100 بچوں کے قالتل کی سزا(قانونو شریعت کی نظر میں)

چند ماہ پہلے۔۔۔وحشی قاتل جاوید مغل کی  طرف سے سو معصوم بچوں کے قتل کی بہیمانہ واردات نے پورے عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے وحشت وبربریت کے اس عدیم النظر واقع کو غیر معمولی کوریج دی۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن  جج جناب اللہ بخش رانجھا نے چند ماہ قبل اس مقدمہ کے متعلق سزا سنائی کہ" جاوید کومغل کو سو بار پھانسی دی جائے" اور اس کے جسم کےٹکڑے کرکے انہیں تیزاب میں اسی  طرح ڈالا جائے جس طرح کہ اس نے سو بچوں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر موت کے گھاٹ اُتارا تھا اور یہ کہ ا س سزا پر عملدرآمد مینار پاکستان گراؤنڈ میں عام پبلک کے سامنے کیا جائے تاکہ عبرت حاصل ہو۔"
فاضل جج کی جانب سے اس سزا کے متعلق عوام الناس کا رد عمل نہایت مثبت تھا۔البتہ بعض حلقوں کی طرف سے اس پر اعتراضات بھی وارد کئے گئے۔ یہودی لابی کی تنخواہ وار ایجنٹ عاصمہ جہانگیر اورHRCPکے ڈائیرکٹر آئی اے رحمان قادیانی نے اس سزا کو انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئےبیان دیا کہ اس سے بربریت میں اضاہوگا۔ پاکستان کے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت اس سزا پر عمل درآمد نہیں ہونے دی گی۔بعض دینی حلقوں کی جانب سے بھی اس سزا کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کے بارے میں سوالات اٹھائے  گئے۔
اگست2000ء میں آ کسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کلائیو کی سربراہی میں ایک برطانوی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی ٹیم نے پاکستان کادورہ کیا۔ان کے دورہ کا بنیادی مقصد سو بچوں کے وحشیانہ قتل کے اسباب وعوامل کاکھوج لگانا اور جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کے مختلف قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینا تھا۔ پاکستان میں قیام کے دوران مذکورہ وفد نے حکومت پاکستان کے سینئر حکام ،عدلیہ کے بعض جج صاحبان ،وکلا،این جی اوز کے نمائندگان اور بعض مذہبی سکالر سے بھی ملاقاتیں  کیں اور ان کے انٹر ویوریکارڈ کئے۔مورخہ 24 اور28 اگست کو پروفیسر کلائیو اور وفد کے دیگر ارکان نے اسلامک ریسرچ کونسل(مجلس التحقیق الاسلامی) کا دورہ کیا۔ملاقات کے دوران کونسل کے ڈائیرکٹرحافظ عبدالرحمان مدنی،راقم الحروف،حافظ حسن مدنی،مولانا محمد رمضان سلفی اور دیگر ارکان کونسل موجود تھے۔راقم الحروف نے حاضرین کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامک ریسرچ کونسل اور اس سے وابستہ دیگر اداروں کے مقاصد،ورکنگ اور مختلف منصوبہ جات کا اجمالی  تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ برطانوی ،وفد کی توجہ اسلام میں انسانی حقوق کے تصور کی جانب دلائی۔مغرب اور اسلام کے انسانی حقوق کے  تصورات کے مابین بنیادی فرق پر روشنی ڈالتے ہوئے  راقم الحروف نے بتایا کہ:
"اسلام میں انسانی حقوق کا حقیقی سرچشمہ قر آن وسنت اور الہامی تعلیمات ہیں۔ہمارے نزدیک صرف وہی انسانی حقوق پسندیدہ اور لائق اعتبار ہیں جن کی تائید قرآن وسنت سے ملتی ہو۔مغرب کے انسانی حقوق کا کوئی واضح سرچشمہ نہیں ہے۔مغربی فلاسفرز کبھی تو انسانی  فطرت کو انسانی حقوق کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں کبھی انسانی احتیاجات کی مبہم ترکیب استعمال کرتے ہیں۔مغرب میں انسانی حقوق کو مستقل قدر کا درجہ حاصل نہیں ہے۔انسانی عقل مختلف ادوار میں بعض حقوق کو قابل ترجیح قرا ر دے کر ان کی حیثیت کا نئے سرے سے تعین کرتی رہتی ہے۔"
اسلام میں جرم وسزا کے  فلسفہ پر روشنی ڈالتے ہوئے راقم الحروف نے بیان کیا کہ:
"اسلام میں کبھی مجرم کوسزادینے کے بنیادی طور پر تین مقاصد ہیں:اولاً: یہ کہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنا ،ثانیا:مجرم کو اس کے جرم کی سزا دینا اور ثالثاً ،یہ کہ مستقل میں ایسے جرائم کے ممکنہ ارتکاب کی حوصلہ شکنی کرنا اور سزا کو دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنانا۔
جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کاتعلق تیسری صورت یہ ہے۔چونکہ یہ ایک غیر معمولی اور عدیم النظیر جرم تھا،لہذا اس کے لیے غیر معمولی سزا سنائی گئی جو کہ کسی بھی اعتبار سے وحشیانہ نہیں ہے۔یہ سزااسلام کے جرم وسزا کے فلسفہ اور شرعی قوانین کی روح کے عین مطابق ہے۔اسلام کے قانون قصاص کامطالعہ کیا جائے تو یہ سزاقرآن وسنت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔"
مسٹر کلائیو نے کہا کہ ہمارے پیش نظر اس سوال کاجواب ڈھونڈنا ہے کہ جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کیا اسلامی شریعت کے عین مطابق ہے؟اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔تو ضمنی سوال یہ پیدا ہوتاہے ۔کہ شرعی قوانین اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے درمیان مطابقت کس  طرح  پیدا کی جاسکتی ہے؟
دوران گفتگو مسٹر کلائیو نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ برطانیہ میں رائے عامہ کے ایک طبقہ نے جاوید مغل کو دی جانے والی سزا پر پسندیدگی کا اظہار کیااور مطالبہ کیا کہ برطانیہ معصوم بچوں کے قاتلوں کو بھی ویسی ہی سزا دی جائے۔
راقم الحروف نے بتایا کہ سو بچوں کے شقی القلب قاتل جاوید مغل کو جوسزا دی گئی ہے۔اس کا بنیادی مقصد ایسے بہیمانہ جرائم سے انسانیت کو بچاناہے۔جاوید مغل کو ایک مرتبہ پھانسی دے کر دفن کردیا جائے یا اسے سو مرتبہ  پھانسی دے کر اس کے ٹکڑے کرکے تیزاب میں ڈالا جائے، ا س کے لیے دونوں باتیں برابر ہیں کیونکہ موت کے بعد انسانی جسم کو سزا کااحساس نہیں رہتا۔البتہ موخر الذکر صورت میں دیکھنے والی آنکھوں کے لیے عبرت اور خوف پیدا ہوگا۔اس طرح کی سزا کے خوف سے کوئی بھی آئندہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے کی جرائت نہیں کرے گا۔یہ طریقہ کسی بھی اعتبار سے وحشیانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔ایک غیر معمولی اور عدیم النظیر جرم کے لیے عدیم النظیر اور عبرت ناک سزا کا دیا جانا بربریت کے زمرے میں نہیں آتا۔جج صاحب کے نزدیک محض جاوید مغل کو سزا دینا نہیں تھا۔ ان کے پیش نظر ان سینکڑوں ماؤں اور خاندانوں کی تالیف وقلب کرنا بھی تھا جن کے معصوم بچوں کو اس وحشی درندے نے ظالمانہ طریقے سے قتل کردیاتھا۔پاکستانی عوام کایہ دیرنہ مطالبہ تھا کہ جاویدمغل کو عبرتناک سزا دی جائے۔ مسٹر کلائیو نے کہا کہ مسڑ اللہ بخش رانجھا ایک رحم دل انسان ہیں۔انہوں نے ضرور اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا ہوگا۔راقم الحروف نے انہیں بتایا کہ ہم اس سزا کو اسلامی شریعت کے قصاص کے قانون کی  روح کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔
حافظ عبدالرحمان مدنی ،جو ایک معروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامک لاء کے نامور ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں اور عرصہ سے حکومتی اداروں میں اعلیٰ عدلیہ کو مختلف آرڈیننسز اور اصول  فقہ کی تعلیم دے رہے ہیں،نے مسٹر کلائیو کے ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے وضاحت کی کہ؛
" پاکستان کا موجودہ قانون قصاص وحدود،شریعت لاء اور اینگلو سیکسن لاء کا امتزاج ہے۔پاکستان  پینل کوڈ کی دفعہ 302  میں قتل عمد کے لئے جو سزائیں مذکور ہیں،ان میں قصاص سرفہرست ہے اور نیچے انگریزی قانون کی سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ البتہ ا س قانون می ایک اہم خامی یہ ہے کہ ان تمام سزاؤں کے نفاذ کے لیے جو طریقہ کار بیان کیا گیاہے،سراسر اینگلوسیکسن قانون سے ماخوذ ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں شرعی سزاؤں کو شرعی طریقے سے نافذ کرنابے حد دشوا ر ہے۔ ہمارے ہاں قصاص کی سزا عملدرآمد پھانسی کی صورت میں کیا جاتاہے۔ حالانکہ اسلام میں قصاص درآمد کے لیے پھانسی ہی واحد صورت نہیں۔ اگر قاتل نے مقتول کو پھانسی دے  کر مارا تو اس کی سزا بھی پھانسی کی صورت میں دی جائے گی۔اس نے اگر کسی اور طریقے سے قتل کیا ہے تو سزا بھی ویسی ہونی چاہیے،یہ ابہام  ہمارے ہاں اب تک موجود ہے۔
مولانا مدنی صاحب نے بیان کیا کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 338۔ایف کی رو سے اگرسزا ؤں  پر عمل درآمد کے متعلق کہیں کوئی ابہام یا کمی ہے تو اسے کتاب وسنت کے مطابق پور اکیا جائے۔لیکن عملاً ایسا نہیں ہورہا۔سزائیں شریعت کے نام پر سنائی جارہی ہیں،مگر ان پر عملدرآمد اینگلوسن قانون کی روشنی  میں کیارہاہے۔ غالباً یہی وہ رکاوٹ ہے جو ہماری عدالتوں کے جج صاحبان کو درپیش ہے۔جاوید مغل کیس کے بارے میں فاضل جج اللہ بخش رانجھا بھی اس مشکل سے دوچار رہے ہیں۔بالآخر انہوں نے اسلام کے قانون قصاص کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہ صرف سزااسلامک لاء کے مطابق سنائی بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیے بھی قصاص کی  روشنی میں احکام صادر کیے۔لہذا ان کا فیصلہ اسلامی شریعت سے متصادم نہیں ہے۔"
پاکستانی پینل کوڈ اور اسلامک لاء میں مطابقت:۔
 مذکورہ برطانوی وفد سے مورخہ  28اگست کو اسلامک  ریسرچ کونسل میں دوبارہ ملاقات ہوئی۔جہاں انہوں نے انگریزی میں  راقم الحروف کا تفصیلی انٹر ویوریکارڈ کیا۔مسٹر کلائیو اور ان کی ٹیم یہ جاننا چاہتے تھے کہ جاوید مغل کیس میں اسلامک لاء اور پاکستانی کوڈ  پینل کوڈ کی دفعات کے درمیان تطبیق آخر کس طرح ہوسکتی ہے؟ا ن کے خیال میں یہ دونوں قوانین باہم متصادم ہیں۔
راقم الحروف نے بیان کیا کہ بادی النظر میں یہ باہم متصادم معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے قصاص اور دیت آرڈیننس کے ذریعے اسلامک لاء اور اینگلوسیکسن لاء کے درمیان بہت حد تک مطابقت پیدا کردی گئی ہے۔یہی آرڈیننس بعد میں  تعزیرات پاکستان کا حصہ بنادیاگیا ہے۔جاوید مغل کیس کے بارے میں سنائی جانے والی سزا کی شرعی حیثیت کے تعین  سے پہلے مناسب ہے کہ پاکستان  پینل کوڈ کی متعلقہ دفعات کو پیش نظر رکھا جائے۔اس ضمن میں درج ذیل باتیں خصوصی توجہ کی متقاضی ہیں:
1۔پاکستان پینل کوڈ کا باب نمبر16(دفعات 299 سے لے کر 338) انسانی جسم سے متعلق جرائم کی سزاؤں پر مبنی ہے۔اس باب کے شروع میں قصاص کی تعریف یوں کی گئی ہے:
“Qisas “(قصاص) means  punishment by causing similar bust at the same part of the body of the convict as be has caused to the victim of by causing his death if he has committed Qatl.i.Amad in execcise of the night of  the victim or a wali.”
"قصاص سے مراد ایسی سزا ہے کہ جومجرم کو جسم کے اسی حصہ پرویسے ہی ضرب لگانے سے دی جائے جیسے کہ اس نے Victim(شکار)  پر لگائی تھی۔یامقتول(Victim)  یا اس  کے دلی کی حق رسی کی خاطر قاتل کو قتل عمد کے نتیجے میں ایسی سزا دی جائے جو اس کی موت پر منتج ہو"
2۔تعزیرات   پاکستان کی دفعہ 302 درج ذیل ہے:
"جو کوئی بھی قتل عمد کاارتکاب کرتا ہے،اس باب کی دیگر شقات سے مشروط،اسے:
الف۔قصاص کے طور پر موت کی سزا دی جائے گی۔
ب۔اگر دفعہ 302 میں مخصوص کردہ ثبوت کی کوئی بھی شکل میسر نہ ہو،تو مقدمہ کے حقائق اور حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے تعزیر کے طور پر عمر قید اس طرح دی جائےگی تاوقت یہ کہ اس کی موت وقع ہوجائے۔
ج۔اسے کسی بھی مدت کے لئے سزا دی جائے گی جو 25 سال تک قابل توسیع ہو۔ایسی صورت میں جہاں اسلامی احکام کی رو سے قصاص کی سزا قابل اطلاق نہ ہو۔"
3۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 314 کی ذیلی شق نمبر 1 کے الفاظ یہ ہیں:
“1.Qisas in ‘Qatl.i.amd ‘ shall be executed by a functionary of the Government by causing death of the convict as  the court may direct.”
"قتل عمد میں قصاص پر عمل درآمد حکومت کے ایک اہلکار کی طرف سے کیاجائے گا ،مجرم کی موت واقع کرنے کی صورت میں،جیسا کہ عدالت حکم صادر کرے"
4۔تعزیرات پاکستان کی دفعہ 338 کی زیلی شق 338 ایف میں مذکورہ باب کی دفعات یاتعبیر کے متعلق یہ ہدایت درج ہے:
" اس باب کے شقات کی تعبیر واطلاق یامتفرق معاملات کے ضمن میں ،عدالت اسلامی احکام کو ہی راہنما بنائےگی،جیسا کہ قرآن وسنت میں انہیں بیان کیاگیا ہے"
تعزیرات پاکستان کی محولہ دفعات کی روشنی میں جو مجموعی صورتحال سامنے آتی ہے،اس کے اہم نکات کاخلاصہ یہ ہے:
1۔قصاص کی تعریف کودو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،پہلے حصہ میں توواضح طور پرتعین کردیاگیا ہےکہ مجرم کو اسی انداز میں جسم کے اسی حصہ پر ضرب پہنچائی جائے جس طرح کہ اس نے مضروب کو پہنچائی تھی۔البتہ دوسے حصہ میں قتل عمد کی صورت میں مجرم کو ایسی سزا دینے کا ذکر ہے جو اسکی موت پر منتج ہو(Causing death) اس تعریف میں موت کی سزا دینے کا ذکر ہے۔یہ سزا کس طرح دی جائے گی،اس کے بارے میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ قانون سازوں نے غالباً اس پہلو کو کسی مصلحت کے تحت محدود نہیں کیا بلکہOpen رکھا ہے۔کیونکہ حدیث میں مختلف مجرموں کے خلاف قصاص کے عمل درآمد کی صورت میں مختلف طریقے بیان کئے گئے ہیں۔اس تعریف کی رو سے یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ قتل عمد کی سزا پر عمل درآمد صرف اور صرف  پھانسی کی صورت میں کیا جانا چاہیے۔قصاص کی اس تعریف کو دفعہ 338۔ایف کے ساتھ ملا کر پڑھاجائے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ مجرم  کوموت کی سزا دینے کے لیے بھی وہی طریقہ ا پنایا جائے جو قرآن وسنت کی رو سے درست ہے۔
2۔قصاص پر عملدرآمد  کے سلسلہ میں دفعہ 314 کی ذیلی شق نہایت اہم ہے۔اس میں جہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قصاص پر عملدرآمد سرکاری حکام ہی کے ذریعے کیا جائےگا،وہاں اس کے طریقہ کار کے متعلق  راہنما اصول دے  دیاگیا ہے،وضاحت نہیں کی گئی۔وہ راہنما اصول یہ ہے کہ"جیسا کہ عدالت حکم دے"یہاں ایک دفعہ پھر سزا پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو عدالت کے حکم کی نوعیت سے مشروط کردیا گیا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے  کہ عدالت ایسے معاملے میں حکم دینے میں کس حد تک آزاد ہے یا اس کی صوابدید کا دائرہ کار کیا ہے؟جیسا کہ عدالت حکم دے والے جملے سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عدالت اپنی خواہشات نفس کے تابع جیسا چاہے حکم دے دے ہرگز نہیں۔یہاں پھر ہمیں اس دفعہ کو338 ایف کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔عدالت کی اس صوابدید کی تعبیر بھی قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں کی جائے گی۔یعنی عدالت صرف اسی طرح سزا پر عملدرآمد کاحکم دے سکتی ہے جس کی قرآن وسنت سے تائید ملتی ہو،اس سے ہٹ کر نہیں۔
"جیسا کہ عدالت حکم دے"۔۔۔سے ایک اور نکتہ بھی پیدا ہوتاہے وہ یہ ہے کہ عام طور پر  پاکستان میں قتل عمد کے مجرم کو پھانسی دے کر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے۔ اگر کوئی جج مجرم کو موت کی سزا دینے کے لیے پھانسی کے علاوہ کوئی اور طریقہ بیان کرے اور وہ قرآن وسنت سے متصادم نہ ہوتو "جیسا کہ عدالت حکم دے" کا جملہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ جج کا وہ بیان کردہ طریقہ درست قرار پائے گا۔جاوید مغل کیس میں فاضل جج جناب اللہ بخش رانجھا نے اس صوابدید جملہ کے تحت سزا کے طریقہ کار کوغیر روایتی مگر شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیان کیا ہے تو پھر بطور جج کے وہ اس کا اختیار رکھتے تھے۔ان کا فیصلہ اس اعتبار سے پاکستان کے مروجہ قانون کی حدود کے بھی اندر ہے،اس سے متجاوز نہیں جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے ۔
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں!
سو بچوں کا قتل ایک ہولناک ،غیر معمولی اور عدیم النظر واقعہ تھا،اس کےمجرم کو موت کی سزا دینے کے لیے اگر فاضل جج نے غیر معمولی طریقہ کار بیان کیا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کیا جانا چاہیے۔خود ر سول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے دور میں اس طرح کی غیر معمولی سزاؤں کا دیا جانا حدیث کی کتب میں مذکور ہے۔راقم کی اس وضاحت کے بعدکلائیو نے وہ سوال کیا جو مغرب کا عام فرد کرتا ہے:"کیا یہ سزا بربریت پر مبنی نہیں ہے؟"
ہرگز نہیں،عظیم پیمانے کی بربریت کے خاتمے کے لیے اور انسانیت کو متوقع بربریت سے بچانے کے لیے ایک فرد واحد،سفاک قاتل کے ساتھ ایسا برتاؤہرگز وحشیانہ قرار نہیں دیاجاسکتا۔یہ فیصلہ اسلامی شریعت ،تعزیرات پاکستان اور انسانی معاشرے کے تحفظ کے تقاضوں اور روح کے عین مطابق ہے ،راقم نے جواباً کہا۔
مندرجہ بالا سطور میں برطانوی وفد سےگفتگو کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے نہایت افسوس کامقام ہے کہ اہل مغرب تو سو بچوں کے قتل کے کیس کے بارے میں تحقیق کرنےکے لیے پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ان کے دورے پر لاکھوں روپے کے اخراجات اٹھیں گے ،مگر ہمارے ہاں اس واقعے کی سنگینی کے تناسب میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا۔شروع شروع میں احتجاجی بیانات اخبارات شائع ہوتے  رہے، مگر اس واقعے کے اسباب وعوامل کا کھوج لگانے کے لیے نہ تو کسی ادارے نے ریسرچ کا اہتمام کیا ہے۔اور نہ علماء نے اس فیصلے کی شرعی حیثیت کے متعلق عوام الناس کی راہنمائی کے لیے اب تک علمی انداز میں  روشنی ڈالی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک ڈائریکٹر یا رکن  کا بیان اخبارات میں چھپا تھا،جس میں انھوں نے کہا: یہ مذکورہ فیصلہ شریعت کی رو سے درست نہیں ہے۔اس مختصر فتویٰ نما بیان میں ان دلائل کا تفصیلی ذکر نہیں تھا جن کی بنیاد پر انہوں نے یہ رائے قائم کی۔یہ کیس گہری تحقیق کامتقاضی ہے۔درج ذیل سطور میں قرآن وسنت کی روشنی میں اس فیصلہ کاجائزہ لینے کی کاوش کی گئی ہے:
ڈاکٹراحمد فتحی بہنسی کی معروف تالیف القصاص فی الفقہ الاسلامی میں قصاص کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں ملتی ہے:(صفحہ 52،53)
"قصاص کا لفظ قص الاثر سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے روایت یااثر کی بتدریج پیروی کرنا۔اس سے القاص(قصہ گو) نکلا ہے کیونکہ وہ آثار واخبار کی پیروی کرتاہے۔ اس اعتبار سے قصاص کا معنی یہ ہوا کہ گویا قاتل،قتل کا جو راستہ اختیار کرتا ہے  اس کے قدموں کے نشانوں پر اس کا  پیچھا کیاجاتاہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ قص کا معنی کاٹنا ہے۔چنانچہ محاورہ ہے:قصصت ما بينهما یعنی ان دونوں کے باہمی تعلقات منقطع ہوگئے۔قص الشعر کے معنی ہیں:بال تراشنا،اسی لفظ سے قصاص نکلا ہے کیونکہ قصاص جراحت کے عوض جراحت ر سانی یا قتل کے بدلے قتل کا نام ہے۔فقہ اسلامی کی کتابوں میں قصاص کا  ذکر عموماً جنایات کے تحت کیا جاتا ہے۔جنابت لغت میں بُرا کام کرنے کو کہتے ہیں۔شریعت میں جنابت کااطلاق ہر ا س فعل پر ہوتاہے۔جس کا ارتکاب شرعاً حرام ہو،یہ فعل مال کے خلاف ہو یاجان کے ،لیکن اصطلاح فقہا میں جنابت ا س فعل ممنوع کو کہتے ہیں جو کسی کی جان یا اعضائے جسم کےلیے ضرر رساں ہو۔قصاص صرف قتل عمد میں واجب ہوتا ہے۔قتل خطا یا قتل عمد میں شبہ  پیدا ہوجانے کی صورت میں دیت لاگو ہوتی ہے"
قرآن مجید میں ارشاد باری  تعالیٰ ہے:
1۔ ﴿وَلَكُم فِى القِصاصِ حَيوٰةٌ يـٰأُولِى الأَلبـٰبِ لَعَلَّكُم تَتَّقونَ ﴿١٧٩﴾...البقرة
"اے ارباب دانش!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے"
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر178 میں قصاص کے حکم کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُتِبَ عَلَيكُمُ القِصاصُ فِى القَتلَى ...١٧٨﴾...البقرة
"مسلمانو! جو لوگ تم میں قتل کئے جائیں،ان کابرابر کابدلہ تم پر فرض ہے۔آزاد کے بدلے آزاد،غلام کے بدلے غلام،عورت کے بدلے عورت۔پھر جس خونی کو اس کے بھائی(مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ بھی معافی دی جائے تو معاف کرنے والا دستور کے مطابق(یعنی بغیر سختی کے) قاتل سے خون بہا وصول کرے اور قاتل اچھے طور سے وارث کو دیت ادا کردے۔یہ(عفو اوردیت کا) حکم تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے آسانی سے اور مہربانی ۔پھر جو کوئی زیادتی کرے(یعنی خونی کو مارڈالے یا زخمی کرے) تو اس کو دردناک عذاب ہوگا"
قصاص کے متعلق مندرجہ بالا عمومی احکام کے بعد قصاص کی سزا کے نفاذ کے طریقہ کار کو قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کر تے ہیں۔اس کے بعد ہمیں جاوید مغل کو دی جانے و الی سزا کی شرعی حیثیت کے متعلق کسی نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی رہے گی۔
2۔قرآن مجید میں سورۃ مائدہ کی آیت 33 موضوع زیر بحث کے متعلق خاصی اہم ہے:
 ﴿إِنَّما جَزٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِبونَ اللَّـهَ وَرَسولَهُ وَيَسعَونَ فِى الأَرضِ فَسادًا أَن يُقَتَّلوا أَو يُصَلَّبوا أَو تُقَطَّعَ أَيديهِم وَأَرجُلُهُم مِن خِلـٰفٍ أَو يُنفَوا مِنَ الأَرضِ ۚ ذٰلِكَ لَهُم خِزىٌ فِى الدُّنيا ۖ وَلَهُم فِى الـٔاخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ ﴿٣٣﴾...المائدة
"جولوگ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تک ودود کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں ،ان کی سزایہ ہے کہ قتل کئے جائیں ،یا رسولی پرچڑھائے جائیں ،یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا وہ جلاوطن کردیئے جائیں۔یہ ذلت ورسوائی تو ان کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔"
شان نزول:۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ اس يُقَتَّلُوا استعمال ہواہے۔جس کا لفظ مطلبی مطلب"ٹکڑے ٹکڑے کرنا" ہے۔مختلف تفاسیر میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق جو تفصیلات ملتی ہیں،اس کی رو سے یہ آیت قبیلہ  عرینۃ کے دغاباز،مرتد،ظالم افراد کے بارے میں اتری ہے۔تفسیر ابن کثیر میں بالتفصیل سے اس آیت کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ بخاری ومسلم میں ہے کہ قبیلہ عرینۃ(عکل) کے آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے،آپ نے ان سے فرمایا اگر تم چاہو تو ہمارے چرواہے کے ساتھ چلے جاؤ،اونٹوں کا دودھ وغیرہ تمھیں ملے گا،چنانچہ یہ گئے اور ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے ان چرواہوں کو مارڈالا اور اونٹ لے کر چلتے بنے۔انہوں نے چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی  پھیری تھیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو ان کے پیچھے دوڑایا کہ انہیں  پکڑ لائیں۔چنانچہ یہ گرفتار کئے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے۔پھر ان  کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے ہوئے تڑپ تڑپ کرمرگئے۔صحیح مسلم میں ہے یہ پانی مانگتے تھے مگر انہیں پانی نہ دیا گیا۔نہ ان کے زخم دھوئے گئے۔انہوں نے چوری بھی کی تھی ،قتل بھی کیا تھا،ایمان کے بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے لڑتے بھی تھے۔ موت کے وقت  پیاس کے مارے ان کی یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے تھے۔[1] تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ جو لشکر ان مرتدوں کو  گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا،ان کے سردار حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   تھے۔ان کی آنکھوں میں سلائیاں  پھیرنے کے متعلق صحیح مسلم میں یہ موجود ہے کہ"انہوں نے چرواہوں کے ساتھ بھی یہی کیاتھا،پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا،جوانہوں نے ان کے ساتھ کیاتھا وہی ان کے ساتھ کیا گیا ۔"مفسرین ابن کثیر لکھتے ہیں کہ بعض روایتوں میں ہے کہ قتل کے بعد انہیں جلادیاگیا۔
تاویلات کے خوگر بعض اہل الرائے نے مندرجہ بالا آیت کے متعلق بے حد  عجیب نکتہ آفرینی کی ہے۔ان کے خیال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو جو سزا دی وہ اللہ کو پسند نہ آئی،رئیس المفسرین علامہ ابن کثیر ایسے تاویل بازوں کی  تردید میں ارشاد فر ماتے ہیں:
"بعض بزرگوں کاقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے جو سزا دی وہ اللہ کو  پسند نہ آئی اور اس آیت(المائدہ:2/33) سے اسے منسوخ کردیا۔ان کے نزدیک  گویا اس  آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کوسزا سے روکا گیا ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مثلہ کرنے سے یعنی ہاتھ پاؤں،کان،ناک کاٹنے سے جو ممانعت فرمائی ہے۔اس سے یہ سزا منسوخ ہوگئی لیکن یہ دعویٰ نسخ دلیل کامحتاج ہے۔ پھر بھی یہ سوال طلب امر ہے کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ حدود اسلام مقرر ہونے سے پہلے کا یہ واقعہ ہے لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں بلکہ یہ واقعہ حدود کے تقرر کے بعد کا ہے ا س لیے کہ ایک حدیث کے ایک راوی حضرت جریر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ہیں اور ان کا اسلام سورہ مائدہ کے نازل ہوچکنے کے بعد کا ہے۔ بعض کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ارادہ سے باز رہے،لیکن یہ بھی درست نہیں اس لیے کہ بخاری ومسلم میں یہ الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھر وائیں۔ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر کسی کو یہ سزا نہ دی"
آج بھی بعض افراد اس طرح ک پھسپھسی اور بے وقعت تاویلات کوجمع کرکے اپنے دلائل کی عمارت کھڑی  کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔اسی لیے راقم الحروف نے علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  کی زبانی ا ن کاجواب درج کرنا مناسب سمجھا ہے۔ان شبہات کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
قصاص کے نفاذ کا طریقہ کار:۔
اس بارے میں فقہاء کے درمیان  پایا جانے والااختلاف حسب ذیل ہے:
مالکیہ کاموقف:۔
ابن قاسم امام ماک رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کرتے ہیں کہ اگر قاتل نے لاٹھی یا  پتھر سے یاآگ میں جلا کریا پانی میں ڈبو کرہلاک کیاتو قصاص میں قاتل  کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جائے گا اور اس پر موت تک وہی عمل دہرایا جاتا رہے گا،خواہ اس کے جرم کی مقدار سے بڑھ ہی کیوں نہ جائے،البتہ دو وجوہ اور دو حالتوں میں ایسا نہیں کیا جائے گا:
وجہ اول:اگر قاتل نے کسی ناجائز عمل مثلاً شراب پلا کر یالواطت کے ذریعہ قتل کیاتو مجرم کے ساتھ وہی نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے تلوار سے قتل کردیاجائےگا۔
وجہ دوم:اگر مجرم نے زہر پلا کر یا  آگ کے زریعہ ہلاک کیا تو قصاص میں اس طرح قتل نہیں کیاجائے گا بلکہ یہ مثلہ کی صورت ہے۔
اس وجہ دوم کے بارے میں ابن العربی کہتے ہیں: میرے نزدیک یہاں ممانعت کی علت مثلہ نہیں بلکہ یہ (آگ میں جلانا)عذاب الٰہی کی صورت ہے،اس لیے ممنوع ہے۔چنانچہ جب حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے بعض مرتدین کو آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا ہے توانہوں نے کہا:
"میں تو اسے درست نہیں سمجھتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:
"لا تُعَذّبُوا بِعَذَابِ الله"
یعنی تم اس طرح کسی کو عذاب نہ دو جس طرح اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو سزادیں گے"البتہ انہیں قتل کیا جاسکتاہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ جو شخص ا پنا دین چھوڑ کر دوسرا دین اختیار کرلے،اسے قتل کردو"
امام  مالک رحمۃ اللہ علیہ  نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قصاص کاطریقہ طے کرنا ولی مقتول کا حق ہے۔مالکی رحمۃ اللہ علیہ  علماء اس امر پر متفق ہیں کہ اگر ایک شخص نے کسی کاہاتھ اور پیر کاٹ دیا اور آنکھ نکال دی اور ایسا اسے  تکلیف دینے کی غرض سے کیاتو قصاص  میں   اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیاجائے گا جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کاچرواہوں(اہل عرینہ) سے قصاص میں ان کے جرم جیسا سلوک کرنے کا حکم دینا ضروری ہے۔ لیکن اگر اس شخص نے باہمی لڑائی اور مدافعت میں ایسا کیا تو پھر تلوار سے قصاص لیا جائے گا۔مالکی علماء کے اقوال میں سے صحیح یہ ہے کہ مجرم کے فعل اور اس کی سزا میں مماثلت ویکسانیت ضروری ہے۔الا یہ کہ حد تعزیب میں داخل ہوجائے تو پھر تلوار کے ذریعے قصاص لیا جائےگا۔ان کے تمام اقوال اسی اصول پر مبنی ہیں۔(ایضاً،صفحہ 313،تا315)
شافعیہ کا موقف:۔
یہ ہے کہ قاتل سے اس طرح قصاص لیا جائے جس  طرح اس نے دو سرے کوقتل کیا ہے بشرط یہ کہ وہ (انتقامی) عمل شریعت کے مطابق ہو۔اگر ا س عمل سے مجرم مرجائے تو فبہا،ورنہ تلوار سے اس کی گردن کاٹ دیجائے گی۔کیونکہ بدلہ کی بنیاد مماثلت ومساوات پر ہے اور اسی لیے اس کا نام قصاص میں رکھاگیا ہے۔چنانچہ اگرایک شخص نے کسی کو پتھر مارا اور وہ سنبھل نہ سکا حتیٰ کہ مر گیا تو قاتل کے ساتھ ایسا یکبار کیاجائے گا اور اگر قید میں رکھ کر کھانا پینا بند کرکے ماردیا تو مجرم کو بھی اتنے عرصہ تک قید میں بھوکاپیاسا رکھا جائے  گا لیکن اگر اسی عرصے میں اسے موت نہ آئی تو تلوار سے ہلاک کردیا جائے گا۔(ایضاً :ص 319،320)
اگر مجرم نے کسی فعل  غیر مشروع(ناجائز) کے ذریعہ قتل کاارتکاب کیا مثلا لواطت کی یاشراب  پلا کر مارا تو اس معاملہ میں مشائخ شافعیہ کا اختلاف ہے:
1۔بعض کہتے ہیں کہ لواطت کے ذریعہ قتل  کرنے والے مجرم کی مقعد میں ایک لکڑی ڈال کر اس طرح کیا جس طرح اس نے فعل شنیعہ کا ارتکاب کیا تھا اور شراب  پلا کر مارنے والے کو زیادہ مقدار میں پانی پلاکر اتنی مدت تک انتظا ر کیاجائے(جتنی مدت میں مقتول ہلاک ہواتھا) اگر اس دوران دشمن مرجائے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن کاٹ دی جائےکیونہ صورت مذکورہ میں اسی طرح جر م وسزا کے مابین مماثلت کاتحقق ممکن ہے۔
2۔لیکن شافعیہ کا ایک گروہ یہ رائے رکھتا ہے کہ مجرم کو تلوار سے قتل کیا جائے اور جیسا فعل اس نے مقتول کے ساتھ کیا تھا،ویسا ہی اس کے ساتھ نہیں کیاجائے گا کیونکہ وہ فعل شرعاً ممنوع ہے،برعکس اس کے پتھر سے اور تلوار سے قتل کرنا شرعاً جائز ہے۔جیسا کہ حد رجم میں  پتھروں سے سنگسار کیا جاتا ہے۔
شافعیہ نے اپنے موقف کی بنیاد حسب ذیل دلائل پر رکھی ہے:
1۔صحیح مسلم وبخاری میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کوزیور چھیننے کی خاطر پتھروں سے سر کچل کر ہلاک کردیا۔لڑکی نے اپنے آخری وقت میں اس قاتل یہودی کی نشاندہی کردی۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے  گرفتار کرکے پیش کرنے کاحکم دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قصاص میں مماثلت کااعتبار کرتے ہوئے دو  پتھروں کے درمیان سے اس کاسر کچلنے کا  حکم دیا۔(احکام القرآن از ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ :جلد اول،صفحہ114)
2۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ (النحل:146)
"اگر تم سزا دینا چاہوتو ایسی ہی سزا دو جیسی تمھیں دی گئی"
3۔جس طرح قاتل نے ارتکاب جرم کیا،اسی طرح بدلنے  اس طرح بدلہ لینے سے ہی قصاص کی مراد صادق ہوتی ہے جو کہ مماثلت سے عبارت ہے ۔لہذا  فعل اور کیفیت عمل دونوں کی یکسانیت کا اعتبار کرتے ہوئے اسی طرح قصاص لینا ضروری ہے جس طرح مجرم نے مقتول کو قتل کیا۔
حنفیہ کا موقف:۔
القصاص فی الفقہ الاسلامی کے مولف کے مطابق احناف کا موقف یہ ہے کہ مجرم نے مقتول کو خواہ کسی بھی طرح ہلا ک کیا ہو،اسے قصاص میں صرف تلوار سے قتل کیا جائے گا(صفحہ:308) فاضل مولف کی طرف سے درج کردہ احناف کے دلائل کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
1۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:لاقود الا بالسيف یعنی"قصاص صرف تلوار سے ہے" اس سے مرادیہ ہے کہ قصاص  تلوار سے نافذ کیاجائے، نہ یہ کہ تلوار سے ارتکاب قتل کی صورت میں قصاص  واجب ہے۔پس یہ حدیث دواُمور پر دلالت کرتی ہے:
1۔وجوب قصاص سے متعلق آیات قرآنیہ کی مراد کا تعین
2۔حدیث کی ابتدا عموم سے ہورہی ہے جس سے تلوار کے علاوہ اور کسی چیز سے استیفاء قصاص کی نفی ہوتی ہے ۔
2۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:"اللہ  تعالیٰ نےہر چیز سے احسان کرنافرض ٹھہرایاہے۔ پس جب تم کسی کو سزائے قتل دو تو اسے سلیقہ سے قتل کرو اور جب کوئی جانور ذبح کرو تو سلیقہ سے ذبح کرو اور چاہیے کہ ہر ذبح کرنے والا شخص اپنے خنجر کو تیز کرے اور اپنے ذبیحہ کوراحت پہنچائے"پس جبکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے سلیقہ کے ساتھ قتل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حلال کردہ جانوروں کو ذبح کرتے وقت  راحت پہنچانے کاحکم دیاہے تو انسان جو کہ نہایت شرف واحترام رکھتاہے ۔اس کے بارے میں  تمارا کیاخیال ہے۔(حوالہ ،ایضا)
3۔ ضروری ہے کہ قصاص بغیر کسی زیادتی کے لیاجائے اور تلوار کے بغیر دیگر طریقوں مثلاً آگ میں جلانے،غرق کرنے یا پتھر مار کر ہلاک کرنے یاقید  رکھنے وغیرہ سے قصاص لیا جائے تو ان صورتوں میں مجرموں کے ساتھ اس کے فعل جرم سے زیادہ فعل کرنا پڑے گا کیونکہ اگر وہ ایسی سزائے مثلی سے نہ مرسکا تو پھر اسے تلوار سے ہلاک کیاجائے گا یا وہی عمل دہرایا جائے گا تاآنکہ وہ مرجائے اور یہ بھی اس زیادتی(اعتداء) میں داخل ہے جس کا حکم آیت کے منافی ہے۔کیونکہ اگر قصاص ا س سے عبارت ہے کہ مجرم کے ساتھ اس جیسا فعل کیا جائے تو وہ ہوچکا۔اب اس کے بعد اسے قتل کرنا حد قصاص سے تجاوز کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
"وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ"
"یعنی جو شخص حدوداللہ سے تجاوز کرے وہ ا پنے آپ پر ظلم کرتاہے۔"(الطلاق) ا رشاد باری تعالیٰ ہے:
"فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ"(البقرہ:194)

"یعنی جو کوئی  تم پر زیادتی کرے تو جس  طرح کامعاملہ اس نے تمہاے ساتھ کیا ہے ویسا ہی سلوک تم بھی اس کے ساتھ کرو۔
نیز فرمایا:۔
" وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ "
یعنی"اگر  تم سزا دیناچاہوتو اسی قدر سزا دو جتنی تمھیں تکلیف پہنچائی گئی ہے۔"
یہاں اس امر کی ممانعت فرمائی ہے۔ کہ مجرم نے جتنا زخم لگایا اسے اس زیادہ زخم لگایا جائے یا جتنا فعل(جرم) اس نے کیا ہے،اس کےساتھ ا س سے زیادہ کیا جائے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مجرم کےساتھ صرف اتنا ہی فعل کیا جانا چاہیے جتنا اس نے  کیا ہے نہ کہ ا سے زیادہ۔
4۔قصاص عبارت ہے برابر کے بدلے سےاور پتھر مارکرہلاک کرنے کی کوئی مقدار متعین نہیں جس کی رو سے یہ قرار دیاجاسکے کہ مجرم کو پتھر مار کر ہلاک کرنے میں اس کے جرم کی مقدار سے تجاوز نہیں کیاگیا۔یہی حال تیریا نیزہ پھینک کر اور آگ میں جلا کر ہلاک کرنے کا ہے۔اس لیے یہ جائز نہیں کہ قصاص سےمراد ایسی مماثلت ہو بلکہ اس سے مراد لازماً یہ ہے کہ مجرم کی جان کا بسرعت ممکنہ خاتمہ کردیاجائے۔
5۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ن مثلہ(ہیت بگاڑنے) سے منع فرمایا ہے۔کیونکہ ایسا کرنا معصیت ہے اور قصاص سے مراد ہرممکن آسان طریقہ سے مجرم کی جان کا اتلاف ہے جو کہ تلوار ہی سے ممکن ہے۔
احناف کے موقف کا  تجزیہ:۔
کسی  بھی علمی بدیانتی کےالزام سے بچنے کے لیے احناف کے موقف کوتفصیل سے درج کردیا گیا ہے جن دلائل کی بنیاد پر احناف نے مسئلہ مذکور کے ضمن میں نتیجہ اخذ کیا ہے،ان سے کامل اتفاق نہیں کیا جاسکتا،بلکہ ان کی طرف سے جن بعض نکات کو عقلی دلائل کے طور پر آگے بڑھایا گیا ہے،اگرآج ان کاتجربہ کیاجائے تو کسی حد تک وہ غیر عقلی بلکہ مضحکہ خیز بھی ہیں۔ ممکن ہے جس وقت اور جن واقعات کی روشنی میں یہ دلائل پیش کئے گئے ہوں گے،اس وقت ان کی قدروقیمت مخصوص سیاق وسباق کے اعتبار سے مختلف ہو لیکن جاوید مغل کیس کے تناظر میں اگر کوئی شخص ان دلائل ونتائج کو بنیاد بنا کراس رائے کا اظہار کرے کہ سو بچوں کے قاتل کو دی جانے والی سزا غیر شرعی ہے تو یقیناً کہا جانا چاہیے کہ صاحب الرائے نے حالات کی رعایت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔احناف کے مندرجہ بالاموقف کے متعلق راقم الحروف کی معروضات حسب ذیل ہیں:
12۔جہاں تک اس حدیث کاتعلق ہے کہ قصاص صرف تلوار ہی سے ہے اس حدیث کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ہیں اور اسے سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت کیا ہے فن حدیث کے عظیم ماہر علامہ البانی نے اس حدیث کوضعیف قرار دیا ہے اور  اپنی کتاب ارواءالغلیل :ج2 ص 285 میں بڑی  تفصیل سے اس کے ضعف سند پر بحث کی ہے۔ علاوہ ازیں یہ حدیث بخاری ومسلم کی اس حدیث سے متعارض ومتصادم ہے۔جس میں واضح طور پر موجود ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبیلہ عرینہ کے افراد کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کا حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں۔اور ایک بچی کے قتل کی سزا کے طور پر یہودی کاسر پتھر سے کچلنے والی حدیث  بھی ظاہر کرتی ہے کہ قصاص پر تلوار کے علاوہ بھی عملدرآمد کی صورت ہوسکتی ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  ،خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور بعد کے ادوار سے بھی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں قصاص کی سزا  تلوار کے علاوہ بھی دی گئی۔
مفسر حافظ ابن کثیر نے سورہ مائدہ کی آیت 33 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:
"ایک مرتبہ حجاج بن یوسف نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے سوال کیا کہ سب سے بڑی اور سب سے سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی کو دی ہو،تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو دی جانے والی سزا کا واقعہ بیان کیا۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ    فرماتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ حجاج نے تو اس  روایت کواپنے مظالم کی دلیل بنالیا تب تو مجھے سخت ندامت ہوئی کہ میں نے اس سے یہ حدیث کیوں بیان کی"
غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   کو ندامت اس بات پر ہوئی کہ حجاج بن یوسف نے اس واقعہ کو ا پنے مظالم کی دلیل بنالیا۔اگر آج بھی حکمران بے گناہ رعایا پر ظلم ڈھانے کے لیے اس واقعہ کا سہارا لے گا تو اس کی مذمت اہل علم پر فرض ہے مگر فساد برپا کرنے والے اور سو بچوں کے قتل کے مرتکب ایک شقی القلب انسان کو اگر کوئی حکمران قبیلہ عرینہ کے افراد کی طرح سزا دے،تو کوئی بھی صاحب علم اس پا تاسف کااظہار نہیں کرے گا۔
بعض افراد کی طرف سے پیش کردہ یہ تاویل بھی کمزور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے چونکہ قبیلہ عرینہ کے ڈاکوؤں کو مذکورہ سزا دینے کے بعد دوبارہ کسی کو ویسی سزا نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اس سے منع فرمادیا۔یہ محض ان کی پیش یاافتادہ دلیل ہے حقیقت  یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ میں اس طرح کاواقعہ کبھی دوبارہ پیش نہ آیا،تو ایسی سزا دوبارہ دینے کی ضرورت  کیسے پیش آئی؟
2۔جہاں تک سزائے قتل کے نفاذ میں سلیقہ سے قتل کرنے کی ہدایت ہے ،اس کااطلاق بھی عمومی صورتوں میں ہوتا ہے۔بعض بےحد استثنائی اور قتل عمد کی انتہائی سنگین و ارداتوں میں جہاں قاتل کو سزادینے کے ساتھ ساتھ اسے نمونہ عبرت بھی بنانا مقصود ہو،وہاں اس کے برعکس عمل بھی قرآن وسنت کی رو سے متصادم نہیں ہے۔رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفاء راشدین سے مروی مذکورہ واقعات میں اس عمومی پالیسی کا لحاظ نہ رکھنا بھی ثابت وظاہر ہے۔صحیح مسلم اور نسائی کی یہ حدیث حلال جانوروں کو ذبح کرنے کے سیاق میں آئی ہے۔جہاں تک جانوروں کو سلیقہ سے ذبح کرنے کاتعلق ہے۔وہاں کوئی استثنائی صورت پیدا نہیں کی جاسکتی کیونکہ جانوروں نے کسی جرم کاارتکاب نہیں کیا ہوتا اور نہ ہی ان کے ذبیحہ سے کسی درس عبرت کی صورت نکالی جاسکتی ہے۔جیسا کہ صفحہ 8 پر حاشیہ میں وضاحت کی گئی ہے،اسلام شرف انسانیت اور تکریم آدم کاعلمبردار ہے۔مگر ایسے انسانوں کا کیا  کیجئے جو شعور کے حامل ہونے کے باوجود بھی بہائم اور حیوانات سے بھی اپنے آپ کو گرادیتے ہیں۔
3۔قصاص کے بارے میں فقہائے احناف نے لفظ اعتداء اور مماثلت کے متعلق جو نکتہ آفر ینیاں  فرمائی ہیں وہ بال کی کھال اُتارنے کے زمرے میں آتی ہیں۔قصاص میں وہ تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے قتل کرنے کی محض اس وجہ سے قائل نہیں ہیں کہ کہیں وہی عمل دہرانے سے زیادتی نہ ہوجائے۔ان کے خیال میں زیادتی حد قصاص سے  تجاوز کرنے کا نام ہے۔وہ قصاص کے نفاذ  میں ،کیفیت،اور کمیت،کی غیر ضروری بحثوں میں اُلجھ کرخوامخواہ الجھاؤ  پیدا کرتے ہیں۔برابر کا بدلہ کی جو تعبیر انہوں نے کی ہے اگر اس پر حرف بہ حرف عمل کیا جائے تو برابر کابدلہ لیا جانا امرمحال بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔ان کے ارشادات کی نفاستوں کو ہی پیش نظر رکھا جائے تو قتل عمد میں قصاص تو ایک طرف(وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ) (زخموں میں قصاص)  پرعملدرآمد بھی ممکن نہیں رہے گا۔کیونکہ اشتعال یا کسی فوری جذبے کے زیراثر کئے جانے والے اقدام سے وہ اقدام بہت اعتبارات سے مختلف ہوتا ہے۔جو باقاعدہ سوچ سمجھ کرمخصوص مقاصد کے پیش نظر روبہ عمل لایاجائے۔
زیادتی والی دلیل کی حمایت میں احناف کی طرف سے جن آیات کا حوالہ مندرجہ بالا سطور میں دیا گیا ہے ،وہ سیاق وسباق سے ہٹی ہوئی ہیں۔سورۃ الاطلاق کی آیت نمبر 1 کاجڑ:
"وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ"
 طلاق کے معاملات کے متعلق ہے یہاں عدت کے دوران عورتوں کے ساتھ زیادتی نہ کرنے کی ہدایت ہے مگر فقہاء کرام نے اپنی بات کا وزن بڑھانے کے جوش میں طلاق کے مضمون کی آیت کو قصاص کے مضمون پر منطبق کردیا۔ان کی جانب سے پیش کردہ سورہ بقرہ کی آیت 178:
" فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ "
یقیناً آیت  قصاص کا آخری جزو ہے۔لیکن اس کے سیاق وسباق پر غور کیاجائے تو اس کامفہوم وہ نہیں نکلتا جو یہ عظیم فقہاء پیش فرماتے ہیں۔ یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے،اس کا حقیقی مفہوم  تفاسیر اور کتب فقہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔مولاناابواعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس زیادتی کی وضاحت یوں کی ہے:
"مثلا یہ کہ مقتول کا وارث خون بہا وصول کرلینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے۔یا قاتل خون بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے،اس کابدلہ احسان فراموشی سے دے"(تفہیم القرآن ،جلد اول،صفحہ 139)
حافظا ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
"پھر فرمایا:جوشخص دیت یعنی جرمانہ لینے کے بعد یادیت قبول کرلینے کے بعد بھی زیادتی پر تل جائے،اس کےلیے دردناک عذاب ہے"
 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 194 میں جس برابری کاذکر کیا گیا ہے وہ حرمت والے مہینوں میں کفارہ کی طرف سے زیادتی کے ردعمل کے طور پر ہے جیسا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
"آیت کامنشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کالحاظ کفار کریں تو مسلمان بھی کریں۔اور اگر وہ اس حرمت کو نظرانداز کرکے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں"(تفہیم القرآن :جلد اول،صفحہ 152)
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 194 کامکمل ترجمہ یہ ہے:
"ماہ حرام کابدلہ ماہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ لہذا جوتم پر دست درازی کرے ،تم بھی اسی طرح اس پردست درازی کرو"
کوئی صاحب انصاف اگر ٹھنڈے دل سے آیت کے پس منظر پر غور فرمائے تو اس آیت کی بنیاد پر قصاص کے مجرم کے بارے میں اس نتیجہ پر پہنچنے میں اسے مشکل ضرور  پیش آئے گی کہ"ان آیات سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کہ مجرم کے ساتھ صرف اتنا ہی فعل کیا جانا چاہیے جتنا اس نے کیا ہے،نہ کہ اس سے زیادہ۔"جہاں تک سورۃ النحل کی آیت نمبر 126(وَإِنْ عَاقَبْتُمْ) کا  تعلق ہے۔اس کو شافعیہ اور حنفیہ نے اپنی اپنی دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے۔شافعیہ اس سے قصاص پرعملدرآمد پر زور دیتے ہیں جبکہ احناف کے بعض فقہاء اس کی بنیاد پر اپنے زیادتی والے خدشات کو مزیدتقویت دیتے ہیں۔اس آیت کی روشنی میں ان کا یہ استنباط تو درست ہے کہ یہاں اس امر کی ممانعت فرمائی ہے کہ مجرم نے جتنا زخم لگایا اسے اس سے زیادہ زخم نہ لگایاجائے"مگر جاویدمغل کے معاملے میں اس آیت کو آڑ بنا کر بھی قصاص سے  گریز کی صورت  پیدا نہیں کی جاسکتی کیونکہ جاویدمغل کا جرم اتناسنگین ہے کہ اس پر قصاص  کی سزا نافذ کرتے ہوئے کسی قسم کی زیادتی کا امکان ہی نہیں ہے ۔بلکہ اسے برابر کی سزا  دینابھی اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔اسے اتنی سزا دی ہی نہیں جاسکتی جتنی اس نے سو بچوں کو تکلیف  پہنچائی۔
4۔جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کو غیر شرعی قرار دینے والوں کے نزدیک غالباً سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مثلہ(ہیت بگاڑنے) سے منع فرمایا۔لیکن شریعت کو سمجھنے کا طریقہ علماء کے ہاں یہ رہاہے کہ وہ ایک موضوع پر تمام آیات واحادیث کو پیش نظر رکھ کر شرعی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہیں۔چنانچہ قرآنی آیت جس میں الٹی طرف سے ہاتھ پاؤن کاٹنے،مجرم کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے ،صحیح بخاری کی قبیلہ عرینہ کے بارے میں بیان کردہ حدیث اورصحیح مسلم میں یہودی کا سرکچلنے والی جیسی صریح احادیث وآیات کی موجودگی  میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کو سامنے رکھ شریعت کامنشا طے کیاجائے۔جس کی صورت یہی ہے کہ عمومی حالات میں شریعت مطہرہ نے مثلہ   کرنے یا مقتول کو اذیت دینے سے منع کیا ہے۔لیکن جوابی سزا کے طور پر،جرم کے استیفاء کی غرض سے اور جرائم کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے مخصوص حالات میں ان کی اجازت بھی دی ہے اور انہی میں سے ایک سنگین ترین صورت حال جاوید مغل جیسے وحشی قاتل کی بھی ہے۔جس کی وحشت وبربریت کی مثال معلوم تاریخ میں آج تک دستیاب نہیں ہوسکی۔
چنانچہ سورۃ المائدہ کی آیت ،قبیلہ عرینہ کے متعلق بخاری ومسلم کی صحیح احادیث اور یہودی قاتل کا پتھروں سے سر کچلنے والی حدیث سے مثلہ والی حدیث کاتطابق ضروری ہے نجانے احناف کے بعض فقہاء اس تطبیق کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کرتے۔محض اپنے موقف کی صداقت وقوت کو ثابت کرنے کے شدید داعیہ کےزیر اثر وہ ایک صحیح حدیث کو دوسری کے لیے ناسخ  قرار دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔جبکہ ننسخ کے ثبوت کے لیے علماء کے ہاں باقاعدہ اصول وقوانین ہیں،جن کے ذریعے نسخ کا پتہ چلایاجاتاہے۔شریعت کا معاملہ کوئی ایسا کھیل تو نہیں کہ جس چیز کو چاہیں منسوخ قرار دے دیا جائے۔مفتی محمد یوسف لدھیانوی لکھتے ہیں:
"اول یہ کہ کسی حکم شرعی کے بارے میں جو آ نحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہو،نسخ کادعویٰ کرنابہت ہی سنگین بات ہے۔اور اسکے لیے نقل صحیح کی ضرورت ہے ،محض قیاس وگمان سے نسخ کادعویٰ کرناجائز نہیں۔۔۔۔"
حافظ سیوطی الاتقان(24:2) میں لکھتے ہیں:
"ابن حصار کہتے ہیں کہ نسخ کے باب میں صرف نقل صریح کی طرف رجوع کیا جا تا ہے جو انحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے یاکسی صحابی سے منقول ہو کہ فلاں آیت نے فلاں حکم منسوخ کردیا ،اور نسخ کا حکم اس وقت بھی کیا جا سکتا ہے جب کہ دونصوں میں قطعی تعارض ہو(جس میں مطابقت دینا ممکن نہ ہو) اور ساتھ ہی تاریخ سے بھی متقدم اور متاخرکو معلوم کیا جا سکے۔۔۔کیونکہ نسخ کا مطلب ایک ایسے حکم کو اٹھانا ہے جو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد میں ثابت تھا اور اس کی جگہ پر دوسرے حکم رکھنا ہے اس بارے میں لائق اعتماد نقل صریح یا قطعی تاریخ ہی ہو سکتی ہے نہ کہ محض رائے اور اجتہاد (ماہنامہ بینات کراچی : شمارہ جون و جولائی 1981ء)
سورۃمائدہ کی آیت نمبر33 میں فسادیوں کے لیے ایک سزا سولی پر چڑھانا ہے اس کے متعلق ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں "پھر بزرگوں نے اس میں بھی اختلاف کیا ہے کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جا ئے کہ بھوکا پیاسا مر جائے؟یانیز ےوغیرہ سے قتل کر دیا جائے؟یا پہلے قتل کر دیا جائے پھر سولی پر لٹکایا جائے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو؟اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے دےکر پھر اتار لیا جائے یا یونہی چھوڑ دیا جا ئے۔"
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  کے ان جملوں سے ایک بات مترشح ہوتی ہے کہ بزرگ فقہا کا ایک گروہ فسادی قاتلوں کو قتل کرنے کے بعد سولی پر لٹکائے جانے کو جائز سمجھتا ہے تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہواور ایک گروہ یہ بھی رائے رکھتا ہے کہ سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جا ئے یعنی لاش گل سڑ کرخود ہی گرے۔اگر فقہا کا ایک گروہ فسادیوں کو عبرت کا نمونہ بنانے ان کی لاش کو سولی پر لٹکاکر یونہی چھوڑ دینے کو روا سمجھتا ہے تو پھر یہ تو بتلائیےاگر آج ایک ایڈیشل سیشن جج اللہ بخش رانجھا صاحب نے سو بچوں کے وحشی قاتل جاوید مغل کو دو سو مرتبہ پھانسی دینے کے بعد اس کی لاش کے سو ٹکڑے کر کے تیزاب کے ڈرم میں ڈالنے کی سزا سنائی ہے تو پھر اس پر طوفان کیوں کھڑا کیا جا رہا ہے اور اسے غیر شرعی کیسے فرار دیا جا سکتا ہے؟ جبکہ اس کا مقصد دیگر لوگوں کے لیے غیرت کا ساماں پیدا کرنا ہے اگرمثلہ سے کم کے معاملے میں بقول جصاص رحمۃ اللہ علیہ  فقہا میں اتفاق رائے ہے تو پھر سولی پر لٹکا کر چھوڑ دینے کا معاملہ کیا منافی ہے ؟مگر اس کی تو بعض فقہا حمایت کرتے ہیں مگر جاوید مغل جیسے قاتلوں کی سزا پر اعتراض وارد کرتے ہیں۔مصر کے قومی مرکز برائے تحقیقات و تعزیرات نےانسدادجرائم کے موضوع پر قاہرہ میں 2تا5جنوری 1961ءکو ایک سمپوزیم منعقد کروایا جس کا عنوان تھا "انتقام جرائم اور ان کا سد باب "۔۔۔اس سمپوزیم میں یہ کہا گیا کہ شخصی بدلہ سے مراد قتل کے بدلہ انتقام قتل ہے یہ مسئلہ تاریخ کے ان ادوار میں زیادہ ابھرا ہے جب کہ حکومت ضابطہ قصاص کو پورے طور پر نافذ کرنے سے قاصر رہی ۔اس سمپوزیم کی چند سفارشات میں سے ایک اہم سفارش یہ تھی۔
"عدالتی طریق کار قتل کے مقدمات میں جلد فیصلہ کی ضمانت دے اور شخصی بدلہ کی بناپر قتل کی سزا اس قدر عبرت انگیز ہو جس سے ورثاءمقتول کے انتقامی جذبات ٹھنڈے پڑجائیں تاکہ وہ خود قصاص لینے کی کوشش سے باز رہیں اور رائے عامہ بھی مطمئن ہوجائے"(قصاص فی الفقہ الاسلامی صفحہ 28)
مصری سیمینار کی اس سفارش کی روشنی میں جناب اللہ بخش رانجھا کے فیصلہ پر غور کیجئے؟کیا یہ اس سفارش پر عملدار آمد کی صورت نہیں ہے؟کیا سو بچوں کے مظلوم والدین کے کلیجے اس فیصلے سے ٹھنڈے نہیں ہوئے؟ کیا رائے عامہ اس سے مطمئن نہیں ہے؟ یقیناً ہے تو پھر یہ فیصلہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟حکومت اس کے خلاف اپیل میں کیوں جانا چاہتی ہے؟
یہاں ہم مسٹر کلا ئیو سے گفتگوکے دوران ہونے والی ایک بات کو بھی ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں مسٹر کلا ئیو نے بتایا کہ برطانیہ میں جب جاوید مغل کو دی جانے والی سزا کی خبراخبارات میں شائع ہوئی تو رائے عامہ کے ایک طبقہ نے کہا:
It is  a good idea, We should  treat peodophiles like this.
یعنی! یہ بڑا اچھا خیال ہے ہمیں بھی بچوں کے قاتلوں کو ایسی ہی سزا دینی چاہیے "
جب برطانیہ کے عوام کا ایک طبقہ اس سزا کو اچھا خیال کرتا ہے تو ہمارے ہاں انسانی حقوق کے ڈھنڈورچی اس کی مخالفت نہ جانے کیوں کرتے ہیں؟پاکستان کے انسانی حقوق کے علمبردارتو جاوید مغل کو برسرعام پھانسی کو انسانی حقوق کے منافی اور وحشیانہ طریقہ کہہ رہے ہیں۔ مگر جاوید مغل نے خود اپنی پھانسی کی سزا کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے (روزنامہ پاکستان یکم اکتوبر 2000ء)
مختصر جاوید مغل کو دی جانے والی سزا قصاص کے اسلامی قانون سے مطابقت رکھتی ہے مالکیہ اور شافعیہ نے کھل کر قصاص کی حمایت کی ہے البتہ حنفیہ نے جن دلائل کی بنیاد پر "تلوارہی میں قصاص ہے" جیسا موقف اپنایا ہے ان کے دلائل تعمیم کے درجہ میں ہیں۔ان کا اطلاق جاوید مغل جیسے ننگ انسانیت وحشی قاتلوں پر ہر گز نہیں ہو گا ہمیں امید ہے کہ جاوید مغل کودی جانے والی سزا پاکستان میں قصاص کے نفاذ کے اسلامی طریقہ کار فروغ دینے کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔


 

[1] ۔یہاں اس امر کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ کہ ایسی سزا اس شخصیت کے حکم اور نگرانی میں نافذ العمل ہوئی جسے دنیا رحمۃ اللعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مبارک لقب سے یاد کرتی ہے۔اس سے پتہ چلتاہے کہ امت کے ساتھ بے مثال  رحمت وشفقت ا پنی جگہ ،لیکن مجرم سے اگر اسی رحمت کا برتاؤ کیا جائے تو جرائم کی حوصلہ افزائی ہوکران کی بیخ کنی مشکل ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کی عدالت سے ان مجرموں کو ایسی اذیت ناک سزا ملی۔معلوم ہوا کہ مجرم کے انسانی حقوق کا  تحفظ یا شرف آدمیت کا احترام شریعت کی نظر میں اس وقت جاتا رہتا ہے۔جب مجرم اپنے اعمال شنیعہ کے ذریعے اشرف المخلوقات کی مرتبے سے اتر کر بد اعمالی کے قعر مذلت میں جاگرتا ہے۔قرآن کریم کی سورۃ التین میں یہی اصول اس طرح بیان ہواہے کہ"ہم نے توانسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا،لیکن اپنے بدتر اعمال کی بنا پر دو اسفل سافلین(بدترین گہرائی) میں جاگر تا ہے۔"
اسی طرح انسانی حقوق کے منادوں کا یہ دعویٰ مغالطہ آ میز ہے کہ مجرم کو  پبلک کے سامنے اس لیے سزا نہ دی جائے کیونکہ ا س سے انسانی حق  تکریم کی نفی ہوتی ہے۔اسلام میں انسان کی تکریم ،انسان سے کوئی مستقل بالذات شے نہیں جو کبھی اس سے جدا نہیں ہوتی بلکہ اسلام میں  تکریم کا یہ فلسفہ اعمال  تقویٰ سے جڑا ہواہے۔جو انسان نیک اعمال اور بھلائی کے کام کرتا ہے  وہ قابل تکریم ہے،قرآن کریم میں ہے:
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات:46)
"تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ نیکو کار ہے"
اور جو انسان برائی یا ظلم میں ملوث ہوجائے،اور بدترین گناہوں کا مرتکب بن جائے تو شریعت اسلامیہ کی نظر میں وہ انسانیت کے مرتبے سے گرجاتا ہے۔قرآن کریم میں ہے:
" وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ "
"جس کو اللہ رسوا کردے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا"
ان قرآنی آیات اور اسلامی  تصورات کی  روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کا انسانی حقوق کا نظریہ شرف آدمیت اسی افراط وتفریط کا شکار ہے۔ جس سے انسانوں  کے بنائے دیگر نظریات عموماً متاثر نظر آتے ہیں۔انسانی تکریم کا ہر دم باقی رہنے والا یہ فلسفہ اسلام کی نظر  میں ساقط الاعتبار ہے۔اسلام مجرم کو عزت دے کر جرائم کو چھوٹ دینے کاقطعا ً رواداد نہیں ہے۔بلکہ اس کی سزا کو باعث عبرت بنانے اور کھلم کھلا دینے کا سبق دیتا ہے۔سورۃ النور ،آیت 2  میں ہے:
" وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ "
"اور ان دونوں کو سزا دیتے ہوئے مسلمانوں کا ایک گروہ موجود رہے"(حسن مدنی)