’’کیا جنت میں رسول اللہ ﷺ کا نکاح حضرت مریم سے ہوگا؟‘‘

’’کیا جنت میں رسول اللہ ﷺ کا نکاح حضرت مریم﷤ سے ہوگا؟‘‘


 کچھ عرصہ قبل ایک مخلص دوست ( محترم جناب سید احمد قادری صاحب) نے بنگلو ر(بھارت) سے شائع ہونے والے اُردو ہفت روزہ ’’عروج ہند‘‘ ج3 شمارہ 1 مجریہ 4 جنوری 1987ء کے صفحہ نمبر 11 کی عکسی نقول راقم کو دی تھی۔ اس صفحہ پر ’’مذہبی سوالات‘‘ کے عنوان سے سوال و جواب کا ایک مسقل کالم ہوتا ہے ، جس میں مسجد بنگلور کے امام و خطیب جناب شعیب اللہ خان صاحب مختلف دینی سوالات کے جوابات تحریر فرماتے ہیں۔ محولہ بالا شمارہ میں کسی شخص نے جناب شعیب اللہ خان صاحب کو اُن کی غلطی کی طرف نہایت مخلصفانہ طور پرمتوجہ کرتے ہوئے اُن کے اس قول کی دلیل کامطالبہ کیا تھا کہ : ’’جنت میں رسول اللہ ﷺ کا نکاح حضرت مریم﷤ سے ہوگا۔‘‘ مسئولہ عبارت اور محترم شعیب اللہ صاحب کا جواب بعینہ درج ذیل ہے:
’’سوال : آپ نے ایک دفعہ کھا تھا کہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا نکاح حضرت مریم ﷤ سے ہوگا، یہ بالکل غلط ہے۔ آپ ایسی غلط بات نہ لکھا کریں، کیا آپ اس کی دلیل پیش کرسکتے ہیں...........؟
جواب : کسی پر حکم لگانے سے قبل (پہلے) تحقیق کرلینا بھی ضروری ہے ورنہ انسان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، میں نے جو بات لکھی تھی وہ حدیث سے ثابت ہے اور علماء تفسیر نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، چنانچہ روح المعانی ج28 ص165 میں ہے کہ طبرانی نے سعد بن جنادہ سے یہ روایت تخریج کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی اور موسیٰ کی بہن کو میری زوجہ بنایا ہے۔ اور تفسیر قرطبی ج18 ص204 میں حضرت معاذ بن جبل ؓ سے یہ روایت مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کو نزع کے وقت  فرمایا کہ کیا تم اس چیز کو مکرہ خیال کرتی ہو، حالانکہ اللہ نے ناپسندیدہ چیز میں خیر رکھی ہے۔ پس جب تم اپنی سوکنوں کے ہاں جاؤ تو میرا سلام سنا دینا یعنی مریم، آسیہ او رحکیمہ یا کلیمہ، اس میں سوکن قرار دینا ان عورتوں کو کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ تو ظاہر ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ ہم نے جو لکھا تھا وہ غلط نہ تھا ہاں مختصر تھا۔‘‘ (ہفت روزہ ’’عروج ہند‘‘ بنگلور ،جلد3 عدد 1 صفحہ 11 کالم نمبر 1۔2 مجریہ 4 جنوری 1987ء)
اس پر ہمارے محترم دوست قادری صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا جناب شعیب اللہ خان صاحب کا یہ جواب درست ہے؟
الجواب :
قارئین نے پڑھا کہ محترم شعیب اللہ خان نے اپنے جواب میں تحریر فرمایا ہے: ’’میں نے جو بات لکھی تھی وہ حدیث سے ثابت ہے۔‘‘ لیکن آں محترم نے خود کسی حدیث کا حوالہ دینے کے بجائے سید محمود آفندی ابوالثناء شہاب الدین آلوسی بغدادی (م1270ھ)کی مشہور تفسیر ’’روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ اور ابوعبداللہ محمد بن احمد انصاری خزرجی اندلسی قرطبی المالکی (م671ھ) کی تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ (جو تفسیر قرطبی کے نام سے مشہور ہے) سے دو روایات نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے،حالانکہ کسی بھی صاحب علم و بصیرت سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ وضاعین حدیث اور افسانہ گو قسم کے لوگوں نے تفسیری روایات میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔ افسوس کہ ان روایات کو نقل کرنے میں اس درجہ احتیاط کوملحوظ نہیں رکھا گیا جتنی کہ احادیث کی تدوین میں اس بات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چنانچہ کتب تفسیر و تاریخ و سیر میں آج بے شمار ایسے اقوال ملیں گے جنہیں رسول اللہﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے ۔ بایں سبب ہر دو رکے علماء و محققین و محدثین نے بیشتر تفسیری روایات کو، جوآپؐ یا آپؐ کے اصحابؓ کی جانب منسوب کی جاتی ہیں، نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ اُن پر سخت جرح و تنقید بھی فرمائی ہے۔ امام احمد بن حنبل سے تو یہاں تک منقول ہے کہ:
’’تین چیزوں کی کوئی اصل نہیں ہے، تفسیر ، ملاحم اور مغازی‘‘ ( تاریخ تفسیر و مفسرین از پروفیسر غلام احمد حریری صفحہ 49 طبع فیصل آباد)
او رعلامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:
’’بہت سے واعظ موضوع احادیث سن لیتے ہیں او رپھر ان کو اسی طرح لوگوں کے سامنے روایت کردیتے ہیں او رنہیں جانتے کہ یہ سب جھوٹی روایات ہیں.....آپ ان واعظوں کو ایسی ہی موضوع او رمن گھڑت احادیث بیان کرتے ہوئے دیکھیں گے، بلکہ وہ ان میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کردیتے ہیں تاکہ حدیث اچھی لگے...... اس قسم کاغلط مواد تفاسیر میں بہت زیادہ ہے۔ الخ‘‘ (تحفۃ الواعظین ترجمہ القصاص والمذکرین لابن الجوزی ص134۔ 135 طبع کراچی)
اولاً سبائیوں او رمجوسیوں کی ہرزہ سرائیوں او راسرائیلیات کو ابن جریر الطبری نے اپنی تفسیر میں جگہ دی۔ اگرچہ طبری نے روایات کو مع اسناد ذکر کرنے کا التزام کیا ہے لیکن وہ اسناد کی جانچ پڑتال محدثین کے معروف و مسلّمہ اصول کے مطابق خود کرکے کسی طرح کا حکم نہیں لگاتے، بلکہ نقد و جرح کی تمام ذمہ داری قاری پر ڈال کو خود کو اس فریضہ سے سبکدوش تصور کرتے ہیں۔ بعد کے مفسرین و شارحین قرآن نے کم و بیش انہی روایات کو اپنی تفاسیر میں نقل کیا ہے۔ چنانچہ ذیل میں محترم سائل جناب سیداحمد قادری صاحب کے سوال، نیزاحقاق حق او رابطال باطل کے جذبےکے پیش نظر اس مذہبی داستان پر ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ، جسے جناب شعیب اللہ خان صاحب اور اُن سے بہت پہلے مختلف سیرت نگار ، مؤرخین اور مفسرین اپنی اپنی تصانیف میں بیان کرچکے ہیں:
1۔  ’’عن سعد بن جنادة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم: ان اللہ عزوجل قد زوجنی فی الجنة مریم بنت عمران و امرأة فرعون و اُخت موسیٰ‘‘ (رواہ الطبرانی فی الکبیر واوردہ السیوطی فی الجامع)
’’حضرت سعد بن جنادہؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت میں حضرت مریم بنت عمران، فرعون کی عورت اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کو میری بیوی بنایا ہے۔‘‘
اس روایت کے متعلق حافظ نور الدین علی بن ابی بکر الہیثمی (م807ھ) فرماتے ہیں کہ:
’’فیه من لم اعرقھم ‘‘ یعنی ’’اس کی اسناد میں ایسے (مجہول رواۃ) شامل ہیں جن کو میں نہیں جانتا۔‘‘ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمی ج9 ص218)
علامہ مناوی او رمحدث شہیر محمد ناصر الدین الالبانی نے بھی اس روایت کے متعلق علامہ ہیثمی کی علّت کو ہی بیان کیا ہے۔ (دیکھئے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2 ص220)
’’عن ابی امامة قال سمعت النبی صلی اللہ علیه وآله وسلم یقول لعآئشة اشعرت ان اللہ قد زوجنی فی الجنة مریم بنت عمران و کلثم اُخت موسیٰ و امرأة فرعون‘‘ (رواہ الطبرانی)
’’حضرت ابوامامہ: روایت کرتے ہیں، میں نے نبی ﷺ کو حضرت عائشہؓ سے یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’میں تمہیں اس بات کی  خبر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مریم بنت عمران، حضرت موسیٰ ؑ کی بہن کلثم او رفرعون کی عورت کو میری بیوی بنایا ہے۔‘‘
اس روایت کے متعلق علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ : ’’اس کی اسناد میں خالد بن یوسف السمتی موجود ہے، جو کہ ضعیف ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد للہیثمی ج9 ص218) خالدبن یوسف بن خالد السمتی کے متعلق علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ : ’’وہ خود ضعیف ہے او راس کا باپ توہالک ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال للذہبی ج1 ص647)
’’عن ابی رواد قال دخل رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم علیٰ خدیجة رضی اللہ عنها فی مرضھا الذی توفیث فیه فقال لھا..... اما علمت ان اللہ عزوجل زوجنی معک فی الجنة مریم بنت عمران و امرأة فرعون و کلثم اُخت موسیٰ..........الخ‘‘
’’ابو رواد سے مروی ہے کہ، رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے پاس اُس علالت میں تشریف لائے جس میں کہ انہوں نے  وفات پائی، اور اُن  سے فرمایا:....... کیا تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں تمہارے ساتھ مریم بنت عمران، فرعون کی عورت او رحضرت موسیٰ ؑ کی بہن کلثم کو میری زوجہ بنایا ہے؟........ الخ‘‘
اس روایت کے متعلق علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ ’’یہ منقطع الاسناد ہے  او راس میں ایک راوی محمد بن الحسن بن زبالۃ ہے،جو کہ  ضعیف ہے۔ ‘‘ (مجمع الزوائد للہیثمی ج9 ص218)
محمد بن الحسن بن زبالۃ کے متعلق دوسرے کبار ائمہ جرح و التعدیل میں سے امام نسائی فرماتے ہیں کہ : ’’متروک الحدیث ہے۔‘‘ امام بخاری فرماتے ہیں کہ : ’’ اس کے پاس مناکیر ہیں۔‘‘امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ : ’’کذاب ہے۔‘‘ یحییٰ فرماتے ہیں کہ : ’’ثقہ نہیں ہے۔‘‘ ازدی فرماتے ہیں کہ ’’متروک ہے۔‘‘ ابوحاتم  فرماتے ہیں کہ ’’ واہی الحدیث ہے۔‘‘ دارقطنی فرماتے ہیں کہ ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘ ابن حجر عسقلانی اور علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ : ’’اس کی تکذیب کی گئی ہے۔‘‘ تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں : تاریخ یحییٰ بن معین  ج3 ص180، 227، تاریخ الکبیر للبخاری ج1 ص67، ضعفاء الصغیر للبخاری ترجمہ نمبر 314، ضعفاء الکبیر للعقیلی  ترجمہ 1609، جرح و التعدیل لابن ابی حاتم ج2 ص227، مجروحین لابن حبان  ج2 ص274، کامل فی الضعفاء لابن عدی ج6 ترجمہ نمبر 2180، ضعفاء المتروکین للدارقطنی  ترجمہ نمبر 474، میزان الاعتدال للذہبی ج3 ص514، تہذیب التہذیب لابن حجر ج9 ص117، تقریب التہذیب لابن حجر ج2 ص154 و تنزیۃ الشریعہ المرفوعہ لابن عراق الکنانی  ج1 ص103)
’’عن ابی امامة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم بما عائشة! اما تعلمین ان اللہ زوجنی فی الجنة مریم بنت عمران و کلثم اُخت موسیٰ و امرأة فرعون‘‘ (رواہ ابوالشیخ فی تاریخہ)
’’حضرت ابوامامہؓ روایت کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عائشہ ؓ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں مریم بنت عمران، حضرت موسیٰؑ کی بہن کلثم اور فرعون کی عورت کو میری زوجہ بنایا ہے۔‘‘
اس حدیث کو ابوالشیخ نے اپنی تاریخ کے صفحہ نمبر 288 پر بطریق ’’ابی الربیع السمتی ثنا عبدالنور بن عبداللہ بن سنان عن یونس بن شعیب عن ابی امامۃؓ ‘‘مرفوعاً روایت کیا ہے۔ عقیلی  نے اسے ’’الضغفاء الکبیر‘‘ میں بطریق ’’ابراہیم بن عرعرہ حدثنا عبدالنور بہ‘‘ روایت کیا ہے، او راس پر یہ حکم لگایا ہے کہ ’’یونس بن شعیب کی حدیث غیر محفوظ ہوتی ہے۔ ‘‘ امام بخاری فرماتے ہیں کہ ’’وہ منکر الحدیث ہے۔‘‘ ابن عدی نے بھی اس روایت کا ذکر اپنی ’’کامل الضعفاء‘‘ میں کیا ہے۔ ابن عدی فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ حدیث ہے ، جس پر امام بخاری نے منکر ہونے کا حکم لگایا ہے۔‘‘ محدث عصر علامہ محمد ناصر الدین الالبانی نے بھی اس حدیث کو ’’منکر‘‘ قرا ردیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’یونس بن شعیب سے روایت کرنے والا راوی (عبدالنور بن عبداللہ ابن سنان) بھی یونس بن شعیب کی طرح ہی، یا اس سے بھی زیادہ فتنہ پرور ہے۔ لہٰذا علامہ ذہبی نے اس کو ’’کذاب‘‘ کہا ہے او ر وضع حدیث کے لیے مہتم بھی گردانا ہے۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلی ترجمہ نمبر 469، میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص481، سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی ج2 ص220 ، کامل فی الضعفاء لابن عدی واللسان المیزان لابن حجر)
کبار ائمہ جرح و التعدیل اور محدثین نے کسی راوی کی ثقاہت و عدالت جاننے کے لیے انہی شرائط کو مقرر کیا ہے جو شریعت نے شاہد کے لیے بیان کی ہیں۔ جب  گواہ ہی ساقط الاعتبار او رناقابل قبول ہوگا تو کیوں کر اس کے بیان کردہ واقعہ کو صحیح تسلیم کیا جائے گا؟موضوع زیر بحث کی جملہ روایات اوراُن کے رواۃ کے تفصیلی کوائف اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ اب ایسی صورت حال میں تاریخ و سیر اورتفسیری روایات یا اُن کے حوالہ سے کسی حدیث کے متعلق کوئی فیصلہ دینا ایسی ہی حیثیت رکھتا ہے جیسی کہ کسی کذاب زمانہ کو کسی سچے انسان کے خلاف مقدمہ میں فیصلہ دینے کے لیے جج متعین کیا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کا حضرت مریم ﷤ سے نکاح ہونے والا قصہ قطعی بے بنیاد ،  من گھڑت او رحد درجہ ناقابل اعتماد ہے۔ واضح رہے کہ انبیاء سابقین علیہم السلام او ررسول اللہ ﷺ کی سیرت کے متعلق یہ کوئی اکیلا اور نرالا واقعہ نہیں ہے، بلکہ ایسے بے شمار ،بے بنیاد بلکہ بعض اوقات انتہائی حیرت انگیز واقعات بھی ذخیرہ کتب میں بہ آسانی مل جائیں گے۔ سیرت کے مرتب کنندگان کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ اس میں صحیح ، مرفوع، حسن، مرسل، شاذ، غریب، ضعیف، منکر اور موضوع ہر قسم کی روایات بلا کسی امتیاز کے بیان کردی جاتی ہیں۔ جیسا کہ حافظ عراقی نے اپنے اس شعر میں فرمایا ہے:            ؎
ولیعلم الطالب السیرا   ..........  تجمع ما قد صح وما قد انکر
’’طالب علم کو جان لینا چاہیے کہ سیرت کی کتابوں میں صحیح اور منکر ہر قسم کی روایات جمع کی جاتی ہیں۔‘‘
 جن باتوں سے کسی حدیث کے موضوع ہونے کا پتہ چلتا ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صحیح شہادتوں سے اس کا بطلان واضح ہوجائے۔ اس سلسلہ میں بعض صحیح احادیث میں جو کچھ مروی ہے، وہ حسب ذیل ہے:
’’عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم سیدات نسآء اھل الجنة بعد مریم بنت عمران  فاطمة و خدیجة ثم اٰسیة بنت مزاحم امرأة فرعون‘‘ (رواہ الطبرانی)
’’حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’حضرت مریم بنت عمران کے بعد جنتی عورتوں کی سیدات حضرت فاطمہؓ اور حضرت خدیجہؓ پھر فرعون کی عورت آسیہ بنت مزاحم ہیں۔‘‘
اس حدیث کو طبرانی  نے ’’الاوسط ‘‘ اور ’’الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے،  لیکن ’’الکبیر‘‘ میں آسیہ بنت مزاحم کا تذکرہ نہیں ہے۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ ’’الکبیر کے رجال  صحیح ہیں بجز محمد بن مروان الذہلی کے، لیکن ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد للہیثمی ج9 ص201)
محمد بن مروان الذہلی ابوجعفر الکوفی کے متعلق علامہ ہیثمی کو سہو ہوا ہے ۔ ابن حبان  نے ابن مروان کا ذکر اپنی ثقات میں کیاہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی طبقہ سابعہ کے اس راوی کو ’’مقبول‘‘ قرار دیا ہے۔ (تقریب التہذیب لابن حجر ج2 ص206 و میزان الاعتدال للذہبی ج4 ص33 و ترتیب الثقات ج3 ق نمبر40 والکشف الحثیث للحلبی ص 405)
’’قال رسول  اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم افضل نسآء اھل الجنة خدیجة بنت خویلد و فاطمة ابنة محمد صلی اللہ علیه وآله وسلم و مریم ابنة عمران و اٰسیة ابنة مزاحم امرأة فرعون۔‘‘ (رواہ احمد و ابویعلیٰ والطبرانی)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنتی عورتوں میں سب  سے زیادہ افضل حضرت خدیجہ بنت خویلدؓ، حضرت فاطمہؓ بنت محمد ﷺ، مریمؑ بنت عمران اور فرعون کی عورت آسیہ بنت مزاحم ہیں۔‘‘
امام احمد، ابویعلیٰ او رطبرانی  کی اس روایت کے متعلق  علامہ ہیثمی  فرماتے ہیں کہ ’’ان سب کے رجال صحیح ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد للہیثمی ج9 ص223)
’’عن ابن عباس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم سیدات نسآء اھل الجنة مریم بنت عمران ثم فاطمة بنت محمد صلی اللہ علیه وآله وسلم ثم خدیجة ثم اٰسیة امرأة فرعون‘‘ (رواہ الطبرانی)
’’حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنتی عورتوں کی سیدات مریم بنت عمران ، پھر فاطمہ ؓ بنت محمدﷺ، پھر خدیجہؓ پھر فرعون کی عورت آسیہ ہیں۔‘‘
اس روایت کے متعلق  علامہ ہیثمی  فرماتے ہیں کہ ’’اس اسنا دمیں محمد بن الحسن ابن زبالۃ ہے،  جو متروک ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد للہیثمی ج9 ص223)۔ محمد بن الحسن ابن زبالۃ کا تفصیلی ذکر اوپربیان ہوچکا ہے۔
مندرجہ بالا روایات میں سے اگرچہ بعض میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے، لیکن کئی صحیح  احادیث کی موجودگی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےجنت میں ان خواتین کی فضیلت و مرتبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بات کتاب و سنت سے مطابقت بھی رکھتی ہے ۔ تعجب اس شخص یا ان اشخاص کی جسارت پر نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے  اللہ تعالیٰ سے قطعاً بے خوف ہوکر اللہ تعالیٰ کے رسولؐ پر یہ یااس جیسےبے شمار افتراء کیے ہیں، بخلاف ازیں حیرت و استعجاب کا مورد وہ شخص ہے جو کتب تفسیر میں ایسی لغو اور وضع کردہ روایات کو جگہ دیتا ہے او ران کا حقیقی مقام و مرتبہ بھی واضح نہیں کرتا۔ زنادقہ، منافقین او راہل کتاب  کی وضع کردہ روایات میں سے بے شمار ایسی مضحکہ خیز او رحیران کن ہیں کہ جن کو دیکھنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ دشمنان اسلام  نے انہیں انبیاء عظامؑ او رصحابہ کرام ؓ کی تذلیل و تحقیر کے لیے بالقصد وضع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو اپنے دین کا صحیح فہم و شعور عطا فرمائے او ردشمنان اسلام کی چیرہ دستی او رہرزہ سرائیوں سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین۔
مضمون زیر بحث کے اختتام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوال و جواب میں  موجود بعض دوسری غلطیاں بھی واضح کردی جائیں۔ مثلاً مسئولہ عبارت میں (خط کشیدہ) ’’حضرت مریم علیہ السلام ‘‘ لکھا گیا ہے حالانکہ عربی قواعد کے مطابق ’’علیہ السلام‘‘ کی جگہ ’’علیہا السلام‘‘ ہونا چاہیے تھا، اسی طرح ’’حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ‘‘ میں ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کے ’’ہُ‘‘ کی ضمیر بصیغہ مذکر کے بجائے تانیث کے صیغہ (ھا) کے ساتھ یعنی ’’رضی اللہ عنہا‘‘ لکھنا چاہیے تھا۔ واضح رہےکہ عربی قواعد کی یہ دوسری غلط جناب شعیب اللہ خان صاحب نے اپنے جواب میں فرمائی ہے۔اس کے علاوہ جواب میں ایک تاریخی غلطی یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام ’’حکیمہ یاکلیمہ‘‘ لکھا گیاہے ، حالانکہ جواحادیث اوپربیان کی جاچکی ہیں ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن کا نام ’’کلثم‘‘ مذکور ہے۔
ھٰذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
واٰخردعوانا ان الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول الکریم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔::::۔۔۔۔۔۔۔۔۔