تلاوتِ قرآن کا نبوی طریقہ
[آدابِ تلاوت میں چالیس احادیثِ مبارکہ]
اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو سید المرسلین اور خاتم النّبیین کے طورپر مبعوث فرمایا ۔ اور اُنہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک دائمی معجزہ عنایت کیا۔قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللّٰہ تعالیٰ نے لی اور نبی مکرمﷺکے فرائض میں قرآنی آیات کو پڑھ کر سنانا، لوگوں کا تزکیۂ نفس کرنا، اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا شامل کئے،جو اس مشہور آیت میں بیان ہوئے ہیں:
﴿قَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿١٦٤﴾[1] ’’اللّٰہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر احسان فرمایا کہ ان پرایک رسول انہی میں سے مبعوث کیا جو ان پر اس کی آیاتِ کریمہ کی تلاوت کرتا ہے، ان کا تزکیۂ نفس کرتا اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے تو یہ واضح گمراہی میں تھے۔‘‘ گویا منصبِ رسالت کے بنیادی تقاضوں میں سے یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات کی تلاوت کرکے ، لوگوں کا تزکیۂ نفس کیا جائے۔
قرآن كريم كے مسلمانوں پر عائد حقوق میں، ایک حق اس کو اچھی طرح تلاوت کرنا ہے۔قرآنی آیات کی تلاوت کے بارے میں اہل اسلام کا رویہ قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے:
﴿الَّذينَ ءاتَينـٰهُمُ الكِتـٰبَ يَتلونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ أُولـٰئِكَ يُؤمِنونَ بِهِ﴾[2] ’’جن لوگوں کو ہم نے کتا ب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہی لوگ اس پر ایمان لانے والے ہیں۔‘‘ یعنی ایمان کے تقاضوں اور حقوقِ قرآن میں سے ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ، اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور یہ تلاوت نبی کریم ﷺ کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت بذات خود بہت بڑی نیکی ہے، جیساکہ ارشادِ نبوی ہے:
«مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ»[3] ’’جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہیں، اور ایک نیکی 10 گنا کے برابر ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الـم ایک حرف ہے۔ لیکن الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ نبی ﷺنے ایسےحروفِ مقطعات کی مثال بیان کی جس کا مفہوم واضح نہیں ہے، اس مثال میں ایسے لوگوں کا رد ّہے جو کہتے ہیں کہ ترجمے کے بغیر قرآنِ مجید پڑھنے کا کچھ فائدہ ؍ثواب نہیں ہے۔
تلاوتِ قرآن کریم کو سننا بھی نیکی ہے، جیسا کہ یہ حدیثِ نبوی ہے:
«مَنِ اسْتَمَعَ إلىٰ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالىٰ كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، ومَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ»[4] ’’جس نے کتاب اللّٰہ کی ایک آیت سنی، اس کے لیے دوہری نیکی لکھی جاتی ہے، اور جس نے اسے تلاوت کیا، وہ تلاوت روز قیامت اس کے لیے باعثِ نور ہوگی۔‘‘ قرآن كریم کی تلاوت کی مہارت کا کیا ثواب ہے اور دوسری طرف اس میں مشقت برداشت کرنے کا کیا اجرہے؟ اس فرمانِ نبوی میں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْـمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ»[5] ’’ قرآن کریم کے ماہر کا انجام مقرب ومعزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ او رجو قرآن پڑھتے ہوئے اَٹکتا ہے، اور روانی سے اچھی تلاوت نہیں کرسکتا، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (ایک تلاوت کا اور دوسرا اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کا) جس طرح ہر کام کے لیے نبی کریم ﷺکا اُسوہ حسنہ ہی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، اسی طرح تلاوتِ قرآن کے مبارک، مسنون اور نیک عمل کے لیے بھی آپﷺکے طریقہ سے رہنمائی لینا چاہیے، اس سلسلے میں بعض تفصیلات نبی کریمﷺ کے ارشادات (قولی حدیث) سے معلوم ہوتی ہیں اور کچھ آپ کے عمل (فعلی حدیث) سے۔
ذیل میں کتبِ احادیث سے ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:
پہلا ادب: سوز اور رِقّت سے تلاوتِ قرآن 1. قرآنِ کریم کی تلاوت سوز اور رقت کے ساتھ کرنی چاہیے اور اسے تلاوت کی سب سے بہترین خوبی قرار دیا گیا ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے:
«إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ، الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ، حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى الله»[6] 2. آپﷺ بذاتِ خود قرآن کریم کی تلاوت بے حد سوز اور خشوع کے ساتھ فرمایا کرتے، سیدنا جبیر بن معطم راوی ہیں کہ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْـمَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ :﴿أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَىءٍ أَم هُمُ الخـٰلِقونَ ﴿
٣٥﴾ أَم خَلَقُوا السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ بَل لا يوقِنونَ ﴿
٣٦﴾ أَم عِندَهُم خَزائِنُ رَبِّكَ أَم هُمُ المُصَۣيطِرونَ ﴿
٣٧﴾قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ
[7] ’’میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ نماز مغرب میں سورۃ الطّور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب آپ ان آیات پر پہنچے تو [شدتِ تاثیر سے] مجھے لگا کہ میری روح پرواز کرجائے گی۔‘‘ 3. قرآنِ کریم کی تلاوت کی یہ تاثیر اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے:
﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ﴾[8] ’’اللّٰہ تعالیٰ نے بہترین کتاب نازل کی، جس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ اللّٰہ کی خشیت رکھنے والوں کے دل اس سے کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور دل اللّٰہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔‘‘ 4. نبی کریمﷺ اپنے صحابہسے قرأتِ قرآن سنا کرتے اور اسے سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ، سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود راوی ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللّه ﷺ: «اقْرَأْ عَلَيَّ» قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ: «إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي» قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: ﴿فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًاؕؐ﴾ [النساء:41] قَالَ لِي: «كُفَّ - أَوْ أَمْسِكْ -» فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ[9] ’’مجھے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن کی تلاوت سناؤ۔ میں نے کہا : میں آپ کو کیسے قرآن سناؤں ، حالانکہ آپ پر تو قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ آپﷺ کہنے لگے: میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے تلاوت سنوں۔ سو میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی، حتی کہ جب میں اس آیت پرپہنچا کہ وہ کیسا وقت ہوگا جب ہم ہر اُمّت سے گواہ بلائیں گے، اور آپﷺ کو ان تما م لوگوں پرگواہ بنائیں گے تو آپ کہنے لگے: بس بس، رک جاؤ۔ میں نے دیکھا ،آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘ 5. قرآن پڑھتے ہوئے اگر خشیت نہ بھی طاری ہوتو ارشادِ نبوی ؐہے کہ رونے کی سی شکل بنا لی جائے اور تلاوت میں رِقت آمیز لہجہ اختیار کیا جائے، عبد الرحمن بن سائب سے مروی ہے:
قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا، وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا»[10] ’’سعد بن ابی وقاص ہمارے ہاں آئے جبکہ آپ کی بصارت ختم ہوچکی تھی۔ میں نے انہیں سلام کہا تو پوچھنےلگے: کون؟ میں نے تعارف کرایا، بولے: بھانجے خوش آمدید، مجھے پتہ چلا ہے کہ تم قرآن بڑی خوبصورت آواز میں تلاوت کرتے ہو، میں نے اللّٰہ کے رسول ﷺ کو فرماتےسنا تھا کہ یہ قرآن پرغم کی کیفیت غالب ہے، جب تم اسے پڑھو تو رویا کرو۔ اگر رو نہ پاؤ تو رونے کی صورت بنا لیا کرو۔ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو، کیونکہ جو اسے خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔‘‘ دوسرا اَدب: معانی میں غور کرکے دہرانا اور اُس کے مطابق دعا کرنا 6. اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو فکر وتدبر اور تذکیر ونصیحت کے لیے نازل کیا ہے، اور نبی کریمﷺ کی تلاوت بھی ان تقاضوں کے مطابق ہوتی تھی، قرآنِ کریم میں ہے :
﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٢٩﴾[11] ’’یہ کتاب ہم نے آپ پر اُتاری ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تدبر کریں، اور باشعور لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘ 7. نبی کریمﷺ آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کے معانی میں غور کرکے، اُس کے مطابق عمل کیا کرتے، سیدنا حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ
قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ، فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ»، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ»، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى»، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِهِ. [12] ’’میں نے ایک رات نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورۃ البقرۃ سے آغاز کیا۔ میں نے سوچا کہ آپ سو آیات پڑھ کر رکوع کرلیں گے، آپ کی تلاوت جاری رہی۔میں نے سوچا کہ اس سورۃ کو ایک رکعت میں ختم کرلیں گے۔ آپ کی تلاوت جاری رہی، پھر آپ نے سورۃ النساء کا آغاز کردیا، اس کو پڑھا، پھر سورۃ آل عمران کا آغاز کردیا، اس کوبھی پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے۔ جب بھی کسی تسبیح والی آیت سے گزرتے تو اللّٰہ کی تسبیح بیان کرتے، جب بھی کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللّٰہ سے مانگتے، اور جب بھی کسی پناہ والی آیت پر پہنچتے تو اللّٰہ سے پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا۔آپ کا رکوع آپ کے قیام کے برابر ہی طویل تھا، پھر سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہا جو رکوع کے برابر لمبا تھا، پھر سجدہ کیا اور سبحان ربی الاعلیٰ کہا، آپ کے سجدے بھی قیام کے بقدر لمبے تھے۔‘‘ 8. سیدنا عوف بن مالک سے مروی ہے کہ
كُنْتُ مَعَ رَسُولِ الله ﷺ لَيْلَةً فَاسْتَاكَ ثُمَّ تَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ مَعَهُ فَبَدَأَ فَاسْتَفْتَحَ الْبَقَرَةَ فَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ إِلَّا وَقَفَ فَسَأَلَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةِ عَذَابٍ إِلَّا وَقَفَ فَتَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ فَمَكَثَ رَاكِعًا بِقَدْرِ قِيَامِهِ، وَيَقُولُ فِي رُكُوعِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْـمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ، ثُمَّ سَجَدَ بِقَدْرِ رُكُوعِهِ، وَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ: «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ» ثُمَّ قَرَأَ آلَ عِمْرَانَ ثُمَّ سُورَةً سُورَةً يَفْعَلُ مِثْلَ ذَلِكَ[13] ’’میں رسو ل اللّٰہ ﷺکے پاس ایک رات موجود تھا۔ آپ نے مسواک کرکے وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں بھی آپ کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آ پ نے سورۃ البقرۃ سے آغاز کیا۔ آپ کسی آیتِ رحمت سے نہ گزرتے مگر وہاں رک کر اللّٰہ کی رحمت کا سوال کرتے۔ اور کسی آیت عذاب سے نہ گزرتے مگر رک کر اللّٰہ عزوجل سے پناہ مانگتے۔پھر رکوع کیا تو اس میں قیام کے بقدر موجود رہےاور اپنے رکوع میں یہ دعا ... پڑھتے۔ پھر سجدہ کیا تو اس میں رکوع کے بقدر وقفہ کیا اور سجدوں میں یہ دعا «سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْـمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ»پ
ڑھتے۔ پھر آپ نے [اگلے قیام میں ]سورۃ آلِ عمران کی تلاوت کی، پھر کوئی اور سورت، پھر کوئی اور... اور ہر سورۃ میں ایسے ہی کرتے۔‘‘ 9. آپ ﷺ نماز میں آیات کے معانی پر غور کرتے ہوئے آیات کو دہرایا کرتے، جیساکہ ابوذرّ غفاری سے مروی ہے :
«قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ يُرَدِّدُهَا» وَالْآيَةُ: ﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ١ۚ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾[14] ’’ایک رات نبی ﷺ نے قیام کیا، تو ساری رات گزر گئی اور اسی آیتِ کریمہ کو آپ دہراتے رہے کہ ’’یاالٰہی! یہ تیرے ہی بندے ہیں، اگر تو انہیں معاف کردے تو تو غالب ودانا ہے۔‘‘ 10. آپ قرآنی آیات میں غور وفکر فرمایا کرتے، اور تلاوتِ قرآن کے دوران بہت زیادہ رویا کرتے، جیساکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں :
لَمَّا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي قَالَ: «يَا عَائِشَةُ! ذَرِينِي أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّي». قُلْتُ: وَالله إِنِّي لَأُحِبُّ قُرْبَكَ وَأُحِبُّ مَا سَرَّكَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ حِجْرُهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ لِحْيَتَهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ الْأَرْضُ. فَجَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ. فَلَمَّا رَآهُ يَبْكِي. قَالَ يَا رَسُولَ الله! لِمَ تَبْكِي وَقَدْ غَفَرَ الله لَكَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ. قَالَ: «أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ آيَةٌ وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَكَّرْ فِيهَا: ﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ﴾ الآية كلها»[15] ’
’راتوں میں سے ایک رات نبی کریم ﷺ کہنے لگے: یا عائشہ! مجھے چھوڑ دو میں اس رات اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: واللّٰہ ! مجھے آپ کی قربت بڑی عزیز ہے لیکن آپ کی خوشی بھی مجھے محبوب ہے۔ کہتی ہیں کہ آپ کھڑے ہوگئے اور وضو کیا۔کہتی ہیں کہ نماز میں روتے رہے حتی کہ آپ کی گود تر ہوگئی۔پھر کہتی ہیں کہ روتے رہے حتی کہ ڈاڑھی مبارک بھی بھیگ گئی۔ پھر روتے رہے اور اتنا روئےحتی کہ زمین بھی گیلی ہوگئی۔ پھر بلال آگئے ، نماز کی اطلاع دینے کے لیے۔ جب انہیں روتے دیکھا تو کہا: یارسول اللّٰہ ! آپ کیوں روتے ہیں؟ اللّٰہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے ہیں۔ تو جواب دیا: میں اللّٰہ کا شکرگزار بندہ کیوں نہ بنوں، آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ، افسوس اس پر جو اس کو پڑھے لیکن اس میں غور وفکر نہ کرے۔ ‘‘ تیسرا ادب: نماز میں لمبی تلاوت کرنا 11. قرآن کریم میں بھی آپ کو لمبے قیام کی تلقین ان الفا ظ میں کی گئی ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا المُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ الَّيلَ إِلّا قَليلًا ﴿٢﴾ نِصفَهُ أَوِ انقُص مِنهُ قَليلًا ﴿٣﴾ أَو زِد عَلَيهِ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ﴿٤﴾[16] ’’اے کملی اوڑھنے والے! رات کو قیام کر مگر تھوڑا، نصف رات یا اس سے کچھ کم وبیش اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کر۔‘‘ 12. نبی کریمﷺ سے پوچھا گیا کہ بہترین نماز کونسی ہے؟
... قَالَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «جَهْدُ الْـمُقِلِّ» قَالَ: فَأَيُّ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: «طُولُ الْقُنُوتِ»[17] ’’پوچھا بہترین صدقہ کیا ہے، جواب دیا کہ بڑی مشکل سے معمولی صدقہ نکالنے والا۔ پوچھا: کہ بہترین نماز کونسی ؟ آپ نے فرمایا: جس میں قیام لمبا ہو۔‘‘ 13. آپ کی قراءت اس قدر لمبی ہوتی کہ مذکورہ بالاحدیث حذیفہ (نمبر7)کے مطابق آپﷺ نے قیام میں تقریباً سوا پانچ پارے تلاوت کیے۔ اور سیدنا عوف بن مالک کی حدیث (نمبر8)کے مطابق سورۃ البقرۃ ، دوسری رکعت میں سورۃ آل عمرا ن اور ایسی ہی طویل سورتیں تلاوت کیں۔اور ایسی ہی ایک حدیث سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود سے بھی مروی ہے:
صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَطَالَ حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ." قَالَ: قِيلَ: وَمَا هَمَمْتَ بِهِ؟ قَالَ: "هَمَمْتُ أَنْ أَجْلِسَ وَأَدَعَهُ"[18] ’’عبد اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے لمبا قیام کیا،حتیٰ کہ میں نے ایک برا اِرادہ کیا۔ پوچھا گیا: کیا برا اِرادہ؟ کہنے لگے : میں نے سوچا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپ کو قیام میں اکیلا چھوڑ دوں۔‘‘ 14. سیدہ حفصہؓ بنت عمر بیان کرتی ہیں :
«مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَكَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، وَكَانَ يَقْرَأُ بِالسُّورَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا»[19] ’’میں نے نبی کریم ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے نفلی نمازبیٹھ کر پڑھی ہو، حتی کہ وفات سے ایک سال قبل آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔آپ ایک سورۃ پڑھتے اور اس کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرےحتیٰ کہ وہ لمبی سے لمبی ہوتی جاتی۔‘‘ چوتھا ادب: بلند آواز سے تلاوتِ قرآن 15. آپ ﷺ بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کیا کرتے، جیساکہ اس حدیث میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عَنْهُمَا: فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾، قَالَ: «نَزَلَتْ وَرَسُولُ الله ﷺ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالقُرْآنِ، فَإِذَا سَمِعَهُ المُشْرِكُونَ، سَبُّوا القُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ»، فَقَالَ الله لِنَبِيِّهِ ﷺ: ﴿وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ﴾: أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ المُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا القُرْآنَ: ﴿ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾، عَنْ أَصْحَابِكَ فَلاَ تُسْمِعُهُمْ ﴿وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾[20] ’’سیدنا ابن عباس سے آیتِ کریمہ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا کے بارے میں مروی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریمﷺ مکہ میں روپوش تھے۔ جب آپ اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو آواز کو بلند کیا کرتے۔مشرکوں نے جب ایسا سنا تو قرآن کو اور قرآن جس پر نازل ہوا ،جو قرآن لے کر آیا، سب کو گالیاں بکیں ۔ تو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ تو اپنی عبادت یعنی اپنی قرأت میں بلند آواز اختیار نہ کرکیونکہ مشرک قرآن کو سن کراسے گالیاں بکتے ہیں۔ اور نہ آواز کو اتنا پست کر کہ تیرے ساتھ سن ہی نہ سکیں۔ اور دونوں کے درمیان رویہ اختیار کر۔‘‘ 16 عبد اللّٰہ بن ابو قیس نے سیدہ عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا:
عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: «كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ». فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِله الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً[21] ’’آپ کی قراءت کے بارے میں کہ آپ آہستہ تلاوت کیا کرتے، یا بلند آواز سے تو آپ نے جواب دیا: آپ دونوں طرح تلاوت کرتے، کبھی بلند اور کبھی آہستہ۔ تو میں نے کہا: سب تعریفیں اس اللّٰہ جل شانہ کی ، جس نے اس معاملے میں گنجائش رکھی۔‘‘ 17. نبی کریمﷺ کی تلاوت کی آواز بعض اوقات اس قدر بلند ہوتی کہ ابن عباس کہتے ہیں :
«كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ ﷺ رُبَّمَا يَسْمَعُهَا مَنْ فِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ فِي الْبَيْتِ»[22] ’’آپ کی تلاوت کو کبھی کوئی شخص بند کمرے میں سن لیا کرتا او رآپ اپنے گھر میں سے تلاوت کررہے ہوتے۔‘‘ 18. سیدہ اُمّ ہانی بیان کرتی ہیں:
«كُنْتُ أَسْمَعُ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى عَرِيشِي»[23] ’’میں نبیﷺکی رات کو کی جانیوالی تلاوت کو سن لیا کرتی ، حالانکہ میں اپنی چارپائی پر ہوتی۔‘‘ 19. بلند آواز سے تلاوت کرنے کی وجہ وہ ہے جس کو ابوسعید خدری نے بیان کیا ہے:
قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ لِلصَّلاَةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْـمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ، وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ[24] ’’ایک بار ابو سعید خدری کہنے لگے کہ تجھے بکریاں اور جنگل پسند ہیں۔جب تو بکریوں اوربیابان میں ہوتو نماز کے لیے اذان کہا کر اور اپنی آواز کو بہت بلند کیا کر۔ کیونکہ ’’مؤذن کی آواز کو کوئی جن وانس نہیں سنتا مگر روزِ قیامت وہ اس کی گواہی دے گا۔‘‘ ابو سعیدکہتے ہیں کہ یہ بات اللّٰہ کے رسول کا ارشاد ہے۔‘‘ پانچواں ادب :ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا 20. قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ﴿٤﴾[25] ’’اے نبی! آپ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کریں۔‘‘ 21. نبی کریمﷺ نے اہل جنت کی نشانی بھی یہ بیان کی ہے کہ وہ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں گے اور جنت کی منازل طے کرتے جائیں گے:
قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: «يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ، وَارْتَقِ، وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا»[26] ’’آپﷺنے فرمایا: صاحب قرآن کو کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجے طے کرتا جا۔ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھ جیسے تو دنیا میں اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا۔ تیرا جنت میں مقام وہ ہے جہاں تو آخری آیت کی تلاوت کرے گا۔‘‘ 22. اوپر نکتہ نمبر7 اور 14 میں تلاوتِ نبوی کی یہ خاصیت بیان ہوئی ہے کہ آپ ٹھہرٹھہر کر تلاوت کیا کرتے۔سیدہ اُمّ سلمہ آپ کی تلاوت کی کیفیت ان الفا ظ میں بیان کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ يَقُولُ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ﴾ ثُمَّ يَقِفُ، ثُمَّ يَقُولُ:﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ﴾ ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَأُ ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ﴾ [27] ’’نبی کریمﷺ رک رک کر تلاوت قرآن کریم کیا کرتے۔ آپ کہتے : الحمد للّٰہ رب العٰلمین، پھر رک جاتے۔ پھر کہتے: الرحمٰن الرحیم، پھر رک جاتے۔ پھر کہتے: مالک یوم الدین 23. آپ کی زوجہ مطہرہ امّ المؤمنین سیدہ اُمّ سلمہ سے نبی کریمﷺ کی قراءت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا:
سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَصَلَاتِهِ... ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا.[28] ’’اُمّ سلمہ زوجۂ نبیﷺ سے آپ کی قراء ت اور نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے نبی کریمﷺ کی قراءت کی تفصیل یوں بیان کی کہ آپ کی قراءت میں ایک ایک حرف بالکل واضح ، اور علیحدہ علیحدہ ہوتاتھا۔‘‘ چھٹا ادب: خوش الحانی سے قرآنِ کریم پڑھنا 24. سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ»، وَزَادَ غَيْرُهُ: «يَجْهَرُ بِهِ» [29] ’’وہ آدمی ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ اور بعض راویوں نے ان الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خوش الحانی اور بلند آوازی سے نہیں پڑھتا۔‘‘ 25. سیدنا براء بن عازب سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا:
«زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ»[30] ’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کیا کرو۔‘‘ براء بن عازب سے مروی یہی فرمانِ نبوی ، اس سے وسیع تر الفاظ میں یوں بھی آیا ہے :
«زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ» وَفِي رِوَايَةٍ: «حَسِّنُوا الْقُرْآنُ بِأَصْوَاتِكُمْ، فَإِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ يَزِيدُ الْقُرْآنَ حُسْنًا»[31] ’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے حسن دیا کرو۔ کیونکہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔‘‘ 26. ایک او رحدیث میں یوں بھی الفاظ آئے ہیں:
«حَسَنُ الصَّوْتِ زِيْنَةُ الْقُرْآنِ»[32] ’’خوبصورت آواز ، قرآن کریم کا حسن ہے۔‘‘ 27۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ»، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، أَرَأَيْتَ إِذَا لَمْ يَكُنْ حَسَنَ الصَّوْتِ؟ قَالَ: «يُحَسِّنُهُ مَا اسْتَطَاعَ».
[33] ’’میں نے اللّٰہ کے نبیﷺ کو کہتے سنا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو قرآ ن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا: یا ابو محمد! اگر انسان کی آواز خوبصورت نہ ہو تو پھر ؟ کہنے لگے: وہ بقدرِ استطاعت اس کو اچھا بنانے کی کوشش کرے۔‘‘ خوش الحانی نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی سنّت ہے اور اس کو توجہ سے سننا اللّٰہ تعالیٰ، نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کا طریقہ ہے!
28۔ نبی کریمﷺ بہت خوبصورت انداز میں قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے، براء بن عازب سے مروی ہے کہ
سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي العِشَاءِ: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا أَوْ قِرَاءَةً مِنْهُ [34] ’’میں نے نبی ﷺ کو سنا کہ آپ نماز عشا میں سورت والتین کی تلاوت کررہے تھے، میں نے آپ سے اچھی آواز اور اچھی قراءت والا کوئی ایک بھی نہیں سنا۔‘‘ 29۔ آغاز میں نبی کریم ﷺکی سورۃ الطّور کی تلاوت کی تاثیر کا تذکرہ بھی ایک حدیث مبارکہ میں آیاتھا۔سیدنا ابو ہریرہ نبی کریمﷺ کا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:
«مَا أَذِنَ اللهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ».
[35] ’’اللّٰہ تعالیٰ کسی شے کو اتنا توجہ او رانہماک سے نہیں سنتے، جتنا نبی کریمﷺ کی خوبصورت تلاوت کو سنتے ہیں کہ وہ خوش الحانی اور بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔‘‘ صحیح مسلم کی اس حدیث کے شارح شیخ محمد فواد عبد الباقی لکھتے ہیں:
يتغنى بالقرآن، معناه عند الشافعي وأصحابه وأكثر العلماء من الطوائف وأصحاب الفتوى يحسن صوته به وقال الشافعي وموافقوه: معناه تحزين القراءة وترقيقها واستدلوا بالحديث الآخر «زينوا القرآن بأصواتكم» قال الهروي معنى يتغنى به يجهر به. ’’خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا مطلب امام شافعی اور ان کے اصحاب ، مختلف طبقوں کے اکثر علما اور مفتیانِ کرام کے نزدیک یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ آواز کو خوبصورت کیا کرتے۔امام شافعی اور ان کے ہم نوا کہتے ہیں: اس کا مطلب ہے قرآن کو رقت اورخشیت الٰہی سے پڑھنا۔اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے حسن دو۔ امام ہروی کہتے ہیں کہ خوشی الحانی کا مطلب بلندآواز سے قرآن پڑھنا ہے۔‘‘
اس حديث میں أَذِنَ كا لفظ آیا ہے جس کا مطلب کان لگا کر سننا ہے ، جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں آتا ہے :
﴿إِذَا السَّماءُ انشَقَّت ﴿١﴾ وَأَذِنَت لِرَبِّها وَحُقَّت ﴿٢﴾[36] ’’جب آسمان پھٹ جائے گا، اور وہ اپنے ربّ کے حکم پر (کاربند ہونے کے لیے) کان لگائے ہوئے ہوگا اور یہی اس کو لائق ہے۔‘‘ 30۔اللّٰہ تعالیٰ بھی خوبصورت انداز میں کی جانے والی تلاوت کو بڑی توجہ سے کان لگا کرسنتے ہیں، جیسے کہ اس حدیثِ مبارکہ میں بھی ارشاد ہے:
عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: «للهُ أَشَدُّ أَذَنًا إِلَى الرَّجُلِ الْحَسَنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ، مِنْ صَاحِبِ الْقَيْنَةِ إِلَى قَيْنَتِهِ»[37] ’’بلاشبہ اللّٰہ جل شانہ خوش الحان شخص کی تلاوت کو اس قدر توجہ اور انہماک سے سنتے ہیں کہ گانا سننے والا شخص گانے والیوں کو بھی اتنی توجہ سے نہیں سنتا ہوگا۔‘‘ 31۔نبی کریمﷺ کے صحابہ بھی خوش الحان شخص کی تلاوت کو بڑے ذوق وشوق سے سماعت فرمایا کرتے، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ کا ارشاد ہے :
أَبْطَأْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله ﷺ لَيْلَةً بَعْدَ الْعِشَاءِ، ثُمَّ جِئْتُ فَقَالَ: «أَيْنَ كُنْتِ؟» قُلْتُ: كُنْتُ أَسْتَمِعُ قِرَاءَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِكَ لَمْ أَسْمَعْ مِثْلَ قِرَاءَتِهِ وَصَوْتِهِ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ: فَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ حَتَّى اسْتَمَعَ لَهُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ فَقَالَ: «هَذَا سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، الْحَمْدُ لِله الَّذِي جَعَلَ فِي أُمَّتِي مِثْلَ هَذَا»[38] ’’میں دور نبوی میں ، نماز عشاکے بعد کچھ تاخیر سے نبی کریم کے پاس پہنچی تو آپ نے پوچھا: کہاں رہ گئیں تھیں تو میں نے کہا: میں آپ کے صحابہ میں سے ایک شخص کی تلاوت سن رہی تھی، میں نے اس جیسی تلاوت اور آواز پہلے کبھی نہیں سنی۔ سیدہ فرماتی ہیں کہ آپ کھڑے ہوگئے اور میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوگئی حتیٰ ہم نے وہ تلاوت سننا شروع کردی۔ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ سب تعریفیں اس ربّ ذوالجلال کے لیے جس نے میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا فرمائے۔‘‘ 32۔خوبصورت تلاوت قرآن كرنے والے صحابہ کرام میں، ایک سالم مولیٰ ابو حذیفہ ہیں، جن کا ذکر ملحقہ حدیث میں گزرا، اسی طرح عبد اللّٰہ بن مسعود ہیں، جن سے نبی کریم نے خود تلاوتِ قرآن کی فرمائش کی تھی، اور ان کی تلاوت سننے پر آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تھی۔ انہی کی تلاوت کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، بَشَّرَاهُ أَنَّ رَسُولَ الله ﷺ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ»[39] ’’سیدنا عبد اللّٰہ بن مسعود سے مروی ہے کہ ابو بکر وعمر نے انہیں خوشخبری دی کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے اُنہیں کہاتھا کہ جو قرآن کو اس اصل ڈھنگ (طریقہ اور ہئیت) پر سننا چاہتا ہے جیسے وہ نازل ہوا تھا تو اسے ابن اُمّ عبد (عبد اللّٰہ بن مسعود) کی تلاوت کے مطابق پڑھنا چاہیے۔‘‘ 33۔نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام میں سے سیدنا ابوموسی اشعری جن کا نام عبد اللّٰہ بن قیس ہے،بھی بہت خوبصورت تلاوتِ قرآن فرمایا کرتے۔ عبد اللّٰہ بن بریدہ اپنے والد سے نبی مکرم ﷺکا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:
«إِنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ قَيْسٍ أَوِ الْأَشْعَرِيَّ أُعْطِيَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ»[40] ’’عبد اللّٰہ بن قیس یا ابوموسیٰ اشعری کو آلِ داود کی بانسریوں میں سے ایک بانسری دی گئی ہے۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں شیخ محمد فواد عبد الباقی لکھتے ہیں:
«أعطي مزمارا من مزامير آل داود» شبه حسن الصوت وحلاوة نغمته بصوت المزمار وداود هو النبي عليه السلام وإليه المنتهى في حسن الصوت بالقراءة والآل في قوله آل داود مُقحَمَة قيل معناه ههنا الشخص كذا في النهاية وقال النووي قال العلماء المراد بالمزمار هنا الصوت الحسن وأصل الزمر الغناء ’’آل داود کی بانسریوں ،حسن صوت اور نغمہ کی حلاوت میں بانسری سے تشبیہ دینا مراد ہے۔ داود اللّٰہ کے نبی ہیں، اور آپ خوش الحانی میں حرف آخر ہیں۔آل داود میں آل کا لفظ زائد ہے۔کہا گیا کہ اس کا مطلب شخص ہے جیسا کہ النہایۃ میں ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ علما کہتے ہیں کہ مزمار سے مراد خوبصورت آواز ہےاور زمر کا اصل مطلب نغمگی ہے۔‘‘
34۔نبی کریمﷺ سیدنا عبداللّٰہ بن مسعود کی طرح ، سیدنا ابو موسٰی اشعری کی تلاوت بھی سماعت فرماتے، ابوموسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَوْ رَأَيْتَنِي وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ، لَقَدْ أُوتِيتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ»[41] ’’اگر تو مجھے اس حال میں دیکھتا کہ کل رات تیری تلاوت سن رہا تھا (تو تجھے اچھا لگتا)۔ تجھے آل دادو کی بانسریوں میں سے ایک بانسری عطا کی گئی ہے۔‘‘ 35۔نبی کریمﷺ جس طرح صحابہ سے تلاوتِ قرآن سنتے، اسی طرح اپنے صحابہ کو تلاوتِ قرآن سنایا کرتے، تاکہ قرآن سننے اور سنانے سے تذکیر وموعظت حاصل ہو، اوراس طرح صحابہ کرام نبی کریمﷺ کا طریقۂ تلاوت پوری طرح محفوظ کرلیں، جیساکہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا اُبی بن کعب سے ارشاد فرمایا:
قَالَ لِأُبَيٍّ: «إِنَّ اللهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ»، قَالَ: آللهُ سَمَّانِي لَكَ؟ قَالَ: «اللهُ سَمَّاكَ لِي»، قَالَ: فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْكِي[42] ’’آپ نے اُبی سے کہا کہ مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تجھے قرآنِ کریم سناؤں۔ ابی کہنے لگے کہ کیا آپ کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے، آپ نے جواب دیا کہ تیرا نام اللّٰہ تعالیٰ نے میرے لیے بولا ہے۔ اُبی بن کعب یہ سن کر(خوشی سے ) رونے لگے۔‘‘ اس سے اگلی حدیث میں آتا ہے کہ جس سورہ کو پڑھ کرسنانے کا حکم اللّٰہ تعالیٰ نے دیا تھا، وہ سورۃ البینہ لم یکن الذین کفرواتھی۔
خوش الحانی میں آواز کو کھینچنا اور ترجیع کرنا 36۔ پیچھے بلند آوازی، رقت، خشیت، سوز، معانی میں غور وتدبر، آیات کو دہرانا او رٹھہر ٹھہر کر پڑھنا وغیرہ کی احادیث بیان ہوئی ہیں۔ آپﷺ خوش الحانی کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا کرتے،ذیل میں اس کی مزید تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:
سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: «كَانَ يَمُدُّ مَدًّا»[43] ’’میں نے انس بن مالک سے نبی کریم ﷺ کی قراء ت کے بارے دریافت کیا تو آپ نے کہا: آپ الفاظ کو لمبا کھینچا کرتے تھے۔‘‘ 37۔ ایک اور حدیث میں مدّ کی مزید تفصیل ہے:
سُئِلَ أَنَسٌ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ ﷺ؟ فَقَالَ: «كَانَتْ مَدًّا»، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ﴾[الفاتحة: 1] يَمُدُّ بِبِسْمِ الله، وَيَمُدُّ بِالرَّحْمَنِ، وَيَمُدُّ بِالرَّحِيمِ[44] ’’انس بن مالک سے نبی کریمﷺ کی قراء ت کے بارے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ آواز کھینچنے کے ساتھ ہوتی تھی۔ پھر انہوں نے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر سنائی کہ بسم اللّٰہ کو کھینچا کرتے، اور الرحمٰن اور الرحیم پر مدّ کیا کرتے۔‘‘ 38۔ مد کے علاوہ آپﷺ خوش الحانی کے لیے آواز کو دہرایا (ترجیع) بھی کرتے۔ علما نے ترجیع کی وضاحت ترديد الصوت أو هو تحسين الصوت یعنی ’’آواز کو دہرانا یا اس میں خوبصورتی کے لیے لہریں پیدا کرنا۔‘‘ سے کی ہے، عبد اللّٰہ بن مغفّل سے مروی ہے:
«رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ أَوْ جَمَلِهِ، وَهِيَ تَسِيرُ بِهِ، وَهُوَ يَقْرَأُ سُورَةَ الفَتْحِ - أَوْ مِنْ سُورَةِ الفَتْحِ - قِرَاءَةً لَيِّنَةً يَقْرَأُ وَهُوَ يُرَجِّعُ»[45] ’’میں نے نبی کریمﷺ کو آپ کی اونٹنی یا اونٹ پر قرآن پڑھتے سنا۔ اور وہ آپ کو لیے چل رہی تھی۔ آپ سورۃ الفتح یا اس سورت میں سے کچھ پڑھ رہے تھے۔ بڑی پرسوز انداز میں تلاوت کرتے اور اس میں ترجیع فرماتے۔‘‘ 39۔
عَبْدِ الله بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اله ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ يَقْرَأُ بِسُورَةِ الْفَتْحِ، وَهُوَ يُرَجِّعُ»[46] ’’ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو فتح مکہ کےدن دیکھا کہ آپ اونٹنی پر سوار، سورۃ الفتح کی تلاوت کررہے ہیں اور آپ اس میں ترجیع ( دہرانا) کررہے ہیں۔‘‘ 40۔ یہی حدیثِ مبارکہ صحیح مسلم میں ان الفاظ سے ، عبد اللّٰہ بن مغفل سے مروی ہے:
«قَرَأَ النَّبِيُّ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ فِي مَسِيرٍ لَهُ سُورَةَ الْفَتْحِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَرَجَّعَ فِي قِرَاءَتِهِ» قَالَ مُعَاوِيَةُ: «لَوْلَا أَنِّي أَخَافُ أَنْ يَجْتَمِعَ عَلَيَّ النَّاسُ لَحَكَيْتُ لَكُمْ قِرَاءَتَهُ»[47] ’’نبی کریمﷺ نے فتح مکہ والے سال، اپنے سفر میں، سورۃ الفتح کو اپنی اونٹنی پر پڑھا۔ اس تلاوت میں آپ نے ترجیع کی۔ سیدنا معاویہ کہتےہیں کہ اگر مجھے (اس وقت) لوگوں کے اپنے اوپر جمع ہوجانے (ٹوٹ پڑنے)کا خوف نہ ہوتا تومیں تمہیں نبی کریم کی وہ قراءت کرکے سناتا۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں شیخ فواد عبد الباقی فرماتے ہیں:
«فرجّع في قراءته» قال القاضي: أجمع العلماء على استحباب تحسين الصوت بالقراءة وترتيلها. قال أبو عبيد: والأحاديث الواردة في ذلك محمولة على التحزين والتشويق. قال واختلفوا في القراءة بالألحان. فكرهها مالك والجمهور لخروجها عمّا جاء القرآن له من الخشوع والتفهم، وأباحهم أبو حنيفة وجماعة من السلف. والترجيع ترديد الصوت في الحلق وقد حكى عبد الله بن مغفّل ترجيعه عليه السلام بمدّ الصوت في القراءة نحو . ’’اپنی قرآت میں ترجیع کی۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ علما کا تلاوت وترتیل قرآن میں آواز کو مزین کرنے پر اجماع ہے۔ابو عبید کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں وارد احادیث پرسوز اور پرشوق کرنے پر محمول ہیں۔ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو خوبصورت الحان سے پڑھنے میں علما کا اختلاف ہے۔ امام مالک او رجمہور نے ایسی خوش الحانی کو مکروہ قرار دیا ہے جس سے تلاوتِ قرآن کا خشوع اور معانی میں فکروتدبر متاثر ہو۔جبکہ امام ابو حنیفہ اور اسلاف نے بہرحال اس کو مستحب کہاہے ۔اور ترجیع سے مراد حلق میں آواز کو لوٹانا ہے۔ جیساکہ عبد اللّٰہ بن مغفل نے نبی کریم کی ترجیع کو آواز کھینچنے سے بیان کیا ہے ، جیسے آ آ آ.‘‘
41۔ ترجیع کی تائید اس حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے، جو اُمّ ہانی سے مروی ہے:
«كُنْتُ أَسْمَعُ صَوْتَ رَسُولِ الله ﷺ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ وَأَنَا نَائِمَةٌ عَلَى عَرِيشِي وَهُوَ يُصَلِّي يُرَجِّعُ بِالْقُرْآنِ»[48] ’’میں نبی کریمﷺ کی آواز سن رہی تھی کہ آپ وسطِ رات کو تلاوت کررہے تھے حالانکہ میں اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ آپ نماز میں قرآن کو ترجیع سے پڑھ رہے تھے۔‘‘
حوالہ جات[1] سورۃ آلِ عمران: 164
[2] سورة البقرة: 121
[3] جامع ترمذی: 2910
[4] مسند احمد: رقم8475۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔( ضعیف الجامع: 5408)
[5] صحیح مسلم:رقم244
[6] سنن ابن ماجہ 1339، تحقیق محمد فواد عبد الباقی، طبع دار احیاء کتب العربیۃ، قال الالبانی : صحیح... محدثِ شام شيخ شعيب ارناؤوط نے ا س حدیث کی جمیع اسناد ذکر کرکے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ مزید تحقیق حدیث کے لیے دیکھیں: اخلاق حملۃ القرآن از آجری
[7] صحيح بخاری:رقم4854
[8] سورة الزمر: 23
[9] صحيح بخاری:6؍197، رقم 5055
[10] سنن ابن ماجہ:رقم 1337، تحقیق:شیخ شعیب ارناؤوط (2؍361)... یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے اور اکثر میں ضعف پایا جاتا ہے، تاہم کثرتِ طرق کی بنا پر یہ احادیث مقبول درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔
[11] سورة ص: 29
[12] صحيح مسلم : 1؍ 536،رقم 203
[13] الشمائل المحمديةاز امام ترمذی،ص: 256، رقم 314،طبع المكتبة التجارية
[14] سورۃ المائدة: 118... سنن ابن ماجہ:1؍429، رقم1350،قال الألبانی:حسن
[15] آل عمران: 190صحيح ابن حبان ،محقق:2؍ 387،رقم 620 ۔شیخ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ إسناده صحيح علىٰ شرط مسلم، وأخرجه أبو الشيخ في "أخلاق النبي" ص 186 عن الفريابي، عن عثمان بن أبي شيبة، بهذا الإسناد. وله طريق أخرى عن عطاء عند أبي الشيخ ص 190، 191 وفيه أبو جناب الكلبي يحيى بن أبي حية، ضعفوه لكثرة تدليسهن لكن صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه
[16] سورة المزمل: 1تا 4
[17] مصنف عبد الرزاق صنعانی:3؍ 72،رقم 4843
[18] صحيح مسلم :1؍ 537،رقم 204... باب استحباب تطویل القراءة في الصلاة
[19] صحیح مسلم: رقم 118
[20] صحيح بخاری:9؍153،رقم 7525
[21] الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 259، رقم 318، المكتبة التجارية
[22] الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 262،رقم 322، المكتبة التجارية
[23] الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 260،رقم 319، المكتبة التجارية
[24] صحيح بخاری:9؍159،رقم 7548
[25] سورة المزمل: 4
[26] سنن أبو داود :2؍73،رقم 1464، قال الالبانی: حسن صحیح
[27] الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 259،رقم 317، المكتبة التجارية
[28] جامع ترمذی: 2923 ... هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ
[29] صحيح بخاری:9؍154، رقم 7527
[30] سنن ابوداود :2؍74... رقم: 1468 ، قال الالبانی: صحیح
[31] صحيح ابو داود 1320، السلسلةالصحيحة771، مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر :ص 137،صحيح الجامع الصغیروزيادتہ:1؍601، رقم 3145، سنن دارمی ابن نصر فی الصلاة ، صحیح، مشكاة المصابیح:2208
[32] طبرانی عن ابن مسعود، رقم 3144 ... (حسن) ؛ السلسلة الصحيحة: 1815
[33] سنن ابو داود :2؍75، رقم 1471... حكم البانی : حسن صحيح
[34] صحيح بخاری:9؍158، رقم 7546
[35] صحيح مسلم :1؍545، رقم 233، صحيح بخاری:9؍158،رقم 7544، 6؍191،رقم 5023
[36] سورة انشقاق:1،2
[37] سنن ابن ماجہ:1؍425،رقم 1340... تعليق محمد فؤاد عبد الباقی:فی الزوائد إسناده حسن
[38] سنن ابن ماجہ:1؍425، رقم 1338، قال الالبانی: صحیح
[39] سنن ابن ماجہ:1؍49، رقم 138،قال الالبانی:صحيح
[40] صحيح مسلم :1؍546،رقم 235
[41] صحيح مسلم :1؍ 546،قم 236
[42] صحيح مسلم :1؍550، رقم 245
[43] صحيح بخاری:6؍195،رقم 5045
[44] صحيح بخاری:6؍195،رقم 5046
[45] صحيح بخاری:6؍195،رقم 5047
[46] سنن ابو داود :2؍74،رقم 1467، قال البانی: صحیح
[47] صحيح مسلم :1؍547،رقم 237
[48] شرح معانی الآثار :1؍ 344، رقم 2024