صفیں درست کرنےکےلیے مقتدی کب گھڑے ہوں ؟

حضرت ابوقتادہ سےمروی ہے:
'' قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أقيمت الصلاة فلاتقومو ا حتى ترونى۔
'' رسول الہ ﷺ نےفرمایا کہ جب نماز کےلیے اقامت کہی جائے توجب تک مجھے نہ دیکھ نہ لو، کھڑے نہ ہواکرو،،
بعض روایات میں قد خرجب کےالفاظ بھی وار د ہیں ۔
امام ترمذی ﷫ اس حدیث کو'' حسن صحیح ،، قرار دیا ہے ۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کےالفاظ لاتقوموا کی شرح میں فرماتےہیں :''اس کھڑے ہونےکی ممانعت مذکور ہے،، ۔اور اگلے قول حتی ترونی کی متعلق فرماتےہیں :''اس میں امام کودیکھنے پرکھڑے ہونےکاحکم وارد ہے۔ یہ حکم مطلق ہےاوراقامت کےکسی مخصوص جملے کےساتھ مقید نہیں ہے،،

امام کی موجودگی میں مقتدی کب کھڑے ہوں ؟

دراصل مقتدی کاوقت محتاج تفصیل ہے۔پس اگرامام مسجد میں موجود ہوتو بعض اہل علم کےنزدیک جب مؤذن قدقامت الصلاۃ کہےتو لوگ کھڑے ہوں ۔یہ قول ابن مبارک کاہے۔

حضرت انس کےمتعلق بھی مروی ہےکہ '' جب مؤذن قد قامت الصلاۃ کہتا ہےتوآپ کھڑے ہوتےتھے ،،۔ اس کوابن المنذر ﷫ وغیرہ نےروایت کیا ہے۔

سعیدبن منصور﷫ نےبھی بطریق ابی اسحق حضر ت عبداللہ کےاصحاب کےمتعلق یہی چیز روایت کی ہے۔

عبداللہ بن مبارک﷫ کےقول کےمتعلق شارح ترمذی علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ﷫ فرماتےہیں کہ '' مجھآ اس ضمن میں کوئی مرفوع صحیح حدیث نہیں ملی۔جبکہ حضرت انس کایہ فرمان بہت اچھا ہےکہ مؤذن کےقدقامت الصلاۃ کہنےپروہ کھڑےہوتے،، لیکن امام ترمذی ﷫ نےحضرت انس کی حدیث کوغیرمحفوظ قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتےہیں :

' ' وفى الباب عن انس وحديث انس غيرمحفوظ ،،

حضرت انس کی حدیث کےمتعلق علامہ عبدالرحمن مبارکپوری ﷫ فرماتےہیں:لم اقف على من اخرجه لیکن میں کہتا ہوں کہ ابوداؤد الطیالسی ﷫اورزیدبن حمید ﷫ نےاپنی مسانید میں اورعقیلی نےالضعفاء الکبیر میں اس کی تخریج بطریق جریر بن حازم عن ثابت عن انس مرفوعا بہ کی ہے اوراس پرنکارت کاحکم لگایا ہے۔

جریر بن حازم کوعجلی ،) ابن معین ، ابن سعد اوربزار وغیرہ نے'' ثقہ ،، اوررازی نے''صدوق ،، قرار دیا ہے۔امام ذہبی ﷫ فرماتےہیں کہ '' جریر کبارائمہ ثقات میں سے ایک تھے ۔بخاری ۃومسلم نےاپنی صحیح میں اورائمہ اربعہ نےاپنی سنن میں ان سے تخریج کی ہے،، شعبہ کاقول ہے'' میں نےبصرہ میں دوشخصوں سےزیادہ بڑا حافظ نہیں دیکھا ۔وہ ہشام الدستوائی اورجریربن حازم تھے،،

ساجی کاقول ہےکہ'' صدوق تھے اوراپنےحافظہ کی بنیاد پراحادیث روایت کرتےتھے،،لیکن ابن حجر عسقلانی ﷫ نےایک مقام پرانہیں '' سئی الحفظ ،، لکھاہےاوردوسرے مقام پرفرماتےہیں :'' ثقہ تھے لیکن جب حضرت قتادہ سےروایت کریں توان کی حدیث میں ضعف ہوتاہےاورجب اپنے حافظہ سےحدیث بیان کریں تووہم ہوتاہے،، بعض علماءاس طرف گئےہیں کہ اگر امام مسجد میں نمازیوں کےساتھ ہوتولوگ اس وقت نہ کھڑے ہوں جب تک اقامت کہنےوالا اقامت سےفارغ نہ ہوچکے۔

ان تمام اقوال کےمقابلہ میں راقم کےنزدیک سب سےعمدہ قول امام مالک﷫ کاہے:

واما الناس حين تقام الصلاة فانى لم اسمع فى تلك بحديقام له الا فى ارى ذلك على قدر طاقةالناس فان منهم الثقيل والخفيف ولا يستطيعون ان يكونوا كرجل واحد،،

' ' نماز کےلیے جہاں تک لوگوں کےکھڑےہونے کاتعلق ہےتومجھے کوئی ایسی حدبندی نہیں ملی ۔میری رائے میں یہ لوگوں کی طاقت پرہےکیونکہ ان میں ہلکے اوربھاری جسموں والے بھی ہوتےہیں جوایک شخص کی مانند (بیک وقت ) کھڑے نہیں ہوسکتے،،۔

علامہ ابن رشد القرطبی ﷫ بھی تقریباً یہی بات فرماتےہیں :

'' اس بارے میں سوائےحدیث ابی قتادہ کےشریعت میں کوئی چیز مسموع نہیں ہے۔اگریہ حدیث صحیح ثابت ہوتواس پرعمل واجب ہےورنہ یہ مسئلہ اپنی اصل برباقی رہتاہےاوروہ اصل المعفوعنہ ہےیعنی اس بارے میں چونکہ شریعت ساکت ہےلہذا جب بھی کھڑے ہوجایا جائے درست ہے،،

امام بخاری ﷫ نے بھی مقتدیوں کےکھڑےہونے کواقامت کےکسی لفظ کےساتھ مقید نہیں ٹھہرایا ہےبلکہ اس بارےمیں پےدرپے جودوابواب مقرر فرمائےوہ یہ ہیں :'' باب متى يقوم الناس اذا راؤ الإمام عندالإقامة اور '' باب لايقو م الى الصلوة مستعجلا وليقم بالسكينة ولوقار ،، اوران کاماحصل بھی یہی ہےکہ مقتدی جب اقامت کےوقت امام کو( مسجد میں موجود یاآتاہوا) دیکھیں توکھڑے ہوں اور کھڑےہونے میں جلدبازی سےکان نہ لیں بلکہ سکینت اوروقار کےساتھ کھڑے ہوں ۔

امام کی غیرموجودگی میں نماز کےلیے کھڑے ہونا؟

لیکن اگر امام مسجدمیں موجود نہ ہوتواہل علم حضرات کی ایک جماعت نےلوگوں کاکھڑے ہوکرامام کاانتظار کرنا مکروہ بیان کیا ہے، چنانچہ امام بغوی ﷫ لکھتےہیں:''وقدكره قوم من اهل العلم ان ينتظرالناس الإمام وهم قيام،،واضح رہےکہ ''اہل علم حضرات ، ، سے مراد '' اهل العلم من اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم وغيرهم ،، ہے ۔

ابراہیم نخعی ﷫ فرماتےہیں : كانوايكرهون ان ينتظرواالامام قياما ولكن قعودا ويقولون ذلك السمود،،

'' وہ لوگ کھڑےہوکرامام کاانتظار کرنامکروہ سمجھتےتھے ،، ۔

امام ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے اسےجمہور کامسلک قراردیا ہے، چنانچہ لکھتےہیں کہ جب امام مسجد میں نہ ہوتوجمہورکی رائے یہ ہےکہ اس کےنظر آجانے تک لوگ کھڑ ے نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بارے میں چند آثار اس طرح مروی ہیں :

عن كهمس قال قمنا الى الصلاة بمنى والامام لم يخرج فقعدبعضنا فقال شيخ لى من اهل الكوفة مايقعدك ؟ قلت ابن بريد ة قال هذا السمود،،

'' منیٰ میں ہم نماز کےلیے کھڑے ہوئے جبکہ امام ابھی باہرنہ نکلے تھے تو کچھ لوگ بیٹھ گئے ۔میرے ایک کوفی شیخ نےکہاکہ تم کیوں بیٹھ گئے ہوتومیں نےجواب دیا کہ ابن بریدہ کہتےہیں : سمود نے،، .

2۔ علامہ ابن اثیر ﷫ وغیرہ نے'' النہایۃ،، میں حضرت علی کےمتعلق روایت کیا ہےکہ :'' انه خرج والناس ينتظرونه قياما للصلاة فقال ما لى اراكم سامدين ،،

'' حضرت علی نکلے تولوگوں کودیکھا کہ وہ کھڑے ہوکرنماز کےلیے ان کا انتظار کررہےہیں توفرمانےلگے کیابات ہے جو میں تمہیں '' سامدین ،،پاتا ہوں ،،۔۔۔۔''السمود ،، کےشرح میں علامہ ابن اثیر ﷫ فرماتےہیں :

السامد المنتصب کان رافعا راسه ناصباصدره انكر عليهم قيامهم قبل ان يرواامامهم وقيل السامد القائم فى تحير،، ------

امام بغوی ﷫ اور امام خطابی ﷫ '' السمود ،، کی شرح میں فرماتےہیں:

'' والسمود هوالغفلة الذهاب عن الشئى قال الله ( وانتم سامدون ) ( النجم :11)اى لاهون ساهون ،،

'' سمود سےمراد غفلت اورکسی شے کوجانے دینا ہےجیسا کہ اللہ تعالی نے0(انتم سامدون ) کہاہے، یعنی وہ غفلت کرنے والے اور بھولنے والے ہیں ،، ۔

جہاں تک بعض ان روایات کا تعلق ہےجوکہ حضرت ابوقتادہ کی حدیث سےباہم متعارض نظر آتی ہیں مثلا حضرت ابوہریرہ سےمروی ہے:اقيمت الصلاة فسوى الناس صفوفهم فخرج النبى صلى الله عليه وسلم

'' نماز کی اقامت کہی گئی تولوگوں نےصفیں درست کرلیں تب نبی اکرم ﷺ باہرنکلے،،۔

2۔ فصف الناس صفوفهم ثم خرج علينا

3- اقيمت الصلاة فقمنا فعهدلنا الصفوف قبل ان يخرج الينا النبى صلى الله عليه وسلم فاتى فقام مقامه .

4- ان الصلاة كانت تقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم فيأخذالناس مقامهم قبل ان يجئ النبى صلى الله عليه وسلم ،،

جہاں تک احادیث کےحضرت ابوقتادہ کی حدیث سےمعارض ہونے کاتعلق ہےتومحدثین کرام نےان کےمابین اس طرح جمع وتطبیق پیدافرمائی ہے:

'' کبھی بیان جواز کی غرض سے ایسا واقع ہواہوگا لیکن حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں جو چیز مروی ہے،وہی حضرت ابوقتادہ کی حدیث میں وارد نہیں سبب ہے۔ کیونکہ تمام نمازی اقامت کےوقت ہی کھڑے ہوجاتےتھےحالانکہ اس وقت تک نبی ﷺ باہرتشریف نہیں لائے ہوتےتھے، پس آپ ﷺ نےاس چیز سےان لوگوں کومنع فرمایا اس احتمال کےپیش نظر کہ آپ ﷺ کسی ایسے کامیں مشغول ہوں جوکہ فوراً آپ ﷺ کاباہرآنےکی اجازت نہ دیتا ہوں پس مبادا نمازیوں کی آپﷺ کاانتظار کرنا شاق گزرے،،

ان احادیث سےبعض علماءنے یہ قاعدہ اخذ کرنےکی کوشش بھی کی ہےکہ:'' وفيه جوا ز الاقامة والامام فى منزله اذا كان يسمعا ،، اور هذا يدل على جواز تقديم الاقامة على خروج الامام ثم ينتظر خروجه ،، کہ اگر امام گھر میں اقامت کی آواز سن رہاہوتوتب (امام کےسامنے نہ ہونے کےباوجود ) اقامت کہنا درست ہے۔

مذکورہ بالا احادیث بظاہر حضرت جابربن سمرہ کی اس حدیث سےبھی معارض ہیں جس میں مروی ہےکہ:

'' ان بلالا كان لايقيم حتى يخرج النبى صلى الله عليه وسلم ،، _______

علامہ قرطبی ﷫ فرماتےہیں :

'' ظاہرحدیث سےپتہ چلتاہےکہ نبی ﷺ کےاپنے گھر سےباہر تشریف لانے سےقبل ہی نمازی کھڑے ہوجایا کرتےتھےلیکن یہ چیز حضرت جابربن سمرہ کی (مذکورہ) حدیث سےٹکراتی ہے ۔ان دونوں حدیثوں کےمابین جمع و تطبیق یوں کی گئی ہےکہ حضرت بلال نبی ﷺ کےباہرتشریف لانے پرنگاہیں جائےرکھتے تھے،جیسےہی پہلی بارآپ ﷺ کوباہرآتادیکھتے، اقامت کہنا شروع کردیتے تھےاس سےقبل کہ اکثر نمازی آپ ﷺ کودیکھتے ۔پھر جب لوگ آپ ﷺ کو دیکھ لیتے توکھڑے ہوجاتےتھے ۔ آپ ﷺ اپنی جگہ اس وقت تک کھڑےنہیں ہوتےتھےجب تک کہ لوگوں کی صفیں درست اوربرابر نہ ہوجاتی تھیں ،،

اس امر کی تائید ان روایات سےبھی ہوتی ہےجن میں مروی ہےکہ:

عن ابن شهاب '' ان الناس كانوا ساعة يقول لمؤذن الله اكبر يقومون الى الصلاة فلا يأتى النبى صلى الله عليه وسلم مقامه حتى تعتدل الصفوف ،،

2- عن ابى هرير ة : '' ان الصلاة كانت تقام فى اخذ الناس مصافهم قبل ان يقوم النبى صلى الله عليه مقامه ،،

'' نماز کی اقامت ہوتی تاکہ لوگ اپنی صفیں درست کرلیں قبل اس کےکہ نبیﷺاپنے مصلے پرکھڑے ہوں ،، ۔

آخرالذکر حدیث کےمتعلق امام بغوی ﷫ فرماتےہیں :'' قلت معنى هذا والله اعلم،ان الامام اذا خرج مقيم المؤقف والناس يأخذون مصافهم الى ان ينتهى الامام الى مصلاة ،،

'' میری رائے میں اس کامطلب یہ ہےکہ جب امام نکلے تومؤذن اقامت کہے اور مقتدی اپنی صفیں امام کےجائے نماز پرپہنچنے سےقبل درست کرلیں ،، ۔

واللہ اعلم۔ پس تمام اشکلات وتعارضات رفع ہوئے ۔الحمداللہ علی ذلک !

امام احمدبن حنبل فرماتےہیں :

الرجل يسلم بنفسه من غير قتال وفى يده أرض فهى عشر .

'' جوشخص خود بخود بغير قتال كے اسلام قبول کرلے تواس کی زمین اس کی ملکیت رہےگی ، یہ عشری زمین ہے،، ۔

امام بخاری فرماتےہیں :

إذا أسلم قوم فى دار الحرب ولهم مال وأرضون فهى لهم .

'' جب کوئی قوم دارالحرب میں اسلام قبول کرلے توان کےمال اورزمینیں ان کی ملکیت ہوں گی ،، ۔

سابقہ اقوال جو مختلف ادوار کےفقہاء کےفرمودات ہیں ، اس سے بات واضح ہوتی ہےکہ جب کوئی ( قتال سےقبل ) کسی علاقہ میں اسلام قبول کرے تواس وقت جوزمین کی ملکیت میں ہےاسلام کےبعد بھی اس کی ملکیت میں ہی تسلیم کی جائےگی ۔تجدید ملکیت کی ضرورت نہ ہے۔عہد رسالت سے تاحال تمام فقہاء اس پرمتفق ہیں ۔

قاعدہ نمر 2:

دشمن کےوہ علاقے جوبغیر قتال کےاسلامی حکومت کےقبضہ میں آجائیں (جیسےارض فئ کہا جاتا ہے) اورحاکم وقت اسے مناسب مسلمان افراد میں تقسیم کردے تویہ بھی ان افراد کی انفرادی ملکیت بن جائے گی ۔

جیسا کہ خود رسول اللہ صﷺ نےبنونضیر کی زمینیں عام مجاہدین میں سےصرف مہاجرین اورسہل بن حنیف وابودجانہ میں تقسیم فرمادیں ۔

قاعدہ نمبر 3:

وہ زمین جسے مسلمانوں نےباقاعدہ جہاد وقتال کےبعد فتح کرلیا اورامام وقت نےخمس(5؍1) نکال کرباقی زمینیں مجاہدین میں تقسیم کردیں توتقسیم کردہ زمین جسے دی گئی ، وہ اس کی ملکیت تصور ہوگی ۔

جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کےموقعہ پرخیبر کی زمین مجاہدین میں تقسیم کردی بعدازاں یہود خیبر سےمعاہدہ کرکے نصف نصف پران کےحوالے کردی اورپھر جب عہد فاروقی میں حضرت عمر نےیہود خیبر کی جلاوطن کیا توان تمام مسلمانوں کوبلاکرجن کاحصہ ارض خیبر میں تھا،ان کےحوالے کردیا ۔

یہ اصول بھی متفق علیہ ہےکیونکہ اس کی مخالفت بھی تائید ہےکچھ فقہاء کےاقوال مزید وضاحت کےلیے درج کئے جاتےہیں :

أيما دار من دور الأعاجم قد ظهر عليها الإمام وقسمها بين الذين غنموهافهى أرض عشر.

'' غیرعرب کےعلاقے کوجت امام فتح کرلے اوراسے مجاہدین میں تقسیم کردےتویہ مجادہدین کی ملکیت بن جائے گی اوریہ عشرزمین ہے،، ۔

امام ابوعبیدقاسم بن سلام فرماتےہیں :

كل أرض اخذت عنوة ثم إن الإمام لم ير أن يجعلها فيئا موقوفا ولكنه رأى أن يجعلها عنيمة فخمسها وقسم أربعة اخماسه بين الذين افتتحوها حاصة كفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم بأرض خيبر فهذه ايضا ملك أيمانهم ليس فيها غيرالعشر .

''ہروہ علاقہ جومقابلۃ فتح ہوااورپھر امام وقت نےاسے فئ موقوف نہ بنایا بلکہ وہ غنیمت باجس میں خمس رکھا گیااور باقی (5؍4 ) خمس صرف ان مجاہدین میں تقسیم کردے جیساکہ رسول اللہ ﷺ نےخیبر کا علاقہ تقسیم کیاتھاتویہ ان (مجاہدین ) کی ملکیت ہونگی جس زمین پرصرف عشر ہے،،۔

ابن رجب حنبلی فرماتےہیں :

'' ما ملكها بعض المسلمين من الكفار ابتداء كأرض قاتلوا عليها الكفار وقسمها الامام بين الغانمين فكل هذه من أراضي المسلمين مملوكة لمن هي في يده ولا خراج على المسلم في خالص ملكه الذي لا حق لأحد فيه وهذا لا يعلم فيه خلاف ،،

'' جس زمین کےکچھ مسلمان ابتدائی طورپرمالک بن جائیں ۔اس طرح کہ اس زمین پرکفار سےجنگ ہواورامام (وہ زمین ) مجاہدین میں تقسیم کردے تویہ مسلمانوں کی زمین ہوگی اورجس کےقبضہ میں ہو،اسی کی ملکیت ہے۔ اسی طرح مسلمان پراس کی خالص ملکیت میں خراج نہیں ۔ اور اس امرمیں کوئی اختلاف نہیں ہے،، ۔

ابن رجب آٹھویں صدی ہجری کےفقیہ ہیں جواس بارے میں اجماع کےمدعی ہیں کہ ''آج تک اس امر میں کوئی اختلاف نہیں (بلکہ تمام فقہاء کااتفاق ہے) کہ یہ زمینیں بھی مسلمانوں کی ملکیت ہے،، ۔

قاعدہ نمبر 4

ہروہ علاقہ جوعنوہ جہاد کےبعد مسلمانوں کےقبضہ میں آیا لیکن امام وقت نےاسے مجاہدین میں تقسیم نہیں کیا بلکہ وہاں کےباشندوں پراحسان کرتےہوئے واپس لوٹا دیا اورپھر وہ لوگ بھی مسلمان ہو گئےتو چونکہ اسلام قبول کرتےوقت یہ اپنے علاقہ کی زمینوں کےمالک تھے لہذا یہ زمین بھی افراد ملت اسلامیہ کی ملکیت تصور ہونگی ۔جیساکہ مکۃ المکرمہ کی زمینیں ۔فتح مکہ کےبعد رسول اللہ ﷺ نےنہ تو ان کو غلام بنایا اورنہ ہی ان کےگھروں اورزمینوں کوتقسیم کیابلکہ ان پراحسان کرتےہوئےانہی کوواپس کردیں چنانچہ امام ابوعبیدقاسم بن سلام کاقول ہے:

'' إن مكة افتتحت بعد القتال ولكن الرسول من عليهم فلم يعرض لهم فى انفسهم ولم يغنم أموالهم ، وقال بعده: فلما خلعت لهم اموالهم برد الإمام عليهم ، ثم أسلموا بعد ذلك كان إسلامهم على مافى أيديهم فلحقت أرضوهم بالعشر.

'' مکہ قتال کےبعد فتح ہوالیکن رسول اللہ ﷺ نےان پراحسان کرتےہوئےنہ توان کوغلام بنایا اورنہ ہی ان کےاموال کوغنیمت ، بعدازاں فرمایا کہ جب امام کےلوٹانے سےان کےمال برقرار رہےاورپھروہ مسلمان ہوگئے تواسلام کےوقت ان کےقبضہ میں جوعلاقہ تھاوہ اس کےمالک رہے۔اس طرح ان کی زمینیں بھی عشری قرارپائیں،،۔

قاعدہ نمبر 5

غیرمملوکہ بے آبادزمین اگرامام وقت کسی مسلمان فرد کوبطور جاگیر عطا کردے توآباد کرلینے پروہ اس کامالک بن جائے گا ۔

چنانچہ آنحضرت ﷺ سےثابت ہےکہ آپ ﷺ نےکچھ صحابہ جیسے سلیط انصاری،بلال بن حارث المزنی ، فراث بن حیان العجلی اورتمیم داری کوجاگیرعطا کی اور آپ کی اتباع میں حضرت ابوبکر صدیق نے طلحہ بن عبید کواورحضرت عمر نےحضرت علی ونافع اورحضرت عثمان نےزبیر بن العوام وسعد بن ابی وقاص عبداللہ بن مسعود ﷺ ، خباب اوراسامہ بن زید کو جاگیریں عطا کیں ۔

مذکورہ صحابہ کرام جن کو جاگیردی گئی ان سےیہ روایات بھی ملتی ہیں کہ انہوں نے اسے آگے فروخت بھی کیا ۔

چنانچہ اسامہ بن زید نےاپنی جاگیرفروخت کی ۔

ان مذکورہ زمینوں کی خریدوفروخت اس بات کی قوی دلی ہےکہ یہ ان کی ذاتی ملکیت تھیں وگرنہ بمصداق حدیث'' لا تبع مالس عندک ،، جوچیز تمہاری نہیں اسے مت فروخت کرو، یہ زمین فروخت کرنےکےمجاز نہ ہوتے۔

قاعدہ نمبر 6

غیرمملوکہ غیرآبادی زمین جس سے کوئی اجتماعی مفاد بھی وابستہ نہ ہوشروط آبادکاری کےملحوظ رکھتےہوئے ایک مسلمان آباد کرلے تواس زمین کامالک بن جائےگا۔

ارشا د رسول اللہ ﷺ ہے: من أحياأرضا ميتة فهى له وليس لعرق ظالم حق .

'' جوبھی غیرآباد زمین کوآباد کرلے وہ اس کی ملکیت ہےاورظالم کاکوئی حق نہیں ہے،،۔

دوسری حدیث میں آباد کار کی ملکیت کی صراحت فرمائی گئی ہے:

عادى الأرض لله وللرسول ثم لكم من بعد فمن أحيا شيئا من موتان الأرض له رقبتها.

'' بنجر زمین اللہ اوراس کےرسول کی ہےاورپھر تمہاری ہےجوبنجر زمین آباد کرے،وہ اس کی ملکیت ہے،، ۔

قاعدہ نمبر 7

حاکم وقت حکومت کی زمین کوافراد امت اسلامیہ کےہاتھ فروخت کردےچونکہ امام وقت ، مسلم امت کا نائب ہوتا ہےاورنائب ہونے کی وجہ سے فروخت کاحق رکھتا ہےجیساکہ امام ابن العابدین فرماتےہیں :

إذا اشترى الإنسان أرض الحكومة من الإمام بشرط شراء صحيحا ملكهالإخراج عليه فلايجب عليه الخراج لأن الإما م قد أخذ البدل للمسلمين .

'' جب کوئی شخص حکومتی زمین کوامام سےخرید لےبشرطیکہ کہ خرید صحیح ہوتو وہ اس مالک ہے، اس پرخراج نہیں ۔کیونکہ امام نےمسلمانوں کےلیے اس کامقاوضہ وصول کرلیا ہے،، ۔

مذکورہ سات اصول ایسے ہیں جن پرتمام فقہاء امت کااجماع واتفاق ہےکہ جب کئی فرد ان مذکورہ اصولوں میں سے کسی ایک کےتحت کسی قطعہ ارضی کامالک بن جائے تواس کی ملکیت صحیح وثابت ہےاوراس زمین پروہ تمام احکام ومسائل ثابت ہوں گےجوایک مسلم فردکی انفرادی ملکیت کےہیں ۔اور مسلم فرد کواپنی مملوکہ زمین میں استفادہ وتصرف کےجملہ حقوق مثلاً بیع وہبہ ووقف وہدیہ اورثمن وغیرہ حاصل ہوں گے۔