دہشت گردی، اسلام اور پاکستان
مملکت ِخداداد پاکستان اِن دنوں بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اورقتل و غارت کی شدید زد میں ہے۔ ہر سنجیدہ فکر آدمی اِس صورت حال پر پریشان اور مضطرب ہےاور پورے معاشرے میں عدمِ تحفظ کا شدید احساس پیدا ہوچکاہے۔ جہاد ِافغانستان اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے بعد سے پاکستان سیاسی، مذہبی اور عالمی طور پر ایسے حالات سے دوچار ہے جس میں دہشت گردی اور تخریب کاری روز بروز اپنا دائرئہ اثربڑھا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں جس خوفناک دہشت گردی نے مستقل روایت کی حیثیت اختیار کرلی تھی، چند سالوں میں اس صورت ِحال میں خاصی بہتریآئی ہے۔ لیکن اِس دہشت گردی کے اثرات اور واقعات آج بھی اہل وطن کی تلخ یادوں میں محفوظ ہیں۔کراچی کا نام آتے ہی جبر و تشدد اور قتل وغارت سے بھرپور شب وروز؛ ٹارچر سیل، بوری بند لاشیںاور ہیبت ودہشت سے لبریز واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔ کچھ موزوں اقدامات اور بعض عالمی و سیاسی مفادات تبدیل ہونے سے اس دہشت گردی میں تو خاطر خواہ کمی ہوگئی لیکن کراچی کا وہ سابقہ امن و امان اور تجارتی حیثیت دوبارہ بحال نہ ہوسکی۔ اس دہشت گردی نے قوم سے لا تعداد نابغہ روزگار فرزندوں کا خراج لیا۔ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والی شخصیات میں علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا یوسف لدھیانوی، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک، پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب، زہیر اکرم ندیم، عظیم طارق، خالد ولید، سلیم قادری، ظہور الحسن بھوپالی،عبداللہ شاہ اور جسٹس نظام احمدسے لے کر میرمرتضیٰ بھٹو، مدیر تکبیر جناب صلاح الدین اور حکیم محمد سعید جیسی قد آور شخصیات شامل ہیں۔
روزنامہ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ۷ برسوں میں ۱۰۰۰ سے زیادہ دھماکے پاکستان میں ہوچکے ہیں۔ یوں تو وطن ِعزیز میں امن و امان اور سکون و اطمینان کی صورت ِحال کافی عرصے سے مخدوش ہے لیکن گذشتہ دو ماہ میں دہشت گردی نے ایک بار پھر پاکستان میں سرفہرست مسئلہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ ان دنوں ایک تسلسل کے ساتھ ہر ہفتے دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہورہا ہے۔ دہشت گردی کی یہ لہر پاکستان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں بھی نظر آتی ہے۔ چنانچہ ترکی اور چیچنیا کے علاوہ عراق، افغانستان اورسعودی عرب بطورِ خاص اس کانشانہ ہیں۔جبکہ فلسطین پر اسرائیلی دہشت گردی کا تسلسل برسوں کی طرح جاری ہے۔
جہاں تک عراق و افغانستان کی بات ہے تو ملکی وسیاسی عدم استحکام اور سنگین امریکی جارحیت و بربریت کی و جہ سے یہ ممالک تو ویسے ہی حالت ِجنگ میں ہیں، اس لئے ان میں دہشت گردی کا جائزہ دیگر حوالوں سے بھی لیا جاسکتا اور اس کا جواز پیدا ہوسکتا ہے۔ جبکہ پاکستان اور سعودی عرب میں جاری دہشت گردی بعض ایسے شکوک و شبہات اور اندیشے اپنی جلو میںلاتی ہے، جن کا سنجیدہ مطالعہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
زیر نظر مضمون میں پاکستان کی صورتِ حال کا تفصیلی تجزیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سعودی عرب میں جاری دہشت گردی کو بھی موضوعِ بحث بنائیں گے اور دونوں کے پس پردہ عوامل جاننے کے علاوہ اس دہشت گردی سے مزعومہ نتائج اور امکانات کی نشاندہی بھی کریں گے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پاکستان میںگذشتہ دو ماہ کی دہشت گردی کا ایک مختصر جائزہ قارئین محدث کے لئے پیش خدمت ہے :
(۱) پاکستان میں دہشت گردی؛ایک جائزہ
حالیہ دہشت گردی اس اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے کہ اس میں مذہبی اور سیاسی شخصیات و اجتماعات سے لے کر فوجی رہنماؤں، قومی اہمیت کی تنصیبات اور عوام الناس کو ضروری سہولتوں کی فراہمی کے مراکز تک کو تباہی و تخریب کا نشانہ بنایا گیاہے۔ دہشت گردوں کا دائرہ کار بھی چاروں صوبوں میں پھیلا ہوا ہے۔ کارروائیاں اس قدر منظم منصوبہ بندی کانتیجہ ہیں کہ تاحال کسی بھی واقعہ کا مجرم قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔جن ملزمان پر حکومتی حلقوں نے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے ہیں، تاحال ان میں کوئی الزام پایہ ثبوت کونہیں پہنچ سکا، صرف حکومتی ذمہ داروں کے دعوے اور زبانی جمع خرچ ہے۔ اس طرح ان کارروائیوں سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے...!!
۶؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کو نئی تشکیل شدہ جماعت 'ملت ِاسلامیہ' کے سربراہ مولانا اعظم طارق کے سانحہ قتل کے بعد نئے سال کے آغاز میں صدر جنرل پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے کئے گئے جن میں ایک حملہ خود کش بتایا جاتا ہے۔
1. اس سے کچھ دنوں بعدہی بلوچستان میں گیس کی سپلائی کو منقطع کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے تخریب کاری کی دو تین وارداتیں ہوئیں جس کے بعدحکومت کو خصوصی انتظامات کرنا پڑے۔
2. مزید برآں ۲۳ مارچ کو بجلی ٹرانسمیشن لائنوں پر تخریب کاروں کے حملے کے نتیجے میں بلوچستان تاریکی میں ڈوب گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس تخریب کاری میں القاعدہ یا قبائلی باغی ملوث نہیں۔ حملے کے نتیجے میں صوبہ کو جانے والی ۶۰۰ میں سے ۳۷۵ میگا واٹ بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی ہے۔ کیسکو کے ترجمان جبریل خان کے مطابق حملے سے لائنوں کو کافی نقصان پہنچا ہے اور چار ٹاور مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں۔ (روزنامہ جنگ ۲۵ مارچ۲۰۰۴ء)
3. ۴مئی کو گوادر میں ایک کار بم دھماکے میں تین چینی انجینئر ہلاک ہوگئے، اس دہشت گردی کے مقاصد میں پاک چین دوستی میں رخنہ ڈالنے کے علاوہ گوادر ائیر پورٹ کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا بھی شامل تھا۔
4. بلوچستان میں ہی دہشت گردی کا المناک اور سنگین سانحہ ۱۰ محرم الحرام یکم مارچ ۲۰۰۴ء کو ہوا جسے 'سانحہ کوئٹہ' کا نام دیا گیا۔ اس واقعہ میں دہشت گردوں نے پولیس کی وردی میں جلوس کے راستے میں پڑنے والی عمارتوں کی چھتوں پر چڑھ کر پوزیشنیں سنبھالیں اور ان کی فائرنگ سے ۳۶ ؍افراد جاں بحق ہوئے۔ واقعہ کی سنگینی اس قدر زیادہ تھی کہ شیعہ رہنما علامہ جان علی کاظمی نے فوج کے اس میں ملوث ہونے کاالزام لگایا اور متعلقہ افراد کو گرفتار نہ کرنے اور ایف آئی آر درج نہ کرنے تک ۳۶ ہلاک شدگان کو دفن نہ کرنے کاعزم ظاہر کیا۔
5. بلوچستان میں دہشت گردی کا پانچواں واقعہ ۲۱ مئی کی شب کو رونما ہوا جب گوادر ائیرپورٹ پر ۷،۸ راکٹ برسائے گئے۔
6. اس سلسلے میں دہشت گردوں کا اگلا نشانہ سوئی ائیر پورٹ تھا۔ ۱۸ جون کو بلوچستان کے علاقے سوئی میں راکٹ حملے اور ڈائنا میٹ پھٹنے سے ائیرپورٹ کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہوگئی جس کے نتیجے میں نہ صرف تمام پروازیں روک دی گئیں بلکہ بجلی کی ترسیل کا نظام بھی متاثر ہوا۔ اس حادثے کے سلسلے میں ائیرپورٹ چوکیدار گل حسن بگٹی کے علاوہ مزید دو افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کردیا گیا۔ علاوہ ازیں ایف سی چیک پوسٹ اور رہائشی کالونیوں پر ۵۶ راکٹوں سے حملہ کیا گیا جس سے ۷ مکانوں کو نقصان پہنچا۔ اخباری ذرائع کے مطابق فرنٹیر کور اور دہشت گردوں کے درمیان ایک گھنٹہ تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد حملہ آور فرار ہوگئے اور کسی کی گرفتاری عمل میں نہ آئی۔(روزنامہ نوائے وقت، ۲۲ جون ۲۰۰۴ء)
7.یاد رہے کہ سوئی میں ۶ جون کو بھی ایف سی قلعہ اور تھانے پر ۴۳ راکٹ داغے گئے تھے جس سے کنٹرول روم تباہ ہوگیا ۔
سوئی میں اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد ایران سے بھارت گیس پائپ لائن لے جانے کامنصوبہ بھی سوالیہ نشان بن گیا۔ کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس قدر نااہلی اور کوتاہی کے تناظر میں یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کسی ایسی بڑی ذمہ داری کے تقاضے نبھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔یہ تو صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کے پانچ نمایاں واقعات کا مختصر تذکرہ تھا۔ یاد رہے کہ ان واقعات میں کوئٹہ کے حادثہ کے علاوہ باقی تمام واقعات قومی تنصیبات اور منصوبوں کو سبوتاژ کرنے اور متاثر کرنے پر مشتمل ہیں۔
صوبہ سندھ (کراچی)
1. بلوچستان سے آغاز ہونے والی دہشت گردی آہستہ آہستہ کراچی میں جکڑ پکڑنے لگی۔ کراچی میں حالیہ دہشت گردی کا آغاز شیعہ عبادت گاہ میں بم دھماکہ سے ہوا جو ۸ مئی کو شاہراہِ لیاقت پرواقعہ مسجد حیدری پر نمازِ جمعہ سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہوا۔ اس کے نتیجے میں ۲۳ افراد جاں بحق اور ۲۰۰ افراد شدید زخمی ہوگئے۔ اس دھماکے کے بعد عوام کی احتجاجی کارروائیوں میں گاڑیاں اور پٹرول پمپ نذرِ آتش ہوئے اور شہر بھر میںاس قدر افراتفری پھیل گئی کہ پولیس کو لاٹھی چارج اور شیلنگ کا سہارا لینا پڑا۔ اس دھماکہ کا قومی معیشت پر پہلا اثر یہ پڑا کہ کراچی سٹاک مارکیٹ میں ۲۰؍ارب ڈوب گئے۔ صوبائی مشیرآفتاب شیخ نے دھماکہ کے بارے میں خود کش حملہ کا اندیشہ ظاہر کیا لیکن دیگر ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ ( اخبارات:۸مئی )
2. ۸ مئی کو دہشت گردی کی اس کارروائی کے بعد کراچی میں ۲۶مئی تک دہشت گردانہ کارروائیوں میں انقطاع رہا اور اس دوران معمول کی شہری زندگی جاری رہی۔ البتہ ۱۲ مئی کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ضمن انتخابات کے موقع پر فائرنگ اور تشدد آمیز واقعات میں ۱۲ ہلاکتیں ہوئیں۔ مجلس عمل کے کارکنوں کے جنازوں کے موقع پر دوبارہ فائرنگ کی گئی اور اندھی فائرنگ سے بچنے کے لئے لوگوں نے سڑک پر لیٹ کر جان بچائی جبکہ قاضی حسین احمد کے گرد کارکنوں نے گھیرا ڈال لیا۔ جناب قاضی حسین احمد نے اس دہشت گردی کا الزام متحدہ پر عائد کرتے ہوئے ان پر پابندی کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں متحدہ کی قیادت نے انہیں محتاط لب و لہجہ استعمال کرنے کی تلقین کی۔ اس سانحہ کو دہشت گردی کے علاوہ سیاسی رنگ بھی دیا جاسکتا ہے جس کے پس منظر میں جماعت ِاسلامی اور متحدہ کی دیرینہ مخاصمت کارفرما ہے۔
اس حادثہ کے بعد کراچی میں اکا دکا تشدد کے واقعات بھی ہوئے جن میں بفرزون میں مبینہ دہشت گرد کامران عرف عاطف کے ساتھ پولیس مقابلے کے دوران ایک بے گناہ عورت جو گھروں میں کام کاج کرتی تھی، کا قتل بھی شامل ہے۔ کامران کی نشاندہی پر پولیس نے لیاری سے اس کے گروپ کے مزید چھ افراد کو گرفتار کرکے بڑی تعداد میں دھماکہ خیز مواد برآمد کیا۔ اس کے جواب میں کراچی کی بندرگاہ پر دھماکہ کرکے خطرے کی گھنٹی بجائی گئی۔ یہ واقعہ ۲۵ مئی ۲۰۰۴ء کو ہوا۔
3. ۲۶ مئی کوکراچی میں دہشت گردی کا دوسرا اہم واقعہ امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ کے نزدیک پاک امریکن کلچرل سنٹر کے سامنے ہوا۔ کئی بم دھماکوں سے یہ علاقہ گونج اٹھا۔ دھماکوں کے نتیجے میں ہیڈ کانسٹیبل جہانگیر جاں بحق اور اخبارنویسوں، فوٹو گرافروں اور پولیس اہلکاروں سمیت ۳۴ ؍افراد زخمی ہوگئے۔ یہ حادثہ اہل کراچی کو جھنجھوڑنے، خبردار کرنے اور ایک بار پھر دہشت گردی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی تھا۔
4. موجودہ دہشت گردی کی لہر کا سب سے المناک سانحہ کراچی میں ہی اتوار کی صبح ۳۰ مئی کو ممتاز عالم دین مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت کی صورت رونما ہوا۔ مفتی شامزئی کی شہادت نے شہریوں کے خوف و ہراس میں نہ صرف غیرمعمولی اضافہ کیا بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی چولیں بھی ہلا دیں۔ اس کے بعد پورا شہر ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں آگیا اور سڑکیں میدانِ جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں۔ مشتعل شہریوں نے تھانے پر حملہ کردیا اور پولیس اہلکاروں کو بھاگ کر جانیں بچانا پڑیں، جبکہ حوالات میں موجود قیدی بھی فرار ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق اتوار کی صبح پونے آٹھ بجے مفتی شامزئی اپنے بیٹے، بھتیجے اور ڈرائیور کے ہمراہ جامعہ بنوریہ جانے کے لئے نکلے تو ان کی رہائش گاہ کے باہر پہلے سے گھات لگائے ۱۰،۱۲ مسلح افراد نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مولانا زخموں کی تاب نہ لاکر شہید اور ان کے تین ساتھی زخمی ہوگئے جنہیںلیاقت ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ مولانا کے جنازے پر پولیس عوامی رد عمل سے اس قدر خائف تھی کہ فاصلہ سے فون پر رابطہ کے ذریعہ صورت حال سے باخبر رہی جبکہ پولیس اہلکاروں نے آنسو گیس کی بے دریغ شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا۔ آنسو گیس سے جنازے کے متعدد شرکا متاثر ہوئے جن میں اکرم درانی بھی شامل تھے۔(نوائے وقت:۳۱ مئی ۲۰۰۴ء)
5. مولانا شامزئی کی شہادت سے اہلیانِ کراچی ابھی سنبھلنے نہ پائے تھے کہ ایک بار پھر شیعہ مسجدعلی رضا واقع محمد علی جناح روڈ میں ۳۱ مئی کو نمازِ مغرب میں ہولناک بم دھماکہ ہوا۔ اس حادثہ میں ۱۸ نمازی شہید اور ۵۰ کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ دہشت گردوں کی سنگدلی کا یہ عالم تھاکہ رات گئے خون دینے والوں پرایک اور حملہ کیا گیاجس کے نتیجے میں مزید ایک شخص ہلاک اور ۷ زخمی ہوگئے۔متاثرین نے ردعمل میں درجنوں گاڑیاں، دکانیں، چاربینک نذر آتش کردیے، دو پولیس اہلکارسمیت۱۶؍ افراد احتجاج میں زخمی ہوئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور بازار بند، نظامِ زندگی مفلوج ہوگیا۔ مشتعل افراد نے سب انسپکٹر سمیت کئی پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ (نوائے وقت، ۲ جون ۲۰۰۴ء)
۲۶ مئی سے ۳۱ مئی کے پانچ روز میں دہشت گردی کے لگاتار تین واقعات نے ملک بھر میں رنج و غم کی لہر دوڑا دی، کراچی کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور کراچی ایک بارپھر ماضی کی دہشت گردی کے دور میں واپس لوٹ گیا۔ ۳۰ اور ۳۱ مئی کے دو واقعات نے ملک بھر کی توجہ کراچی کی طرف مبذول کی اور اخبارات میںاس حوالے سے مضامین اور خبروںکا تانتا بندھ گیا۔ مفتی شامزئی کی شہادت کو ہر ایک نے بڑی سنجیدگی سے لیا۔ اسی طرح مساجد میںنمازیوں پر تین دھماکوں میں ہونے والی شہادتوں اور زخمی افراد کی تکلیف اور غم و رنج کو سب نے محسوس کیا اور ان کے دکھ درد کو خلوصِ دل سے سمجھا۔
روزنامہ نوائے وقت نے مئی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا :
''مئی کے چھ واقعات میں ۶۲؍افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ ماہ مئی کراچی کے لئے خونی ثابت ہوا جس میں بم دھماکوں اور دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ۶۲؍افراد جان بحق اور ۱۷۵ سے زائد زخمی ہوئے۔ پولیس کسی بڑے واقعے کے ملزمان کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ '' آگے ہر واقعہ کامستقل تذکرہ کیا گیاہے (نوائے وقت ، ۲ جون ۲۰۰۴ء)
تبصرہ وتجزیہ
دہشت گردی کے ان سنگین واقعات کا تسلسل ماہ جون میں بھی جاری رہا۔ اس سے اگلا واقعہ ۱۰ جون ۲۰۰۴ء کو پیش آیا۔ آگے بڑھنے سے قبل ان واقعات کے بارے میں بعض حوالوں سے تبصرہ پیش خدمت ہے :
1.مولانااعظم طارق کی شہادت سے لے کر مئی کے آخری واقعات تک تین مختلف مذہبی اجتماعات کو بم دھماکوں میںنشانہ بنایا گیا،جس میں دومتاثرہ مساجد شیعہ مکتب ِفکر سے تعلق رکھتی ہیں۔ جبکہ دو نامور شخصیات اس دہشت گردی کی نذر ہوئیں: مولانااعظم طارق اور مفتی نظام الدین شامزئی۔ ان میں پہلی شخصیت سیاسی، تحریکی اور عوامی اعتبار سے ممتاز حیثیت رکھتی ہے تو مفتی صاحب کی شخصیت روحانی، علمی اور بزرگی صفات میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان دونوں شخصیات کا تعلق دیوبند مکتب ِفکر سے ہے۔ شہید ہونے والوں میں سے اوّل الذکراگر سپاہِ صحابہؓ کا پس منظر رکھتے ہیں تو ثانی الذکر طالبان کے روحانی سرپرست ہیں۔
یہاں یہ امر قابل توجہ ہیکہ ان پانچوں واقعات میں کسی مکتب ِفکر نے مقابل گروہ پر دہشت گردی اور جارحیت کا الزام عائد نہیں کیااور نہ ہی کسی نے اس کا اعتراف کیاہے۔ بلکہ ہردو طرف کے رہنما اس دہشت گردی پر اپنے زیراثر حلقہ کو صبر و حوصلہ کی تلقین کرتے رہے جیسا کہ اخباری بیانات اس کے گواہ ہیں۔ ممتاز شخصیات نے اس دہشت گردی کو فرقہ وارانہ تناظر کی بجائے ملکی و ملی پس منظر میں دہشت گردانہ کارروائیوں پر موقوف کیاہے۔ ان واقعات کی تسلسل سے جانچ کرنے والوں سے بھی یہ امر مخفی نہیں کہ نہ اس سے قبل کبھی شیعہ سنی مخاصمت ومنافرت اس درجہ تک موجود تھی کہ فریقین کی نوبت قتل و غارت تک پہنچ جائے، نہ ہی ان واقعات کو دینی حلقوں نے اس تناظر میں لیاہے وگرنہ ضروری تھا کہ ۳۰ اور ۳۱ مئی کے دو سنگین واقعات گزرنے کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ مذہبی فسادات بھڑک اٹھتے، لیکن واقعات اور شواہد اس کی تائید و حمایت سے عاری ہیں۔ گذشتہ ماہ بھر کاجودورانیہ اس کے بعد بھی گزرا ہے، اس میںکسی قسم کے مذہبی تشدد کی کوئی مثال سامنے نہیںآئی۔ سانحہ کوئٹہ سے سانحہ مسجد حیدری میں حائل تین ماہ کا دورانیہ بھی ایسی فرقہ وارانہ چشمک سے یکسر خالی ہے جبکہ اس سے قبل مولانااعظم طارق کی شہادت سے سانحہ کوئٹہ تک اور ان کی شہادت سے بھی پہلے بہت دور تک مختلف مکاتب ِفکر میںفرقہ وارانہ نزاع کے حوالے بالکل خاموشی طاری ہے۔ اس سے یہ نتیجہ بآسانی نکالا جاسکتاہے کہ دینی حلقے اس سازش کو نہ صرف بخوبی سمجھ چکے ہیں بلکہ وہ اس کے خلاف ہر طرح کی کوششوں کے لئے تیار بھی ہیں۔ یہی بات روزنامہ نوائے وقت کے اداریہ نویس لکھتے ہیں :
''کراچی میں اب تک ہونے والے واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ یہ محض لسانی و نسلی تعصبات اور فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ نہیں بلکہ ماضی کی رنجشوں سے فائدہ اٹھانے اور کراچی کو نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہے، جس میں ہمارے دشمنوں کو تاحال کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ اتنے بڑے اور سنگین واقعات کے بعد بھی کراچی میں نہ تو مذہبی تعصب کی کوئی لہر اٹھی ہے اور نہ ملک کے دوسرے حصوں میں کوئی اضطراب پیداہوا ہے۔ اس کے برعکس مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور تنظیموں نے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے ملک دشمنوں کی سازش کو ناکام بنایا۔'' (۹ جون ۲۰۰۴ء)
2. جہاں تک ان کارروائیوں پر حکومتی ردعمل اور کارکردگی کاتعلق ہے تو بلوچستان میں دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں مرکزی حکومت نے وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی اور انسپکٹر جنرل پولیس شعیب سڈل کو ۲۵مئی کو اپنے موجودہ عہدے سے ٹرانسفر کردیا اور حکومت کی زبانی ان کی تبدیلی کی یہی وجہ پیش کی گئی کہ امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال پرقابو پانے کے لئے یہ تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ (نوائے وقت، ۲۵ مئی)
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تبدیلیوں کے باوجود نہ صرف بلوچستان میں ۱۸ جون کو سوئی میں رہائشی آبادیوں پر ۵۶ راکٹ پھٹنے اور ائیرپورٹ کے ڈائنا میٹ سے تباہ ہونے کا واقعہ ہوا بلکہ عین تبدیلی کے پہلے روز یعنی ۲۵ مئی کو ہی دارالحکومت کوئٹہ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ بھی ہوا، جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ہی ۱۴؍اہلکار زخمی ہوگئے۔ (نوائے وقت) موجودہ اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے اب تک آٹھ بڑے واقعات ہوچکے ہیں۔
3. جہاںتک کراچی میں امن وامان کا تعلق ہے تو ۳۰،۳۱ مئی کے جڑواں واقعات کے بعد ملک بھر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے حکومت پر اپنا دباؤ بڑھا دیا، ۲ جون کے اخبارات عوامی، سیاسی اور مذہبی رد عمل سے بھرے پڑے ہیں۔ اس دباؤ کے نتیجے میں اسی روز ہی سندھ حکومت میںتبدیلی کی بات شروع ہوگئی اور وزیرداخلہ فیصل صالح حیات نے فوج تعینات کرنے کی بجائے حکومت کو خود حالات درست کرنے کی تلقین کی، جبکہ بعض ذرائع نے سندھ میںگورنر راج اور اسمبلی کی معطلی کی بھی گرہ لگائی۔(۲ جون صفحہ ۳، نوائے وقت) روزنامہ نوائے وقت نے اپنے اداریہ میں حکومت کی کارکردگی پرکڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا :
''جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کی جنگ میں کود کر را، خاد، موساد اور ایف بی آئی کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ کراچی کے امن و سکون کو تباہ کرکے اپنے عزائم کی تکمیل کریں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات کے پس پردہ کون ہے، آیا یہ ایک ہی گروہ؍ تنظیم کی کارستانی ہے یا الگ الگ مقاصد کے تحت مختلف ادارے سرگرم ہیں۔ تاہم صرف ۲۴ گھنٹوں کے اندر اور ایک آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر دو بڑے سانحات کا رونما ہونا اور پولیس و رینجرز کا بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہنا حکومت اور قوم دونوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ان افسوسناک واقعات کے بعد سندھ کی مہر حکومت یا میر ظفر اللہ جمالی کی وفاقی حکومت کی کارکردگی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کرنا اور انہیں سخت اقدامات کی ہدایت کرناستم ظریفی سے کم نہیں۔ ان دنوں صوبائی اور وفاقی حکومتیں نہ تو بااختیار ہیں اورنہ انہیں دہشت گردی کے حوالے سے اختیار کی گئی مرکزی پالیسی میںردّ و بدل کی اجازت ہے کہ وہ خفیہ ایجنسیوں، پولیس و رینجرز اور دوسرے اداروں کے کان کھینچ کر بہتر نتائج کو یقینی بنائیں۔ مرکز اور صوبوں میں اس وقت صرف ایک ہی سکہ چلتا ہے اور تمام ریاستی ادارے انہیں ہی جوابدہ ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں اور انتظامی اداروں کازیادہ تر وقت متحدہ مسلم لیگ اور حکومت نواز پیپلز پارٹی کی تشکیل میں صرف ہوتا ہے یا پھر وہ اہم سرکاری شخصیات کی سیکورٹی پرمامور رہتی ہیں۔ جمالی صاحب تو کھل کر کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی اور کو جوابدہ ہیں اور وہیں سے حکم لیتے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر کا بھی یہی حال ہے ، ان کاسارا وقت اپنی حکومت بچانے اور ایم پی ایز کے جائز و ناجائز مطالبات پورے کرنے میںگزرتا ہے۔ اس سوال کاجواب تو جنرل مشرف کو اپنے آپ سے تلاش کرنا چاہئے۔ اگر وہ واقعی اصلاحِ احوال کے لئے سنجیدہ ہیں تو صوبائی اور مرکزی حکومت، ایجنسیوں اور ریاستی اداروں سے اپنی گرفت ڈھیلی کریں انہیں اپنے اصل فرائض منصبی یکسوئی سے ادا کرنے کی ہدایت کریں۔
صدر کو چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے حقیقی حل کے بغیر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پالیسی تبدیل کریں۔جس کی وجہ سے ہماری ایجنسیاں غیر فعال جبکہ را، مستعد و چوکس نظر آتی ہے۔ سارا زورِ بیان القاعدہ اور مذہبی عناصر کے خلاف صرف کرنے کی بجائے ملک کے حقیقی دشمنوں کے قلع قمع کے لئے اقدامات میں صرف ہونا چاہئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کو گوادر پورٹ، افغان بھارت تعلقات امریکہ بھارت اسرائیل اتحاد ثلاثہ اور پاکستان کی نیوکلیئر حیثیت کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اسی پس منظر میں اقدامات کرکے بہترین نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔''(اداریہ نوائے وقت، ۲ جون ۲۰۰۴ء)
سیاسی جماعتوں کا ردِعمل
دہشت گردی کے مسئلہ میں مجلس عمل کی اپیل پر کراچی میںدو ہڑتالیں ہوئیں :
1. ۱۲ مئی کو مجلس عمل کے کارکنان کے جنازوں پرفائرنگ اور جاں بحق ہونے والوں کے سلسلے میں۱۴مئی بروز جمعہ کراچی بھر میں ہڑتال کے موقع پر بھی ہنگامہ اور پتھراؤ کے نتیجہ میں ۵ گاڑیاں نذرِ آتش ہونے کے علاوہ ۱۸؍افراد زخمی ہوگئے۔ لاہور پریس کلب کے باہر بھی احتجاجی مظاہرہ ہوا۔کراچی میں ہڑتال کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے قاضی حسین احمد نے متحدہ قومی موومنٹ کو دہشت گرد قرار دینے اور گورنر کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔ (نوائے وقت : ۱۵ مئی)
2.مئی میں دہشت گردی کے تمام واقعات کے حوالے سے مجلس عمل نے ۴ جون کو دوبارہ ہڑتال کی کال دی جس کے نتیجے میں نہ صرف ملک گیر مظاہرے ہوئے بلکہ کراچی، حیدرآباد اور کوئٹہ میں مکمل ہڑتال رہی۔ بلوچستان میں مکمل شٹر ڈاؤن اورلاہور، ملتان، اسلام آباد میں ریلیاں اور مظاہرے ہوئے۔ ہڑتال کے رہنماؤں نے دہشت گردی کے ان واقعات کو اپنے بیانات میں گورنر ہاؤس سے منسوب کیا۔اس ہڑتال میں بھی تھانہ پیرآباد پر مظاہرین کے حملے کے نتیجے میں ۱۶ پولیس اہلکاروں سمیت ۲۲؍افراد زخمی ہوئے۔ (اخبارات:۵ جون۲۰۰۴ء)
3. کراچی کی حالیہ دہشت گردی میں عوام سے اظہارِیکجہتی کے لئے ۶ جون کو شاہراہِ قائدین سے مزارِ قائد تک امن ریلی نکالی گئی جس کی قیادت گورنر سندھ عشرت العباد، وزیراعلیٰ علی محمد مہر اور سٹی ناظم نعمت اللہ نے کی۔ صوبائی و قومی اسمبلی کے اراکین کے علاوہ سینٹ، سرکاری افسران اور ہر طبقہ فکر کے نامور شخصیات نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکا نے کراچی کو امن و امان سے ہم کنار کرنے کی کوششوں پر زور دیا اور اہلیانِ کراچی سے ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں پرنظر رکھنے کی درخواست کی۔ (اخبارات:۷ جون)
4.پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دہشت گردی کے بارے میں اپنا حقائق نامہ جاری کیا جس میں حسب ِذیل دعویٰ کیا گیا :
''مشرف کے دور میں دہشت گردی کی ۳۹۹ وارداتیں ہوئیں۔ فوجیوں سمیت ۱۱۴۱؍ افراد جاں بحق ہوئے اور ۲۳۹۸؍ افراد زخمی ہوئے۔ یہ حقائق نامہ مرکزی سیکرٹری اطلاعات محمد صدیق الفاروق نے جمعہ کی شام ایک پریس کانفرنس میں جاری کیا۔'' (نوائے وقت: ہفتہ ۱۲ جون)
5.بی بی سی کے تجزیے اور رپورٹ کے مطابق کراچی کے حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں علی محمد مہر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیاکیونکہ وہ ان مخصوص حالات میں کمزور وزیراعلیٰ سمجھے جاتے تھے جن سے اس سلسلے میں صوبائی کنٹرول کی توقع مشکل تھی۔ چنانچہ انہوں نے ۷ جون کو اپنا استعفیٰ پیش کیا، جبکہ دوسری طرف متحدہ کے فاروق ستار کے بقول لندن میں ارباب غلام رحیم کے الطاف حسین سے ملاقات اور مشوروں کے بعد انہیںسندھ کی وزارتِ اعلیٰ کاقلمدان عطاکیا گیا۔ جنہوں نے امن و امان کی صورتِ حال بہتر کرنے کا عوام سے وعدہ کیا۔ (روزنامہ نوائے وقت، ۸ جون ) یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ کے دو روز بعد سنگین دہشت گردی کے واقعات پھر سے شروع ہوگئے۔ باخبرذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کی یہ تبدیلی صدر مشرف کی کراچی کے حالات پر برہمی کا نتیجہ تھی۔
دہشت گردی کے دیگر واقعات
دہشت گردی کے سابقہ واقعات کی نوعیت دو طرح کی ہے: مذہبی شخصیات و اجتماعات اور قومی تنصیبات وعوامی سہولیات کونقصان پہنچانا۔ لیکنیکم جون کے بعد دہشت گردی نے اپنا رخ بدلتے ہوئے سیاسی شخصیات اور حاکم طبقے کوبھی اپنا کارروائیوں کانشانہ بنایا۔
6. دہشت گردی کی ۱۰ جون کو ہونے والی کارروائی نہ صرف ان کے بلا کے اعتماد پردلالت کرتی ہے بلکہ حکومتی مشینری کے لئے اس میں کھلا چیلنج اور للکار بھی موجود ہے۔کراچی میں کلفٹن پل کے نزدیک کورکمانڈر سندھ لیفٹیننٹ جنرل احسن سلیم کے فوجی قافلے پر حملہ میںسات فوجیوں سمیت ۱۲؍افراد جاں بحق ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کورکمانڈر اپنی رہائش گاہ سے کورہیڈرکوارٹرز جارہے تھے، جونہی ان کے قافلہ کی گاڑیاں کلفٹن پل پرچڑھنے کے لئے مڑیں، ان پرگھات لگائے دہشت گردوں نے خود کار اسلحہ سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی، سینکڑوں راؤنڈ چلائے گئے۔ خطرناک پہلو یہ ہے کہ دہشت گرد گولیوں سے چھلنی اپنی وین میںکئی کلومیٹر کا فیصلہ طے کرکے ڈیفنس ویو تک پہنچ گئے مگر کسی نے انہیں روکا تک نہیں۔ یہ واردات اس علاقہ میں ہوئی جسے پولیس نے سکیورٹی زون قرار دیا ہواہے۔ اس قافلے میں پولیس کی سکیورٹی جیپ کے چھ اہلکار بھی دہشت گردوں کانشانہ بن گئے۔
اس دہشت گردی اور جنرل پرویز مشرف پر دہشت گردی کے واقعات میں ایسی حیرت انگیز مماثلتیںہیں گویا ان کو ایک ہی تنظیم نے پلان کیا ہے :
1.اوّل تو دونوں واقعات میں محافظ سمیت تمام سکیورٹی ہلاک ہوگئی لیکن اصل ہدف کابال بھی بیکا نہ ہوا۔
2.دونوں میں ایسا ریموٹ کنٹرول بم استعمال کیاگیا جو موبائل فون سے منسلک ہوتاہے اور فون پر گھنٹی ہونے سے پھٹتا ہے۔ اس واقعے میں بھی بارود سے بھری گاڑی یا کلفٹن پل میں نصب شدہ موبائل فون بم ریموٹ کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے نہ پھٹ سکا۔ (کالم کراچی از یوسف خان؛ نوائے وقت: ۱۶ جون )
بہرحال دہشت گردی کے اس واقعہ سے امن و امان کے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھل گئی اور سیاسی رہنماؤں نے اس الزام کا اعادہ کیا کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے میں انتظامیہ اور سکیورٹی ادارے بے بس ہوچکے ہیں۔ (نوائے وقت:۱۱ جون۲۰۰۴ء)
7. فوجی حکومت کے بعد سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لانے کے لئے کراچی میں۱۷ جون کو بینظیر کے معتمد ِخاص منور سہروردی کو نشانہ بنایا گیا۔ گرومندر کے قریب بنک کے سامنے اپنی کار سے اُترنے کے دوران ان پر دو افراد نے حملہ کیا اور انہیں تین گولیاں لگیں۔ ان کی چیخ و پکار پر ایک رکشہ ڈرائیور نے انہیں آغا خاں ہسپتال پہنچایا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ان کے اس قتل کے پس پردہ عوامل میں بے نظیربھٹو نے مشرف، متحدہ اور ڈاکٹر قدیر کے خلاف کارفرما لابی کا نام لیا ہے۔ (۱۸جون) جبکہ کراچی عوام نے احتجاج کرتے ہوئے ان کے قتل کا ملزم متحدہ کو ٹھہرایا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل جماعت اسلامی بھی کراچی کی دہشت گردی میں متحدہ کو ہی مورد ِالزام ٹھہرا چکی ہے۔ منور سہروردی کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے سید منور حسن نے قرار دیا کہ متحدہ ایک بار پھربوری بند لاشوں کاکلچر شروع کرنا چاہتی ہے۔ (۲۲ جون) منور سہروردی کے بہیمانہ قتل کے خلاف پیپلزپارٹی نے تین روز سوگ کا اعلان کیا جبکہ مشتعل کارکنوں نے پتھراؤ کے علاوہ درجوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح ۲۱ جون کو پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ بھی کیا جس سے مخدوم امین فہیم اور قومی اسمبلی کے اراکین زمرد خاں، فوزیہ حبیب اور رخسانہ بنگش وغیرہ نے بھی خطاب کیا۔
صوبہ سرحدمیں دہشت گردی
جیساکہ شروع میں ذکر کیا جاچکاہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کانشانہ کوئی ایک صوبہ نہیں بلکہ ملک کے چاروں صوبہ جات اس کاہدف ہیں۔ بلوچستان اور سندھ کے ۷،۷ دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات کا ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
صوبہ سرحد کو وانا آپریشن کی صورت میں جس پیچیدگی اور قتل وغارت کا سامنا ہے، اس کے بعد مزید تخریبی کارروائیوں کی گنجائش نہیں۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ ان کی یہ کاروائی غیرملکی دہشت گردوں اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ہے۔جہاں تک وانا آپریشن کی تفصیلات ہیں تو وہ ایک مستقل موضوع ہے، جس کے حالات اور کوائف کاتذکرہ ہمارے اصل موضوع سے جدا ہے۔ وانا آپریشن نہ صرف صوبہ سرحد بلکہ ملک بھر میں انتشار و زیادتی کی مثال بنتا جارہا ہے، جس کے بعد حکومت سے عوام کا اعتماد روز بروز کم ہورہا ہے۔ خصوصاً نام نہاد دہشت گردوں سے کئے گئے معاہدے اور اس کی من مانی توجیہ نے اخلاقی طور پر حکومت کو عوام کی نظر میں ننگا کردیاہے۔ عوام تو ان کو دہشت گرد ماننے کو تیار نہیں جنہیں حکومتی حلقے تواتر اور تسلسل سے القاعدہ کے دہشت گرد اور ملکی و ملی سلامتی کے دشمن قرار دے رہے ہیں۔ وانا آپریشن کی صورتِ حال کے تجزیہ کے لئے ۱۲،۱۵ اور ۱۷ جون کے اخبارات کا مطالعہ مفید ہوگا۔
صوبہ پنجاب میں دہشت گردی
پنجاب میں دہشت گردی کی روایت پختہ کرنے اور عوام الناس میںخوف وہراس کی فضا قائم کرنے میں تاحال دہشت گردوں کو کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ پنجاب کامخصوص ماحول اور مضبوط سیاسی حکومت ہے لیکن گذشتہ چند ماہ سے لگاتار ہرہفتے جس طرح کوئی نہ کوئی دہشت گردی کی بڑی واردات زیرعمل لائی جارہی ہے، اس میں تاحال کمی کے امکانات بظاہر نظر نہیں آتے کیونکہ سابقہ وارداتوں کے عوامل کا نہ صرف پتہ نہیں چلایا جاسکا بلکہ کوئی مجرم بھی ابھی تک پکڑا نہیں جاسکا۔ پنجاب میںدہشت گردی کی صورت حال حسب ِذیل ہے :
1.یوں تو پنجاب میں قتل و غارت اور تخریب کاری کے واقعات آئے روز ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن حالیہ دہشت گردی کے دوران سب سے پہلے جس واقعے کو فرقہ وارانہ دہشت گردی سے منسوب کیا گیا، وہ ۱۴ مئی کو مغلپورہ لاہور میں ایک ہی گھر کے چھ افراد کا قتل ہے جنہیں سروں میں گولیاں مار کر ختم کیا گیاہے۔ سٹی ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی خارج از امکان نہیں لیکن تفتیش کے بعد ہی حقیقی صورت حال واضح ہوگی۔ اس واقعہ کے بعد عوامی احتجاج نے اس قدر شدت اختیار کی کہ مغلپورہ چوک میدانِ جنگ کامنظر پیش کرنے لگا۔ وقفے وقفے سے ہونے والے مظاہروں میں پتھراؤ اور پٹرول پمپ کو آگ لگانے کی کوششیں ہوئیں۔ پولیس گاڑی نذرِ آتش اور متعدد افراد دوران احتجاج زخمی ہوئے۔ (۱۵؍مئی ۲۰۰۴ء)
2. پنجاب میں دہشت گردی کادوسرا واقعہ ۴ جون کو سیالکوٹ میں بم دھماکے کی صورت میں ہوا۔ علی الصبح نواب دین چوک میں ہونے والے دھماکے کی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے سے کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ (نوائے وقت: ۵ جون)
٭کراچی میں دہشت گردانہ واقعات کے تناظر میں صوبہ پنجاب میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے سکیورٹی کے انتظامات سخت کردیئے گئے اور اہم شخصیات کے حفاظتی اقدامات پر نظرثانی کے علاوہ ان کے اچانک روٹ تبدیل کرنے کی پالیسی بھی اپنائی گئی۔ ۱۱ جون کو لاہور میں مختلف مقامات پر سکیورٹی پروگرام کی ریہرسل میں قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کے ہزاروں اہلکاروں نے حصہ لیا۔ (نوائے وقت:۱۲ جون صفحہ آخر)
3.پنجاب میں دہشت گردی کا اہم ترین واقعہ مسلم لیگ ن، پنجاب کے نائب صدر بنیامین رضوی کا قتل ہے جو ۲۸ جون کو پیش آیا۔ یاد رہے کہ بنیا مین رضوی اس سے قبل ۲۵ مئی کو ہائیکورٹ میں یہ رِٹ دائر کرچکے تھے کہ حکومت انہیں بلا وجہ ہراساں کررہی ہے۔ان کے قتل پر سیاسی جماعتوں نے احتجاج اور مظاہرہ کا پروگرام تشکیل دیا۔ یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا وہ تسلسل ہے جس میں اس سے قبل مولانا اعظم طارق، مفتی شامزئی، جنرل پرویز مشرف، کورکمانڈر کراچی اور منور سہروردی کے نام شامل ہیں۔
4.پنجاب میں دہشت گردی کا تازہ ترین واقعہ ۶ جولائی کو بہاولپور کی تحصیل اوچ شریف کے قریب پیش آیا جس میں گیس کی دو پائپ لائنیں اڑا دی گئیں او رپاور سٹیشنوں کی ۱۶ گھنٹے بجلی منقطع رہی۔ صبح سات بجے ہونے والے ان دھماکوں کے شعلے ۲۰۰ فٹ بلند تھے، دہشت کی وجہ سے پورا علاقہ ویران اور رہائشی نقل مکانی کرگئے۔ (نوائے وقت:۷ جولائی)
(۲) دہشت گردی اور مذہبی فرقہ واریت
گذشتہ صفحات میں مختصر ترین الفاظ میں دہشت گردی کی دو درجن کے لگ بھگ ان کارروائیوں کو رپورٹ کیا گیا ہے جوگذشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران وقوع پذیر ہوئیں۔ ان کارروائیوں کامقصد و مدعا کیاہے اور پاکستانی حکومت اور عوام اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، ذیل میں اس حوالے سے ایک مختصر تجزیہ پیش خدمت ہے :
سب سے پہلے اس امر کااظہار ضروری ہے کہ عالمی طور پر مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام اس ڈپلومیسی کا حصہ ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیاجاسکے۔ سربیا کے مسلمانوں پر انتہاپسندانہ مظالم ہوں یاہندوستان میںگجرات کے مسلمانوں پر ہندوؤں کی انتہا پسندی جس کے نتیجے میںوسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ ایسے ہی امریکی ریاست ٹیکساس میں عیسائی جعلی نبی کا اپنے پیروکاروں کو آگ میں جلانے کا واقعہ ہو یا امریکہ کی قلعہ جنگی میں انسانیت کے خلاف مظالم کی داستان جس میں تازہ اضافہ ابوغریب جیل میں ہونے والے شرمناک مظالم سے ہوا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بیسیوں واقعات کے باوجود تشدد و دہشت گردی کا الزام بحیثیت ِقوم ہمیشہ مسلمانوں کے حصہ میں آیا ہے۔ بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور تشدد کے بعد دہشت گردی کا الزام اس حکمت ِعملی کاحصہ ہے جو اسلام کے خلاف عالم کفر نے تسلسل سے اپنا رکھی ہے۔ کبھی انتہاپسندی کا یہ اعزاز بھارت کی انتہا پسند ہنود تنظیموں (بال ٹھاکرے ایڈوانی وغیرہ ) کے حصے میں نہیں آیا۔ ایسے ہی اسرائیل فوج کی دہشت گردی اور فلسطینیوں پر ظلم وتشدد ایسی المناک حقیقت ہے جس کی اقوامِ متحدہ اور دنیا بھر کے ممالک کئی بار مذمت کرچکے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان ان کی دہشت گردانہ ذہنیت کا پول کھول دیتا ہے :
''ہمیں ہر جگہ حملہ کرنااور لوگوں کو نشانہ بنانا چاہئے، عرب ممالک میں اور سمندر پار کے ممالک میں ہمارے ہدف موجود ہیں۔میں جانتا ہوں کہ یہ کام کیسے کرنا ہے مجھے اس کاعملی تجربہ ہے، یہ کام یقینا ہوسکتا ہے، ہمیں مسلسل ضربیں لگاتے رہنا چاہئے۔ اگر ہمیں پتہ چلے کہ عربوں کے حامی عرب ممالک میں ہیں یا یورپی ممالک میں تو ہمیںوہیں ان کاپیچھا کرنا چاہئے اور تمام مشکلات کے باوجود ہمیں حملہ کرنا چاہئے۔ بڑی سطح پر جنگ کی کوئی ضرورت نہیں، اچانک کسی شخص کو غائب کردینا چاہئے، کسی فرد کومردہ پایا جانا چاہئے، کسی کو یورپ کی نائٹ کلب میں خون میں نہلا دیناچاہئے۔ہمیں صحیح طریقے سے اپنے آپریشن کو مسلسل بنیادوں پر کرتے رہنا چاہئے۔'' ('دہشت گردی 'از سلطان شاہد: ص۱۰۴،۱۰۷)
جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کے 'حالیہ واقعات'کا تعلق ہے تو پاکستان میں فوجی حکومت اور اس کے ساتھ مقتدر طبقے وہی زبان استعمال کررہے ہیں جو اس مغربی موقف کو تقویت دے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں کسی بھی حوالے سے دہشت گردی ہو، پولیس کے ذمہ داران اس کو شیعہ سنی فسادات کے حوالے کرکے گویا سند ِجواز عطاکردیتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات ظاہر کرنے کاایک مطلب یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یہاں امن و امان کی ذمہ داری سے بری ہیں یا استطاعت نہیںرکھتے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں بھی پولیس نے اسی روایت کو نبھایا ہے۔ چنانچہ کور کمانڈر کراچی پر حملہ کا واقعہ ہو یا بنیامین رضوی کے قتل کاحادثہ، پہلے حملے کے بارے میں کراچی میں ڈاکٹر برادران کو گرفتار کرکے موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے (۴ جولائی) اور بنیا مین رضوی کے واقعہ کو بھی شیعہ سنی فسادات کا تنازعہ بنا کر شیعہ حضرات پر اس کاملبہ ڈالا گیا ہے۔(نوائے وقت: ۳ جولائی)
قبل ازیں جنرل پرویز مشرف اور کراچی میں امریکی کلچرل سنٹر کے سامنے دھماکے کے سلسلے میں حرکت المجاہدین اور سپاہ صحابہ کے دو ، دو رکن گرفتار کئے جاچکے ہیں۔(۲۲ مئی) تین روز بعدکراچی میں پھر حرکت المجاہدین کے مزید ۶ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا جن کا یہ جرم قرار دیا گیا کہ وہ دو سال قبل امریکی قونصلیٹ پرحملے اور اپریل ۲۰۰۲ء میںمشرف کے موٹر کیڈ پر حملے کے مجرم ہیں۔ (۲۵ مئی) پولیس کی دست درازی سے خائف ایک حافظ قرآن نوجوان نے حیدرآباد میں پریس کانفرنس میں پولیس سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اسے بلاوجہ ملوث کرنا چاہتی ہے، خدارا اسے پولیس سے بچایا جائے۔ (۲۵مئی ۲۰۰۴ء)
مذکورہ بالا واقعات میں تاحال کسی الزام کی تصدیق نہیں ہوسکی بلکہ ملزمان نے ابھی تک دہشت گردی کے ان واقعات میں سے کسی حادثہ کا اقرار نہیں کیا۔ ڈاکٹر برادران کا موقف یہ تھا کہ ہم نے افغان جنگ کے دوران حکومت کی مرضی سے زخمیوں کے کیمپ لگائے۔ دیندار ہونے کے ناطے حکومت ہماری گرفتاری سے مذہبی گروہوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے۔ حرکت المجاہدین نے اپنے اوپر عائد الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ ہم کسی مسجد میں حملہ کرنے اور نمازیوں کو شہید کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
٭ دہشت گردی کے ان واقعات کے تناظر میں تنظیم اسلامی لاہور نے 'اصل دہشت گرد کون؟' کے زیر عنوان اشتہار شائع کراتے ہوئے اپنا یہ موقف نواے وقت میں پیش کیا :
''مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت اور مسجد علی رضا کی شہادتوں کے افسوسناک واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ الحمدللہ ان واقعات پر اہل سنت او راہل تشیع کے چوٹی کے علما دینی رہنماؤں نے فہم و فراست اور حلم و تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے ان واقعات کو بجا طور پر اسلام دشمن طاقتوں کی کارستانی قرار دیا ہے اور عام مسلمانوں کو صبروتحمل کا درس دیا ہے۔'' (۵ جون)
٭ جماعۃ الدعوۃکے امیر حافظ محمد سعید نے ۱۱ جون کو نوائے وقت میں اپنے بیان میں کہا :
''ہم کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کو جہاد نہیں سمجھتے، واردتوں کاتعلق مجاہدین سے جوڑنا درست نہیں، حکمران عالمی سازش کو سمجھیں اور منفی پروپیگنڈہ کاشکار نہ ہوں۔''(صفحہ آخر)
٭گذشتہ صفحات میں روزنامہ نوائے وقت کا ادارتی موقف بھی اسی کی تائید میں پیش کیا جاچکا ہے، دیکھئے صفحہ نمبر۹ شمارہ ہذا
٭کور کمانڈر کراچی پر حملے کے بارے میں وزیراطلاعات شیخ رشیداحمد کا یہ بیان قومی اخبارات میں شائع ہوا کہ
''یہ حملہ وانا کی صورت حال کا نتیجہ نہیں نہ ہی القاعدہ سے اس کا تعلق ہے۔ بلکہ اس کے پس پردہ دیگر مقاصد کارفرما ہیں۔'' (نوائے وقت: ۱۲ جون)
دینی جماعتوں کے ان بیانات کے باوجود نہ صرف وزیرداخلہ نے کورکمانڈر پر حملے کو وانا کے جنگجوؤں سے جوڑا (نوائے وقت: ۱۲جون) بلکہ ۱۶ جون کو قومی اسمبلی میں اس موقف کا اعادہ کرتے ہوئے ملزمان کو پکڑنے کا بھی انکشاف کیا۔ اپنے پالیسی بیان میں انہوں نے جنداللہ گروپ کو اس کاذمہ دار قرار دیا۔ (جنگ: ۱۷ جون)
٭ ایسے ہی صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی دہشت گردی کی روک تھام کے سلسلے میں مساجد اور مدارس کے غلط استعمال کو روکنے، ہر قسم کی چندہ مہم کا سدباب کرنے اور لاؤڈ سپیکروں، پوسٹروں اور پمفلٹوں کے ذریعے تنگ نظری پھیلانے والوں پر کڑی نظر رکھنے کی ہدایت کی۔ (جنگ، اداریہ:۱۷ ؍جون۲۰۰۴ء)
جیسا کہ ہم گذشتہ صفحات میںذکر کرچکے ہیں کہ دو درجن سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں صرف پانچ واقعات کا تعلق مذہبی نوعیت کا ہے جبکہ اس تمام تر دورانئے میں کسی فرقہ وارانہ سرگرمی، بیان بازی اور مذہبی منافرت کا کوئی واقعہ روبہ عمل نہیں آیا۔ بلکہ دینی رہنماؤں نے ان واقعات میں عوام کو صبر و تحمل اور دہشت گردی کی نوعیت سمجھنے کی طرف توجہ دلائی۔ اسکے باوجود صدر موصوف کا درج بالا ارشاد ان کے ذہنی رجحانات کی بخوبی عکاسی کرتا ہے۔
ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ایم کیو ایم سے بڑی دہشت گردی کی کارروائیاں کسی جماعت نے نہیں کیں، ان کے ساتھ ساتھ بعض قوم پرست تنظیمیں بھی اس قتل وغارت میں شریک رہی ہیں۔جہاں تک دینی جماعتوں کا تعلق ہے تو پاکستان کی سب سے بڑی عددی اکثریت رکھنے والا بریلوی مکتب ِفکر اور دیو بندی مکتب ِفکر کا نمایاں بلاک 'تبلیغی جماعت' اس دہشت گردی سے ہمیشہ دور رہے ہیں۔ ایسے ہی اہلحدیث مکتب ِفکر نے بھی اس فرقہ وارانہ مخاصمت میں نہ ہونے کے برابر کردار ادا کیا ہے۔ بریلوی اہلحدیث مکاتب ِفکر میں مذہبی منافرت کے اکا دکا واقعات رونما ہوئے ہیں جنہوں نے آج تک کسی بڑے فرقہ وارانہ تصادم کا روپ نہیں دھارا۔ یہی حال جماعت ِاسلامی کا بھی ہے، آج تک کسی بم دھماکے یا دہشت گردی میں جماعت ِاسلامی کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوسکا۔
دینی جماعتوں کے مراکز، دینی مدارس ہیں اور دینی مدارس کے بارے میں امریکہ کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ ہمیں عراق سے نہیں بلکہ دینی مدارس سے خطرہ ہے۔ امریکہ کے سنٹر فارسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر انور ڈ ڈی برگ نے ایشین ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دینی مدارس دہشت گردی کے فروغ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ (جنگ ۱۰ مارچ صفحہ آخر) ... دوسری طرف یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ آج تک پاکستان کے کسی دینی مدرسہ پر دہشت گردی کا الزام یا اسلحہ خانہ کا وجود ثابت نہیں ہوسکا۔
(دیکھیں 'دینی مدارس اور بنیاد پرستی': محدث جنوری ۲۰۰۲ء)
اس امر میں مجالِ انکار نہیں کہ بعض دینی گروہ جہادی سرگرمیوں میں بھی شریک ہیں، ایسے گروہوں کو دو بنیادی قسموں میںتقسیم کیا جاسکتا ہے: بعض گروہ تو ایسے ہیں جو پاکستان سے باہر مختلف جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں، ایسے گروہوںکے پنپنے میں خود حکومتی پالیسیوں اور امریکی مفادات کا عمل دخل ہے۔ ان میں جماعۃ الدعوۃ، حرکت المجاہدین اور البدر و حزب المجاہدین شامل ہیں۔ جہاں تک ملک میں داخلی فرقہ وارانہ چشمک کاتعلق ہے تو اس سلسلے میں کالعدم سپاہ ِصحابہ اور اس سے جنم لینے والی تنظیمیں، تحریک ِنفاذِ فقہ جعفریہ، ایم کیو ایم اور قوم پرست لسانی تنظیمیں وغیرہ شامل ہیں۔ ثانی الذکر جماعتوں میں سپاہ صحابہ وغیرہ کو دیو بندی مکتب ِفکر کی نمائندہ جماعت کہنا درست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیو بندی مکتب ِفکر کی نمائندگی مولانافضل الرحمن وغیرہ کرتے رہے جبکہ مولانااعظم طارق وغیرہ کو باوجود اصرار کے اس نمائندگی میں کامیابی نہ ہو سکی۔ ایسے ہی دیگر جماعتوں کا بھی حال ہے جیسا کہ جماعۃ الدعوۃ نے ملکی منافرت میںکبھی اپنا کردارادا نہیں کیا، اس کے باوجود اہل حدیث مکتب ِفکر کی اسے نمائندہ جماعت کہنا مناسب نہیں۔کالعدم تنظیم سپاہِ صحابہ کے بارے میں عام دیوبندی دینی راہنمائوں کا کیا موقف ہے اور وہ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں، اس کا اظہار مولانا زاہد الراشدی کے انہی دنوں شائع ہونے والے ایک انٹرویو سے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مولانا راشدی مولانا مفتی محمود کے طویل عرصہ سیکرٹری اور رفیق کار ہونے کے علاوہ معرف دیوبندی علمی شخصیت مولانا سرفراز صفدر کے فرزند ہیں، گویا سیاسی بصیرت کے علاوہ علمی ذوق سے بھی بہرہ ورہیں۔ مزید برآں آپ گوجرانوالہ کے حنفی مدرسہ نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث ہونے کے علاوہ ملکی سطح پر علما دیوبند کے مستند ترجمان کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ان کا نقطہ نظر دیوبندی مکتب ِفکر کے خیالات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ یہ موقف مولانا کے زیر ادارت ماہنامہ الشریعہ کے شمارہ جولائی ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا ہے ، فرماتے ہیں:
''ہم نے سپاہ صحابہ کے شدت پسندانہ طریق کار سے ہمیشہ اختلاف کیا ہے اور مختلف مضامین میں اس کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس کے رہنمائوں مثلاً مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی اور مولانا اعظم طارق کے ساتھ براہ راست گفتگو میں بھی انہیں اپنے موقف سے آگاہ کیا ہے ...
ہم شیعہ کے خلاف کافر کافر کی مہم، تشدد کے ساتھ ان کو دبانے او رکشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہمارا اس حوالہ سے موقف یہ ہے کہ عقائد او رتاریخی کردار کے حوالہ سے باہمی فرق اور فاصلہ کو قائم رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے او ر استدلال و منطق کے ساتھ اپنا موقف پیش کرنے کا راستہ ہی صحیح اور قرین عقل ہے۔ اور اس حوالہ سے ہمیں امت ِمسلمہ کے اجتماعی رویے سے انحراف نہیں کرنا چاہئے۔''( صفحہ ۵)
٭ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بعض کارروائیوں میں دینی وضع قطع رکھنے والے لوگوں کے ملوث ہونے سے یہ تاثر قائم کرنا اور اس الزام کی تصدیق کرنا کہ یہ دینی یا مذہبی فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے، درست اور مبنی برانصاف رویہ نہیں ہے ... !!
مختلف واقعات میں گرفتار ہونے والے حضرات سے دینی جماعتوں کا اس فرقہ واریت پر مبنی تشدد و دہشت گردی میں ملوث ہونا لازمی امر نہیں۔ جس طرح کسی پولیس کانسٹیبل کی رشوت خوری اور کسی جج کی انصاف فروشی سے محکمہ پولیس یا عدالت پر الزام ثابت نہیں ہوتا عین اسی طرح کسی دینی وضع قطع کے حامل فرد کا پرتشدد کارروائی کرنا دینی جماعتوں کو ملوث نہیں کرتا۔
یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ کسی عبادت گاہ پرحملے کی لازمی وجہ مذہبی فرقہ واریت نہیں ہوسکتی بلکہ اجتماعی طور پر معاشرے کو خوفزدہ او ر ہراساں کرنے کے لئے جب مساجد جیسے مراکز امن کو بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو اس سے عوام میں خوفناک انتشار اور خوف و دہشت کو ہوا ملتی ہے۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ کوئی مسلمان ربّ کے حضور سجدہ ریز نمازیوں پر حملہ کرنے کی واردات کا عام حالات میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ انتہائی غیر معمولی حالات میں جب فکرو ذہن کی صلاحیتوں پر دوسروں کاقبضہ ہوجائے یا کوئی غیر معمولی مجبوری سامنے آجائے، تب بھی ایک مسلمان کے لئے ایسا کرنا سوہانِ روح سے کم نہیں ہوتا۔
مذہبی دہشت گردی کے مقاصد
یہاں تکبیر کراچی کے شہید مدیر صلاح الدین کے ایک مضمون کامرکزی خیال پیش کرنا مناسب ہوگا جس میں انہوں نے دہشت گردی اور مذہبی منافرت کے باہمی تعلق پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ جناب صلاح الدین کی رائے قابل توجہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
کسی دینی شخصیت کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے سے وہ غیر معمولی مقاصد حاصل ہوتے ہیں جو دوسری دہشت گردی سے پورے نہیں ہوتے، مثال کے طور پر
1.مذہبی دہشت گردی کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اسلامی لیڈر شپ کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف مہم کا کامیاب دفاع کرنے کے لئے ایک دینی رہنما کی شخصیت مرجع خلائق ہوتی ہے۔ لوگ اس کے مبارک کلمات سے روشنی حاصل کرتے اور عمل و کردار کاحوصلہ پاتے ہیں۔ دینی شخصیات کے قتل سے گویا دینی حلقوں اور جماعتوں کو فکری و ذ ہنی طو ر پر یتیم کردیاجاتاہے۔ اسی طرح ملک و بیرونِ ملک اسلام دشمن کوششوں میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
2.مذہبی دہشت گردی کو فروغ دینے کادوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگ مذہبی شخصیات اور اسلام سے بدگمان ہوتے ہیں۔ان کے ذمہ دہشت گردی اور منافرت کا الزام لوگوں کے دلوں میں اسلام اور اس کی قدر و منزلت کم کردیتا ہے۔
3.ایک دینی شخصیت اسلامی معاشرے کا مرکز ہوتی ہے۔ لوگ ان سے نورِ ہدایت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ ان کی ہلاکت سے معاشرے میں جو انتشار پیدا ہوتا ہے، وہ دیگر کئی افراد کی ہلاکت سے نہیں پیدا ہوتا۔ یہی معاملہ مساجد و دینی مراکز کا بھی ہے۔ عوام میں افراتفری اور دہشت پیدا کرنے کے لئے کسی دینی شخصیت کا قتل بہت موزوں رہتا ہے۔
4.اس سے یہ مقصد بھی حاصل ہوتا ہے کہ عوام الناس میں دینی رجحانات ایک کڑی آزمائش قرار پاتے ہیں، دین پر عمل مشکل اور دینی علم کا حصول ایک کڑی آزمائش بن جاتی ہے۔ نتیجتاً مساجد ویران اور علما ناپید ہوتے ہیں۔ کیونکہ نامور دینی شخصیت ہونے کامطلب اپنے آپ کو ہلاکت کے لئے پیش کرنا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر دہشت گرد دینی شخصیات اور دینی اجتماعات کو دہشت گردی کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ جناب صلاح الدین کی یہ رائے بالکل صائب ہے، چنانچہ موجودہ دہشت گردی میں بھی مفتی شامزئی اور شیعہ امام بارگاہوں پر حملوں نے شدت کا جو تاثر قائم کیا ہے، وہ اس سے قبل موجو دنہیں تھا۔ خصوصاً ۳۰ اور ۳۱ مئی کو اسی نوعیت کے دو واقعات نے پوری قوم کی دہشت گردی کے ناسور کی طرف بھرپور توجہ مبذول کی۔
بعض نام نہاد دینی حلقوں کاافسوسناک کردار
ہماری رائے میں حالیہ دہشت گردی کے مسلسل واقعات ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں جن کے باہمی تعلق اور تسلسل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دہشت گردی کے ان واقعات کاتنوع بھی کسی ایک گروہ کی غمازی نہیں کرتا۔ ان واقعات کے پس پردہ کون ہے اور اس کے مذموم مقاصد کیا ہیں، اس بحث کو مؤخر کرتے ہوئے دینی طبقات کو فرقہ وارانہ دہشت گردی سے تعبیرکرنے کی کوششوں پر ہم اپنی بات کو مکمل کرتے ہیں۔
حکومتی اور عالمی مفاد اس امر میں ہے کہ اس دہشت گردی کو اسلام سے منسوب کیاجائے اور اسلام کو ایک دہشت گرد دین قرار دیا جائے۔ مسلمانوں میں اسلام کو کھلے عام مطعون کرنا دیگر مسلمانوں کے لئے شاید ممکن نہ ہو چنانچہ یہاں اسلام کے نام لیواؤں کو 'دہشت گرد' قرار دیا جاتا ہے۔ اگر اسلام کے علمبردار علما دہشت گرد قرار پاتے ہیں تو اس کالازمی نتیجہ اسلام پر طعن ہے یا لوگوں کی اسلام سے دوری ہے۔ بدقسمتی سے حکومتوں کو اس سے قبل بھی ایسے نام نہاد مذہبی گروہ دستیاب رہے جو ان کی زبان بول کر حکومتی مفادات کی تکمیل کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی پہلی فوجی حکومت (صدر ایوب) نے اپنے دور میں غلام احمد پرویز اور اس کے ہم نواؤں کو ایسی سپورٹ دی کہ انہوں نے علما کو کھلے عام برا بھلا کہنا شروع کیا۔موجودہ فوجی حکومت کے دور میں یہی کام جناب جاوید احمد غامدی اپنے حواریوں سمیت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ حکومتی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے اشراق کے شمارے جولائی۲۰۰۴ء کے اداریے میں حالیہ دہشت گردی کے زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے وہی غلط روش اپنائی ہے جس سے اہل دین پر حرف آئے۔ اشراق کے اداریہ نویس لکھتے ہیں:
''دہشت گردی کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ یہ دینی علوم کی درسگاہوں میں جنم لیتی، مسجدوں اور امام بارگاہوں میں پروان چڑھتی اور پھر متشدد مذہبی تنظیموں کی شکل میں ملک کے کونے کونے میں پھیل جاتی ہے۔ منبروں اور جلسہ گاہوں سے کفر کے فتوے صادر ہوتے، واجب القتل کے نعرے لگتے ہیں اور مخالف نظریات کو ان کے حاملین سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کئے جاتے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عبادت گاہیں اللہ کی یاد میںکھڑے ہونے والوں کے لہو سے رنگین ہوتی ہیں اور مذہبی رہنماؤں کے ساتھ عام شہری بھی بموں کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
اس اندوہناک صورت حال کا ایک بڑا محرک بعض مذہبی علما کا تشدد پسندانہ رویہ ہے ۔اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اس صورتِ حال کی ذمہ داری علماے دین پرعائد ہوتی ہے تو اس کی بات کو غلط نہیں کہا جاسکتا... انہوں نے اپنے لئے جو کام منتخب کئے ہیں وہ سر تا سر یہی ہیں کہ اپنے نظریاتی مخالفین کے خلاف سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کیا جائے۔ ان کی تکفیر کے فتویٰ صادر کئے جائیں اور انہیں واجب القتل ٹھہرایاجائے۔'' (اشراق ، جولائی ۲۰۰۴ء ص:۲،۵)
اشراق کے اداریہ نگار نے ان سطور میں جن الزامات کا اظہار کیا ہے، قارئین خود ہی ملاحظہ کرلیںکہ کیا اُنہیں موجودہ دہشت گردی کا درست پس منظر قرار دیا جاسکتا ہے۔ راقم الحروف دینی مدارس اور دینی اجتماعات میں بارہا شریک ہوتا رہا ہے، آج تک کسی مذہبی اجتماع میں ہمیں ایسی باتیں سننے کااتفاق نہیںہوا جن کا الزام موصوف نے علما کے خلاف عائد کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ چند سال قبل شیعہ سنی فسادات کے دوران بعض جذباتی لوگوں نے شاذ و نادر اس لب و لہجہ کو اختیار کیا ہو، یا ردّ عمل میں انصاف کا دامن ان سے چھوٹ گیا ہو۔ لیکن اوّل تو وہ مذہبی جماعتوں کے نمائندہ نہیں کہلا سکتے، ثانیاً موجودہ کشیدہ ملکی حالات کا پس منظر تو یہ قطعاً نہیں ہے۔ کیا حالیہ سالوں میں تکفیر کاکوئی فتویٰ، واجب القتل کا کوئی نعرہ اور تشدد کی کسی دعوت کا سراغ بھی ہمیں اخبارات میں ملتا ہے، یا ان افسوسناک واقعات کے رونماہونے کے بعد کسی ردعمل میں ایسی کوئی بات کسی پلیٹ فارم پر رپورٹ ہوئی ہے؟
افسوس اس امرپر ہے کہ بعض جدت پسند حلقے اسی بات پر اپنا جواز ثابت کرنے پرتلے بیٹھے ہیں کہ وہ علماء اسلام کی کاوشوں پر ناقدانہ رویہ رکھتے ہیں او ران کو برملا برائی اور دہشت گردی سے منسوب کرتے ہیں۔اس ادارتی تحریر میںموصوف قلم کار نے اپنے موقف کے بارے میں جو رجحان اوردلائل پیش کئے ہیں وہ خالصتاً بھارت کی متنازعہ شخصیت وحیدالدین کے افکار کا چربہ ہیں۔ مولانا وحید الدین کا فکری امتیاز بھی یہی ہے کہ انہیں ہر برائی کاسراغ یا تو مسلمانوں کے طرزِ عمل میں ملتا ہے یا مسلم رہنماؤں کے رویہ میں۔ ان کی تحریروںمیں یہ غلطی اور زیادتی کبھی غیر مسلموں سے سرزد ہوتی دکھائی نہیں دیتی...!!
افسوس اس ملکی انتشار و دہشت کی گھڑی میںبعض لوگوں کو انصاف کی گواہی دینے کاتو حوصلہ نہیں لیکن علما پر برسنے اور ان کے ذمے وہ ناکردہ گناہ کا الزام لگانے کو ان کاقلم بے چین ہے۔ فإلی اﷲ المشتکی
محدث کے حالیہ شمارے میں بم دھماکوں کے بارے میں نبی کریم 1 کے اہم فرامین ذکر کرکے وہ دینی موقف پیش کردیاگیاہے جو ان بم دھماکوں کے بارے میں ایک مسلمان کا ہونا چاہئے۔ ہماری رائے میںکسی مسلمان کوقتل کرنا اسلام کے سیاسی نظم کا اختیار ہے، اس اختیار کو عام مسلمان اپنے تئیں استعمال کرنے کے مجاز نہیں۔ اشراق کے اداریہ نویس کو ہمارے یا دیگر مکاتب ِفکر کے تحریری موقف میں سے وہ حصے نشان زد کرنے چاہئیں جہاں سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس سے تشدد کو فروغ ملتا ہے یا دہشت گردی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔ محدث کے انہی اوراق میں اس سے قبل مسئلہ تکفیر پر ایک اہم مضمون بھی شائع ہوچکا ہے جس کی رو سے کسی متعین فرد پرکفر کا حکم لگانے میں دلچسپی رکھنا اسلامی احکامات اور علما کی مسلمہ روایات سے انحراف ہے۔ (دیکھئے 'مسلمان کی تکفیر کامسئلہ' از ابوبکر جزائری ترجمہ از راقم، مارچ ۱۹۹۵ء)
(۳) دہشت گردی کے پس پردہ اصل عزائم
سابقہ صفحات میں دہشت گردی کے جن واقعات کامختصر تذکرہ کیا گیا ہے ان کودرج ذیل حصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے :
1.ٹارگٹ کلنگ کے واقعات: ان میں بالترتیب مولانااعظم طارق، تین چینی انجینئر، مفتی شامزئی، منور سہرورد ی اور بنیامین رضوی شامل ہیں۔ ایسے واقعات ۷،۸ ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اور کور کمانڈر کراچی کو بھی ٹارگٹ بنایا گیا لیکن یہ دونوں حضرات محفو ظ رہے۔
2.قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والے واقعات: ان میں بلوچستان کے اکثر و بیشتر واقعات مثلاً گوادر، سوئی ائیر پورٹ، بجلی سپلائی اور گیس پائپ لائن کا انقطاع اور اُچ شریف میں بجلی سپلائی کا انقطاع جیسے آٹھ واقعات شامل ہیں۔
3.مذہبی نوعیت کے واقعات میں پانچ واقعات شامل ہیں، جن میں دو مذہبی شخصیات کونشانہ بنانے کے علاوہ تین مذہبی اجتماعات پرفائرنگ اور دھماکہ کے اقدامات شامل ہیں۔
4.سیاسی نوعیت کے واقعات میں بنیامین رضوی، جنرل پرویز مشرف، کورکمانڈر کراچی، منور سہروردی، مجلس عمل کے جلوس پر فائرنگ کی وارداتیں شامل ہیں۔
5.عمومی دہشت گردانہ مقاصد کے لئے سابقہ تمام تر واقعات کے علاوہ سیالکوٹ کا بم دھماکہ اور لاہور میں چھ افراد کا اجتماعی قتل کاتذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
کراچی کے مختلف واقعات (مثلاً مجلس عمل کاجلوس، مفتی شامزئی او رمنور سہروردی کے قتل) کاالزام متاثرین نے متحدہ قومی موومنٹ پر عائد کیا ہے۔ کیونکہ انہیں سابقہ وزیر اعلیٰ کے بارے میں بعض تحفظات تھے، اور وہ حکومت اور اختیارات میں من مانی تبدیلیاں چاہتے تھے۔ جہاں تک متحدہ کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی ایم کیو ایم ماوراے عدالت قتل اور جبر و تشدد کے علاوہ ٹارچر سیلوں اور دہشت گردی میں مشہور رہی ہے۔ جبکہ بعض مذہبی جماعتوں پر بھی اس کا الزام لگتا رہا ہے۔ سپاہ ِ صحابہؓ سے کے بطن سے پیدا ہونے والی تنظیموں جیش محمد، لشکر ِجھنگوی اور ملت اسلامیہ وغیرہ پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بعض شواہد بھی موجود ہیں۔
بلوچستان میں قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے پیچھے باخبر حلقے بعض بلوچ قبائل کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ جن علاقوں سے گیس نکلی ہے، ان میں آباد بعض قبائل بالخصوص بگٹی قبیلہ اس حوالے سے ماضی میں اقدامات کرتا آیا ہے، رائلٹی کے نام پر وہ حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور حکومت و قبائل کے مابین مسلح تصادم بھی ہوچکے ہیں۔بگٹی قبیلہ کی بزنجو قبائل سے روایتی مخاصمت بھی ان واقعات کے پس پردہ ہے، اس لئے بلوچستان کے دہشت گردانہ واقعات کا پس منظر یہ بھی ہوسکتا ہے۔مزید برآں بلوچستان میں قومی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے واقعات کے پیچھے ہمسایہ ممالک کے تخریب کار عناصر کا ہاتھ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ہی ملک بھر میں پھیلی موجوہ دہشت گردی کو بعض باخبر حلقے بجلی، پانی اور گیس کی صوبائی تقسیم میں حائل رکاوٹوں کا نتیجہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
لاہور میں بنیامین رضوی کے قتل کے پس پردہ اگر شیعہ تنازعہ کارفرما ہے تو سیاسی مقاصد کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اخبارات میں ان کے خاندانی تنازعات کی بعض خبریں بھی آئی ہیں۔ حالیہ دہشت گردی میں این جی اوز کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جناب بنیامین رضوی این جی اوز کے خلاف اپنے سخت موقف کی وجہ سے بھی خصوصی شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے سابقہ حکومت میںاین جی اوز مافیا کی اصطلاح متعارف کرا کر ان کی جڑیں بھی دریافت کرلی تھیں اور اکتوبر ۱۹۹۹ء میں ان کے خلاف اسمبلی میں وہ بل لانے ہی والے تھے کہ ۱۲؍اکتوبر کو حکومت تبدیل ہوگئی۔این جی اوز کی اسلام دشمن سرگرمیاں اور غیر ملکی مقاصد کے لئے ان کا کام کرنا ایسی کھلی حقیقت ہے جو محتاجِ دلیل نہیں!!
اس لحاظ سے پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہات میں اپنے مطالبات منوانا، قوت کے ذریعے اختیارات کا حصول، مختلف طبقوں پر مظالم کا ردّ عمل، سیاسی سیٹ اپ اور فوجی حکومت سے پیدا ہونے والی عدمِ اطمینانی ، مذہبی طبقات کا اپنی راے پر بالقوہ اصرار، ہمسایہ ممالک کے مفادات اور عالمی صورتحال کے مختلف عوامل وغیرہ شامل ہیں۔
یہ امر درست ہے کہ ملک کے مختلف طبقات میں اپنے مطالبات کے حوالے سے شدید بے چینی پائی جاتی ہے اور معاشرے کے مختلف گروہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے تخریب کارانہ سرگرمیوں کا سہارا لیتے ہیں، لیکن موجودہ تسلسل سے جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کو معمول کے حالات کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حالیہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں ہمارانقطہ نظر یہ ہے کہ ان کاحقیقی سرا ملک کے باہر جڑتا ہے۔عالمی منظر نامے میںاس کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔ ان کاروائیوں کی ڈور ہلانے او ران کی منصوبہ بندی کرنے والا ذہن ملک سے باہر ہے جو اپنے مفادات کے لئے ملک کے بے چین طبقات کو استعمال کررہا ہے، دوسرے لفظوں میں ان کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میںدہشت گردی کے علاوہ سعودی عرب (جو عراق پرقبضے سے قبل امن و امان میں اپنی مثال آپ تھا) میں بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے اور اس وقت اسلام کے علمبردار یہی دو نمایاں ملک دہشت گردانہ سرگرمیوں کا محور و مرکز ہیں۔
جوں جوں ترقی و ایجاد کے میدان کھلتے جارہے، توں توں مختلف ترقی یافتہ ممالک نے دیگر ممالک میں دخل اندازی اور من مانے مقاصد حاصل کرنے کے لئے زیادہ پرپیچ طریقے اختیار کر لئے ہیں۔ان طریقوں کاحاصل یہ ہے کہ استعمال ہونے والے کو بھی اس امر کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح اپنے من مانے مقصد کی تکمیل کے لئے استعمال کیاجارہا ہے۔ ان نفسیاتی طریقوں اور پیچیدہ حربوں کے ذریعے مذموم مقاصد یوں پورے کئے جاتے ہیں کہ اصل دہشت گرد کا سراغ ہی نہیں ملتا۔ ایسی ہی شاطرانہ چالبازی کاایک شاہکار ۱۱ستمبر کا حادثہ بھی تھا، جس کی تحقیقات ابھی تک منظر عام پر تو نہیں آئیں لیکن اس واقعے سے عالمی سیاست میںمن مانے مقاصد دھونس اور دھاندلی سے پورے کئے جا چکے ہیں۔ یوں تو اس واقعہ کے سلسلے میں اُردو، انگریزی کتب میں سینکڑوں صفحات شائع ہوچکے ہیں لیکن ایک تازہ گواہی کے طور پر روزنامہ نوائے وقت کا اقتباس ملاحظہ ہو :
''حقیقت یہ ہےکہ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ صیہونی اسرائیل تھاجس کا ثبوت خود امریکی ذرائع ابلاغ اور سینئر پارلیمنٹرین ڈیوڈ ڈیوک اپنی تجزیاتی رپورٹوں میں پیش کرچکے ہیں کہ اس روز ۴۰۰ یہودی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے غیر حاضر رہے کیونکہ انہیں ہنگامی پیغام ملاتھا کہ اپنے کام پرنہ جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے میں زندگی ہارنے والے اکثر ہندو عیسائی اور مسلمان تو تھے مگر کوئی یہودی نہ تھا...'' (اداریہ، ۳ جون ۲۰۰۴ء)
مگر اس ماسٹر مائنڈ یہودی پلان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کو یہودی ہی روبہ عمل لائیں بلکہ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں کے امریکہ مخالف جذبات کو نفسیاتی حربوں سے اس طرح کام میں لایا گیا ہو کہ تصویرکے سامنے کے رخ پر وہ نظر آئیں اور تمام تر عتاب و عقاب انہی کے حصے میں آئے۔ اس قدر جامع او رمکمل منصوبہ بندی ویسے بھی جذباتی اور دہشت پسندانہ خیالات رکھنے والے نوجوان نہیںکرسکتے، اس کے لئے کسی ٹھنڈے دل و دماغ اور غیر معمولی وسائل رکھنے والے گروہ کی ضرورت ہے جو ہرطرح کی معلومات سے بھی مسلح ہو۔
۱۱ ستمبر کا واقعہ یوں توہمارا موضوع نہیں لیکن پاکستان کے موجودہ دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی جاننے کے لئے اس پر پیچ طریقہ واردات کو سمجھنا اشد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں باخبر حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام پسند نوجوانوں کو اسلام کے نام پر قربانی کے لئے تیار کرنا سب سے آسان ہے کیونکہ یہی وہ مذہب ہے جو آخرت کا مکمل اور جامع تصور پیش کرتا ہے۔ چنانچہ اسلام پسند نوجوانوں کو صرف اس امر کایقین دلانا کافی ہے کہ فلاں کام غلط ہے اور فلاں طریقے سے اس میںکوتاہی کو دور کیا جاسکتا ہے، اس کے بعد وہ استعمال ہونے کے لئے آسانی سے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ کام ماسٹر پلان کے کل پرزے بآسانی کرلیتے ہیں، دوسری طرف ملک میں بڑھتی بے روزگاری اور بے اطمینانی بھی کئی نوجوانوں کے ناپسندیدہ کاموں کی طرف بادلِ نخواستہ مجبور کردیتی ہے۔ یہاں ہمارا مقصد ان تخریب کاروں؍ دہشت گردوں کی صفائی پیش کرنا نہیں بلکہ اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اصل ضرورت اس بنیادی ذہن کوڈھونڈنے کی ہے جو اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتا اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کرتا ہے۔ اس مرکزی ذہن کی نشاندہی سے قبل سعودی عرب میںدہشت گردی کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا ...
سعودی عرب میں دہشت گردی اور اس کے مقاصد
عراق پر حالیہ قبضہ کے ساتھ ہی سعودی عرب کا امن و سکون تہ و بالا ہوگیا...
٭ نومبر ۲۰۰۳ء میں ریاض میں پے در پے دھماکوں کے بعد مکہ مکرمہ میں بھی بم دھماکہ ہوا۔
٭ اس سال یکم مئی کو سعودی عرب کے ساحلی شہر ینبع میں صبح ۷ بجے چار حملہ آوروں نے آئل ریفائنری میں تین امریکی، دو برطانوی اورایک آسٹریلوی انجینئر سمیت ۱۰؍افراد کو ہلاک کردیا۔ حملہ آور امریکیوں کی لاشوں کو گلیوں میں گھسیٹتے رہے۔ پولیس فائرنگ میں تین حملہ آور ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ (روز نامہ نوائے وقت: ۲مئی ۲۰۰۴ء)
نوائے وقت نے اگلے روز اس دہشت گردی کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
''سعودی عرب میںدہشت گردی میں اسرائیلی پشت پناہی... سعودی ولی عہد نے کہاکہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل کے ہونے کے ۹۵ فیصد شواہد ہیں۔ امریکہ نے عالم اسلام کے خلاف کروسیڈ شروع کیاہواہے اور اس جنگ میں اسرائیل اس کا دست ِراست ہے۔ درحقیقت ہماری ارضِ مقدس بھی عظیم تر اسرائیل کی مجوزہ حدود میںشامل ہے۔ عراق میں امریکہ کو جس جہادی جذبے کے مقابلے میںناکامی ہورہی ہے، اسی کابدلہ وہ سعودی عرب میں دہشت گردی کراکے لے رہا ہے۔'' (نوائے وقت: ۳ مئی)
٭ سعودی عرب کے مشرقی اور صنعتی شہر الخُبرمیں نامعلوم مسلح افراد نے ہفتہ ۲۹ مئی کی صبح فائرنگ کرکے ۸ غیر ملکیوں سمیت ۱۷؍افراد کو ہلاک کردیا۔ یہ فائرنگ تیل کمپنی کے تین کمپاؤنڈز میں کی گئی۔ اس کارروائی کی ذمہ داری مبینہ طور پر القاعدہ نے قبول کی۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی، ۳۰ مئی ۲۰۰۴ء)
٭ اگلے روز القاعدہ کے مبینہ چیف عبدالعزیز المقیم نے الخُبرمیں۱۰ بھارتیوں کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس واقعہ میںکوشش کی ہے کہ کسی مسلمان کا خون نہ بہے۔ ان میں امریکہ، برطانیہ، جاپان اور اٹلی کے باشندے بھی شامل تھے جن میں کسی کوزندہ نہیں چھوڑا گیا۔ (یکم جون ۲۰۰۴ء)
٭یکم جون کو روزنامہ نوائے وقت کی خبر تھی کہ سعودی عرب نے الخُبرمیں ۲۲ یرغمالیوں کو ہلاک کرکے فرار ہونے والے تین مسلم حملہ آوروں کی تلاش کا کام بڑے پیمانے پر شروع کردیاہے۔ الخُبرشہر کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ ۲ جون کو صدر بش نے شاہ فہد سے فون پر ان دہشت گردی کے واقعات پر تعزیت کااظہار کیا۔ (نوائے وقت: یکم و ۲ جون ۲۰۰۴، )
٭ان واقعات کے بارے سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے اپنے بیان میں کہا :
''سعودی عرب نے ان انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد تیز کرنے کا عزم کا اظہارکیا ہے جنہوں نے مغربی ممالک کے باشندوں کے تعاقب کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔
٭ دوسری طرف مشتبہ انتہاپسندوں نے ریاض میں آئرلینڈ کے فری لانسر صحافی اورکیمرہ مین سیمون کمبرز کو فلم بنانے کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا۔ جبکہ بی بی سی کارپورٹر فرینک گارڈنر شدیدزخمی ہوا۔'' (نوائے وقت:۸جون)
بی بی سی کی اس ٹیم پر یہ فائرنگ عین اس وقت ہوئی جب سعود الفیصل جدہ میں بیان دے رہے تھے۔ یاد رہے کہ غیر ملکیوں کے خلاف یہ پرتشدد کارروائیاں عراق کی ابوغریب جیل میں امریکہ پر تشدد کارروائیوں کی ۱۰۰۰ تصاویر کی عالمی پریس میں اشاعت کے ایک ہفتہ بعد شروع ہوئیں۔ ( انسانیت سوز تشدد کی تفصیلات کیلئے ۶،۷،۱۰،۱۵ ،۲۱،۲۳ مئی کے نوائے وقت ملاحظہ کیجئے)
٭سعودی حکومت سے اظہار ِیکجہتی کے لئے صدر جنرل پرویز مشرف نے ۱۱ جون کو شہزادہ عبداللہ سے فون پرتبادلہ خیال کیا :
''شیطان کے حواری دہشت گردوں نے عالمی امن داؤ پرلگا دیا۔ تمام مسلم ممالک کو دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے مل جل کر متفقہ لائحہ عمل اختیارکرنا چاہئے۔'' (نوائے وقت : ۱۲ جون)
٭انہی دنوں ریاض میں ایک ۱۹ سالہ امریکی ایروناٹکس انجینئر جانسن کو یرغمال بنا کر مختلف جیلوں میں قید القاعدہ کے اراکین کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔ (جنگ: ۱۷ جون ۲۰۰۴)
سعودی عرب میں جاری دہشت گردی کا ایک پس منظر تو وہ ردّ عمل ہے جو مسلمانوں میںامریکہ کے خلاف پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف عراق پر قابض ہونے کے بعد سعودی عرب کے ہمسایہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے حالات میں بھی واضح تبدیلی آئی ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی کے لئے ان طبقات کو آگے لایا جارہاہے جن کی سعودی حکومت سے دینی یا سیاسی بنیادوں پر مخاصمت ہے۔ جہاں تک دینی طبقے کو شہ دینے کا تعلق ہے تو اس کے توڑ کے لئے وہاں کے علما سرگرم ہیں، جس کا ایک مظہر محدث کے حالیہ شمارہ میں شائع شدہ ان بم دھماکوں کے بارے میں انتہائی بزرگ سعودی عالم شیخ عبدالمحسن عباد کا وہ کتابچہ ہے جس میں انہوں نے دہشت گردوں کی ان کارروائیوں کے خلاف ِاسلام ہونے کا موقف صریح دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔
سعودی عرب کے بم دھماکوں کے مؤید بعض سعودی حضرات کے خیالات سننے کاہمیں اتفاق ہوا ہے۔ ان بظاہر انتہائی دیندار نوجوانوں کو جس طرح عالمی استعمار اپنے مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہے، اس کی بعض تفصیلات چشم کشا ہیں۔ سعودی حکومت میں شامل بعض اہم شخصیات نے بھی ان نوجوانوں کو بھڑکانے میں غیرمعمولی کردار ادا کیا ہے۔ امریکی دبائو کی بنا پر گذشتہ سال بھر میں سعودی عرب میں نصابِ تعلیم کی تبدیلی، خواتین کی آزادانہ نقل وحرکت کی حمایت اور ان کو مردوں کے شانہ بشانہ لانے کی کوششوں کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر مغربی نظریات اور تصورات کو بڑی تیزی سے فروغ دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف بعض مخفی ہاتھوں نے دیندار عناصر کو ان اباحیت پسندانہ اقدامات کے خلاف بھی کھڑا کردیا ہے۔ ان دیندار عناصر نے جب اعلیٰ حکومتی عہدیداران سے ملنے کی کوشش کی تو بعض بااثر شخصیات ان کی بات کو آگے پہنچانے اوران کی ملاقات کے راستے میں حائل ہوگئیں۔ ایسی صورتحال لگاتار کئی ملاقاتوں تک جاری رہی، جس کے بعد یہ دینی عناصر اس نتیجے پر پہنچے کہ آئندہ سے حکومتی ذمہ داروں سے بات چیت ختم کرکے ہمیں اپنے تئیں ہی اس لادینیت کے خلاف کھڑے ہوجانا چاہئے۔ مختصر الفاظ میں یہ وہ پس منظر ہے، جس میں سعودی عرب میں اوّلاً تو دینی تصورات کو نشانہ بنایا گیا دوسری طرف اس کا دفاع کرنے والوں کا اعتماد اس درجے مجروح کیا گیاکہ انہیں اپنی بات سنانی مشکل نظر آنے لگی، نتیجتاً انہوں نے اس منکر کو اپنے ہاتھوں روکنے کی کوششیں شروع کردیں جس کا نتیجہ اس دہشت گردی کی صورت میں نکلا۔ اس سارے کھیل میں مخفی ہاتھ کا کردار بہت واضح ہے، لیکن افسوس کہ متاثرہ دینی عناصر اس صورتحال کو سمجھ نہیں پارہے۔
ان بم دھماکوں میں اسرائیل اور امریکی ہاتھ کو قطعاً نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ سعودی عرب میں ان بم دھماکوں کامقصد یا تو سعودی حکومت میں انتشار پیداکرنا اور آلِ سعود کا تختہ اُلٹنا ہے، جس کے بعد موجودہ سنگین حالات میں نئی حکومت کو قدم جمانے کا موقع نہیںملے گا اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا یا کم از کم پاکستان کی طرح نئے حکمران اپنا بقا کے لئے امریکی مدد کے محتاج ہوجائیں گے، جس سے امریکی پالیسیوں کے لئے راستہ کھل جائے گا۔
ان دھماکوں کا کم از کم مقصد اس قدر تو ضرور ہے کہ سکیورٹی کو اس قدر ہراساں کردیا جائے یا دہشت گردی کے بھوت کو ان پر اس طرح سوار کردیا جائے کہ وہ دہشت گردی کی عالمی تعبیر کو مان کر اسلامی اداروں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کردیں۔ اس کا ایک مظہر معروف سعودی خیراتی ادارے مؤسسۃ الحرمین الخیریۃ کی انہی دنوں مکمل بندش کی صورت سامنے آیا ہے۔ اس کے ساتھ سکیورٹی کے نام امریکی یا غیر ملکی ماہرین کی اس قدر بڑی تعداد وہاں قابض اور براجمان ہوجائے کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں کے لئے ان کامحتاج ہونا پڑے اور ان کی رعایت کرنا پڑے۔ نتیجتاً روز بروز مغربی اداروں کا سعودی عرب میں اثر و رسوخ اس طرح بڑھتا جائے جیسا کہ خلیج کے دیگر ممالک خصوصاًمتحدہ عرب امارت میں ہوا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے مقاصد
جہاںتک پاکستان کا تعلق ہے تو اس کی حالیہ دہشت گردی میں بھی وہی تکون کارفرما ہے جو امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کے نام سے موجو دہے۔ پاکستان میں ان کے مقاصد میں ایسے حالات کوپیدا کرنا اور برقرار رکھنا ہے جس میں حکمران اپنے ملک میںقدم مضبوط کرنے کی بجائے عوامی مخالفت میں اس قدر گھرے ہوں کہ ان کی بقا کی ضمانت امریکی مفادات کی لگاتار رکھوالی میں ہی قرار پائے۔ مزید مقصد یہ کہ حکومت کو ان دہشت گردانہ کارروائیوں سے عالمی سطح پر بھی زیرعتاب اور انڈر پریشر رکھ کر عالمی کردار سے محروم رکھا جائے۔
اس سلسلے میں امریکی رجحانات کا اندازہ ان چند خبروں سے بھی لگایا جاسکتاہے جو قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔
٭۱۴مئی کو امریکہ نے پاکستان میں اپنے شہریوں کو خبردار کرتے ہوئے یہ پیغام دیا:
''پاکستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال خراب ہے، مغربی مفادات خطرے میں ہیں، امریکہ مخالف جذبات کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ مغربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں پر دہشت گردانہ حملوں کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ پاکستان میں امریکیوں کو محتاط اور چوکس رہنے کی ہدایت۔ کوئٹہ، گوادر اور کراچی میں ہونے والے بم دھماکوں اور سیاسی تشدد کے واقعات بھی پاکستان میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ امریکی شہریوں کو محتاط رہنے کی یہ وارننگ اس سے قبل بھی ایک ماہ قبل دی جاچکی ہے۔'' (روزنامہ نوائے وقت، لاہور : ۱۴ مئی)
روزنامہ نوائے وقت نے اگلے روز اس وارننگ پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہوئے لکھا :
''امریکہ کی یہ تشویش بجا ہے کیونکہ اس خطے کے حالات کو متزلزل کرنے اور عوام الناس کو گونا گوں پریشانیوں سے دوچار کرنے کی بنیادی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکی فوج کی پاک سرحدوں میں دراندازی بھی ہے جبکہ امریکہ کا یہ حالیہ بیان پاکستان کو عالمی سطح پربدنام کرنے کی سازش ہے۔ پاکستان کو ریڈ الرٹ قرار دے کر امریکہ عملی دشمنی کررہا ہے اور پاکستان کی شہرت کو داغدار بنانے کے علاوہ سرمایہ کاری کے راستے بند کررہا ہے۔'' (اداریہ : ۱۵؍مئی۲۰۰۴ء)
٭ جولائی کے آغاز میں امریکی سفارتخانہ اور برطانوی سفارتخانہ بند کردیا گیا۔
٭ پاکستان کے بارے امریکی عزائم اس رپورٹ سے ظاہر ہوتے ہیں جو ایک امریکی تھنک ٹینک نے پیش کی ہے :
''عراق کے بعد پاکستان امریکہ کا نیاتھیٹر بنے گا۔ امریکہ کے جغرافیائی و سیاسی تھنک ٹینک اسٹرٹیجک فور کاسٹنگ کی تجزیاتی رپورٹ... ۳۰ جون کو نئی عراقی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ اپنی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کرلے گا۔ امریکی انتخابات سے بھی اس میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جان کیری نے بھی القاعدہ کو اولین ترجیح قرار دیاہے۔ ادارے نے مشرف حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے جہادیوں کے خلاف کوئی سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔ واشنگٹن اپنا دباؤ اس حد تک بڑھائے گا کہ مشرف کو عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی۔'' (روزنامہ نوائے وقت:۱۰ جون)
۱۵ مئی کو یہی بات جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے بھی کہی کہ امریکہ کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا۔ ان رپورٹوں اور خبروں کی موجودگی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے پاکستان اور سعودی عرب میں اسرائیل و بھارت کی مدد سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی سرپرستی کررہاہے۔ اس سلسلے میں مختلف محروم طبقات اس کے آلہ کار ہیں۔ بھارت کی دلچسپی بھی یہی ہے کہ ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں پاکستان کو اس قدر الجھا دیا جائے کہ اسے داخلی مسائل سے ہی فرصت نہ ملے، نیز دہشت گردی کے اس بہانے سے ملک و قوم میں انتشار کے علاوہ کسی بھی موقع پر مطلوبہ مفادات کی سیاست شروع کردی جائے۔اگر پاکستان میں اطمینان بخش حالات ہوں تو امریکہ کو دخل اندازی کا جواز میسر نہیں آسکتا۔ حکومت کی مدد کے نام پر یا کسی اور بہانے سے پاکستان میں انتشار انگیز حالات پیدا ہونا ہی امریکی مفاد میں ہے جس کی بنیاد پر اس کی مداخلت کا جواز مل جاتا ہے۔
بظاہر یہ حالات جلد تبدیل ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ اس دہشت گردی کی جڑیں پاکستان کی بجائے بیرونِ ملک میں ہیں۔ سنگین اقدامات اور محرومیوں کاکچھ سدباب کرکے ان خطرات کو عارضی طور پر روکا تو جاسکتاہے،مستقل طور پر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ ملک میں اگر غاصب قوتوں کے بجائے جائز حکومت ہو اور اپنی تائید کے لئے وہ بیرونی سرپرستی کی محتاج نہ ہو، تب بھی ان حالات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ایسے ہی اسلامی ممالک کے متاثرہ عناصراپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے اور اپنے ہم وطنوں کو نشانہ بنانے کی بجائے اس صورتحال کو مثبت انداز میں بدلنے کی کوشش کریں، اور ا س بارے میں اسلام کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی موزوں لائحہ عمل بنائیں تب بھی حالات سنبھل سکتے ہیں۔ مطالبات کومنوانے کے لئے اپنی ہی جسم کے کچھ حصوں کو کاٹ دینا کسی طوردانشمندی نہیں۔ اللہ تعالیٰ سوچنے سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین! (حافظ حسن مدنی)