مقلدون کی حالتِ زار ان سے چند گزارشات

(ہنود ویہود کی فکر ی یورش کے اس زمانے میں شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان آپس میں اتھاد واتفاق سے چلیں۔ باہمی فرقہ واریت کو ہوادینے کی بجائے آپس میں اتحاد ویکجہتی کو فروغ دیں ۔ اس دور میں جب کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس قسم کی فرقہ وارانہ چشمک کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا تا علماء کو چاہئے کہ ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کرنے کی بجائے اپنی مشترکہ قوت سے غیروں کی طرف توجہ دیں۔
لیکن اس وقت بڑا افسوس ہوتا ہے جب ہمارے حنفی حضرات سادہ لوح عوام کو بارباراسی فرقہ واریت کی دعوت دیتے ہیں۔اسی پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ ایسے نو کیلے اور تیکھے انداز سے دوسروں پر جملے کہتے اور انہیں دعوت مبارزت دیتے ہیں کہ اس طرز تحریر سے ایک شریف النفس آدمی بھی ان کی وضاحت کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے اس پر طرہ یہ کہ جھوٹ کی سان پر جھوٹے دعوؤں کے تیر چلائے جاتے ہیں اور بودے دلائل کے ذریعے کتاب و سنت کی واضح تعلیمات کو داغدارکرنے کی تگ ودواور اپنے فقہی مسلک کو برتر ثابت کرنے کی کوششیں بروئے کارلائی جاتی ہیں۔
محدث جیسا کہ قارئین کے علم میں ہے اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے ان قسم کی بحثوں میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔
لیکن جب معیاری دینی صحافت کے علمبردار علماء کی زیر سر پرستی چلنے والے مجلے عوام میں اپنی ساکھ بنانے کے لیے قرآن و سنت پر حملہ آور ہو جائیں اور اپنے علماء کے اقوال کے برعکس آئمہ کی تقلید کو ہی دین خالص قراردینے لگ جائیں اور ان مجلات پر نگران مجالس علماء بھی ان کو باز نہ رکھیں تو دین حنیف سے اس الزام اور طعن کودورکرنا شرعی فریضہ بن جاتا ہے کیونکہ کم از کم مسلمانوں کے سامنے اسلام کی کھری دعوت اور سچا منہج واضح رہنا چاہیے اور کسی کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اپنے تعصب کے سائے اسلام پر پھیلا کر دین کی سچی روشنی کو ہی ڈھانپ دے۔
دوماہ قبل کراچی کے جامعہ فاروقیہ کے مجلہ الفاروق میں مذکورہ نوعیت کا ایک مضمون مدینہ میں رہائش پذیر ایک مفتی صاحب کے قلم سے اشاعت پذیرہوا ۔اس مضمون کا طرز تحریر اور انداز واستدلال واقعتاً علماء کے شایان شان نہیں۔محدث کو اس مضمون میں پیش کئے گئے۔اعتراضات کا ایک عالمانہ جواب اشاعت کے لیے ملاہے جسے جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فاضل استاذ حدیث نے تحریر کیا ہےالحمد اللہ کہ یہ مضمون فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے نہیں ہے بلکہ اصلاحی اسلوب میں عالمانہ انداز پر تحریر کیا گیا ہے ۔چنانچہ اسے محدث کے صفحات پر جگہ دی جا رہی ہے۔(حسن مدنی)

کراچی سے شائع ہونے والا ماہنامہ الفاروق معیاری یوں تو اسلامی صحافت کا دعویدار ہے لیکن وہ دوسروں کی دل آزاری اور ان پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا تا ۔غیر ذمہ دارحضرات  کے خیالات اس میں آئے دن چھپتے رہتے ہیں جن کے ذریعے سے ان لوگوں کو لتاڑاجاتا ہے جنہیں یہ حضرات غیر مقلدوں کے نام سے یاد کرتے ہیں اس ماہنامہ کی مئی ،جون 2000ءکی اشاعت میں ایک مفتی صاحب کی چند نگارشات "غیرمقلدوں کا حال اور ان سے ضروری سوال "کے عنوان سے شائع کی گئی ہیں۔جس میں مقلدوں کی آڑ میں اہل حدیث کو جاہل طبقہ قرار دینے کی سعی فرمائی گئی ہے اور انہیں باہمی افتراق و انتشار کا ذمہ دار بنانے کوشش کی گئی ہے حالانکہ علم و دانش سے ادنیٰ مناسبت رکھنے والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کا آغاز اس وقت ہوا ہے جب اتباع واطاعت کو چھوڑکر اس کی جگہ تقلید شخصی کو اختیار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام  صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے چھوڑ کر اپنے بنائےہوئے اماموں کے نام پر مختلف مذاہب کی بنیاد رکھی گئی۔ اس اجمال کی تفصیل تو ہم بعد میں ذکر کریں گے۔لیکن پہلے ماہنامہ الفاروق کے اس مضمون نگار کی تحریر کا اقتباس ملا حظہ فرمالیں جو مقلد ہونے کے باوجود مفتی کہلاتے ہیں۔وہ تقلید سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"صدیوں سے چاروں اماموں کے مقلدین چلے آرہے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں ۔یہ حضرات کتب حدیث کے راوی بھی تھے اور شارح بھی تھے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک فرقہ نکلاہے۔جس نے ان چاروں اماموں سے علیحدہ اپنی جماعت بنائی ہے۔"(مئی ،جون 2000ءصفحہ 18)
مفتی صاحب آج کل مدینہ منورہ میں رہائش پذیر ہیں مگر افسوس کہ وہاں رہ کر بھی انہیں (اطيعوالله واطيعوالرسول)کا مفہوم نہیں سمجھ آسکا اور وہ روضہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے بیٹھ کر بھی امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم  کی طاعت کی بجائے اپنے بنائے ہوئے اماموں کی تقلید پر ہی جمے ہوئے ہیں جبکہ یہ تقلید فساد کی جڑ ہے اور اس کے اثرات و نتائج امت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔
کیاامت میں افتراق و انتشار کی وجہ عدم تقلید ہے؟:۔
ہر چیز کو اس کے اثرات سے ہی جاناجاتا ہے اور اس کے رد وقبول کا انحصار اس چیز سے حاصل ہونے والے نتایج پر ہوتا ہے۔ اگر کسی چیز سے حاصل ہونے والے نتائج اچھے ہوں تو انسان فطری طور پر اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور بغیر کسی کی انگیخت کے اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے جیسا کہ کتاب و سنت کے نام سے ہی انسان دلی طور پر فرحت اور سکون محسوس کرتا ہے۔اور اگر کوئی چیز نتائج کے اعتبارسے بری ہو اور اس کے اثرات لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں تو فطرت انسانی ایسی چیز سے نفرت کرتی اور اسے قبول کرنے سے اباء کرتی ہے جیسا کہ تقلید ناسدیدکے نام سے ہی انسان نفرت کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اس تقلید نے امت مسلمہ کو سوائے افتراق اور انتشار کے کچھ نہیں دیا ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ اسلام میں اس تقلید کی درآمد سے قبل مسلمانوں کی جنگیں کفار سے ہوتی تھیں اور آپس میں سب مسلمان اُخوف و مودت جیسی بلند صفات سے متصف ہوکر جسد واحد بن کر پر سکون زندگی گزارتے تھے اور باہمی اتحاد واتفاق کی بنا پر أَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم سنہری منظر پیش کرتے تھے لیکن ستیاناس ہو اس تقلید کا جس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانا شروع کیا۔جب سے یہ اسلام میں گھس آئی ہے تب سے مسلمانوں کی توانیاں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف ہی استعمال ہونے لگی ہیں تقلید ایسی آفت ہے ہے کہ جو شخص ایک دفعہ اس کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو پھر وہ سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر عمل کے قابل نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے تقلیدی مذہب کا ہی پیروکار بن جاتا ہے اور جو چیز مقلدوں کے تقلیدی مذہب کے خلاف ہو۔ اسے قبول کرنا انہیں بہت مشکل دکھائی دیتا ہے اگرچہ وہ قرآن کریم کی آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہو۔ مقلد ضعیف سے ضعیف روایات کا سہارا لے کر اعلیٰ درجے کی کھری احادیث کا انکار کرنے پر کمر بستہ ہوجاتا ہے۔اپنے غلط مذہب کی حمایت میں اگر مقلد کو صحیح احادیث میں توڑ مروڑبھی کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتا ۔مقلد نے اگر قرآن و سنت کومانناہو تو وہ مقلدہی کیوں بنے۔جب وہ مقلد بن گیا تو اب وہ اتباع رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کیسے کر سکتا ہے تقلید ایسی بیماری ہے جو مقلد کو اپنے تقلیدی مذہب سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کی اجازت نہیں دیتی تقلید طوق اور بیڑی ہے جو مقلد کو اپنے امام مذہب کی تقلیدسے آزاد نہیں ہونے دیتی۔مقلد اُمتیوں کے پیچھے جاتاہے جبکہ اتباع کرنے والارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے راستے کا متلاشی ہوتا ہے لہٰذا جو فرق بینا اور نابینامیں ہے وہی فرق متبع اور مقلد میں ہے۔اور جیسے مشرک موحد نہیں ہو سکتا بدعتی اہل سنت نہیں ہوسکتا ایسے ہی مقلد کبھی متبع رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے فکر ہی ان باتوں کی ہوتی ہے جو اس کے امام
مذہب کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس کے ہاں کتاب و سنت جائے بھاڑ میں۔
چنانچہ ملک میں جب بھی نفاذ اسلام کا مسئلہ درپیش ہو تو مقلد اپنے مذہب کی کتابوں کو اپنے مخصوص نظر یہ کولےکر آڑ آجائےگا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے دین (قرآن و حدیث ) کے نفاذ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جا ئے گا۔مقلدوں کی حالت زار کا اندازہ لگائیےکہ وہ تقلید شخصی پر کس قدرنازاں اور فرحاں ہیں حالانکہ امت میں سے کسی فرد بشر کی تقلید کرنے کا حکم نہ تو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور نہ ہی اس کا حکم اللہ تعالیٰ کے بھیجےہوئے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دیا ہے۔ اور نہ ہی امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے کہیں یہ کہا ہے کہ میری تقلید کرنا اور میرے نام پر ایک مذہب کی بنیاد رکھ لینا ۔ مقلدکی مثال تو بن بلائے مہمان کی سی ہے جس کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہوتی اس کے برعکس اہلحدیث درحقیقت متبع رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں اور اتباع رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دیا ہے اس لیے ہمارے امام حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منصب امامت پر فائز فرمایا ہے ان کے علاوہ ہم کسی اُمتی کے مقلد نہیں ہیں۔خواہ وہ اُمتی غیر مقلد ہی کیوں نہ ہو بلکہ اس کی غلطی کو ہم سر عام بیان کرنے کو تیار ہیں۔
یہ بھی یادرہے کہ اللہ ا ور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تقلید نہیں ہوا کرتی بلکہ اتباع اور اطاعت ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے اللہ و رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے تقلید کا باسی لفظ کہیں بھی استعمال نہیں کیا ہر جگہ اللہ اور اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے (اتباع) اور اطاعت کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت اور اتباع ہوتی ہے اور تقلید اُمتیوں کی ہوتی ہے۔حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت (صفحہ 289) میں ہے۔
الرجوع إلى النبي عليه الصلوة والسلام أو إلى الإجماع  ليس منه
"نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  یا اجماع کی طرف رجوع کرنا تقلید میں داخل نہیں ہے۔"
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ تقلید خود ساختہ اماموں کی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تقلید نہیں ہوتی بلکہ ان کی اتباع و اطاعت ہوتی ہے اور اتباع و اطاعت سے اُمت میں اتحاد برقرار رہتا ہے۔جبکہ تقلید اس کے برعکس امت کو فرقوں میں بانٹ دیتی ہے۔اور مسلمانوں کی قوت کو کمزور کر دیتی ہے حنفیوں نے اپنا امام بنایا تو دوسرے مقلدوں نے اس کے مقابلے میں اپنے علیحدہ امام بنالئے۔اور سب مقلد اپنے اپنے امام تقلید کرنے میں جت گئے اور اس طرح ایک دین کو چار دین بنادیا گیا اور یوں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا دیا ہوا دین کھلونا بن کر رہ گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام  اور مسلمانوں میں تفرقہ پڑگیا جو ختم ہونے میں نہیں آتا ۔اللہ تعالیٰ نے تفرقہ بازی سے بچانے کے لیے حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو امام بنایا تھا اور انہی کی اتباع کا حکم دیا تھا تاکہ مسلمانوں میں مختلف فرقے پیدا نہ ہوں ۔لیکن مقلدین نے خود ساختہ اماموں کی تقلید اختیار کر کے دین الٰہی کا وہ حلیہ بگاڑاجس کی مثال نہیں ملتی اور اس جرم کا سب سے پہلا مرتکب حنفی مقلد ہے جس نے اس تفرقہ بازی کی بنیاد رکھی ہے۔لہٰذا قیامت کے دن جب اُمت واحدہ کو پارہ پارہ کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کئے جائیں گے تو حنفی مقلد ان سب سے آگے ہوں گے۔کیونکہ انھوں نے سب سے پہلے اس بھیڑ چال کی بنیاد رکھی ہے اس کے بعد تو چل سوچل ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تفرقہ بازی کا فعل اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ جب بھی کوئی نبی اور رسول معبوث ہوا اسے خاص طور پر یہ وصیت کی گئی کہ لوگوں کو فرقوں میں نہ بٹنے دینا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ (الشوریٰ13)
"اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے وہی شریعت مقرر کردی ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ وحی ہم نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم  علیہ السلام  موسیٰ  علیہ السلام  اور عیسیٰ علیہ السلام  کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا "
بتائیے اس آیت کریمہ میں ذکر ہونے والے دین سے کیا مراد ہے؟ اگر حنفی مقلد کہیں کہ اس سے مراد حنفی مذہب ہے تو شافعی کہیں گے اس سے شافعی مذہب مراد ہے۔ حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے اگر یقین نہ آئے تو دونوں مذاہب کی مذہبی کتابیں سامنے رکھ کر موازنہ کر لیں ۔شافعی فاتحہ خلف الامام کو فرض کہتے ہیں اور حنفی مقلد اس کے ازلی مخالف ہیں ۔وہ نماز میں مواضع ثلاثہ کی رفع یدین کے قائل و فاعل ہیں حنفی اس کے مخالف ہیں وہ آمین بالجہر کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ حنفی مقلد اس کے منکر ہیں یہ چند مثالیں تو نماز سے متعلق ہیں باقی معاملات اور مسائل میں مقلدین کا باہمی اختلاف اہل علم سے مخفی نہیں ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں انتشار کا سب سے بڑا سبب تقلید ہے اگر یقین نہ آئے تو حنفی مقلدوں کو دیکھ لیں کہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں سخت ویر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو کافر سمجھتے ہیں۔حالانکہ دونوں حنفی مقلد کہلاتے ہیں پھر اس سے آگے کوئی قادری بن گیا اور کوئی چشتی کوئی نقشبندی بن گیا اور کوئی سہروردی دیکھئے خود حنفیوں کے کتنے ٹولے ہوگئے۔معلوم ہوا کہ تقلید بھیڑ چال کا نام ہے اور تقلید فرقہ بندی کی ماں ہے جو فرقوں کو جنم دیتی ہے کیونکہ حنفی شافعی ،مالکی ،حنبلی،دیوبندی ،بریلوی وغیرہ سب فرقے تقلید کرنے سے پیدا ہوئے ہیں ترک تقلید سے پیدا نہیں ہوئے۔لہٰذا تقلید اتحاد و اتفاق کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ گمراہی کی جڑہے جس سے اُمت میں انتشار پیداہوا ہے۔اور اس نے اُمت کی اجتماعیت کو ٹکڑے ٹکڑےکرکے رکھ دیا ہے اس لیے تقلید انسانوں کو زیب نہیں دیتی اور قرآن کریم نے کہیں بھی تقلید کا لفظ انسانوں کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ ہر جگہ انہیں اللہ و رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع و اطاعت کا حکم ہی دیا ہے اور اسی کو ہدایت قراردیا ہے وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا (النور:54)
"اور اگر تم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے"
دیکھئے جیسے آپ لوگ اپنے امام کی تقلید کی وجہ سے حنفی بنےہیں ایسے ہی ابو عبد اللہ کرام جہم بن صفوان ،ابو الحسین بن صالح ،ابو شمر، یونس البری اور غیلان وغیرہ کی تقلید کرنے کی وجہ سے کرامیہ جہمیہ صلحیہ شمریہ یونسیہ اور غیلانیہ وغیرہ فرقے وجود میں آئے ہیں لہٰذاتقلید ہی ایسی چیز ہے جو مختلف فرقوں کو جنم دیتی ہے اور فرقہ تب بنتا ہے جب کہ غیر نبی کی تقلید کی جاتی ہے مقلد نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ڈھیلا چھوڑ کر اپنے امام کو مضبوطی سے پکڑلیتا ہے پھر وفا اپنے امام سے بھی نہیں کرتا کہ اسی پر اکتفا کرے بلکہ اس سے بھی آگے ترقی کرتا ہےجیسا کہ مولانا عبد الحئی لکھنؤی  رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے۔
وكم من حنفي حنفيٌّ فرعا مرجئ أو زيدي أصلا وبالجملة فالحنفية لها فروع باعتبار اختلاف العقيدة فمنهم الشيعة ومنهم المعتزلة ومنهم المرجئة (الرفع والتکمیل صفحہ 385)
"یعنی بہت سے حنفی ہوتے ہیں لیکن اصول میں مرجئہ یا زیدی ہوتے ہیں مختصر یہ کہ عقائد کے اختلاف کے اعتبار سے حنفیوں کی کئی قسمیں ہیں ان حنفیوں سے ہی شیعہ ہیں اور ان سے ہی معتزلہ ہیں اور مرجیہ بھی ان کی ہی ایک قسم ہیں۔"(رسائل بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ )
کیا محدثین کرام بھی مقلد تھے؟:۔
مقلدین کی جسارت اس وقت عروج پر ہوتی ہے۔ جس وقت یہ لوگ محدثین کرام کو بلکہ ان علماء عطام کو بھی مقلد بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنی زندگی میں تقلید ناسدیدسے نفرت کرتے رہےاور اس کے خلاف بعض تصنیفات سپرد قلم کر گئے ہیں دیکھئے امام ابن قیم اور ان کے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کو حنبلی مقلد لکھا جا تا ہے اور یہ پروپیگنڈہ حنفی مقلد ین بڑی شدومد سے کرتے ہیں۔
حالانکہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  کی تقلید کے خلاف لکھی ہوئی کتاب رسالۃالتقلید کے نام سے آج بھی لائبریریوں میں موجود ہے جس میں انھوں نے اتباع و اطاعت کو فرض اور تقلید کو حرام قراردیا ہے بلکہ مقلدین کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بلکہ اماموں کے مخالفین میں شمار کیا ہے اور اسی کتاب کے صفحہ 75پرانھوں نےاپنے استاذ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  کے حنبلی مقلد ہونے کی نفی خود شیخ سے ہی ثابت کی ہے۔اس کے برعکس اہل تقلید انہیں مقلد بنانے کی سعی کرتے رہتے ہیں اسی طرح امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  کی رد تقلید پر کتاب (الرد علي من اخلد الي الارض وجهل ان الاجتهاد في كل زمان   فرض)دقیق العید کے بارےمیں ڈاکٹر عامر حسن لکھتے ہیں۔
وعلي ا لرغم من انه عرف كواحد من ائمة ا لمالكية والشافعية  فهو في الحقيقة خرج عن دائرة التقليد  في المذهبين الي دائرة الاجتهاد ذكر ذلك كل من  عاصرة وعرفة عن كتب قال الادنوي وكتب له طريقة المجتهدين وقري بين يديه فاقر  عليه ولا شك انه من اهل الاجتهاد وما ينازع في ذلك الا من هو من اهل العناد( مقدمۃ الافتراح فی بیان الاصلاح ،ص 42)
"اس کے برعکس کہ وہ آئمہ مالکیہ یا شافعیہ کے ایک عالم ہونے کی حیثیت سے مشہور ہیں مگر درحقیقت وہ ان دونوں مذاہب کی تقلید کے دائرے سے نکل کر مرتبہ اجتہاد پر فائز ہیں اس بات کو ان کے معاصرین نے اور انہیں قریب سے جاننے والوں نے ذکر کیا ہے ۔جیسا کہ ادنوی رحمۃ اللہ علیہ  کا مشہور قول ہے کہ ان کے سامنے اہل اجتہاد کا طریقہ لکھا اور پڑھا گیا جسے انھوں نے برقرار رکھا اور یہ بات  شک وشبہ سے بالا ہے کہ وہ اہل اجتہاد سے ہیں اور سوائے ضدی لوگوں کے کوئی شخص اس بات میں اختلاف نہیں کرتا ۔
اسی طرح دیگر بہت سے اہل علم کو مقلدین حضرات اپنے رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کرتے رہتے ہیں۔حالانکہ تقلید کے خلاف ان کی تصنیفات دستیاب اور ان کے غیر مقلد ہونے پر تصریحات موجود ہوتی ہیں۔
کیا اہلحدیث صرف ڈیڑھ سو سال پہلے وجود میں آئے؟:۔
رہا ان کا یہ دعویٰ کہ"تقریباً ڈیڑھ سو سال سے ایک فرقہ نکلا ہے جس نے ان چاروں اماموں سے علیحدہ اپنی جماعت بنائی ہے"(ص18)اس سے ان کا اشارہ اہلحدیث کی طرف ہے جنہیں یہ  غیر مقلد کے نام سے یاد کرتے ہیں اور مفتی صاحب نے کسی سے سن سنا کر ڈیڑھ سو سال سے اہلحدیث کے وجود  کی لاف تومار دی ہے لیکن اس پر کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے کی زحمت نہیں کی اور یہ مفتی صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ وہ مقلد ہیں اور مقلد لکیر کافقیر ہوتا ہے جسے کوئی بات نوک قلم پر لانے سے پہلے تحقیق کی تکلیف نہیں دی جاسکتی کیونکہ تقلید کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے۔
التقليد العمل بقول الغير من غير حجة(مسلم الثبوت ص289)
یعنی" دلیل کے بغیر ہی غیروں کی بات پر عمل کرنا تقلید کہلاتا ہے۔
قدامت اہلحدیث:۔
غور و فکر سے کام لینے والا ہر شخص جانتاہے کہ قرآن کریم اور حدیث نبوی پر عمل کرنے والے کو اہلحدیث کہا جا تا ہے لہٰذاجب سے قرآن و حدیث ہیں تب سے اہلحدیث بھی چلے آرہے ہیں مفتی صاحب کے بقول اگر ان کا وجود ڈیڑھ سو سال سے ہو تو اس سے قبل کی تصنیفات میں ان کا نام و نشان نہیں ملنا چاہئے جبکہ اس سے پہلے ہر دور کے علماء کرام نے اپنی اپنی تصنیفات میں اہلحدیث کا ذکرخیر کیا ہےجسے اختصارکے ساتھ نقل کیا جا تا ہے۔
1۔شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی1176ھ)نے(حجةالبالغة میں باب الفرق بين اهل الحديث واصحاب الراي)
کے تحت تحریر فرمایاہے:
"فوقع تدوين الحديث والفقه والمسائل من حاجتهم بموقع من وجه آخر، وذلك أنه لم يكن عندهم من الأحاديث والآثار ما يقدرون به على استنباط الفقه على الأصول التي اختارها أهل الحديث"(حجۃ اللہ البالغہ ج1 ص 152 المکتبۃ السلفیۃ لاہور)
یعنی "حدیث وقفہ اور مسائل کودوسرے طرز پر مدون کرنے کی ضرورت پیش آئی اور یہ اس لیے کہ ان کے پس اتنی احادیث اور آثار نہیں تھے جن سے اہلحدیث کے اختیار کردہ اصول کے موافق استنباط فقہ پر قدر ہوتے"
2۔اس سے قبل حافظ ابن حجر (متوفی 852ھ)ایک حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔(وقد صححه  بعض اهل الحديث)(فتح الباری شرح صحیح بخاری ج2ص220)
یعنی"اس حدیث کو اہل حدیث نے صحیح کہا ہے۔
3۔اور اس سے قبل امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی751ھ) اپنی تصنیفات میں کثرت سے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں ایک مقام پر قنوت نازلہ سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
وهذا رد على أهل الكوفة الذين يكرهون القنوت في الفجر مطلقاً عند النوازل وغيرها، ويقولون هو منسوخ وفعله بدعة، فأهل الحديث متوسطون بين هؤلاء وبين من استحبه عند النوازل وغيرها، وهم أسعد من الطائفتين، فإنهم يقنتون حيث قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويتركونه حيث تركه،
یعنی"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کی یہ حدیث ان کو فیوں کی تردیدکرتی ہے جو حوادث وغیرہ میں مطلقاًنماز فجر میں قنوت نازلہ کو مکروہ سمجھتےہیں اور اس کا کہنا یہ ہے کہ قنوت پڑھنا منسوخ ہو چکا ہے اور اس پر عمل بدعت ہے۔ جبکہ فریقین میں اہل حدیث کا مسلک معتدل ہے۔اور اہل حدیث ہی حدیث نبوی کے مفہوم کو بخوبی سمجھتے ہیں لہٰذاوہ جہاں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قنوت پڑھی ہے وہاں پڑھتے ہیں اور جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے چھوڑا ہے وہاں چھوڑنے کے قائل ہیں(زادالمعاد:ج1ص70)
4۔اس سے قبل امام بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی728ھ)اپنی تالیفات میں شرعی مسائل میں جابجا اہل حدیث کا مسلک بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر نماز میں انھوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی قرآءت سے متعلق تین اقوال ذکر کئے ہیں ان میں سے تیسرا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
وَقيل قرَاءَتهَا جَائِزَة بل مُسْتَحبَّة وَهَذَا مَذْهَب أبي حنيفَة وَالْمَشْهُور عَن أَحْمد أهل الحَدِيث
یعنی "نماز میں بسم اللہ کا پڑھنا جائز ہی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور یہی قول امام حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ  کا مشہورمذہب بھی یہی ہے اور اکثر اہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے۔
5۔اور اس سے بھی قبل امام رازی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی606ھ) وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا
کے تحت چوتھا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں۔
المسئلة الربعة قوله :( فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ)يدل عل ان القران وما هو عليه من كونه سوراهو علي حد ما انزله الله تعالي بخلاف قول كثير من اهل الحديث انه نظم علي هذا الترتيب في ايام عثمان فلذلك صحيح  التحدي مرة بسورة ومرة بكل القرأن (التفسیر الکبیر لامام الرازی،ج2صفحہ 117)
"اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ( فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ)اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اس کے برخلاف اکثر اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اس کی یہ ترتیب دور عثمانی کی ہے اسی وجہ سے مخالفین کو پورے قرآن کے ساتھ اور کبھی اس کی ایک سورت کے ساتھ چیلنج کرنا صحیح قرارپا تا ہے۔
6۔اور اس سے پہلے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماگئے ہیں کہ بدتیوں کی علامت اہل حدیث کی غیبت کرنا ہے اور بددینوں کی علامت اہل حدیث کا نام حشویہ رکھنا ہے اور قدریہ کی علامت ان کو مجرہ نامزد کرنا ہے اور جہمیہ کی علامت ان کو مشبہہ کہنا ہے اور رافضوں کی علامت یہ ہے کہ وہ ان کا نام ناصبی رکھتے ہیں ۔۔۔ان گمراہ فرقوں کی علامات بیان کرنے کے بعد شیخ علیہ الرحمتہ اہل حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماگئے ہیں۔
ولا اسم لهم إلا اسم واحد وهو أصحاب الحديث ، ولا يلتصق بهم ما لقبهم به أهل البدع ، كما لم يلتصق بالنبي – صلى الله عليه وسلم – تسمية كفار مكة ساحرا ، وشاعرا ومجنونا ومفتونا وكاهنا(غنیۃ اطالبین صفحہ نمبر۔197)
یعنی"ان کاتو ایک ہی نام ہے اور وہ نام اہل حدیث ہے۔اور بدتیوں نے ان کو جو لقب دئیے ہیں ان کا کچھ نہیں بگڑ تا جیسا کہ مکہ کے کافر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو جادو گراور شاعر اور مجنون اور کاہن کہہ کر آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے ۔"
7۔اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 279ھ)اپنی جامع ترمذی میں جنازےسے آگے چلنے کے متعلق حدیث ذکر کے کے بعد فرماتے ہیں وأهل الحديث كلهم يَرَوْن أن الحديث المرسل في ذلك أصح .(جامع ترمذی196/1)
8۔اور امام مسلم (متوفی261ھ)اپنی صحیح کے مقدمہ میں متعدد بار اہلحدیث کا ذکر کرتے ہیں ایک مقم پع فرماتے ہیں (فأما ما كان منها عن قوم هم عند أهل الحديث متهمون أو عند الأكثر منهم فلسنا نتشاغل بتخريج حديثهم)(صحیح مسلم :ج1ص55)
یعنی: جن روایات کے راوی تمام اہلحدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک مہتم بالکذب ہوں گے ہم ان کی روایات اپنی صحیح میں نہیں لائیں گے۔"
اہلحدیث سے اگر چہ یہاں محدثین کرام مراد ہیں لیکن ان کے اصول کو اختیار کرنے والے عوام بھی اس میں شامل ہیں جیسا کہ مقلدین احناف میں ان کے خواص اور عوام سب شمار ہوتے ہیں۔
9۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی241ھ)سے احمد بن حسن نے کہا: اے عبداللہ !مکہ میں ابن ابی قتیلہ کے پاس اہلحدیث کا ذکر ہوا تو اس نے انہیں برا بھلا کہا۔تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  فرمانے لگے۔"ایسا کہنے والا زندیق ہے زندیق ہے زندیق ہے"اور یہ کہتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل : 233)
10۔اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی204ھ) باب رفع الیدین فی الصلوۃ کے تحت تین مقامات میں (نماز شروع کرتے ہوئے اور رکوع کے لیے جھکتے اور اس سے اٹھتے ہوئے) رفع الیدین کے اثبات پر دلائل ذکر کرنے کے بعد اہلحدیث کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
"وأهل الحديث من أهل المشرق يذهبون مذهبنا في رفع الأيدي ثلاث مرات في الصلاة"
"یعنی اہل مشرق کے اہلحدیث نماز میں تین مرتبہ رفع الیدین کرنے سے متعلق ہمارے مذہب کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔"
11۔    اس سے قبل امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 150ھ) بھی غیر مقلد(اہل حدیث) تھے بلکہ وہ اہل حدیث گرتھے جو دوسروں کو بھی اہل حدیث بنایا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت  سفیان بن عینیہ  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:
"پہلے پہل اما ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ہی نے مجھ کو اہلحدیث بنایا ہے"(دیکھئے حدائق الحنفیہ ،ص34حدیقہ دوم)
اور امام صاحب سے قبل تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ  کا دور تھا جن میں نہ کوئی حنفی مقلد تھانہ شافعی وغیرہ ،بلکہ تمام صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین وتابعین متبع رسول صلی اللہ علیہ وسلم  تھے اور سب تقلید ناسدید سے ناآشنا تھے کیونکہ تقلید شخصی اور مذہب  پرستی کی بنیاد چوتھی صدی میں پڑی ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:
اعلم أن الناس كانوا قبل المائة الرابعة غير مجمعين على التقليد الخالص لمذهب واحد بعينه (حجۃ البالغہ ج1 ص152)
"واضح ہو کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک خاص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے۔
نیز فرماتے ہیں:۔
أقول وبعد القرنين حدث فيهم شيء من التخريج غير أن أهل المئة الرابعة لم يكونوا مجتمعين علي التقليد الخالص علي مذهب واحد والتفقة له والحكاية لقوله كما يطهر من التتبع
(حجۃ اللہ البالغہ ج1 ص152)
" میں کہتاہوں پہلی دو صدیوں کے بعد کسی قدرتخریج کاطریقہ پیدا ہوگیا لیکن چوتھی صدی کے لو گ کسی خاص شخص کی تقلیدکرنے  پر متفق نہیں تھے اور نہ ہی کسی خاص شخص کی فقہ کے پابند تھے۔ اور نہ ہی ہر بات میں اس کے قول کو نقل کیاکرتے تھے جیسا کہ  تتبع سے معلوم ہوتا ہے۔
تمام مقلد حضرات بالعموم اور الفاروق کے مضمون نگار بالخصوص مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی  میں ا پنی اداؤں پر نظر ثانی کریں اور سوچیں کہ اگر اہل حدیث حضرات ڈیڑھ سو سال سے شروع ہوئے ہیں جیسا کہ آپ کا دعویٰ ہے توڈیڑھ صدی سے قبل ان کانام ونشان نہیں ملنا چاہیے حالانکہ اس سے قبل ہر دور اور ہر صدی کے علماء کرام نے ا پنی تصنیفات  میں اہل حدیث کا ذکر خیر کیا ہے جسے ہم بمع حوالہ جات ان کی  کتابوں سےثابت کرآئے ہیں۔ اور اس بات کو بھی زیر غور لائیں کہ اگر تقلید کوئی مستحسن چیز ہوتی اور شریعت اسلامیہ میں اس کی کوئی اہمیت ہوتی توخیر القرون میں اس کی پابندی کی جاتی اور اس کی طرف راہنمائی کی جاتی جبکہ اسلام کے سنہری دور کے مسلمانوں نے اپنی زندگیوں میں  تقلید کا کبھی  تصور بھی نہیں کیا،اور نہ ہی وہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع واطاعت کے بغیر کسی چیز کوخاطر میں لاتے تھے۔
یہی وہ معیار ہے جس کی طرف اہل حدیث دعوت دیتے ہیں اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کو وہ تقلید شخصی پر غالب کرنا چاہتے ہیں اس پر اہل حدیث علماء کی تصنیفات اور ان کی مساعی جمیلہ شاہد ہیں،نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ  نے اسی معیار کو سربلند کرنے کے لیے اپنی کتاب:
"الحطة  في ذكر الصحاح السنة"
تالیف کی ،جس کا آغاز ہی وہ اہلحدیث کے ذکر خیر سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:
" محمد لا الله الذي جعل اهل الحديث اهل النبي صلي الله عليه وسلم خالصة من دون الناس"
یعنی"میں اللہ کی تعریف کے ساتھ اپنی کتاب کو شروع کرتا ہوں،جس نے دوسرے لوگوں سے قطع نظر خاص کر اہلحدیث کو ہی اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیروکار بنایا ہے"(الحطۃ:ص1)
کیا نواب صدیق حسن خاں نے اہل حدیث کی مذمت کی ہے؟
اس کے بعد نواب صاحب نے متعدد مقامات پر نظم اور نثر کے ذریعہ سے اہلحدیث کی فضیلت اُجاگر کی ہے۔جس کی تفصیل،طوالت سے بچنے کے لیے یہاں دینامناسب معلوم نہیں ہوتا،لیکن بھلا ہو اس تقلیدی ذہن کا جس نے نواب صاحب اور ان کی اس کتاب کو اہل حدیث کے خلاف استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا،اور اس کا ایک اقتباس حوالہ کی نشاندہی کیے بغیر غیر مقلدین کی مذمت میں پیش کردیا،حالانکہ وہ عبارت اہلحدیث کے خلاف نہیں ہے،اور نہ ہی نواب صاحب جو مضمون نگار کے بقول خود بھی غیر مقلد تھے۔غیر مقلدین کے خلاف ایسی کوئی بات لکھ سکتے تھے،اب ہم نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب "الحطة" کی وہ مفصل عبارت نقل کرتے ہیں جس کا ترجمہ"الفاروق" کے مضمون نگار نے،بزعم خویش اہلحدیث کے خلاف سمجھ کر اسے ان کی مذمت میں کتاب کا حوالہ دیئے بغیر نقل کیا ہے،تاکہ قارئین کرام کو معلوم ہوسکے کہ یہ اقتباس اہلحدیث کے خلاف نہیں بلکہ اسے نواب صاحب نے اہل تقلید کے خلاف ذکر کیا ہے ۔وہ فرماتے ہیں:
"فقد نبتت في هذا الزمان فرقة ذات سمعة ورياء تدعي لأنفسها علم الحديث والقرآن والعمل بهما على العلات في كل شأن مع أنها ليست في شيء من أهل العلم والعمل والعرفان لجهلها عن العلوم الآلية التي لا بد منها لطالب الحديث في تكميل هذا الشأن وبعدها من الفنون العالية التي لا مندوحة لسالك طريق السنة عنها كالصرف والنحو واللغة والمعاني والبيان فضلا عن كمالات اخري وان تشبهوا بالعلماء ويظهروا في ذي اهل التقوي"
تصـدر للتدريس كل مهوس
بليد تسمى بالفقيه المدرس
ولذلك تراهم يقتصرون منها على النقل ومبانيها ولا يصرفون العاينة إلى فهم النسة وتدبر معانيها ويظنون أن ذلك يكفيهم وهيهات بل المقصود من الحديث فهمه وتدبر معانيه دون الاقتصار على مبانيه فالأول في الحديث السماع ثم الحفظ ثم الفهم ثم العمل ثم النشر وهؤلاء قد اكتفوا بالسماع والنشر من دون ثبت وفهم وإن كان لا فائدة في الاقتصار عليه والاكتفاء به فالحديث في هذا الزمان لقراءة الصبيان دون أصحاب الإيقان وهم في غفلتهم يعمهون
وأما هؤلاء الجهلة فجل تحديثهم عبارة عن اختيار بعض المسائل المختلف فيها بين المجتهدين والمحدثين في باب الطاعات دون المعاملات الدائرة بينهم كل يوم على العلات وتمام اتباعهم حكاية خلاف أهل الاجتهاد مع أهل الحديث الواقع في العبادات دون الإرتفاقات ومن ثم لا يهتدون إلى ما انتقده أهل الحديث في الباب سبيلا ولا يعرفون من فقه السنة في المعاملات شيئا قليلا وكذلك لا يقدرون على استخراج مسألة واستنباط حكم على أسلوب السنن وأهليها
 فيا لله العجب من أين يسمون أنفسهم بالموحدين المخلصين وغيرهم بالمشركين المبتدعين وهم أشد الناس تعصبا وغلوا في الدين قد أنفقوا في غير شيء نفائس الأوقات والأنفاس واتعبوا أنفسهم وحيروا من خلفهم من الناس ..........آگے فرماتے ہیں:
وهذا الداء العضال إنما تولد من تعصب العلماء والفقهاء بينهم وكثرة القيل والقال حتى عمت به البلوى والجدال.........
اس کے بعد تقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب"ايقاظ الهم" کی عبارت نقل کرتے ہیں۔
اور شاہ ولی اللہ کی 'الانصاف" کا اقتباس یوں ذکر کرتے ہیں:
قال صاحب الإنصاف وفتنة هذا الجدال والخلاف قريبة من الفتنة الأولى حين تشاجروا إلى الملك وانتصر كل رجل لصاحبه فكما أعقبت تلك ملكا عضوضا ووقائع صماء عمياء فكذلك عقبت هذه جهلا واختلاطا وشكوكا وهماما لها من إرجاء ونشأت من بعدهم قرون على التقليد الصرف لا يميزون الحق من الباطل ولا الجدال من الاستنباط فالفقيه يومئذ هو الثرثار المتشدق الذي حفظ أقوال الفقهاء قويها وضعيفها من غير تمييز وسددها بشقشقة شدقية والمحدث من عد الأحاديث صحيحها وسقيمها بقوة لحييه ولا أقول ذلك مطردا كليا فإن لله طائفة من عباده لا يضرهم من خذلهم وهم حجة الله في أرضه وإن قلوا ولم يأت قرن بعد ذلك إلا وهو أكثر فتنة وأوفر تقليدا وأشد انتزاعا للأمانة من صدور الناس حتى اطمأنوا بترك الخوض في الدين وبأن يقولوا إنا وجدنا آباءنا على أمة وإنا على آثارهم لمقتدون وإلى الله المشتكى انتهى(الحطۃ:ص152تا157)
یعنی"اس زمانے میں ایک شہرت پسند اور ریا کار فرقہ ظاہر ہواہے جو خامیوں کے باوجود اپنے لیے قرآن وحدیث کے علم اور اس پر عامل ہونے کا دعویٰ کرتاہے۔حالانکہ وہ اہل علم وعمل اور اہل معرفت میں سے نہیں ہے،کیونکہ وہ علوم آلیہ سے جاہل ہے۔جن کی واقفیت طالب حدیث کے لیے اس فن کی تکمیل  میں بہت ضروری ہے۔اور یہ فرقہ علوم عالیہ سے بھی ناواقف ہے جن کے بغیر سنت پر چلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مثلاً صرف،نحو،لغت،معانی،بیان،وغیرہ چہ جائیکہ وہ دوسرے کمالات کا حامل ہو۔اور یہ لوگ علماء کی شکل وصورت اور اہل  تقویٰ کے بھیس میں نمودار ہوتے ہیں،شعر:ہرہوس پرست احمق مسند تدریس سنبھال بیٹھا ہے،اس کا نام استاد فقیہ رکھا جاتا ہے،آپ دیکھیں گے  کہ وہ نقل کرنے پر اور ابتدائی چیزوں پر اکتفا کرتے ہیں اور حدیث کو سمجھنے اور اس کے مفاہیم پر غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور وہ  سمجھتے ہیں کہ بس یہی کافی ہے جبکہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے حدیث پڑھنے کامقصد تو یہ ہے کہ اسے سمجھاجائے اور اس کے معنی پر غور کیاجائے یہ تو نہیں کہ کہ اس کی(؟) پر ہی اکتفا کربیٹھے۔حدیث کا   پہلا مرتبہ تو یہ ہے کہ اس کا سماع کرے۔پھراسے حفظ کیاجائے اور اس پر عمل کیا جائے اس کے بعد اس کی نشرواشاعت کی جائے مگر یہ لوگ اسے سننے اور اس کی نشرواشاعت پر ہی اکتفا کرکے بیٹھ گئے ہیں اسے سمجھنے اور اس کی  تحقیق کرنے کے لیے  تیار نہیں،حالانکہ اس کے بغیر سماع اور نشرواشاعت کا کوئی فائدہ نہیں، اس دور میں تو حدیث بچوں کے پڑھنے کے لیے رہ گئی ہے اور اصحاب یقین اپنی غفلت میں سرگرداں ہیں،لیکن یہ جاہل لوگ ان کی حدیث دانی صرف یہ ہے کہ یہ اُن مسائل کو اچھالتے رہتے ہیں جو عبادات سے متعلق ہیں اور مجتہدین اورمحدثین کے درمیان اختلافی ہیں،ان معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہیں کوئی جو لوگوں سے متعلق ہیں ۔ ان کے ہاں اتباع سے مراد یہ ہے کہ عبادات کے بارے میں اہل اجتہاد کاجواختلاف اہل حدیث کے ساتھ ہے اسے نقل کردیاجائے۔تدبیرات نافعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے،اسی وجہ سے یہ لوگ اہل حدیث کے نقد کے شدید نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں معاملات کے بارے میں فقہ الحدیث سے کچھ واقفیت ہے،اور حدیث نیز اہل حدیث کے اُصول پر  انہیں استنباط مسائل کی قدرت بھی حاصل نہیں ہے۔حیرت ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو مخلص موحد کہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مشرک اور بدعتی گردانتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ خود بڑے متعصب اور غالی قسم کے ہیں جو اپنے قیمتی وقت اور زندگی کو بے فائدہ صرف کررہے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتے ہیں اور اپنے پچھلوں کو بھی حیرت میں ڈالتےہیں۔آگے فرماتے ہیں یہ لاعلاج مرض علماء اور  فقہاء کے باہمی  تعصب اور زیادہ لے دے سے  پیدا  ہوئی ہے حتیٰ کہ یہ مصیبت اور لڑائی جھگڑا عام ہوگیا۔"۔۔۔ اس کے بعد تقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب "ايقاظ هم اولي الابصار"کی عبارت نقل کی ہے۔بعدازیں شاہ ولی اللہ  کی "الانصاف" کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں جو مقلدوں کے خلاف ہے:
" صاحب انصاف نے کہا ہے :بعد ازیں ایسے اہل زمان آئے جن کی نشونما خالص تقلید پر ہوئی جس کی وجہ سے وہ حق وباطل اور جدال واستنباط میں فرق نہیں کرسکتے ،اس وقت فقیہ سے مراد وہ شخص لیاجاتاہے جو باچھیں کھول کربک بک کرنا جانتا ہو اور اس نے بلا تمیز فقہاء کے صحیح اور ضعیف اقوال یاد کررکھے ہوں، اور منہ زوری سے انہیں درست بنا لیا ہو اور محدث سے مراد وہ شخص لیاجاتاہے جس نے صحیح وضعیف احادیث کو شمار کرلیاہو۔میں یہ بات علی وجہ العموم نہیں کہتا،اگرچہ وہ لوگ کم ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں۔اس کے بعد جو زمانہ بھی آیا وہ پہلے سے بڑھ کر پرفتن اورتقلید سے اٹا ہواتھا،اورلوگوں کے دلوں سے امانتداری کو سلب کرنے والاتھا نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ وہ دین میں غور وخوض کو چھوڑ کر مطمئن ہوکر  بیٹھ گئے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ داروں کو ایک دین پر پایا ہے اور ہم بھی انہی کے نشانات  پر چلتے جائیں گے۔والی اللہ المشتکی"
یہ وہ اقتباس ہے۔ جس کاترجمہ ماہنامہ"الفاروق" نے ہاتھ کی صفائی سے اہل حدیث کے خلاف  پیش کرنے کی جسارت کی ہے اور کتاب کاحوالہ دیئے بغیر نقل کیا ہے تاکہ کوئی شخص آسانی کے ساتھ اصل کتاب کی طرف مراجعت کرکے اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوسکے،اگرچہ ہم تمام اہلحدیث کے علم وعرفان کی بلندیوں سے ہمکنار ہونے کادعویٰ نہیں کرتے لیکن اس مذکورہ بالا اقتباس کی مختلف عبارتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ نواب صاحب نے اسے اہل حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اہل تقلید کے خلاف نقل کیا ہے۔جو بزعم خویش  فقیہ کہلاتے ہیں حالانکہ وہ استنباط اور مسائل کے استخراج پر قادر نہیں ہوتے اوراپنے لیے محدث اور مفسر ہونے کے دعویدار ہوتے ہیں،جبکہ وہ فقہ الحدیث اور اہل حدیث کی تنقیدات سے  نابلد ہوتے ہیں، اور نواب صاحب کا یہ کہنا کہ یہ لوگ حدیث کے سماع کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور اس کے معانی ومفاہیم  پر توجہ نہیں دیتے،یہ جملہ بھی ان لوگوں پر ہی صادق آتا ہے جو سالہا سال تک فقہ حنفی کی کتابیں ہضم کرنے میں لگاتے ہیں۔ اور دورہ حدیث کے نام سے  تمام کتب حدیث کا سماع ایک سال سے بھی کم عرصے میں کر گزرتے ہیں،اس کے بعد نواب صاحب کا الایقاظ اور الاحناف کی عبارتیں نقل کرنا بھی اس بات کی غمازی کرتاہے کہ وہ اہل تقلید کی مذمت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ دونوں کتابیں  تقلید شخصی کے رد میں لکھی گئی ہیں ایسے مقلدین کے بارے میں نواب صاحب نے ا پنی کرب وبے چینی کا اظہار ان لفظوں سے کیا ہے:
"والمقصود أن هؤلاء القوم رؤيتهم قذاء العيون وشجى الحلوق وكرب النفوس وحمى الأرواح وغم الصدور ومرض القلوب إن أنصفتهم لم تقبل طبيعتهم الإنصاف"
(الحطۃ فی ذکر الصحاح السنۃ: ص 155)
"مقصد یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا دیکھنا آنکھوں کی چبھن ،گلوں کی  گھٹن،جانوں کے کرب اور روحوں کی مرج،سینوں کے غم اور دلوں کی بیماری کا باعث ہے اگر آپ ان سے انصاف کی بات کریں تو ان کی فطرت انصاف کی بات قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے۔"
کیا انگریزوں نے"اہل حدیث" نام الاٹ کیا ہے؟:۔
الفاروق کے مفتی صاحب اہل حدیث پرالزام لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"انگریزوں سے الاٹ کراکے اپنا نام اہلحدیث رکھ لیا ہے،جبکہ قرآن وحدیث میں کس جگہ امت مسلمہ کے لیے یہ نام استعمال نہیں ہوا،سورہ حج کے آخری رکوع میں فرمایا ہے:
" هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا"
جس میں صاف تصریح ہے کہ فخر دو عالم خاتم الانبیاء علیہ السلام  والمرسلین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کا نام المسلمون ہے۔یہ الگ بٹ جانا اور ا پنا نیام نام رکھ لینا کیا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ انہوں نے اپنے کو جماعت مسلمین سے علیحدہ کرلیا ہے"(ص18)
ہم مفتی مذکور سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اہلحدیث کہلانے والا ہی المسلمون سے علیحدہ کیوں ہوتا ہے،اور مقلد کہلانے والا اس سے خارج کیوں نہیں ہوتا۔جب المسلمون کے نام کے ہوتے ہوئے مقلد،حنفی،قادری،وغیرہ کہلانے والا المسلمون سے خارج نہیں ہوتا تو اہل حدیث کہلانے والا بھی مسلمون میں داخل ہی رہے گا،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کا نام مسلمون رکھا ہے لیکن اس کے ہوتے ہوئے کوئی  صفاتی نام رکھنے سے روکا بھی نہیں ہے۔اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  مسلمین نام کے ہوتے ہوئے ،انصار اور مہاجرین بھی کہلاتے تھے اس طرح وہ المسلمون سے علیحدہ نہیں ہوگئے۔اللہ رب العزت نے خود قرآن کریم میں ان کے یہ صفاتی نام ذکر فرمائے ہیں۔
آپ کاانگریزوں سے اہل حدیث نام الاٹ کرانے کا دعویٰ بھی بلا دلیل ہے۔حالانکہ یہ نام خیر القرون سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمان مصنفین نے اپنی تالیفات میں ذکر کیا ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں اسے تفصیل کے ساتھ ثابت کیاجاچکاہے اور یہ نام غیر قرآنی بھی نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کو حدیث کہا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
" اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ"(الزمر:23)
یعنی اللہ تعالیٰ نے بہترین حدیث نازل کی ہے"نیز ارشاد الٰہی ہے:
" فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ"(المرسلات:50)
ادھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال وافعال اور تقریرات کو بھی حدیث کہا جاتا ہے،اسی حدیث کے لفظ کے شروع میں "اہل" کالفظ۔۔۔جو کہ قرآن کریم میں ہی وارد ہے۔۔۔ملانے سے اہلحدیث کامبارک نام حاصل ہوتا ہے۔بتایئے قرآن کریم کے ایک لفظ کے ساتھ قرآن ہی کا دوسرا لفظ ملانے سے اس نام کو غیرقرآنی یا غیر اسلامی کیسے قرار دیاجاسکتا ہے،لہذا اہلحدیث کا معنی ہوا کہ قرآن اور حدیث نبوی دونوں کو ماننے والے۔بنابریں جبکہ حدیث کے لفظ میں قرآن وسنت دونوں مراد ہوتے ہیں تو  ہمیں اہل القرآن والحدیث نام رکھنے کاتکلف کرنے کی ضرورت نہیں ،جیسا کہ آپ نے سمجھاہے۔جبکہ اس سے قبل ہردور کے علماء ومحدثین ،اس جماعت کو اہلحدیث کے نام سے ہی یاد کرتے آرہے ہیں تو اسی لیے کہ یہ نام قرآن وسنت دونوں کو شامل ہے۔
مفتی صاحب اہل حدیث سے شکایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"حضرت ائمہ کرام نے اپنے اجتہاد واستنباط سے جو مسائل بتائے ہیں ،ان کے بارے میں   غیر مقلدین عوام کو کہتے ہیں کہ یہ حدیث کے خلاف ہیں،یہ لوگ مخالفت حدیث کے معنی بھی نہیں سمجھتے،کوئی حدیث ہوتی تب  تو مخالفت ہوتی جب حدیث  بعض اُمور کے بارے میں موجود ہی نہیں تو مخالفت کیسے لازم آئی؟"(ص19)
حالانکہ حنفی علماء کاطرز عمل مفتی صاحب کے دعوے کےسراسر خلاف ہے،کیونکہ اکثراحناف کا اجتہاد،صریح حدیث نبوی کے خلاف ہوتا ہے،جس کی تفصیل میں جانے کاموقع تو نہیں ہے لیکن ہم اس کی ایک مثال ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے،حدیث سے یہ امر ثابت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی نماز کو "السلام علیکم ورحمۃ اللہ پر ختم کرتے تھے اورآپ کاارشاد گرامی ہے:
" وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ ، وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ ."
یعنی"خارج نماز مباح اشیا اللہ اکبر کہنے سے حرام ہوجاتی ہیں اور دوران نماز حرام شدہ چیزیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے حلال ہوجاتی ہیں"(جامع ترمذی:ج1 ص126)
لیکن دوسری طرف حنفی فقہ کی کتابیں اس حدیث کے خلاف ایک انوکھا ہی اجتہاد واستنباط پیش کرتی ہیں،اسے آپ بھی سنیں اور بتائیں کہ قرآن وسنت کی کس نص سے یہ استنباط کیا گیا ہے:
منیۃ المصلی میں ہے:
"وإذا قعد المصلي قدر التشهد فأحدث عمداً، أو تكلّم أو عمل عملاً ينافي الصلاة، تمت صلوته بالاتفاق"
یعنی"حنفیوں کا اس بات  پراتفاق ہے کہ نمازی اپنی نماز میں تشہد کے بقدر بیٹھنے کے بعد قصداً جان بوجھ کر ہواخارج کردے تو اس کی نماز ہوجائےگی"
(دیکھئے منیۃ المصلی :ص84۔۔۔شرح وقایہ:ج1 ص159۔۔۔کنز الدقائق ص30)
اب آپ ہی بتائیں کہ حنفیوں کا یہ انوکھا اجتہاد حدیث مذکور کے خلاف ہے یا نہیں؟اوریہ بھی وضاحت فرمادیں کہ سلام کایہ نعم البدل کسی آیت یاحدیث سے مستنبط کیاگیا ہے۔
الفاروق کے مفتی مزید گوہر افشانی کرتے ہوئے ص19،20 پر لکھتے ہیں:
"آپ (اہل حدیث) توحضرات صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے بھی مخالف ہیں دیکھئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے رمضان المبارک میں ایک امام کے پیچھے تراویح  پڑھنے کے لیے سب کوجمع فرمایا اور جتنے بھی صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  تھے،ان سب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے اتفاق کرکے  بیس رکعت تراویح پڑھنا شروع کیا۔ہم تو کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے کسی ایسی دلیل پرعمل کرتے ہوئے بیس  رکعت تراویح کاسلسلہ جاری فرمایا جو ان کو معلوم تھی ۔اسی لیے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے ان سے موافقت فرمائی۔پھر وہ خلفاءراشدین میں سے تھے جن کے بارے میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:
" عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ"
لیکن غیر مقلد کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے بدعت جاری کی ،اور اس اعتبار سے اس زمانے کے سب صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین   بدعتی ہوگئے"
العیاز باللہ! حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو بدعتی کون کہہ سکتا ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  بدعتی ہوسکتے ہیں۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سےبیس رکعت تراویح والی روایت صحیح ثابت ہی نہیں ہے بلکہ خود حنفی حضرات نے اس  روایت کوضعیف قرار دیاہے۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے واسطے سے جو روایت ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پیش کی جاتی ہے کہ آپ رمضان میں بیس رکعت پڑھا کرتے  تھے،علامہ زیلعی حنفی اس روایت کے ضعف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں(نصب الرایۃ:ج2،ص153)
هو معلول بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان ، جد الإمام أبي بكر بن أبي شيبة ، وهو متفق على ضعفه ... ثم إنه مخالف للحديث الصحيح عن عائشة ( ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة)
"یعنی(بیس رکعت تراویح والی روایت) ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے اوراس کے ضعف پر سب علماء کااتفاق ہے۔ابن عدی نے بھی الکامل میں اسے ضعیف قراردیاہے۔پھر یہ اس صحیح حدیث  کے بھی خلاف ہے جو ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رمضان کے مہینہ میں نماز کےمتعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  رمضان، غیر رمضان میں گیارہ ر کعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔"
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بیس تراویح ثابت ہی نہیں اور نہ ہی ان کےدور خلافت میں یہ صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کرام کامعمول تھا ،بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے گیارہ رکعات پڑھنے کاحکم صحیح ثابت ہے جس کی طرف آ پ آتے نہیں اور نہ دوسرے لوگوں کوآنے دیتے ہیں۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  میں ہے:
عن محمد بن يوسف  عن السائب بن يزيد   انه قال امر عمر بن الخطاب أُبَىَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِىَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِىِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلاَّ فِى فُرُوعِ الْفَجْرِ.
(موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  مترجم :ج1 ص 139،باب ماجاء فی قیام رمضان)
یعنی" سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ابی بن کعب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوگیارہ رکعت پڑھایا کریں۔سائب بن یزید کہتے ہیں کہ امام ایک ایک رکعت میں سو سو آیتیں پڑھتا تھا،یہاں تک کہ ہم طویل قیام کیوجہ سے لاٹھیوں کاسہارا لیتے اور فجر کے قریب فارغ ہواکرتے تھے"
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے صحیح ثابت حدیث کوپیش نظر رکھ کر غورفرمائیں ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے مخالف اہلحدیث نہیں ہیں بلکہ مقلدین ہیں جو کھری چیز کوچھوڑ کر کھوٹی اور غیر ثابت شدہ چیز پر اصرار کئے ہوئے ہیں۔
اب ہم آپ کے سوالات کی طرف آتے ہیں جواہلحدیث کو عاجز کرنے کے لیے پیش کئے گئے ہیں۔اہل تقلید کے ہاں اگرچہ درجن بھر اٹھائے ہوئے سوالات انوکھے ہوں گے کیونکہ وہ تقلید کی تاریکیوں میں رہنے والے ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی روشنی عطا فرمائی ہے۔ان کے ہاں ایسے سوالات کوئی انوکھے نہیں ہیں۔ہم ان سوالات کو سوال وجواب کی صورت میں پیش کرتے ہیں:
اہل تقلید:۔نماز میں جہر سے بسم اللہ الرحمان الرحیم کی صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں؟
اہل حدیث:۔سوال سے مترشح ہوتاہے کہ اہل تقلید نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل حدیث نماز میں بسم اللہ الرحمٰن ۔الرحمٰن جہر سے پڑھنے کے قائل ہیں،حالانکہ اہل حدیث کو اس کے جہر پر اصرار نہیں ہے۔کیونکہ اسے آہستہ پڑھنے کی احادیث زیادہ قوی ہیں اور اکثر اہل حدیث کاعمل بھی آہستہ پڑھنے پر ہے،اس کے باوجود جوحضرات بسم اللہ کے جہر کوجائز سمجھتے ہیں،ان کا استدلال ابن متعدد احادیث سے ہے جو اس موضوع پر وارد ہیں،مثال کے طور پر مستدرک حاکم میں ہے:
عن انس بن مالك قال سمعت رسول الله يجهر بسم الله الرحمن الرحيم رواة هذا الحديث عن اخرهم ثقات
(مستدرک حاکم:ج1 ص233،کتاب الصلواۃ)
"انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کوبسم اللہ جہری آواز سےپڑھتے سنا،اس حدیث کے آخر تک  راوی ثقہ ہیں"
اہل تقلید : سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا صحیح اور مرفوع حدیث سے ثبوت دیں؟
اہلحدیث :قرآءت کا آغاز جب کسی سورت کی ابتداء سے کیا جائے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی پڑھنی چاہئے کیونکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہر سورت کی پہلی آیت ہے اور سوائے سورۃ البراء ۃ کے ہر سورت کے شروع میں نازل ہوئی جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے مروی ہے۔
كان النبي (صلي الله عليه وسلم ) لاَ يَعْلَمُ خَتْمَ السُّورَةِ حَتَّى يَنْزِلَ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)" قلت أَمَّا هَذَا فَثَابِت(ابو داؤد :ج1 ص288)
" بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے نزول پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جان لیتے تھے کہ پہلی سورت ختم ہو چکی ہے" بسم اللہ ہر سورت کی پہلی آیت ہے تو سورت کے آغاز میں اسے تلاوت کرنا چاہئے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بھی اس پر عمل تھا کہ آپ سورت کے شروع میں بسم اللہ بھی تلاوت فرمایاکرتے تھےجیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے۔
"قال : بينما ذات يوم بين أظهرنا يريد النبي صلى الله عليه وسلم إذ أغفى إغفاءة ثم رفع رأسه متبسماً فقلنا له ما أضحكك يا رسول الله قال : نزلت علي آنفا سورة : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ *فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ *إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ"
 (سنن نسائی:ج1،ص306،سنن ابو داؤدج1ص286)
"انس بن مالک سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے درمیان تشریف فرماتھےکہ آپ ذرا اونگھےپھر مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھا یاہم نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ
"بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ *فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ *إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ"ہے۔
اہل تقلید: آمین بالجہرکی صحیح مرفوع حدیث پیش کریں جس پر کسی قسم کا کسی محدث نے کلام نہ کیا ہو۔
اور وہ کسی آیت یا حدیث کے معارض نہ ہو اور اس میں لفظ جہربا لتصریح مذکورہو؟
اہلحدیث : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بیان کرتے ہیں۔
سمعت النبي قرا غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ وقال أمين ومدبها صوته(جامع ترمذی : ج1ص79)
یعنی" حضرت وائل بن حجر سے مروی کہتے ہیں۔"میں نے سنا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ پڑھا اور آپ نے آمین کہی اور اونچی آواز سے کہی۔"رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آمین بلند آواز سے کہی تب ہی تو حضرت وائل نے اسے سنا اور اسے سمعت (میں نے سنا) سے بیان کیا ہے۔
سنن ابو داؤدمیں ہے:
 عن وائل بن حجر قال: كان رسول صلى الله عليه وسلم إذا قرأ: {ولا الضالين}؛ قال: "آمين"، ... الله صلى الله عليه وسلم؛ فجهر بآمين وسلم عن يمينه وعن شماله حتى رأيت بياض خده).
(ابو داؤد : ج1ص360)
"حضرت وائل کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتداء میں نماز پڑھی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پکار کرآمین کہی اور دائیں بائیں سلام پھیر اتو مجھے آپ کے رخسار کی سفیدی نظر آئی۔
اہل تقلید : ایک شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جبکہ امام سورۃ فاتحہ کی چھ آیتیں پڑھ چکا تھا سوال یہ ہے کہ یہ مقتدی سورۃ فاتحہ کب پڑھے۔ خصوصاً اس وقت جبکہ امام ایسا شخص ہو جو سورۃ فاتحہ کے بعد سکتہ بھی نہیں کرتا ہو۔ پھر یہ سوال ہے کہ یہ شخص امام کے ساتھ آمین کہے یا نہ کہے۔اگر امام کے ساتھ آمین کہےتو پھر اپنی فاتحہ ختم کر کے آمین کہے یا نہ کہے؟
 اہلحدیث:امام کے پیچھے مقتدی پر سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے خواہ امام سکتہ کرے یا نہ کرے اور وہ فاتحہ کی چھ آیات پڑھ چکا ہویا سورۃ فاتحہ پڑھنا مکمل کر چکا ہو۔ بہر حال اس کی اقتداءمیں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا  فرض ہےاور اس سے متعلق سوال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی کیا گیا تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ
یعنی"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟۔۔۔فرمایا: اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کرو"
(صحیح مسلم : ج2ص22)
لہٰذا پیچھے رہ جانے والاامام کے سورۃ فاتحہ کی چھ آیات پڑھ لینے کے بعد ملتا ہے تو وہ فاتحہ کا جتنا حصہ پڑھ سکتا ہے وہ پڑھے اور امام کے ساتھ آمین کہے کیونکہ مقتدی کی آمین کو امام کی آمین کے ساتھ معلق کیا گیا ہےفرمان  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:
إذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا(صحیح مسلم )
"جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو"
اس کے بعد سورۃفاتحہ کو مکمل کرے جو کہ نماز میں فرض ہے اور فاتحہ کی تکمیل پر مقتدی کو دوسری بار آمین کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آمین سورۃ فاتحہ کا جز نہیں ہے۔
اہل تقلید : کسی مرفوع صحیح صریح حدیث سے نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا ثابت کریں؟
اہلحدیث۔ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ , وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " , وَصَفَّ يَحْيَى : الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ
(مسند احمد ج5ص226)
یعنی" حضرت حلب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو (نماز سے سلام پھیرکر مقتدیوں کی طرف) دائیں جانب سے مڑتے دیکھا اور کبھی بائیں جانب سے اور میں نے دیکھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ہاتھ سینے پر باندھتے تھےاور یحییٰ نے اس کی یوں وضاحت کی کہ آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں کے جوڑ پر رکھ کر سینے پر باندھا"
اہل تقلید:قرآن مجید میں جو  (فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ)کا حکم ہے اور حدیث میں(وَإِذَا قَرَءَ فَاَنصِتُوا)آیا ہے ان کی وجہ سے غیر مقلدوں نے جویہ تجویز کیا ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے ایک آیت پڑھتا چلے یا یہ تجویز کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ کے بعد امام خاموش ہوجائے تاکہ اس سکتے میں مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لے ان دونوں باتوں کا ثبوت صحیح صریح مرفوع حدیث سے دیں۔
اہلحدیث:مقتدی کا امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا سکتوں کا محتاج نہیں ہے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ہر حال میں فرض ہے خواہ امام سکتے کرے یا نہ کرے کیونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
لا صَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ(صحیح بخاری :ج1ص104)
یعنی "ہر اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنا "
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان براہ راست مقتدیوں کے لیے ہے اور اس بات کو سمجھنےکے لیے آپ آج سے تقریباً چودہ سال پیچھے لوٹیں اور اس دور کو اپنے ذہن میں لائیں جبکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ میں بنفس نفیس زندہ موجودتھےاور آپ خودامام ہونے کی حیثیت سے صدیق و فاروق عثمان و علی جیسے بےشمار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو (جو سب کے سب آپ کے پیچھے آپ کی اقتدا میں نمازیں اداکرنے والے آپ کے مقتدی تھے) یہ حکم دے رہے تھے کہ تم میں سے کسی شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہو گی جب تک وہ اپنی نمازمیں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھےگا۔ غور فرمائیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ فرمان امام ہونے کی صورت میں آپ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے لیے صادر ہوا تھا جو اس دور میں آپ کے مقتدی تھے لہٰذا مذکورہ بالاحدیث درحقیقت ہے ہی مقتدیوں کے لیے اگرچہ اس کے عموم میں غیر مقتدی بھی داخل ہیں۔
بنابریں مقلدین حنفیہ کا اس حدیث کو امام اکیلےنمازی سے خاص سمجھنا ان کی تدبر حدیث سے محرومی کی دلیل ہے۔ اسی لیے تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  فرما گئے ہیں۔
لهؤلاء ، أصحاب أبي حنيفة ليس لهم بصر بشيء من الحديث  ليس لهم الا الجراءة
"یعنی اصحاب ابو حنیفہ صرف ڈھٹائی کرتے ہیں ورنہ حدیث کے متعلق انہیں کچھ بھی بصیرت حاصل نہیں ہے"(قیام اللیل للمروزی :ص124)
  اہل تقلید :امام تشہد میں درودشریف اور دعاسے فارغ ہو چکا اور مقتدی ابھی فارغ نہیں ہوا تو کیا مقتدی امام کے ساتھ سلام پھیردے یامذکورہ چیزیں ختم کر کے سلام پھیر ے جبکہ وہ مدرک ہے اور شروع رکعت سے امام کے ساتھ شریک ہے جواب میں صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں ؟
اہلحدیث : امام کے ساتھ ہی سلام پھیرنے کی سوچ عالمانہ نہیں بلکہ صحیح صریح مرفوع حدیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث نبوی کی روشنی میں مقتدی کو نماز کا ہر فعل امام کے بعد ادا کرنے حکم دیا گیا ہے۔لہٰذا مقتدی امام کے بعد سلام پھیرے گا اور جبکہ وہ مدرک ہے تو وہ تشہد درود شریف اور دعا سے امام کے ساتھ ہی فارغ ہوجائے گا اور اگر الفرض دعا رہ بھی جائے تو مقتدی اسے چھوڑ کر امام کے سلام کے بعد سلام پھیر دےگا، کیونکہ دعا اختیاری چیز ہے جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُ"
 (صحیح البخاری  مع فتح الباری : ج2ص320)
یعنی" جو دعا کرنا اسے پسند ہے اسے کرنے کا نمازی کو اختیار ہے"
بنابریں دعا کرنا جب اختیاری عمل ہے تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقتدی اسے چھوڑ کر سلام پھیر سکتا ہےدعا کی وجہ سے سلام کو لیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اہل تقلید :کسی صحیح صریح مرفوع حدیث سے ثابت کریں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں قنوت بحیثیت جز نماز پڑھتے تھے۔اور یہ قنوت نازلہ نہ تھی اور ثابت کریں کہ یہ قنوت ہمیشہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  نے آخری حیات تک رکوع کے بعد پڑھی ہے جیسا کہ غیر مقلدوں کا عمل ہے اور یہ بھی ثابت کریں کہ آپ قنوت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے۔(صحیح بخاری: ج1 ص136)میں یوں ہے(قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ)اس کو سامنےرکھ کر جواب دیں نیز صفحہ مذکورہ پرمغرب میں قنوت پڑھنے کا ذکر بھی کیا گیا ہے کیا آپ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔
اہلحدیث:مقلد نے یہ سوال شافعی مذہب کو سامنے رکھ کر کیا ہے اور اسی کو اس نے اہل حدیث کا مذہب سمجھ لیا ہے حالانکہ اہل حدیث قنوت کو بحیثیت جز نماز نہیں پڑھتے اور نہ ہی اس کا ساری عمرشوافع کی طرح التزام کرنے کے قائل ہیں بلکہ وہ اسے قنوت نازلہ ہی سمجھتے ہیں یعنی امت مسلمہ پر نازل ہونے والی کسی آفت ومصیبت پر ہی پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف کی طرح اسے ترک کرنے کے بھی قائل نہیں ہیں۔اگر چہ اہلحدیث کے نزدیک  رکوع کے بعد قنوت پڑھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے صراحت کے ساتھ یہی ثابت ہے جیسا  اس سے متعلق حدیث سائل نے اپنے سوال میں ہی ذکر کر دی ہے۔ لیکن رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ عمل بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے:
وقال أنسُ بن مالك قد سُئلَ عن القنوتِ في صلاةِ الصُّبحِ، فقال: كنَّا نَقنُتُ قبلَ الركوعِ وبَعدَه(سنن ابن ماجہ ج1ص195)
"حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ ان سے صبح کی نماز میں قنوت پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے اور اس کے بعد بھی"اور قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے جیسا کہ سنن بیہقی میں ہے۔
"عن أنسِ بنِ مالكٍ رضي الله عنه في قِصَّة القُرَّاء وقتْلهم، قال: لقد رأيتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كلَّما صلَّى الغداةَ رفَعَ يَديهِ يَدْعو عليهم، يَعني: على الذين قَتلوهم"
یعنی " ثابت سے مروی ہے اور وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بیان کرتے ہیں انھوں نےقرآء قرآن کی شہادت کا واقعہ ذکر کیا تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا: کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا آپ جب فجر کی نماز ادا فرماتے تو دونوں ہاتھ اٹھا کر قرآء کے قاتلوں پر بددعا کرتے تھے۔
مقلد کا سوال یہ بھی ہے کہ صحیح بخاری میں مغرب کی نماز میں قنوت پڑھنے کا ذکر آتا ہے کیا آپ اس کا بھی اہتمام کرتے ہیں تو جواباً عرض ہے کہ قرآن و سنت سے جو چیز بھی ہمارے لیے ثابت ہو جا ئےہم اسے تسلیم کرتے ہیں چونکہ احادیث مبارکہ سے مغرب کی نماز میں قنوت کا ذکر ملتا ہے لہٰذا ہم نماز مغرب میں بھی قنوت نازلہ کے جواز کے قائل ہیں۔
اہل تقلید :صحیح صریح مرفوع حدیث سے یہ ثابت کریں کہ مریض اور مسافر اگر جمعہ میں نہ آئےتو نماز جمعہ کی جگہ کون سی نماز پڑھے؟
اہلحدیث :نماز جمعہ ظہرکی نماز کے قائم مقام ہے لہٰذا جس شخص کا کسی شرعی رخصت کی بنا پر جمعہ رہ جائے اسے اصل نماز ظہر ہی ادا کرنی چاہئے۔مریض اور مسافر بھی اگر جمعہ کی نماز میں شامل نہ ہوں تو ظہر کی نماز پڑھیں گے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   بیان کرتے ہیں۔
قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من أدرك من الجمعة ركعة فليصل إليها أخرى ومن فاتته الركعتان فليصل أربعا اوقال الظهر(رواہ دارقطنی مشکواۃ ج1 ص871)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"جو شخص جمعہ کی نماز سے ایک رکعت پالےوہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملالے(جمعہ پڑھے ) اور جس شخص کی دونوں رکعتیں رہ جائیں وہ چار رکعات پڑھے یا فرمایا کہ وہ ظہر کی نماز پڑھے۔"
اس حدیث پاک میں من الفاظ عموم سے ہے لہذا یہ مریض اور مسافر جیسے افراد کو شامل ہے جو جمعہ کی دورکعت نماز میں شامل نہیں ہو سکتے تو اس کی جگہ ظہر ادا کریں گے۔
اہل تقلید : مفدات صلوۃ (نماز توڑ دینے والے امور) مرفوع صحیح اور صریح حدیث سے ثابت کریں خصوصاً یہ بتائیں کہ نماز میں چلنا پھرنا اور کھاناپینا ممنوع نہیں ہے تو کس دلیل سے؟
اہلحدیث: اس مختصر مضمون میں مفسدات صلوۃ کا احاطہ تو مشکل ہے اس کے لیے کتب و حدیث میں " مالايجوز من العمل في الصلوة"کے ابواب دیکھے جاسکتے ہیں ہاں البتہ چلنا پھرنا اور کھانا پینا خارج صلوۃ جائز امور سے ہے لیکن نماز کی تکبیر(اللہ اکبر) کہنےسے یہ چیزیں ممنوع ہو جاتی ہیں۔جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:
عن أبي سعيدٍ قَالَ: "قالَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: مفتَاحُ الصلاَةِ الطهورُ، وتَحْرِيمُهَا التّكبيرُ، وتحليلُهَا التسلِيمُ
)ترمذی شریف ج1 ص126)
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:"وجو نماز کی کنجی ہے اور مباح چیزوں کو حرام کرنے والی تکبیر (اللہ اکبر) کہنا اور(اثناء نماز ) حرام چیزوں کو مباح کودینے والی چیز سلام پھیرناہے"
اس حدیث کی روشنی میں نماز سے پہلے چلنا پھرنا کھانا پینا جو حلال چیزیں تھیں نماز شروع کرنے سے ممنوع قرارپائیں گی۔
اہل تقلید : کسی حدیث مرفوع صحیح صریح سے پگڑی ٹوپی کے ہوتے ہوئے  بھی
بالالتزام ننگے سر نماز پڑھنے کا ثبوت پیش کریں؟
 اہلحدیث : رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سر ڈھانپ کر اور کبھی ننگے سر نماز پڑھنا ثابت ہے۔
"عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَدْ أَلْقَى طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ"
یعنی " عمربن ابی سلمہ سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    کے گھر میں ایک ہی کپڑےمیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ۔آپ نے اس کپڑے کے دونوں کناروں کو اپنے کندھوں پر ڈالا ہوا تھا "
فيه: جابر: أنه صَلَّى فِي إِزَارٍ قَدْ عَقَدَهُ مِنْ قِبَلِ قَفَاهُ، وَثِيَابُهُ مَوْضُوعَةٌ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: تُصَلِّي فِي إِزَارٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ لَهُ: إِنَّمَا صَنَعْتُ ذَلِكَ، لِيَرَانِي أَحْمَقُ مِثْلُكَ، وَأَيُّنَا كَانَ لَهُ ثَوْبَانِ عَلَى عَهْدِ الرَسُول - صلى الله عليه وسلم - .
"محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ایک ہی چادر میں نماز پڑھی جسے انھوں نے گردن کے پیچھے باندھا ہوا تھا اور آپ نے باقی کپڑے تپائی پر رکھے ہوئے تھے کسی آدمی نے ان سے کہا: آپ ایک ہی چادر سمیں نماز کیوں پڑھتے ہیں (جبکہ دیگر کپڑے پاس رکھے ہوئےہیں)فرمایا:میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ مجھے آپ جیسا انجان دیکھ لے آنحضرت کے وقت میں دو کپڑے کس کے پاس تھے؟؟"(صحیح بخاری ج1 ص51)
ننگے سر نماز پڑھنے کو حرام یا مکروہ کہنا حنفی مقلدوں کا خود ساختہ مسئلہ ہے جبکہ شرعی لحاظ سے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو محرم کو سر ننگا رکھنے یا اس کے لیے ننگے سر نماز پڑھنے کی جازت نہ ہوتی ۔حالانکہ محرم کے لیے بعض حلال چیزیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔
اہل تقلید : حالت اضطرار میں یا غیر اضطرار میں انسان کا گوشت کھا نا جائز ہے یا نہیں ؟ جو صورت بھی اختیار کریں اس کے لیے مرفوع صحیح اور صریح حدیث پیش کریں؟
اہلحدیث : مجبور یا غیر مجبور کے لیے انسان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے اور یہ تب ہی ہو سکتا ہے جبکہ اسے قتل کرنا حلال ہو انسان کو قتل کرنا حرام ہے لہٰذااس کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ قرآن کریم میں قتل نفس سے منع کیا گیا ہے ارشاد بار ی تعالیٰ ہے۔
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ إِنَّ الله كَانَ بِكُمْ رَحِيماً(النساء 29)
"اور تم اپنی جانوں کو قتل مت کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرنے والا ہے۔
اہل تقلید : حدود جن میں شکار کرنا جائز نہیں اور حد ود مزدلفہ اور حدود عرفات صحیح صریح اور مرفوع حدیث سے ثابت کریں۔ یاد رہے کہ ان مقامات کے حدود کے نشانات جو لگے ہوئے ہیں وہ ترکی حکومت کے لگائے ہوئے ہیں جو حنفی تھے پھر سعودی  حکومت نے ان کی تجدید  کی ہے جو حنبلی تھے مقلدین سارے کے سارے آپ کے نزدیک مشرک ہیں مشرکوں کی لگائی ہوئی نشانیوں پر اعتماد کرنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟یہی سوال جمعہ اور رمضان المبارک کے بارے میں ہے؟
اہلحدیث: مقلد کی سوچ الٹی ہوتی ہے اس لیے اس نے یہاں بھی الٹ کام ہی کیا ہے جبکہ حدود مزدلفہ و عرفات نیز جمعہ و رمضان المبارک کی تعیین کے بارے میں مقلدین نے اہلحدیث پر اعتماد کیا ہے لیکن مقلد نے اُلٹی گنگا چلا دی اور کہا کہ غیر مقلدوں نے ان حدود کی تعیین میں اہل تقلید پر اعتماد کیا ہے حاشا وکلا۔۔۔مقلد تو خود دوسروں کے سہارے پر جیتا ہے وہ حدود حرم وغیرہ کی تعیین میں اہلحدیث کی کیا راہنمائی کر سکتا ہے جبکہ شاہ ولی اللہ کے بقول تقلید چوتھی صدی میں شروع ہوئی ہے تو اس سے قبل سب مسلمان غیر مقلد اور أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کی روشنی میں زندگی گزارنے والے تھے۔تقلید کانام ونشان نہیں تھا۔خود ائمہ اربعہ غیر مقلد تھے اس کے بعد تقلید ناسدید نے جنم لیا اور ایک سنہری اسلام کو کئی فرقوں میں بانٹ دیا۔بنا بریں حدود حرم اور جمعہ ورمضان المبارک کی تعین میں اہل تقلید نے اہل حدیث پر اعتماد کیا ہے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ تقلید کی ولادت کے بعد اہل حدیث ناپید نہیں ہوگئے تھے بلکہ یہ جماعت ہردور میں موجود رہی ہے ،جو اہل تقلید کے افراط تفریط کی نشاندہی کرتی چلی آرہی ہے۔
اہل تقلید:۔یہ تو بتائیے کہ جیسے چاروں مذاہب کے مقلدین صدیوں سے آپس میں مل کر چلتے آئے ہیں ایک دوسرے کااحترام بھی کرتے ہیں اور اپنے اپنے مذہب کو راجح بھی بتاتے ہیں دوسرے کے مذہب کو مرجوح کہتے ہیں غلط نہیں کہتے،کیونکہ دوسروں کے پاس بھی دلائل ہیں،آپ حضرات اپنے دعوے کے مطابق اگرچہ چاروں مذاہب سے الگ ہیں تو ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے اختیار کردہ مسائل پر عمل کرتے رہیں۔امام ابو حنیفہ اور احناف پر کیچڑ نہ اچھالیں؟
اہل حدیث:۔پا کی  داماں کی حکایت کواتنا دراز کرنے کی ضرورت  نہیں ہے،چاروں مذاہب کے مقلدین کے آپس میں مل کر چلنے کی حقیقت اور ایک دوسرے کے احترام کرنے کی اصلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہ کشمکش مقلدین کی کتابوں سے بھی آشکار ہے۔اور خراسان میں شوافع اور احناف کی باہمی معرکہ آرائیاں بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں احناف کےہی دوٹکڑوں (دیو بندی اور بریلوی) کی آپس میں دست بگریباں ہونے کی داستانیں آئے دن پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔باقی رہی امام ابوحنیفہ کے خلاف کیچڑ اُچھالنے کی بات تو واضح رہے کہ امام صاحب کے خلاف کیچڑ اہل حدیث نے نہیں اُچھالا،بلکہ خود ان کے مقلدین نے ان کے خلاف ایسا کیچڑ اچھالا ہے کہ امام صاحب کا دامن اس سے پاک ہے۔مثال کے طور پر ہم یہاں چند مسائل پیش کرتے ہیں جو مقلدین کی کتابوں یا ان کے فتوؤں میں موجود ہے لیکن امام صاحب سے ان کاکوئی ثبوت نہیں ہے۔اور نہ ہی ان پر کتاب وسنت سے کوئی دلیل دستیاب ہے۔اور بعض تو ایسے اخلاقیات سے گرے ہوئے ہیں کہ وہ عوام کو اسلام سے متنفر کر تے ہیں،ان میں چند مسائل آ پ کے غوروفکر کے لئے لکھے جاتے ہیں:
1۔فقہ حنفی کی کتابوں میں موجود ہے:
"الخروج من الصلوة بفعل المصلي فرض عن ابي حنيفة خلافا لهما  حتي ان المصلي اذا حدث عمدا بعد  ماقعد قدر التشهد اوتكلم ا وعلم عملا ينافي الصلوة تمت صلوته بالاتفاق"
یعنی"نمازی آ خری التحیات میں تشہد کی بقدر بیٹھ کر کسی سے بات کرلے یا ایسا کام کرے جو نماز کے منافی ہویا(سلام کی جگہ) قصداً جان بوجھ کر ہوا خارج کردے تو ا س کی نماز بالاتفاق مکمل اور  پوری ہوجائے گی(دیکھئے منیۃ المصلی ص 84 شرح وقایہ ج1 ص 159 کنز الدقائق ص30)
کیا حنفی فقاہت سے لبریز اس مسئلہ کو آپ صحیح مرفوع حدیث سے ثابت کرسکتے ہیں؟
والاصل  فيه ان النجاسة الغليظة  اذا كانت قدر ا لدرهم اودونه  فهو عفو لا تمنع جواز الصلوة عندنا وعند زفر والشافعي يمنع
"اصل باتی ہے کہ نجاست غلیظ بقدر درہم یا اس سے کم ہوتو معاف ہے۔اس قدر نجاست نمازی کے جسم یا کپڑے  پر لگی ہوئی ہوتو احناف کے نزدیک نماز ہوجاتی ہے۔امام شافعی اسے ممنوع کہتے ہیں۔" (دیکھئے منیۃ المصلی ص52)
کیا  آپ نمازی کے لیے نجاست کی اس مقدار کی رخصت کوکتاب وسنت سے ثابت کرسکتے ہیں؟
3۔ "لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء ، وبالبول أيضا"
یعنی"نکسیر کے علاج کے لیے ا گر سورہ فاتحہ خون یا پیشاب کے ساتھ مریض کی پیشانی اور اس کی ناک پر لکھ دی جائے تو حصول شفاء کے لیے ایسا کرنا جائز ہے"(رد المختار :ج1 ص140)اسے صحیح ،صریح،مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں۔
4۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت کریں کہ آ پ نے اپنے بعد آنے والے مسلمانوں کو چوتھی صدی  میں کسی ایک عالم کی تقلید کی پابندی کا حکم دیا تھا۔
5۔صحیح ،صریح،مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں کہ نماز جنازہ میں سورۃ الفاتحہ  پڑھنا مشروع نہیں ہے اور نماز جنازہ سورۃ الفاتحہ کے بغیر ہوجاتی ہے؟
6۔نماز شروع کرتے وقت آدمی کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک اور عورت سینے پر ہاتھ باندھے اور مرد زیر ناف۔یہ تفریق صحیح صریح،مرفوع ،غیر مجروح حدیث سے پیش کریں۔
7۔نماز کی تکبیر  تحریمہ سے قبل اُردو یا پنجابی میں زبان کے ساتھ نیت نماز کے الفاظ ادا کرنا کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت فرمائیں۔
8۔احناف کے ہاں سجدہ سہو میں ایک جانب سلام پھیر کر دو سجدے کرنا صحیح مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں۔
9۔صحیح صریح مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کریں کہ سجدہ کرتے وقت عورت اپناپیٹ  رانوں سے چپکا لے اور زمین سے چمٹ کر سجدہ کرے،جبکہ مرد اپنا  پیٹ رانوں سے دور رکھے۔
10۔احناف کا نماز باجماعت میں صف بندی کو اہمیت نہ دینا اور نمازیوں کا آپس میں  فاصلے چھوڑ کر کھڑے ہونا اور ایک دوسرے کے ساتھ پاؤں ملانے سے نفرت کرنا صحیح ،صریح،مرفوع غیر مجروح حدیث سے ثابت کردیں۔تلك عشرة كاملة