دار الافتاء

1۔مسئلہ وراثت اور اس کا حل
2۔شرعی طور پرحق مہر کی کوئی  مقدار متعین ہے یا نہیں؟
1۔سوال۔ایک عورت کا انتقال ہوجاتا ہے جو اپنے پیچھے حسب ذیل ورثاء چھوڑ جاتی ہے۔ان میں جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟باپ۔ماں ۔بیٹا۔بیٹی۔خاوند جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
الجواب بعون الوھاب
صورت مرقومہ میں والدین میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے۔
قرآن مجید میں ہے:یعنی"میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے ترکہ میں سے  چھٹا حصہ ہے بشرط یہ کہ میت کی اولاد ہو۔"
نیز بیٹے اور بیٹی کے درمیان جائداد(عربی)کے اصول کے تحت تقسیم ہوگی۔یعنی لڑکے کو لڑکی کی نسبت دوگنا حصہ ملے گا۔
اور صورت مسئولہ میں خاوند کے لئے چوتھا حصہ ہے۔کیونکہ میت  کی اولاد موجود ہے۔قرآن مجید میں ہے:یعنی اگر عورتوں کی اولاد موجود ہے تو خاوندوں کے لئے ان کے ترکہ میں سے چوتھا حصہ ہے۔تقسیم ہذا وصیت کے نفاذ یاقرض کی  ادائیگی کے بعد ہوگی۔باپ۔2۔2۔ماں۔6۔2۔بیٹا ۔5۔10۔بیٹی۔5۔5۔خاوند 9۔3۔(حافظ ثناء اللہ مدنی)

سوال۔2۔شرعی طور پر حق مہر کی کوئی مقدار مقرر ہے یا نہیں؟اگر ہے تو کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں!

الجواب بعون الوھاب

واضح ہو کہ شرعاً حق مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں بلکہ اس کی تعین ہر شخص کے حسب حال ہے ۔کوئی شخص جو بھی مقدار باآسانی وبسہولت ادا کرسکتا ہے،مہر مقرر کرلے۔شرعا ً کوئی مانع نہیں۔چنانچہ:

1۔المغنی لابن قدامہ ج6 ص680 پر ہے:

کہ "مہر کی تھوڑی یا زیادہ کوئی مقداار متعین نہیں۔"

2۔ہدایتہ المجتہد میں ہے کہ:"فقہاء کااس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی حد نہیں۔البتہ مہر کی کم از کم مقدار میں اختلاف ہے۔"(ج2ص21)

2۔المیزان الکبریٰ للشعرانی (ج2ص116۔کتاب الصداق) میں ہے:

یعنی امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کے نزدیک مہر کی کم از کم مقدار متعین نہیں ہاں البتہ امام ابو حنیفہ ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک متعین ہے۔اور تعین کے لئے وہ فرماتے ہیں کہ جس نصاب کے چوری کرنے پر چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔وہ مقدار کم از کم مہر ہو۔البتہ اس کی تعین میں ان دونوں کا اختلاف ہے۔اما م ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک یہ مقدار ایک دینار یادس درہم ہے اور امام مالک ؒ کے نزدیک تین درہم یا ¼ دینار۔

4۔جامع الترمذی (ص211/1 باب(عربی) میں ہے:کہ "سفیان ثوری ؒ اور امام شافعی ؒ کے قول کے مطابق مہر کی وہ مقدار ہے۔جس پرفریقین راضی ہوجائیں۔"

ہماری تحقیق کے مطابق یہ قول  راحج اور اقرب الی الصواب ہے۔کیونکہ اس کی تائید احادیث شریفہ سے ہوتی ہے۔اور جو تعین کے اقوال ہیں ان کی تائید میں کوئی صحیح حدیث وار دنہیں۔

اب ہم ان دلائل کا ذکر کرتے ہیں جن کی روشنی میں علماء وفقہاء امت مہر کی مقدار کی عدم تعین کافتویٰ دیتے ہیں

1۔حضرت سہل بن سعد   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا بیان ہے کہ ایک عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور کہا"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،میں اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کرتی ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور بیٹھے رہے۔وہ بھی بیٹھی رہی۔ایک صحابی   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کھڑے ہوئے اور فرمایا"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم"اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا!"تیرے پاس کچھ ہے؟" اس نے کہا،نہیں"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"جا اور تلاش کرکے لا۔"وہ گیا اورخالی ہاتھ لوٹ آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"جا کچھ تو لا۔خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔"وہ آیا اور بولا"یا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ بھی نہیں ملا۔میرے پاس صرف ا یک چادر ہے۔آدھی اسے دے دوں گا۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اگر تو یہ چادر پہنے گا تو یہ بغیر چادر کے رہے گی اور اگر یہ پہنے گی تو تجھ پر نہ رہے گی۔"اس پر وہ نا اُمید ہوکر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا لیا اور پوچھا ! کیاتجھے قرآن زبانی یاد ہے؟"اس نے کہا جی ہاں فلاں فلاں سورتیں مجھے زبانی یاد ہیں۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،"جا تجھے جتنا قرآن یاد ہے اس کے بدلے تجھے اس کا مالک بناتا ہوں(یعنی تمہارا اس سے نکاح کرتا ہوں۔تم  اسے قرآن سکھا دینا۔)"

پس اس حدیث سے معلوم ہو ا کہ تعلیم قرآن بھی بطور حق مہر جائز ہے۔

2۔احادیث میں آیا ہے کہ ابو طلحہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اُم سلیم  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو نکاح کاپیغام بھیجا تو ام سلیم  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے کہا،مجھے لوگوں میں  تم جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آیامگر ایک رکاوٹ ہے۔میں مسلمان ہوں اور تم کافر ہو اس لئے میں تمہارے نکاح میں نہیں آسکتی۔ہاں اگر تم مسلمان ہوجاؤ اور اسلام قبول کرلو تو یہی میرا مہرہوگا اور میں اس کےعلاوہ کوئی چیز بطور حق مہر طلب نہیں کروں گی۔"چنانچہ ابو طلحہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   مسلمان ہوگئے اوریہی چیز حق مہر قرار پائی۔(دیکھئے مصنف عبدالرزاق ج6 ص179 سنن نسائی)

معلوم ہوا کہ نکاح میں مالی حق مہر ہونا ضروری نہیں ۔اس قسم کے شرط کےعوض بھی نکاح جائز ہے۔

3۔سنن ابی داؤد میں ہے:

کہ"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم،جو شخص مٹھی بھر ستو یا کھجور بطور حق مہر اداکردے تو وہ عورت اس کے لئے حلال ہے۔"

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حق مہر کے لئے دس درہم تین درہم دو درہم  وغیرہ کی کوئی قید نہیں

4۔اسی طرح جامع الترمذی میں حضرت عامر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بن ربیعہ کا بیان ہے:

"عامربن ربیعہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں کہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے جوتوں کے جوڑے کے عوض نکاح کرلیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا۔کیا تو اپنی جان اور مال کے بدلے نعلین پر راضی ہے؟"اس نے کہا"ہاں"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس  نکاح کو جائز  قرار رکھا۔یہ واقعہ دال ہے کہ جوتوں کے جوڑے کے عوض بھی نکاح جائز ہے۔

زیادہ سے زیادہ حق مہر کی بھی کوئی تعین نہیں!

ابو عبدالرحمٰن السلمی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا،"عورتوں کو حق مہر زیادہ نہ دیا کرو"اس پر ایک عورت بولی،"امیر المومنین   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   آپ کے لئے یہ قد غن لگانا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں:

کہ"اگر تم انھیں ڈھیروں مال بھی دے دو تو  واپس لینا تمہارے لئے حلال نہیں۔"

یہ سن کر حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا کہ"ایک عورت نے عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے جھگڑا کیا۔اور وہ عمر پرسبقت لے گئی۔"(مصنف عبدلرزاق 180/6)

کم از کم مقدار کی روایات کی استنادی حیثیت:

مہر کی کم از کم مقدار کے بارے میں دارقطنی ؒ کتب میں حضرت جابر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی روایات ہیں۔اسی طرح حضرت علی    رضی اللہ تعالیٰ عنہ    وغیرہ سے موقوف روایات بھی مروی ہیں۔لیکن ان سب کی سندوں پر کلام ہے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی 245/3)

حق مہر ضرور ادا کرنا چاہیے:

چونکہ مرد نکاح کرتے وقت حق مہر کی ادا ئیگی کا اقرار کرتا ہے اس لئے جو مقدار مقرر کی جائے لازماً ادا کرنی چاہیے حق مہر کاادا کرنا یا جبراً معاف کرانا درست  نہیں:

کہ جو شخص نکاح کرے اورحق مہر  ادا کرنے کی نیت نہیں تو وہ اللہ کے ہاں زانی شمار ہوتا ہے۔اسی طرح جوشخص کسی سے کوئی چیز خریدے اور اس کے دل میں قیمت ادا کرنے کا ارادہ نہیں وہ اللہ کے ہاں خائن شمار ہوتا ہے"

اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے معاشرے میں حق مہر ادا نہ  کرنے کی جوبُری رسم ہے۔وہ اللہ کے ہاں انتہائی بُری اور مذموم ہے اس سے اجتناب لازم ہے۔خلاصہ یہ کہ شرعی طور پر مہر کی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تعین نہیں۔ہر شخص اپنے حسب حال جو مقدارآسانی سے اد ا کرسکے مقرر کرلے۔ہاں جو متعین اور مقرر کرلے اس کی ادائیگی ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ  ہم سب کو حسن عمل کی توفیق سے نوازیں۔آمین!