تحفظِ نسواں بل كا تنقیدی جائزہ اور متبادل حل

تحفظ نسواں بل 2016ء پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے جب سے پاس ہوا ہے، اس کی مخالفت اور حمایت نہایت شدومد سے جاری ہے۔مخالفت کرنے والے بلاتفریق مسلک ومشرب علماے کرام اور تمام دینی جماعتیں ہیں۔ کسی بھی مذہبی مکتبِ فکر کی حمایت اس کو حاصل نہیں ہے۔

حمایت کرنے والے کون؟

حمایت کرنے والے کون ہیں؟ ایک تو اس کے بنانے والے اور وہ ہیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے امن وامان سے متعلق خصوصی یونٹ، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکن اور پنجاب اسمبلی کی بعض خواتین ارکان[1]۔ ان میں دیکھ لیجئے، ایک بھی عالم دین یا ایسی شخصیت نہیں ہے جسے علومِ دینیہ میں مہارت یا کم ازکم ضروری شناسائی ہی ہو۔

حمایت کرنے والوں کی دوسری قسم ایسے وزرا، دیگر وابستگانِ حکومت اور ان اراکین اسمبلی پر مشتمل ہے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل تعلیمی اداروں میں رقص وسرود کی محفلوں کے انعقاد کے خلاف پاس ہونے والے بل کی مخالفت کر کے اس کو ختم کروا دیا تھا اور ان حیاباختہ پروگراموں اور بےہودگیوں کو جاری رکھنے پر اصرار کیا اور اس ’حق‘ کو تسلیم کروایا۔ اس سے ان راکین کی اسلام سے وابستگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

تیسری قسم ان خواتین کی ہے جنہوں نے این، جی اوز (غیر سرکاری تنظیمیں) قائم کر رکھی ہیں، جن کا مقصد ہی مسلمان عورت کو بے پردہ کر کے اور بے حیا بنا کر مردوں کے دوش بدوش کھڑا کرنا ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی اسلامی خصوصیات سے محروم ہو کر مغربی تہذیب کو اپنا لے۔

اسلامی معاشرے کی اصل خصوصیت یہ ہے کہ عورت تعلیم کے ساتھ ساتھ حیا وعفت کے جذبہ وتصور سے آراستہ ہو، اور اپنی فطری خصوصیات اور فطری مقاصد کے مطابق گھر کی چار دیواری کے اندر اُمورِخانہ داری ، خاوند کی خدمت واطاعت، بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم وتربیت وغیرہ کا کام سر انجام دے۔ یا پھر ان کے ساتھ جزوی طور پر ایسے کام کر لے جن میں مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو۔ جیسے پرائمری سکول میں ٹیچنگ، لڑکیوں کی تعلیم، بطورِ لیڈی ڈاکٹر مریض عورتوں کا علاج وغیرہ۔

مغربی تہذیب کیا ہے؟ جس کے فروغ کے لیے مذکورہ تنظیمیں سرگرم ہیں، اور جس کے لیے ان تنظیموں اور ان کے بانیوں کو مغرب کے استعماری اور اسلام دشمن ممالک یا تنظیموں کی طرف سے بھاری مقدار میں فنڈز مہیا کیے جاتے ہیں۔

وہ تہذیب ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کو معاشی مشین کا کل پرزہ بننا چاہیے۔ وہ گھر کی چاردیواری کو خیرباد کہہ کر مِلوں، فیکٹریوں میں کام کرے، دفتروں میں کلر کی اختیار کرے یا افسروں کی بانہوں میں جھولے، راتوں کو کلبوں میں مردوں کے ساتھ ڈانس کرے اور ہر وہ کام کرے جو اسلام میں اس کے لیے ناپسندیدہ ہے، لیکن مغربی تہذیب میں پسندیدہ ہے، جیسے بےپردگی، نامحرم مردوں کے ساتھ بے باکانہ اختلاط، مردوں کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ سیر سپاٹا وغیرہ۔

مغرب زدہ خواتین اس بل کی حمایت کیوں نہیں کریں گی؟ اس بل نے تو ان کی آرزوؤں اور مقاصد کے ہفت خواں کو ایک ہی چست میں طے کر ا دیا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ بل واقعی نافذ ہو گیا تو پاکستان میں بھی مغرب کی طرح خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور عورت یکسر غیر محفوظ ہو جائے گی۔ اس مقصد کےحصول میں مغرب اپنی ایجنٹ خواتین کے ہزار جتن کے باوجود ، ابھی تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا تھا لیکن حکومت ِپنجاب ’مبارک باد ‘کی مستحق ہے کہ اس نے جس طرح پہلی جماعت ہی سے انگریزی مسلط کر کے مغرب کے طوق غلامی کو ہر مسلمان بچے کے زیب ِگلو کر دیا ہے۔ اب مسلمان عورت کے لیے وہ نظام بھی تجویز کر دیا ہے جس سے چند سالوں میں نہایت تیزی سے وہ خاندانی حصار اور تحفظ، جو پاکستانی عورت کو بہت حد تک حاصل ہے، ختم ہو جائے گا اور پاکستانی عورت بھی مغرب کی طرح خاندانی حصار سے آزاد، مرد کی بالادستی ، جو اس کی حفاظت کا ضامن ہے، سے محفوظ اور کٹی پتنگ کی طرح آوارہ منشور اور ہوس کاروں کی مرکز ِنگاہ ہو گی۔ لا قدّره اللّٰہ ، ثم لا قدره اللّٰہ

اس بل کی حمایت کرنے والا چوتھا طبقہ، روزنامہ اخبارات کے ان کالم نگاروں پر مشتمل ہے جو ہر نئے پیش آمدہ مسئلے میں کالم نگاری ضروری سمجھتے ہیں، چاہے وہ اس موضوع کی اہمیت، تقاضوں اور اس کی ضروری اہلیت سے کوئی آگاہی نہ رکھتے ہوں۔ کچھ اور نہیں تو وہ متعلقہ مسئلے سے آگاہی رکھنے والوں کو ہی طعن وتشنیع کا ہدف بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کالم نویسی کا حق ادا کر دیا ہے، یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہر مسئلے میں ٹانگ اَڑانا، یعنی رائے زنی کرنا ہمارا بنیادی اور جمہوری حق ہے۔ اسی لیے وہ اظہارِ رائے کی آزادی کو جمہوریت کا لازمی حصہ سمجھتے اور باور کراتے ہیں لیکن جوابِ آں غزل کے طور پر جب آگاہی رکھنے والے اہل علم وتحقیق تصویر کا دوسرا رخ اور صحیح رخ پیش کرتے ہیں تو اس کو بالعموم اخبارات میں شائع نہیں کیا جاتا۔ ان کے نزدیک آزادئ صحافت یا آزادئ اظہارِ رائے صرف یہ ہے کہ خود ان کو لکھنے اور شائع کرنے کی اجازت ہو، وہ جو چاہیں لکھیں اور شائع کریں۔ اگر وہ رات کو دن اور دن کو رات باور کرائیں تو ان کا حق ہے جسے سلب کرنا جمہوریت کے خلاف ہے لیکن دوسرے کسی باخبر شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یہ لکھے کہ یہ رات کس طرح ہو سکتی ہے جب کہ سورج کی روشنی ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور یہ دن کس طرح ہو سکتا ہے جب کہ تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی ہے؟ یہ بھی جمہوریت ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت یا آزادئ رائے کا حق صرف ان کے لیے مخصوص ہے۔ اس لیے قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہے اور وہ اخبارات کے مالک، یا ان کے مستقل تنخواہ دار کالم نگار ، یا مشہور قلم کار ہیں!!

رہے اہل علم وتحقیق اور اربابِِفکر ونظر، چونکہ بدقسمتی سے نہ وہ اخبارات کے مالک یا مدیر ہیں اور نہ اخبارات کے مستقل تنخواہ دار ملازم اور کالم نگار۔ وہ چاہے آسمانِ علم وتحقیق کے درخشندہ ستارے ہوں، بحر علم دینیہ کے غوّاص اور ماہر ہوں، اصابتِ فکر ونظر کے حامل ہوں لیکن ان کی تحقیق یا وضاحتی بیان ناقابل اشاعت قرار پائے گا، وہ سرد خانے کی نذر ہو گا یا ردّی کی ٹوکری اس کا مقدر ہو گا۔ مالکان ومدیران اخبارات کا یہ وہ ’جمہوری حق یا رویہ‘ ہے جو سالہا سال سے راقم کے تجربہ ومشاہدہ کا حصہ ہے۔ یہ جگ بیتی ہی نہیں، آپ بیتی بھی ہے جس میں ایک فی صد بھی غلط بیانی نہیں۔

بہر حال بات ہو رہی تھی اس متنازعہ بلکہ مغربیت میں ڈوبے بل کی کہ اس کی حمایت میں جو چوتھا طبقہ سرگرم ہے وہ اخباری کالم نویسوں کا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ جرعۂ تلخ اُن کے لیے کتنا بھی ناخوش گوار ہو، مگر حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ تینوں حمایتیوں کی طرح، یہ بھی قرآن وحدیث کے علوم سے بہرحال بہرہ ور نہیں ہے۔

دنیائے علم وتحقیق میں یہ بات مسلمہ ہے کہ سائنس، ریاضی، انجینئرنگ، طب وحکمت، معاشیات، سیاسیات، یا کسی بھی علم وفن میں کوئی کتاب یا مضمون لکھنے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے جو اس علم یا فن کا ماہر ہو اور اس پر کامل عبور رکھتا ہو۔ اس کے بغیر کوئی شخص کسی بھی فن پر لکھنے کی جرأت نہیں کرتا اور اگر کوئی ایسی جسارت کر لے تو اسے کوئی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا بلکہ اسے دنیا احمق پاگل تصور کرے گی کہ ’ذات کی کوڑھ کر لی اور ...‘

لیکن دین اسلام، وہ دنیا کا مظلوم ترین دین ہے کہ اس کی اَبجد سے ناآشنا لوگ اس میں رائے زنی بلکہ اس میں ’اجتہاد‘ کرنا نہ صرف اپنا حق سمجھتے ہیں بلکہ جن علما نے علوم دینیہ کے سیکھنے سکھانے میں اپنی عمریں صرف کی ہیں، ان کو دینی معاملات میں رائے دینے کا اہل ہی نہیں سمجھا جاتا۔

دیکھ لیجئے! اس بل کا سارا تعلق خاندانی نظام سے ہے جس میں سب سے زیادہ اہم پہلو، میاں بیوی کا باہمی تعلق ہے۔ اس کے بارے میں اسلام میں اتنی تفصیلی ہدایات ہیں کہ دنیا کے کسی نظام، مذہب یا نظریے میں نہیں ہیں۔ لیکن یہ بل بناتے وقت اسلام کی ان روشن تعلیمات کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ سارا بل قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کے خلاف ہے اور مغربی افکار کا چربہ یا اس کی بھونڈی نقل ہے۔ اسی لیے کسی عالم دین سے قطعاً مشاورت کا اہتمام نہیں کیا گیا۔

اس کے بنانے یا بنوانے والے تو کہہ ہی رہے ہیں کہ یہ بل اسلام کے عین مطابق ہے اور ان کی تو یہ مجبوری ہے کہ اُنہوں نے تو یہ ساری کاوش کی ہے، اُن کی طرف سے تو یہ دفاع، صحیح ہے یا غلط؟ اس سے قطع نظر، سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن اخبارات کے کالم نگار بھی ماشاء اللہ، چشم بد دور، مفتیانِ دین متین اور قرآن وحدیث کے سکالر بن گئے ہیں اور فتویٰ صادر فرما رہے ہیں کہ بل میں کوئی چیز خلافِ اسلام نہیں ہے بلکہ وہ یہاں تک دعوے کر رہے ہیں کہ علما یوں ہی شور مچار رہے ہیں لیکن وہ اس کی کوئی شق خلافِ اسلام ثابت نہیں کر سکے۔

زیر نظر مضمون بل کے اداکاروں اور ہدایت کاروں کے علاوہ، جدید اسلام کے ان ’مفتیانِ کرام‘ اور ’محققین عظام‘ کی خدمت میں پیش ہے کیونکہ اس میں ان کے دعوؤں کے برعکس اس بل کو مکمل طور پر خلافِ اسلام ثابت کیا گیا ہے جس سے ان کے چیلنج کا جواب بھی سامنے آ جائے گا کہ علماء اس کو خلاف اسلام ثابت نہیں کر سکے یا نہیں کر سکتے۔ بعون اللّٰہ وتوفیقہ

بل کا جائزہ

یہ بل حقیقی بنیادوں سے محروم اور چند مفروضوں پر مبنی ہے۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں...

بل کا آغاز ان الفاظ سے کیا گیا ہے:

’’چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اصناف کے مابین مساوات کی ضمانت دے کر ریاست کو خواتین کے تحفظ کے لیے خاص شق وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہو گیا ہے کہ خواتین کو گھریلو تشدد سمیت تشدد سے تحفظ فراہم کیا جائے.... ‘‘ [2]

تبصرہ:’اصناف کے مابین مساوات‘ کے الفاظ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کی ذیلی دفعہ 2 سے ماخوذ یا اس کا مفہوم ہیں، آئین کے اصل الفاظ (اُردو متن) حسبِ ذیل ہیں:

’’جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔‘‘

اس کا مطلب اگر یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ دونوں ایک ہی قسم کی صلاحیتیں لے کر دنیا میں آئے ہیں اور دونوں دنیا کا ہر کام کر سکتے ہیں تویہ بداہۃً غلط ہے۔ گو مغرب کے نزدیک مساواتِ مرد وزن کا یہی مطلب ہے اور مغرب زدگان بھی اس غیر عقلی اور غیر فطری نظریے پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں لیکن اسلام اس مساواتِ مرد وزن کو تسلیم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان فرق کیا ہے، ان کے مقصدِ تخلیق میں بھی اور دائرہ کار میں بھی، اور اسی اعتبار سے دونوں کی صلاحیتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف عطا کی ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ’خواتین کے امتیازی مسائل‘ اور زیر طبع کتاب ’حقوقِ نسواں اور حقوق مرداں‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اور اگر اس دفعہ کا مطلب یہ ہے کہ مرد اور عورت، اگر چہ دو جنس ہیں، لیکن محض اس بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا، دونوں کے حقوق کا تحفظ اور دونوں کی فلاح وبہبود کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے گی۔ تو یہ مطلب بالکل صحیح ہے اور اسلام سے متصادم نہیں، جب کہ پہلا مطلب اسلام سے یکسر متصادم ہے۔

اس دوسرے مفہوم کی رو سے عورت پرظلم وتشدد کی جو جو صورتیں بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، ان کا سد باب نہایت ضروری اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ذمے داری کی ادائیگی میں موجودہ قوانین اگر ناکافی ہیں تو نئے قوانین بنانا اور مناسب تدابیر اختیار کرنا بھی نہایت ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ کیونکہ یہ نہ اسلام کے خلاف ہے اور نہ علماے کرام اس میں مزاحم یا اس کے مخالف ہیں۔ اسلام عورت کو ہر قسم کا تحفظ دیتا ہے بلکہ اسلام ہی عورت کو تحفظ دیتا ہے، علما اس کے مخالف کس طرح ہو سکتے ہیں؟ ایں خیال است ومحال است وجنوں!

لیکن اصل بات یہ ہے کہ حکومت کے ذمے داران یا ان کے پس پردہ دیگر حضرات وخواتین نے آئین کی مذکورہ شق یا دفعہ کا مطلب ہی نہیں سمجھا ہے اور اس کو صرف اپنی مطلب برآری کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کو ایک مثال سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ملک میں آجر اور اجیر (محنت کش اور مالک) دو فریق ہیں، ملک کی ساری آبادی انہی دو فریقوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ دونوں فریقوں کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسے قوانین بنائے کہ نہ محنت کش مالک پر ظلم کر سکے اور نہ مالک مزدوروں کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ کرسکے۔اب اگر مالکان مزدوروں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے، ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ کرتے ہیں جس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور ہیں جن کو ہر باشعور شخص سمجھتا ہے۔ ریاست کی یقیناً ذمے داری ہے کہ وہ مزدوروں (محنت کشوں، ملازموں) کے حقوق کا تحفظ کرے اور ایسی قانون سازی کرے کہ مظلومین کی داد رسی ہو سکے، ان کے حقوق کو کوئی پامال نہ کر سکے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جا سکے۔ لیکن حکومت مزدوروں کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین بنائے جن میں مالکان کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جائے تو کیا یہ قانون سازی معقول کہلائے گی؟ یا ایسے قوانین سے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو گا؟ یا اس کو اسلام کے مطابق قرار دیا جا سکے گا؟ نہیں، یقیناً نہیں۔ نہ ایسی قانون سازی میں کوئی معقولیت ہو گی، نہ اس سے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ ہی ہو گا اور نہ اسے اسلام کے مطابق ہی کہا جا سکتا ہے۔

اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلام مزدوروں پر ظلم کو جائز قرار دیتا ہے، یا اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی وضاحت اور ان کے اہتمام کی تاکید نہیں ہے، یا اُن کی بابت اسلامی ریاست کو ذمے دار قرار نہیں دیتا؟ بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں نہایت اعتدال اور توازن ہے، وہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے اور اس میں تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اگر اس میں مزدوروں کی بابت نہایت اعلیٰ تعلیمات دی گئی ہیں جن کو ملحوظ رکھنا مزدوروں اور ملازمین کے لیے ضروری ہے۔ جب تک دونوں کے حقوق کا تعین اور ان کے تحفظ یکساں طور پر نہیں کیا جائے گا ، کسی بھی ملک کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔

اس لیے علما کہتے ہیں کہ یک طرفہ قانون سازی (ون وے ٹریفک) اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی ریاست اگر صرف مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے قانون بنائے جن میں دوسرے فریق (مالکان) کے حقوق نظر انداز کر دے، تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ملک کی تمام فیکٹریاں ، کارخانے، ملیں، مارکیٹیں بند ہو جائیں گی۔ اور جن کے تحفظ کے لیے یک طرفہ قانون بنائے گئےہوں گے، وہ سب بے روزگار ہو جائیں گے اور ان کو کھانے کے لالے پڑ جائیں گے۔ ملوں، کارخانوں کے مالک تو کارخانے بند کرنے کے بعد بھی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے لیکن مزدوروں کے پاس کون سا اندوختہ ہوتا ہے کہ وہ مزدوری اور ملازمت کے بغیر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ علاوہ ازیں صنعت کا پہیہ جام ہو جانے سے خود حکومت کو جو ٹیکسوں سے محرومی ہو گی، اس کے بعد نظام حکومت کس طرح چل سکے گا؟

ایک ہی فریق کے حقوق کے تحفظ کی یہ یک طرفہ کارروائی کتنی بھیانک اور خطرناک ہے، جس سے اللہ کی ہزار بار پناہ۔ مزدور بھی صداے احتجاج بلند کرنے پرمجبور ہوں گے کہ یہ کیا ہمارے حقوق کا تحفظ ہے کہ ہم بے روزگار ہو گئے اور دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو گئی ہے۔

اس لیے ریاست کی ذمے داری صرف کسی ایک ہی فریق کے حقوق کا تحفظ نہیں ہے بلکہ اس سے متعلقہ دوسرے فریق کے حقوق کا تحفظ بھی ہے۔ اگر ایک فریق ، دوسرے فریق پر ظلم کرتا ہے تو بلاشبہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی کرے اور ایسے قانون بنائے کہ ظلم کا راستہ بند ہو جائے۔ لیکن اس میں قطعاً نہ کوئی معقولیت ہے اور نہ اس کا حق ہے کہ ایک فریق کے تحفظ کے لیے ایسی قانون سازی کرے کہ دوسرے فریق کے حقوق اس سے متاثر ہوں۔

1.کیا صرف مرد ہی عورت پر ظلم کرتا ہے؟

تحفظ نسواں بل میں پہلی خرابی یا مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں صرف عورتوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس کے ذمّہ دار مرد ہیں۔ اس لیے عورتوں کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے۔

اوّل تو یہ صرف مفروضہ ہے اور پروپیگنڈہ ہے کہ ہر صورت میں عورت مظلوم اور مرد ظالم ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرے میں جہالت اور اسلامی تعلیمات سے بےخبری عام ہے جس کی وجہ سے اگر کبھی مرد عورت پر ظلم کرتا ہے، تو عورت بھی کم وبیش کے کچھ فرق کے ساتھ اس معاملے میں مرد سے پیچھے نہیں ہے، وہ بھی مختلف انداز سے مرد پر ظلم کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عورت میں صبر اور مرد کے مقابلے میں نسبتاً حوصلے کی کمی ہے (عورت مانے یا نہ مانے، یہ چیز فطری ہے) ۔اگر اس پرظلم ہوتا ہے تو وہ واویلا کرتی ہے ، اور مغربی فنڈز پر پلنے والی این جی اوز بھی اس کو، نمک حلالی کے طور پر خوب اُچھالتی ہیں۔ جب کہ مرد کے اندر عزم وحوصلہ زیادہ ہے، وہ عورت کی طرف سے کی گئی زیادتی کو بالعموم نظر انداز کر دیتا ہے جیسا کہ اس کو کرنا بھی چاہیے کہ اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں اور اس کی قوامیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے بغیر گھر کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد گھرانوں میں چھوٹے موٹے تنازعات کے باوجود عورت امن وسکون کی زندگی گزار رہی ہے اور اس کو اُن مسائل کا قطعاً سامنا نہیں کرنا پڑتا جن کے لیے بل کی صورت میں پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ صرف 10 فیصد گھرانے بہ مشکل ایسے ہوں گے جہاں ایک دوسرے پر ظلم کیا جاتا ہے جو کبھی عورت کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سے اور کبھی اس میں دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ان صورتوں میں صرف مرد ہی کو ظالم تصور کر کے قانون سازی کرنا اور وہ بھی یک طرفہ قطعاً غیر معقول ہے۔

ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ایک کونسلر اور ماہر نفسیات لیڈی ڈاکٹر کے مشاہدات ملاحظہ فرما لیں: ان کا نام فوزیہ سعید ہے وہ ایک مضمون بعنوان ’ کیا صرف مرد ذمے دار ہے؟‘ تصویر کا دوسرا رخ میں لکھتی ہیں:

’’8؍ مارچ خواتین کا عالمی دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے جس میں خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے، جگہ جگہ سیمینار کیے جاتے ہیں۔ وہاں مردوں کے ظلم کی داستانیں اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں کہ کچھ لوگ رونے لگتے ہیں۔ 2015ء کو میں نے کافی ورلڈ ویمن ڈے اٹینڈ کیے، تمام کا فوکس مردوں کے ظلم، عورتوں کو جلائے جانے کے واقعات، عورتوں پر پھینکے گئے تیزاب یا تعلیمی میدان میں آگے نہ بڑھنے دینے یا وقت سے پہلے شادی کر کے ان کے حقوق غصب کرنے یا عمر گزر جانے پر بھی شادی نہ ہونے، جائیداد میں ان کے حقوق پامال کرنے کو نمایاں طور پر بیان کیا گیا۔ بطورِ ماہر نفسیات میں نے نہایت ہی سوچ بچار کے بعد یہ تجزیہ کیا کہ 80 فیصد واقعات میں عورتوں کا اپنا قصور ہوتا ہے۔ میں ایک کونسلر ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ہر ظلم کے پیچھے اکیلا مرد ذمے دار نہیں، اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی عورت بھی برابر کی شریک ہوتی ہے۔ بلکہ آپ بلا تعصب جائزہ لیں تو جو مرد ظلم کرتا ہے اس کے پیچھے کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ عورت اس کی ماں بھی ہو سکتی ہے، بہن بھی، بھابھی بھی، یا جدید دور کی نیو رشتے دار گرل فرینڈ بھی ہو سکتی ہے۔پھر الزام مرد پر ہی کیوں؟

اگر آپ بلا تعصب تحقیق کریں تو معلوم ہو گا کہ حقوقِ نسواں پر بے شمار این جی اوز پر کام کر رہی ہیں اور مردوں کے ساتھ کیے گئے ظلم پر کوئی ایک یا دو این جی اوز ہیں۔ عورتوں پر ظلم کی بات کو اُچھالا جاتا ہے مگر اس کا کوئی حل یا جڑ سے ختم نہیں کیا جاتا، جڑ میں اصل مجرم کوئی نہ کوئی عورت کسی نہ کسی روپ میں بیٹھی اپنے بیٹے، بھائی، دیور، خاوند کو بہکا رہی ہوتی ہے۔

عورت پر ظلم کیا جاتا ہے، میں اتفاق کرتی ہوں، مردوں کی سوسائٹی ہے۔ مگر مردوں کو پالنے اور پروان چڑھانے والی اور شیر کا جگر دینے والی عورت ہی ہوتی ہے۔ مردوں کو دوسری شادی پر اُکسانے والی بھی کوئی نہ کوئی عورت ہی ہوتی ہے جو اپنے بھائی یا بیٹے کو کہتی ہے، بیوی کو آگ لگا دو، تیزاب پھینک دو، طلاق دے دو، ہم تمہارے لیے نئی بیوی لے آئیں گے، کسی طرف کوئی گرل فرینڈ یہ جانتے ہوئے کہ مرد شادی شدہ ہے، بچوں کا باپ ہے، اس کے پیچھے لگ جاتی ہے اور کسی عورت کا گھر تباہ کر دیتی ہے اور بدنام مرد ہوتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مرد کو اپنی عقل سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا: مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔‘‘ گویا ذمے داری عورت پر آن پڑی ہے کہ اچھے مردوں کو جنم دینے والی عورت ہی ہے، ذمے داری ماں پر آ گئی ہے کہ وہ اپنے بچے کو کیسے پروان چڑھاتی ہے اور اسے دوسری عورت کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتی ہے یا عورت کے حقوق غصب کرنے پر اکساتی ہے، عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی حفاظت کرنا سیکھے۔ عورت اگر چاہے تو چاروں طرف شانتی اور سکھ کے پھول بکھیر سکتی ہے، عورت کا دل اس کے دماغ پر حکومت کرتا ہے، اس کو کمزور کہنا اس کی توہین ہے۔ آؤ اس دن عہد کریں کہ ہم اپنی حفاظت کا ذمہ خود لیں گی:

ایسے رہا کرو کہ کریں لوگ آرزو                             ایسے چلن چلو کہ زمانہ مثال دے‘‘[3]

یہ ایک پڑھی لکھی ، تجربہ کار، ماہر نفسیات اور کونسلر خاتون کی طرف سے ان لوگوں کی پرزور تردید ہے جو کہتے ہیں کہ ظلم صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتا ہے اور سنیے صرف ایک ہی دن کے دو واقعات ، جو اخبا ر میں رپورٹ ہوئے، دونوں میں ظالم مرد نہیں، عورت ہے:

’’میاں بیوی فوزیہ اور اکرم شاہد کا خرچ نہ دینے پر گھر میں جھگڑا ہوا جس کے بعد فوزیہ بی بی نے اپنے بھائی کو بلا لیا اور دونوں بہن بھائیوں نے مل کر کلہاڑی مار کر 35 سالہ شوہر کو شدید زخمی کر دیا جسے زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا ۔(یہ گوجرانوالہ کا واقعہ ہے) ‘‘[4]

اسی تاریخ کو عورت کے ظلم اور سنگ دلی کا دوسرا واقعہ یہ نقل ہوا ہے کہ

’’بچوں کی آپس کی لڑائی میں شفقت بی بی نے دو سالہ بچے محمد حسنین کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا۔[5] (یہ سرگودھا کا واقعہ ہے) ‘‘

ایک اور خبر ملاحظہ ہو: ’’بے اولاد خاتون نے سوتن کا سوا ماہ کا بیٹا زمین پر پٹخ کر مار ڈالا ۔‘‘[6]

اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ زیر بحث بل کا پہلا سبب ہی حقائق پر مبنی نہیں کہ عورتوں پرتشدد ہوتا ہے بلکہ مفروضے پر قائم ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ظلم دونوں ہی طرف سے ہوتا ہے ۔ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ظلم و تشدد کا سدّ باب کرے۔ کسی ایک ہی فریق کو ظالم باور کر کے یا کراکے یک طرفہ قانون سازی بجائے خود ایک ظلم ہے جو آئین پاکستان کے خلاف ہے، اسلام کے بھی خلاف ہے اور عدل وانصاف کی مسلّمہ روایات کے بھی ۔ عدل، آئین اور اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ جو واقعی ظالم ہیں، ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے نہ کہ اپنے طور پر کسی ایک فریق یا جنس کو ظالم فرض کر کے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے۔

ہمارے ملک میں کون سا طبقہ ایسا ہے جو ظلم وتشدد سے محفوظ ہے؟ عورتیں تو بالعموم پھر بھی گھروں میں رہتی ہیں، سارے بیرونی کام مرد ہی کرتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں مردوں کو قدم قدم پر ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورتوں پر ظلم وتشدد کی صورتیں تو قطعاً اتنی عام نہیں ہیں جتنا پروپیگنڈے کے ذریعے سے باور کرایا جا رہا ہے لیکن اس کے سدّ باب کے لیے تو حکومت کی ’پھرتیاں‘ ایک ناقابل فہم معمہ ہے،البتہ ایک پہلو قابل فہم ہے کہ یہ مغربی ایجنڈا ہے۔ لیکن ملک سے ر شوت کا خاتمہ ہو، کرپشن کا انسداد ہو، عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی آسان میکانزم تیار ہو، سرکاری اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہو جس نے عوام کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ مغرب کو چونکہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لیے مردوں کی عزتِ نفس کا یہ مسئلہ، جو حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے، حکومت مردوں کے اس اہم ترین مسئلے سے یکسر غافل ہے۔ ایں چہ العجبی است!

علاوہ ازیں کیا یہ ’صنفی امتیاز ‘ نہیں جس کی نفی آئین پاکستان میں کی گئی ہے کہ عورتوں کے مفروضہ ظلم وتشدد کے خلاف تو قانون سازی؟ لیکن مرد موجودہ نظام میں واقعۃً اور حقیقۃً گوڈے گوڈے ظلم وتشدد میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ان کی داد رسی کا اور ان کو ظلم سے بچانے کا کوئی اہتمام نہیں۔ ﴿تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ ﴿٢٢ (سورة النجم)

2. عورتوں پر ناجائز تشدد ہوتا ہے!

بل میں دوسرا مفروضہ یہ کارفرما ہے ۔پھر اس تشدد کی بھی مغربیت کی نقالی میں کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں جس کی تفصیل ممکن ہوا تو ہم ان شاء اللہ آگے چل کر بیان کریں گے۔

اول تو جسمانی تشدد کا مسئلہ بھی ایسا ہے کہ اسے مغربی ذہن نے، جو اسے بل کی ایک ایک شق میں کارفرما ہے، ہوّا بنا کر پیش کیا ہے اور مسلسل اس کا پروپیگنڈہ کیا ہے اور کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے جس طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اصل میں اس حاکمیت اور قوامیت سے ہے جو گھر کا نظام چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مرد کو عطا کی ہے۔ اگر گھر کا نظام چلانے میں مرد اورعورت دونوں کو یکساں اختیارات دیے جاتے تو کبھی بھی گھر کا نظام خوش اُسلوبی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ جیسے کسی مملکت میں ایک کے بجائے دوسربراہ (چیف ایگزیکٹو) ہوں تو اس مملکت کا نظام نہیں چل سکتا۔ لازم ہے کہ چیف ایگزیکٹو ایک ہی ہو، اس کی بالا دستی کو چیلنج نہ کیا جا سکتا ہو، باقی عہدہ دار (گورنر، وزراء اور دیگر افسران اعلیٰ) سب اس کے ماتحت ہوں۔ جب سے یہ کائنات معرضِ وجود میں آئی ہے ،یہی اختیارات کی مرکزیت نظام کائنات میں بھی کار فرما ہے جس کی وجہ سے اتنی وسیع وعریض کائنات بغیر کسی ادنیٰ خلل کے چل رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا بلکہ تدبیر کائنات میں کسی اور کی بھی شرکت ہوتی توسارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ ﴿لَو كانَ فيهِما ءالِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتا... ﴿٢٢﴾... سورةالأنبياء

’’اگر آسمان و زمین میں کئی معبود ہوتے تو یہ سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔‘‘

مرد اورعورت کو بنانے والا صرف اللہ ہے اور وہی ان کی فطرت، جذبات، میلانات کو جاننے اور سمجھنے والا ہے۔ جیسے کسی مشین کا موجد ہی سمجھتا ہے کہ وہ کس طرح صحیح طریقے سے کام کرے گی، اس کو کسی اور طریقے سے چلایا جائے گا تو وہ کبھی کامیابی سے نہیں چل سکے گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو دو الگ الگ جنسوں کے طور پر پیدا فرمایا ہے اور وہی جانتا تھا کہ ان دو جنسوں کا جب ملن ہو گا تو زندگی کا یہ ملن کس طرح کامیاب رہے گا اور انسانی زندگی کی گاڑی شاہراہِ زندگی میں کس طرح اپنا سفر زندگی صحیح طریقے سے طے کر سکے گی۔

اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دونوں کے حقوق وفرائض بھی طے کر دیے او رتاکید کر دی کہ دونوں اپنے اپنے فرائض ادا کریں تاکہ دونوں کے حقوق ادا ہو جائیں۔ ان احکامات کی پابندی کی صورت میں دونوں کی زندگی نہایت خوش گوار ماحول میں گزرتی ہے لیکن اگر عورت کی طرف سے نُشوز کا اظہار ہو جس کا مطلب ہے کہ مرد کی حاکمیت وبالا دستی کو وہ چیلنج کرے اور خود بالادست بننے کی کوشش کرے تو چونکہ یہ فطرت اور احکام الٰہیہ کے خلاف ہے، اس سے یقیناً گھر کا نظام خلل اور فساد کا شکار ہو گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس صورت میں بطورِ علاج تین تدبیریں اختیار کرنے کا حکم دیا ہے:

﴿وَالّـٰتى تَخافونَ نُشوزَهُنَّ فَعِظوهُنَّ وَاهجُروهُنَّ فِى المَضاجِعِ وَاضرِبوهُنَّ...﴿٣٤﴾... سورةالنساء

عورت کو وعظ ونصیحت کے ذریعے سے سمجھایا جائے۔ (یہ کارگر نہ ہو تو)

ان سے گھر کے اندر بستر الگ کر لو ۔                        (اس سے بھی وہ نہ سمجھے تو)

ان کی سرزنش کرو (ہلکی سی مار سے ان کو راہِ راست پر لاؤ) ۔      

﴿وَاضرِبوهُنَّ﴾ ’’ ان كو مارو‘‘یہ اللہ کا حکم ہے۔ کسی مفسر، عالم یا فقیہ کا اجتہاد یا توضیح نہیں، صاف اور واضح حکم ہے لیکن اس کا مطلب تشدد یا ظلم ہرگز نہیں ، نہ ہی اس کی اجازت ہے۔

یہ اصلاح کے لیے ایک تادیبی حکم ہے اور تادیب وتنبیہ کا حق ہر سربراہ کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس تادیبی حکم کا تعلق چونکہ میاں بیوی سے ہے جن کے درمیان فرمانِ رسول ﷺ کی رو سے ایسی مثالی محبت ہوتی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ اس لیے حامل قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ نے اس ضرب (سرزنش) کی وضاحت فرما دی کہ یہ ’غير مبرح‘ہو، یعنی ایسی مار کہ جس سے اس کو نہ ایذا پہنچے اور نہ کوئی زخم۔ اسی طرح چہرے سے اجتناب کیا جائے۔ علاوہ ازیں اس کی مزید حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تادیب کے طور پر بھی ایسا کرنے والے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ مزید فرمایا کہ یہ کون سی دانش مندی ہے کہ صبح کو مارے اور رات کو پھر اس کی آغوش محبت میں پناہ لے۔

چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ شاید ہی چند فی صد گھرانے ایسے ہوں گے کہ جہاں عورت کو اس قسم کی سرزنش سے واسطہ پڑتا ہو ورنہ الحمد للہ بیشتر گھرانوں میں اس کی نوبت نہیں آتی اور جہاں کہیں بھی اس کی نوبت آتی ہے تو اکثر وبیشتر اس کی وجہ عورت كی ہی بدزبانی ، بد اخلاقی، یا نافرمانی ہوتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے اس تادیبی حکم اور اجازت کو ظلم وتشدد سے تعبیر کرنا ہر لحاظ سے غلط بھی ہے اور خلافِ واقعہ بھی۔ یہ وہ تشدد ہرگز نہیں ہے جس کے لیے اتنی لمبی چوڑی قانون سازی کی گئی ہے۔ یہ بلاجواز اور حکم قرآنی کے یکسر خلاف ہے۔

3. پولیس کو مداخلت کا حق دینا؟

اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے باہمی تعلق، ان کے مابین محبت وقربت اور ان کی پرائیویسی کو ﴿هُنَّ لِباسٌ لَكُم وَأَنتُم لِباسٌ لَهُنَّ...﴿١٨٧﴾... البقرة" کے نہایت بلیغ الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے کہ ’’وہ عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ خانگی معاملات اور باہمی تنازعات، یہ ایسے معاملات نہیں ہیں کہ ان میں سوائے ناگزیر حالات کے کسی اور کو دخل دینے کی ضرورت ہو، وہ لباس کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے، دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز ہیں۔

ان خانگی معاملات کو، جرائم بنا کر، پولیس کو ان میں مداخلت کا حق دینا، یا عورت کو یہ اختیار دینا کہ وہ فون کر کے مرد کو حوالہ پولیس کر دے۔یہ قرآن کے مذکورہ پرائیویسی کے حکم کے بھی خلاف ہے اور یہ ایسی غیر دانش مندانہ تدبیر ہے کہ جو عورت بھی ایسا کرے گی وہ اپنے پیروں پر ہی کلہاڑی مارے گی۔ جب کوئی عورت مرد کی بالادستی کو چیلنج کرے گی تو کوئی بھی مسلمان مرد اتنا بے غیرت نہیں ہے کہ وہ اس بے غیرتی کو برداشت کر لے۔ یہ صورت حال ایسی ہے جہاں بھی عورت کی حفاظت کے ٹھیکے داروں اور ٹھیکے دارنیوں کی طرف سے بنائے ہوئے اس قانون کو کوئی عورت اختیار کرے گی تو مرد آخر مرد ہے، وہ گھر کا مالک ہے ، عورت کا کفیل ہے، وہ اللہ کا بنایا ہوا گھر کا سربراہ ہے۔ وہ اس بے عزتی اور بے بسی ولاچارگی کو کب برداشت کرے گا، وہ کڑا پہننے کے بجائے اپنا یہ لباس ہی اُتار پھینکے گا، یعنی عورت ہی کو طلاق دے کر فارغ کر دے گا۔ یعنی جب اُن کو محب اور محبوب کے رشتے سے جدا کر کے ایک دوسرے کا دشمن قرار دے کر قانون ایک کے ہاتھ میں ہتھیار دے کر دوسرے پر حملہ آور ہونے کا اختیار دے گا تو دوسرا بھی محبت کے بجائے دشمن بن جائے گا اور اس کے ہاتھ میں خدائی اختیار ’ حق طلاق‘ ہے۔ وہ عورت کے وار کرنے سے پہلے ہی اپنا وار کر کے اس کا کام تمام کر دے گا، یعنی اس کو طلاق دے دے گا اور پولیس جو ہتھکڑی یا کڑا مرد کو لگانے یا پہنانے کے لیے آئے گی، مرد اس کو کہے گا کہ اس عورت کو شیلٹر ہوم میں پہنچا دو، اس سے میرا اَب کوئی تعلق نہیں ہے، میں نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت ہی سے خارج کر دیا ہے۔ یہ محض افسانہ سازی یا افسانہ سرائی نہیں ہے، یہ مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس بل کے نفاذ کے بعد سامنے آئے گا۔

اور فرض کر لو کہ کوئی مرد اس بےغیرتی کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کو حوالہ پولیس کر کے چند روز کے لیے گھر سے بے گھر ہونا گوارا کرے گا تو اس کے پیچھے دو صورتیں ہوں گی:

اس گھر میں اس کی بیوی کے ساتھ، مرد کی ماں، اس کی بیٹیاں، بھابھیاں وغیرہ بھی رہائش پذیر ہوں گی تو ماں سمیت ان عورتوں پر کیا گزرے گی؟ اور ان عورتوں کے دلوں میں اس خاتون کی کیا عزت باقی رہ جائے کی جس نے اپنے سر کے تاج کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا؟

دوسری صورت کہ اس گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہنے والے ہوں گے۔ مرد کے گھر سے نکل جانے کے بعد اکیلی عورت کیا محفوظ ہو گی؟ اور اگر عورت بدکردار ہو گی تو اس تنہائی کو کیا وہ اسی طرح ’یوز‘ نہیں کرے گی جس طرح مغربی عورت کرتی ہے۔ یہ صورت تو یقیناً اس بل کے خالقوں کے نزدیک ’آئیڈیل‘ ہو گی کہ مسلمان عورت کو پاکستان میں بھی وہ کھیل کھیلنے یا رنگ رلیاں منانے کا موقع میسر آ جائے گا جو مغرب میں عام ہے۔

ماشاء اللہ ! چشم بد دور، کیا خوب تحفظِ حقوق نسواں ہے؟ !

4. قرآن کریم میں اس مسئلے کا پہلے سے حل موجود ہے!

اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے او رہر طرح سے مکمل ہے جس کی تکمیل کا اعلان بھی اللہ نے سورۂ مائدہ کی آیت میں کیا ہے۔ لیکن بل کی ساری بنیاد اور اس کی ساری شقیں اس مفروضے پر قائم ہیں کہ اسلام میں مرد و عورت کے باہمی تنازعات کا کوئی حل ہی نہیں ۔ اب ساڑھے چودہ سو سال کے بعد اس ’ خلا‘ کے پر کرنے کی ’سعادت‘ پنجاب حکومت کو حاصل ہو رہی ہے۔

کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى... الآية﴾ نعوذ باللہ غلط ہے۔ اور اگر مفروضہ غلط اور اللہ کا فرمان صحیح ہے تو پھر یہ ساری قانون سازی   ؏ ایں دفتر بے معنیٰ، غرق مئے ناب اولیٰ   کی مصداق ہے۔

فرمانِ باری تعالیٰ یقیناً صحیح ہے ، جو اس میں شک کرتا ہے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے۔ اللہ تعالیٰ نے خانگی زندگی کی استواری اور خوش گواری کے لیے اتنی ہدایات اور ایسی اعلیٰ تعلیمات ہمیں دی ہیں کہ اگر دونوں میاں بیوی ان کا خیال رکھیں او ران پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو نہایت خوش گوار زندگی گزرتی ہے اور گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ اور اگر بوجوہ عدمِ موافقت یا فریقین میں سے کسی ایک کے غلط رویے کی وجہ سے کچھ اختلافات رونما ہو جائیں تو اس کا بھی بہترین حل قرآن کریم ہی میں بیان فرمادیا گیا ہے۔ جن میں سے تین تدبیریں تو وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں۔ سمجھ دار عورت تو بغیر کسی اور کی مداخلت کے، بالعموم ان تدابیر ہی سے اپنا رویہ درست کر لیتی ہے لیکن اگر اس طرح مسئلہ حل نہ ہو تو چوتھی تدبیر کی صورت میں دوسرا حل یہ بیان فرمایا کہ

﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُريدا إِصلـٰحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَينَهُما...﴿٣٥﴾... سورةالنساء

’’دو حَکم (ثالث) ان کا فیصلہ کریں۔ ایک میاں کے خاندان سے ہو، دوسرا بیوی کے خاندان سے۔ دونوں ثالث اگر صلح کرانے میں مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور مصالحت ومفاہمت کی صورت پیدا فرما دے گا۔ ‘‘

بصورتِ دیگر آخری چارہ کار کے طور پر پھر ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔ علماء نے اس کو تَوکِیل بِالفُرقة کے نام سے موسوم کیا ہے۔ یعنی اگر یہ ثالث صلح کرانے میں ناکام رہیں تو پھر یہ بطور وکیل ایک دوسرے کی جدائی کا فیصلہ کر دیں۔ یہ فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا۔

5. اسلام بہرصورت زوجین کے ملنے کے امکانات باقی رکھتا ہے!

اللہ تعالیٰ نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اور یہ حق پوری زندگی میں صرف دو مرتبہ ہے جس میں وہ رجوع کر سکتا ہے۔ اس حق کو بھی صرف اسی لیے محدود کیا گیا ہے کہ کوئی مرد عورت پر ظلم نہ کر سکے۔ ورنہ اسلام سے پہلے یہ حق غیر محدود تھا جس کی وجہ سے ایک شخص اگر چاہتا کہ وہ عورت کو نہ صحیح طریقے سے آباد کرے اور نہ اسے آزاد کرے کہ وہ کسی اور جگہ شادی کر لے، تو وہ یہ کرتا تھا کہ طلاق دیتا اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر لیتا۔ یہ سلسلہ ظلم وہ جب تک چاہتا، جاری رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حق طلاق کی حدبندی کر کے اس ظلم کا انسداد کر دیا۔

دوسرا حکم یہ دیا کہ طلاق صرف ایک ہی دی جائے، وہ بھی اشتعال اور غصے میں نہیں کہ ذرا سا جھگڑا ہوا اور طلاق دے دی۔ بلکہ اوّل تو طلاق کو سخت ناپسندیدہ عمل قرار دیا، تاہم بعض حالات میں چونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اس لیے اس کی اجازت بھی عنایت فرمائی۔ لیکن اس کا طریقہ یہ بتلایا کہ اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بنے تو پھر عورت کے پاک ہونے کا انتظار کرو۔ اس طرح حالتِ طُہر میں اس سے صحبت کیے بغیر صرف ایک طلاق دو۔ ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کو رسول اللہ ﷺ نے کتاب اللہ کے ساتھ کھلواڑ کرنا قرار دیا اور اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا۔ اس طریقۂ طلاق میں بڑی حکمت ہے۔ زیادہ طلاقیں جہالت کے علاوہ غصے اور اشتعال میں دی جاتی ہیں۔ اگر فوری طلاق نہ دی جائے بلکہ حیض سے پاک ہونے پرحالتِ طہر میں بغیر جنسی تعلق قائم کیے طلاق دینے کے وقت کا انتظار کیا جائے تو پچاس فیصد طلاق کے و اقعات ویسے ہی کم ہو جائیں گے۔ کیونکہ طہر کے انتظار تک غصہ فرو اور اشتعال ختم ہو جاتا ہے ا ور طلاق دینے کی نوبت ہی نہیں آتی۔

تیسرا حکم یہ دیا کہ پہلی طلاق دینے کے بعد، اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد، طلاق کی عدت تین حیض یا تین مہینے ہیں، عدت کے ان ایام میں پہلی اور دوسری طلاق میں عورت کو گھر سے نہیں نکالنا۔(سورۃ الطلاق) بلکہ وہ عدت، طلاق یافتہ ہونے کے باوجود بھی، خاوند کے گھر ہی میں گزارے۔ اس کی حکمت یہ بتلائی گئی ہے کہ شاید خاوند کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے، بیوی کے گھر ہی میں ہونے کی وجہ سے بیوی کی محبت اسے دوبارہ ملن پر مجبور کر دے یا بچوں کے بے سہارا ہونے کا احساس اس کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دے، یا بیوی کی بےچارگی کا احساس اس کے اندر رحم وشفقت کا جذبہ پیدا کر دے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ ایسی صورتوں میں پہلی اور دوسری طلاق میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے اور یہ مرد کا ایسا حق ہے کہ عورت یا عورت کے گھر والوں کو انکار کرنے کا حق نہیں ہے۔

ایک، ایک طلاق دینے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پہلی دونوں طلاقوں میں اگر عدت گزرنے کے بعد، ان کے درمیان صلح کی صورت بن جائے تو بالاتفاق دوبارہ نکاح سے ان کا تعلق بحال ہو سکتا ہے۔

اگر پہلی اور دوسری طلاق میں، جیسا کہ اللہ کا حکم [7]ہے، عورت خاوند ہی کے گھر میں رہے تو اس سے بھی طلاقوں کے بعد بھی پچاس فیصد گھر اُجڑنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور جدائی کے لمحات جلد ہی ملن میں بدل سکتے ہیں۔

اس تفصیل سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ شریعت میں میاں بیوی کے تعلق کو اتنی اہمیت او رطلاق کے باوجود ان کی قربت کا ایسا اہتمام کیا گیا ہے کہ یہ فراق جلد ہی وصال میں اور نفرت محبت میں تبدیل ہو جائے اور ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ بحال ہو جائے۔اس تفصیل سے ایک دوسرا پہلو یہ بھی واضح ہوا کہ اس قرآنی حکم کی روح اور خود ساختہ بل کی روح میں کس طرح بعد المشرقین ہے۔

روحِ قرآنی یہ ہے کہ اختلاف اور کشیدگی، حتیٰ کہ طلاق کے باوجود بھی، میاں بیوی کے درمیان کشیدگی کو ختم کیا جائے اور ان کو دوبارہ باہم جڑنے کے مواقع مہیا کیے جائیں اور مغربی روح میں ڈوبے ہوئے بل کی روح یہ ہے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے اتنا دور کر دیا جائے اور ان کے درمیان نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کر دی جائے کہ عدم طلاق کے باوجود ان کا ملن ناممکن ہو جائے۔ بل میں اس کا مکمل اہتمام کیا گیا ہے۔ ایک تو مرد کو گھر سے باہر نکال کر شیلٹر ہوم میں بھیجنا، اس کی مردانگی اور غیرت کو چیلنج کرنا، پھر ان کو آپس میں بالکل قریب نہ آنے دینا کہ کہیں یہ دونوں باہم مل کر تلافی اور ازالہ کا اہتمام نہ کر لیں اور یوں اُن کے درمیان صلح ہو جائے۔

اندازہ کیجئے کہ اس بل کے اندر کس طرح شیطانی روح کو مکمل طور پر گھسیڑ دیا گیا ہے کہ میاں بیوی کے ملاپ کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ شیطان اپنے اس چیلے کو اس کی اس ’حسن کارکردگی‘ پر سب سے زیادہ شاباش دیتا ہے جو آ کر اس کو یہ رپورٹ دیتا ہے کہ آج میں نے فلاں میاں بیوی کے درمیان جدائی کروا دی ہے۔[8]یہ بل نافذ ہو گیا تو مغرب کا شیطان بھی اپنے پاکستانی چیلوں کے اس کارنامے پر بڑا خوش ہو گا کہ انہوں نے بھی اس بل کے ذریعے سے پاکستان کے خاندانی نظام کو تباہ کر نے کا پورا ’سروسامان‘ مہیا کر دیا ہے۔                ؏ ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند

اس کے باوجود ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کی انتہا ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ بتلاؤ، اس کی کون سی شِق خلاف اسلام ہے۔ سچ ہے:                     مستند ہے ان کا فرمایا ہوا !!

واقعی بل بنانے والے جس ’اسلام‘ کو جانتے ہیں ، اس کی رو سے اس کی ایک ایک شق ’اسلامی‘ ہے، کیونکہ ان کے اسلام میں مرد و عورت کے درمیان حجاب نہیں ہے۔ رقص وسرود تفریح ہے، موسیقی روح کی غذا ہے۔ فلموں، ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں میں جو حیا باختہ تہذیب رات دان پیش کی جا رہی ہے، وہ اسلامی تعلیمات کا ’اعلیٰ نمونہ‘ ہیں۔ مخلوط تعلیم ناگزیر ہے، عورتوں کا مردوں کے دوش بدوش ملکی ترقی میں اور زندگی کے ہر شعبے میں حصہ لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ وغیرہ وغیرہ

جن کا ’اسلام‘ یہ ہے تو ان کا بنایا ہوا بل غیر اسلامی کس طرح ہو سکتا ہے؟

علما بے چارے چونکہ اس ’اسلام‘ سے نا آشنا ہیں، اس لیے وہ اس کے غیر اسلامی ہونے کے دہائی دے رہے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی جگہ سچے ہیں، کیونکہ دونوں کا اسلام ایک دوسرے سے مختلف ہے!!

بنابریں پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ حکومت کی سرپرستی میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسلام ہے یا اسلام وہ ہے جو قرآنِ مجید کی شکل میں نازل ہوا، اور صاحب وحی ، پیغمبر اسلام ﷺ نے اس کی توضیح وتفسیر، قولی اور عملی صورت میں۔ فرمائی اور آج وہ قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔علماے کرام تو صرف اسی کو اسلام سمجھتے اور جانتے ہیں جو قرآن وحدیث میں محفوظ ہے۔ اور یہ بل سراسر اس کے خلاف ہے جیسا کہ اللہ کی توفیق سے اس کی ضروری تفصیل ہم نے پیش کر دی ہے۔ والحمد للّٰہ على ذلك

وزرائے کرام، بل کے بانیانِ عظام، لیڈیانِ ذی احترام مل کر پڑھیں:

تو میندیش زغو غائے رقیباں                                   کہ آواز ’علماء‘ کم نہ کند رزقِ ’وزراء‘

بطور نمونہ تنازعات کا جو خود ساختہ لمبا چوڑا خاکہ بل میں پیش کیا گیا ہے، اس میں لیڈی افسران کا تقرّر ہے، عدالتوں کا قیام ہے، شیلٹر ہوم کی تعمیرات ہیں، پولیس کی داروگیر ہے، اور گھر کے حاکم اعلیٰ کی تذلیل وتوہین ہے، اسے کڑا پہنانا ہے، اور پتہ نہیں کیا کچھ ہے اور وہ بھی صرف عورت کے کہنے پر ، بغیر ثبوت اور بغیر گواہوں کے۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا بیان کردہ طریقہ کتنا آسان اور مختصر ہے۔ گویا

؏             ہلدی لگے نہ پھٹکڑی ، رنگ چو کھا آئے                          کے مصداق۔

کیا اس کے باوجود بل بنانے والوں کا یہ کہنا کہ اس بل میں کوئی چیز خلافِ شریعت نہیں ہے، صحیح ہے؟ سارا طریق کار اللہ کے بیان کردہ طریقے کے یکسر خلاف ہے، پھر بھی دعویٰ ہے کہ اس میں شریعت کے خلاف کچھ نہیں ہے۔

وہی قاتل ، وہی شاہد، وہی منصف ٹھہرے                                اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

بہر حال بل کے یہ چند بنیادی نکات ایسے ہیں جن کی رو سے یہ واضح ہے کہ یہ سارا بل الف سے لے کر یے تک قرآنی احکام اور نصوصِ شریعت کے یکسر خلاف ہے۔ اس کے بعد اس کی ایک ایک شق پر بحث یکسر غیر ضروری ہے۔ تاہم اگر ضروری ہوا تو اس کی لَغویت کو شق وار بھی واضح کر دیا جائے گا۔ بعون اللّٰہ و توفیقہ   ﴿ وَإِن تَعودوا نَعُد وَلَن تُغنِىَ عَنكُم فِئَتُكُم شَيـًٔا وَلَو كَثُرَت ... ﴿١٩﴾ ... سورةالانفال

عورت کے اصل مسائل اور ان کا حل

حمایت کنندگان، یا بانیانِ بل کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ علمااس کی مخالفت تو کر رہے ہیں لیکن کوئی متبادل حل پیش نہیں کر رہے ہیں، تو بات در اصل یہ ہے کہ بل میں جو مسائل پیش کیے گئے ہیں ، وہ عورت کے اصل مسائل ہی نہیں ہیں ۔ سارے بل کی عمارت مفروضوں پر کھڑی کی گئی ہے، اس لیے یہ بل                            خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج                                                 تاثر    یا  می رود  دیوار کج

کا آئینہ دار اور مصداق ہے۔ یا ہمارے اُردو محاورے کی رو سے کہا جا سکتا ہے:

؏                       اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی

اس کی کوئی شق بھی صحیح نہیں۔ البتہ اس میں میاں بیوی کے تنازعے کا ذکر ہے، یہ مسئلہ یقیناً موجود ہے لیکن اس کا جو بقراطی حل بل میں پیش کیا گیا ہے، وہ اتنا غلط ہے کہ اس سے عورت کو قطعاً کوئی تحفظ نہیں ملے گا،بلکہ وہ یکسر غیر محفوظ ہو جائے گی اور خاندان اور خاوند کی ہمدردیوں سے محروم ہو کر صرف حکومت کے رحم وکرم کی محتاج ہو کر رہ جائے گی۔ یہ اس کا تحفظ ہے یا اس کی بربادی؟

خرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا خرد                      جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

بہر حال اگر حکومت عورت کے تحفظ میں مخلص ہے اور یہ واقعۃً اس کی ذمے داری بھی ہے، گو وہ ذمے دار سب ہی طبقوں کے تحفظ کی ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا۔ علمائے اسلام عورت سمیت تمام طبقوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ علماے کرام عورت کے ان حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں جو اسلام نےاسے دیے ہیں کیونکہ وہ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ عورت کا تحفظ اسلام کے عطا کردہ حقوق ہی کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سے انحراف کر کےعورت کے حقوق کا تحفظ نہیں، اس کی ہلاکت ہی کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو عورت کے ان اسلامی حقوق سے، جو اس کی حفاظت کے اصل ضامن ہیں، کوئی غرض نہیں، وہ صرف ان نسوانی حقوق کا تحفظ چاہتی ہے جو مغرب کے حیا باختہ معاشرے میں مغربی عورت کو حاصل ہیں، اور اسی کے بیرون ملک سے فنڈنگ بھی ہوتی ہے۔

وہ اسباب جن کی وجہ سے عورت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یا وہ مردوں کے ظلم وستم کا شکار ہوتی ہے،ان میں سے سب سے اہم سبب اسلامی تعلیم وتربیت کا فقدان اور اخلاقیات سے محرومی ہے، اور یہ کمی ایسی ہے کہ ہم کسی ایک فریق کو اس کا ذمے دار قرار نہیں دے سکتے۔ اس فقدان اور محرومی میں مرد اور عورت دونوں یکساں ہیں۔ اسی لیے کبھی زیادتی مرد کی طرف سے ہوتی ہے اورعورت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی مرد کی طرف سےاس قسم کا اقدام،جس سے عورت کو ناخوشگوار صورت حال سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس کا سبب عورت ہی کی غلطی یا نا سمجھی ہوتا ہے۔ اس لیے ہر حال میں مرد ہی کو ظالم یا سزا وارِ سزا سمجھنا غلط اور یکسر خلِاف واقعہ ہے اور عدل وانصاف کے مسلمہ اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اس بل میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ صرف مرد کو ہر صورت میں ظالم فرض کر لیا گیا ہے اور سزا کا اہتمام بھی صرف اسی کے لیے ہے۔ قطع نظر اس سے کہ جرم کی نوعیت کیا اور اس کا سبب کیا ہے؟ اس میں خطا کار مرد ہے یا عورت؟ یا دونوں ہی اس کے ذمے دار ہیں؟ علاوہ ازیں مرد کے خلاف سار ی کاروائی صرف متاثرہ (عورت، بیٹی، بہن، بیوی) کے بیان پر بغیر ثبوت اور بغیر گواہوں کے ہو گی۔

اور ’مدعا علیہ‘ (مرد) میں خاوند کے علاوہ باپ اور بھائی وغیرہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ خاوند کے علاوہ باپ بھی بیٹی سے، بڑا بھائی بھی اپنی بہن سے اس کی کسی غلطی یا بے راہ روی پر باز پرس کر سکتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا ہے اور بل میں اس تادیبی اور اصلاحی کاروائی کو بھی ’تشدد‘ قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا گو اسلام کی رو سے تو جائز ہے، لیکن مغرب میں یہ واقعی ایسا جرم ہے کہ بیٹی یا بیوی فون کے ذریعے سے پولیس کو بلوا کر باپ یا شوہر کو گھر سے نکلوا کر جیل بھجوا سکتی ہے۔

بات پھر بل کی طرف چلی گئی کیونکہ بل ایسی کشش ثقل کا حامل ہے کہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح جدھر دیکھو ...تو ہی تو ہے، والا معاملہ ہے۔

بات تربیتی فقدان، اسلامی تعلیمات کے عدم شعور اور اخلاق سے محرومی کی ہو رہی تھی۔ اس کی آئے روز پیش آنے والی مثال طلاق کی ہے۔ بلاشبہ بہت سے مرد جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے معمولی سے لڑائی جھگڑے پر طلاق دے دیتے ہیں اور طلاق بھی ایک ہی سانس میں تین مرتبہ۔ جن سے علمائے احناف کے نزدیک ’طلاقِ بتہ‘ ہو جاتی ہے اور گھر اُجڑ جاتا ہے، میاں بیوی کے خوار ہونے کے علاوہ بچوں کا مستقبل بھی تاریک ہو جاتا ہے۔

لیکن یہ سمجھنا خلافِ واقعہ ہے کہ اس جہالت اور حماقت کا مظاہرہ صرف مرد ہی کی طرف سے ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ بلکہ بسا اوقات اس میں عورت کی بدزبانی اور بداخلاقی اور ناسمجھی کا دخل ہوتا ہے اور وہ ذرا ذرا سی بات پر طلاق کا مطالبہ کرتی ہے۔ مرد ٹالنے اور درگزر کرنے کی بات کرتا ہے لیکن وہ ناسمجھی میں اتنا اصرار کرتی ہے کہ مرد کو، نہ چاہتے ہوئے بھی طلاق دینی پڑ جاتی ہے۔ اور پھر وہی ایک مرتبہ تین طلاقیں ۔

اس صورت حال کا حل کئی اقدامات کا متقاضی ہے:

1۔ حکومت کی طرف سے اسلامی تعلیمات وتربیت کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں ہے۔ نہ مردوں کے لیے اور نہ عورتوں کے لیے۔ تعلیم وتربیت انسان کو حوصلہ مند بناتی اور عزم وحوصلہ کے ساتھ مسائل ومشکلات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے، بالخصوص جلد بازی میں فیصلہ کرنے سے روکتی ہے اور طلاق کے فیصلے اکثر عجلت، بے صبری، عدم برداشت اور بد اخلاقی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ حکومت میاں بیوی کے حقوق اور ذمے داریوں پر مبنی اسلامی تعلیمات کو میٹرک کے نصاب کا حصہ بنائے اور اخبارات اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے سے بھی ان کو نشر کروائے۔

2۔ بالخصوص اسلامی طریقۂ طلاق کو، جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے، زیادہ سے زیادہ اس کی نشرواشاعت کی جائے اور اسے نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔

3۔ ایک ہی مرتبہ تین طلاقوں کو جرم قرار دیا جائے، جو عرضی نویس یا وکیل طلاق نامہ لکھے، ان کو بھی صرف ایک طلاق لکھنے کا پابند اور ان کے لیے بیک وقت تین طلاقیں لکھنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ یادرہے کہ یہ سفارش اسلامی نظریاتی کونسل بھی کر چکی ہے۔

4۔ اس غلط فہمی کا وسیع پیمانے پر ازالہ کیا جائے کہ طلاق کے لیے تین مرتبہ: طلاق، طلاق، طلاق، کہنایا میں’ طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں‘ کہنا ضرو ری نہیں ہے بلکہ اگر کوئی صرف یہ کہتا ہے کہ میں طلاق دیتا ہوں، یا تجھے طلاق ہے۔ تو اس طرح ایک مرتبہ ہی طلاق کے لفظ سے طلاق ہو جاتی ہے اور تین حیض یا تین مہینے تک رجوع نہ کرنے کی صورت میں ’طلاقِ بائنہ‘ ہو جاتی ہے۔ یعنی میاں والا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد عورت آزاد ہے کہ اپنے ولی کی اجازت اور رضامندی سے جہاں چاہے نکاح کرے۔

یہ طلاق کا وہ شرعی طریقہ ہے جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ طلاق دینے کے بعد اگر مرد کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ عدت کے اندر رجوع کر کے دوبارہ اس کو اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے اور عدت گزرنے کے بعد اگر صلح کی کوششیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو نئے نکاح کے ذریعے سے یہ دوبارہ تعلق زوجیت میں جڑ سکتے ہیں اور یہ بھی ایسا مسئلہ ہے جو اتفاقی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

فقہی اختلاف اس وقت سامنے آتا ہے جب طلاق کا غیر شرعی طریقہ:ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں،اختیار کیا جاتا ہے اور اس اختلاف کی وجہ سے ان کا دوبارہ باہم ملن تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے ، الا یہ کہ وہ حلالہ مروّجہ کیا جائے جس کا بعض علما فتویٰ دے دیتے ہیں، حالانکہ اسلام میں اس کا قطعاً کوئی جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کوئی غیرت مند مرد اسے برداشت نہیں کرتا، علاوہ ازیں یہ خود ساختہ فتویٰ جس طرح نقل (شرعی دلائل) کے خلاف ہے، اسی طرح عقل کے بھی خلاف ہے کہ جرم کرنے (بیک وقت تین طلاقیں دینے) والاتو مرد ہوتا ہےلیکن سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے کہ وہ چند راتوں کے لیے کرائے کے سانڈ کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ أعاذنا اللّٰہ منه۔ یاد رہے’کرائے کے سانڈ‘ کے الفاظ رسول اللہ ﷺ کے فرمائے ہیں:حديث كے عربی الفاظ ہیں: «التيس المستعار»[9]

5۔ یا اس کا دوسرا حل جو شرعی ہے، یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق (رجعی) شمار کیا جائے۔ اس صورت میں بھی پھر عدت کے اندر رجوع کرنا اور عدت گزر جانے کے بعد (بغیر حلالہ مروجہ کے) نکاح کرنا جائز ہے۔ اس کے اہل حدیث کے علاوہ کئی ائمہ اعلام (امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم﷭) اور بعض صحابہ وتابعین اور دیگر متعدد اہل علم قائل ہیں۔ شرعی دلائل بھی اس کی تائید میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں پاک وہند کے متعدد علمائے احناف ( دیوبندی وبریلوی) حالات کے پیش نظر اس کے قائل ہیں، جس کی تفصیل اور ان کے فتاویٰ او رمضامین راقم کی کتاب میں موجود ہیں۔ یہ کتاب ’ ایک مجلس کی تین طلاق اور اس کا شرعی حل‘ کے نام سے دارالسلام سے مطبوع ہے۔

دیگر علمائے احناف بھی اگر مسئلہ طلاق میں یہی موقف اختیار کر لیں تو عورتوں کی مشکلات کے حل میں ، جو بیک وقت تین طلاقوں کا تین ہی شمار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، کافی مدد مل سکتی ہے۔اس کی ایک نظیر بھی موجود ہے کہ زوجہ مفقود الخبر کا کوئی معقول حل فقہ حنفی میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے متحدہ ہند میں عورتوں کے لیے بڑی مشکلات تھیں تو مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے امام مالک﷫ کی رائے کو نہ صرف اختیار کیا بلکہ کبار علمائے احناف سے بھی اس کی تائید میں فتاویٰ حاصل کیے۔ اور یہ سارے فتاویٰ انہوں نے ایک کتاب ’الحیلۃ الناجزہ فی الحیلۃ العاجزۃ‘ میں شائع کر دیے۔ یہ پون صدی (75،80 سال) قبل کی بات ہے۔ اس کتاب کا نیا ایڈیشن ادارہ اسلامیات لاہور،نے شائع کیا ہے جس کے دیپاچے میں مولانا تقی عثمانی صاحب کا یہ اعتراف موجود ہے کہ عورتوں کی بہت سی مشکلات کا حل فقہ حنفی میں نہیں ہے۔

اس اعتراف کی روشنی میں پون صدی قبل کی اپنے اکابر کی نظیر کو سامنے رکھتے ہوئے اور ان کے سے طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے اگر موجودہ علمائے احناف بھی بیک وقت تین طلاقوں کے ایک طلاق شمار ہونے والے مسلک کو اختیار کر لیں، تو جاہلانہ طلاق کا نہایت آسان حل نکل آتا ہے اور طلاق کے باوجود 80 فیصد گھرانے اُجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔

6۔ طلاق کا جو صحیح اور شرعی طریقہ ہے، اسے اخبارات وغیرہ میں اور اسی طرح ایک ہی وقت میں تین طلاقوں کے دینے کو قابل تعزیر جرم ہونے کو، حکومت کی طرف سے اشتہار کے طور پر صفحہ اوّل پر شائع کرایا جائے۔

اگر حکومت اور دیگر این، جی ، اوز واقعی عورتوں کی مشکلات کے حل میں مخلص ہیں تو حکومت اپنے کارناموں کی تشہیر میں کروڑوں روپے قومی خزانے سے خرچ کرتی ہے۔ تو کیا وہ اس اہم مسئلے پر، جس سے 80 فیصد گھرانے اُجڑنے سے بچ سکتے ہیں، چند کروڑ روپے سالانہ قومی خزانے سے اس مد کے لیے مخصوص نہیں کر سکتی؟ یہ حکومت کے اخلاق اور عورتوں کے مسائل کے حل میں اس کو کتنی دلچسپی ہے، اس کا امتحان اور ٹیسٹ کیس ہے۔

عورتوں کی مشکلات کا ایک اور قرآنی حل:محلّہ وار پنچایتیں

یہ حل قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت نمبر 35 میں بیان کیا گیا جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں۔ اس کی رو سے ، محلوں کی سطح پر پنچایتی نظام کا قیام ہے، اسے کونسلروں اور ناظموں کے ذریعے سے بھی بروے کار لایا جا سکتا ہے۔ یونین کونسلیں پہلے بھی اس سلسلے میں کچھ کام کرتی آ رہی ہیں، ان کو مزید فعال بھی کیا جائے اور کچھ اختیارات بھی دیے جائیں تاکہ عدالتوں پر بھی بوجھ نہ بڑھے اور عوام بھی عدالتی چارہ جوئی کے بجائے، جو لمبا بھی ہے اور مہنگا بھی اپنے علاقے ہی میں ان پنچایتوں کی طرف رجوع کریں۔ یہ پنچایتیں پہلی اور دوسری طلاق میں صلح کرانے کی کوشش کریں جس کی گنجائش عدت کے اندر، یعنی تین مہینے تک موجود ہے۔ نیز عدت گزرنے کے بعد بھی نکاح جدید کے ذریعے سے ٹوٹا ہوا تعلق دوبارہ قائم ہو سکتا ہے، اگر یہ پنچایتیں مخلصانہ کوشش کریں۔

یہ قرآنی حل اور طریقہ اس طریقے سے ہزار درجے بہتر ہے جو بل میں تجویز کیا گیا ہے اور اس قرآنی حل کے برعکس شیطانی حل ہے۔اس میں کوشش کی گئی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان کسی طرح بھی غلط فہمیاں دور نہ ہوں اور دوبارہ جڑنے کی کوئی صورت نہ رہے۔

1۔فیملی عدالتوں کو مزید فعال اور ان کو ایک معین مدت تک فیصلے کرنا پابند بنایا جائے۔ تاکہ جو عائلی تنازعات، پنچایتوں کے ذریعے سے حل نہ ہو سکیں، عدالتوں سے ان کو فو ری ریلیف مل جائے۔ جیسے خلع، طلاق کے بعد کے بچوں کی تحویل، نان ونفقہ، وراثت وغیرہ کے مسائل ۔

2۔اگر حکومت پنچایتینظام کو صحیح معنوں میں قائم کر دے اور ان کو مناسب اختیارات بھی دے دیے جائیں تو یہ سارے مسائل محلوں کی سطح پر ، عدالتوں کی طرف رجوع کیے بغیر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف اخلاص اور عزم وہمت اور قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ہے اور اگر مغرب ہی کی نقالی یا ان کی خوشنودی یا ان سے فنڈز لینا مقصود ہے تو پھر بات اور ہے۔ لیکن نہ نقالی سے عورت کے مسائل حل ہوں گے اور نہ فنڈز کے حصول سے۔ عورت کی مشکلات جوں کی توں رہیں گی بلکہ علم نجوم میں مہارت کے بغیر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ ان میں اضافہ ہی ہو گا۔ گو ہماری خواہش اور دعا تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو لیکن غلط طریق کار کے غلط نتائج کو محض آرزوؤں اور تمناؤں سے نہیں روکا جا سکتا۔

3۔جہیز کی لعنت کا نہایت سختی سے خاتمہ کیا جائے۔ اب تک کی بعض نیم دلانہ کوششوں سے اس رسم بد کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں مل سکی۔ ضرورت ہے کہ اس محاذ پر بھی حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے۔ اس لعنت کی وجہ سے بھی بہت سی عورتوں کو متعدد مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

4۔ عورت کی وراثت کا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے بھی ایسی قانون سازی کی جائے کہ کسی کو بھی عورت کو باپ کی جائیداد سے محروم کرنے یا محروم رکھنے کی جرأت نہ ہو۔ اگر اس قسم کے کیس عدالتوں میں جائیں تو اس کے لیے بھی عدالتوں کو ایک معین مدت کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند کیا جائے۔ عدالتی نظام کی متعدد خامیوں کی وجہ سے جو تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں اور سالہا سال تک عورتوں کو اپنا حق لینے کے لیے جن جاں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، وہ شدید ظلم کی ایک صورت ہے جس سے عورت کو نجات دلانا حکومت کی ذمے داری ہے۔

5۔ میٹرنٹی ہوم (زچے بچے کی سہولتیں) عام کی جائیں اور ہر محلے میں یہ نہ صرف قائم کیے جائیں بلکہ تربیت یافتہ سٹاف اُن میں متعین ہو اور دیگر سہولتوں کا انتظام ہو۔ یہ عورت کے لیے موت وحیات کی کشمکش کا سنگین مرحلہ ہوتا ہے، اس مرحلے میں عورت کے لیے سہولتیں مہیا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری اور اس سے پہلو تہی کرنا عورت پر سخت ظلم ہے جو عورت کی ہمدردی ظاہر کرنے والی حکومت کے لیے ناقابل معافی ہے۔

6۔معاشرے میں جو عورتیں مطلقہ یا بیوہ ایسی ہوں کہ ان کی کفالت کرنے والا کوئی نہ ہو، ان کے لیے شیلٹر ہوم بنانے کا شوق پورا کر کے ان کی آبرو مندانہ کفالت کا انتظام کیا جائے۔

7۔ کاروکاری کا سد باب کیا جائے۔ اس کا ارتکاب بڑے جاگیر دار،زمیندار، وڈیرے قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اپنی زمینوں، جاگیروں وغیرہ کو بچانے کے لیے نوجوان بچیوں کی شادیاں قرآن کریم سے کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ بھلا قرآن کریم سے بھی کسی کا نکاح ہو سکتا ہے۔ یہ وڈیرے اس ملک میں اس طرح عورت پر ظلم کرتے ہیں۔ کون سا عالم ہے جو اس ظلم کی حمایت کرتا یا حکومت کو اس کے سدّ باب کےلیے قانون سازی سے روکتا ہے؟

8۔اسی طرح ونّی کی جاہلانہ اور ظالمانہ رسم ہے کہ اپنے ناجائز ظلم کے بدلے میں کم سن بچیوں کی شادیاں بوڑھوں کے ساتھ کر کے اور معصوم بچیوں پر ظلم کر کے اپنے ظلم کا ازالہ کرتے ہیں۔ اس کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے ۔کون سا عالم اس ظلم کی حمایت کرتا ہے؟

9۔غیرت کے نام پر قتل کے خلاف سخت قانون بنائیں۔ کوئی عالم غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار نہیں دیتا۔ چند روز قبل ہیومن رائٹس آف پاکستان کمیشن کی رپورٹ اخبارات میں شائع ہوئی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ 2015ء میں 1100 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ جنسی تشدد میں بھی اضافہ ہوا، جس میں بچے اور بچیاں اس کا شکار[10] ہوئیں۔اگر یہ رپورٹ درست ہے تو اس کا اسلامی معاشرے میں ہر صورت تدارک ہونا چا ہیے۔

اس کے اسباب کا بھی خاتمہ فرمائیں جو بالکل واضح ہیں کہ نوجوان نسل ٹی وی کے فحش اور عشقیہ فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر نہایت تیزی سے بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے رجحانات اپنے ہاں دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور غیرت میں آ کر اپنی ہی بیٹی، بہن یا بیوی کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ اسلامی غیرت ہی کا مظہر ہے ،تاہم نہ اسلام میں اس قتل غیرت کی اجازت ہےاور نہ کوئی عالم ہی اس کی حمایت کرتا ہے۔

10۔ اسی طرح جنسی تشدد بھی نہایت وحشیانہ حرکت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔اس کی وجہ بھی ٹی وی پروگراموں اور فلمیں وغیرہ ہیں۔زنا کے اسباب کا خاتمہ اور اس قسم کے واقعات کے سدّ باب کے لیے قانون سازی یا موجودہ قوانین پر عمل داری کس کا کام ہے؟ حکومت کے سوا یہ کام کون کر سکتا ہے؟ حکومت اپنی یہ ذمہ داری کیوں پوری نہیں کرتی؟

11۔ عورت کے چہرے تیزاب پھینک کر اس کو مردوں کے لیے ناقابل قبول بنانا، نہایت سنگ دلانہ حرکت اور عورت پر بڑا ظلم ہے۔ علما تو کہتے ہیں کہ فوجداری قانون میں اس قسم کے کاموں کی سزائیں موجود ہیں،ان کو نافذ کریں بلکہ اسلام کے قانون قصاص پر عمل کرتے ہوئے ایسے ظالم مردوں کے چہروں کو بھی تیزاب سے جھلسا دیں۔ پھر دیکھیں کہ کوئی مرد اس ظلم کا ارتکاب کرتا ہے؟ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ اس قانون قصاص پر عمل کی برکت سے ان شاء اللہ اس جرم کا سو فیصد سدّ باب ہو جائے گا۔عورتوں کی ’حمایت‘ کرنے والے یہ مغرب زدگان کیا عورت کو اس ظلم سے بچانے کے لیے اس ظلم کے سو فیصد یقینی علاج کی حمایت کریں گے؟ یا حکومت اس قانون قصاص کے نفاذ کے لیے تیار ہے؟

12۔ مخلوط تعلیم کا خاتمہ کر کے خواتین کے لیے الگ تعلیمی ادارے (کالجز اور یونیورسٹیاں) قائم کیے جائیں۔ یہ بھی مسلمان عورت کا ایسا حق ہے کہ جس کا پورا کرنا ایک مسلمان مملکت کا فرضِ منصبی ہے۔ اس کے بغیر عورت کو مردوں کی ہوس کاری سے بچانا ناممکن ہے۔

21؍ فروری 2016 ء کے روزنامہ ’جنگ ‘ لاہور میں ایک امریکی ادارے کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جو بشمول ہاروڈ یونیورسٹی امریکہ کی 27 نامور یونیورسٹیوں کے سروے پر مبنی ہے۔ اس میں مخلوط تعلیم کے نتیجے میں طالبات جس کثرت سے جنسی حملوں کا شکار ہورہی ہیں، اس کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ یہ ان کے لیے نہایت چشم کشا رپورٹ ہے جو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کے مطابق مخلوط تعلیم کو مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کا باشعور اور درد مندحضرات کو بالخصوص مطالعہ کرنا چاہیے۔

13۔اسی طرح عورتوں کے لیے نصاب تعلیم بھی مردوں سے الگ مرتب کیا جائے تاکہ مسلمان عورت اپنے مقصدِ تخلیق اور فطری صلاحیتوں کے مطابق زیادہ بہتر طریقے سے ملک وقوم کی خدمت کر سکیں۔ علاوہ ازیں ان کے لیے چند شعبے بھی مخصوص کیے جا سکتے ہیں جن کی وہ تعلیم وتربیت حاصل کریں اور وہاں وہ مردوں سے الگ رہ کر خدمات سر انجام دیں۔ مثلاً تعلیم کا شعبہ ہے، طب (میڈیکل) کا شعبہ ہے۔ اسی طرح اور بہت سے شعبے ایسے ہو سکتے ہیں جہاں وہ ستر وحجاب کی پابندی کے ساتھ مفوضہ فرائض انجام دیں۔

حرفِ آخر

پاکستانی عورت مسلمان ہے، یہاں کا معاشرہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، پاکستانی ریاست کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ ان تمام باتوں کا تقاضا ہے کہ پاکستانی عورت کے بہ حیثیت مسلمان جو حقوق ہیں، وہ اسے اس کے مذہبِ اسلام کی رو سے ملنے چاہییں اور حکومت کا بھی فرض یہ ہے کہ وہ اسلام کی روشنی میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس سے انحراف پاکستانی عورت کی بھی حق تلفی بلکہ اس پر ظلم ہے اور حکومت بھی اپنے حلف سے انحراف کی مجرم ہو گی۔ وما عليــنا إلا البــلاغ !


 

حوالہ جات
[1]     روزنامہ نوائے وقت 21 مارچ 2016ء، مضمون شہزاد خالد

[2]     مسودہ قانون نمبر31، تشدد سے تحفظ خواتین پنجاب 2015ء.... تمہیدی کلمات اُردو متن

[3]     روزنامہ نوائے وقت، لاہور، تین ایڈیشن، 21 مارچ 2016ء

[4]     روزنامہ آواز، ص2، 12 اپریل 2016ء

[5]     روزنامہ آواز، ایضاً

[6]     روزنامہ ایکسپریس، ص 10، 4 اپریل 2016

[7]     لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَ لَا يَخْرُجْنَ (سورۃ الطلاق:1)

[8]     فَيَقُولُ: مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ، قَالَ: فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ (صحیح مسلم: 67)

[9]     سنن ابن ماجہ: 1936، حسن

[10]   روزنامہ ’آواز‘ 2 اپریل 2016ء