مقام فاروق پر شیعہ سنی اتحاد

جنگ خیبر:
سن 7ہجری میں خیبر کامشہور معرکہ پیش آیا۔اس معرکہ میں حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بھی شامل ہیں۔جب مرحب حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ہاتھوں مارا گیا تو معرکہ خیبر بھی ختم ہوا۔خیبر کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین میں تقسیم کردی۔چنانچہ زمین کا ایک ٹکڑا حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے حصہ میں آیا۔انہوں نے اس ٹکڑے (ثمغ) کو راہ خدا میں وقف کردیا۔صحیح مسلم میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔(ملاحظہ ہو باب الوقف صحیح مسلم)
تاریخ اسلام میں یہ پہلا وقف ہے۔جو حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے دست مبارک سے عمل میں آیا۔(الفاروق ص27/1)
اسی سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو تیس آدمیوں کے ہمراہ قبیلہ ہوازن کے مقابلہ کےلئے بھیجا۔حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی آمد سن کر لوگ بھاگ گئے۔اورکوئی واقعہ پیش نہ آیا۔(تاریخ اسلام اکبرشاہ نجیب آبادی ص203/1 الفاروق ص29/1)

فتح مکہ اور حنین:

سن 8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر جرارتھا۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بھی اس لشکرمیں شامل ہیں۔بلکہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بن خطاب کو مکہ کے قریب پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کا ایک دستہ دے کر طلایہ گردیپر مامور فرمایا کہ دشمن شبخون نہ مارسکے۔(تاریخ اسلام ص215)

اسی سال غزوہ حنین کامعرکہ پیش آیا۔ دونوں فوجیں صف آرا ء ہوئیں۔مسلمانوں نے پہلے حملہ میں ہوازن کوبھگا دیا۔ جب مسلمان مال غنیمت لوٹنے  میں مصروف ہوئے۔تو ہوازن نے حملہ کردیا اور  اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اور بارہ ہزارآدمیوں میں سے معدودے چند کے ماسوا باقی سب بھاگ نکلے اس معرکہ میں جو ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت سے لیاگیا ہے:

اور حضرت عمر فاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بھی ان میں شامل ہیں۔کتاب المغاذی لحمد بن اسحاق میں ہے:

"وبا پیغمبر چند تین از مہاجرین وانصار واہل بیت باز ماندہ بودند مثل ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   وعلی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   وعمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   وعباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ۔"

لڑائی کی صورت بگڑ کر پھر بن گئی۔مسلمانوں کو فتح ہوئی اورہوازن کے چھ ہزار آدمی گرفتار ہوئے۔(الفاروق ص28/1)

قیصر روم:

سن 9 ہجری میں قیصر  روم کی طرف سے عرب پر حملہ آور ہونے کی اطلاع پا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو تیاری کا حکم دیا۔یہ تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اعانت کی ترغیب دلائی۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اپنے گھر کےتمام مال واسباب کا نصف حصہ لا کر پیش خدمت کیا اور خود بنفس نفیس شریک جنگ ہوئے۔

وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم:

29 صفر 11ہجری کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں صاحب فراش ہوئے اور 12 ربیع الاول کو بوقت چاشت حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے  گھر میں انتقال فرمایا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کا روح فرسا اور جانگداز واقعہ پیش آیا تو حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ازراہ محبت وعقیدت اوسان خطا ہوگئے۔چنانچہ برہنہ تلوار ہاتھ میں لی ۔اور فرمایا جو شخص کہے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں میں اُس کی گردن اڑا دوں گا۔حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   گھر سے تشریف لائے۔چہرہ انور صلی اللہ علیہ وسلم سے چادرہٹائی،پیشانی پر بوسہ دے کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔جس سے عام صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  بمعہ عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو مکمل یقین  ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔

تنازعہ خلافت:

ابھی بھی صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  تکفین وتدفین کے متعلق سوچ رہے تھے کہ سقیفہ بن ساعدہ میں مہاجرین وانصار کااجتماع برائے خلافت منعقد ہوا۔حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بیان فرماتے ہیں کہ:
"ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ مبارک میں بیٹھے تھے کہ اچانک دیوار کے پیچھے سے ایک آدمی نے آواز دی"اے خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ذرا باہر آؤ۔" میں نے کہا،"چلو ہٹو،ہم لوگ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین میں مشغول ہیں۔"اس نے کہا،ایک حادثہ پیش آیا ہے۔کہ سقینہ بنی ساعدہ میں انصار اکھٹے ہوئے ہیں،جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ایسا نہ ہو کہ انصار کچھ ایسی باتیں کر بیٹھیں جس سے لڑائی چھڑ جائے۔"اسوقت میں نے ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے کہا کہ چلو!"(مسند ابو یعلیٰ وفتح الباری ص23 /7۔بحوالہ الفاروق شبلی نعمانی ص32 جلد اول مطبوعہ دہلی)

حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے  گھر اجتماع:

دوسری طرف حضرت فاطمۃ الزہرا   رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کے گھر میں بنو ہاشم کااجتماع ہوا۔یہ بھی خلافت کے مدعی تھے۔جیسا کہ حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی روایت سے ظاہر ہے کہ:
"جب اللہ کریم  نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اٹھا لیا تو انصار نے ہماری مخالفت کی اور سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔اور علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور ان کے ساتھیوں نے بھی ہماری مخالفت کی جبکہ مہاجرین حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے پاس جمع ہوئے۔تاریخ طبری میں ہے کہ:
"علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بمعہ اپنے رفقاء حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے گھر میں جمع ہوئے اور حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور حضرت زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے علیحدگی اختیار کی۔اور زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے تلوار میان سے کھینچ کر کہا کہ جب تک علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ہاتھ پر بعیت نہ کی جائے میں  تلوار کو میان میں نہ ڈالوں گا۔"

المختصر حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ،حضرت عمر بن خطاب،حضرت ابو عبیدہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچے اور وہاں (عربی) کی صداء نے امت کو اختلافات کی خلیج سے نکال کرکنارے آلگایا۔حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی بیعت سب سے پہلے حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کی۔جیسا کہ گزشتہ اوراق میں "فضیلت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  " کے عنوان سے گزرچکا ہے۔

خلافت صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  :

اب حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   مسند آرائے خلافت ہوئے حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے  مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے خلافت صدیقی میں اہم حصہ لیا۔اور مندرجہ ذیل امور میں صدیق اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی معاونت فرمائی:

1۔مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ۔

2۔منکرین صلواۃ وذکواۃ کو دوبارہ ان فرضوں کا پابند کرنا۔

3۔ایران وروم کی زبردست قدیم اور سامان جنگ سے آراستہ سلطنتوں کے ساتھ ٹکر لینا۔

4۔عراق اور شام کا کچھ حصہ مفتوح کرنا۔یہ جملہ امور حضر ت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی شرکت سے سرانجام پائے۔جیسا کہ کتب  تواریخ وسیر ان پرناطق ہیں۔

استخلاف عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور وفات صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  :

جب حضرت  ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   جمادی الآخرہ 13ھ کو مرض الموت میں صاحب فراش ہوئے تو آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نےاکابرین صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو بلا کر اپنے اس ارادے کااظہار فرمایا کہ میں حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں۔حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایاکہ "آپ کاارادہ نیک ہے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے"جبکہ  حضرت عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اورحضرت طلحہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے مزاج میں سختی کی شکایت کی۔تاہم حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی قابلیت کا اعتراف بھی کیا۔حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے بدلائل ان کو مطمئن کردیا۔پھر حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو بلوا کر وصیت نامہ لکھوایا۔جس میں حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بن خطاب کی تقرری بطور خلیفہ مندرج تھی۔پھر وہ وصیت نامہ مجمع عام میں پڑھ کرسنایاگیا۔اورخود حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بحالت شدت مرض مجمع کو خطاب کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے:

"لوگو میں نے اپنے کسی عزیز ،رشتہ دار کو خلیفہ نہیں بنایااور نہی ہی اپنی رائے سے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو خلیفہ بنایا ہے۔بلکہ تم میں سے صاحب الرائے حضرات کے مشورہ سے ان کو خلیفہ بنایا گیا ہے۔کیا تم اس پر راضی ہو!"

سب نے(عربی) کی صدا بلند کی۔پھر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو بلا کر چند مؤثر اور مفید نصیحتیں فرمائیں  ،جو حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے لئے عمل اور دستور العمل کے طور پرکام آئیں(تاریخ اسلام نجیب آبادی ص319 الفاروق ص35)

حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے 22 جمادی الآخرۃ 13ھ بروز دو شنبہ مابین مغرب وعشاء اس دارِ  فانی سے عالم بقاء کی طرف انتقال فرمایا۔اور شب انتقال ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو مبارک میں آپ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو دفن کیا گیا۔(عشرہ مبشرہ)

شیعہ کتب:

23 جمادی الآخرۃ بروز سہہ شنبہ مدینہ منورہ میں تمام مسلمانوں نے حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ہاتھ پر بیعت کی۔ان میں حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بھی شامل ہیں۔چنانچہ کتاب حد تحقیق مطبوعہ لکھنو ء ص274 پر ایک طویل روایت ہے۔جس میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ:

"جب حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے وصیت نامہ عوام وخواص کو بھجوایا تو حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اس تحریر کو دیکھ کر فرمایا(عربی) نیز سورۃ تحریم زیرآیت (عربی) مرقوم ہے۔کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کی باری میں لونڈی ماریہ قبطیہ کے ساتھ خلوت اختیار کی تو حضرت حفصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو معلوم ہوگیا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو منع فرمایا کہ  عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو خبر نہ دینا کیونکہ میں نے ماریہ کو اپنے اوپرحرام قرار دے دیا ہے:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ کو حرام قرار دینے کے بعد حضرت حفصہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو خبر دی کہ  میرے بعد ملک عرب کے خلیفہ حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اورحضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ہوں گے۔

خلافت عمر :

حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد بڑی دور اندیشی اور ہوشمندی سے کام کاآغاذ کیا۔عراق وشام کے علاقہ مجاہدین کی جنگیں جاری تھیں۔آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے تمام توجہ اس طرف مبذول فرمائی۔تقریبا ً ڈیڑھ لاکھ ایرانی لشکر مسلمانوں کے استیصال کے لئے جمع ہوا۔ادھر خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے پورے ملک عرب میں عام اعلان جہاد کیا اور خود بنفس نفیس اس جنگ میں شرکت کا اعلان فرمایا۔اسلامی فوج میں یہ خبر انتہائی خوشی اور مسرت کاباعث بنی اور مسلمانوں میں ایک جوش ،نیا ولولہ پیدا ہوا کہ خلیفۃ المسلمین خود سپہ سالار بن کر جارہے ہیں۔ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو بلا کر خلافت کےکاروبار ان کے سپرد کردیئے(الفاروق۔ص  تاریخ اسلام نجیب آبادی ص344)

بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے مشورہ دیا کہ خلیفۃ المسلمین کا کامدینہ منورہ میں رہنا زیادہ مناسب ہے۔اگر کسی سردار کی نگرانی میں شکست آگئی تو خلیفہ المسلمین  تدارک کرسکتے ہیں۔اوراگر خلیفۃ المسلمین کو جنگ میں زخم چشم پہنچے گا ۔تو مسلمانوں کے کام کو سنبھالنا بہت دشوار ہوگا۔حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے اس مشورہ کو عملی جامہ پہنایا اور حضرت سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی ماتحتی میں لشکر کو میدان قادسیہ کی طرف روانہ فرماکر خود مدینہ منورہ واپس آگئے۔(ایضاً)

جنگ روم:اسی  طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے جنگ روم میں سپہ سالار بن کر جانے کامصمم ارادہ کرلیا توحضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا:
"اے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بے شک جب آپ بنفس نفیس ان دشمنوں کی طرف جائیں گے پھر خدانخواستہ آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو صدمہ پہنچ جائے تو مسلمانوں کے لئے ملک کے آخری کنارے تک کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔اور نہ ہی آپ کے بغیر کوئی مرجع ہے۔جس کی طرف لوگ رجوع کریں۔ لہذا آپ کسی تجربہ  کارشخص کو ان کی طرف روانہ کیجئے اور اس کے ساتھ آزمودہ کار اور خیر خواہ لوگوں کو بھیجئے تاکہ اللہ کریم ان کو غلبہ عطا فرمائے۔اور یہی آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا مقصود ہے۔لیکن اگرخدانخواستہ معاملہ برعکس ہواتو  آپ مسلمانوں کے لئے جائے پناہ اور مرجع ہیں۔"(ملاحظہ ہو نہج البلاغہ مطبوعہ مصر ص310/1)

جنگ فارس:

اسی طرح حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے  جنگ فارس میں بھی بنفس نفیس شرکت کا پروگرام بنایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:

"اے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فتح وشکست کثرت لشکر اورقلت لشکر پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کریم کے اختیار میں ہے۔وہ اللہ کا دین ہے جس کو اس نے غالب کیا اور یہ اس کا لشکر ہے۔جس نے اس کو تیار کیا اور اس کی خود امداد فرمائی ہم لوگوں سے اللہ کریم کاوعدہ ہے۔اور اللہ کریم اپنے وعدے کو ضرور  پورا کرے گا۔اوروہ اپنے لشکر کا مدد گار ہے۔خلیفہ کی حیثیت ہار کے دانوں میں دھاگے کی ہے جو تمام دانوں کو ملائے ہوئے ہے۔اگر دھاگہ کٹ جائے تودانے منتشر ہوجائیں گے۔پھر کبھی سارے اکھٹے نہیں ہوتے۔اے عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  !

یعنی آپ اس میخ کی مثل بن جائیں جو چکی کے درمیان میں ہوتی ہے۔آپ اس غزوے میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنی فوج کو روانہ کردیں۔اگر آپ باہر تشریف لے گئے تو مختلف اطراف واکناف سے دشمنان اسلام مدینہ پر حملہ کردیں گے۔اور اس کی مدافعت ہمارے بس کی بات نہیں ہوگی۔علاوہ ازیں آپ کی توجہ بھی دشمن کی بجائے دوسری طرف مبذو ل ہوجائےگی۔پھر جب عجمی لوگ آپ کو میدان جنگ میں دیکھیں گے تو کہیں گے"یہ شخص عرب کی جڑ ہے اگر اس کو کاٹ ڈالو گے تو آرام پاؤ گے۔"یہ خیال ان کے حملےکو سخت اور ان کی امیدوں کومضبوط کردے گا۔

نیز اما م محمد باقر ؒ زیرآیت (عربی) رقمطراز ہیں کہ:

"جس غلبہ کاذکر اللہ کریم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے وہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی خلافت وامارت میں ہوا:
یعنی "جب مسلمانوں نے فارس سے لڑائی کی اور اس کو فتح کرلیا تواللہ تعالیٰ کی نصرت وامداد پر بہت خوش ہوئے۔آگے چل کرلکھتے ہیں:
"یہ غلبہ مومنوں کافارس پر حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے دورخلافت میں ہوا!"پھراسی فتح فارس کی خوشخبری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے موقع پر پتھر کو توڑتے ہوئے دی تھی جس کو علامہ باق مجلسی نے ان الفاظ میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ:

"ابن بابونہ روایت کردہ است کہ چوں کلنگ اول را رازدہنگ شکست وفرمودہ کہ اللہ اکبر کلید ہائے شام راخدا بمن داد چوں کلنگ دیگر زووثلث دیگر راشکست وگفت اللہ اکبر کلید ہائے ملک فارس مدائن ر امے بینم چوں کلنگ سوم رازدباقی سنگ جداشد گفت اللہ اکبر کلیدہائے یمن بمن داوند۔"(حیات القلوب علامہ باقر مجلسی ص376/1)

ابن بابونہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا کلنگ(لوہے کا ہتھیار) پتھر  پر مارا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےاللہ اکبر کہہ کر فرمایا کہ"اللہ تعالیٰ نے شام کی کنجیاں مجھے دے دیں۔"پھر دوسرا کلنگ مارا اس اللہ اکبر کہہ کر فرمایا کہ" میں فارس کے  مدائن کاسفید محل دیکھ رہا ہوں۔"جب تیسرا کلنگ مارا تو باقی ماندہ پتھر اسی جگہ سے جدا ہوا۔اللہ اکبر کہہ کرفرمایا،"یمن کی کنجیاں مجھے دے دی گئیں۔"

سبحان اللہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی کیا شان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ہاتھ پر شام وفارس کے فتح ہونے کواپنے ہاتھ میں ان کی کنجیاں دے جانے کا فرماگئے۔اورحضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی فتوحات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف منسوب فرماگئے!

حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کاخط:

پھر حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کے ایک خط سے ابوبکر وعمر  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی شان نمایاں ہوتی ہے جو انہوں نے حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ    کولکھاتھا:
"حضرت علی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو مسلمانوں کے لئےاسلام کا مدد گار پسند فرمایا اور اس کو طاقت دی پس یہ دونوں حضرات ابوبکر وعمر  رضوان اللہ عنھم اجمعین  بلحاظ مراتب اسلام میں بزرگ تھے۔اور اسلام میں سب سے افضل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اخلاص  رکھنے میں سب سے بڑھ کر ۔جیسا کہ تو نے بیان کیا خلیفہ صدیق اور خلیفہ کے خلیفہ عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور میری زندگی گواہ ہے کہ ان دونوں کا مقام اسلام میں بہت بڑا ہے۔اورتحقیق ان کی وفات سے اسلام کو سخت زخم پہنچا۔اللہ تعالیٰ ان دونوں پر ر حمت نازل فرمائے اور ان کواچھے کاموں کابدلہ دے۔"آمین! (رضی اللہ عنھم ورجو عنہ) (باقی)