وہ یہ مال ناجائز مقاصد کے لئے عطا کرے، جیسے خواجہ سراؤں، نوخیز بچوں، آزاد وغلام وغیرہ ، فاحشات اور گلوکاروں، مسخروں وغیرہ کو یا کاہنوں، فال نکالنے والے نجومیوں وغیرہ کو یہ مال دے۔... تاہم تالیف قلب کے لئے مال دینا ضروری ہے،بظاہریہ عطا   رؤسا کو ہے، ضعفا کو چھوڑ کر جیسا کہ بادشاہ کرتے ہیں، لیکن اس کا دارومدار نیت پر ہے۔ اگر حاکم کا مقصد دین اور اہل دین کی مصلحت   ہے تو یہ نبی کریم اور آپ کے خلفا کے عطیات کے مثل ہے اور اگر اس کا مقصد زمین میں برتری اور فساد ہے تو یہ فرعون کے عطیات جیسا ہے۔‘‘
جولوگ سرکاری مال کھاتے اور اس پر نظر رکھتے ہیں، ان کی مذمت میں ابن تیمیہ کہتے ہیں:
فَرِيقٌ غَلَبَ عَلَيْهِمْ حُبُّ الْعُلُوِّ فِي الْأَرْضِ وَالْفَسَادِ، فَلَمْ يَنْظُرُوا فِي عَاقِبَةِ الْمَعَادِ، وَرَأَوْا أَنَّ السُّلْطَانَ لَا يَقُومُ إلَّا بِعَطَاءٍ، وَقَدْ لَا يَتَأَتَّى الْعَطَاءُ إلَّا بِاسْتِخْرَاجِ أَمْوَالٍ مِنْ غَيْرِ حلها؛ فصاروا نهَّابين وَهَّابِينَ، وَهَؤُلَاءِ يَقُولُونَ: لَا يُمْكِنُ أَنْ يَتَوَلَّى على الناس إلا من يأكل ویُطعِم، فإنه إذا تولى العفيف الَّذِي لَا يَأْكُلُ وَلَا يُطْعِمُ سَخِطَ عَلَيْهِ الرؤساء وَعَزَلُوهُ؛ إنْ لَمْ يَضُرُّوهُ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ. وَهَؤُلَاءِ نَظَرُوا فِي عَاجِلِ دُنْيَاهُمْ، وَأَهْمَلُوا الْآجِلَ مِنْ دُنْيَاهُمْ وَآخِرَتِهِمْ، فَعَاقِبَتُهُمْ عَاقِبَةٌ رَدِيئَةٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، إنْ لَمْ يَحْصُلْ لَهُمْ مَا يُصْلِحُ عَاقِبَتَهُمْ مِنْ تَوْبَةٍ وَنَحْوِهَا.[54]
’’ایک گروہ ایسا ہے جن پر دنیا میں برتری اور فساد غالب آچکا ہے اور آخرت کے انجام سے وہ غافل ہوچکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقتدار عطیات کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا۔اور اکثر عطیات ناجائز ذرائع سے ہی جمع کیے جاتے ہیں۔ تو یہ حاکم لوٹ کھسوٹ کرعطا یا دینے والے بن گئے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ جو کھاتا کھلاتا نہیں ہے ، وہ حکومت نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی پاک دامن جو نہ خود کھائے ، نہ کھلائے حاکم بن جائے تو اس پر یہ رؤسا ناراض ہوجاتے ہیں اور اس کو جان ومال نہ لے پائیں تو اس کو معزول کرکے چھوڑتے ہیں۔ یہ وہ بدبخت ہیں جو فوری دنیا کے متلاشی، اور اپنی دنیا وآخرت کے وعدوں سے غافل ہیں۔ اگر انہوں نے توبہ کرکے اپنی عاقبت نہ سنواری تو ان کا دنیا وآخرت میں انجام بدترین ہے ۔‘‘
19.امانت میں خیانت کی ایک شکل یہ بھی نبی کریمﷺ نے بیان فرمائی کہ کسی حاکم کو اگر کوئی تحفہ دیا جائے تو وہ اسے اپنے لئے رکھ لے جبکہ وہ بیت المال کا ہے۔چنانچہ سیدنا أبو حمید ساعدی﷜ سے مروی ہے کہ
اسْتَعْمَلَ النَّبِيُّ ﷺ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ، يُقَالُ لَهُ ابْنُ الأُتْبِيَّةِ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، قَالَ: «فَهَلَّا جَلَسَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ أَوْ بَيْتِ أُمِّهِ، فَيَنْظُرَ يُهْدَى لَهُ أَمْ لاَ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَأْخُذُ أَحَدٌ مِنْهُ شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ القِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ، إِنْ كَانَ بَعِيرًا لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةً لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةً تَيْعَرُ» ثُمَّ رَفَعَ بِيَدِهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَةَ إِبْطَيْهِ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ، اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ» ثَلاَثًا.[55]
’’قبیلہ اَزد کے ایک صحابی کو جنہیں ابن اتبیہ کہتے تھے، رسول اللّٰہ ﷺنے صدقہ وصول کرنے کے لیے عامل بنایا۔ پھر جب وہ واپس آئے تو کہا کہ یہ تم لوگوں کا ہے(یعنی بیت المال کا ) اور یہ مجھے ہد یہ میں ملا ہے۔ اس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ وہ اپنے والد یا اپنی والدہ کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا۔ دیکھتا وہاں بھی انہیں ہد یہ ملتا ہے یا نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس میں سے اگر کوئی شخص کچھ بھی ( ناجائز ) لے لے گا تو قیامت کے دن اسے وہ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اگر اونٹ ہے تو وہ اپنی آواز نکالتا ہوا آئے گا، گائے ہے تو وہ اپنی اور اگر بکری ہے تو وہ اپنی آواز نکالتی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ ہم نے آپ کی بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لی ( اور فرمایا ) اے اللّٰہ ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔ اے اللّٰہ ! کیا میں نے تیرا حکم پہنچادیا۔ تین مرتبہ ( آپ ﷺنے یہ فرمایا )۔‘‘
امام نووی صحیح مسلم میں اس حدیث کی روایت کے بعد یوں تشریح کرتے ہیں:
في هذا الحديث بيان أن هدايا العمال حرام، ولهذا ذكر في الحديث عقوبته وحمْله ما أُهدي إليه يوم القيامة، وقد بيّن ﷺ في نفس الحديث السبَبَ في تحريم الهدية عليه، وأنها بسبب الولاية، بخلاف الهدية لغير العامل، فإنها مستحبة، وحكم ما يقبضه العامل ونحوه باسم الهدية أنه يرده إلى مُهْديه، فإن تعذر: فإلى بيت المال[56].
’’یہ حدیث بتاتی ہے کہ ملازموں کے تحائف ان کے لئے حرام ہیں، اسی لئے حدیث میں ان کی سزا اور روز قیامت ان کو اٹھاکر لانے کی وعید ذکر کی گئی ہے۔ پیش نظر حدیث میں ہی نبی کریم نے اس تحفہ کی حرمت کا سبب ذکر کیا ہے کہ جو تحفہ حاکم ؍عامل ہونے کی بنا پر ملے برخلاف ان ہدایا کے جو عہدیدار کو نہیں ملتے تو وہ تحفے مرغوب ہیں۔ ایسے تحفہ کا حکم یہ ہے جو عہدیدار کو تحفہ کے نام پر ملیں کہ وہ دینے والے کو لوٹا دیے جائیں ، اگر یہ کرنا ناممکن ہو تو پھر بیت المال میں جمع کرادیے جائیں۔‘‘
امریکی قانون یہ ہے کہ امریکی صدر کو ملنے والے جو تحفے 390 ڈالر کی مالیت سے زائد ہوں، ان کو قومی خزانے میں جمع کرایا جائے یا حاکم ایسی زیادہ مالیت والے تحائف کو قیمت ادا کرکے خرید سکتا ہے۔[57]
t  امانت میں عائلی امانتیں بھی شامل ہیں کہ زوجین کو ایک دوسرے کا امین ہونا چاہیے اور اس میں مجلس کی امانت بھی شامل ہے۔الغرض امانت یا امین سے مراد صرف لغوی امین نہیں ،بلکہ امانت ایک شرعی اصطلاح ہے جس کو قرآن وسنت نے متعدد مفاہیم کے لئے استعمال کیا ہے۔ان میں دین، اموال، علوم ومعارف، مناصب وذمہ داری، گواہیاں اور فیصلے، لکھنا اور روایت کرنا، رازوں اور پیغامات کی حفاظت کرنا، سمع وبصر اور تمام حواس کی امانت داری کا خیال رکھنا وغیرہ شامل ہیں۔
خلاصہ : مذکورہ بالا سطور میں امانت کے ساتھ ساتھ مناصب کے لئے مطلوبہ دیگر اہم شرعی صفات کا قرآن واحادیث سے تذکرہ کرنےکے بعد یہ ثابت کیا گیا ہے کہ (1) امین وامانت شریعتِ اسلامیہ کا اہم حکم ہے جس میں ’اللہ کے تمام فرائض کو اس کے احکامات کے مطابق انجام‘ دینےکا مطالبہ پایا جاتا ہے۔اور یہی وہ امانت ہے جو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے اور دنیا میں آنے بلکہ عطاے عقل کی بنیاد بنی، اور اسی کی بنا پر روزِ محشر انسان کی جزاوسزا ہوگی۔ امانت کے شرعی تقاضے میں   فرد او رمعاشرہ کی ہر سطح مخاطب ہے کیونکہ اللہ نے سب کو ہی ذمہ دار بنایا ہے۔(2)فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’مناصب امانت اور ندامت ہیں۔‘‘ اور کسی منصب کے لئے حاکم پر اللہ کی کامل اطاعت از بس ضروری ہے اور عہدیدار کا کام ہے کہ قرابت داری اور اُمیدواری کی بجائے سراسر شرعی اہلیت کی بنا پر ہی ذمہ داریاں دے، ا س کے پیش نظر دنیوی جاہ وجلال، ذاتی تقویت اور جمع مال ہرگز نہ ہو،   وہ اپنے ماتحتوں میں اللہ کے دین کو قائم کرنے والا ہو، وگرنہ وہ بقول امام ابن تیمیہ: خائن اور چوروں کا سردار ہے اور اس کا ربّ اس سے ناراض ہے۔ فرمانِ نبویؐ کے مصداق ’’ایسا حاکم جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘
(3) امانت کی تیسری صورت مالی ہے۔حب ِجاہ ومال فرعون وقارون کی صفات ہیں، ان کا بدتر انجام سب پر واضح ہے۔ حاکم کی مالی خیانت یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کا مال ذاتی جاگیر سمجھ کر لوگوں میں بانٹے، اعلائے کلمۃ اللہ کی بجائے اپنے اقتدار اور خواہشات کے لئے اس مال کو بے جا استعمال کرتا پھرے۔ لوگوں کے اموال کی بہانے بہانے سے لوٹ کھسوٹ اس کا مشغلہ ہو، تو اس کے اعوان وانصار کو ناجائز مال دینا گناہ میں اس کی مدد کرنا ہے اورایسے مال کو اصل مالکوں تک لوٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ فرمانِ رسولﷺ کے مطابق ’’خائن حاکم روزِ قیامت اپنی مقعد پر رسوائی کا جھنڈا ‘‘لے کر بدنامی کا شعار اور جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔
حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ ’امین وصادق کی شرط‘ پر روزنامہ پاکستان میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’63،62دفعات کااطلاق صرف ممبرانِ اسمبلی ہی کے لیے ضروری نہ ہوبلکہ تمام سرکاری اہل کاروں بالخصوص بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائزافراد کے لیے بھی ضروری قراردیاجائے۔ یہ نہایت اہم اورضروری ہے۔ ہر محکمے میں جس طرح کرپشن عام ہے اورجس کے پاس جتنابڑا عہدہ ہے، وہ اتناہی کرپٹ ہے۔ افسرانِ بالاکی کرپشن کی داستانیں آئے دن اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے۔ اس کاحل یہی ہے کہ ان دفعات کے اطلاق کو وسیع کیاجائے اورسرکاری اہل کاروں بالخصوص افسران بالاکو اس شکنجے میں کسنے کااہتمام کیاجائے :            ؏              نوارَا تلخ ترمی زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
آئین کی 63،62دفعات کے خاتمے کارجحان نہایت خطرناک ہے، اس کامطلب تویہ ہوگاکہ اسلام کے جس حکم پربھی ہم عمل کرنا نہ چاہیں یاہمیں اس پرعمل کرنامشکل نظرآئے توہم یہ مطالبہ کریں کہ اس کو سرے سے ختم ہی کردیاجائے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!!
زیربحث دفعات اسلامی احکام پرمبنی ہیں اوراسلام کاکوئی حکم ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے لیے ان پر عمل کر ناممکن نہ ہو۔جس وقت 62،63 دفعات کو دستور کا حصہ بنایا گیا، صورتِ حال یکسر تبدیل ہو چکی تھی، سیاست دان یا غیر سیاسی لوگ سب دولت کی ہوس کا شکار تھے اور کرپشن کی داستانیں عام تھیں، اس کے سدباب کے لئے مذکورہ دفعات نافذ کی گئیں جو فی الواقع اخلاص پر مبنی تھیں، نہ کہ بدنیتی پر۔ اب کرپشن کی صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہے ، اس لئے یہ دفعات نہایت ضروری ہیں، تاکہ کرپٹ لوگ سیاست میں نہ آ سکیں اور اگر آ جائیں تو ان کا محاسبہ کیا جا سکے۔ اس لئے ان دفعات کی اہمیت، افادیت و ضرورت، بلکہ ناگزیریت مسلم ہے۔‘‘        (ڈاکٹر حافظ حسن مدنی)
افسوس ناک خبر
شیخ التفسیر حافظ محمد حسین روپڑی ﷫ کی دختر اورمدیر اعلیٰ ’محدث‘ مولانا ڈاکٹر حافظ عبد الرحمٰن مدنی ﷾ کی بڑی ہمشیرہ حافظہ امۃ اللہ حسین روپڑی 25؍ستمبر 2017ء کو 87 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئیں۔مرحومہ اپنے خاندان کی مربیہ اور شرعِ متین کی عالمہ تھیں۔آ پ نے اپنےوالدِ گرامی اور چچا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ سے بڑے ذوق وشوق سے دینی علوم سیکھے۔زندگی بھر عباداتِ نوافلہ کاخصوصی   اہتمام کیا۔ جامعہ لاہور اسلامیہ میں آپ کے جنازے میں علماے کرام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
قارئین کرام سے ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے دعا کی درخواست ہے۔       ادارہ
حوالہ جات
[1]    http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40753819         مؤرخہ: 28 جولائی 2017ء
[2]    اٹھارویں ترمیم 2010ء، نمبر 10 کی دفعہ 20 کی رو سے آرٹیکل 62 کو اس متن سے تبدیل کردیا گیا۔
[3]    http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40665400         مؤرخہ 28 جولائی 2017ء
[4]    دعوت الیٰ اللّٰہ میں انبیاے کرام کا منہج ،ترجمہ   منهج الأنبياء في الدعوة الى الله: ص104، ناشر:مکتبہ احیاء منہج السلف: 2011ء
[5]    مستدرك حاكم: 1؍ 628، دار الحرمین، مصر؛       مسند احمد: 24؍262، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت
[6]    صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ بَعْثِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ...: رقم 4351
[7]    جامع ترمذی:رقم 1213 وقال: حديث حسن غريب صحيح، سنن نسائی:7؍294، البيوع: باب البيع إلى أجل معلوم، وقال محقق «جامع الأصول»: إسناده صحيح. (10؍ 660)
[8]    الرحیق المختوم عربی: 1 ؍84 بحوالہ سیرۃ ابن ہشام
[9]    صحيح البخاري: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ )بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ النَّاسَ إِلَى الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّةِ)،رقم 2941
[10] مسند احمد: مسند علی بن ابی طالب، رقم 859، قال شعیب ارناؤط: اسنادہ ضعیف
[11] صحيح البخاري: كِتَابُ أَخْبَارِ الآحَادِ )بَابُ مَا جَاءَ فِي إِجَازَةِ خَبَرِ الوَاحِدِ)، رقم 7254
[12] صحيح البخاري: كِتَابُ المَغَازِي (بَابُ قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ)،رقم 4382
[13] مسنداحمد : 1؍47... وقال أحمد شاكر: إسناده صحيح، وأصل الحديث في البخاري. (1؍ 295)
[14] صحيح البخاري: كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ (بَابُ قَوْلِ اللهِ: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ)
[15] «...أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟»صحيح بخاری: رقم 4971 ... سورة یوسف: 27،51 اور سورہ مریم:54
[16] مسند احمد: رقم 12383، قال شعیب ارناؤط: حدیث حسن
[17] فیض القدیر از مناوی:1؍288
[18] الكليات لقاضی أبو البقاء الكفوي 1094ھ، (176، 186) بحوالہ موسوعة نضرة النعیم ... زیر الأمانة
[19] تفسير القرطبي: 14؍ 253- 258
[20] تفسير النيسابوري (بهامش الطبري) :10 ؍ 34، 35، حاشیہ 22
[21] تفسير ابن كثير : 3؍ 530
[22] ویب سائٹ’الاسلام سؤال وجواب‘:رقم 145741
[23] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ كَرَاهَةِ الْإِمَارَةِ بِغَيْرِ ضَرُورَةٍ)، رقم 4719
[24] ﴿وَإِذ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنى ءادَمَ مِن ظُهورِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَأَشهَدَهُم عَلىٰ أَنفُسِهِم أَلَستُ بِرَبِّكُم قالوا بَلىٰ شَهِدنا أَن تَقولوا يَومَ القِيـٰمَةِ إِنّا كُنّا عَن هـٰذا غـٰفِلينَ ﴿١٧٢﴾... سورۃ الاعراف
"اور جب آپ کے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا : '' کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟'' وہ (ارواح) کہنے لگیں : ''کیوں نہیں! ہم یہ شہادت دیتے ہیں'' (اور یہ اس لیے کیا) کہ قیامت کے دن تم نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بالکل بےخبر تھے۔‘‘
[25] ‌صحيح البخاري: كِتَابُ العِتْقِ (بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّطَاوُلِ)، رقم 2554
[26] حلیۃ الاولیاء:2؍125، سیر اعلام النبلاء: 4؍13 مختصرا، تاریخ دمشق از ابن عساکر: 27؍223... بحوالہ السیاسۃ الشرعیہ: 36
[27] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ اسْتِحْقَاقِ الْوَالِي الْغَاشِّ لِرَعِيَّتِهِ النَّارَ)، رقم 364
[28] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: ص 37
[29] یہاں نیابتِ الٰہیہ کی اضافت تشریفی ہے جس کے لئے زیادہ موزوں تعبیر ’اللّٰہ کے نمائندے‘ کی ہے، جیساکہ اسلام میں عوام کی طرف سے بھی حکام کی نمائندہ حیثیت کا تصوّر ہے جن کو وہ علاقائی کی بجائے ملی طور پر اپنا نمائندہ بناتے ہیں۔
[30] وکیل: من يفوض إليه أمر شخص قاصر ’’جس کو كسی قاصر شخص كے کام کی ذمہ داری تفويض كی جائے۔‘‘
[31] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: ص 37
[32] «سَتَكُونُ أُمَرَاءُ فَتَعْرِفُونَ وَتُنْكِرُونَ، فَمَنْ عَرَفَ بَرِئَ، وَمَنْ أَنْكَرَ سَلِمَ، وَلَكِنْ مَنْ رَضِيَ وَتَابَعَ» قَالُوا: أَفَلَا نُقَاتِلُهُمْ؟ قَالَ: «لَا، مَا صَلَّوْا»(صحيح مسلم: 4800) ’’جلد ہی ایسے حکمران ہوں گے کہ تم انہیں (کچھ کاموں میں) صحیح اور (کچھ میں) غلط پاؤ گے۔ جس نے (ان کی رہنمائی میں) نیک کام کیے وہ بَری ٹھہرا اور جس نے (ان کے غلط کاموں سے) انکار کر دیا وہ بچ گیا لیکن جو ہر کام پر راضی ہوا اور پیروی کی (وہ بَری ہوا، نہ بچ سکا۔)‘‘ صحابہ نے عرض کی: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں (جنگ نہ کرو)۔‘‘
[33] السياسة الشرعية لابن تيمية 63: 1؍37، فتاویٰ ابن تیمیہ: 28؍261
[34] موطا امام مالك، سنن بیہقی، مصنف عبد الرزاق :2038... حافظ ابن عبد البر نے اس کو ’موصول‘ ذکر کیا ہے۔
[35] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: ص 63
[36] ’منصبِ امامت‘از شاہ اسمٰعیل شہید: ص 178، ناشر : حنیف اینڈ سنز، 2008ء
[37] ’منصبِ امامت‘از شاہ اسمٰعیل شہید: ص86
[38] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: ص 63
[39] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: ص 77
[40] السياسة الشرعية لابن تيمية: ص58
[41] السياسة الشرعية لابن تيمية :130
[42] السياسة الشرعية لابن تيمية :132
[43] جامع الترمذي، أَبْوَابُ الزُّهْدِ عَنْ رَسُولِ الله ﷺ، بَابُ حَدِیثِ مَا ذِئْبَانِ: رقم 2376
[44] السياسة الشرعية لابن تيمية :132
[45] ’منصبِ امامت‘از شاہ اسمٰعیل شہید: ص151 تا 164... حكام کی خرابیوں کی تفصیلات کے ساتھ ان کے شرعی حل بھی مذکور ہیں۔
[46] ‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِجَارَةِ )بَابُ اسْتِئْجَارُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ)، رقم 2260
[47] صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ غِلَظِ تَحْرِيمِ الْغُلُولِ...)،رقم 309
[48] ‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجِزْيَةِ (بَابُ إِثْمِ الغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالفَاجِرِ)،رقم 3186
[49] صحيح البخاري: كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ (بَابُ قَوْلِ اللهِ تَعَالَى: فَأَنَّ للهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ)، رقم3117
[50] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: 95
[51] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: 97
[52] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: 146
[53] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: 158 ،164
[54] السياسة الشرعية لابن تيمية مع شرح ابن عثيمين: 174
[55] صحيح البخاري: كِتَابُ الهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا (بَابُ مَنْ لَمْ يَقْبَلِ الهَدِيَّةَ لِعِلَّةٍ)،رقم 2597
[56] شرح النووی على مسلم:6؍462
[57] http://www.bbc.com/urdu/world-41295804              مؤرخہ:16 ستمبر 2017ء