امام ابن العربی اور اُن کی علمی خدمات 468ھ تا 543 ھ
امام ابن العربیؒ کا شمار اُندلس کے ممتاز محدثین کرام میں ہو تا ہے ان کی بدولت اُندلس میں احادیث و اسناد کے علم کو بڑا فروغ حاصل ہوا ۔امام ابن العربیؒ تقات واثبات میں مشہور تھے ۔ارباب سیر نے ان کے حفظ و جبط ،ذکاوت و ذہانت کا اعتراف کیا ہے ۔اور حدیث میں ان کو متبحر عالم تسلیم کیا ہے ۔ امام ابن العربی ؒ علوم اسلامیہ میں مہارت نامہ رکھتے تھے ۔تفسیر القرآن ،حدیث اصول حدیث،فقہ اصول فقہ ،تاریخ ادب وبلاغت ،صرف و نحواور علم کلام میں ماہر تھے ۔علامہ شمس الدین ذہبیؒ (م748ھ)لکھتے ہیں ۔
امام ابن العربیؒ ان لوگوں میں سے تھے جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مرتبہ اجتہاد پر فائز تھے تفقہ واجتہاد میں کمال کی بناء پر محکمہ قضاان کے سپرد کیا گیا تھا ۔ سیرت و شمائل اور اخلاق و عادات میں بھی ممتاز تھے حسن واخلاق اور عمدہ خصائل و عاداتکی وجہ سے لوگوں میں نہایت مقبول اور ہر دلعزیزتھے ۔ امام ابن العربیؒ علم وفضل کے ساتھ ساتھ دینوی اعزاز و وجاہت اور دولت و ثروت سے بھی مالامال تھے ۔نہایت فارغ البال تھے ۔بہت بڑے سخی اور فیاض تھے ۔ امام ابن العربیؒ اپنے تفقہ واجتہاد کی وجہ سے اشبیلیہ کے قاضی مقرر کئے گئے علامہ ابن کثیرؒ(م774ھ)لکھتے ہیں ۔
تفقہ واجتہاد میں کمال کی وجہ سے ان کو اشبیلیہ کا قاضی مقرر کیا گیا ۔اور اُنھوں نے اس ذمہ داری کو اس قدر خوش اسلوبی سے انجام دیا کہ وہ عوام و خواص میں بہت مقبول ہو گئے لیکن چونکہ ان کے فیصلے بے لا گ ہو تے تھے اور وہ معاملات قضاء میں شدت بھی برتتے تھے ۔اس لیے غالباًاس منصب سے معزول کردیئے گئے ۔ امام ابن عربیؒ بلاو مغرب کے علماء و فقہاء کی طرح امام مالک بن انسؒ (م179ء کے فقہی مذہب ومسلک سے وابستہ تھے ۔ امام ابن العربیؒ کا نام محمد بن عبد اللہ بن احمد تھا ۔اور کنیت ابو بکر تھی۔ 468 ھ میں اشبیلیہ میں پیدا ہو ئے ان کے والد ابو محمد عبد اللہ کا شمار اشبیلیہ کے ممتاز علمائے کرام میں ہو تا تھا فقہ و ادب اور شعر و سخن کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ۔ابو محمد عبد اللہ نے 493ھ میں مصر میں انتقال کیا ۔ امام ابن العربیؒ نے بہت نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی علامہ ذہبیؒ (م748ھ )نے تذکرۃ الحفاظ میں اور علامہ ابن فرحون ؒ مالکی (م799ء)نے الدیباج المذہب میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے امام ابن العربیؒ 17سال کی عمر میں اپنے والد علامہ محمد عبد اللہ کے ہمراہ بلاد مشرق کی سیاحت کے لیے تشریف لے گئے آپ شام بغداد ،حجاز،اسکندریہ اورمصر پہنچے اور ہرجگہ کے ارباب کمال اور آئمہ فن سے استفادہ کیا
علامہ ابن فرحونؒ مالکی (م799ھ) لکھتے ہیں کہ امام ابن العربیؒ جب تکمیل کے سلسلہ میں بلاد مشرق کے لیے روانہ ہو ئے تو اپنے وطن اشبیلیہ میں فن قرات اور ادب میں کمال حاصل کر چکے تھے ۔ مشرق کی سیاحت کے بعد واپس اپنے وطن اشبیلیہ تشریف لا ئے اور درس و تدریس میں مشغول ہو ئے ۔ابن فرحونؒ مالکی (م799ھ) لکھتے ہیں ۔تکمیل تعلیم کے بعد واپس وطن آئے تو ان کی ذات شائقین علم وفن کا ذکر بن گئی ۔لوگ دور دراز سے آتے اور ان سے استفادہ کرتے ۔درس و تدریس اور گوناں گوں کمالات کی وجہ سے وہ نہایت مشہور و مقبول ہو گئے تھے۔اور مسلمانوں کے امام کہلاتے تھے۔ امام ابن العربی ؒ زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کے جا مع تھے۔علامہ ابن کثیرؒ (م774ھ)فرماتےہیں ۔کہ ابن العربیؒ زاہد و عابد تھے حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہو ئے تھے
علمی خدمات :
امام ابن العربیؒ جب عہد قضاء سے سبکدوش ہو ئے تو آپ نے اپنی زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر کردی امام صاحب نے جو کتابیں تالیف کیں ۔ان کی تعداد 37/ہے اور آپ کی زیادہ تر تصانیف حدیث سے متعلق ہیں حدیث کے علاوہ امام صاحب نے فن تفسیر فقہاور علم نحو پر بھی کتابیں لکھی ہیں ۔امام صاحب کی کتابوں کی فہرست علامہ ابن فرحونؒ مالکی (م799ھ) نے الدبیاج المذہب اور مولاناشاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (م1239ھ)نے بستان المحدثین میں درج کی ہے ۔ ذیل میں آپ کی تمام تصانیف کی فہرست درج کی جا تی ہے ۔
1۔انوارالفجر: فن تفسیر میں عمدہ کتاب ہے اور 20جلدوں میں ہے۔
2۔کتاب الناسخ والمنسوخ :فن تفسیر سے متعلق ہے۔
3۔ثانوی التادیل :قرآنیات کے موضوع پر بہت عمدہ کتاب ہے ۔
4۔کتاب المشکلین :اس میں کتاب و سنت کی بعض مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے ۔
5۔کتاب شرح حدیث اندنک ۔
6۔کتاب شرح حدیث ام زرع ۔
7۔کتاب شرح حدیث جابر فی الشفاء ۔
8۔کتاب الکلام علی مشکل حدیث السحاب والحجاب ۔
9۔کتاب السباعیات ۔
10۔کتاب السلسلات یا المسلسلات ۔
11۔کتاب النسیرین فی شرح الصحیحین ۔
12۔کتاب ترتیب المسالک ۔
13۔کتاب احکام القرآن ۔
14۔کتاب القبس :ئی مؤطا امام مالکؒ کی شرح ہے ۔
مولانا ضیاء الدین اسلاحی کشف الظنون کے حوالہ سے اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
کتاب القبس مؤطا امام مالکؒ کی شرح ہے اس میں امام ابن العربیؒ نے مؤطا کے متعلق لکھا ہے کہ یہ شرائع اسلام اول و آخر کتاب ہے ایسی کو ئی اور کتاب نہیں لکھی گئی ہے کیونکہ امام مالکؒ نے اس کو فروغ کے لیے تمہید بنایا ہے اور اس میں اُنھوں نے فقہ کے ایسے اہم اور بڑے اصولوں پر متنبہ کیا ہے جن کی جانب مسائل فروغ میں رجوع کیا جا تا ہے شرح ترمذی میں لکھتے ہیں کہ مؤطا ہی اولین اصل اور خلاصہ ہے اور صحیح بخاری اصل ثانی اور ان ہی دونوں کتابوں پر تمام کتب حدیث مسلم ترمذی وغیرہ کی بنیاد دیں رکھی گئی ہیں امام خطابیؒ نے اس کا انتخاب اور ابولحسن فاسی نے ملخص ترتیب دیا تھا جو ملخص مؤطا ء کے نام سے موسوم ہے
15۔عارضہ الاحوذی : یہ امام ابوعیسیٰ ترمذیؒ (م279ھ)کی مشہور کتاب جامع ترمذی کی شرح ہے اور مصر سے دس جلدوں میں طبع ہو چکی ہے ۔ علامہ سیوطیؒ (م911ھ) کے زمانہ تک جامع ترمذیؒ کی کو ئی شرح متداول نہ تھی وہ فر ماتے ہیں کہ :
(عربی)
ہم کو ابو بکر ابن العربیؒ کی عارضۃ الاحوذی کے علاوہ ترمذی کی اور کسی کامل شرح کا علم نہیں ۔مولانا اعبد الرحمان مبارکپوریؒ (م1352ھ)لکھتے ہیں ۔عارضۃ الاحوذی ترمذی کی مشہور شرحوں میں ہے ۔
حافظ ابن حجرؒ وغیرہ مشاہیر علمائے اسلام نے اپنی کتابوں میں اس سے استفادہ کیا ہے اور اس کے اقتباسات نقل کئے ہیں ۔ مولانا ابوالحسن عبید اللہ رحمانی مبارک پوری دام مجدہ شارح مرعاۃ المفاتیح فی شرح مشکوۃ المصابیح لکھتے ہیں کہ۔
ابن العربیؒ (م546ھ) کی شرح عارضۃ الاحوزی گو بہت ضخیم اور مبوط شرح ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ مصنف نے کتاب کے حل طلب مقامات اور محتاج شرح وایضاح عبارات سے کم تعرض کیا ہے اور بعض اہم امور جن کا لحاظ شرح میں ضروری تھا بالکل نظر انداز کردیا ہے اور فقہی مباحث کو کچھ زیادہ طول دیدیا ہے ۔ امام ابن العربیؒ کی دوسری تصانیف حسب ذیل ہیں ۔
16۔تخلیص التخلیص۔
17۔کتاب المتکلمین ۔
18۔تبیین الصحیح فی تعین النابیح
19۔تفصیل التفصیل بین التحمید والتہلیل
20۔کتاب التوسط فی معرفۃ صحۃ الاعتقاد والرد علی من خالف السنۃ من ذوی البدع والامحاد ۔
21۔سراخ المرید ین ۔
22۔سراخ المہتدین ۔
23۔عواصم وتواصم ۔
24۔نواہی و دواہی ۔
25۔کتاب المجاء المنتقصین الی معرفۃ غوامض النحوبین
26۔کتاب الرحلۃ ۔
27۔کتاب الخلافیات ۔
28۔کتاب الاقصیٰ باسماء اللہ الحسنیٰ وصفاتہ العلاء ۔
29۔کتاب العقدالاکبرللقلب الاصغر ۔
30۔کتاب اعیان الاعیان ۔
31۔رسالہ الکافی فی ان لا دلیل علی الناحی ۔
32۔کتابستر العور ۃ ۔
33۔کتاب مراتی الزلف ۔
وفات: امام ابن العربیؒ نے 546ھ کو فاس میں انتقال کیا ۔