تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے بعد...
دینی جماعتوں ،شمع رسالت کے پروانوں اور حکومت کے درمیان بڑھتا ہوا تصادم فوری طورپر ٹل گیا ہے 16/مئی 2000ءکو جنرل پرویز مشرف نے ترکمانستان کے دورہ سے واپسی پر قانون تو ہین رسالت (295۔سی)کے تحت FIRدرج کرانے کے پرانے طریقے کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔17/مئی کے تمام اردو اخبارات نے ماسوائے ایک کثیر الاشاعت روزنامے کے، اس اعلان کو شہ سرخی کی شکل میں شائع کیا۔جنرل پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ
"حکومت نے توہین رسالت ایکٹ میں کوئی ترمیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ علماء کرام ومشائخ عظام متفقہ طور پر چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر براہ راست ایس ایچ او کےپاس درج ہو۔ انھوں نے کہاکہ مجھے ان سب کا احترام ہے اور اس سے بڑھ کر عوام بھی یہی چاہتے ہیں کہ ایف آئی آر کے طریقہ کارمیں تبدیلی نہ ہو۔ میں نے فیصلہ کیا کہ تمام کا یہی فیصلہ ہے کہ اب بھی ایس ایچ اوکے پاس ہی براہ راست ایف آئی آر درج ہو سکے۔تو ہین رسالت کے تحت ایف آئی آر کے حوالے سے حکومت جو مجوزہ تبدیلی لانا چاہ رہی تھی ،اس پر علماء کی رائے حکومت کے لیے بہت راہنمائی کا سبب بنی۔انھوں نے کہا کہ توہین رسالت کا قانون پی پی سی۔ 295سی کا حصہ ہے ،نہ تو اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے، نہ ہی کوئی مسلمان اسے بدل سکتا ہے کوئی اسے تبدیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو معاملہ سامنے آیا ہےوہ ایف آئی آر کے اندراج میں ایک معمولی تبدیلی کا تھا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایسا معاملہ ڈپٹی کمشز کے نوٹس میں لایا جائے گا جواس پرFIRدرج کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔انھوں نے کہا کہ میں علماء کا بے حد احترام کرتا ہوں اور میں نے حکام کو علماء کے ساتھ رابطے کی ہدایت کی ہے"(روزنامہ"نوائے وقت")پاکستان کے چیف ایگزیکٹوجنرل پرویز مشرف کا یہ اعلان بے حد دانش مندانہ ہے انھوں نےعوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے قانون توہین رسالت کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی کے متعلق اپنے اعلان کو واپس لے لیا ہے۔یہ بات قابل تعریف ہے کہ انھوں نے ایک فوجی حکمران ہونے کے باوجود اسے اپنی اناکا مسئلہ نہیں بنایا ۔ان کے اس فیصلہ سے پاکستان ایک اچھے خاصے داخلی بحران اور انتشارسے بچ گیا ہے۔ملک کی تمام دینی جماعتوں مسلم لیگ اور دیگر رائے عامہ کے طبقات نے 19مئی کو مکمل ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھا اگر یہ اعلان نہ کیا کا جاتا ،تو یہ ہڑتال حکومت اور دینی جماعتوں کے درمیان خطرناک تصادم کی صورت بھی اختیار کر سکتی تھی جس ایک منظر 11مئی کو لاہور میں دیکھا جاچکا ہے۔ دینی جماعتوں کی قیادت مبارکبادکی مستحق ہے کہ اس کے بروقت احتجاج اور دینی حمیت کے اظہار کی وجہ سے حکومت کو صحیح فیصلہ کرنے میں راہنمائی میسر آئی اور بالآخرحکومت اور دینی طبقہ کے درمیان خوفناک محاذ آرائی کا سلسلہ وقتی طور پر رک گیاہے۔مگر انہیں حکومت کے فیصلہ واپس لینے کے اعلان کو" عظیم کامیابی"قرار دے کر مستقبل کے بارے میں غافل نہیں ہو جانا چاہیے ۔ان کاکام یہیں پر ختم نہیں ہو گیا ۔اگر وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقراررکھنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس کے لیے ایک جامع منصوبہ اور قابل عمل حکمت عملی وضع کرنی ہو گی،تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور لادین این جی اوزکے مکمل خاتمے اور استیصال کے لیے ایک طویل صبر آزما جدو جہد کرنی ہو گی۔ اب این جی اوز کا نیٹ ورک خاصا پھیل چکا ہے، یہ دوچار کی بات نہیں ہے سینکڑوں بلکہ ہزاروں تنظیموں کا معاملہ ہے جو شہرشہر بستی بستی اس مملکت خداد کی نظریاتی اساس کے خلاف کام کر رہی ہیں دین پسند اور محب وطن عناصرکے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے چند ایک نکات پیش خدمت ہیں جن پر غور وفکر کے بعد عملی اقدامات اٹھانے کی فوری ضرورت ہے،
1۔پاکستان کے دینی طبقہ اور دائیں بازو کے دانشورں کو جدید مغربی استعمار اور این جی اوز کے نیٹ ورک کو نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں دیکھنے کی سنجیدہ کاوش کرنی چاہیے ۔این جی اوزترقی اور انسانی حقوق کے پردے میں استعمار ی یورپ کی ثقافتی استعمار یت کو مسلمان ممالک میں فروغ دینا چاہتی ہیں۔ان کا بنیادی فلسفہ پاکستان جیسے نظریاتی معاشروں کو تہذیب مغرب کے رنگ میں رنگنا ہے۔ہماری اسلامی اقدار کو ختم کرنا ان کا اولین ہدف ہے۔جب تک ہم ان کے اصل عزائم کا ادراک نہیں کریں گے ان کے خلاف مؤثر تحریک برپا نہیں کی جا سکے گی۔
2۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جدید نسل کو NGOSکےخوفناک خفیہ عزائم کے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے ان کے مذموم مقاصد کو بے نقاب کیا جا ئے اور نو جوان نسل کو ان کے خلاف منظم کیا جائے ۔
3۔این جی اوز سیکولر،اشتراکی اور ملحد طبقہ کی آماجگاہ ہیں ۔ابھی حال میں بائیں بازو کی نو جماعتوں نے ایک سیمینار میں 295،سی کے خاتمہ کے لیے جدو جہد کرنے کا اعلان کیا۔ اشترا کی ملحدوں کی ان باقیات سیئات پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
4۔قادیانیوں کو این جی اوز کی صورت میں بہترین پلٹ فارمہاتھ آگیا ہے اس طرح وہ اپنی حقیقت کو بڑی کامیابی سے چھپائے ہوئے ہیں۔معروف ترین این جی اوز پر قادیانیاور غیر مسلموں کا قبضہ ہے۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن جو مؤثر ترین این جی اوز ہے یہ حقیقت میں"قادیانی حقوق کمیشن" کا کردار ادا کررہا ہے اس کے کرتا دھرتا افراد میں سے عاصمہ جہانگیر حنا جیلانی آئی اے رحمان قادیانی ہیں اس کے ارکان میں جو قادیانی نہیں بھی ہیں وہ قادیانیت نواز ضرور ہیں۔ہمارے علماء جو ابھی تک صرف مرزاغلام احمد قادیانی کی تصانیف کا جواب دینے میں مصروف ہیں انہیں چاہیےکہ این جی اوز کے لٹریچر کا گہری نگاہ سے مطالعہ کریں اور ان کے خلاف ایک علمی تحریک پیدا کریں ۔اس سلسلے میں کالجوں اور یونیورسٹی کے پروفیسرمؤثر کرداراداکر سکتے ہیں۔
5۔اسلام کے فلاح و بہبودکے نظام کو نئے سرے سے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ لادین این جی اوز ترقی کے نام پر معصوم مسلمانوں کو بیوقوف بنارہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے ترقی کے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جا ئے اسے بھی ثواب کاکام سمجھ کر سر انجام دینا چاہیے تاکہ اس میدان میں مغربی این جی اوز کا غلبہ ٹوٹ جائے،
6۔لاہور اور دیگربڑے شہروں میں اسلام دشمن اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث ایک ایک این جی اوز کے مفصل کوائف جمع کئےجائیں ۔ان کی ملک دشمن سر گرمیوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے بے نقاب کیا جائے۔نوجوانوں کے گروہوں کو ان کے تعاقب میں چھوڑا جائے۔تاکہ وہ ہر وقت ان کی نقل و حرکت اور مذموم سر گرمیوں پر نگاہ رکھیں ۔
7۔تمام دینی جاعتیں مشترکہ مطالعاتی مرکز قائم کریں جس میں این جی اوز کے متعلق اعدادشمار اور رپورٹیں مرتب کر کے پریس میں شائع کروائی اور حکومت کو پیش کی جائیں ۔
8۔جدید دور میں کوئی بھی تحریک جدید ذرائع ابلاغ ٹیلی ویژن،اخبارات ،ویڈیو کیسٹ، ریڈیو،لٹریچر،انٹرنیٹ وغیرہ کے بغیر مؤثر طریقے سے چلانا مشکل ہے۔جدید ذرائع ابکاغ کے حصول کے لیے بھاری سرمائے کی بھی ضرورت ہے اسلام سے محبت کرنے والے سرمایہ داروں اور مخیر حضرات کو جدید ذرائع ابلاغ کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے ہر ممکن کاوش کرنی چاہئے۔
9۔پاکستانی اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں کی اچھی خاصی تعداد اسلام پسندوں پر مبنی ہے مگروہ متحرک نہیں ہیں جتنا کہ لبرلاور لادین صحافی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام پسند صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے ۔یہی وہ طبقہ ہے کہ اگر بیدار ہو جائے تو اسلام دشمن این جی اوز کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی ساری چلت پھرت اخباری پذیرائی کی وجہ سے ہے۔اگر اخبارات اس یہود کی ایجنٹ بے حمیت عورت کی مکردہ تصویر عوام کو دکھادیں تو یہ پاکستان سے فرارہو جا ئے گی۔
10۔عورتوں کے حقوق کے نام پر مغرب زدہ بیگمات اپنی این جی اوز کے ذریعےعورتوں میں شعورکی آڑ میں فتورپھیلا رہی ہیں ۔جدیدتعلیم یافتہ اسلام پسند خواتین کو ان کے اصل عزائم سے آگاہ کیاجائے اور اسلامی تعلیمات پر مبنی خواتین کی تنظیمیں قائم کی جائیں ۔پہلے سے قائم ایسی تنظیموں کو متحرک کیا جائے۔
11۔اسلام دشمن این جی اوز کی فنی سر گرمیوں کو اخبارات میں شائع کرانے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ان کے متعلق آگاہ کیا جا ئے۔