سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ
عمرہادر کعبہ بت خانہ می نالہ حیات
تاز بزم عشق تک دانائے راز آیدبرون
علامہ سید سلیمان ندوی علم کا بحرذخارتھےاور ان کی ذات میں اللہ تعالی ٰ نےبیک وقت گونا گوں اوصاف جمع کردیئے تھے۔وہ اپنے دور کےاردو زبان کےسب سےبڑے ادیت اورمصنف تھے۔انہوں نے مختلف موضوعات پرقلم اٹھایا اورمتعدد ضخیم کتابیں ترتیب دیں اورملک سےخراج تحسین حاصل کیا ۔ان کی تصانیف میں سیرۃ النبیﷺ،سیرۃ عائشہ ؓ ، مقام ، تاریج ارض القرآن، نقوش سلیمان اورحیات شبلی بہت مشہور ومعروف ہیں ۔ ان کےعلاوہ آپ نےسینگڑوں علی ، دینی اورمذہبی ،تاریخی وتنقیدی اورتحقیقی ، ادبی وسیاسی مضامین الندوۃ لکھنؤ ، الہلال کلکتہ اورمعارف اعظم گڑھ میں لکھے۔اورآپ کےکئی مقامات اتنے طویل تھےکہ ان کی زندگی میں کتابی صورت میں ہوئے ۔مثلا
1۔اہل سنت والجماعت
2۔بہادر خواتین اسلام
3۔ امام مالک
یہ تینوں مقالات الندوہ لکھنؤ میں کئی قسطوں میں شائع ہوئے۔پھرکتابی صورت میں چھپے۔سید صاحب کےعلمی کارناموں میں ان سےخطبات ہیں ۔جوآپ نےمدراس، الہ آباد اور بمبئء میں ارشاد فرمائے۔جوبعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
خطبات مدراس:
اکتوبر1925ء مسلم ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کےزیراہتمام سیرتِ نبویﷺپر8خطبات ارشاد فرمائے۔ یہ خطبات سیرۃ نبوی ﷺ کاجوہراورعطرہیں۔ان خطبات کاانگیریزی ترجمہ لیونگ پرافٹ ( Living proihet) کےنام سےسعید الحق دینوی اورعربی ترجمہ ' ' الرسالہ المحمدیہ ، ، کےنام سے مولانا محمدناظم ندوی نےکیا ہے۔اور یہ دونوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں
عرب وہندکےتعلقات
عرب وہند کےتعلقات سید صاحب کےان خطبات کامجموعہ ہےجومارچ 1929ءمیں ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کےزیر اہتمام سید صاحب نےارشاد فرمائے۔یہ سیدصاحب کی تحقیقات اوروسعتِ معلومات کاتماشاگاہ ہیں اوران کو یورپین محققوں کی اعلیٰ تاریخی تصنیفات کےمقابلہ میں پیش کیاجاسکتاہےیہ خطبات تلاش وتحقیق،محنت وکاوش ااورحجت وکاوش اورحجت واستدلال کےاعتبار سے بےمثال سمجھےجاتےہیں ۔
ان خطبات کابھی انگریزی ترجمہ سعید الحق دینوی نےکیا تھا جوکتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔
عربوں کی جہاز رانی :
عربوں کی جہاز رانی کےموضوع پرسید صاحب نےمارچ 1931ء حکومت بمبئی کےشعبہ تعلیم کی فرمائی پر4 خطبات ارشاد فرمائے ۔یہ خطبات بھی سید صاحب کی ذہانت ، قوت حافظہ ، ذو ق تحقیق اوروسعت معلومات کاتماشاگاہ ہیں ۔ان میں زمانہ جاہلیت اوراسلام میں عربوں کی جہاز رانی ، عربوں کی دنیا کےسمندروں سےواقفیت،ان کےبعض بحری انکشافات ،عربوں کےسامان آلاتِ جہاز رانی اور ان کی بحرمحیط کوعبورکرنے کی کوششوں وغیرہ پرمبسوط بحث کی گئی ہے۔
دو معرکۃ لآراء خطبے
علامہ سید سلیمان ندوی کےدومعرکۃ الآراء خطبے مشہورومعروف ہیں۔ ان میں پہلا خطبہ علی گڑھ کےیونین ہال میں ''ہندوستان میں ہندوستانی ،، کےموضوع پرارشاد فرمایا۔اس میں آپ نے مستند تاریخی حوالوں سےثابت کیا کہ اردو کانام دراصل ہندوستانی ہے۔
انگریزی کےتسلط سےبہت پہلے دسویں صدی میں یہ زبان اسی نام سےپکاری جاتی تھی۔ اسی اجلاس کی صدارت مولاناحبیب الرحمان خاں شیروانی ( م 11۔اگست 1950 ء ) نےکی تھی ۔
دوسرا خطبہ ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کےزیراہتمام اپریل 1933ءمیں دیا تھا۔اس خطبہ کا عنوان تھا۔ '' لاہور کاایک منہدس خاندان جس نے تاج محل اورلا ل قلعہ بنایا،،یہ خطبہ سیدصاحب کےوسعتِ معلومات ، ذوق تحقیق اورتلاش وجستجوکاآئینہ دار ہے۔اس میں آپ نےبڑی تلاش و تحقیق اورمستند شہادتوں سےیہ بتایا کہ تاج محل کامعمار درحقیقت نادر العصر استاداحمد معمار تھا۔جوہندسہ ،ہیٹت اورریاضی کابڑا عالم تھا۔اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نےفرمائی تھی ۔
سید صاحب کی جامع الصفات شخصیت
علامہ سید سلیمان ندوی اپنے علمی تبحر اورفضل وکما کےساتھ بےبوقلموں ، متنوع الصفات اورمختلف الکمالات شخصیت کےحامل تھے۔وہ بیک وقت مورخ بھی تھےاورمحقق بھی ، متکلم بھی تھے، اور فلسفی بھی تھے فقیہ بھی ، اورمحدث بھی ،ادیب بھی تھے۔ اورشاعر بھی، صوفی بھی تھے اور معلم بھی، نقاد بھی تھے اور نعت نویس بھی۔غرض ان کی قلم کی جولانیوں سےکوئی امید بھی محروم نہیں رہا۔ادب وتنقید کامیدان ہویا تاریخ وسیرکا۔سیاسی موضوعات ہوں یا دقیق علمی بحثیں ، ہرموضوع پرہروقت ان کااشب قلم یکساں جولانی دکھاتاتھا۔
ولادت :
علامہ سید سلیمان ندوی 23 صفر 1302ھ بمطابق 22نومبر 1884ء بروز جمعہ صوبہ بہارکےایک مردم خیز قصبہ وپسندضلع پٹنہ میں پیداہوئے۔برصغیر میں صوبہ بہارایک مردم خیزصوبہ ہے۔ اس صوبہ میں بےشمار اہل علم نےجنم لیا اورایسی بےشمار علمی ودینی خدمات انجام دیں ۔ جوبرصغیر کی تاریج میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م 1320ھ ) اورمولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ ) کاتعلق اسی صوبہ بہارسے تھا ۔ ان ہردو علمائے کرام کی علمی ودینی خدمات تاریخ میں سنہری حروف سےرقم ہیں ۔
برصغیر میں سلیمان نام کے4 علمائے کرام پیدا ہوئے ۔جنہوں نے دین اسلام کی نشرواشاعت اورخدمت میں قابل قدرخدمات انجام دیں ۔ان کےنام یہ ہیں :
1۔ مولاناقاضی محمد سلیمان منصورپوری
2۔ مولانا شاہ سلیمان پھلواروی
3۔ مولانا سلیمان اشرف
4۔ مولانا سید سلیمان ندوی
مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری، مولانا شاہ سلیمان پھلواردی اور مولانا سلیمان اشرف کا علم وفضل میں کیا مقام تھا۔ ان کےبارےمیں میں سید سلیمان ندوی نےجولکھا ہے۔اس کےاقتباس ملاحظہ فرمائیں جوسید سلیمان ندوی نےان ہرسہ علمائے کرام کےانتقال پر'' معارف ،، اعظم گڑھ میں لکھے۔
مولانا قاضی محمدسلیمان منصورپوری
مولانا قاضی محمد سلیمان سیرت کی مشہور کتاب'' ترجمۃ للعالمین ،، کےمصنف تھے۔وہ علم وعمل ، زہد وکمال اورفضل وورع دونوں کےجامع تھے۔روشن دل اوردماغ تھے۔ان کےجدید وقدیم دونوں خیالات حدِّاعتدال پرتھے۔عربی زبان اورعلوم دین کےمبسرعام تھے۔ توراۃ وانجیل وفاضلانہ و ناقدانہ نگاہ رکھتےتھے ، غیرمسلموں سےمناظرہ کےشائق تھے۔ مگر ان کےمناظرہ کاطرز سنجیدگی ، متانت اورعالمانہ وقار کےساتھ تھا۔مسلکاً اہلحدیث تھے۔ مگر اماموں اورمجتہدوں کی دل سےعزت اور ان کی محنتوں اورجانفشانیوں کی بھی قدر کرتے تھے وہ ندوۃ العلماء کےدیرینہ رکن تھےاوراسی وساطن سے ان سے تعارف حاصل ہوا اور تعارف نےباہم اُنس ومحبت کی صورت پیداکی ۔ جب مل جاتے دیرتک ہم ذوقی کالطف قائم رہتا ۔ جدید مناظرات وکلام اورمحاسن اسلام کےمختلف پہلوؤں پر گفتگو رہتی ۔اور اسی لطف میں تھوڑی دیرکےلیے ہرچیز فراموش ہوجاتی ۔ان کی مستقل تصانیف رحمۃ العالمین اورالجمال ولکمال ( تفسیر سورہ یوسف ) اورسفرنام حجاز یادگارہیں ، مگر سب سے زیادہ مقبولیت رحمۃ اللعالمین نےحاصل کی ۔ لوگو نےاس کتاب کوبڑے ذوق وشوق سےپڑھا۔حدارحمۃ اللعالمین کےمصنف کو اپنی رحمت ِ عام سےنوازے ۔
مولانا شاہ سلیمان پھلواروی
ہندوستان کےمشہور پرانے عالم وواغظ وخطیب مولانا شاہ سلیمان پھلواروی نے17صفر1354ھ ؍ جون 1935ء 77 سال کی عمر میں وفات پائی ۔
مرحوم کےجوانی کےعہد میں تین باکمالوں کےدرس مولانااحمد علی صاحب اوردلی میں مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب کی ، شاہ صاحب نےفیض کےان تینوں سرچشموں سےفائدہ اٹھایا ۔پہلےفرنگی محل آئے اوریہاں سےفارغ ہوکر سہارن پور اوردہلی گئے۔
مرحوم وسیع النظر عالم، بذلہ سنج ادیت ، خوش بیان خطیب ، پُر اثرواعظ ، موقع شناس مقرر ، اوربڑے بڑے بزروگوں کےحلقہ سےفیض یاب تھے۔ ان کوتاریخ کاشوق اورعربی نظم ونثر کا اچھا ذوق تھا۔ وہ مذہب کےلحاظ سے وسیع المشرب تھے۔تاہم دوباتوں میںوہ نہایت سخت تھے۔ ایک تو اعتدال کےخیالوں سےبہت برہم ہوتےتھےاور دوسرے حضرت علی مرتضیٰ اوراہل بیت کرام کی محبت وتعظیم میں بےحد غلو فرماتےتھے۔
میرے ساتھ مرحوم کےناگوناگوں تعلقات تھے۔ مجھے اپنےعزیزسےکم نہیں سمجھتےتھے۔۔۔۔۔۔۔
ندوہ کےایک جلسہ میں جولکھنؤ میں غالباً 1915ء میں تھا۔چار سلیمان جمع ہوگئے تھے۔قاضی محمد سلیمان منصورپوری (مصنف رحمۃ اللعالمین )، مولانا سلیمان اشرف بہاری (استاد دینیات مسلم یونیورسٹی )، مولانا شاہ سلیمان پھلواروی ، اور خاکسار سلیمان ندوی ۔تب شاہ صاحب نےفرمایاکہ آج کل کئی کئی سلیمان پیدا ہوگئے ہیں ۔لیکن ان میں سلیمان بن داؤد میں ہوں ۔ ؏
پریاں نئی نئی ، سلیمان نئے نئے
( شاہ صاحب کےوالد کانام داؤد تھا۔ اس لیے ان کی مہر میں وَوَرِثَ سُلَیمَان دَاؤدَ کندہ تھا)
مجمع بےاختیا ہنس پڑا ۔
پھر فرمایا :'' پہلے سلیمان فرد تھا۔ اب رباعی ہے، چارچار سلیمان یکجا ہیں ،،
افسوس کہ یہ رباعی قاضی سلیمان کی وفات سےچند سال گزرے کہ مثلث بن چکی تھی۔ اور اب 27 صفر کوقطعہ ہوگئی ۔ اب اس رباعی کےصرف دومصرعےباقی ہیں۔خدا جانےیہ بھی ایک دن اس صفحہ ہستی سےحرف غلط کی طرح مٹ جائیں ۔وللہ ہوالباقی
شاہ صاحب کی ذات ایک عجیب جامع ہستی تھی ۔ ایسے لوگ اب پیدا نہ ہوں گے۔زمانہ بدل رہا ہے۔ ہوا کارخ اورطرف ہے۔ وہ قدیم وجدید کےدرمیان حلقہ اتصا تھے۔اب قدیم بھی جدید ہو رہا ہےاورجدید ترین بن رہا ہے۔
مولانا سلیمان اشرف
چارسلیمان کی رباعی قاضی محمد سلیمان صاحب مصنف رحمۃ اللعالمین کی وفات سےمثلت ہوگئی تھی ۔ شا ہ سلیمان پھلواروی کی رحلت سےوہ قطعہ بن گئی تھی ۔اب اخیر اپریل 1939 ء میں مولانا سلیمان اشرف ( استاد دینیات مسلم یونیورسٹی ) کی موت سےمصرع ہوکر رہ گئی ۔ دیکھنا یہ ہےکہ یہ مصرع بھی دنیا کی زبان پرکب تک رہتا ہے۔؏
بہت آگے گئے باقی جوہیں تیار بیٹھے ہیں
مرحوم خو ش اندام ، خوش لباس ، خوش طبع ، لطافت پسند ، سادہ مزاج ، اور بےتکلف تھے۔ان کی سب سے بڑی خوبی ان کی خودداری اور اپنی عزتِ نفس کااحساس تھا۔فکروغم کاان کےہاں گزرنہ تھا۔ ان کےمذہبی خیالات علمائے بریلی کےمطابق تھے۔اورقرآن کےبڑےمداح تھے ۔پھر بھی ان کی ملاقات اورمیل جول ہرخیال کےلوگوں سےتھا ۔ان کی وفات سےدوتنی ہفتہ پہلے علی گڑھ میں ملاقات ہوئی تھی۔ان کی عمر 65 سا ل کےقریب تھی ۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
سید صاحب کی اتبدائی تعلیم
سیدصاحب نےابتدائی تعلیم اپنے قصبہ کےایک معلم خلیفہ انور علی اور مولوی مقصودعلی سےحاصل کی ۔ان ہردو حضرات سےفارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔اورعربی میں میزان منشعب اپنےبڑے بھائی سید ابوحبیب سے پڑھی۔مولوی سیدابوحبیب ، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م 1337ھ) کےشاگرد تھے۔
انہوں نےسید صاحب کومولانا شاہ اسماعیل شہید دہلوی ( 1246ھ ) کی کتاب '' تقویۃ الایمان ،، کےپڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ اس زمانہ میں دابند میں عام بدعات کابہت رواج تھا۔ اوربدعات زیادہ ترعورتوں میں رائج تھی ۔سید ابوحبیب صاحب کوصرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ دابند سےاورخاص کراپنےخاندان سےبدعات کوختم کیاجائے۔چنانچہ وہ ہفتہ میں ایک دن پردہ کی اوٹ میں عورتوں کو تقویۃ الایمان کادرس دیتے ۔سید صاحب تقویۃ الایمان کی عبارت پڑھتے اورسید ابوحبیب اس کی تشریح کرتےاور ہرمسئلہ کوبڑےاچھےطریقے سےحل کرتے تھے۔
اور تقویۃ الایمان کاغیرشعوری طورپرسیدصاحب کےدل پرنقش ہوتا چلاگیا اور اس کا ایسا اثرسیدصاحب کےدل پرنقش ہواکہ آخرعمرتک اس کااثر قائم رہا۔چنانچہ سید صاحب اپنی ایک تحریر میں فرماتےہیں :
'' یہ پہلی کتاب ہےجس نےمجھے دین حق کی باتین سکھائیں اورایسی سکھائیں کہ اثنائے مطالعہ وتعلیم میں بیسیوں آندھیاں آئیں ، خیالات کےہزاررہاطوفان اٹھے،طرح طرح کے نظریات وافکار کےکتنے جھکڑچلے مگر ایک کتاب کےمطالعہ اوربھائی صاحب کی تشریح وتفسیر سےجوباتیں دل میں جڑ پکڑ چکی تھیں ۔ ان میں سے ایک اپنی جگہ سے ہل نہ سکی ۔یہاں تک کہ ندوہ میں آنے کےبعد مولانا شبلی کی معیت میں جن کی تعلیم وتربیت کااپنے بھائی سید ابوحبیب صاحب کےبعد سب سےزیادہ رہین منت ہوں اورجن کےفیض محبت سےمجھے قلم پکڑناآیا اوربعد میں مضمون نگاری اورتصنیف وتالیف کاذوق پیداہوا۔ علم کلام کےمسائل ،اشاعرہ اورمعتزلہ کےنزاعات ، غزالی ، رومی وابن رُشد کےدلائل نگاہوں سے گزرے اورانہوں نے پوری طاقت سےمجھ پراثر ڈالنا چاہا۔مگر عقائد کےباب میں مولانا شاہ اسماعلی شہید کی تعلیم وتلقین بہرحال اپنی جگہ پرقائم رہی اور اس میں تزلزل پیدا نہ ہوسکا۔اوریہ زمانہ 1897ء کا تھا، 1898تا 1900ءتک سید صاحب نےپھلوارو ی شریف اور دربھنگہ میں گڑارے۔،،
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ
سید صاحب 1901ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے اورسات سال ندوہ میں رہ کر جملہ علوم اسلامیہ کی تکمیل کی ۔طالب علمی کےزمانہ میں متانت وسنجیدگی، تہذیب ، وشائستگی ، مہرومحبت اورخلق ومروت میں ممتاز تھے۔ندوہ میں ان کے علمی وادبی ذوق کی نشوونما ہوتی رہی ۔
اساتذہ :
ندوۃ العلماء لکھنؤ میں سید صاحب نےجن اساتذہ کرام سے مختلف علوم وفنون میں استفادہ کیا ۔ ان کےنا یہ ہیں :
مولانا مفتی عبداللطیف سنبھلی ، مولانا سید علی زنبی ، مولانا شبلی فقیہ جیراج پوری مولانا حفیظ اللہ اعظمی ، مولانا محمدفاروق چڑیاکوٹی ، مولانا حکیم عبدالحی الحسنی ، اور مولانا شبلی نعمانی ۔
سید صاحب نےمولانا حفیظ اللہ سے حدیث اوربلاغت کی تحصیل کی ۔
فقہ مولانا مفتی عبداللطیف سےپڑھی ،منطق ، فلسفہ اورادب عربی میں مولانامحمدفاروق چڑیاکوٹی سےاستفادہ کیا اور علم کلام کی تحصیل مولانا شبلی نعمانی سے کی ۔
ندوہ سےفراغت :
1907ء میں سید صاحب ندوۃ العلماء لکھنؤ سےفارغ ہوئے۔اورندوہ سے فارغ طلباء کی دستاربندی کاپہلا جلسہ رفاہ عام کلب لکھنؤ میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں سید صاحب نےعلوم قدیم و جدید کےموازانہ پراردو میں تقریر کی جوبہت پسند کی گئی ۔اس کےبعد مولانا شبلی نعمانی نےکھڑےہوکرسامعین سےفرمایا کہ :
'' سید سلیمان عربی میں فی البدیہہ تقریر کرسکتےہیں اوران کےلیے عنوان
مقرر کیا جائے ۔،،
چنانچہ خواجہ غلام الثقلین نےیہ موضوع دیا کہ '' ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیونکر ہوئی ،، سید صاحب نےبغیر کسی توقف کےفصیح عربی میں تقریر شروع کردی ۔اورسامعین محو حیرت ہوگئے اورمولاناشبلی نے اپناعمامہ اتارکرسید صاحب کےسرپرباندھ دیا۔
الندوہ کی سب ایڈیٹری
الندوہ دارالعلوم ندو ۃ العلماء لکھنؤ کامشہور علمی رسالہ اور اس کانقیب تھا۔جو1902ءمیں علامہ شبلی نعمانی اورمولانا حبیب الرحمان خان شیروانی کی ادارت میں جاری ہوا ۔مولانا سیدسلیمان ندوی 1907ء میں ندوہ سےفارغ ہوئے تومولانا شبلی نے ان کوالندوہ کاسب ایڈیٹر مقرر کیا۔ سیدصاحب نے الندوہ میں متعدد علمی وتحقیقی مضامین لکھے۔ ان مضامین کےشائع ہونے پرسید صاحب کےعلمی تبحر کا اعتراف علمی حلقوں کی طرف سےشروع ہوا ۔ اسی سال سیدصاحب نےالندوہ میں علم ہئیت اور معانی ، عربی زبان کی وسعت ، طبقات الارض ، برنابا کی انجیل ، مسئلہ ارتقاء ، ایمان بالغیب اور مکرراتُ القرآن جیسے علمی وتحقیقی مضامین لکھے۔ سید صاحب کےمضامین ایمان بالغیب اورمکرراتُ القرآن کی علامہ شبلی نے بہت تعریف وتوصیف کی ۔
ندوۃ العلماء لکھنؤ ، بحیثیت استاد عربی ادب تقرر
1908 ء میں ہی مولانا شبلی نعمانی نےآپ کاندوۃ العلماء لکھنؤ میں بحیثیت استاد عربی ادب تقرر کردیا اوراسی دور میں آپ نےدرس وتدریس کےساتھ ساتھ '' دروس الادب ،، کےنام سےدوریڈریں مرتب کیں ۔ جوآج تک رائج ومقبول ہیں ۔
1909ئ کےالندوہ میں ایک طویل مضمون '' خواتین اسلام کی بہادری ،، کےنام سےلکھا۔جوالندوہ کےکئی نمبروں میں شائع ہوا اور بعد میں اس مضمون کوکتابی صورت میں علیحدہ شائع کیا گیا۔
تدوین لغاتِ جدیدہ
1910 ء کےندوہ کےسالانہ اجلاس دہلی میں طے ہواکہ عربی کےجدید الفاظ کی لغت مرتب کی جائے ۔اور اس کام کےلیے سید سلیمان ندوی کانام تجویز ہوا۔ چنانچہ آپ نے2سال کی مدت میں لغاتِ جدیدہ کےنام سے کتاب مرتب فرمائی ۔اور 1912ء کےاجلاس ندوہ لکھنؤ کی صدارت علامہ رشید رضا مصری (م 1354ھ) نےکی تھی،پیش کی ۔ اس لغات سےعربی مدارس کےطلباء بہت استفادہ کرتےہیں ۔
سیرۃ النبی کی تالیف میں شرکت
1910ء میں علامہ شبلی نعمانی نے سیرت النبی ﷺ کی تدوین وترتیب کاایک شعبہ قائم کیا توسید صاحب اس کےلٹریری اسٹنٹ مقرر ہوئے اور اس کام میں انہوں نےمولانا شبلی کی پوری مدد کی ۔ اوراس کےساتھ الندوہ میں مضمون بھی لکھتے رہے اورمئی 1912ء تک الندوہ کےسب ایڈیٹر بھی رہے۔ اس کےبعد الندوہ بند ہوگیا۔اس دور میں سید صاحب نےجومضامین الندوہ میں لکھے ، ان میں اشتراکیت اوراسلام اوراسماء القرآن کی خاصی مقبولیت حاصل ہوئی ۔
مولانا ابوالکلام آزاد کےالہلال کےادارہ تحریر میں شمولیت
1911 ء میں اٹلی نےطرابلس پرحملہ کیا ۔ تواس سےہندوستان کےمسلمانوں میں ایک شوربرپا ہوا۔اوران کی سیاست میں اُبال آگیا ۔ علامہ سید سلیمان ندوی بھی اس سےمتاثر ہوئے اورخالص علمی مشاغل چھوڑ کرمیدان سیاست میں آگئے ۔جولائی 1912ء میں مولانا ابوالکلام آزاد (م 1958ء ) نےکلکتہ میں ہفت روزہ الہلال جاری کیاجس نےملکی سیاست میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ سید صاحب الہلال کےعملہ ادارت مں شامل ہوگئے ۔الہلال میں سیدصاحب صرف 6ماہ رہے۔ان کےبعد الہلال کی ادارت سےمستعفی ہوگئے ۔
دکن کالج پونا کی پروفیسری
1913ء کےآخر میں سید صاحب مولانا شبلی نعمانی کی تحریر پردکن کالج پونا میں فارسی کےاسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوکرچلےگئے ۔اور اس وقت سید صاحب عملی حلقوں میں کافی معروف ہوچکےتھے۔اوردکن کالج کےقیام کےدوران سید صاحب نےاپنی کتاب تاریخ ارض القرآن مرتب کی ۔
جس میں قدیم عرب کی جغرافیہ ، اقوام عرب کےپرانی مذہبی اورتمدنی تاریخ پرمحققانہ بحث کی گئی ہے اوراسی زمانہ میں ایک مضمون ''علوم القرآن ،، کےنام سےلکھا۔جوالہلال ککلتہ میں شائع عوا ۔
علامہ شبلی کا انتقال :
پونا گئے ابھی ڈیڑھ سال بھی نہیں ہوا تھاکہ 18 نومبر 1914ء کوعلامہ شبلی نعمانی نےاعظم گڑھ میں انتقال کیا۔ علامہ شبلی نعمانی اپنی آخری عمر میں سیرۃ النبی کی تدوین وتالیف میں مصروف تھےجسے اس آرزو اورتمنا کےساتھ شروع کیاتھا۔؏
عجم کی مدح کی ، عباسیوں کی داستان لکھی
مجھے چندے مقیم آستانِ غیرہونا تھا
مگر اب لکھ رہاہوں سیرتِ پیغمبر خاتم
خدا کاشکر ہےیوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا
مولانا شبلی جب مرض الموت میں مبتلا ہوئے ۔توسیدصاحب کوتاردےکرپونا سےبلوایا گیا۔
'' اورجب سید صاحب اعظم گڑھ پنچے تواس وقت مولانا شبلی قریب المرگ تھے۔سیدصاحب کاہاتھ پکڑ کرفرمایا:
'' سیرۃ النبی میری تمام عمر کی کمائی ہے۔
سب کام چھوڑ کرسیرۃ تیا رکرو۔،،
سعادت مندشاگرد نےجواب دیا : ضرور ضرور
دارالمصنفین کاقیام :
مولانا شبلی کےانتقال کےبعد سید سلیمان ندوی نےدکن کالج پونا سےاستعفی دےدیا اوراعظم گڑھ تشریف لےآئےاورمولانا مسعود علی ندوی کےانتظامی تعاون اورمولانا عبدالسلام ندوی کےعلمی اشتراک سے 1915ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔اور اپنی کتاب تاریخ ارض القرآن کی پہلی جلد کی اشاعت سےدارالمصنفین کےتصنیفی کام کاآعاز کیا ۔
سیرۃ النبی کی تکمیل :
مولانا سید سلیمان ندوی دارالمصنفین قائم کرنےکےبعدعلمی کاموں میں مشغول ہوگئے اور سب سےپہلے اپنے استاد علامہ شبلی کی وصیت پرعمل کیا۔
مولانا ابوعلی اثری مرحوم لکھتےہیں :
'' مولاناسید سلیمان نےدنیا کےسارے کاموں سےمہ موڑ کرپہلے ان کی وصیت پرعمل کیا ۔پونا کالج کی پروفیسری سے استعفیٰ دیا جہاں اچھی خاصی تنخواہ پاتےتھے۔ اورآئندہ ترقی کےبڑے امکانات تھے ۔ سیرت کےتما م منتشراجزاء کواکٹھاکیا، ان پر نظرثانی کی ۔جہاں جہاں واقعات کےاضافہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔وہاں قوسین میں اپنےقلم سےواقعات کااضافہ کیا یہ اضافے پہلے حصہ میں توقدرے کم ، لیکن دوسرے حصہ میں آپ کےاخلاق وعادات و معمولاتِ شمائل پرہے۔اور مولانا شبلی ہی کےقلم سےہیں ، بہت ہیں ۔اس کےبعد مولاناشبلی کےنقشہ عمل کےمطابق بقیہ جلدین جومعجزات ، منصفبِ نبوت ، اخلاق وعبادات پرہیں اور جن میں بعض ہزار ہزار صفحات کی ہیں، اپنےقلم سےلکھیں ۔اورشروع سےآخرتک استادکی شانِ تحقیق اوراسلوب ِ تحریر کوقائم رکھااورکہیں اسےمولانا شبلی کےمقرر کردہ معیارسے گرنے نہیں دیا۔ معاملات کاحصہ زیرقلم تھاکہ صحت نےدفعتاً جواب دےدیا اورباوجود ہزار سعی وکوشش کےاس کی تکمیل نہ کرسکے۔،،
رسالہ معارف کااجراء :
جولائی 1916ء (رمضا المبارک) میں دارالمصنفین کاماہوار علمی رسالہ معارف جاری کیا۔جس کی ضیاء پاشیوں سےدینائے علم آج تک مستفید ہورہی ہے۔معارف کےپہلے شمارے میں آپ کا مقالہ '' روزہ،، کےنام سے شائع ہوا۔
1917ء کےعلمی کام :
1917ء میں سید صاحب نےمعارف میں ''اہل سنت والجماعت ،، کےنام سےایک مضمون لکھا جومعارف کےکئی نمبروں میں شائع ہوااور عملی حلقوں میں بہت پسند کیاگیا۔بعد میں اس کوکتابی شکل میں شائع کیا گیا ۔اس کےبعد ان کی کتاب حیاتِ امام مالک شائع ہوئی۔امام مالک پرآپ کاطویل مقالہ 1917ء میں الندوہ کےکئی نمبروں میں شائع ہو ا تھا۔
1918ء کےعلمی کام :
1918ء میں سید صاحب نےمولانا شبلی نعمانی کی سیرۃ النبی کی جلد اول شائع کی ۔اورمولانا شبلی کی روح کوتسکین پہنچائی ۔سید صاحب نےسیرۃ النبی کی اشاعت پربجاطورپرلکھا تھا:
شام از زندگی خویش کہ کارے کردم
اور اس کےساتھ اپنی محققانہ تصنیف ، تاریخ ارض القرآن کی جلد دوم شائع کی ۔جس میں اقوام عرب کی لسانی ،مذہبی ،تجارتی ، تمدنی حالات پربحث ہے۔اس سے سیدصاحب کی علمی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔
تحریک خلافت :
1919ء کاسال ہندوستان کےمسلمانوں کےلیے بڑا پُرآشو ب تھا۔ پہلی جنگ عظیم کےبعد اسلامی ممالک خصوصاً ترکی پرسخت وقت آیا تو اس وقت ہندوستان کےدردمندمسلمان رہنماؤں نےمجلس خلافت کےنام سےایک مرکزی مجلس قائم کی اور مجلس خلافت میں علمی برادران مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی نے ایسی تنظیمی قوت پیدا کردی کہ پورا ہندوستان ا ن کی آوازپرلبیک کہتاتھا ۔
تحریک خلافت کا پہلا اجلاس 1919ء میں لکھنؤ میں منعقد ہواتوسید صاحب نےاس اجلاس میں ایسی پردرد تقریرکی کہ ساری مجلس بزم ماتم بن گئی ۔
ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی ندوی لکھتےہیں :
'' 1919ء میں جس خلافت کاپہلا اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا ۔توسیدصاحب نےعلما ء اور ارباب سیاست کےدرمیان حلقہ اتصال کاکام کیااور ایسی پردرد تقریر کی کہ مسند صدارت سےپائیں تک ساری مجلس بزم ماتم بن گئی ۔
مولانا عبدالباری فرنگی محل اور چوہدری خلیق الزمان کےسارے اختلافات خس وخاشاک کی طرح بہہ کئے ۔،،
وفدِ خلافت کاسفرِ انگلستان
فروری 1920 ء میں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ترکی کےمعاملات میں انصاف طلبی اور مسلمانان ہند کےجذبات کےلیے ایک وفد انگلستان گیا۔جس کےارکان حسب ذیل تھے :
مولانا محمد علی جوہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدر
سید سلیمان ندوی ۔۔۔۔۔۔۔۔رکن
سید حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رکن
سید حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔رکن
حسن محمد حیات ۔۔۔۔۔۔سیکرٹری
اس وفد میں سید صاحب کی حیثیت محض ایک معزز رکن ہی کی نہیں تھی بلکہ ایک محقق،مفکر اورفاضل کی تھی ۔انہوں نے اس سفر میں نہ صرف برطانوی وزیراعظم لارڈ جار ج اور دوسرے ممتاز لیڈروں سےسیاسی مذاکرات کئے۔ بلکہ انڈیا آفس ، برٹش میوزیم ، آکسفورڈ اورکیمرج کےقیمتی کتب خانوں سے اپنے علمی ذوق کوبھی شاد کام کیا۔سید صاحب نےاپنے مجموعہ '' برید فرنگ ،، میں اس وفد کاکارگزاری اورسفر کےمشاہدات وتاثرات کابہت شرح وبسط کےساتھ ذکر کیا ہے۔
سیرۃالنبی ﷺ جلد دوم اورسیرت عائشہ ؓ کی اشاعت
انگلستان روانہ ہونے سےپہلے سید صاحب نےسیرۃ النبی ﷺ جلد دوم چھپنے کےلیے پریس کےحوالہ کردی تھی ۔اور اس کےساتھ سیرۃ عائشہ ؓ کامسودہ بھی پریس کوچھپنے کودے دیا تھا۔ سید صاحب ابھی لندن ہی میں تھے کہ یہ دونوں کتابیں شائع ہوگئیں۔
سیرۃ عائشہ ؓ کی اشاعت پربیگم صاحبہ بھوپال نے500 روپے کاانعام مرحمت فرمایا۔اورعلامہ اقبال کےپاس جب سیرۃ عائشہ ؓ پہنچی تواس کوپڑہ کر سید صاحب کولکھا:
'' سیرۃ عائشہ کےلیے سراپا سپاس ہوں ۔یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے۔ اس کتاب کوپڑھنے سےمیرےعلم میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ خدا تعالیٰ جزائے خیردے،،
ترک موالات :
1920 ء کےآخرمیں سیدصاحب انگلستان کےسفرسےواپس آئے توترکِ موالات کی تحریک ہندوستا ن میں شروع ہوگئی ۔مجلس خلافت اورکانگریس کےپلیٹ فارم مشترک ہوگئے ۔ مولانا سید سلیمان ندوی نےاس تحریک میں سرگرم حصہ لیا ۔اخبارات میں مضامین لکھے اورتحریک ترکِ موالات کےسلسلہ میں ملک کادورہ کیا ۔ اوربڑےبڑے شہروں میں تقریریں بھی کیں ۔
1921ء میں مجلس خلافت کاجواجلاس میرٹھ میں منعقد ہوا۔ اس کی صدارت بھی کی اوراس کےساتھ معارف میں دو طویل مضامین ''خلافت عثمانی اور دنیائے اسلام،،اور''خلافت اورہندوستان ،، کےعنوان سےلکھے ۔یہ دونوں مضامین کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے ۔اور ان رسالوں سےتحریک خلافت کوبڑی مدد ملی۔
دینی تعلیم گاہوں کواس وقت حکومت کی طرف سےسرکاری مدد ملتی تھی۔جس میں ندوۃ العلماء لکھنؤ بھی شامل تھا۔ سید سلیمان ندوی ندوۃ العلماء کےروح رواں تھے۔آپ نےجب تحریک ترک موالات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینا شروع کیا توندوۃ کی مجلس انتظامیہ نےفیصلہ کیاکہ ہمیں تحریک ترک موالات میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ سید صاحب نےبڑی بحث وتمحیص کےبعد ارکان ندوہ کو راضی کیااور سرکاری امداد کی واپسی کا فیصلہ کیا۔ سید صاحب لکھتےہیں کہ :
'' اس امداد کےپلٹ جانے کےبعد ندوہ کی زندگی گویا معرض خطرمیں پڑھ گئی ،،
1921ء :
1921 ء میں کانگریس کااجلاس احمد آباد گجرات میں ہوا۔سید صاحب نہ صرف اس اجلاس میں شریط ہوئے۔بلکہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کےممبر منتحب ہوئے۔ایک خط میں سید صاحب لکھتے ہیں:
'' کانگریس ورکنگ کمیٹی کےدس ممبران میں سے ایک میراانتخاب ہوا۔بڑےبڑے مدعیان سیاست اورارباب ِ عمائم اس عزت کےحصول کےلیے دوروھوپ کررہےتھے۔
بالآخر یہ توقع ،یہ عزت میرے حصہ میں آئی ۔مگر بجااعتراف ہےکہ اس سےمجھ کوایک ذرہ برابر خوشی نہیں ہوئی ۔ صرف محمد علی کی وصیت اورحکیم اجمل خاں اورڈاکٹر انصاری کاامتثالِ امرہے۔
اسی سال سید صاحب جمعیت العلماء ہند کی مجلس عاملہ کےرکن بھی منتخب ہوئے۔
دار المصنفین کی شہرت ومقبولیت :
مولانا سیدسلیمان ندوی کی کوششوں سے 7 سال یعنی 1915ءدارالمصنفین کاآفتاب شہرت نصف النہار تک پہنچ چکا تھا ۔علامہ شبلی کی سیرۃ النبی کی 3 جلدیں سیدصاحب کی تاریخ ارض القرآن 2 جلدیں اورسیرۃ عائشہ ؓ ، مولانا عبدالسلام ندوی کی اسوہ صحابہ اورسیرت عمربن عبدالعزیر ، مولوی محمد یونس فرنگی کی روح الاجتماع ، مولانا عبدالباری ندوی کےبرکلے اورمبادی علم انسانی ، مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی مبادی فلسفہ اورمکالمات برکلے ۔ پروفیسر سجاد مرزا کی استدلال ، تسہیل البلاغت وغیرہ کتابیں دارالمصنفین نےشائع کیں ۔اور ان کتابوں نےارباب علم ونظر کواپنی طرف متوجہ کیااور رسالہ معارف کےعلمی تحقیقی ، مذہبی وتاریخی اورادبی وتنقیدی مقالات اندرون ہند سےنکل کر بیرون ہند تک پھیل گئے اورمستشرقین یورپ نے''معارف،، کےمقالات کی تحقیق وتوصیف کی ۔
علامہ اقبال نےسید صاحب کےنام اپنے ایک خط میں معارف کےبارےمیں لکھا:
'' یہی ایک رسالہ ہےجس کےپڑھنے سےحرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے،،
مولانا محمد علی جوہر کوبھی '' معارف ،، سے بہت اُنس تھا۔انہوں نے اپنے ایک خط میں سید صاحب کولکھا :
'' میرے پاس متعدد انگریزی رسالوں کی جلدیں نہیں بندھی ہیں ۔یہ شرف خاص معارف کوحاصل ہوا کہ مجلدات تیا رکرالی جائیں ،،
مولانا ابوالکلام آزاد اپنے ایک خط میں سید صاحب کولکھتےہیں :
'' معارف کےمتعلق آپ کیا کہتےہیں ، صرف یہی ایک پرچہ ہےاورہرطرف سناٹا ہے۔
بحمداللہ مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائیگاں نہیں گئیں اورصرف آپ کی بدولت ایک ایسی جگہ بن گئی جوخدمت علم وتصنیف کےلیے وقف ہے،،
وفدِ حجاز کی صدارت :
1924ء میں سلطان عبدالعزیز آل سعود نےشریف حسین کوشکست دے کرحجاز کوحاصل کرلیا تودونوں نےمجلس خلافت کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ چنانچہ مجلس خلافت نےایک وفد مولانا سید سلیمان ندوی کی قیادت میں حجاز بھیجنے کافیصلہ کیا۔وفد کےدوسرے ارکان مولانا عبدالقادر قصوری (1942ء)
اور مولانا عبدالماجد بدایونی (م 1931ء) تھے۔ ا س وفد نےجدہ میں دوماہ قیام کیا۔لیکن شریف حسین کے لڑکے علی شریف کی ہٹ دھرمی کی وجہ سےاس وفد کی جدوجہد بارآور نہ ہوسکی۔ اوریہ فد ناکام واپس ہندوستان آگیا۔
اس سفر میں سید صاحب نےحجا ز کےتعلیمی حالات کاگہرا مطالعہ کیا۔اور اپنے تاثرات مضمون کی شکل میں معارف مئی 1925 ء میں شائع کئے ۔
خطبات مدراس :
1925 ء میں سید صاحب نےمدراس میں سیرۃالنبی ﷺ کےموضوع پر8خطبات ارشاد فرمائے۔یہ خطبات اپنے موضوع کےاعتبار سےسیرت نبوی کانچوڑہیں اورسیدصاحب کےوسعتِ معلومات کےآئینہ دار ہیں ۔ ان خطبات میں نبی اکرمﷺ کی تاریخی حیثیت ، جامعیت ، کاملیت اورآپ کی زندگی کےعلمی پہلو پراس طرح روشنی ڈالی گئی ہےجس سےظاہرہوتاہےکہ تمام انبیاء کرام علیہم السلا م میں ساری دنیا کےلیے دائمی نمونہ علمی فقط آپ ہی کی ذات مقدس ہوسکتی ہے۔
مجلس خلافت کاوفد دوبارہ سوئے حجاز
1926ء میں مجلس خدمت کاایک وفد دوبارہ حجاز روانہ ہوا۔یہ وفد بھی سید صاحب کی قیادت میں گیا تھا۔اس وفد کےدوسرے ارکان مولانا محمد علی ،مولانا شوکت علی اورشعیب قریشی تھے۔سلطان ابن سعود نےمسئلہ حجاز کےسلسلہ میں تمام دنیا کےمسلمانوں کی نمائندہ ایک مؤتمر، مکہ معظمہ میں طلب کی تھی ۔جس کامقصد خطرات سےحرمین کی حفاظت اور اہل حرمین کی خدمت اورحجاج کے راحت وآسائش کےوسائل پرغور وفکر اوراسی قسم کےدوسرے اخلا ق امور تھے۔مؤتمر کےاس اجلاس میں سید صاحب کوموتمر کانائب الرئیس منتخب کیاگیا۔اس کانفرنس میں سید صاحب نےجو عالمانہ تقریریں کیں ، ان سے ہندوستان کےمسلمانوں کی علمی ودینی عظمت کاگہرا نقش شرکاء موتمر کےدلوں پرقائم ہوا ۔ سید صاحب وہاں صرف موتمر کےاجلاس میں ہی مشغول نہ رہےبلکہ وہاں کےکتب خانوں کےبھی سیر کی ۔چنانچہ واپسی کےبعد''حجاز کےکتب خانے،، کےعنوان سےایک طویل مضمون لکھا ۔جومعارف اکتوبر تادسمبر 1926ء چارقسطوں میں شائع ہوا۔
عرب وہند کےتعلقات پرلیکچر
مارچ 1929ء میں ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کی دعوت پرعرب وہند کےتعلقات پرپانچ خطبات ارشاد فرمائے۔یہ خطبات سید صاحب کےوسعتِ معلومات،ذوق مطالعہ وتحقیق اورعلمی تبحر کامنہ بولتا ثبوت ہیں ۔ سید صاحب کےبہ خطبات تلاش وتحقیق ، محنت وکاوش اورحجت ِ استدلال کےاعتبار سےبےمثل سمجھےجاتےہیں ۔
ایک تاریخی وتحقیقی اورعلمی لیکچر
اپریل 1933 ء میں '' ادارہ معارف اسلامیہ ،، لاہور کےزیراہتمام سید صاحب نےایک علمی و تایخی اورتحقیقی مقالہ '' لاہور کا ایک مہندس خاندان جس نےتاج محل اورلا ل قلعہ بنایا،، کےعنوان پرپیش کیا۔ اس اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نےکی تھی۔اس مقالہ میں سید صاحب نےبڑی تلاش وتحقیق اور مستند شہادتوں سےیہ ثابت کیاتھا ۔کہ تاج محل کامعمار درحقیقت نادر العصر استاد احمد معمار ہےجوہندسہ ، ہئیت اور رضیات کابڑا عالم تھا ۔
سفرافغانستان :
اکتوبر 1933ء میں سید صاحب نےعلامہ اقبال اورسرراس مسعود وائس چانسلرمسلم یونیورسٹی علی گڑھ کےساتھ نادر شاہ افغانستان کی دعوت پرتعلیمی سفر کیا۔سید صاحب نےواپسی کےبعد اس سفر کی روئیداد '' معارف ،، میں سیرِ افغانستان کےنام سے شائع کی۔ اوربعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئی ۔
1934ءتا 1940ء
1934ءتا 1940ء (7سال) میں مولانا سیدسلیمان ندوی نےبےشمار علمی وتحقیقی ،قومی وملی اوراصلاحی وسیاسی امور سرانجام دیئے ۔فروری 1934ء میں ڈاکٹر انصاری کی دعوت پرڈاکٹر بہجت وہبی جامعہ ملیہ دہلی آئے اورانہوں نےجامعہ ملیہ میں چارلیکچردئیے اوران میں دوخطبات کی صدارت سیدسلیمان نےکی ۔1935ءمیں دارالمصنفین سےسیرۃ النبی ﷺ کی پانچویں جلد شائع کی ۔1936ء نومبر آل انڈیا فلسطین کانفرنس دہلی کی صدارت کی۔ 1937 ء میں جنوری میں لکھنؤ میں ہندوستانی اکیڈیمی کےجلسہ کی صدارت کی اور مارچ 1937ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کےشعبہ علوم وفنون اسلامیہ کی صدارت کی اوراکتوبر میں حیدرآباد،مدراس تعلیمی سفرکیا۔ 1939ء سیرۃ النبی ﷺ کی جلد ششم شائع کی ا ور اپنی دوسری کتاب''نقوش سلیمانی ،، بھی شائع کی ۔یہ کتاب ان خطبات ، تحریروں اورمفدمات کامجموعہ ہےجواردو زبان سےمتعلق ان کےقلم سےنکلے۔یہ کتاب چوتھائی صدی کی ادبی تحریکوں کاایک مرقع ہے۔
1940 میں پنجاب کاسفر کیا۔اور اس سلسلہ میں لاہو ر ، بہاولپوراورپشاور سٹی علی گڑھ نےسید صاحب کو'' ڈی لٹ ،، کی اعزازی ڈگری دی اور اپنی جوہرشناسی کاثبوت دیا۔
اصلاحی کارنامہ
جنوری 1941 ء میں نواب احمد سعید خان چھتاری کی صدارت میں اسلام کےسیاسی اوراقتصادی نظام کی تربیت کےلیے مجلس بنائی گئی۔جس کےارکان حسب ذیل تھے:
مولانا سید سلیمان ندوی
مولانا ابوالاعلی مودودی
مولانا عبدالماجد دریاآبادی
مولانا بشیر احمدعثمان
ڈاکٹر ذاکرحسین
اوراس مجلس کاپہلا اجلاس ندوۃالعلماء لکھنؤ میں ہوا۔اوراس اجلاس میں یہ طےپایاکہ ''مستند علماءاورلائق یافتہ اہل علم کی باہمی معاونت سےپہلے اسلامی ریاست واقتصادی پرایک مستند ومعتبر کتاب لکھائی جائے،، چنانچھ مولانا محمد اسحاق سندہوی استاد تفسیر ندوۃالعلماء لکھنؤ نے 'اسلام کاسیاسی نظام ،، کےنام سےکتاب مرتب فرمائی۔جودارالمصنفین سےشائع ہوچکی ہے۔
حیات شبلی :
مولانا شبلی نعمانی نےاپنے انتقال کےوقت وصیت کی تھی کہ''جب تم دنیا کےکاموں سےفارغ ہوچکو تومیری سوانح عمری لکھنا ،، چنانجہ سیدصاحب نے1940ء میں حیات شبلی پرکام کاآغاز کیا اور 3سال کی محنت کےبعد فروری 1943ء میں 846صفحات پر''حیات شبلی،، شائع کی ۔ یہ کتاب سید صاحب کی آخری تصنیف ہےاوریہ کتاب صرف ایک شخص کی سوانح حیات پرہی نہیں بلکہ مسلمانان ہند کے50 برس کےعلمی وادبی ،سیاسی ، تعلیمی ، مذہبی اور قومی واقعات کی تاریخ بھی ہے۔
سفر واردھا :
1944ء میں علامہ سید سلیمان ندوی ، ندوۃالعلماء لکھنؤ کی مالی امداد کےلیے حیدرآباد دکن تشریف لےگئے تواس وقت گاندھی جی نے اپنے ہاتھ سےاردو میں خط لکھ کرسید صاحب کوقومی زبان کےسلسلہ میں مشورہ کرنےکےلیے واردھا بلایا۔چنانچہ سیدصاحب حیدرآباد سےواپسی پرواردھا گئے۔ اوروہاں ایک جلسہ ہوا۔توسید صاحب نےاپنی تقریر میں ملکی زبان کی ضرورت پرزو دیتےہوئےفرمایا کہ :
'' ہندوؤں اورمسلمانوں کی زبان میں اسی حدتک فرق ہوناچاہیے جس حدتک ان کے مذہبوں اورتمدنوں میں فرق ہے۔ اس لیے جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے۔ان کی مذہبی وتمدنی اصطلاحوں اورلفظوں کاماخذ عربی ، فارسی اور ترکی ہونے کےعلاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ اور ایسی ہی اجازت ہندوؤں کوبھی ان کےمذہبی اورتمدنی خصوصیات کےلیے ہونی چاہیے۔اس کےبعد لفظوں کےصحت کامدار لغت کی کتابوں کےبجائے بازار کےچلن اورعوام کےرواج پرہونا چاہیے ۔ اوراس وقت ہماری زبان میں عربی ، فارسی، ہندی ، سنسکرت اورانگریزی کاجولفظ جس صورت میں بولا جاتاہے۔اسی کوبرقرار رکھنا چاہیے ،،
قیام بھوپال :
1945ء میں سید صاحب کی صحت کا اضمحلال شروع ہوگیاتھا ۔لیکن ان کی علمی مصروفیات بربر جاری تھیں ۔ اسی دوران سید صاحب نےارادہ کیاکہ مستقل طورپرندوۃالعلماء لکھنؤ میں قیام کرلیا جائےاور وہ تقریبا 40 سال سےندوۃ العلماءکےمعتمدِ تعلیم چلے آرہے تھے۔لیکن بوجوہ اس کی صورت نہ بن سکی ۔ اسی اثناء میں نواب حمیداللہ خان ( والی بھوپال ) نےان کودعوت دی کہ وہ رساست کےدارالقضااور عربی مدارس کواپنی نگرانی میں لے کرخالص مذہبی اوراسلامی رنگ میں ڈھال دیں ۔ سید صاحب نےعربی مدارس کی اصلاح وترقی کےکام کواپنے خالص ذوق کےمطابق پاکر اس پیش کش کوقبول کرلیا ۔اور جون 1949ء میں بھوپال کےقاضی القضاء اورجامعہ مشرقیہ کےامیر کےمنصب پرمامو ر ہوئے۔ لیکن دارالمصنفین اورندوہ سےتعلقات بدستور قائم رہےجس مقصد کےلیے بھوپال تشریف لےگئے تھے۔اس کی تکمیل کےلیے اکتوبر 1949ء تک قیام کیا ۔
سفرحج :
اکتوبر 1949ء میں علامہ سید سلیمان ندوی معہ اپنی اہلیہ اورصاحبزادے سلمان کےساتھ حج بیت اللہ کوتشریف لےگئے۔ اورجس جہاز سےآپ نےسفرکیا،اس کےامیر بنائے گئے اورحجاز پہنچ کرسلطان ابن سعود کےمہمان خصوصی ہوئے۔سلطان ابن سعود نےکئی بارآپ کوکھانےپرمدعو کیا ۔ حج کےبعد مدینہ منورہ میں ایک ماہ قیام فرمایا اوربارگاہ بنوی میں رسول اکرمﷺ کےسوانح نگار نےاپنی عقیدت ومحبت ، عجزونیاز اور کیف وسرور کااظہار ایک نعتیہ غزل میں کہا:
جس کےچنداشعار یہ ہیں :
مکی مدنی ہاشمی و مُطّلبِی ہے
آدم کے لیے فخریہ عالی نسبی ہے
پاکیزہ تراز عرش وسما جنت فردوس
آراگلہ پاک رسول عربی ہے
آہستہ قدم ، نیچی نگہ ، پست ہوآواز
خوابیدہ یہاں روح رسول عربی ہے
بجھ جائے تر ی چھینٹوں سے اے ابرکرم آج
جوآگ میرے سینہ میں مدت سےدبی ہے
دسمبر 1949ء میں اس سفر سےواپس بمبئی پہنچے اورجنوری کےوسط میں بھوپال آئے اوراپریل کےآخر میں بھوپال سےپنا تعلق منقطع کرکے اعظم گڑھ تشریف لےگئے۔
پاکستان ہجرت :
سید صاحب کامستقل طورپر درالمصنفین اعظم گڑھ میں قیام کاارادہ تھا۔ لیکن دارالمصنفین کےبعض شرکاء کےتکلیف دہ رویہ سےانہیں قلبی اذیت پہنچی توآپ دارالمصنفین سےبد دل ہوگئے جس دارالمصنفین کوانہوں نے اپنے خون جگر سےسینچا تھا اوراس کی جدائی انہیں گوارہ نہ تھی لیکن حالات نےمجبول کردیا کہ اب وہ یہاں قیام نہ کریں ۔چنانچہ سید صاحب 14 جون 1950 ء پاکستان منتقل ہوگئے۔اور اہل پاکستان نےا ن کی آمد پرخوشی ومسرت کااظہار کیاکہ:
'' رسول اکرم ﷺ کاسیرت نگار اورمحقق ومؤرخ اورعالم اسلام کاایک متبحر عالم ان کی مملکت کاباشندہ ہوگیا ہے،،
حکومت پاکستان نےدستور بنانے کےسلسلہ میں ادارہ تعلیماتِ اسلام کےنام سےعلماءکا ایک بورڈ بنایا تھا۔سید صاحب کواس بورڈ کی صدارت 1500 ماہوار پرپیش کی ۔جس کوکچھ شرائط کےساتھ قبول کرلیا ۔
1953ء میں پاکستان ہسٹاریکل کانفرنس کی صدارت کےلیے ڈھاکہ تشریف لےگئے۔ وہاں سے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ گئے اوروہاں آپ کےاعزاز میں ایک جلسہ کاا ہتمام کیاگیا ۔ آپ نے ایک بڑی مؤثر تقریراورطلبائے ندوہ کویہ پیغام دیا:؏
سبق پھر پڑھ صداقت کاشجاعت کا عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سےکام دنیا کی امامت کا
اس کےبعد آپ لکھنؤ سےواپس کراچی تشریف لےآئے۔
وفات :
مولانا سیدسلیمان ندوی نے 22 نومبر 1953ء مطابق 14ربیع الاول 1373ھ کو71سال کی عمر میں انتقا ل کیا ۔ ڈاکٹر عبدالحق خلیفہ مولانا اشرف علی تھانوی نےنماز جنازہ پڑھائی اورمولانا شبیراحمد عثمانی کےپہلو میں دفن کئے گئے ۔
مولانا سید سلیمان ندوی کی صحافت :
مولانا سیدسلیمان ندوی جہاں ایک بلند پایہ عالم دین ، سیرت نگار،مؤرخ، محقق، ادیب،نقاد، مقرر ، دانشور اورمصنف تھے۔ وہاں آپ ایک بہت عمدہ صحافی بھی تھے۔اور سیدصاحب آسمان صحافت پراس وقت طلو ع ہوئے جب ہماری قضائے ادب مخزن ، انسٹی ٹیوٹ گزٹ ، علی گڑھ متھلی، اردوئے معلیٰ، دلگداز، معارف ( علی گڑھ)زمانہ ، نگار، سچ، الناظر ، ہمدرد اورالہلال جیسے روشن اور تابناک ستاروں سےمزین تھی اور شیخ عبدالقادر ، سرسید، حسرت موہانی ، عبدالحلیم شرر، وحیدالدین سلیم ، منشی دیانرائن ، نیاز فتح پوری،عبدالماجد دریاآبادی ، ظفر الملک، محمد علی جوہر اورابوالکلام آزاد جیسے اساطین علم وادب اردو صحافت کی آبروشمارہوتےتھے۔
مولانا سید سلیمان ندوی الندوہ ، لکھنؤ اورالہلال، کلکتہ کےسب ایڈیٹر اورمعارف،اعظم گڑھ کےایڈیٹر رہے ۔ ان تینوں علمی رسائل میں سید صاحب نےکیا کیا علمی کارنامے سرانجام دیئے، ان کاتذکرہ ذیل میں علیحدہ علیحدہ کیا جاتاہ ے۔
ماہنامہ الندوہ ، لکھنؤ:
الندوہ ، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کامشہور علمی رسالہ اوراس کانقیب تھا۔ 1904ء میں مولانا شبلی نعمانی اورمولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی کی ادارت میں جاری ہوا۔
الندوہ کا پہلا شمارہ اگست 1904ء میں مطیع مفید عا م آگرہ میں چھپ کرمنصئہ شہود پرجلوہ گرہوا ور یہ سلسلہ 1916ء تک جاری رہا ۔
جون 1905ء میں مولانا عبداللہ العماری اس کےسب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔اکتوبر1905ء تا مارچ 1906ء مولانا ابوالکلام آزاد اس کےسب ایڈیٹر رہےجبکہ مولانا سید سلیمان ندوی الندوہ کےتین بار سب ایڈیٹر مقرر ہوئے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ مارچ 1906ء تا مارچ 1907ء
2۔ اگست 1911ء تا فروری 1910ء
3۔ اگست 1911ء تامئی 1912ء
درمیانی مدت دومہینے جون، جولائی 1908 ء مولانا عبداللہ العماوی اورگیارہ ماہ(مارچ 1910ء تا اپریل 1911ء ) مولانا عبدالسلام ندوی سب ایڈیٹر ر ہے ۔
مولانا سید سلیمان ندوی نےالندوہ میں بےشمار مذہبی ودینی ، علمی و تحقیقی ، تاریخ وادبی اور تنقیدی مقالات لکھے ۔ اگران کی مکمل فہرست درج کی جائے توبارخاطر ہوگا۔اس کےچند مقالات کی فہرت درج ذیل ہے:
1۔ علم الحدیث ۔مئی 1905ء
2۔امام بخاری ۔ مارچ 1906 ء
3۔قضاء وقدر اورقرآن ۔ جولائی 1906 ء
4۔ القرآن والفلسفۃ الجدیدہ ۔ ستمبر 1906ء
5۔ مسئلہ ارتقاء اورقرآن ۔ دسمبر 1907 ء
6۔ تمدنِ اسلام ۔ دسمبر 1908 ء
7۔ ایمان بالغیب ۔ دسمبر 1908ء
8۔ دواور صحف انبیا ء ۔ جولائی 1909ء
9۔ قیامت ۔ اکتوبر 1909 ء
10۔ تحریم شراب ۔ نومبر 1909ء
11۔ اشتراکیت اوراسلام ۔ مئی 1911ء
12۔ مذہب اسلام اورعقل ۔ جولائی 1911ء
ہفت روزہ الہلال ،کلکتہ :
مولانا ابوالکلام آزاد کاشہر ہ آفاق ہفت روزہ الہلال اردو صحافت میں ایک نیاباب تھا۔اور صحیح معنوں میں '' الہلال ، ، برصغیر کی سیاسی ،ادبی ، علمی، تاریخی اور صحافتی تاریخ میں سنگ ِ میل ثابت ہوا ۔
اس کی شہرت وعظمت کاسہر ا مولانا ابوالکلام آزاد کی نابغہ شخصیت کےسرہے ۔لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ الہلال کوبدر کامل بنانے میں علامہ سید سلیمان ندوی کابڑا نمایا ں حصہ ہے۔
الہلال عصری صحافت میں محض ایک اور اخبار کااضافہ نہ تھا ۔ بلکہ درحقیقت وہ اپنی ذات سے ایک مستقل تحریک تھا جس نے طوفان حوادث میں اسلامیانِ عالم اوربالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ناخدائی کافریضہ انجام دیا ۔
الہلال کےمعاصرین میں ظفرعلی خان زمیندار (لاہور) وحیدالدین سلیم کےمسلم گزٹ ( علی گڑھ ) اورمحمدعلی جوہر کےہمدرد ( دہلی ) کےنام قابل ذکر ہیں ۔
زمیندار کواپنے عہد میں بے اندازہ مقبولیت حاصل تھی ۔ تاہم اس کی توجہ کا تمام ترمرکز ترکی تھا ۔ اوراس کاعظیم ترین مقصد شہدائے بلقان کےپسماندگان کےلیے چندے کی فراہمی تھا ۔ ندرونِ ملک کےمعاملات اوریہاں کےداخلی سیاست سےاسے کم دلچسپی تھی ۔
مسلم گزٹ کا غالب رجحان بلاشبہ قوم پرستی اورملکی آزادی کی جانب تھا اوراس کےایڈیٹر وحیدالدین سلیم کےبےباک ، بےخوف اورجری قلم نےمسلمانوں کی فلاح وبہبود اورقومی خود داری سےمتعلق نہایت صفائی کےساتھ اپنے خیالات کااظہار کیا ہے۔
نیاز فتح پوری کی یہ رائے محل نظر ہےکہ مسلم گزٹ آزادی وطن کامحرک ومعاون ضروی تھا لیکن انگریزی سامراجیبت کےخلاف اس کی پالیسی واضح اور دوٹوک نہیں تھی ۔
مولانا محمد علی کے ہمدرد نےبرصغیر میں آزادی کی روح پھونکی ۔ مسلمانوں اورہندوؤں کو آزادی کےلیے تیا ر کیا ۔ ہمدرد ، انگریزی سامراج کےلیے سم قاتل ثابت ہوا ۔
الہلال کےبارے میں ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی ندوی لکھتے ہیں کہ:
'' الہلال محض ایک اخبار نہیں دراصل ایک صورِ قیامت تھا ۔جس کی ''صدائےرعد رسائے غفلت شکن ،، نے مردہ دلوں میں ایک نئی جان ڈال دی ۔ سرگتگانِ خوابِ ذلت و خواری کوبیدار کیا، وہ شعلہ قیامت جوسرد ہورہا تھا ، اس کوبھڑکادیا۔ ابوالکلام آزاد نے الہلال کےذریعہ کلمہ حق کوبلند کیا اور جراتِ حق گوئی وراست کی وہ روشن مثال قائم کی ہے ۔ جوہماری صحافت کی تاریخ میں بالکل نئی ہے۔انہوں نےقرآن کی معرفت اورتفسیری ترجمہ سےاسلام کی سچی تعلیم کےاحیاء کی کوشش کی ۔ جس میں سب سےزیادہ زور راست گفتار ی اورآزادی کےلیے لڑنے پرہے۔نتیجہ یہ ہواکہ ان کےہوثریامقالوں کی دھوم مچ گئی اوربڑے بڑے ارباب جبہ ودستار اورکہنہ مشق سیاستدانوں کےمذہبی وسیاسی افکار میں زبردست تبدیلی واقع ہوگئی۔ قدیم اقدار کوبدلنے اورہندوستانی مسلمانوں کےمعتقدات میں ایک عظیم انقلاب برپا کرنے میں الہلا نےنمایاں کردار ادا کیا ہے۔
بیگم ڈاکٹر سید عبداللہ '' الہلال،، کےبارے میں لکھتی ہیں :
'' یہ اخبار مسلمانان ہند کی انقلابی سیاست کاآئینہ دار تھا ۔ مسلمانوں سےتعلق رکھنے والے ملکی اوربین الاقوامی امور کی آزاد ترجمانی کاشرف اس کوحاصل تھا۔چنانچہ ترکی کے جدید انقلاب طرابلس اوربلقان کی لڑائیوں کےواقعات اورپھر جنگ عظیم میں ترکی کی حکمت عملی کےمتعلق الہلال میں طویل بحثیں موجود ہیں ۔
اسی طرح ملکی سیاست میں مسلم لیگ اورکانگریس کےجھکڑے ، حقوق ومراعات کےقصے اورانگریزوں کی '' پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو ،، کی تشریحیں بھی الہلال کےاوراق میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ تعلیمی معاملات میں ندوہ اورعلی گڑھ کی سرگرمیاں اوران میں سرکار پرستوں کی سیرکاریاں بھی الہلال نےاچھی طرح کھول کرواضح کی ہیں ۔
الہلال کی امتیازی خصوصیت مولانا ابوالکلام آزاد کےطرز تحریرکی ہدایت، نئی زبان اورعلوم اسلامیہ پران کی گہری نظر تھی ۔ اوراسی لیے تومولانا حسرت موہانی نےفرمایا تھا :
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظمِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
الہلال کی سدا بہار بنانے میں مولانا آزاد کی دلکش شخصیت کااثر تھالیکن اس کےساتھ اس کےادارہ تحریر میں ایسے اشخاص بھی تھے جنہوں نےاس کابام عروج تک پہنچایا۔
الہلال کےدارہ تحریرمیں سیدسلیمان ندوی ، عبدالسلام ندوی ، خواجہ عبدالواحد ندوی، عبداللہ عمادی ، اورحامد علی صدیقی جیسے مشاہیر اہل علم وقلم شامل تھے ۔بقول عبدالماجددریا آبادی :
'' روزنامہ کےلیے ایک ہفتہ وار کےلیے اتنا بڑا اور ایسا کھرا سٹاف اردو صحافت کی تاریخ میں کسی اور کوکیوں نصیب ہواہوگا ،،
مالک رام لکھتے ہیں :
'' الہلال کےتمام کارناموں سےقطع نظر اس کی اہمیت اورمعیار کااندازہ لگانے کےلیے صرف اس کاحیرت انگیز اوارہ تحریرہی کافی ہے۔ جوملک کےصف اول کےادبیوں اورانشا پروازوں پرمشتمل تھا۔ ہفتہ وار تو درکنار کسی اور ماہنامے کوبھی آج تک ایسا شاندار ایڈیٹوریل سٹاف نہ ملا ہوگا ،،
مولانا ابوالکلام آزاد اورمولانا سیدسلیمان ندوی کےروابط الندوہ کی سب ایڈیٹری کےزمانہ سے قائم ہوچکے تھے۔ دونوں کےعلامہ شبلی نعمانی سےتعلقات تھے اور دونوں یعنی مولانا آزاد اور سید صاحب ایک دوسرے کی صلاحیتوں سےمعترف تھے۔
13جولائی 1912ء کوالہلال کاپہلا شمارہ منصئہ شہود پرآیا تواس کوتنہاسنبھالا ۔پھر اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ان کو معاونین کی تلاش ہوئی اور مولانا سیدسلیمان ندوی جن کےعلمی تبحر سے مولانا آزاد کماحقہ ، واقف تھے ۔ ان کوالہلا کےادارہ تحریر میں شامل ہونے کےلیے اصرار کیا۔ چنانچہ سید صاحب الہلال کےمشن ودعوت کواپنے خاص ذوق ورجحان کےمطابق پاکر مئی 1913ء میں اس کےادارہ تحریر میں شامل ہوگئے ۔
سید صاحب خود بھی لکھتے ہیں کہ :
'' اس زمانہ میں الہلال ایک سیاسی بین الاقوامی تحریک سمجھی جاتی تھی ، اورمجھے حضرت الاستاد ( علامہ شبلی نعمانی ) کی صحبت وتربیت میں اس سے دلچسپی تھی۔اس لیے مولانا ابوالکلام کےکہنے سےمولانا شبلی کےپاس سےمولانا ابوالکلام کےپاس الہلال میں چلا آیا،،
مولاناسید سلیمان ندوی مئی 1913ء میں الہلال کےادارہ تحریر میں شامل ہوئے۔1913ء کےآخر میں دکن کالج پونامیں اَلینَہ الشرقیہ کےاسٹنٹ پروفیسر ہوکر چلےگئے ۔ الہلال میں آپ کاقیام تقریباً 7 ماہ رہااور اس مختصر مدت میں آپ نےالہلال میں گرانقدر علمی ومذہبی مضامین لکھے۔اور ان کےساتھ مولانا عبدالسلام ندوی نےبھی الہلال کی دعوت ومشن میں نمایا حصہ لیا ۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتےہیں:
'' سید صاحب جب الہلال میں پہنچے تونام کاتویہ اب بھی ہلال ہی رہا ۔ لیکن اہل بصیرت دیکھ رہے تھے کہ ہلال بدر کامل بن گیا ہے۔ خود عربی کےقدیم وجدید ماخذوں کی مدد سے مسلمانوں کےلیے دینی، تمدنی ، سیاسی اورتاریخی ہرعنوان سےمتعلق بہترین معلومات پیش کرنا، یہ کام توسید صاحب کاتھا ہی ، باقی خود ہندوستان کی سیاسیات حاضر ہ پرمقالہ لکھنے میں سید صاحب اپنے چیف ایڈیٹر سےپیچھے نہ رہے،،
مولانا سید سلیمان ندوی الہلا ل میں 6 ماہ گرارنے کےبعد دکن کالج پونا میں السنہ الشرقیہ کےاسٹنٹ پروفیسر ہوکرچلے گئے ۔ مولانا آزاد نےپوری کوشش کی کہ سید صاحب دوبارہ الہلال میں آجائیں لیکن آپ اس پرآمادہ نہ ہوسکے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نےالہلال میں یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ مضمون نگار کانام نہیں چھپتا تھا ۔ اس لیے اس میں جومضمون بھی شائع ہوتا ۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کےکھاتےمیں ڈال دیا جاتا ۔
ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی ندوی لکھتےہیں :
'' الہلال میں ناموں سےمصری مضامین کی اشاعت بعد میں بڑے فتنہ کاباعث ہوئی ۔ کیونکہ ادارہ میں شامل ہراہل قلم اپنی تحریروں میں بالخصوص ابوالکلامی رنگ میں ہم آہنگ ہو کر لکھنے کی کوشش کرتا تھا اوروہ سب الوالکلام کےسحرکار کی تراوش سمجھ کرپڑھنے جاتے تھے ۔ غالباً اس وقت یہ پالیسی صحافیانہ مصلحت کےپیش نظرتیار کی گئی ہوگی لیکن اس کے باعث سب سےبڑا علمی نقصان یہ ہواکہ علمہ ادارت کےتمام ارکان کی تحریری کاوشوں پرپروہ پڑگیا ،،
اس لیےعلامہ شبلی نعمانی نےمولانا عبدالسلام ندو ی کومشورہ دیا تھاکہ آپ الہلال میں ضرور جائیں اورالہلال میں آپ کےجومضامین شائع ہوں توآپ کانام ساتھ ضرورشائع ہوناچاہیے ۔
مولانا شبلی نعمانی اپنے خطوط میں مولانا عبدالسلام ندوی کےلکھتےہیں کہ:
'' تم الہلال میں جاؤ، مضائقہ نہیں،لیکن شرط یہ کرلوکہ تم الہلال میں جذب نہ ہوجاؤ یعنی جولکھو اپنے نا م سےلکھو، ورنہ تمہاری زندگی پربالکل پردہ پڑجائے گا اور آئندہ ترقیوں کےلیے مضرہوگا ،،
اور ایک دوسرے خط میں مولانا شبلی نےلکھا:
'' تمہارے مضامین الہلال میں دیکھتاہوں ۔ مولوی ابوالکلام صاحب اجازت دیں تونام لکھا کرو۔ ایسے مضامین گمنام ٹھیک نہیں ۔اس سےکیافائدہ کہ ایک شخص کی زندگی گم ہوجائے ،،
الہلال میں مضمون نگاروں کےنام شائع نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب الہلال کےمضامین کتابی صورت میں شائع ہونے لگے ۔ توتمام مضامین بلاتحقیق '' مضامین ابوالکلام ،، کےنام سے شائع کروائے گئے ۔ حالانکہ تمام مضامین مولاناابوالکلام کےنہ تھے۔حالانکہ ان مضامین میں کشفِ ساق، اسوہ نوحی اوراسوہ ابراہیمی ،مولانا عبداللہ عمادی کےتھے۔ الحرب فی الاسلام مولانا عبدالسلام ندوی نےلکھا تھا'' اورانسانیت موت کےدروازےپر،، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نےلکھا تھا۔مگر ان سب مضامین کومولانا ابوالکلام آزاد کےنام سے شائع کردیا گیا ۔
مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی خود لکھتے ہیں کہ:
'' الہلال میں میرا نام نہیں چھپتا تھا۔ اس لیے اس کانیتجہ یہ نکلا کہ'' عالم انسانیت ، موت کےدروازے پر،، کےجتنے مضامین نکلے ، انہیں لوگوں نےمولانا کی تصنیف قرار دےکر کتابی صورت میں شائع کردیا ،،
اسی طرح بہت سےنقوش سلیمانی مثلا مشہد اکبر (اول ) '' تذکارنزول قرآن ،، احرار اسلام ، قصص بنی اسرائیل ، وار الحریتہ فی الاسلام اورتاریخ اسلام کاایک غیرمعروف صفحہ مولانا ابوالکلام آزاد کےکھاتے ہیں ڈال دئیے گئے ۔ حالانکہ یہ مضامین سید سلیمان ندوی نےلکھےتھے۔
الہلال میں '' مشہداکبر،، کےعنوان سےایک مضمون شائع ہوا اس کےبارے میں اہل علم و قلم میں اختلاف ہےکہ یہ مضمون مولانا ابوالکلام آزاد نےلکھا تھا ۔ یا مولانا سید سلیمان ندوی نے پہلے اس مضمون کےپس منظر سےآگاہ ہوجائیے بعد میں یہ فیصلہ پڑھیے کہ مضمون کس کا ہے:
اس مضمون کےسبب تحریر کی تفصیل یہ ہےکہ :
'' کان پور کےمحلہ مچھلی بازا ر میں لبِ سڑک ایک مسجد اوراس کےقریب ہی ایک مندر تھا ۔ کان پورکی میونسپلٹی اس کےپاس سے ایک نئی سٹرک نکالنا چاہتی تھی۔اورمندر کوبچانے میں مسجد کاوضوخانہ اس سڑک کی راہ میں حائل ہوتاتھا ۔مقامی حکام نےاس کومسلمانوں کی مرضی کےخلاف منہدم کرادیا ۔ اس واقعہ سےمسلمانانِ ہند میں غم وغصہ کی عام لہردوڑ گئی ۔
گاؤں گاؤں کےمسلم گھرانوں میں بے چینی ، اضطراب پھیل گیا ۔ اگست 1913ء کوجب رمضان المبارک کی دس تاریخ تھی ۔ کان پور کےمسلمانوں نےمولانا آزادسبحانی کی سرکروگی میں اس کےخلاف ایک عظیم الشان احتجاج جلسہ منعقد کیا۔اس جلسہ نےجوش وخروش میں مزید اضافہ کرویا مسلمانوں کاایک کروہ جس میں بچے بھی تھے ، مسجد پہنچا اوروضوخانہ کی گری ہوئی اینٹیں اٹھاکر منہدم دیوار پرچننے لگا۔یہ دیکھ کرمسٹر ٹیلر ڈپٹی کمشنر کان پورنےمسجد پرمتعین بےرحمی سےفائرنگ کردی اورقریب سے برچھے مارے ۔ اس میں بہت سےمسلمانوں نےجن کی صحیح تعداد کاعلم کسی کونہیں ہوسکا ، جامِ شہادت نوش کیا ۔ شہیدوں اورزخموں مین ننھے بچے بھی شامل تھے۔،،
اس واقعے کامسلمانوں ہندپرکیا اثر ہوا؟ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی لکھتے ہیں:
'' اس خونین واقعہ نےتمام ہندوستان کےمسلمانوں میں غم وغصہ کی لہردوڑاوی ۔ آتش فشان مقرروں ، شعلہ فشاں اہل قلم اورشعلہ نفس شاعروں نےاپنی تقریروں ، تحریروں اور نظموں سےپورے ہندوستان میں آگ لگادی ،،
اس وقت مولانا سید سلیمان ندوی الہلال کےادارہ تحریر میں شامل ہوچکے تھے۔اس حادثہ فاجعہ سےسید صاحب کا دل تڑپ اٹھا اورفرطِ تاثرمیں '' مشہداکبر،، کی سرخی سےالہلال کےاوراق کو رنگیں کردیا ۔
'' مشہد اکبر،، کاطرز بیان اس قدر مختلف تھا کہ علامہ شبلی بھی اس کااندازہ نہ کرسکےکہ یہ مضمون کس کا ہے؟
'' مشہداکبر،، مضمون طویل ہے اس کےچند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
ان کےمطالعہ سےاندازہ ہوگا کہ جسد سلیمانی میں روح ابوالکلامی کس شدت کےساتھ حلول کرگئی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی فارسی کےچند اشعار اور آیات قرآنی سےمضمون کاآغاز کرتے ہیں اوراس کےبعد رقم طراز ہیں :
'' زمین پیاسی ہےا س کوخون چاہیے ، لیکن کس کامسلمانوں کا، طرابلس کاسرزمین کس کےخون سےسیراب ہوئی ؟ مسلمانوں کے، ایران پرکس کی لاشیں تڑپتی ہیں ، مسلمانوں کی سرزمین بلقان میں کس کا خون بہتا ہے۔ مسلمانوں کا۔ ہندوستان کی سرزمین بھی پیاسی ہے۔ خون چاہتی ہے، کس کا، مسلمان کا، آخر کار سرزمین کان پورپرخون برسا۔ اورہندوستان کی خاک سیراب ہوئی ۔،،
آگے چل کرلکھتےہیں :
'' مسلم ہستی تواب کہاں بسے گی کہ تیرے لیے ہندوستان بھی امن کاگھرنہیں رہا ۔جس کو توسب سےبڑی اسلامی حکومت کہتی تھی ۔ وہ بھی تیرا خون مانگتی ہے۔ لیکن دشمنی سےنہیں ،محبت سےوہ تیری محبت اوروفاداری کاامتحان لیتی ہے،،
سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی
'' ہمالیہ تودنیا کاسب سےبڑا پہاڑ ہے۔ توتندوتیز ہواکوروک لیتا ہے، تو پُر غیط وغضب بادل کوٹھکرا کرپیچھے ہٹا دیتاہے۔ کیا توہمارے سدائد ومصائب کاطوفان نہیں روک سکتا۔کیا توہمارے خوف وغم کےبادل کوپیچھے نہیں ہٹا سکتا ،،
پھر لکھتےہیں:
'' 3 ۔اگست کی صبح ، انقلاب حکومت برطانیہ کی تاریخ ہے۔ بہادر سپاہی جس وقت غریب وناتواں اورغیر مسلح نوجوانوں پرگولیاں برسارہے تھے۔انہیں کیا خبر تھی کہ یہ گولیاں ان نوجوانوں کےسینوں کوتوڑ ٹوڑ کربرطانوی عدل وانصاف کوزخمی کورہی ہیں ۔ انہیں کیامعلوم تھا کہ اس گولی کانشانہ اس ستون کوکمزور کررہا ہے، جس پرحکومت برطانیہ کی عمارت قائم ہے۔ وہ مسرور ہیں کہ ہم وفاداری کی قیمت ادا کررہےہیں ۔ نادانو! تم اس سے عداوت کر رہےہو ، جس کی محبت کااظہار کررہےہو،،
مشہدِِ اکبر کی مرقعہ کشی اس طرح کرتے ہیں :
'' وہ کیا عجیب منظر تھا ، جب کربلائے کانپورمیں کئی ہزار بےوست وپابرطانوی رعایا برہنہ سر، برہنہ پا، چشم نم ، بادل پرغم ایک سیاہ علم کےنیچے جواسلام کی مظلومی وبے کسی کانشان تھا ، کئی معصوم بچوں کےساتھ چند اینٹوں اورپتھروں کاڈھیرلگارہی تھی ۔ اوراس کےزبان پروہ دعاجاری تھی جووقتِ تعمیر کعبہ اسماعیل وابراہیم کی زبان پرجاری تھی ( ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم ) (بروردگار اپنے گھر کےلیے ہماری ان چند اینٹوں کوقبول کر، توسننےاورجاننےوالا ہے)
'' یہ پُر اثرامقدس نظارہ ختم نہیں ہوتا تھاکہ مسٹر ٹیلر(مجسٹریٹ کان پور) کی سپہ سالاری میں ایک مختصر سوار اورپیدل فوج تمام اسلحہ سےنمودار ہوئی ہے اوردس منٹ تک اپنی بندوقوں سےاڑا اڑا کرگولیوں کی ایک چادر ہوا میں پھیلا دیتی ہے۔ پردہ جب چاک ہوتاہے، میدان میں خاک وخون میں تڑپتی ہوئی لاشیں نظرآتی ہیں ۔جن میں بعض معصوم جانیں بھی ہیں جوافسوس دم توڑ چکیں ۔
اورآخر میں مقتولین مجروحین اورمعصومین کان پور سےاس طرح مخاطب ہوتےہیں کہ غم کاطوفان امڈنے لگتا ہے۔
'' مقتولین کان پور! تم پرنمازیں نہیں پڑھیں گئیں کہ تم معفور تھے۔ہم گنہگار تمہاری مغفرت کی کیادعا مانگتے ۔لیکن سناہےکہ تم کوکفن نہیں ملا گولیوں اوربندوقوں کی قطع برید کےبعد تمہارے جسم ہسپتال کی قینچیوں اور چھریوں کےکام آئیں گے۔عزوہ بنی لحیان میں شہدائے اسلام کی لاشیں فرشتوں نےاٹھالی تھیں ۔ ہم آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ اخفائے راز کےلیے اگرپولیس نےتمہاری لاشیں دریامیں پھینک دیں اورزمین میں دفن نہیں کیں تو یقینا تمہاری لاشوں کوفرشتوں نےاٹھالیا کہ رضوان الہی ان کا منتظر تھا ۔
مجروحین کا ن پور ! تم نےگولیاں کھائی ہیں ۔ نیزوں سےتمہارے سینوں میں سوراخ کیاگیا ہے۔ تمہاری آنکھوں میں سنگینیں جھونکی گئی ہیں ۔ تمہارے ایک ایک عضوکوزخموں سےچور کیاگیا ہے۔تمہیں یاد ہوگا کہ فرات کےکنارے بھی سلام کا ایک قافلہ اسی طرح تھا ۔ جس کےبعد بنی امیہ کی تاریخ کاورق الٹ گیا:
معصوم بچوں اورریاض کےنودمیدہ غنچو! تمہیں کس نے مرجھادیا ۔ سرجیمس مسٹن کےطعن نےتمہارے بےگناہ وناآشنا جرم دلوں کومضطرب کردیا ۔تم بڑھے کہ دھن زخم سے اس الزام کی تکذیب کرو، اے طائران قدس اڑجاؤکہ عرش کی سبزقندیلیں تمہاری منتظر ہیں ،،
مشہد اکبر مولانا ابوالکلام آزاد کامضمون ہےیا مولانا سیدسلیمان ندوی کا ۔ اس بارے میں مولانا سیدسلیمان کےنام مولانا شبلی نعمانی نےایک خط لکھا کہ :
'' الہ آباد حکومت نےالہلال کاپرچہ مشہد اکبر قابل ضطبی قرار دیا ہے،،
اس پرسید صاحب نےیہ توضیحی نوٹ سپرد قلم کیا ہے:
'' مشہد اکبر کی سرخی سےمکتوب الیہ ہی کا لکھا ہوا مضمون الہلال کےلیڈنگ آرٹیکل میں واقعہ کان پور کی نسبت شائع ہوا تھا ۔ تمام ملک نےاس مضمون کوپسند کیا اوراب تک اس کا نام بچہ بچہ کی زبان پرہے۔مضمون اس قدر پرجوش تھا کہ گورنمنٹ نےاس کوقابل ضبطی قرار دیا ہےاوراس جرم میں الہلال سےدوہزار کی ضمانت طلب کی ۔مولانا شبلی کویہ معلوم نہ تھا کہ وہ کس کا لکھا ہوا ہے،،
معارف اکتوبر 1947ء میں سیدصاحب نےدوبارہ اس کی وضاحت کی :
' ' الہلال میں چونکہ مضمون نگاروں کےنام نہیں لکھےجاتےتھے اس سےالہلا کےمضمون کےمجموعے شائع کرنےوالوں نےبلا تحقیق ہرمضمون کومولانا ابوالکلام کی طرف مسنوب کردیا ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔الحریۃ فی الاسلام ، تذکرہ نزول قرآن ، جبشہ کی تاریخ کا ایک ورق ، قصص بنی اسرائیل ، مشہد اکبر(اول ) وغیرہ میرے مضامین ہیں ،،
تیسری دفعہ مولانا سلیمان ندوی نےاس طرح وضاحت فرمائی ۔جو آپ نےڈاکٹر ظہیراحمدصدیقی کےنام ایک خط 25 جون 1952ء کولکھا کہ :
'' مسجد کان پور کےواقعہ کےزمانہ میں ایڈیٹر صاحب (مولانا ابولکلام ) کسی مصلحت سے مہینہ دومہینہ کےلیے مسوری تشریف لےگئے ۔ان کی غیرحاضری میں میری اورعمادی صاحب کی تحریریں شائع ہوئیں ان تحریروں می مشہد اکبر، تذکار نزول قرآن ، قصص بنی اسرائیل وغیرہ میرے مضامین ہیں ۔جہاں تک یاد آتاہے۔حریت اسلام کےسلسلہ میں ''اسلام کانظام سیاسی ،، کامضمون بھی میں نے لکھا تھا ۔ جواس سےپہلے الندوہ میں اسلام اور اشتراکیت کےعنوان سےچھپ چکا ہے۔اس کودوبارہ الہلال کےرنگ میں لکھا، ،
اس کےبعد سید صاحب لکھتےہیں :
'' مگر ناشرین نےان سب کو ابوالکلام کےنام سےشائع کردیا ہے۔اس میں ابوالکلام کا قصور خاموشی کےسواکچھ دوسرا نہیں ہے۔ظاہرہےوہ اپنی شہرت کےلیے ہمارےقلم کےمحتاج نہیں ہیں اورہم لوگ بھی ان کےمحتا ج نہیں ۔مگر واقعہ واقعہ ہے،،
مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتےہیں کہ :
'' مشہد اکبر مضمون ابوالکلام کا نہیں ان کےعربی ہمزاد کےقلم کا ہے،،
الہلا میں نقوش سلیمانی کی فہرست درج ذیل ہے :
(1) الحریۃ فی الاسلام : (6۔ اقساط ) 2، 9، 16 جولائی 1913ء اوریکم ، 8۔اکتوبر 1913ء
(2) تذکار نزول قرآن :6۔اگست 1913ء
(3) تاریخ اسلام کاایک غیرمعروف صفحہ : (4۔اقساط )17،10، 24ستمبر ،یکم اکتوبر 1913ء
(4) قصص بنی اسرائیل : (3۔اقساط ) 24ستمبر ۔15۔اکتوبر ، 12،19نومبر 1913ء
(5) عربی زبان اورعلمی اصطلاحات : (2۔اقساط ) 27۔ اگست ، 3ستمبر 1913ء
(6) افکار وحوادث : 17 ستمبر ، 8۔اکتوبر، 15۔22۔29۔اکتوبر،5نومبر1913ء
(7) علوم القرآن : ( قسط اول ) 11 فروری 1914ء
(قسط دوم 25مارچ 1914ء
(قسط سوم 8 جولائی 1914ء
(8) اساطیرالاولین : 15، 22۔اپریل 1914ء
البلاغ :
1۔ آثار اسلامیہ : ( 2۔اقساط ) 12۔26نومبر 1915ء
2۔ اسلام اور سوشلزم : 11 ۔فروری 1916ء
3۔ اصلاح معاشرت اوراسلام (2۔اقساط ) 18۔25فروری 1916ء
4۔ مدارس اسلامیہ : ( قسط اول ) 3، 10 مارچ 1916ء
( جامعہ ازہر) قسط ۔دوم ۔ 17۔24، 31مارچ 1916ء
اسی طرح مولانا سید سلیمان ندوی کےایک خط سےمعلوم ہوتتاہےکہ وہ جب تک الہلال میں رہے افکار وحوادث پرمستقل کالم وہی لکھتےرہے۔
ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ )
مولانا سلیمان کےاصل جوہرادب اس وقت چمکے جب آپ نےدارالمصنفین
اعظم گڑھ سےماہنامہ معارف جاری کیا۔ مولانا شبلی نےدارالمصنفین کاجوخاکہ تیار کیا تھا۔اس میں ایک علمی رسالہ کااجراء بھی شامل تھا ۔ لیکن انہیں اس کی مہلت نہ ملی۔نہ وہ دارالمصنفین کی بنیاد رکھ سکے اور نہ ہی کوئی رسالہ جاری کرسکے۔معارف کا نام مولانا شبلی نےتجویز کیا تھا ۔لیکن ان کی زندگی میں وحید الدین سلیم نے علی گڑھ سےمعارف کےنام سےایک علمی وادبی رسالہ جاری کیا ۔ جوساڑھے تین سال صحافت میں اپنا مقام پیدا کرکےبند ہوگیا ۔
معارف کا پہلا شمارہ جولائی 1916ء میں شائع ہوا ۔ یہ دارالمصنفین کا علمی وادبی ترجمان تھا اوراس کےاغراض ومقاصد وہی تھی جودارالمصنفین کےقیام کےتھے۔
معارف کااجراء اس وقت ہوا ۔ جب ملک کوایک بلند سرمایہ علمی و تحقیقی وادبی رسالہ کی سخت طلب تھی ۔ اس لیے اس رسالہ کواہل علم وقلم نےہاتھوں ہاتھ لیا اوراس پرنہایت عمدہ ریویو لکھے اوراس کےمضامین کواپنے کالموں میں نقل کیا:
چنانچہ سید صاحب معارف ( جنوری 1917ء)کےشذرات میں لکھتےہیں :
'' معارف کی نسبت ملک کےکثیر وقیع ومشہور اخبارات ورسائل نےبھی مادحانہ اور قدردانہ الفاظ کااظہار کیا ہے، وہ ہمارے لیے نہایت حوصلہ افزا ہے۔اکثر معاصرین اس کے مضامین کواپنے اخبارات ورسائل میں نقل کرنےکاشرف بخشتےہیں ۔ ملک کےتمام روشن خیال اورعلم دوست طبقہ بحیثیت مجموعی اس کوقوت دیتا اور عزیز رکھتا ہے۔تاہم اپنےعیوب سےہم بےخبر نہیں اس لیے اپنےبعض دوستوں کےنیک مشورے کوہم نےخوشی سےسنا اورقبول کیا۔کہتےہیں کہ علمی مضامین کی خشکی اورتلخی کوگوارا بنایا جائےلیکن اصل یہ ہےکہ طبیبون سےفرمائش ہےکہ قندورشکروکےاضافہ سے دواکی تلخی دور کی جائے ۔ہاں نفاست پسند مریض سےبھی التجا ہےکہ ان کواپنی زبانوں کی قوتِ ذائقہ کی درستی کی بھی کوشش کرنی چاہیے ،،
مولانا سیدسلیمان ندوی جولائی 1916ء سے اکتوبر 1949ء تک بلاشرکت غیرےمعارف کےمدیر مسئول رہے۔صرف 1920ء میں جب سید صاحب یورپ کےسفر پرگئے ۔تو مولانا عبدالماجد دریاآبادی 8 ماہ کےلیے اس کےایڈیٹر رہے۔جولائی 1946ء میں سید صاحب ریاست بھوپال کےقاضی القضاۃ اورامیرالجامعہ مقرر ہوئے ۔ مگر معارف کی فی الجملہ نگرانی ان کےسپرد تھی ۔اور عملی طورپر مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی معارف کومرتب کرتےتھے۔ 1947ء کاپورا سال مولانا ریاست علی ندوی اس کےایڈیٹر رہے۔ دسمبر 1949ء میں مولانا شاہ معین الدین ندوی معارف کےایڈیٹر مقرر ہوئے ۔جواپنی وفات 1974ء تک اس کومرتب کرتےرہے۔ مولانا شاہ معین الدین ندوی کےانتقال کےبعد مولانا سید صباح الدین عبدالرحمٰن اس کےایڈیٹر مقرر ہوئے جواپنے انتقال ( 1987ء ) تک اس کومرتب کرتے رہے۔ مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن کےانتقال کےبعد مولانا ضیاء الدین اصلاحی اس کےایڈیٹر مقرر ہوئے۔آج کل معارف ان کی ادارت میں شائع ہورہاہے۔
جولائی 1916ء تاحال 1998 ء معارف کےجوحضرات ایڈیٹر رہےہیں۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1) جولائی 1916ء تافروری 1920ء مولانا سید سلیمان ندوی
(2) مارچ 1920ء تا اکتوبر 1920ء مولانا عبدالماجددریاآبادی
(3) نومبر 1920ء تا دسمبر 1943ء مولانا سید سلیمان ندوی
(4) جنوری 1947ء تا دسمبر 1947ء مولانا ریاست علی ندوی
(5) جنوری 1948ء تا نومبر 1949ء مولانا سید سلیمان ندوی
(6) دسمبر 1949ء تادسمبر 1974ء مولانا شاہ معین الدین احمدندوی
(7) جنوری 1975تانومبر 1987ء مولانا سیدصباح الدین عبدالرحمن
(8) دسمبر 1987ء تا حال 1998ء مولانا ضیاء الدین اصلاحی
معارف کی مجلس ادارت میں مختلف وقتوں میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی ،مولانا مناظراحسن گیلانی ، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ، مولانا عبدالسلام ندوی ، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ، مولانا محمد ادریس نگرامی ، مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی ، ڈاکٹر نذیر احمد، سیدصباح الدین عبدالرحمن اورمولانا ضیاء الدین اصلاحی کےنام ملتےہیں ۔
آج کل مولانا ابوالحسن علی ندوی ، ڈاکٹر نذیر احمد اورپروفیسر خلیق احمد نظامی معارف کی مجلس ادارت میں شامل ہیں ۔
معارف کویہ امتیازی حیثیت حاصل ہےکہ اس نےمذہبی ، دینی ، تحقیقی ، تاریخی ، ادبی اور تنقید ی مضامین لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی جمعیت تیارکردی ۔ جنہوں نےمعارف میں بےشمار مقالات لکھ کربرصغیر کےممتاز اہل علم وقلم سےخراج تحسین حاصل کیا ۔ مثال کےطور پرمولانا عبدالماجد دریا آبادی ، مناظر احسن گیلانی ، ظفراحمدعثمانی ، عبدالباری ندوی ، میرولی الدین ، ظفر حسین خاں ، مہدی آفادی، عبدالسلام ندوی، عبدالرحمن نگرانی ، شاہ معین الدین احمد ندوی ، ریاست علی ندوی، ابوالجلال ندوی ، سعید انصاری ، نجیب اشرف ندوی، ابوالحسنات ندوی، محمداویس نگرانی، مجیب اللہ ندوی ، سید صباح الدین عبدالرحمن ، ڈاکٹر نذیراحمد، مولانا محمدیوسف سورتی ،مولانا ابوالحسن علی ندوی ، ابویحییٰ امام خان نوشہروی، ڈاکٹر عنایب اللہ ، حیدر زمان صدیقی ، مسعود عالم ندوی ، رشید احمد صدیقی اور مالک رام کےنام خصوصیت کےساتھ قابل ذکر ہیں ۔
معارف نےصوربیداری پھونکا اورلکھنے پڑھنے والون ایک ٹھوس حلقہ پیداکیا۔جوروزبروز پڑھتا ہی گیا۔اس کےاثر سےنئے اورپرانے طبقے متاثر ہوئے۔پرانے طبقہ کواس نےمذہب اسلام اوراسلامی علوم وفنون کی خدمت کےلیے وسائل اورعلمی مسائل کی تحقیقی وتنقید وانشاء وتحریر کےنئے طریقوں سےآشناکیا۔اورجدید طبقہ جواپنی ماضی کی عظمت سےناواقف تھا، اس کوتاریخ اور علوم وفنون کی طرف متوجہ کیا ۔ بقول مولانا شاہ معین الدین احند ندوی :
'' معارف نےسینکڑوں علوم موضوعات پرمسائل اور اسلامیات کی مختلف شاخوں پر مضامین کااتنا بڑا ذخیرہ جمع کردیا ہےجس سےعلوم اسلام کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کی جاسکتی ہے،،
برصغیرکےاہل علم وقلم نےمعارف کی اس قدرافزائی کی ہے:
مولانا عبدالمجید سالک اپنے ایک مضمون میں لکھتےہیں :
'' 1916ء میں دارالمصنفین کامشہور ومعروف علمی پرچہ معارف جاری ہوا۔جوبلاشبہ بلا مبالغہ دنیائے اسلام کابہترین علمی وتحقیقی رسالہ ہےاورجس نےہمارےتاریخ وتحقیق کےذخیرہ کومالامال کیا ،،
معارف جس دور میں نکلا ، اپنے رنگ میں اردو کا تنہا علمی رسالہ تھا ۔نہ صرف اردو بلکہ ہندوستان کی تمام زبانوں کےمنتخب اورچوٹی کےرسالوں میں اس کےشمار ہوتاتھا۔اس کےبعد معارف کی تقلیدی میں جورسالے نکلے ۔ان میں کوئی علمی حیثیت سےاس کےرتبہ کونہ پہنچ سکا ۔
سید صاحب معارف جون 27ء کےشذرات میں لکھتےہیں :
'' گوبعد میں اردو رسائل کی دنیا میں بڑے انقلاب اورتغیرات پیداہوگئے۔لیکن معارف جس وقت نکلا تھا ۔ توزمانہ (کان پور) الناظر(لکھنؤ)نقاد (آگرہ ) اورمخزن (لاہور) کےسوا کوئی قابل ذکر رسالہ موجودنہ تھا ۔اوران میں الناظر کےسوابقیہ تمام رسائل نہ ردآمد تھی۔معارف اس غیرمطلوبہ سامان کولے کرجب بازار میں آیا توخلافِ توقع ردانوں نے اس کےپسند کیا ۔ اورہاتھوں لیا ،،
معارف میں سیدصاحب کےمقالات:
مولانا سید سلیمان ندوی نےمعارف میں دینی، مذہبی، علمی ، تاریخی، تحقیقی، ادبی اورتنقیدی مقالات لکھے۔ اگران تمام مقالات کی مکمل فہرست شائع کردی جائے توایک کتاب بن سکتا ہے۔
دارالمصنفین نےسید صاحب کےمقالات کی تین جلدیں شائع کی ہیں ۔ان میں کچھ ایسے مقالات بھی شامل ہیں جوالندوہ لکھنؤ میں شائع ہوئے اوربقیہ تمام مقالات معارف میں شائع ہوئے۔ان مقالات کی تفصیل درج ذیل ہے:
جلد اول: اس جلد میں تاریخ مقالات ہیں اور 1966ء میں شائع ہوسکی ۔
1۔ ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کےعہد ہندوؤں تعلیمی اورعلمی ترقی (جنوری تا دسمبر 1918ء )
2۔ سلطان ٹیپو کی چند باتیں (فروری 1918ء )
3۔ خلافت راشدہ اورہندوستان ( دسمبر 1920ء، اکتوبر 1921ء )
4۔ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیونکرہوئی ؟ (جنوری ، مئی ، اگست 1924ء)
5۔ بدنصیب کشمیر اورعدل شاہ جہانی کانقش سنگی (اکتوبر 1924ء )
6۔ ہندوکش عالمگیرکےعہد کی دوعجیب کتابیں (جون 1929ء )
7۔ لاہور کا ایک فلکی آلات ساز (اگست 1933ء ، ستمبر 1937ء )
8۔نالندہ کی سیر(فروری 1935ء )
9۔ تاج محل اور لال قلعہ کےمعمار ( فروری ، مارچ ، اپریل 1936ء )
10۔ استاد احمد معمار کےخاندان کےایک اوریارگار (مئی 1937ء )
11۔ ملاخیر اللہ مہندس کےچندنئے رسائل (ستمبر 1950ء )
12۔ قنوج ( مارچ 1944 ء )
13۔ سندِ معانی جزیہ (اکتوبر 1937ء )
14۔ خطبہ صدارت ، شعبہ تاریخ ہند اَزمِنہ وُسطی آل انڈیا ہسٹری کانفرنس مدراس منعقدہ دسمبر 1944ء (اپریل 1945ء )
15۔ ہندی الاصل اورہندی النسل مسلمان سلاطین (اپریل 1951ء )
جلد دو م : اس جلد میں علمی وتحقیقی مقالات ہیں ۔یہ جلد 1967ء شائع ہوئی ۔
(1) ہندوستان میں علم حدیث (اکتوبر ، نومبر ، دسمبر 1928ء )
(2) ہندوستان میں علم حدیث کی تاریخ کےگم شدہ اوراق (اکتوبر 1929ء)
(3) ہندوستان میں کتب حدیث کی نایابی کےبعض واقعات (فروری 1929ء)
(4) رباعی (اپریل 1932ء )
(5) محمدبن عمرالواقدی اورسیرتِ علمائے مستشرقین کی ایک نئی غلطی (جنوری 1926ء )
(6) پھرواقدی (امام زہری پرالزام (جنوری 1927 ء)
(7) سنت (اگست 1929ء )
(8) پھر بحث سنت (کچھ اختراعات اورالرمات ) جنوری 1930ء )
(9) عرب وامریکہ (مارچ ، اپریل 1939ء )
(10) اسلامی ہندوستان کاعہد آخراورعلوم جدیدہ (فروری1917ء)
(11)رومن کیتھولک کی تاریخ کی چندمن گھڑت کہانیاں (اگست 1945ء)
(12) مرزا بیدل کی عظیم آبادی نہ تھے(اگست 1946ء )
(13) حکیم سنائی کےسنینِ عمر ( مارچ 1933ء )
(14) حجاز کےکتب خانے (اکتوبر تا دسمبر 1926ء )
(15) سفر گجرات کی چند یادگاریاں (ستمبر 1936ء )
(16) انڈیا آفس لائبریری میں اردو کاخزانہ (جون 1920ء)
(17) کتب خانہ حمیدیہ بھوپال (دسمبر 1936ء )
جلد سوم : اس جلد میں مذہبی مضامین شامل کیے گئے ہیں اور یہ جلد 1917ء میں شائع ہوئی ۔
(1) علوم القرآن (اپریل 1926ء )
(2) ارض حرم اوراس کےاحکام ومصالح (نومبر 1933ء،دسمبر1923ء،)
(3) پیغام امن ( یعنی حجیب الہی اورمذہب اسلام) (جولائی 1923ء )
(4) قرآن مجید پرتاریخی اعتراضات (اگست ، ستمبر 1916ء )
(5) تذکارِ نزول قرآن (جولائی 1916ء )
(6) ایام صیام زیر نظرثانی (جنوری 1932ء )
(7) لفظ صلوۃ قرآن شریف میں (اکتوبر 1927ء )
(8) خلیل اللہ کی بشریت (اپریل ، مئی 1937ء )
(9) ذبح عظیم (مارچ 1937ء )
(10) قربانی کا اقتصادی پہلو (مارچ 1937ء )
(11) حاکم حقیقی صرف اللہ تعالی ہے(نومبر 1936ء )
(12) آیت استخلاف (اکتوبر 1920ء )
(13) قرآن مجید کاتاریخی اعجاز (فروری 1939ء )
(14) اسلام ( ستمبر 1941ء )
(15) جبروقدر (ستمبر 1945ء )
ان کےعلاوہ بھی سید صاحب نےکئی اورعلمی مقالات لکھے ۔مثلا
دنیائے اسلام میں مذہبی انقلاب (نومبر 1922ء )
ہندوؤں کاایک عجیب فرقہ (جولائی 1932ء )
مسلمانان ہند کی مذہبی تعلیم ( مار چ 1955ء )
عربون کی بحری تصنیفات (مارچ 1935ء )
خلاصہ کلام یہ کہ معارف کاآغاز جولائی 1916ء (رمضان المبارک ) کےمہینہ میں ہوا۔اور مولانا سید سلیمان ندوی نےاس رسالہ کےذریعہ دین مذہب ، علم وفن ، ملک اورملت اوراردو زبان یک قابل قدر خدمات انجام دیں ۔ اس کی مثال کم از کم ہندوستان میں نہں مل سکتی ۔ اور عبدالماجد دریا آبادی کی اس رائے سےکسی کواختلاف کی گنجائش نہیں کہ :
'' آئندہ مؤرخ کا قلم جب ہندوستان کی علمی ودینی صحافت کی تاریخ لکھے گا۔تواسے معارف کوچاروناچارایک بلند وممتاز مرتبہ اورایک سنگِ میل کاامیتاز دینا ہوگا ۔ اوربتانا ہوگا کہ اس شمعِ نےملت کےکتنے اندھیرے گھروں میں اجالا پھیلایا اور پھر اس ایک چراغ سے کتنے اورچراغ جلائے گئے۔،،
سید سلیمان ندوی کی علمی خدمات :
مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی سید صاحب کی دینی وعلمی خدمات پرلکھتےہیں کہ:
'' مولانا سیدسلیمان ندوی جیسی جامع کمالات شخصیتیں کہیں صدیون میں پیدا ہوتی ہیں ۔وہ اپنے آئینہ کمالات میں ائمہ سلف کی یادگار تھے۔جملہ اسلامی علوم پران کی فکر نہایت گہری اوروسیع تھی ۔ اوربعض علوم میں امامت واجتہاد کادرجہ حاصل تھا۔اور ان میں اپنی علمی بصیرت اورتلاش وتحقیق کی ایسی یاد گاریں چھوڑیں ۔جومدتوں علمی دنیا کی رہنمائی کاکام دیتی رہیں گی ۔،،
ذیل میں آپ کی تصنیفات کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
دروس الادب :
1908ء میں ندوۃ العلماء میں علم کلام اورجدید عربی کےاستاذ مقرر ہوئے تواس دور میں دروس الادب کےنام دوعربی ریڈریں لکھیں ۔
لغات جدیدہ :
1910ء میں ندوہ کےسالانہ اجلاس دہلی میں طے ہواکہ عربی کےجدیدالفاظ کےایک لغت مرتب کی جائے۔اوریہ کلام سید صاحب کےسپرد ہوا۔چنانچہ آپ نے3سال لغاتِ جدیدہ کےنام لغت مرتب کی اور1912ء کےندوہ کےاجلاس لکھنؤ میں مرتب کرکے پیش کی اور 1912ء میں یہ کتاب شائع ہوئی ۔
تاریخِ ارضُ القرآن :
1917ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہوئی اور 1918 ء میں دوسری جلد شائع ہوئی۔جلد اول میں قدیم عرب کےجغرافیہ ، اقوام ِ عرب کی پرانی ، مذہبی اورتمدنی پرمحققانہ بحث کی گئی ہے۔ اورقرآن ِ مجید کےبیانات سےاس کی مطابقت دکھائی گئی ہے۔اور دوسری جلد میں اقوام عرب کےلسانی ، مذہبی ، تجارتی اورتمدنی حالات پربحث کی ہے۔
سیرۃالنبی ( جلد اول )
1918ء میں شائع ہوئی ۔ یہ علامہ شبلی کی تصیف ہے۔ سید صاحب نے اس کومرتب کیا۔
سیرۃ النبی (جلد دوم )
1910ء میں شائع ہوئی ۔ یہ جلد بھی علامہ شبلی نے لکھی تھی لیکن نامکمل ۔اس کےمسودہ میں بعض جگہ بیاض چھوڑیں ہوئی تھیں ،سید صاحب نےاس کومکمل کیا۔
پہلی جلد نبوت کےپُر آشوب عہد عزوات پرمشتمل ہے۔
دوسری جلد نبوت کےدس سالہ اَمن کی زندگی کی تاریخ ہے۔
سیرتِ عائشہ ؓ :
یہ کتاب 1924ء میں شائع ہوئی ۔یہ کتاب حضرت عائشہ ؓ کی مکمل سوانح حیات اوران کےعلمی ودینی کارناموں پر مشتمل ہے۔علامہ اقبال نےاس کتاب کی بہت تعریف کی ہےاور سید صاحب کےنام ایک خط میں لکھتےہیں :
''سیرت عائشہؓ کےلیے سراپا سپاس ہوں ، یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی
ہے ۔اس کتاب کےپڑھنے سےمیرے علم میں بہت مقصد اضافہ ہوا۔
خدائے تعالیٰ جزائے خیردے ،،
سیرۃ النبی (جلد سوم )
1924ء میں شائع ہوئی ۔ اس میں معجزہ کی حقیقت اس کےامکان ووقوع پرفلسفہ قدیمہ، علم کلام اورفلسفہ جدیدہ اورقرآن مجید کےنقظہ ہائے نظر سےمبسوط تبصرہ ہےاوراس کےبعد مکالمہ الیٰ ،ولی ، نزول ملائکہ ، عالم رؤیا ، معراج اور شرحِ صدر کابیان ہے۔
خطباتِ مدراس :
سیرۃ نبوی پر8 خطبات کامجموعہ ،یہ خطبات اپنے مضامین کےاعتبار سےبہت عمدہ ہیں۔اور اکابر اہل علم نےان خطبات کی تعریف وتوصیف کی ۔خطبات مدراس کتابی شکل میں 1925ء میں شائع ہوئی ۔
عرب وہند کےتعلقات :
مارچ 1929ء ہندوستانی اکیڈیمی الہ آباد کےزیراہتمام 5 خطبات ارشاد فرمائے۔سیدصاحب کےبہ خطبات تلاش وتحقیق،محنت وکاوش اورحجت واستدلال کےاعتبار سےبے مثل سمجھے جاتےہیں ۔
یہ خطبات 1930ء میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔
عربوں کی جہاز رانی :
مارچ 1931ء میں سید صاحب نےحکومت بمبئی کےشعبہ تعلیم کی دعوت پرچارلیکچرارشاد فرمائے۔ان خطبات میں زمانہ جاہلیت اوراسلام میں عربوں کی جہاز رانی ، عربوں کی دنیا کےسمندروں سےواقفیت اوران کےبعض بحری انکشافات،عربوں کےسامان وآلات ِ جہاز رانی اوران کےبحر محیط کوعبور کرنے کی کوشش وغیرہ سےمبسوط بحث کی گئی ہے۔ یہ کتاب 1935ء میں دارالمصنفین سےشائع ہوئی ۔
سیرۃ النبی (جلد چہارم )
1934ء میں شائع ہوئی ۔ اس کاموضوع منصبِ نبوت ہےاوراس میں یہ دکھیا گیاہےکہ نبوت محمد نےدنیا میں کیسا عظیم الشان اصلاح کافرض انجام دیا ۔
خیام :
دسمبر 1920ء میں نیٹل کانفرنس پٹنہ میں '' خیام ،، کےعنوان سےایک سنگین مقالہ پڑھا۔ اہل علم وتحقیق نےاس کوبہت پسند فرمایا ۔سید صاحب نےاس کتاب کی ترتیب میں سنین کی تطبیق وتحقیق واقعات کی تلاش وتفتیش ،ماخذوں اورسندوں کےحوالہ سےاورخیام کےفلسفیانہ تصانیف کی جستجو میں محنت اورکاوش کی ہے۔یہ ان کاعلمی کارنامہ ہے۔علامہ اقبال کےپاس جب یہ کتاب پہنچی توانہوں نےسید صاحب کولکھا ہے:
'' عمر خیام پرآپ نےجوکچھ لکھدیا ہےاس پرکوئی مشرقی یامغربی عالم اضافہ نہ کرسکےگا،،
یہ کتا ب اکتوبر 1933ء میں شائع ہوئی ۔
سیرِ افغانستان :
1933ء میں سید صاحب ، علامہ اقبال اور سرراس مسعود نےنادر شاہ ، افغانستان کی دعوت پر افغانستان کاتعلیمی سفرکیا۔ پہلےاس کی روئداد معارف میں شائع ہوئی ،بعد میں اس کوکتاب صورت میں شائع کیا ۔یہ کتاب 1914ء میں شائع ہوئی ۔
سیرۃ النبی (جلد پنجم )
19135ء میں شائع ہوئی ۔ اس کاموضوع عبادات ہے۔
سیرۃ النبی (جلد ششم )
1939ء میں شائع ہوئی ۔اس کاموضوع اخلاقی تعلیمات ہے۔
نقوشِ سلیمانی:
یہ کتاب سید صاحب کےخطبات ، مقالات اورمقدمات پرمشتمل ہے۔اس کےپہلے حصہ میں 9 خطبات ہیں ، دوسرے حصہ میں 14 مقالات ہیں اورتیسرے حصہ میں 9مقدمات ہیں ۔
سید صاحب کی یہ کتاب پچھلی چوتھائی صدی کی ادبی تحریکوں کاایک مرقع ہے۔کتاب کیا ہے،سید صاحب کےکمالات وادبی تنقیدوں کی ا یک مہردستایز ہے۔
نقوش سلیمانی اردو زبان کی پوری تاریخ اورگزشتہ چوتھائی صدی میں اردوسےمتعلق جومسائل پیش آئے ان کی پوری سرگزشت ہے۔
نقوش سلیمان 1929ء کےاواخر میں شائع ہوئی ۔
رحمت عالم ﷺ :
1940 ء میں بچوں کےلیے آسان زبان میں سیرۃ ِ نبوی پرمختصر کتاب لکھی ۔یہ کتاب بہت مقبول ہےاورعربی مدارس میں نصاب میں شامل ہے۔1940ء میں شائع ہوئی ۔
حیاتِ شبلی :
اردو زبان میں سوانح عمریوں کی کمی نہیں لیکن ان میں چند ایسی ہیں جن پرسوانح عمریوں کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ ان میں شبلی کی الفاروق ، المامون ، الغزالی ، سوانح مولانا روم ، مولانا الطاف حسین حالی کی یاد گارِ غالت،حیاتِ سعدی اورحیاتِ جاوید ، مولانا عبدالرزاق کان پوری کی البراکلہ ،محمد امین زبیرکی حیاتِ محسن ، مولوی اکرام اللہ ندوی کی وقار ِ حیات ، قاضی عبدالغفار کی حیاتِ اجمل ، مولانا عبدالسلام مبارکپوری کی سیرۃ البخاری شامل ہیں ۔
مولانا سید سلیمان ندوی نےاپنےاستاد علامہ شبلی کی سوانح عمری 1940ء میں لکھنا شروع کی اور فروری 1942ء میں مکمل شائع کرائی ۔یہ کتاب صرف علامہ شبلی کی سوانح عمری نہیں بلکہ مسلمانان ہند کے50 برس کےعلمی ،ادبی ،سیاسی ،تعلیمی ، مذہبی اورقومی واقعات کی تاریخ بھی ہے۔
'' مولانا حالی نےجب حیاتِ جاوید ( سرسید احمد خان کی سوانح حیات) لکھی اورشائع ہوئی تواہل علم وقلم نےلکھا کہ حالی نےاپنے سرپراولیت کاتاج پہن لیا ہے،،
لیکن جب سید صاحب کی حیاتِ شبلی شائع ہوئی توپروفیسر عبدالقیوم نےلکھا کہ:
'' سید سلیمان ندوی نےحیات شبلی لکھ کر حالی کےسرسےاولیت کاتاج چھین لیا ۔،،
حیات شبلی کےبعد بھی کئی سوانح عمریاں شائع ہوئی ہیں ۔مثلا مولانا عبدالمجید خادم کےسیرت ثنائی ، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی حیات عبدالحئی ، مولانا غلام رسول مہرکی ابوالکلام آزاد اورعلامہ اقبال ، ، عبدالمجید سالک کی سرگزشت ِ اقبال ،وغیرہ۔
مکتوبات سلیمانی :
مولانا سید سلیمان ندوی کےخط ومکاتیب کےکئی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
بریدِ فرنگ : 1920ء میں سید صاحب یورپ کےسفر پرگئے ۔اور وہاں ان کاقیام 8 ماہ رہا۔اس دوران جوخطوط آپ نےہندوستان میں مشاہیر کےنام لکھے۔ان کو1952ء میں مکتبہ الشرق کراچی نےشائع کیا ۔دوسری دفعہ مجلس نشریات اسلام کراچی نےشائع کئے ۔
مکاتیبِ سلیمان : یہ مجموعہ خطوط جن کی تعداد 145 ہے۔ مولانا مسعود عالم ندوی کےنام۔اور 1954ء میں مکتبہ چراغِ راہ کراچی نےشائع کئے ۔
مکتوبات سلیمانی : یہ دو جلدوں میں ہیں اورخطوط کی تعداد 400 ہے۔یہ تمام خطوط مولانا عبدالماجد دریاآبادی کےنام لکھے کئے ۔ اس کی پہلی جلد 1963ء میں اور دوسری جلد1967ء میں شائع ہوئی ۔
خواتین اسلام کی بہادری :
سید صاحب نےدومضمون الندوہ لکھنؤ فروری 1908ء اورجنوری 1909ء میں لکھے۔بعد میں ان دونوں مضامین کوکتابی صورت میں شائع کیاگیا ۔
اہل السنہ والجماعۃ : سید صاحب کایہ مضمون معارف مئی وجون 1917ء میں شائع ہوابعدمیں یہ مضمون کتابی صورت میں شائع ہوا ۔
سیرۃالنبی (جلد ہفتم )
اس کاموضوع معاملات ہے۔ سید صاحب کےانتقال کےبعد دارالمصنفین (اعظم گڑھ)سےشائع ہوئی ۔
یادِرفنگان :
مولانا سید سلیمان ندوی نےمعارف میں '' وفیات ،، کاایک عنوان قائم کیا۔ اوراس کےتحت آپ کی زندگی میں جن نامور علمی ، ادبی ، سیاسی شخصیات وغیرہ نےانتقال کیا۔ان پر اپنے تاثرات قلمبند کئے ۔سید صاحب لکھتےہیں :
'' اسلامی تاریخ کاایک اہم کارنامہ وفیات یعنی ہزاروں لاکھوں بزرگوں ،فاضلوں ،ادیبوں اورممتاز لوگوں کی وفات کی تاریخ کا تعین ہے۔ تاریخ کی اس صنف پربہت سی کتابیں مدون ہوئی ۔کیا عجب ہےکہ شذرات کایہ حصہ ایک دن اس عہد کےوفیات کےاوراق بن جائین ۔،،
مولانا عبدالماجد دریاآبادی لکھتےہیں :
'' سید صاحب کا وہ معاصر خوش قسمت ہےجوان کےسامنے وفات پائے۔اوران کی ماتم گساری کی دولت اس کےحصے میں آئی ،،
یادرفتگان میں 1914ء تا 1953ءتک کی علمی ، ادبی ، سیاسی ، وغیرہ شخصیات کاماتم کیاہے۔ چند مشہور شخصیات یہ ہیں ----------- مولانا شبلی نعمانی ،وقار الملک،قاضی احمد سلیمان ، مولانا محمدعلی ، سید انوشاہ کشمیری ، علامہ رشید رضامصری،ڈاکٹر انصاری ، سرراس مسعود ، علامہ اقبال ،مولانا شوکت علی ، مولانا محمد سواتی ، عبدالقادر قصوری ، اشرف علی تھانوی ، نواب بہادر یارجنگ ، خوشی محمدناظر،حکیم حبیب الرحمن ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، قائد اعظم ، مولانا شبیراحمدعثمانی ، سرعبدالقادر، حبیب الرحمٰن شیروانی ،حسرت موہانی اورکفایت اللہ دہلوی وغیرہ شامل ہیں ۔
یہ کتاب پہلی بارمکتبہ الشرق کراچی سےشائع ہوئی اس کےبعد اعظم گڑھ اورکراچی سےبھی شائع ہوچکی ہے۔
حواشی وحوالہ جات :
(1) شاہ معین الدین احمد ندوی ، حیات سلیمان ، ص 289
(2) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات،ص90
(3) ابوعلی اثری ، سید سلیمان ندوی ، ص 113
(4) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی، حیات وادبی خدمات،ص90
(5) ابو علی اثری ، سید سلیمان ندوی ، ص 115
(6) شاہ معین الدین احمد ندوی ، حضرت الاستاد کی دینی وعلمی خدمات ، معارف سلیما نمبر ص 205
(7) سید صباح الدین عبدالرحمن ، (سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر85
(8) سید سلیمان ندوی ،مقالات سلیمان ،ج 1 ص 293
(9) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات،ص127
(10)مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی صوبہ بہار کےضلع سورج گنج کےقصبہ منکیر میں پیدا ہوئے ۔ دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی نواسہ حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی میں استفادہ کیا اورمولانا محمداسحاق کےمکہ معظمہ ہجرت کرنے کےبعد دہلی کےمسند حدیث پرفائز ہوئے۔اور60سال تک دہلی میں تفسیر وحدیث کادرس دیا۔اوراس 60سالہ دور میں کتنے لوگ آپ سےمستفیض ہوئے اس کاشمار نہیں کیا جاسکتا اورآپ کےتلامذہ میں کثیرتعداد ان اصحاب کی ہےجوخود بعد میں مسندِ تدریس پرفائز ہوئے اورانہوں نےدرس وتدریس اورتصنیف وتالیف میں جو قابل قدر خدمات سرانجام دیں : ان کاتذکرہ ان شاءہ العزیز تاقیامت رہےگا۔ تدریس میں مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی ، مولانا حافظ محمدبن بارک اللہ لکھوی عارف باللہ ، مولانا عبداللہ عزنوی وابناہ ، مولانا عبدالجبار غزنوی ،مولان عبدالواحد غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، مولانا عبدالوھاب دہلوی ، مولانا ابوسعید شرف الدین دہلوی وغیرہ ------------ اورتصنیف وتالیف میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی ، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ، مولانا احمد حسن دہلوی، مولانا محمد ابراہیم آروی ، مولانا محمد سعید بنارسی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری اورمولانا محمدابراہیم سیالکوٹی وغیرہ قابل ذکرہیں ۔مولانا محمد نذیر حسین دہلوی نے 1320ھ اکتوبر1902ءکودہلی میں انتقال کیا ۔
(11) مولاناشمس الحق عظیم آبادی ، جولائی 1957ء میں عظیم آبادپٹنہ میں پیدا ہوئے۔شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی (م 1320ھ ) اورعلامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی (م 1320ھ ) کےارشد تلامذہ میں سےتھے ۔ آپ سےبڑا علمی کارنامہ خدمت حدیث ہے۔سنن ابوداؤد کی 2 شرحیں بنام غایۃ المقصود (عربی 32جلد اورعون المعبود (عربی (4 جلد لکھیں ۔ان کےعلاوہ سنن دارقطنی کی تعلیق بنام التعلیق لکھی ۔ان کےعلاوہ اوربھی کئی کتابیں عربی وفارسی اوراردو میں لکھیں ۔جوان کےعلمی تبحرکاشاہکار ہیں ۔ مولاناشمس الحق نےمارچ 1911ء ؍ 1329ھ میں انتقال کیا۔
(12) سید سلیمان ندوی ، معارف ، جولائی 1930 ء، یادرفتگان ، ص 106
(13) سید سلیمان ندوی، معارف ، جولائی 1935ء ھ، یادرفتگان، ص 154
(14) سید سلیمان ندوی، معارف ،جون 1939ء یادرفتگان ، ص 154
(15) ۔ مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پور ی مشاہیر علمائے حدیث میں سے تھے۔شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کےشاگرد تھے ۔ان کی ساری عمردرس وتدریس میں بسر ہوئی ۔ان کاحلقہ تلمذ بھی بہت وسیع تھا ۔ اتباعِ سنت ، تقویٰ وطہارت اورزہد وورع ، تبحر علم، وسعتِ نظر اورکتاب وسنت کی تفسیر وتعبیر میں یگانہ عہد تھے ۔ ان کےتلامذہ میں ممتاز علمائے حدیث کےنام لکھےہیں ۔
مولانا محمد سعید بنارسی ،مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ،مولانا عبدالسلام مبارکپوری ،مولانا محمدداؤد غزنوی ، مولانامحمد اکبرشیث جون پوری اورمولانا محمد اسماعیل السلفی وغیرہ شامل ہیں ۔مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری نے21صفر 1327ھ ؍ نومبر 1918ء لکھنؤ میں وفات پائی ۔
(16)۔ سید صباح الدین عبدالرحمن (سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص2
ابوعلی اثری ، سید سلیمان ندوی ، ص 211
(17)۔ سید صباح الدین عبدالرحمٰن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص3
(18) ۔ مولاناشبلی جیراج پوری کاتعلق ضلع اعظم گڑھ کےقصبہ جیراج پورسے تھا۔آپ نےعلوم اسلامیہ کی تعلیم مدرسہ عالیہ رام پورسے حاصل کیا۔ان دنوں حفیظ اللہ اعظمی مدرسہ عالیہ کےمدرس اعلیٰ تھے ۔ مولانا شبلی نےمولانا حفیظ اللہ کےعلاوہ دیگر اساتذہ سےبھی استفادہ کیا ۔ فراغت تعلیم کےبعد مدرسہ '' چشمہ رحمت،، غازی پورمیں کئی سال تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کےبعد علامہ شبلی نعمانی نےان کودارالعلوم ندوۃ العلما ء لکھنؤ بلالیا ۔ اور ندوہ میں آپ نےعرصہ دراز تک درس وتدریس کےفرائض سرانجا م دیئے ۔ مولانا شبلی جیراج پوری علوم اسلامیہ میں کامل ودستگاہ رکھتے تھے ۔
بالخصوص حدیث وفقہ اوراصول فقہ میں ان کومہارتِ تامہ حاصل تھی ۔زندہ میں افتاء کاکام بھی انہی کےسپرد تھا۔آپ نہایت متواضع ، منکرالمزاج اورغریب پرور تھے۔ندوہ سےجوتنخوا ہ ملتی ۔غرباء ، نادار طلبا پر صرف کردیتے اورخود عسرت کی زندگی بسرکرتے۔26 رمضان المبارک 1364ھ میں انتقال کیا۔(تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ، ص 106 )
(19)۔ مولاناحفیظ اللہ ،نومبر 1947ء؍ 1964ء ضلع اعظم گڑھ کےقصبہ ہند میں پیدا ہوئے ان کی ابتدائی تعلیم اپنے قصبہ میں ہوئی ۔بعد میں مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م 1337ھ ) مولانا سلامت اللہ جیراج پوری 1322ھ اور مولانا ابوالحسنات عبدالحی فرنگی محلی ،(م 1304ھ ) سےعلوم متداولہ میں استفادہ کیا۔ حدیث کی تعلیم شیخ الکل مولانا سید محمد نذیرحسین دہلوی (م 1320ھ ) سےحاصل کی۔
فراغت تعلیم کےبعد کچھ عرصہ کاکوری کےایک مدرسہ میں تدریسی فرمائی۔اس کےبعد آپ کے استاد مولانا عبدالحی نےانہیں لکھنؤطلب کیاتو لکھنؤ تشریف لےگئے۔اورلکھنؤ میں درس وتدریس کاسلسلہ شروع کیا اور2 سال تک لکھنؤ میں تدریس فرمانےکےبعد مدرسہ عالیہ رام کےپرنسپل ہوکر رام پورچلے گئے۔ اور9سال تک مدرسہ عالیہ میں علوم دینیہ کی تعلیم دیتے رہے۔ 1316ھ؍ 1898ءمیں ندوۃ العلماء لکھنؤ کےمدرس اعلی بنا دئیے گئے اور 11 سال تک ندوہ میں درس وتدریس فرمائی ۔ 1909ء میں حکومت برطانیہ نےآپ کومدرسہ تحسینیہ ڈھاکہ میں مدرس مقرر کردیا اور4 سال تک اس مدرسہ میں پڑھاتےرہےاسی زمانہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی قائم ہوئی ۔تو مولانا حفیظ اللہ کویونیورسٹی میں پروفیسر مقرر کردیا گیااور 1921ء تک ڈھاکہ یونیورسٹی قائم ہوئی ۔تومولانا حفیظ اللہ کویونیورسٹی میں پروفیسری مقرر کردیا گیا اور1921ءتک ڈھاکہ یونیورسٹی میں تدریس فرمائی ۔اور 1921 ء میں آپ حج بیت اللہ کےلیے تشریف لےگئے ۔حج سےواپسی کےبعد اراکین ندوہ نےدوبارہ ندوہ آنے پراصرا ر کیا ۔تو مولانا حفیظ اللہ نےیونیورسٹی سےاستعفیٰ دے دیا اوردارالسلام ندوۃ العلماء میں تشریف لےآئے ۔
مولانا حفیظ ا للہ نے 45سال تک درس وتدریس کاسلسلہ جاری رکھا ۔ان کےتلامذہ کی فہرست طویل ہے۔البتہ مشاہیر تلامذہ میں مولانا عبدالسلام ندوی ، مولانا شبلی جیراج پوری ، مولانا مسعود علی ندوی ، اورسید سلیمان ندوی شامل ہیں ۔ذی الحجہ 1362ءکوانتقال کیا۔ (نزہۃ الخواطر، ج 8ص 123، تراجم علمائے حدیث ص 395،یادرفتگان ص 272 )
(20) ۔ مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی مشاہیر علماء میں تھے ۔ تمام مسائل علمیہ میں مجہتدانہ شان رکھتے تھے ۔ اور جب کوئی کتاب پڑھاتے، تومصنف کی فردگزاشتوں سے تعرض ضرور کرتے تھے ۔ مولانا فاروق چڑیا کوٹی نےعلومِ متداولہ کی تعلیم مولانا مفتی محمدیوسف فرنگی محلی (م 1255ھ )، مولانا رحمت اللہ فرنگی محل (م 1305ھ، مولانا ابوالحسن منطقی (م 1292ھ اور مفتی نعمت اللہ فرنگی محل ( م 1299ھ ) سےحاصل کی۔ فراغت تعلیم کےبعد غازی پور، اعظم گڑھ ، سمیرام ، الہ آباد، اورلکھنؤ کےدینی مدارس میں درس وتدریس فرمائی ۔ 1904ء میں ندوۃ العلماء لکھنؤ سےعلیحدہ ہوگئے۔مگر 1909ء کےشروع میں مولانا شبلی نعمانی نےدوبارہ ان کوندوہ بلالیا۔مولانا فاروق کوتمام علوم پرعبور تھا مگر عربی ادب ، معقول و منقول اورریاضی وغیرہ میں ان کوکامل مہارت حاصل تھی ۔ آپ نے 28۔اکتوبر 1909ء مطابق رمضان 1327ھ غازی پور میں انتقال کیا ۔(تزہۃالخواطر، ج ص 451، حیات شبلی ص72 )
(21)۔ مولانا سید حکیم عبدالحی 18 رمضان 1286ھ میں رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ان کےاساتذہ کی فہرست طویل ہے۔
تاہم ان کےمشہور اساتذہ میں مولانا سید امیرعلی ملیح آبادی(م 1337ھ)صاحبِ تفسیر مواہب الرحمن اورعلامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی (م 1327ھ)اورشیخ الکل مولانا سید محمد نذیرحسین محدث دہلوی (م 1320ھ ) شامل ہیں ۔ طب کی تعلیم حکمائے لکھنؤ سےحاصل کی اورفراغت تعلیم کےبعد لکھنؤ میں مطب کرناشروع کیا۔اوراس کےساتھ درس وتدریس اورتصنیف وتالیف کاسلسلہ جاری رکھا۔ندوۃ العلماء میں اعزازی مدرس رہےاوراس کےساتھ کئی سال تک مہتمم بھی رہے۔مولانا عبدالحی صاحب ، صاحب تصانیف کثیرہ تھے ان کےمشہور تصانیف میں تزہۃ الخواطر:بہجۃالمسامع والفواطر (عربی ) الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند (عربی ) اورگلِ رعنا(اردو) ہیں ۔ مفکر اسلام اور بین الاقوامی شہرت کےمالک مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ، مولانا عبدالحی کےچھوٹے صاحبزادے ہیں ۔
مولانا عبدالحی نے15 جمادی الاخریٰ 1341ھ بمطابق 2 فروری 1933ء میں انتقال کیا(تراجم علمائے حدیث ہند، ص 545 )
(22)۔ شمس العلماء مولانا شبلی نعمانی ذی قعدہ 1274ھ ؍ مئی 1875ء میں پیدا ہوئے،ان کےاساتذہ کی فہرست طویل ہے ۔
تاہم مشہور اساتذہ میں مولانا حکیم عبداللہ جیراج پوری (م 1307ھ ) ،مولانا محمدفیض اللہ مؤی اعظم گڑھ (م 1315ھ ) ، مولانا علی عباس چڑیا کونی (م 1302ھ ) اورمولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی (م 1327ھ ) خاص طورپر قابل ذکرہیں ۔حدیث میں آپ کےاستادمولانا احمد علی محدث سہارن پوری تھے۔ تعلیم سےفراغت کےبعد 1301ھ میں علی گڑھ میں عربی کےاسٹنٹ پروفیسر ہوگئے ۔اور 15 سال تک یعنی 1316ھ تک علی گڑھ میں تدریسی خدمات سرانجام دیں ۔ مولانا شبلی کی زندگی بڑ ی مصروف گزری۔تصنیف وتالیف میں بھی نام پیدا کیااوراس کےساتھ آپ کاسب سےبڑا علمی کارنامہ دارالعلوم ندۃ العلماء کاقیام تھا۔
مولانا شبلی کی مشہور تصانیف میں سیرۃ النبی ﷺ جلد اول ، دوم ،الفاروق ،المامون،الغزالی ، الکلام ، موازنہ انیس ودبیر ، شعر العجم اورسفرنامہ مصروشام وروم ہیں ۔مولانا شبلی نعمانی نے18 نومبر 1914ء ؍ 28 ذی الحجہ 1332ھ اعظم گڑہ میں انتقال کیا۔
مولاناسید سلیمان ندوی نےان کےحالات اورعلمی کارناموں پران کی سوانح عمری بنام حیاتِ شبلی لگھی ۔ جواپنے موضوع کےاعتبار سے بہترین اورعمدہ کتاب ہے۔(تذکرہ علمائے اعظم گڑھ ص 102 )
(23)۔ مولانا عبداللطیف سنبھلی مشاہیر علماء میں سےتھے ۔اور مولانا احمد حسن کان پوری کےارشد تلامذہ میں سے تھے ۔ فراغت کےبعد ندوۃ العلماء لکھنؤ میں کئی سال تدریس فرمائی ۔ اس کےبعد حج بیت اللہ کےلیے تشریف لےگئے۔حج سےواپسی کےبعد جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں مدتوں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔درس وتدریس کےساتھ تصنیف وتالیف کا مشغل بھی جاری رکھا ان کی تصانیف میں شرح جامع ترمذی ، لطف الباری شرح تراجم ابواب البخاری ، رسالہ احوال حدیث، مشکلات القرآن ، تاریخ القرآن ، سرۃ امام ابوحنیفہ ،صرف لطیف اورنحوِ لطیف مشہورہیں۔مولانا عبداللطیف سنبھلی نے22 جمادی الآخر 1379ھ میں علی گڑھ میں انتفال کیااور ان کی تدفین بھی علی گڑہ میں ہوئی ۔( نزہۃ الخواطر ج 8 ص 284 )
(24) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 75
(25) شاہ معین الدین احمد ندوی ، حیات سلیمان ، ص 29
(26) سید صباح الدین عبدالرحمن ،( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص7
(27) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 74 ----
(28) ایضا ص 8
(30) سیدسیلمان ندوی ، حیات شبلی، ص 722
(31) سید صباح الدین عبدالرحمن (سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص10
(32) ۔ غلام محمد، تذکرہ سلیمان ، ص 152
(33) شاہ معین الدین ندوی، حیات سلیمان ، ص 85
(34) ۔ابوعلی اثر ، سید سلیمان ندوی ، ص 93
(35) سید صباح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص 13۔۔۔
(36) ایضا ص 13
(37) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات، ص 78
رئیس احمد جعفری ،علی برادران ص 6 34
(38) سید صبا ح الدین عبدالرحمن (سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص 14
(39) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات، ص 78
(40)۔ سید صباح الدین عبدالرحمٰن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص16
(41) شیخ عطاء اللہ ،اقبال نامہ ، ص 113
(42) سید صباح الدین عبدالرحمن (سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر16
(43) سید سلیمان ندوی ،شذرات ، معارف ، نومبر 1920ء ص 323
(44) شاہ معین الدین ندو ی ، حیات سلیمان ، ص 222
(45) سید صباح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص 17
(46) محمد نعیم صدیقی ، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 82
سید صباح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر ص 17
(47) شیخ عطاء اللہ ، اقبال نامہ ج 1 ص 80
(48) پروفیسر محمد سرور خطوط محمد علی ص 66
(49) مکاتیب ابوالکلام بنام سید سلیمان ندوی معارف اکتوبر 53 ص 313
(50) غلام محمد ، تذکرہ سلیمان ص 60
(51) سید صباح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر ، ص 18
(52) شاہ معین الدین ندوی ، حضرت الاستاد کی دینی وعلمی خدما ت ( مضمون ) معارف سلیمان نمبر، ص 185
(53) حکیم عبدالحی ، نزہۃ الخواطر ، ج 8 ، ص 165
(54) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سیدسلیمان ندو ی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 81
(55) ۔سید صباح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات ) معارف سلیمان نمبر،ص 20
(56) سید سلیمان ندوی، مقالات سلیمان ، ج 1 ص 293
( 57) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات، ص 82
(58) شاہ معین الدین ندو ی، حیات سلیمان ، ص 496
(59) سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 35
(60) ایضا س 36
(61 ) شاہ معین الدین ندوی ، حیات سلیمان ، ص 44
(62) سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 38
(63 ) ارشد تھانوی ، سید صاحب منصبِ قضاپر، مضمون ماہنامہ ریاض کراچی ، سلیمان نمبر ، ص 62
(64) حکیم سید عبدالحی ، نزہۃ الخواطر ، ج 8 س 165
(65) یوسف سلیم چشتی ، معراج عقیدت ( مضمون ) ماہنامہ ریاض کراچی سلیمان نمبر،ص 86
(66) غلام محمد، تذکرہ سلیمان ، ص 204
(67) ۔غلام محمد ، پاکستان کےتین سال ( مضمون ) ماہنامہ ریاض کراچی ) سلیمان نمبر،ص 135
(68) سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 40
(69) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سیدسلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 86
(70) شاہ معین الدین ندوی ، حیات سلیمان ، ص 581
(71) سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 46
(72) ایضا ، ص 46
(73) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی ، شخصیت وادبی خدمات ، ص 319
(74) ایضا ، ص 342
(75) عابد رضا بیدار، مولانا آزاد کی صحافتی عظمت ، مضمون آج کل دہلی ابوالکلام آزادنمبر ، ص 18
(76) منظر عباس نقوی ، وحیدالدین سلیم حیات اورکارنامے ، ص 221
(77) نیاز فتح پوری ، مولانا آزادکی صحافتی عظمت ( مضمون ) '' آج کل ، ولی ، ابوالکلام آزاد نمبر ، ص 18
(78) محمد نعیم صدیقی ندوی ، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ، ص 345
(79) ۔ عبداللہ بٹ ، ابوالکلام آزاد مضمون '' ابوالکلام کانثر،، ص 92
(80) مالک رام ، مولانا '' آزاد صحافی وادیب ، ، رسالہ حج دہلی ، آزاد نمبر ، ص 59
(81) عبدالماجد دریا آبادی ، اردو ادب ، آزاد نمبر، ص 166
(82) ۔ مالک رام ، مضمون آزاد صحافی وادیب رسالہ حج دہلی ، آزاد نمبر،ص 58
(83) منظور احمد ، ابوالکلام فکروفن ، ص 147
(84) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 349
(85)۔ سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 9
(86) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 349
(87) ۔عبدالماجد دریا آبادی ، صدق جدید لکھنؤ ، 22 جنوری 19 54ء ص 4
(88) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 350
(89) مکاتیب شبلی ، ج 2 مکتوب نمبر 5 بنام عبدالسلام ص 176
(90) ایضا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتوب نمبر 8 ----- ص 179
(91) سید سلیمان ندوی ،ہماری زبان ، علی گڑھ ، ستمبر 65ء، ص 4
(92) عبدالرزاق ملیح آبادی ، ذکرآزاد ، ص 234
(93) ۔ عابد رضا بیدار ، ابوالکلام آزاد ، ص 122
(94) شاہ معین الدین احمدندوی، حیات سلیمان ص 54
(95) ۔ مکاتیب شبلی ، ج 2 مکتوب نمبر 54 ، ( 16 ستمبر 1916ء )
(97) ۔ محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 354
(98) ۔ الہلال ، 13۔اگست 1913ء
(99) مکاتیب ِ شبلی ، ج 2 ص 113 ، مکتوب نمبر 54
(100) معارف ، اکتوبر 1947ء
(101) ہماری زبان (علی گڑھ ) 15 جولائی 1920ء ۔۔۔۔۔۔ 102 ۔ایضا
(103 ) ۔عبدالماجد دریا آبادی ، سیدسلیمان ایڈیٹر کی حثیت سے( مضمون ) صدق جدید لکھنؤ، 22 جولائی 1954، ص 4
(104) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 353تا354
(105) عبدالماجد دریا آبادی ،مکتو ب سیلمانی ، ج 1 ص 18
(106) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 364
(107) سید سلیمان ندوی ، شذرات ، معارف اعظم گڑھ ، جنوری 1917ء
(108) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 377
(109) ۔ شاہ معین الدین احمد ندوی ، حیات سلیمان ، ص 111۔۔۔
(110) رسالہ ما ہ نور ، کراچی ، جنوری 1954ء ص 25
(111) محمد نعیم صدیقی ندوی، سید سلیمان ندوی، شخصیت وادبی خدمات ،ص 379
(112) معارف ( شذرات ) جنوری 1927ء ص 4
(113) ۔ عبدالماجد دریا آبادی ، سیدسلیمان ایڈیٹر کی حثیت سے( مضمون ) صدق جدید لکھنؤ،29 جنوری 1954ء ص 4
(114) شاہ معین الدین احمد ند و ی، سید سلیمان ندوی کی دینی وعلمی خدمات( مضمون) معارف سلیمان نمبر، ص 173
(115) شیخ عطاء اللہ ، اقبال نامہ ، ص 113
(116)۔ معین الدین احمدندوی ،سید سلیمان ندوی کی علمی ودینی خدمات ( مضمون)معارف سلیمان نمبر 205
(117 ) شیخ عطاء للہ ، اقبلا نامہ ، ص 178
(118) سید صبا ح الدین عبدالرحمن ( سوانح حیات) معارف سلیمان نمبر،ص 32
(119) عبدالماجد دریا آبادی ، نقوش سلیمان ( مضمون ) معارف سلیمان نمبر232
(120) شاہ معین الدین احمد ندوی ، حیات سلیمان ، ص 475
(121) ۔ ابوعلی اثر، سید سلیمان ندوی، ص 50
(122) سید سلیمان ندوی، یادرفتگان ، ص 5
(123 ) ۔ عبدالماجد دریاآبادی ، نقوش سیلمان (مضمون )،معارف سلیمان نمبر،ص29