دارالافتاء

سوال وجواب
سوال:عورتوں کی ایک مجلس میں ایک مبلغہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناضر ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے۔کہ جب شیطان ہرجگہ موجود رہنے پر قدرت رکھتا ہے تو نبی کیوں نہیں؟جواب بالصواب سے مطمئن فرمائیں!(بیگم زبیدہ مظہرالٰہی ۔کراچی)
جواب:اولاً تو یہ بنیادی غلط ہے کہ شیطان ہر جگہ حاضر وناضر ہے ۔قرآن وحدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔البتہ اگر اس سے مقصود یہ ہے کہ شیطان بندوں کو ہر جگہ گمراہ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اور اُس کے چیلے چانٹے ہر جگہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ان میں سے جنات بھی ہیں اور انسان بھی جیسا کہ قرآن میں ہے۔(عربی)[1] ہمیں ان کی دوستی اور بات ماننے سے منع کیاگیا ہے:
(عربی)[2]
یعنی تم کیا اس(شیطان) اور اس کی ذریت کو اللہ کے سوا دوست بناتے ہو جب کہ وہ  تمھارے دشمن ہیں۔"
اسی طرح یہ (جماعت) شیاطین اپنے دوستوں کو باتیں سکھاتے ہیں۔قرآن میں ہے۔(عربی)[3] حدیث میں ان چیلے چانٹوں کا کارگزاری کا بھی اس طرح ذکر ہوا ہے کہ"بڑاشیطان(ابلیس) اپنا تخت پانی پر لگا کر اپنے معاون شیطانوں سے اُن کی کارکردگی کی  رپورٹ لیتا ہے۔جس میں بالخصوص جس چیلے نے میاں بیوی میں جھگڑا کرانے کی خبر دی ہو تو اس پر بڑا خوش ہوتا ہے۔اس سے معلو م ہو اکہ شیطان(ابلیس) ہرجگہ خود حاضر ناضر نہیں۔اس لئے اس کے معاونین کام کرتے ہیں۔لیکن نسبت اس بڑے کی طرف ہوتی ہے۔جو ان کارہنما ہوتاہے۔باقی رہا ابلیس اور اُس کی ذُریت کی وسیع حرکات تو وہ  (ابلیس ) جنوں میں سے ہے۔جیسا کہ قرآن  میں ہے۔:"(عربی)[4] اسی طرح اس کی  جنوں میں سے معاون جماعت شیاطین تواس ہوائی مخلوق کے خواص میں سے یہ ہے کہ وہ مادی قوانین کے پابند نہیں۔مگر یہ فضیلت نہیں،فرشتے بھی تو مادی قوانین کے پابند نہیں ۔اسی  طرح خود مادی اشیاء میں سے بہت چیزیں انسان سے بڑی ہیں۔جیسے آ سمان وزمین انسان سے سخت بھی ہیں۔جیسے پہاڑ ،ہیرا وغیرہ،اور بہت سی جانداراشیاء انسان سے طاقتور بھی ہیں۔جیسے ہاتھی وغیرہ تو یہ اشیاء کی اپنی خاصیتیں ہیں۔اس سے اُن کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی۔بلکہ یہ جملہ اشیاء انسان کےلئے کارفرما(مسخر) رہتی ہیں۔یہی انسان کی فضیلت کے لئے کافی ہے۔یہ بات کتنی اہم ہے کہ  جو چیز انسان کے مقصد حیات سے اُسے دور کرنے کی کوشش کرے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ قرار پائے۔ابلیس اور اُس کی ذریت اسی وجہ سے معلون ہے ۔شیطان یاجنات وملائکہ سے ایسی حرکات کی بناء پر فضیلت کامقابلہ مغالطہ ہے یہاں اصل مسئلہ نبی اورشیطان کا نہیں ۔چیزوں کی مختلف انواع کی جزئیات کی اہمیت دکھا کر انھیں انسان پر فضیلت نہیں دی جاسکتی۔ہر چیز کی اپنی مخصوص کیفیتیں ہیں۔  چونکہ انبیاءؑ بہرصورت انسان ہوتے ہیں اس لئے کفار نے بھی اُن کے کھانے پینے کی عادات سے مغالطہ دیا۔جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے انسانوں میں سے ہی انبیاءؑ بھیج کر ہم پر احسان فرمایا۔ورنہ ہم ان کی پیروی نہ کرسکتے۔کیونکہ وہ ہماری خاصیتوں سے بالا تر ہونے کی بناء پر ہمارے لئے اُن کے اعمال بجا لانا ممکن نہ ہوتا۔اسی وجہ سے احسن الخالقین کی یہ عجیب قدرت ہے۔کہ وہ انبیاءؑ کو انسانوں سے ہی منتخب کرتا ہے۔لیکن اُن کا حقیقی تعلق ا پنے ساتھ یوں جوڑتا ہے کہ وہ اللہ کے نمائندے بن کر معصوم بھی ہوتے ہیں۔لہذا ان کی اتباع غیر مشروط ہوتی ہے۔

اس مغالطے کو دورکرنے کے لئے ہم نے اس نکتہ کی کچھ تحلیل کردی ہے۔ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناضر ہونے سے جو جسمانی طور پرہر جگہ موجود رہنے کی مراد لی جاتی ہے اگر یہ تسلیم کر لی جائے۔تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت اللہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک معراج کاکوئی معنی نہیں رہتا۔اسی طرح مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت بھی نہ ہوئی۔وغیرہ وغیرہ۔در اصل ذو معنی الفاظ بول کر جاہل عوام کو دھوکا دیاجاتا ہے اور اس سے ہر جگہ موجودگی اور عالم الغیب ہونے کے عقائد کشید کئے جاتے ہیں۔ان پر مفصل کتابیں موجود ہیں۔ماہنامہ "محدث"لاہور میں سے ایسے تفصیلی مضامین موقع کی مناست سے شائع بھی ہوچکے ہیں۔زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں ۔البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناضر رہنے کا اگر یہ مفہوم لیا جائے کہ زندگی میں کسی عمل کو کرتے ہوئے ہروقت اور ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانمونہ سامنے رہنا چاہیے۔ تو حاضر کے معنی درست بھی بن جاتے ہیں۔لیکن ناضر(دیکھنے والا) پھر بھی درست نہ ہوا۔سوائے اس کے کہ اس سے مراد یہ لی جائے کہ قیامت کے روز لوگوں کے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیے جائیں گے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت دیں تاہم یہ سارے تکلفات ہیں۔جن سے بچنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ان الفاظ سے کی جائے جو اللہ نے قرآن میں کی ہے۔اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔وہی  ہمارے لئے کافی ہے۔اور اسی میں ہمارے فکر وعقیدہ کی سلامتی اور گمراہی سے نجات ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے فکر وعمل کو کتاب وسنت کے  مطابق بنائے۔آمین 



[1] ۔سورۃ الناس :6۔
[2] ۔سورۃ الکہف ۔50
[3] ۔سورۃ الانعام۔121۔
[4] ۔ سورۃ الکہف ۔50