وسیلہ کیا ہے؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں جائزہ وسیلے کو ن سے ہیں؟
وسیلہ کے بارے میں فقہاء احناف کا حقیقت پسندانہ موقف!



"ایک بہتی ہوئی بڑی نہر کے کنارے میں چھوٹا سا شگاف پڑجائے تو اسے فوراً ہی مٹھی بھر مٹی سے بند کردینا عین دانش مندی ہے۔اگر اس موقع پر سستی یالا اُبالی پن کامظاہرہ ہوجائے تو وہ شگاف چند گھنٹوں بعدبڑا اور گہرا ہوجائےگا اور نہر  کے کنارے کو تیزی سے بہالے جائےگا اور آن کی آن میں بستیاں غرقاب ہوجائیں گی"
اس مثال کی روشنی میں آپ بخوبی سمجھ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے کمال مہربانی سے نہ صرف یہ کہ امت مسلمہ کو مہلک اعمال سے روکابلکہ ان راستوں کو بھی بند کردیا جو ہلاکت گاہوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم   ہے:
ما تركت شيئاً يقربكم إلى الله إلا وأمرتكم به، وما تركت شيئاً يبعدكم عن الله ويقربكم إلى النار إلا وقد نهيتكم عنه(مشکوٰۃ)
"میں نے ایسی کوئی چیز نہیں چھوڑی جو تمھیں اللہ کے قریب کرتی ہو مگر میں تمہیں بتا چلا ہوں اور کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو تمھیں جہنم کے قریب کرتی ہواور اللہ سے دور کرتی ہو مگر تمھیں اس سے روک چلاہوں۔"
سید البشر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا کہ"(ثواب سمجھ کر اپنی طرف سے کوئی) نیا عمل دین اسلام میں داخل کرنا بدعت ہے اوربدعت ضلالت ہے اور ضلالت وگمراہی جہنم میں ہے"
زیر بحث مسئلہ وسیلہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   کے بعد جس نے سب سے زیادہ دور اندیشی سے کام لیاہے۔وہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اورحنفی بزرگان ہیں۔چنانچہ انہوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں اسی وسیلے کو اپنانے کاحکم دیا ہے جس کااللہ اور رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے حکم دیا اور نہر میں شگاف والی مثال کی طرح اس وسیلے سے روک دیا جو لاشعوری طور پر مسلمان کو کفر وشرک کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔
وسیلہ کا لغوی معنی:۔
لباب التاویل میں ہے:
الوسيلة فعلية، ومن وسل إليه إذا تقرب إليه"
"وسیلہ فعلیۃ کے وزن پر ہے وسئل الیہ سے ،جب کوئی قرب حاصل کرے"
قاموس اللغۃ میں ہے:
" وَوَسَّلَ إلى الله تعالى توسيلاً عَمِلَ عَمَلاً تَقَرَّبَ به إليه، كتَوَسَّلَ."
"اللہ کا قرب حاصل کرنے کےلیے کوئی عمل کیا"
اس سے معلوم ہوگیا کہ وسیلہ کے معنی قرب حاصل کرنا ہے۔
وسیلہ کا شرعی مفہوم:۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  قرآن حکیم کی تفسیر میں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ  (المائدہ:35)
"اے مومنو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی  راہ میں جہاد کرو" کے تحت فرماتے ہیں کہ:
"حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ وسیلہ کامعنی قرب ہے،یعنی وہ عمل کرنا جو اللہ کے قریب کردے۔اس کے بعد جمہور مفسرین قرآن مثلاً امام حسن بصری،امام قتادہ،ابووائل،عبداللہ بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ ہم جلیل القدر ائمہ  تفسیر کے حوالے  سے یہ بیان کیا ہے کہ ان سب کی تفسیر یہی ہے:
"تقربوا إليه بطاعته والعمل بما يرضيه "
"اللہ کا قرب حاصل کرو،اس کی اطاعت کرکے اور اس کو خوش کرنے والے عمل کرکے"(ابن کثیر :3/52،53)
مرغوب شے تک پہنچنے کے لئے کوئی نیک عمل کرنے کو وسیلہ کہتے ہیں۔جبکہ پنجابی زبان میں وسیلہ اس سے مختلف معنی میں استعمال کیا جاتاہے۔یعنی بزرگوں کے آستانوں پر جاکر ان سے حصول منفعت اور دفع ضر کی درخواست کرنا۔افسوس کا مقام ہے کہ بعض  پڑھے لکھے علماء بھی اس آیت سے  پنجابی زبان میں مستعمل وسیلہ کامفہوم مراد لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی وعدہ کیاہے کہ میں دعائیں قبول کرں گا:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (سورہ مومن:60)
"اور  تمہارے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارومیں قبول کروں  گا"
اور ان لوگوں کو عذاب کی دھمکی دی ہے جو اس کو پکارنے سے روگردانی کرتے ہیں۔چنانچہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   نے دعا کی ترغیب کے ساتھ ساتھ وہ اعمال ووسائل بھی بتائے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتاہے۔اور دعائیں یقینی طور پر قبول ہوتی ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم وہی وسیلے اپنائیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   نے بتائے ہیں اور من گھڑت وسیلوں سے بچیں کیونکہ وہ بدعت سئیہ ہیں اور اللہ  اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سے روکا ہے۔
جائز اور مستحب وسیلے:۔
اللہ  تعالیٰ کے اسماء اورصفات کا وسیلہ ارشاد ربانی ہے:
وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (سورۃ الاعراف؛180)
"اور اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں تم ان کے وسیلے سے اللہ کوپکارا کرو۔"
چنانچہ مسلمان کو چاہیے کہ دعا کے جلد قبولیت کے لئے  اللہ کے اسماء حسنیٰ کے ذریعے دعا کرےمثلاً:
اللهم إنى أسألك بأنك أنت الرحمن الرحيم، اللطيف الخبير أن تعافينى. 
"اے اللہ میں  تجھ سے اس ذریعہ سوال کرتا ہوں کہ تورحمٰن اور رحیم اور لطیف وخبیر ہے کہ مجھے سلامتی نصیب فرما"(التوسل وانواعہ ازالبانی رحمۃ اللہ علیہ  ص28)
یا یوں کہے:
اللهم إنى أسألك برحمتك التى وسعت كل شىء أن ترحمنى وتغفر لى.
"اے اللہ ! میں  تیری رحمت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں جو ہر چیز سے و سیع  ہے کہ تو مجھ پر رحم فرما  اور مجھے بخش دے"(ایضاً)
حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ایک آدمی کو سناکہ وہ نماز میں اس  طرح دعا کر تا رہاتھا:
اللهم إنيىأسألك يا الله الواحد الأحد الصمد، الذى لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفواً أحد أن تغفر لى ذنوبى، إنك أنت الغفور الرحيم (ابوداود ،نسائی،احمد)
"اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اے اکیلے اور یکتا اور بے نیاز اللہ جو نہ جنا گیا اور نہ اس نے کسی کو جنا نہ کوئی اس کا شریک ہے کہ تو میرے گناہ بخش دے تو بخشنے والا مہربان ہے"
ایک آدمی کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان الفاظ میں دعا مانگتے سنا:
اللهم إنى أسألك بأن لك الحمد لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك، المنان يا بديع السماوات والأرض، يا ذا الجلال والإكرام يا حي يا قيوم، إني أسألك الجنة، وأعوذ بك من النار(ابو داود ،نسائی،احمد  باسنادصحیح)
"اے اللہ! میں تجھ سے اس وسیلے سے دعا مانگتا ہوں کہ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے۔تیرا کوئی شریک نہیں۔اسے شفقت ومحبت کرنے والے،اے احسان کرنے والے،اے زمین وآسمان پیدا کرنےوالے،اے جلالت،اور بزرگی والے،اے ہمیشہ زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والے! میں تجھ سے سے جنت کاسوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں"
حضرت سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم   نے صحابہ سے پوچھاکہ اس نے کس وسیلہ سے دعا کی ہے۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین   نے کہا اللہ ورسولہ اعلم!۔۔۔تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے قسم اٹھا کر فرمایا کہ اس  نے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے۔جس کے ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتا ہے۔
اسی طرح وہ انصاری جسے پیشہ ورقاتل ڈاکو نے جنگل میں گھیر لیا اور وہ ہر صورت میں اسے قتل کرکے اس کا مال اور خچر لینا چاہتا تھا تو انصاری نےاس طرح دعا کی:
يا ودود ! يا ذا العرش المجيد ! يا فعَّال لما يريد ! أسألك بعزك الذي لا يرام ، وملكك الذى لا يضام ، وبنورك الذى ملأ أركان عرشك ، أن تكفيني شرَّ هذا اللص ، يا مغيث أغثنى(الاصابى ص82،بحوالہ حیاة الصابه)
"اے محبت کرنے والے،بزرگ عرش والے،اے جوچاہے سو کرنے والے!میں تیری ہمیشہ رہنے والی عزت اور بادشاہی کے وسیلے سے اور تیرے عرش کے ارکان کو بھرنے والے نور کے وسیلے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس چور(ڈاکو) سے بچا،اے فریاد  رس! میری مدد فرما"
تو اس نے دیکھا کہ سفید کپڑوں میں ملبوس کوئی گھوڑسوارآیا،اس نے ڈاکو کو سینے میں نیز ہ مارکر ہلاک کردیا۔
الغرض بزرگان دین کی دعاؤں کی قبولیت کارازیہ تھا کہ وہ  حلال کمانے کے ساتھ ساتھ اسماء حسنیٰ کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے۔اگر  آپ ایسی بے شمار دعائیں دیکھنا چاہیں تو الورد المصفى المختار من كلام الله تعالى وكلام سيد الابرار اور کتاب الاذکار از امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  دیکھیں لیکن ایک دعا جسے میں درج کئے بغیر نہیں رہ سکتا وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:
"جب کسی آدمی کو غم داندوہ لاحق ہوتو وہ یہ دعاپڑھے:
"اللَّهُمَّ إِنِّى عَبْدُكَ، ابْنُ عَبْدِكَ، ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِى بِيَدِكَ، مَاضٍ فِى حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِى كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِى، وَنُورَ صَدْرِى، وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّى"
ترجمہ:َاےمیرے اللہ !میں تیر ابندہ،تیرے بندے کا بیٹا،تیری بندی کا بیٹا،میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے،تیرا حکم مجھ پر جاری وساری ہے،میرے متعلق تیرا فیصلہ عدل وانصاف پر مبنی ہے۔میں تجھ سے  تیرے سب اسماءحسنیٰ(کے وسیلے) سے سوال کرتا ہوں جو تو نے اپنی ذات کے لئے رکھے۔یا کسی کتاب میں نازل کئے،یا کسی مخلوق کو سکھائے یا اپنے پاس ہی رکھنے پسند کئے،تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور سینے کا نور بنادے اور اسے میرے غم اندوہ کا مداوا بنادے۔"
۔۔۔تو اللہ! اس آدمی کے غم واندوہ دور کرکے خوشی ومسرت وفرحت اور سرور نصیب کرے گا"(مسند احمد،ابن  حبان،بسند صحیح)
ان آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ اپنے اسماء حسنیٰ اور صفات جمیلہ کے وسیلے کو پسند کرتا ہے،اسی لئے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں نیک اعمال کا وسیلہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔
نیک اعمال کا وسیلہ:۔
اس طرح کا وسیلہ بھی جائز اور مشروع ہے کہ بندہ یوں کہے:
"اے اللہ! میں اس وجہ یا وسیلے سے کہ تجھ پر ایمان رکھتا ہوں یا تیرے پیغمبر حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم   سے محبت رکھتا ہوں اور اس کا تابعدار ہوں تو میرے گناہ معاف کردے یا مجھے معاف کردے یا میری حاجت پوری کردے یا میری مشکل حل کردے۔"
اس قسم کے وسیلے کو اللہ نے پسند فرمایا ہے۔قرآن میں ہے کہ میرے بندے یوں کہتے ہیں:
رَبّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْت وَاتَّبَعْنَا الرَّسُول فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ" 
"اے ہمارے رب ہم تیری نازل کردہ کتاب پر ایمان لائے اور تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   کی تابعداری کی۔(اس وسیلے سے) ہمیں بھی(اپنی وحدانیت کے) گواہوں میں لکھ لے"
اس جیسی دیگر آیات"قرآنی دعائیں" نامی کتاب میں دیکھیں جن میں ایمان کو وسیلہ بنایاگیا ہے کیونکہ ایمان بھی نیک عمل ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی جا رہے تھے کہ انہیں شدید بارش نے آلیا تو انہوں نے پہاڑ کی ایک غار میں پناہ لی۔ اتنے میں پہاڑ پر سے ایک پتھر غار کے منہ پر آ گرا اور غار کا منہ بند ہو گیا۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اپنے اپنے نیک اعمال کا خیال کرو جو اللہ تعالیٰ کے لئے کئے ہوں اور ان اعمال کے وسیلہ سے دعا مانگو شاید اللہ تعالیٰ اس پتھر کو تمہارے لئے ہٹا دے۔ چنانچہ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے ماں باپ بوڑھے ضعیف تھے اور میری بیوی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں ان کے واسطے بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا۔ پھر جب میں شام کے قریب چرا کر لاتا تھا تو ان کا دودھ دوہتا تھا، اور اول اپنے ماں باپ سے شروع کرتا تھا یعنی ان کو اپنے بچوں سے پہلے پلاتا تھا۔ ایک دن مجھے درخت نے دور ڈالا (یعنی چارہ بہت دور ملا)، پس میں گھر نہ آیا یہاں تک کہ مجھے شام ہو گئی تو میں نے اپنے ماں باپ کو سوتا ہوا پایا۔ پھر میں نے پہلے کی طرح دودھ دوہا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوا۔ مجھے برا لگا کہ میں ان کو نیند سے جگاؤں اور برا لگا کہ ان سے پہلے بچوں کو پلاؤں۔ اور بچے بھوک کے مارے میرے دونوں پیروں کے پاس شور کر رہے تھے۔ سو اسی طرح برابر میرا اور ان کا حال صبح تک رہا (یعنی میں ان کے انتظار میں دودھ لئے رات بھر کھڑا رہا اور لڑکے روتے چلاتے رہے نہ میں نے پیا نہ لڑکوں کو پلایا) پس الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضامندی کے واسطے کیا تھا تو اس پتھر سے ایک راستہ کھول دے جس میں سے ہم آسمان کو دیکھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو تھوڑا سا کھول دیا اور انہوں نے اس میں سے آسمان کو دیکھا۔ دوسرے نے کہا کہ الٰہی! ماجرا یہ ہے کہ میرے چچا کی ایک بیٹی تھی جس سے میں محبت کرتا تھا جیسے مرد عورت سے کرتے ہیں (یعنی میں اس کا کمال درجے عاشق تھا)، سو اس کی طرف مائل ہو کر میں نے اس کی ذات کو چاہا (یعنی حرامکاری کا ارادہ کیا)۔ اس نے نہ مانا اور کہا کہ جب تک سو اشرفیاں نہ دے گا میں راضی نہ ہوں گی۔ میں نے کوشش کی اور سو اشرفیاں کما کر اس کے پاس لایا۔ جب میں جنسی عمل کرنے کے لئے بیٹھا (یعنی جماع کے ارادہ سے) تو اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور مہر کو ناجائز طریقہ سے مت توڑ (یعنی بغیر نکاح کے بکارت مت زائل کر)۔ سو میں اس کے اوپر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ الٰہی! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضامندی کے لئے کیا تھا تو اس غار کو تھوڑا سا اور کھول دے۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑا سا اور کھول دیا (یعنی وہ راستہ بڑا ہو گیا)۔ تیسرے نے کہا کہ الٰہی میں نے ایک شخص سے ایک فرق (وہ برتن جس میں سولہ رطل اناج آتا ہے) چاول پر مزدوری لی، جب وہ اپنا کام کر چکا تو اس نے کہا کہ میرا حق دے میں نے فرق بھر چاول اس کے سامنے رکھے تو اس نے نہ لئے۔ میں ان چاولوں کو بوتا رہا (اس میں برکت ہوئی)، یہاں تک کہ میں نے اس مال سے گائے بیل اور ان کے چرانے والے غلام اکٹھے کئے۔ پھر وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ سے ڈر اور میرا حق مت مار۔ میں نے کہا کہ جا اور گائے بیل اور ان کے چرانے والے سب تو لے لے۔ وہ بولا کہ اللہ (جبار) سے ڈر اور مجھ سے مذاق مت کر۔ میں نے کہا کہ میں مذاق نہیں کرتا، وہ گائے بیل اور چرانے والوں کو تو لے لے۔ اس نے ان کو لے لیا۔ سو اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضامندی کے لئے کیا تھا تو جتنا باقی ہے وہ بھی کھول دے۔ پس حق تعالیٰ نے غار کا باقی ماندہ منہ بھی کھول دیا (اور وہ لوگ اس غار سے باہر نکلے۔(بخاری۔مسلم)
اس صحیح روایت سے معلوم ہوگیا کہ نیک اعمال کا وسیلہ بھی جائز ہے اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم   نے اسے پسند کیا ہے۔
وسیلہ کی تیسری قسم:۔
نیک آدمی سے دعا کرانا اور اس کی صورت یہ ہوگی کہ زندہ اور موجود آدمی سے دعا کرائی جائے۔یہ صورت بھی جائز اور مشروع ہے۔
1۔ایک دفعہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عمرہ ادا کرنے کےلئے رخصت ہونے لگے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:
لَا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ (ابو داود ،ترمذی)
"اے میرے بھائی مجھے اپنی دعاء میں نہ بھلانا"
ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   کی خدمت میں ایک وفدآیا اور خشک سالی کی شکایت کی اور بعد میں دعا کرنا  د ر خواست کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:"اے اللہ!انہیں بارش عطا فرما۔۔۔"
رئیس وفد کہنے لگا:"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے ہاتھ بھی اٹھائیے کیونکہ یہ بہترین اور اعلیٰ طریقہ ہے ۔آپ مسکرائے اور ہاتھ اٹھا کر دعا دی۔چنانچہ انہیں واپس جا کر خبر ملی ٹھیک اس و قت یہاں بارش ہوگئی تھی"(زاد المعاد)
بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی نے درخواست کی کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم   مویشی ہلاک ہوگئے راستے خشک ہوگئے۔اللہ سے دعاکیجئے کہ وہ ہمیں بارش عطا فرمائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہاتھ اٹھائے اور ان الفاظ سے دعاکی:
"اللَّهُمَّ أَغِثْنَا اللَّهُمَّ أَغِثْنَا اللَّهُمَّ أَغِثْنَا " 
"اے اللہ ہمیں بارش عطا فرما(تین مرتبہ یوں فرمایا)"
حضرت انس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہی کہ اللہ کی قسم ہم آسمان پر بادل کاٹکڑا بھی نہ دیکھتے تھے کہ اچانک کوہ سلیم کے پیچھے سے چھتری کی طرح بادل نمودار ہوا۔آن ہی آن میں ہم پر بلند ہوا اور پھیل گیا اور بارش شروع ہوگئی اور اتنی بارش ہوئی کہ ہفتہ بھر سورج نظر نہ آیا۔اگلے جمعہ   پھر اعرابی کھڑا ہوا اور کہنے لگا ۔
"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم   مال ہلاک ہوگئے راستے بند ہوگئے،اللہ سے دعا کریں کہ بارش بند کردے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہاتھ اٹھا کر دعاکی:
"اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالْجِبَالِ وَالْآجَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ" 
"اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش برسا اور ہم پر بارش نہ کر۔اے اللہ!زمین کی تہوں پر پہاڑوں کے درمیان،وادیوں،درخت اگانے والی جگہوں پر برسا،چنانچہ فوراً بادل چھٹ گیا اور ہم دھوپ میں چل کرواپس آئے"(صحیح بخاری:ص 138)
4۔حضرت انس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ   روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں جب بھی قحط(خشک سالی) پڑتا۔آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عباس بن عبدالمطلب سے دعا کرواتے اور حضرت   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو منبر پر ساتھ لے جاتے اور کہتے:
"اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا "(بخاری،ص39)
"اے اللہ! ہم بارش طلب کرنے کے لئے  تیرے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کے ذریعے تیری طرف وسیلہ  پکڑتے تھے تو تو ہمیں بارش عطا کرتا تھا اور اب بھی تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے چچا کے ذریعے تیری طرف وسیلہ پکڑتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فرما"
یہ وسیلہ پکڑنے کی صورت کیا تھی،اس کاجواب حدیث فتح  الباری جلد2 ص399 میں ہے:
كَانُوا إِذَا قَحَطُوا عَلَى عَهْد النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِسْتَسْقَوْا بِهِ , فَيَسْتَسْقِي لَهُمْ فَيُسْقَوْنَ فَلَمَّا كَانَ فِي إِمَارَة عُمَر "(الحدیث)
"وہ یہ لوگ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کی زندگی میں بوقت خشک سالی اور قحط،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے د عا کراتے،پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم   ان کےلیے دعا کر تے تو ان پر بارش ہوجاتی ۔جب حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دور میں قحط آتا(ہوتا) تو آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے دعا کراتے۔چنانچہ حضرت عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان الفاظ میں دعا کرتے:
اللَّهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَّا بِذَنْبٍ ، وَلَا يُكْشَفُ إِلَّا بِتَوْبَةٍ ، وَقَدْ تَوَجَّهَ بِي الْقَوْمُ إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهَذِهِ أَيْدِينَا بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا بِالتَّوْبَةِ ، فاسقنا الغيث
"اے اللہ! کوئی آفت نازل نہیں ہوتی مگر گناہوں کی وجہ سے اور نہیں دور ہوتی مگر توبہ کے ساتھ۔یہ لوگ مجھے تیرے سامنے(توبہ واستغفار کےلیے) لائے ہیں۔کیونکہ میں تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا قرابت دار ہوں۔یہ ہمارے گناہگار ہاتھ تیرے طرف بلند ہیں اور ہماری پیشانیاں تیری طرف اٹھی ہوئی ہیں۔اے اللہ!ہمیں بارش عطا فرما"۔۔۔چنانچہ پہاڑوں کی طرف بادل اٹھے،زمین پر بارش کی وجہ سے ہریالی ہوئی اور لوگ خوش ہوگئے"
5۔اسی طرح خلیفۃ المسلمین اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   کے برادر نسبتی ،کاتب وحی الٰہی حضرت  معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بھی حضرت یزید بن اسود جرشی مستجاب الدعوات تابعی سے دعا کرواتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے توفوراً بارش ہوجاتی(ابن عساکر جلد8/51/11 از سلیم بن عامر خبائری)
ان حوالہ جا ت سے درج ذیل مسائل معلوم ہوئے:
اگر فوت شدہ پیغمبروں اور بزرگوں کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمرفاروق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کبھی حضرت عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی دعا کو وسیلہ نہ بناتے۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   زندگی  اور زندگی کے بعد بھی حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تو کجا سب  پیغمبروں اور ولیوں سے افضل ہیں اور خدا کے مقرب رسول ہیں۔اس لئے کسی شخص کے وصال کے بعد اس کا وسیلہ جائز نہیں۔اس لئے تو تمام صحابہ اور انصار ومہاجرین اصحاب بیت رضوان آپ کے روضہء اطہر کو چھوڑ کر حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے دعا کرانے جاتے تھے۔اگرکسی برگزیدہ ہستی ذات کا وسیلہ جائز ہوتاتو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   اپنے گھروں،دکانوں،کھیتوں میں یا جہاں کہیں بھی ہوتے ،وہیں کہتے:"اے اللہ! ہمیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   یا حضرت عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یا حضرت یزید بن اسود کے وسیلے سے بارش عطا کر!"
لیکن سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے ہرگز ایسا نہ کیا بلکہ پاس جا کر ان سے دعاکرائی ہے جیسا کہ آپ  پڑھ چکے ہیں۔
کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام   اور خصوصاً اولوالعزم پیغمبروں اورحضرت ایوب علیہ السلام  ،حضرت یوسف علیہ السلام  ۔حضرت یعقوب علیہ السلام  ۔وغیرہم کوخطرناک بیماریوں اور مصیبتوں نے گھیرا ہے۔انہوں نے کبھی اپنے سے  پہلےگزرنے والے پیغمبروں کا وسیلہ نہیں پکڑا۔اگریہ جائز ہوتاتو کم از کم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی اُمت کی تعلیم کی خاطر کبھی تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام   یا حضرت اسماعیل علیہ السلام   یا دیگر انبیاء علیہ السلام   کی قبروں پر جاکر وسیلہ پکڑتے۔لیکن معلوم ہے کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔قرآن مجید اور ساری صحیح احادیث پڑھ لیں۔بھلا کسی پیغمبر نے سوائے اسماء الٰہی اور اعمال صالح یا زندہ آدمی سے دعا کرانے کے کوئی وسیلہ پکڑا ہے؟
وسیلہ کے متعلق امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  اورحنفی بزرگان دین کا موقف:۔
وسیلہ بالذات کے متعلق حضرت امام ابوحنیفہ اور حنفی بزرگان دین کا موقف بڑی دور اندیشی اور حکمت  پر مبنی ہے۔گردوپیش میں روز افزوں آستانوں کی کثرت اور وہاں ہونے والے شرک اکبر کی ابتداء غالباً اسی چھوٹے سے شگاف سے ہوئی۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  تبعید الشیطان میں فرماتے ہیں کہ:
"عام آدمی پہلے تو بزرگان دین کے وسیلے سے اللہ سے فریاد کرتا ہے۔پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان سے فریاد کرتا ہے کہ میرے لئے اللہ  سے دعا کرو۔پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سمجھ کر کہ اللہ نے خزانے اس کے سپرد کررکھے ہیں،وہ ان سے فریادیں کرکے ان کے نام نذرانے دےکر اسی شرک میں مبتلا ہوجاتاہے جس میں ابو جہل اور دیگر مشرکین مکہ  گرفتار تھے"
1۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ،اور امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ  شیبانی فرماتے ہیں:
(وبحق فلان) أي يكره أن يقول في دعائه بحق فلان، وكذا بحق أنبيائك، وأوليائك أو بحق رسلك أو بحق البيت أو المشعر الحرام؛ لأنه لا حق للخلق على الله تعالى، وإنما يخص برحمته من يشاء من غير وجوب عليه". (شرح فقہ اکبر:ص61)
"کسی آدمی کا اس طرح مانگنا مکروہ ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے  فلاں کے وسیلے یا نبیوں اور ر سولوں کے وسیلے سے اور بیت اللہ یا مشعر الحرام کے وسیلے سے د عا کرتا ہوں کیونکہ مخلوق کا  خالق  پر کوئی حق ہیں"(حق کی تشریح آگے آرہی ہے)
2۔فقہ حنفی کی اہم ترین کتاب الھدایہ ہے اور حنفی علماء کرام نے اس کتاب کے متعلق کہاہے:"الھدایۃ کالقرآن"کہ ہدایہ قرآن کی طرح ہے یعنی جس طرح قرآن نے پہلی آسمانی کتابیں منسوخ کردیں،اسی طرح ہدایہ نے فقہ کی پہلی کتابیں منسوخ کردیں۔صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
(ويكره أن يدعو الله إلا به ) فلا يقول أسألك بفلان أو بملائكتك أو بأنبيائك , ونحو ذلك لأنه لا حق للمخلوق على الخالق" .(ہدایه اخیرین:473)
"اورکسی آدمی کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ فلاں کے وسیلے سے یا نبیوں اور رسولوں کے وسیلے سے یہ سوال کرتا ہوں کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی حق نہیں"
3۔فقہ حنفی کی مبسوط کتاب"البحر الرائق شرح کنز الدقائق" میں امام ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں:
لا يجوز ان يقول بحق فلان، وكذا بحق أنبيائك، وأوليائك أو بحق رسلك أو بحق البيت أو المشعر الحرام؛ لأنه لا حق للخلق على الله تعالى، وإنما يخص برحمته من يشاء من غير وجوب عليه".
 (البحرالرائق ،جلد8،ص20)
"اس طرح کہناجائز نہیں کہ میں فلاں کے وسیلے سے،اس طرح تیرے رسول اور تیرے ولیوں اور رسولوں ،بیت اللہ اور مشعر الحرام کے وسیلے سے دعا کر تا ہوں کیونکہ مخلوق کا خالق پر کوئی احسان حق نہیں۔وہ اپنی  رحمت سے جس کو چاہے(دلایت یا رسالت) کے لئے خاص کردے"
4۔فتاویٰ عالمگیری میں جسے  پانچ صد 500 حنفی علماء کرام کے بورڈ نے مرتب کیا  تھا،لکھا ہے:
"ويكره أن يقول الرجل في دعائه بحق فلان أو بحق أنبياؤك ورسلك".....الخ(ص 38)
"اس طرح دعا مانگنا مکروہ ہے کہ میں فلاں کے وسیلے اور اسی طرح تیرے نبیوں اور تیرے ولیوں یا رسولوں کے وسیلے سے مانگتا ہوں"
5۔الدر المختار(ج2/630) حنفی فقہ کی چوٹی کی کتاب میں ہے:
قال أبو حنيفة رحمه الله: «لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به والدعاء المأذون فيه المأمور به ما استفيد من قوله تعالى: {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا } (الأعراف: 180)
"اور حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ کو اس کے(اسماء وصفات کے سوا) کسی کی ذات کو پکڑ کر پکارے،جس چیز کا اذن ہے اور اس کا حکم ہے ،وہ اللہ کے اس قول سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے:اللہ کے اچھے اچھے نام ہیں تم ان کے وسیلے سے اللہ کو پکارو"(مزید تحقیق کے لئے امام زبیدی کی شرح احیاء العلوم :ج2 /258 اور امام ابو الحسین قدوری حنفی کی شرح کرخی دیکھیں)
6۔فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب(در مختار) میں حنفی بزرگوں کاارشاد ملاحظہ  فرمائیں:۔
واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام(ص 131)
"جان لو کہ عوام کی وہ نذریں اور نیازیں جو فوت شدگان بزرگوں کے نام پر دیتے ہیں اور ودرہم اورشمع اور تیل اور اسی طرح کے دیگر نذرانے جو وہ اولیاء کرام کے آستانوں پر دیتے ہیں وہ بالاتفاق باطل اورحرام ہیں"
اس عبارت کی شرح میں علامہ ابن عابدین حنفی فرماتے ہیں کہ ان کے باطل اورحرام ہونے کیوجہ یہ ہے کہ:
1۔وہ نذرانے مخلوق کی نذرین ہیں اور مخلوق کے نام پر نذر جائز نہیں کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے،مخلوق کے لئے نہیں۔
2۔جس کو نزروی ،وہ فوت شدہ ہے جو مالک نہیں ہوتا۔
3۔نذردینے والوں نے یہ سمجھ کر دی ہے کہ یہ بزرگ نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں اور یہ اعتقاد کفر ہے"(در المختار:131)