عورت ،پردہ اور اسلامی تعلیمات پروفیسر وارث میر،معرفت روزنامہ"جنگ"کے نام!
پروفیسر صاحب کے نزدیک کتا ب وسنت کی حیثیت اور اسلام میں"اجتہاد وتعبیر کا تصور"ان کی مندرجہ ذیل عبارات سے واضح ہے:
1۔وضاحتوں والے مضمون میں آپ اپنے پہلے مضمون کے تبصرہ نگاروں سے شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ان میں سے بعض نے دلیل سے بات کرنے کی بجائے تہدید وترہیب اور سب وشتم سے بھی کام لیا ہے۔اورچند ایک نے ایسی معروف روایات کی معلوم تشریحات کو دوہرایا ہے۔جن سے عورت کو ڈھانپ کر رکھنے برقعہ پہننے اور گھونگھٹ نکالنے کے موقف کی حمایت کا پہلو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔افسوس ان میں سے کسی معترض نے موجودہ سماجی حالات اورہرآن تیزی سے پیدا ہوتے اور بدلتے حقائق کے دباؤ کا قطعاً کوئی ذکر نہیں کیا۔"
2۔(پردے کے بارے میں قرآنی احکامات پرغورکرتے ہوئے)نزول آیات کے زمانے اورآج کے زمانے کے معاشرتی مقتضیات کو پیش نظررکھنا پڑے گا۔کہ یہ احکام کیوں نازل ہوئےان کے اخلاق کی ظاہری صورت کیابنتی تھی۔اور آج ان احکام کی غرض وغایت کو عملی طور پر کونسی شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے!"
3۔اگر قرآن کی تفسیر میں صرف روایات کی مدد سے تشکیل فکر کو محکم مان لیا جائے تو پھر "گھروں میں ٹک کر رہو"کے حکم کو صرف امہات المومنین رضوان اللہ عنھمااجمعین تک محدود رکھنا پڑے گا۔اور اس موقف سے انحراف کرنے والوں کو جھٹلانا مشکل ہوجائے گا۔"
4۔اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہنے اور گزشتہ زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار سے احتراز کی ہدایت کرنےوالی آیت ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔اور جن اسباب کی بناء پرآیات ان کے حق میں اتریں۔کسی زمانے میں وہ اسباب اگر ختم ہوجائیں تو عام مسلمان عورتوں کو گھر سے باہر کی زندگی میں حصہ لینے سے روکنا منشائے خداوندی کے خلاف ہوگا۔"
5۔اب ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ بیسوی صدی میں جدید زندگی کے مختلف شعبوں میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرتے ہوئے "استثنائی صورت" کی حکمت عملی سے استفادہ کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے یا نہیں؟کیا اس سلسلے میں اجتہاد کے دروزے کھولے جاسکتے ہیں؟
۔۔۔عورت کے ستر کا بنیادی مقصد عورت کی پاکیزگی اور عفاف کی حفاظت ہے اور اس کاایک طریقہ پردہ بھی ہے۔یہ مسئلہ دنیاوی ہے اور اسی لئے پردے کی شکلیں ہرملک میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔اور وقت کے ساتھ ساتھ عورت کا ذہنی افق بھی پھیلتا جاتا ہے۔صحیح اسلامی اور اورفلاحی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ عورت کے اس فکری سفر میں اس کا پورا پورا ساتھ دے!"
6۔"اولیں بات تو یہ طے کرنے والی ہے کہ موجودہ زمانے کے کسی کھیل میں شرکت کرنے سے قرآن حدیث صحابہ یافقہاء میں سے کسی نے انہیں منع کیا ہے؟اگر نہیں تو پھر اس مسئلے کو زبردستی قرآن وسنت سے منسلک کرنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔یہ مسئلہ سراسر اختیاری ہے۔اور ہم نے اسے قومی اور بین الاقوامی تمدنی وتہذیبی اقدار کے مطابق خود حل کرنا ہے!"
پروفیسر صاحب نے اپنی ان عبارات کو بغور پڑھیں اوراس کے ساتھ ہی ساتھ آنجہانی غلام احمد پرویز کی کسی تحریر کا مطالعہ بھی فرمائیں۔پھر فکر ونظر اورعقائد کا جو تفاوت انہیں ہردو تحریروں میں نظرآئے۔اس سے ہمیں بھی مطلع فرمائیں ہم ان کے شگر گزار ہوں گے۔
پروفیسر صاحب اگریہی باتیں ایک مبتدی کی حیثیت سے افہام وتفہیم کی خاطر کرتے تو ہم انہیں معذور خیال کرتے۔لیکن طرفہ یہ کہ بریں عقل ودانش انہو ں نے تحکمانہ لب ولہجہ بھی اختیار فرمایا ہے یعنی ایک کریلا دوسرے نیم چڑھا!"
مثلاً ایسی ہی باتوں کوانہوں نے"قرآن وحدیث کی تعلیمات میں سے متحرک اور انقلاب انگیز نکات تلاش کرنے سے تعبیر فرمایا ہے۔(حالانکہ قرآن حکیم کی تمام کی تمام تعلیمات انقلابی ہیں)اور اہل علم پر"دین کو بے حرکت ۔جامد اور قصے کہانیوں کاگورکھ دھندا بنانے "کاالزام لگایا اور ان کے ا س طرز عمل کو"ان کی پیشہ وارانہ اور سیاسی ضروریات کے عین مطابق"قرار دیا ہے نیز یہ سوال اٹھایا ہے کہ "کیا ہمارے مذہبی حلقے اس قابل ہیں کہ ان"اونچی"باتوں تک پہنچ سکیں؟"جبکہ خود پروفیسر موصوف بے چارے کتا ب وسنت اوراجتہاد وتعبیر کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں ورنہ مذکورہ بالا"اونچی"باتیں کرنا تو درکنار،انہیں یہ مضمون ہی لکھنے کی ضرورت پیش نہ آتی!
دین اسلام ایک مکمل دین عالمگیر اور ہمہ گیر ضابطہ حیات ہےیہ آج سے چودہ صدیاں قبل مکمل ہوا اورکتاب وسنت میں مکمل جوں کا توں رہتی دنیا تک موجود رہے گا۔جس پر مندرجہ ذیل آیات قرآنی شاہد ہیں:
کہ"آج کے دن میں نے تمہارادین تمہارے لئے مکمل کردیا اپنی نعمت کاتم پراتمام کردیا اور میں نے دین اسلام کوتمہارے لئے پسند فرمالیا ہے!"
سورۃ توبہ میں فرمایا:"کفار یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں۔حالانکہ اللہ رب العزت کو اس سے یکسر انکار ہے ۔وہ اپنے نور کو پورا کرےگا۔خواہ ان لوگوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔وہ اللہ کہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اورسچا دین دے کر بھیجا وہ اس دین کو دیگر تمام ادیان پرغالب کردے گا خواہ مشرکین کو یہ بات کیسی ہی نہ پسند ہو!"
۔۔۔پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرموقع محل کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوتا رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وعمل سے اس کی تعلیم وتبیین فرماتے رہے۔تاآنکہ قرآن مجید مکمل ہوگیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم د نیاسے تشریف لے گئے اوروحی الٰہی کاسلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہوگیا۔
لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تاقیامت باقی رہناتھا اور اس کی راہنمائی بھی مطلوب تھی ایسی راہنمائی جو ہر دور میں اس کے جملہ مسائل حل کرسکے زمانہ خواہ ترقی کرکے سائنسی دور کہلانے لگے۔یا انسان پس ماندہ ہوکر پتھر کے دور میں واپس چلا جائے۔شریعت اسلامی کی ابدیت اور ہمہ گیری کایہ تقاضا ہے کہ جب بھی ہمیں کوئی الجھن پیش آئے۔شریعت سے ہماری راہنمائی ہوجائے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنی امت کو یہ وصیت فرمائی:کہ"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں جن کو اگر تم نے مضبوطی سے تھامے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے اوردوسری اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت!"
لہذا یہ ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو ابدیت حاصل ہو تاقیامت ہمیں کسی دوسری شریعت اور کسی دوسرے نبی کی ضرورت پیش نہ آئے۔یہ شریعت غیر متبدل بھی ہوورنہ نت نئی تبدیلیوں سے اپنی حاصل شکل میں اس کا قائم ر ہنا محال تھا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ شریعت محمدیہ(صلی اللہ علیہ وسلم)ہر دور میں ہماری راہنما ہو!
چنانچہ امام ابن تیمیہ ؒ کا ایک رسالہ:اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کےاصول اور فروع سب کےسب کتاب وسنت میں بیان فرما دیے ہیں۔ورنہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خود قرآن مجید جس کے کتاب ہدیٰ ہونے پر ہم سب کا ایمان ہے ایک اچنبھا بن کر رہ جائے۔مثلاً قرآن مجید کی یہ آیات کہ:کہ"اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی (اصل دین) ہے"۔۔۔اور جس نے دین اسلام کے علاوہ کوئی اوردین ڈھونڈا وہ اس سے ہرگز (ہرگز) قبول نہیں کیا جائے گا!"
اب اگر دین اسلام صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے تقاضے پورے کرسکتا تھا۔تو ہمارے دین کا کیا بنے گا؟۔۔۔اور بعد میں دین کے نام پر جس چیز کو ہم اختیار کریں گے۔کیا وہ اللہ رب العزت کے ہاں مقبول ہوگی؟یقیناً نہیں!۔۔۔تو پھر کیا بات معاذ اللہ ہم پرظلم کے دائرے میں نہ آئےگی۔کہ کچھ لوگ توایسے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان موجود تھے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی راہنمائی فرماتے تھے۔لیکن ہمیں یوں ہی محروم چھوڑ دیا گیا؟کیایہ صورتحال کسی دوسرے نبی کی احتیاج ظاہر نہیں کرتی۔اور کیا اس صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا کوئی تصور باقی رہے گا؟علاوہ ازیں اس صورت میں اس آیت کا مطلب کیا ہوگا؟
کہ"اللہ نے مومنوں پر ان میں اور انہی میں سے ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کرکے احسان فرمایا،جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا ہے۔ان کاتذکیہ نفس کرتا ہے۔اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔جبکہ اس سے قبل وہ صریحاً گمراہی میں مبتلا تھے!"
اب اگر یہ فرض کرلیاجائے کہ دین اسلام صرف صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور کے مسائل حل کرسکتا تھا۔تو اس آیت کی روشنی میں ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مومن بھی صرف یہی لوگ تھے۔اور اللہ کا یہ احسان صرف انہی لوگوں پرتھا بالفاظ دیگر کلمہ(عربی)بھی صرف انہی لوگوں کا کلمہ تھا۔ہمارے اس کلمہ پڑھنے کے کوئی معنی ہی نہیں اور نہ ہمیں اس کی ضرورت!حالانکہ یہ غلط ہے!۔اورصحیح یہ ہے کہ شریعت اسلامی د ائمی اورغیرمتبدل ہے۔اور آج کے اس سائنسی دورکے نت نئے مسائل کا حل بھی ہمارے لئے کتاب وسنت میں ہی موجود ہے!البتہ ان میں سے بیشتر مسائل کا حکم تو کتاب و سنت میں صراحتاً موجودد ہوگا۔اور بعض مسائل ایسے بھی ہوں گے کہ جن کی صراحت اگرچہ کتاب وسنت میں نہ ہوگی۔تاہم کتاب وسنت ہی سے منشاء الٰہی کی ایسی تلاش ممکن ہوگی جو ان مسائل کاحل پیش کرسکے۔مؤخر الذکر صورت میں"پیش آمدہ مسائل کاحل کتاب وسنت سے تلاش کرنے"ہی کا نام اجتہاد ہے۔یا ہم اسے"کتاب وسنت کی تعلیمات کا پیش آمدہ مسائل پر اطلاق"کا نام دے سکتے ہیں۔اور جو ظاہر ہے کتاب وسنت پرعبور رکھنے والوں اور ان میں اپنی زندگیاں کھپا دینے والوں کا کام ہے۔نہ کہ پروفیسر صاحب ایسے محض قلمکار صحافیوں کا!لہذا پروفیسر صاحب کا یہ فرمانا ان کی شدید جہالت پرمبنی ہے کہ:
"(اجتہاد کے سلسلہ میں)ہر شخص نے اس نہ ختم ہونے والی بحث میں پناہ لینے کی کوشش کی کہ اجتہادکرنے کی صلاحیت کس میں ہے؟۔۔۔
اس دوران متعدد ایسے مواقع پیدا ہوئے جب اجتہاد کی اشدضرورت محسوس کی گئی لیکن کسی بھی سطح پر کسی وزیرمشیراور بااختیار شخص میں اجتہاد کی جرائت اور حوصلہ پیدا نہ ہوا!"
مزید پروفیسر صاحب یہ یا درکھیں کہ کتاب وسنت کے صریح احکام پر ایمان لانافرض ہے۔یہی معنیٰ ہے۔(عربی)کا اوریہی مفہوم ہے"(عربی)" کا!۔۔۔جبکہ اس سے انحراف کفر ہے۔اور اس کی سزا جہنم :کہ"جس نے ہدایت کی تلبیین کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کی اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کسی دیگر راہ پر چلا ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے۔جدھر اس نے منہ اٹھا لیا ہے۔(پھر بھی نہیں بلکہ)ہم اسے جلنے کے لئے جہنم میں بھی داخل کریں گے۔جو بہت ہی بُری جگہ ہے۔"
البتہ جہاں تک اجتہاد کاتعلق ہے۔تو اولاً یہ کتاب وسنت کے صریح احکام میں نہیں ہوگا۔ثانیاً اس کی حیثیت کتاب وسنت کے فہم کی ہے خود کتاب وسنت کی نہیں!یہی وجہ ہے کہ شریعت صرف کتاب وسنت ہے۔اس کافہم وفقہ شریعت نہیں ورنہ متعدد فقہوں کی بناء پر متعدد شریعتوں کا ہونا لازم آئے گا۔جبکہ شریعت صرف ایک ہے!اسی سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔کہ ہم کسی بھی ایک یاتمام فقہوں کے پابند اور مکلف نہیں۔فقہاء کی آراء دین کے فہم میں ہماری معاون ضرور ہوتی ہیں۔اور ہم ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔لیکن یہ ہمارے لئے حجت نہیں!ہمارے لئے حجت صرف اور صرف کتاب وسنت ہے اور اسی کے ہم پابند اور مکلف!
ہماری ان گزارشات کو پروفیسر صاحب بغور پڑھیں۔ساتھ ہی ساتھ اپنے پورے مضمون کو ملاحظہ فرمائیں۔اور پھر ہمیں بتائیں کہ ان کےاس "معرکۃ الآراء" مضمون کی کوئی حیثیت یاضرورت باقی رہ جاتی ہے؟پروفیسر صاحب اگر واقعی دانشور ہیں تو ہمیں امید ہے کہ ان کا جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ورنہ عقل ودانش کو بجا طور پر ان سے یہ شکوہ ہوگا۔کہ پروفیسر صاحب نے ناجانے انکا ساتھ کیوں چھوڑدیا ہے؟اس صورت میں ہم ان کی توجہ ان کے مندرجہ ذیل نکات کی طرف مبذول کروائیں گے۔
1۔آپ نے لکھاہے کہ:
"ان (معترضین) میں سے چند ایک نے ایسی معروف روایات کی معلوم تشریحات کودوہرایا ہے۔جن سے عورت کو ڈھانپ کررکھنے برقعہ پہننے اور گھونگھٹ نکالنے کے موقف کی حمایت کا پہلو تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے!"
۔۔۔چنانچہ اگر یہ بات درست ہے تو پروفیسر صاحب کو واقعی "عورت کو ڈھانپ کررکھنے برقعہ پہننے اورگھونگھٹ نکالنے کے موقف "کا قائل ہوجانا چاہیے۔کیونکہ معروف روایات (فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کایہی تقاضا ہے۔۔فرمایا اللہ رب العزت نے:کہ"کسی بھی مومن مرد اور مومن عورت کے یہ لائق نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی امر کافیصلہ فرمادیں تو پھر بھی یہ لوگ اپنا کوئی اختیار اس سلسلہ میں باقی رکھیں۔چنانچہ جو شخص اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو وہ صریحاً گمراہی میں مبتلا ہوگیا!"
۔۔۔اور پروفسیر صاحب کی خدمت میں اطاعاً عرض ہے کہ مذکورہ بالا آیت اسی صورت کی ہےجس میں پردے کے تفصیلی احکام مذکور ہیں!
مزید آپ نے لکھاہے کہ:
"افسوس ان میں سے کسی معترض نے موجودہ سماجی حالات اور ہر آن تیزی سے پیدا ہوتے اور بدلتے حقائق کے دباؤ کاقطعاً کوئی ذکر نہیں کیا!"
۔۔۔حالانکہ یہ حالات پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ کتاب وسنت کی تعلیمات کوچھوڑ رکھا ہے۔اگر ان تعلیمات کوپیش نظر رکھا جاتا تو یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے۔اور اگر پیدا ہوگئے ہیں تو بھی ان کا علاج کتا ب وسنت کی تعلیمات ہی میں مضمر ہے لیکن اس کی بجائے آپ نے پہلے سے ان تعلیمات سےبرگشتہ عورتوں کو اپنی لن ترانیوں سے مزید شہ دی ہےاورتہذیب اسلامی کا اسلام ہی کے نام پر حلیہ بگاڑنے کی ناپاک جسارت کی ہے ۔بہتر ہوتا کہ آپ اسلام کو ان کرمفرمائیوں سے معاف ہی رکھتے۔لیکن اگر آ پ نے یہ سب کچھ کر ہی ڈالا ہے۔اور اب بھی اس پرمصررہے تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ آپ کے"سماجی حالات اورہرآن تیزی سے پیدا ہوتے اور بدلتے حقائق کادباؤ"بڑھتا ہی جائےگا کم ہرگز نہ ہوگا۔اور پر ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ آپ اپنے تئیں مغرب کے اس غلیظ معاشرہ کا ایک فرد تصور کرنے پرمجبور ہوں گے۔جس سے آپ نے"سوبار الحذر"کی مصنوعی صدائیں بلند کی ہیں اور جس پر خودآج کا مغرب بھی چلااٹھا ہے۔!۔۔۔چنانچہ آج آپ نے شلوار قمیص پہن کر پاکستانی عورت کو کھیلوں میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے کل آپ کا"بدلتے حقائق کا یہ دباؤ"انہیں چست پتلونیں پہن کر کھیلنے کی اجازت دینے پر بھی آپ کو مجبو ر کردے گا۔لیکن جس کاعبرتناک پہلو یہ ہوگا کہ آپ ایسے دانشور اس وقت بھی کتاب وسنت سے اس کا حل تلاش کررہے ہوں گے۔اور علمائے دین کا یہ کہہ کر مذاق اڑارہے ہوں گے کہ"ان میں سے کسی نے موجودہ سماجی حالات اور ہرآن تیزی سے پیدا ہوتے اور بدلتے حقائق کے دباؤ کا قطعاً کوئی ذکر نہیں کیا!"
2۔آپ کی مذکورہ بالا عبارت نمبر 2(نمبر ہم نے لگایا ہے)کا جواب یہ ہے کہ معاشرتی تقاضےخواہ کچھ بھی ہوں کتاب وسنت جس طرح آج سے چودہ سو برس قبل ہمارے راہنما تھے۔آج بھی ہمارے راہنما ہیں۔اور غیر متبدل بھی لہذا آپ کو ان کےاحکام کی غرض وغایت کو کسی نئی شکل میں ڈھالنے کی ضرورت نہیں۔یہ من وعن بھی آپ کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ آپ ان کے احکام کی غرض وغایت کو اسی ذات باری تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے جس نے یہ دین ہمارے لئے پسندفرمایا ہے۔وہ کچھ کریں جس کے آپ مکلف ہیں۔اور جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔یعنی کتاب وسنت کی اتباع کریں۔اوران کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینا چھوڑدیں آپ کی مہربانی ہوگی!
3۔4۔آپ کی عبارات نمبر 3 توایک "شاہکار" ہے۔۔۔تضادات کا پلندہ اورصحیح معنوں میں الفاظ کا گورکھ دھندا۔۔۔۔بہتر ہوگا عبارت نمبر4 کو بھی ساتھ ملا لیں۔اور پھر دیکھیں کہ آپ نے پہلی غلطی اس میں یہ کی ہے کہ آپ نے"قرآن کی تفسیر میں صرف روایات کی مدد سےتشکیل فکر کو محکم مان لینے"پراظہار تعجب فرمایا ہے۔حالانکہ قرآن مجید کی صرف وہی تفسیر معتبر ہے۔جسے سنت کی تائید حاصل ہو۔ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ"جس نے قرآن مجید کی تفسیر اپنی رائے سے کی وہ اپناٹھکانہ جہنم میں بنالے!"
دوسری غلطی آپ نے یہ کی ہے کہ"قرآن کی تفسیر میں روایات کی مددسے تشکیل فکرکومحکم ماننا،تو الگ رہا خود قرآن مجید کی رو سے بھی گھروںمیں ٹک کر رہو"کا حکم امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین تک محدود نہیں ہے۔جبکہ آپ کو اندریں صورت اسے امہات المومنین رضوان للہ عنھمااجمعین تک محدودرکھنے کی مجبوری لاحق ہورہی ہے۔اس کے لئے کہ یہ حکم امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین کے علاوہ دوسری عورتوں کو بھی شامل ہے۔اور آیت میں عموم کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔قرآن مجید کا یہ مقام ملاحظہ ہو ارشاد باری تعالیٰ ہے:کہ"اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو۔پس(کسی اجنبی شخص سے) نرم لہجہ میں بات نہ کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید(نہ) پیداکرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔علاوہ ازیں اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور دور جاہلیت کا خاصہ یعنی گھروں سے بن سنور کر نکلنے سے پرہیز کرو۔نماز پڑھتی رہو۔زکواۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتی رہو۔اس آیت میں خطاب بلاشبہ نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم(امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین) سے ہے۔تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین کو بھی جو ایمان وتقویٰ کے لحاظ سے سب سے بہتر ہیں۔کسی اجنبی سے نرم لہجے میں بات نہ کرے گھروں میں ٹک کررہنے زیبائش ونمائش اور اپنی زینت اوراعضائے محاسن (مثلاً سر چہرہ گردن سینہ بازو اور پنڈلی وغیرہ)ان تمام اعضاء کو ظاہر نہ کرنےنیز نماز پڑھنے زکواۃ اداکرنےاور اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔تو عام عورتیں اس حکم میں بالاولیٰ داخل ہیں۔ورنہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذاللہ تبرج جاہلیہ صرف ازواج رضوان اللہ عنھما اجمعین النبی ؐ کاشعار تھا۔عام عورتوں میں جاہلیت کا یہ مرض نہیں پایا جاتا تھا۔یا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عام عورتوں کو تو بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا چاہیے۔اورغیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں۔تاہم ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔علاوہ ازیں نماز پڑھنے ۔زکواۃ ادا کرنے کا حکم بھی صرف ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین کے لئے خاص ہے۔اور اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی صرف وہی کریں۔کسی دوسری عورت کو اس کی اجازت نہیں!۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے؟رہی یہ بات کہ یہ خطاب نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں ہے؟تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین پر بھی پابندی لگا دی جائےگی تو عام عورتیں یہ سمجھ لیں گی کہ اس سلسلے میں وہ کسی بھی رو رعایت کی قطعاً مستحق نہیں ہیں۔۔امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین کی پاکیزہ زندگی ان کے لئے ایک مثالی نمونہ ہوگی۔ تو د وسری مسلمان خواتین فوراً اس کا اثر قبول کریں گی۔اور اس طرح ایک قابل رشک معاشرہ باآسانی وجود میں آجائے گا۔
تیسری غلطی آپ کی عبارت کی غلطی ہے۔چنانچہ اگر آپ اپنی عبارت (نمبر3)میں سے خط کشیدہ الفاظ"سے انحراف کرنے والوں" کو قلم زد کریں۔یا ان الفاظ کو"کے قائلین" کے الفاظ سے بدل دیں تو عبارت درست ہوجائےگی۔ورنہ یہ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی"والی بات ہے۔تعجب ہے آپ اس قدر بدحواسیوں کے باوجود بھی اجتہاد کرنے نکلے ہیں۔
چنانچہ چوتھی غلطی آپ نے یہ کی ہے کہ:
"اگر روایات کی مدد سے تشکیل فکر کو محکم مان لیا جائے تو پھر"گھروں میں ٹک کر رہو"کے حکم کو صرف امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین تک محدود رکھنا پڑے گا۔"
آپ کے یہ الفاظ اس بات کے غماذ ہیں کہ آپ اس حکم کو امہات المومنین رضوان اللہ عنھما اجمعین تک محدود رکھنے کے حق میں نہیں۔لیکن اس کے برعکس عبارت نمبر4 میں آپ نے یہ لکھ کر کہ"یہ آیت ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی تھی"اسے انہی تک محدود بھی کردیا ہے۔
پھر پانچویں غلطی آپ نے یہ کی ہے کہ اس حکم کو ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھما اجمعین کے لئے خاص کردینے کے باوجود آپ نے اس سے عام مسلمان عورتوں کو گھر سے باہر کی زندگی میں حصہ لینے سے روکنا منشائے خداوندی کے خلاف ہے!"
اور آپ کی چھٹی ٖغلطی یہ ہے کہ آج جبکہ یہ اسباب نہ صرف ختم نہیں ہوئے بلکہ اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔اورحالات کاشدید تقاضا یہ ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں جمع بیٹھی رہیں۔تو آپ نے عورتوں کو گھر وں سے نکلنے سے منع کرنے کی بجائے ان کے باہر نکلنے کی وکالت کیوں فرمارہے ہیں؟چنانچہ آپ ہی کے روزنامہ "جنگ"نے اپنی 12 ستمبر کی اشاعت میں ایک خبر کی سرخی یوں جمائی ہے کہ:
"پنجاب میں سات برسوں میں پندرہ ہزار افراد قتل ہوئے!"
پھر ضمنی سرخی میں لکھا ہے کہ:
"قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں ہوئیں۔"
جبکہ تفصیلی خبر میں اخبار مذکور نے لکھا ہے کہ:
"قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں جنسی تعلقات کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔جنسی تعلقات پر چار ہزار افراد قتل ہوئے۔"
اب آپ ہی یہ بتائیے کہ عورتوں کے گھروں سےباہر نکل کر مردوں کے دوش بدوش کا م نہ کرنے کی بناء پر پاکستان میں کتنے افراد بھوکوں مرے ہیں؟ ذرا اس کا بھی سروے کر ڈالیے!علاوہ ازیں ہمیں یہ بھی بتائیے کہ وہ کونسی آزادی ہے جو پاکستانی عورتوں کو حاصل نہیں اور جس کی بناء پر آپ انھیں گھروں سے باہر لے آنے کےلئے دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کئے ہوئے ہیں؟
نصف پاکستان کے صرف ایک صوبہ پنجاب میں سات برسوں کےدوران صرف ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں چارہزار افراد کاقتل ہوجاناج کوئی معمولی بات نہیں۔ظاہر ہے اس کا تدارک صرف حدود اللہ کی عمل داری کے ذریعے ممکن ہے۔لیکن کیا اس بات پر آپ کو تعجب نہ ہوگا کہ جس دین میں شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہو ۔غیر شادی شدہ زانی کی سزا کوڑے ہوں،حتیٰ کہ زنا کی محض جھوٹی تہمت لگانے والے کی سز ا اسی درے ہوں۔وہی دین اپنے معاشرے میں عورتوں اورمردوں کے آزادانہ اختلاط پر قطعاً کوئی پابندی نہ لگائے؟چنانچہ مسلمان عورتیں کونسلر بنیں۔پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوں۔بیرون خانہ سوشل سرگرمیوں میں دوڑتی پھریں۔سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر غیر مردوں سے میٹھی میٹھی باتیں کریں اور فارغ وقت میں ورکروں کےساتھ گب شپ لڑائیں کالجوں میں بے حیا لباس پہن کر نوجوان لونڈوں کے درمیان گھومیں پھریں۔۔۔
"بوائے "گرل فرینڈز" اور گرلز "بوائے فرینڈ تلاش کریں۔پھر سب ہی رشتے میں ایک دوسرے کے کزن ہوں۔نوجوان لڑکیا ں مردانہ ہسپتالوں میں زبردستی کی مسکراہٹیں پر سجائے نرسنگ کی خدمات انجام دیں۔اور "ایئر ہوسٹس" بن کر مسافر نوازی کے لئے استعمال ہوں۔پھر جب یہ آوارگیاں ناجائز جنسی تعلقات کی بناء پر ہزاروں افراد کے قتل پر منتج ہوں۔تو یہی دین اٹھ کر اپنے ماننے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینا شروع کردے۔
کیس کسی معاشرے پر اس سے بڑھ کر بھی ظلم ممکن ہے؟اور کیا یہ وہی دین فطرت ہوگا جسے آپ غیرمسلموں کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں؟زرا تاریخ پر نگاہ دوڑائیے اور بتائیے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ناجائز جنسی تعلقات کے کتنے کیس عدالت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہوئے؟۔۔۔صرف دو چار!۔۔۔چنانچہ اگر آپ کا مذکورہ"اسلام" ہی اس وقت بھی نافذ ہوتا،تو اعداد وشمار کیا اسی قدر فریادی ہوتے؟اور اگر صورتحال یہی ہے تو آپ نے اپنے اس"اسلام" کوکتاب وسنت سے کیسے پیش کرنا شروع کردیا ہے؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
ظاہر ہے دین اسلام کو دین فطرت کہلانے کےلئے ان کڑی اور عبرتناک سزاؤں سے قبل ایسے حالات بھی پیدا کرنا ہوں گے۔جن کی بناء پر کم از کم بلکہ نہ ہونے کے برابر مجرم ٹکٹکیوں پرصرف آخری چارہ کار کےطور پر پہنچ سکیں۔ورنہ یہ دین دین فطرت کہلانے کا حق دار نہ ہوگا۔اور نہ ہی ان کے احکام ان ارشادات ربانی کے مصداق کہ:
کہ"ہر قسم کی حمد وثنا اللہ ہی کو لائق ہے۔جس نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پریہ کتاب نازل فرمائی اور اس میں کسی طرح کی کجی اور پیچیدگی نہ رکھی بلکہ یہ بالکل سیدھی ہے۔تاکہ(لوگوں کو) اس عذاب سخت سے جو اللہ کیطرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے۔اور مومنوں کو جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ خوشخبری سنائے کہ انکے لئے(ان کے کاموں کا) اچھا بدلہ ہے۔(یعنی جنت) جس میں وہ ابد الاآباد تک رہیں گے!"
۔۔۔اپنے ایمان سے کہیے پروفیسر صاحب آپ کے اُس دین میں جو آپ نے روزنامہ "جنگ" کی سات قسطوں میں مسلسل پیش فرمایا ہے مذکورہ فکر آخرت کا کوئی شائبہ تک موجود ہے؟اور اگر نہیں تو یاد رکھئے کہ:
5۔اس بیسیویں صدی میں (بھی) جدید زندگی کے مختلف شعبوں میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے کا مطلب ہے کہ کتاب وسنت میں پردہ اور ستر وحجاب کے جوصریح احکام وارد ہوئے ہیں۔ان پر بلا چون وچرا عمل کیجئے اور"استثنائی صورتوں کی حکمت عملیوں سے استفادہ کرنے"کے بہانے نصوس قرآنی پر ہاتھ صاف نہ کیجئے!یہ اجتہاد نہیں ہے اور نہ ہی کتاب وسنت کے صریح احکام میں اس کی اجازت ہے!ویسے بھی آپ کا اجتہاد کتاب وسنت سے ٹکرانے بلکہ ان کاخاکہ اڑانے کادووسرا نام ہے۔ملاحظہ ہوآپ نے لکھا ہےکہ:
"یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغربی ممالک میں آباد مسلمان بچیوں کو برقعہ اوڑھنے کی تلقین کے کیا مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اور یہ رویہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کی کوششوں کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے!"
جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے:
"اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی بیٹیوں اور مسلمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ(باہر نکلا کریں تو) اپنے (مونہوں)پرچادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیاکریں۔یہ امر ان کے لئے موجب شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی ان کو ایزا نہ دے گا۔اور خد بخشنے والا مہربان ہے۔!"(ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری)
مفتی اعظم سعودی عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز حفظہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہی:
"جلابیب"جلباب کی جمع ہےجس کامعنیٰ وہ بڑی چادر ہے۔جو پردہ کے لئے عورت اپنے اوپر اوڑھتی ہے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کی عورتوں کو چادر اوڑھ کر اپنے محاسن ڈھانپنے کا حکم دیا ہے۔تاکہ ان کی عفت وپاکدامنی کو پہچانا جائے اور کوئی ذلیل ناجائز طمع نہ رکھے۔یعنی بال اورچہرہ وغیرہ ڈھانپ کررکھیں۔تاکہ خود بھی فتنہ سے محفوظ رہیں اور دوسرے بھی اس قسم کے فساد سے محفوظ رہیں۔"(اردو ترجمہ"مسائل الحجاب والسفور ازسماحۃالشیخ)
عورت کا چہرہ پردے میں داخل ہے یا نہیں،اس بحث کو آگے چل کرہم مستقل حیثیت دیں گے۔ان شاء اللہ ! کیونکہ یہی ایک موقف پروفسیر صاحب نے اپنے دوسرےمضمون میں کھل کر اپنا یا ہے۔اور اسی سےانہوں نے اسلامی اخلاق واقدار سے تمام تر بغاوتوں کی راہیں ہموار کرنے کی سعی ناتمام ونامشکور فرمائی ہے!۔۔۔فی الحال ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ جلباب اوڑھنے کا حکمدیا ہے یا نہیں؟۔۔۔اس کو آپ بڑی چادر کا نام دے لیجئے جوعورت پردے کی خاطر اپنے لباس کے اوپر اوڑھ لیتی ہے۔یا اسے برقعہ کہہ لیجئے پھر برقعے سفید بھی ہوتے ہیں۔کالے بھی ،خاکی بھی،اس کی کسی خاص شکل پر بھی ہمیں اصرار نہیں ہے!۔۔۔لیکن جب قرآن مجید نے واضح حکم اس کے اوڑھنے کا دیا ہے۔تو پھر یہ مسئلہ پروفیسر صاحب کے نزدیک دنیا وی کیسے ہوگیا؟کیا صرف اس لئے کہ"برقعے کی شکلیں ہر ملک میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔؟ پروفیسر صاحب کو شائد معلوم نہیں کہ کوئی مسئلہ دینی ہے یا دنیوی خود اس بات کا علم بھی ہمیں کتاب و سنت سے ہی ہوگا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی لباس پہنا۔جس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ قومی اور علاقائی لباس شریعت نہیں ہوتے۔البتہ اس سلسلے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں۔مثلاً
کہ" جس نے کسی (غیر) قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگا۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ لباس بہرحال شریفانہ اوراسلامی اقدار کا حامل ہونا چاہیے۔اور جو ستر وحجاب کے تقاضوں پر پورا اتر سکے۔یعنی ایسا نہ ہوکہ خود برقعے ہی فحاشی وعریانی کے چلتے پھرتے اشتہار بن جائیں ۔مثلا ٹیڈی برقعے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ"بہت سی دنیا میں لباس پہننے والی عورتیں قیامت کے دن ننگی ہوں گی!"
اب دیکھئے،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں اولاً تو یہ معلوم ہوا کہ شریعت نے کسی مخصوص لباس کی قید نہیں لگائی۔البتہ(ثانیاً) اس سلسلے میں یہ پابندی ضرور لگائی کہ اس میں کفار کی مشابہت نہ پائی جائے۔اورثالثاً یہ کہ عریاں اور بے حیا قسم کے لباس نہ پہنے جائیں!یہی وہ بات ہے جس کو ہم قبل ازیں امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے نقل کر آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کےاصول اورفروع سب کے سب کتاب وسنت میں بیان فرمادیئے ہیں۔اور اسی بناء پر ہم نے یہ بات لکھی ہے کہ برقعے کی کسی خاص شکل پر ہمیں اصرار نہیں ہے۔چنانچہ ایک تو یہ مسئلہ دنیاوی نہ رہا کہ شریعت سے بحرحال اس کا ایک گونہ تعلق ہے۔جس کی بناء پر ہمیں یہ نتائج حاصل ہوئے۔اور دوسرے یہ کہ ہمارے یہ چند الفاظ پروفیسر صاحب کے ان طول طویل ،تاہم انتہائی فضول مباحث کا کافی ووافی جواب ہیں۔جن کے مبینہ عنوان درج ذیل ہیں:
(الف) پردہ ہندوستان سے آیا!"
(ب) نقاب اوربرقعے کا استعمال کبھی بھی اسلامی شعائر میں نہیں تھا(غالباً) یہاں پروفیسر صاحب کی مراد برقع اور نقاب کی مخصوص شکل سے ہے۔ورنہ یہ دعویٰ ہی غلط ہے جیسا کہ(عربی) سے واضح ہے۔بلکہ یہ سب اسلام سے پہلے عادت کے طور پر لوگوں میں رائج تھا۔"
(ج) "پردے کا جاگیرانہ تصور!"
(د) "برصغیر میں مروج برقعہ"
(ہ) "جاگیردارانہ نظام میں پروان چڑھنے والا طبقانی تصور حجاب۔وغیرہ وغیرہ!"
ان تمام مباحث کا تعلق علاقائی وزمانی لحاظ سے برقعہ کی مختلف شکلوں سےہے۔اور ان شکلوں پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔سوائے اس کے کہ یہ احکام ستر وحجاب کے تقاضے پورے کرسکیں۔کیونکہ اسلام میں ستر وحجاب کے حدود تو متعین ہیں۔البتہ وضع لباس کی کوئی شکل متعین نہیں!لہذا اصل مسئلہ یہ ہے کہ برقعے کی شکلیں مختلف ادوار وممالک میں تبدیل ہونے سےبرقعہ سے سے غائب کیونکرہوگیا؟اورپروفیسر صاحب یہ کہنے والے کون ہوتے ہیں۔کہ برقعے اوڑھنے کا یہ رویہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کی کوششوں کومتاثر کرسکتا ہے؟کیا آ پ کے نزدیک تبلیغ اسلام کی کوششیں جبھی مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔جب آپ مغرب کامکمل نمونہ بن جائیں گے؟اور کوئی غیرمسلم آپ کو یہ طعنہ دے کہ"یہ ہے وہ اسلام جس کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو؟۔۔۔جب تم بھی وہی کچھ کررہے ہو جو ہم کرتےہیں تو ہمارے مذہب میں تمھیں کون سی بُرائی نظر آئی ہے کہ ہم اسے چھوڑ کرتمہارا دین اختیار کرلیں؟ماشاء اللہ کیا زرخیز تخیل پایا ہے ہمارے بزرگ پروفیسر صاحب نے خدا نظر بد سے بچائے!۔۔۔لیکن ذرا قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجئے کہ یہاں منشائے خداوندی ایک مسلمان عورت کے عفاف وپاکدامن کے علاوہ اس کی ایک امتیازی حیثیت بھی ہے کہ وہ برقعہ وغیرہ پہنے ہوگی۔جبکہ غیر مسلم خواتین اس سے بے نیاز ہوگی ۔اور باپردہ مسلمان خواتین کا یہی شریفانہ اورامتیازی رویہ تبلیغ السلام کی کوششوں کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوگا۔نہ کہ پروفیسر صاحب کی یہ "انقلابی تعلیمات"!جبھی غیر مسلم خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہوں گی کہ تباہی اور ہلاکت کا جو عفریت ان کی نسوانیت کو تقریباً نگل چکا ہے۔اس سے اب بھی انہیں بچا لینے والاواحد دین،دین اسلام ہے۔لہذا انھیں فوراً اس حصار میں پناہ لے لینی چاہیے!
پروفیسر صاحب کچھ پتہ چلا آپ کو کہ تبلیغ اسلام کے لئےکونسا رویہ مفیدرہے گا؟۔۔۔لیکن آپ تو شاید علام الغیوب رب کائنات کو بھی پہیلیاں بجھوانے نکلے ہیں،ذرا اپنے ہوش میں رہیے!
الغرض قرآن مجید مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے تحت گھروں سے باہر نکلیں تو برقعہ وغیرہ اوڑھ لیں ۔جبکہ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں۔کہ وہ یہ برقعہ اتار پھینکیں ورنہ بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کی کوششیں متاثر ہوں گی۔اس کے باوجود نہ جانے کس احمق نے انہیں یہ بتلایا ہے کہ اس کا نام اجتہاد ہے لہذا وہ اس کے دروازے کھولنے کی اجازت حاصل کریں؟تاکہ"وقت کے ساتھ ساتھ عورت کا ذہنی افق (جس قدر) پھیلنا چلاجائے۔پروفیسر صاحب کا"صحیح اسلامی اور فلاحی معاشرہ" عورت کے اس فکری سفر میں اس کا پورا پورا ساتھ دے سکے۔"
۔۔۔چنانچہ پہلے عورت گھر کی چار دیواری سے نکلی ۔پھر برقعے اتارے آہستہ آہستہ دفاتر تک رسائی حاصل کی۔رفتہ رفتہ ریڈیو پرعاشقانہ گیت گانے لگی ۔پھر پردہ سیمیں پر نمودار ہوئی۔ازاں بعد نفس نفیس سٹیج پر گائی ناچی ،تھرتھرائی،ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی کبھی کسی کی معشوقہ اور پھر اسی کی بہن اور اماں جان کا پارٹ ادا کیا کلبوں میں بن ٹھن کروارد ہوئی۔اورپھر ہوائی جہازپرسوار ہوکر اڑگئی۔پروفیسر صاحب بے چارے اس کے"ذہنی افق کے پھیلاؤ"کاساتھ دینے کے لئے لندن ۔نیویارک۔اورپیرس روانہ ہوئے۔وہاں سے اپنے ہمراہ صحیح اور اسلامی فلاح معاشرہ" لے کرآئے۔اور اس طرح اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک بھی تبلیغ اسلام کی کوششوں کو متاثر ہونے سے بچا لیا!۔اب ان کا اسلام ربڑ کی ناک ہے کہ جدھر چاہے موڑ لیا۔لیکن طرفہ یہ کہ کتاب وسنت سے اس کاتعلق بہرحال قائم رہتا ہے!بایں ہمیں پروفیسر صاحب ایک بات تو بتایئے!۔۔۔دین اسلام کیا دنیا میں اپنی منوانے کے لئے آیا تھا۔یا آپ کی ذلیل خواہشات کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے؟۔۔۔اپنے مضمون میں احکامات الٰہی سے آپ کہاں کہاں نہیں ٹکرائے؟۔۔۔آپ نے لکھا ہے کہ:
"عصر حاضر میں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگ کسی معاشرہ میں جلباب یادوپٹے کے بغیر ر اہ چلتی عورت کو کوئی تنگ نہیں کرتا تو کیا وہاں بھی چادر اور دوپٹہ اوڑھنا ضروری ہوجائے گا؟میں تو یہاں تک کہنے کوتیار ہوں کہ اکثر غیرملکی مہذب معاشروں میں مسلمان عورتیں کسی محرم کے بغیر بلا خوف وخطر طویل سفر اختیار کرسکتی ہیں اور کوئی نامحرم ہم سفر اس کی طرف آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھےگا۔"
قطع نظر اس سے کہ غیر ملکی "مہذب" معاشرے تو درکنار خود پاکستان میں کیسے کیسے سینہ نگار اور شرمناک حادثات آئے دن وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں،جن سے پروفیسر صاحب دیدہ ودانستہ آنکھیں بند کرکے انجان بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم ان سے یہ پوچھنے کاحق رکھتے ہیں کہ آپ کو شریعت سازی کا حق کس نے دے دیا ہے؟قرآن مجید میں چادر اور دوپٹہ وٖغیرہ اوڑھنے کا واضح حکم موجود ہے پھر آپ کو یہ جرائت کیونکر ہوئی کہ آپ یہ بحث کریں یہ ضروری ہے یا غیر ضروری؟۔۔۔سچ بتایئے،کیا آپ مسلمان ہیں؟۔۔۔قرآن مجید میں تو ہے:
کہ:جس نے(عربی) کے مطابق فیصلے نہ کئے،تو یہی لوگ کافر ہیں!"
آپ نے "بے رحمانہ فتوؤں" کا شکوہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"قربت ومصاحبت اقتدار کے نشے میں مخمور بعض نیم سیاسی اور نیم مذہبی مصلحین کی جرائت کفر سازی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کےدلوں سے خوف خدا ہی غائب ہوچکا ہے!"
۔۔۔لیکن آپ ہی بتائیے کہ آپ کو کیا نام دیا جائے؟۔۔۔کتاب وسنت کے صریح احکام سے بغاوت کرنے کے بعد کیا آ پ اسی قابل نہیں؟
محرم کے بغیر عورت کے سفر نہ کرنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ "کوئی عورت محرم کے علاوہ سفر نہ کرے اور نہ ہی کسی اجنبی کے ساتھ علیحدہ ہو۔
نیز فرمایا:
"جب کوئی عورت کسی اجنبی کے ساتھ تنہا ہوتی ہے تو شیطان ان میں تیسرا ہوتاہے۔"
اور ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں:
کہ کوئی اجنبی آدمی کسی عورت کے پاس رات نہ گزارے سوائے خاوند اور زی محرم کے!"
لیکن آپ نے ان سب ارشادات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالائے طاق رکھ کر جھٹ سے یہ فتویٰ داغ دیا ہے کہ "غیر ملکی مہذب معاشروں میں بھی مسلمان عورتیں کسی محرم کے بغیر بلاخوف وخطر طویل سفر اختیار کرسکتی ہیں۔اور کوئی نا محرم ہمسفر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا!"۔۔۔جبکہ خود آپ کے اسلامی ملک پاکستان میں اسی مینار پاکستان جو اس ملک کی یادگار کے طور پر تعمیر ہوا ہے سے وابستہ ایک شرمناک حادثہ ابھی حال ہی میں وقوع پزیر ہوا ہے۔حالانکہ یہ عورتیں کسی طویل سفر پر روانہ نہیں ہوئیں تھیں۔بلکہ اپنے ہی شہر میں سیر کو نکلی تھیں۔بس بجلی کی رو منقطع ہوئی اور۔۔۔۔۔پروفیسر صاحب آپ ایسے ہی واقعات آئے دن اخبارات میں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن خواہ مخواۃ بن رہے ہیں!پھر محرم کے علاوہ عورت کے سفر کرنے پر آپ کو اصرار بھی ہے۔اور ا س کے جواز میں آپ نے ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حبشہ سے مدینہ تک اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں لق ودق صحرا کے طویل سفر اختیار کرنے کا حوالہ دیا ہے۔۔۔کیا آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جس مجبوری کےتحت یہ سفر اختیار کیا گیا اس میں اور پکنک منانے میں مری کی سیر کو جانے،چھانگا مانگا کے جنگلات میں شوٹنگ کے لئے "تشریف لے جانے میں کس قدر فرق ہے؟۔۔۔ذرا اس کے جواز میں بھی کوئی حوالہ عنایت فرمائیے،کیونکہ اسلامی احکام میں ان بغاوتوں کے باوجود آپ مطمئین نہیں ہیں۔اور پاکستانی عورت کی"مظلومیت"پر ٹسوے بہارہے ہیں!۔۔۔کیا آپ ہنگامی حالات کو ان عیاشیوں پر قیاس کریں گے؟کیا مذکورہ بالا فرامین رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اسی سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین نہیں جن کی ذوجہ محترمہ مطہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سفر اختیار کیا تھا؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں اس کے یکسر خلاف حکم دے چکا ہوں،لہذا کم از کم اپنے بارے میں تو محتاط رہنا چاہیے۔مبادا ذات رسالت ہی نہیں،شان رسالت پر بھی کوئی حرف آئے!۔۔۔ظاہر ہے کہ یہ ایک انتہائی مجبوری تھی۔جس کی تفصیلات خود آپ کے بیان کردہ واقعہ سے ملتی ہیں!۔پس اس واقعہ اور مذکورہ بالا فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش نظررکھتے ہوئے شریعت میں اس گنجائش کی نشاندہی ہوتی ہے۔کہ تمام تر پر امن حالات کے باوجود بھی ایسے ہنگامی اورغیر یقینی حالات کا پیش آجانا محال نہیں،لہذا ان کےسلسلہ میں اپنے دل پر کوئی انقیاض محسوس نہ کیا جائے۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی ایسے ہی اچانک اور غیر یقینی حالات میں ایک سفر کرنا پڑا۔تاہم تاریخ نبوت میں ایسے واقعات بس خال خال ہیں۔جن کو عام حالات پرمحمول کرنے والا کوئی پرلے درجے کا جاہل اور بے وقوف ہی ہوسکتا ہے۔کہ ان کو دلیل بنا کر اس کے عمومی جواز کے سامان فراہم کرلے۔اور عورت کو مسافر نوازی کی باقاعدہ تربیت دے کر ہوائی جہاز پرسوار کردے!۔۔۔پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ انبیاء علیھما السلام معصوم ہوتے ہیں۔ان کی عصمت کی حفاظت خود اللہ رب العزت کرتے ہیں۔(عربی)بھی آپؐ ہی کی صفت ہے جبھی میں (عربی) شریعت کے نازل کرنے والے بھی اللہ رب العزت،علام الغیوب ہیں۔اس کے باوجود اگر کچھ حالات ہمیں ایسے ملتے ہیں جو باہم اور بظاہر متعارض ہیں تو اس کی وجہ اور حکمت ہم نے بیان کردی ہے۔ورنہ کیا آپ شریعت کو متضاد خیالات کا ایک مجموعہ تصور کرتے ہیں۔جیسے کہ خود آپ تضاد خیالی کےمالک ہیں؟۔۔۔چنانچہ ملاحظہ ہو،آپ نے لکھا ہے کہ:
6۔اولیں بات تو یہ طے کرنے والی ہے کہ موجودہ زمانے کے کس کھیل میں شرکت کرنے سے قرآن وحدیث صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین یا فقہاء میں سے کسی نے انہیں منع کیا ہے؟اگر نہیں تو پھر اس مسئلے کو زبردستی قرآن وسنت سے منسلک کرنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔یہ مسئلہ سراسر اختیاری ہےاور ہم نے اسے قومی اور بین الاقوامی تمدنی وتہذیبی اقدار کے مطابق خود حل کرنا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہےگویا پروفیسرصاحب نے اب تک جو کچھ لکھا ہے قرآن وسنت کے مطابق ہی لکھا ہے۔اور اس سے انہوں نے سرمو انحراف نہیں کیا۔جبھی یہاں آکر وہ بے چارے قرآن وسنت کےاس قدر پابند ہوگئے ہیں۔خیر چھوڑیے اس بات کوہم پروفیسر صاحب کی تضادخیالی کا ذکرکررہے تھے ۔لہذا کھیلوں کے اس مسئلے کوہم قرآن وسنت کی بجائے انہی کی اپنی تحریرات سے حل کریں گے۔چنانچہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہےکہ:
"اسلام میں اعضاء کی نمائش کرنا اور دوسروں کو دعوت نٖظارہ دینا منع ہے!"
نیز ارشاد ہوتا ہے:
"قرآن میں واضح حکم آنکھوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ انھیں شرم وحیا سے عاری نہ ہونےدیں۔"
۔۔۔اب صورتحال کچھ یوں بنتی ہے۔کہ کھلاڑی خواتین اپنے اعضاء توگھر میں چھوڑ جائیں گی تاکہ ان کی نمائش نہ ہونے پائے۔اور خود وہ بیرون ملک کھیلنے کےلئے روانہ ہوجائیں گی۔کیونکہ ان کو پروفیسر صاحب کے بقول"پورے ملک اور قوم کے وقار کامسئلہ درپیش ہوتا ہے۔"ادھر جہاں تک تماشائیوں کاتعلق ہے۔تو ان کو اس تماشا گاہ میں آنے کی اجازت تو ہے لیکن کھلاڑی خواتین انہیں اپنی طرف دیکھنے سے منع کردیں گی کیونکہ"دوسروں کو دعوت نظارہ دینا منع ہے!"۔۔۔پھر چونکہ"قرآن میں واضح حکم آنکھوں کے بارے میں آیا ہے۔کہ وہ ا نہیں شرم وحیا سے عاری نہ ہونے دیں۔"(یہ حکم مرد وعورت دونوں کے لئے برابر ہے)لہذا کھیل دیکھنے سے قبل وہ اپنی آنکھیں پھوڑ لیں گے اور اس کے بعد کھیل دیکھناشروع کردیں گے!
۔۔۔یوں بغیر اعضاء کے بغیر ان کی نمائش کے بغیر دعوت نظارہ دیے اور تماشائیوں کی پھوٹی آنکھوں کے باوجود کھیل بہرحال جاری ہے اور پروفیسر صاحب خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ "قرآن ۔حدیث۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین یافقہاء میں سے کسی نے انھیں(یہ کھیل کھیلنے سے)منع نہیں کیا!"واہ پروفیسر صاحب آپ ایسا دانشور کسی قوم کو مشکل ہی سے نصیب ہوگا۔اور یہ سوغات ہمارے ہی مقدر میں لکھی تھی۔علماء بے چارے تواب تک جھک ہی مارتے رہے لیکن آپ نے اسلام کی ڈانواں ڈول کشتی کو کنارے لگادیا!
۔۔۔پروفیسر صاحب اگر آ پ کے حواس قائم ہیں تو ہم آپ کی توجہ دلائیں گے۔کہ جب اسلام میں "اعضاء"کی نمائش کرنا اوردوسروں کو دعوت نظارہ دینا منع ہے۔"علاوہ ازیں " جب قرآن میں واضح حکم آنکھوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ انھیں شرم وحیا سے عاری نہ ہونےدیں"۔تو پھر کیا خواتین کا مسئلہ خود آپ کی تحریروں کی بناء پر ہی قرآن وسنت سے منسلک ہوگیا یا نہیں؟
کیا قرآن وسنت سے اس کی بھی گنجائش نکلی؟اگر نکلتی ہے تو ایسی ہی مذکورہ بالا کھیل ضرور کھیلیں۔آپ کو کوئی منع نہیں کرے گا!۔۔۔لیکن اگر نہیں نکلتی تو پھر یہ مسئلہ سراسر اختیاری کیسے ہوگیا؟رہا آپ کا یہ فرمانا کہ:"ہم نے اس مسئلے کوقومی اور بین الاقوامی تمدنی وتہذیبی اقدار کے مطابق خودحل کرنا ہے"تو ایسا دین آپ ہو کو مبارک ہو کہ جسے آپ کے قومی بین الاقوامی اور تمدنی وتہذیبی مسائل واقدار سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ہم بھر پائے ایسے دین سے!۔
ہاں ہمیں تو وہ دین عزیز ہے۔جو کسی بھی پہلو سے ہمیں تشنہ نہیں رہنے دیتا،جو اس زندگی کے تمام گوشوں پرمحیط ہونے کےعلاوہ روزآخرت بھی ہمارے کام آئے گا۔جو اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین نے ہمارے لئے مقرر فرمایا اور جو سرور ِعالم۔فخرانسانیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ملا ہے۔جس کی انقلابی دائمی اور غیر متبدل تعلیمات کو غیر مسلموں نے خراج تحسین پیش کیا۔لیکن آپ کو اس کی ضرورت نہیں!