اجتہاد کے نام پر الحاد! کتاب وسنت سے یہ اعتراض کب تک؟

اسلام دین کامل ہے۔یہ آج سے چودہ صدیاں قبل مکمل ہوا۔اورآج تک کتاب وسنت میں مکمل ،جوں کاتوں موجود ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنی امت کو یہ وصیت فرمائی تھی:
"میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلاہوں۔جن کو اگر تم نے مضبوطی سے تھامےرکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے پہلی چیز کتاب اللہ ہے اور دوسری اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت!"
زبان نبوت سے ادا ہونے والے یہ پاکیزہ اور قیمتی الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلامی تعلیمات کوابدیت حاصل ہے۔تاقیامت ہمیں نہ کسی دوسرے شریعت کی ضرورت پیش آئے گی۔اور نہ ہی شریعت محمدیہ میں کسی قسم کی کمی بیشی یاتبدیلی کی گنجائش ہے!۔قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کا یہی نتیجہ ہے کہ شریعت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہر دور میں ہماری راہنمائی ہوگی!

۔۔۔لیکن افسوس کہ آج اگر ایک طرف ائمہ کے اجتہادات وتعبیر کو شریعت کادرجہ دے کر انہیں گویا مقام نبوت پر سرفراز کردیا گیا ہے۔اور امت مسلمہ پر فقہی جمودمسلط کردیا گیا ہے۔تو دوسری طرف سے قرآن وسنت سے دور کا واسطہ بھی نہ رکھنے والے اجتہاد یاتعبیر نو کے نام پر الحاد وزندقہ پھیلانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔۔۔گویا ہر دو طرح سے کتا ب وسنت ہی سے اعراض برتا جارہا ہے۔!

اجتہاد کادروازہ بند نہیں ہوا۔آج بھی کھلا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر ایرا غیرا یاکوئی جاہل مطلق اٹھ کر اپنی کوتاہ بینیوں کو اجتہاد کا نام دے اور اس کے پردے میں مغربیت کا پرچار شروع کردے۔کتاب وسنت کواپنی بے لگام خواہشات کاتابع بنا ڈالے یاتمسک بالکتاب والسنۃ  کو قدامت پرستی کا نام دے کر تجدد  وتعبیر نو کے شوق میں کوئی نیا دین ایجاد کرلے!

اجتہاد کا موضوع بڑا وسیع ہے ،تاہم مختصر سے مختصر الفاظ میں اس کی تعریف کتاب وسنت سے منشاء الٰہی کی تلاش اور کتاب وسنت کی تعلیمات کاپیش آمدہ مسائل پراطلاق ہے۔یعنی کسی بھی دور میں کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے ہمیں کتاب وسنت کاوہ حکم تلاش کرنا ہوگا جو اس پرلاگو ہوسکتا ہو۔شریعت کی ہمہ گیری اور ابدیت کے یہی معنی ہیں!چنانچہ امام ابن تیمیہؒ کا ایک  رسالہ:

(عربی)

اس موضوع پر ایک مستقل کتاب ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے اصول اور فروع سب کے سب کتاب وسنت میں بیان فرمادیے ہیں۔لہذا اسلامی شریعت میں ہردورکے مسائل کاحل یا تو صراحتاً موجود ہوگا۔ یا اگر صراحت نہ ہوگی تو اس کی تعلیمات سے منشاء الٰہی کی ایسی تلاش ممکن ہوگی جو ان مسائل کا حل پیش کرسکے!۔مؤخر الذکر صورت میں پیش آمدہ مسائل کا حل کتاب وسنت سے تلاش کرنے ہی کا نام اجتہاد ہے۔اور جوظاہر ہے کتاب و سنت پر عبور رکھنے والوں کا کام ہے۔!

لیکن اگر کوئی  شخص کتاب وسنت سے دور رہ کر محض عقلی گھوڑے دوڑاتا ہے۔یاکتاب وسنت کو اپنی خواہشات کا غلام بنا لینا چاہتا ہے یا اس کے صریح احکام کی تاویل کرتا ہے۔یا کتاب وسنت کو ناقص تصور کرتے ہوئے ا س سے زائد کوئی چیز بیان کرتا ہے۔اور بایں ہمہ اسے اجتہاد کانام دیتا ہے۔تو ایسا شخص نہ صرف احمقوں کی جنت میں بستہ ہے۔ بلکہ شریعت کی ہمہ گیری ابدیت اورتکمیل دین ہی کا انکاری ہے۔بالفاظ دیگر کتاب وسنت اور توحید ورسالت پر اس کا ایمان ہی نہیں ہے۔اور عملا وہ(عربی) کاباغی!

۔۔۔واحسرتا کہ انہی بنیادوں پر قائم ہونے والے اس ملک میں اعتصام وتمسک بالکتاب والسنۃ کااہتمام ہی نہیں ہے ہاں اس سے بغاوت کے نت نئے مظاہر منظر عام پرآتے رہتے ہیں۔لیکن جن کانوٹس لینے کی کسی کو توفیق میسر نہیں!زیر نظر شمارہ کے "تحقیق وتنقید"کے صفحات میں ہم نے اجتہاد وتعبیر نو کے نام  پرالحادومغربیت کے پرچار کی ایک شرمناک کوشش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے اس کے تعاقب کا سلسلہ شروع کیاہے جو آئندہ اشاعت میں مکمل ہوگا۔ان شاء اللہ!

تاہم اہل فکر ونظر سے ہمارا سوال یہ ہے کہ دین اسلام سے اس ظالمانہ سلوک کا سلسلہ کہاں تک دراز ہوگا۔اورکتاب وسنت سے یہ اعراض کب تک؟ (کچھ اس کا بھی علاج اے چارہ گراں ہے کہ  نہیں ہے؟ (اکرام اللہ ساجد)