غیر اھل کتاب کے ساتھ کھانا کھانے کا مسئلہ
موضوع زیر بحث کا سلسلہ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر مسلم اور غیر اہل کتاب کا جھوٹا کھانا پینا کسی مسلم کے لئے جائز ہے یا نہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم اور غیر اہل کتاب کا جھوٹا کھانے پینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بشر ط یہ ہے کہ وہ کھانا یا اشیاء مشروب حلال اشیاء سے تیار کیاگیا ہو،جس برتن میں اسے پکایا اور رکھا گیا ہو وہ دونوں پاک ہوں۔ یا کم از کم ان برتنوں کی نجاست کا علم نہ ہو۔جس غیر اہل کتاب شخص نے اسے کھایا پیا ہو وہ ظاہری وہ ظاہری نجاست حقیقی سے پا ک ہو۔ نیز بظاہر اس جھوٹے کھانے یا مشروب میں کوئی نجاست پڑی ہوئی نظر نہ آتی ہو۔اس حلت کی دلیل یہ ہے کہ ہرنبی آدم کا لعاب دہن بلا تفریق رنگ ونسل وبلا امتیاز دین ومذہب طاہر وپاک ہے۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب"بحرالرائق"میں مذکور ہے:
(عربی)
"آدمی کا لعاب دہن پاک ہے۔جس میں جنبی اور پاک حائضہ اور نفاس والی عورت چھوٹے اور بڑے مسلم اور کافر مذکر اور مؤنث کا کوئی فرق نہیں ہے۔یعنی سب پاک ہیں اور طہور اس کی عدم کراہت سے ہے۔"
اس طرح"فتاویٰ عالمگیری"میں ہے:
(عربی)
"آدمی کا لعاب پاک ہے،اس حکم میں جُنبی،حائض ،نفاس والی عورتیں اور کافر سب داخل ہیں۔"
اور دُر مختار میں ہے:
(عربی)
"انسان کا لعاب دہن مطلقاً پاک ہے،خواہ وہ جُنبی ہو یا کافر۔"
علامہ عبدالرحمٰن الجزیری ؒ بیان کرتے ہیں ،مالکیہ کا قول ہے:
(عربی)
"لُعاب وہ ہے جو منہ سے حالت بیداری اور خواب میں بہتا ہے اور یہ بلا نزاع پاک ہے لیکن جو معدہ سے خارج ہوکر منہ میں آتا ہے وہ نجس ہے۔"
اور حنابلہ کا قول ہے۔کہ پسینہ،بلغم اور تھوک سب پاک ہیں۔(الفقہ علی المذاہب الاربعہ الجزء الاول، صفحہ 6،طبع استانبول 1983ء)
مشہور مترجم وشارح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم علامہ مولانا وحید الذمان صاحب صحیح بخاری کے باب(عربی) "یعنی"تھوک اور رینٹ وغیرہ کپڑے میں لگنے کا بیان"کے فائدہ کے طورپر تحریر فرماتے ہیں:
"اس حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ آدمی کا تھوک پاک ہے اگر منہ میں کوئی نجاست نہ ہو اور یہی باب کا مطلب ہے اس حدیث کو خود امام بُخاریؒ نے کتاب الشروط میں وصل کیا ہے۔"الخ (تیسر الباری اُردو ترجمہ وشرح صحیح بخاری ج1 صفحہ 177 کتاب الوضوء طبع تاج کمپنی لمیٹیڈ کراچی)
جامعہ امام محمد بن سعود الریاض(سعودی عرب) کے استاذ شیخ عبدالعزیز محمد سلمان نے تمام انسانوں کے لعاب دہن کی طہارت اوراُس کے بہت سے دلائل اپنی کتاب (عربی) میں بیان کئے ہیں۔جو قابل مطالعہ ہیں۔(ملاحظہ ہوالاسئلۃ وال جوبۃ الفقیۃ المقرونۃ بالادلۃ الشرعیہ ،ج1،صفحہ 54۔55 طبع دہم الریاض)۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کو کفارومشرکین کے "نجس عین" ہو نے کا وہم غالباً قرآن کریم کے اس ارشاد باری تعالیٰ سے ہوا ہے:
(عربی)۔(سورۃ التوبہ۔28)
"مشرکین ناپاک ہیں"
حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے مُراد یہ ہے کہ مشرکین کی نجاست (الفظ مٹا ہوا ہے) ہے ۔نہ کہ ظاہری وجسمانی جیسا کہ تمام مفسرین متقدمین ومتاخرین نے بیان کیا ہے۔اپنے مؤقف کی تائید میں ہم ذیل میں چند مشہور مفسرین کی تفاسیر سے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔
اما م جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ:
"مشرکین اپنی باطنی خباثت کے باعث نجس ہیں۔"(قرآن کریم مع تفسیر جلالین علی العاش ۔صفحہ 15456،طبع مکتبۃ الشبیعۃ المصریۃ)
حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں:
"یہ آیت کریمہ مشرک کی نجاست پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ صحیح میں موجود ہے کہ:
(عربی)
"مشرک کے بدن کی نجاست کے متعلق جمہور کا قول ہے کہ ان کا بدن،اور ذات نجس نہیں ہے ۔"چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا طعام حلال قرا ر دیا ہے۔لیکن بعض اہل ظاہر اُن کی جسمانی نجاست کے بھی قائل ہیں۔اشعث نے حسن سے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی مشرک اُن سے مصافحہ کرلیتا تو وہ وضو کرتے۔"(تفسیر ابن کثیرؒ صفحہ 346 پ10 ع9 وکذافی تفسیر ابن جریر)۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ مرحوم فرماتے ہیں:
"ناپاک ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ بذات خود ناپاک ہیں۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے اعتقادات ،اُن کے اخلاق،اُن کے اعمال اور اُن کے جاہلانہ طریق زندگی ناپاک ہیں۔الخ"
(تفہیم القرآن ج2 صفحہ 187،حاشیہ 25 طبع ادارہ ترجمان القرآن لاہور نومبر 1984ء)
مولانا اشرف تھانوی مرحوم نے بھی اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے:
"مشرک لوگ(بوجہ عقائد خبیثہ)نرے ناپاک ہیں الخ۔"(تفسیر وترجمہ اختصار شدہ باین القران صفحہ 172 طبع تاج کمپنی لیمٹیڈ لاہور وکراچی)
اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ فرماتے ہیں:
(عربی)
"یعنی وہ بذات خود نجس نہیں ہیں۔"(عون المعبود ج1،صفحہ28 طبع دہلی وملتان)
علامہ عبدالرحمٰن الجزیریؒ فرماتے ہیں:
(عربی)
(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ج1،صفحہ6،طبع استانبول)
"اللہ تعالیٰ کا قول کہ مشرکین نجس ہیں،سے مُراد معنوی نجاست ہے کہ جس کا حکم شارع نے بیان کیا ہے اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ مشرک کی ذات بھی خنزیر کی ذات کی طرح ناپاک ہے۔"
فقہ حنفی کی مشہور کتاب"بحرالرائق" میں مذکور ہے:
(عربی)
"اللہ تعالیٰ کا قول کہ مشرکین نجس ہیں،سے مُراد اُن کے اعتقاد کی نجاست ہے۔"
چنانچہ اما م حنیفہ ؒ کے ایک مشہور شاگر امام محمد ؒ غیر مسلمین کے متعلق یہاں تک فرماتے ہیں کہ:
(عربی)
"اگر کوئی غیر مسلم غسل کے بعد قرآن کریم کو چھوئے تو یہ جائز ہے۔نیز قرآن کریم کی تحفیظ بھی غیر مسلم کے لئے جائز ہے۔"
امام محمد ؒ کے اس قول سے واضح ہوتا ہے۔کہ غیر مسلم کی نجاست محض اعتقادی اور معنوی ہے حقیقی جسمانی اور ذاتی نہیں ہے۔یہی بات اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد حقانی(عربی) یعنی ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایا۔"کی متقاضی بھی ہے۔
اب اختتام پر ڈاکٹر صاحب کی محولہ تقریر وگفتگو کی مصدقہ ر پورٹ کے بعض جملوں پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈالتا چلوں:
"جہاں تک"سعودی عرب میں تارکین وطن" کے مختلف "کیمپوں میں ،ہندوؤں کے ساتھ یا ہندو باورچیوں کا تیار کردہ کھانا برداشت کرنے کے اس مسئلہ کی اہمیت کا تعلق ہے ۔یا جس کے باعث متعدد بار پاکستانی حضرات کو ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑ اہے۔ وہ سرے سے کوئی اہم یا غیر اہم مسئلہ ہی نہیں ہے۔جیسا کہ ا وپر شرعی دلائل کے ساتھ واضح کیا جا چکا ہے۔جہاں تک باشندگان"اسلامی جمہوریہ پاکستان" کی غالب ا کثریت میں اسی فکر کے پائے جانے کا تعلق ہے۔تو یہ اُن کی دین ومذہب کی تعلیمات سے لا علمی ،بیجا تنگ نظری اور تعصب کی غمازی کرتا ہے۔جس کا غالب عامل دین ومذہب کے ساتھ وابستگی سے کہیں زیادہ ماضی کے تلخ سیاسی وملکی حالات اور شخصی تہی دامنی کا احساس شدید ہے۔مخلصانہ طور پرعرض کرتا ہوں۔کہ ان حالات میں عوام کے پیش نظر بحیثیت سچے مسلم کے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد رہنا چاہیے:
(عربی)
"عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور ان لوگوں کے مابین حجت ڈالدے جن سے تمہاری عداوت ہے۔اللہ تعالیٰ بڑی قدرت والا اور غفور ورحیم ہے۔"
تقریباً یہی مضمون ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عربی)
"اپنے دشمن سے بغض وعناد کسی قدر کم رکھو،ہوسکتا ہے کہ وہ(عدو) کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔"
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس فکرکو پھیلانے میں خود غرض سیاست دان حضرات نیز مفاد پرست اور نام نہاد علمائے سوء نے ہم زبان ہوکر ایک دوسرے کاساتھ دیا ہے۔چنانچہ اس ناجائز منافرت اور نہ جانے اس جیسی کتنی خرافات کا پروپیگنڈا (تشہیر) اس قدر وسیع پیمانے پر کیاگیا ہے۔کہ عوام کے نزدیک یہ باطل افکار ونظریات جزو ایمان جزو دین کا مقام پا چکے ہیں۔جو فی الواقع شریعت مطہرہ میں ادنیٰ سا مقام بھی نہیں رکھتے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
اس موقع پر مجھے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یا د آرہا ہے۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:
(عربی)
"جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے جو اس سے متعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔"
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
(عربی)
"اس سے مراددینی امر ہے۔"
حافظ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں:
(عربی)
"جس نے دین کے اندر کوئی ایسی چیز ایجاد کی جس کی اجازت اللہ تعالیٰ او ر اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دی ہو تو اُس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"اور (عربی)
"جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی،جو اس سے متعلق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔